تمنا‘ ثنائی‘جامی خوش تھے‘ انہیں معقول رقم مل گئی تھی‘ انہوں نے کڑا وقت نہیں جھیلا تھا‘ وہ خود دھوپ میں جل رہی تھی اور انہیں چھائوں دے رہی تھی۔ اپنے بارے میں وہ نہیں سوچ سکتی تھی اور اگر سوچ بھی لیتی تو اس شخص کے متعلق تو بالکل نہیں سوچ سکتی تھی۔
وہ سوکر اٹھی تھی‘ معمول کے مطابق دن کا آغاز کیا تھا اس شخص کے سامنے دانستہ نہیں گئی‘ وہ پر یقین تھی کہ ریان حق کے دل و دماغ میں کچھ نہ تھا‘ بے تکلفی سے بات کرنا اس کی عادت تھی‘ وہ اس ماحول میں پلا بڑھا تھا۔ وہ دوستانہ انداز رکھتا تھا‘ جو تھا وہ اس کی طرف سے تھا۔ وہ خود تھی جو غلط سوچ رہی تھی اور وہ ایسا سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ اسے صرف وہ اس لیے انوکھی لگی تھی کیونکہ وہ اس طرح کی لڑکیوں سے واقف نہیں تھا۔ اسے مشرقی لڑکیوں سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ شاید اس لیے وہ اس کے اثر میں تھا اور وہ اسے انوکھی لگ رہی تھی‘ شاید تبھی وہ اس سے مل کر حیران تھا اور الجھا ہوا تھا۔
سہ پہر میں جب وہ دادی اماں کو کتاب پڑھ کر سنا رہی تھی تبھی گھر میں غیر معمولی شور کا احساس ہوا تھا۔
’’اُف! لگتا ہے وہ جرمن بلی آگئی۔‘‘ دادی نے کہا تھا‘ اسے جاننے میں دیر نہیں لگی تھی کہ دادی کس کی بات کررہی تھیں۔
’’تم نے چیزوں کی ترتیب تو نہیں بدلی؟ اسے اس بات سے سخت چڑ ہے‘ ریان کی زندگی میں یا اس کے گھر میں کوئی مداخلت کرے تو پھر اس کی خیر نہیں‘ تم سے پہلے تین ہائوس کیپر برخاست کرچکی ہے وہ۔‘‘ دادی نے بتایا تھا۔
اف! اس نے کئی تبدیلیاں کی تھی سو کیا اب اس جاب کو گنوانے کے لیے تیار رہنا چاہیے تھا؟ شاید وہ وکٹوریہ پر برس رہی تھی‘ وکٹوریہ بھاگی بھاگی اندر آئی تھی۔
’’مس میر! آپ باہر آئیں‘ میڈم آپ کو بلا رہی ہیں۔‘‘
اوہ! اس کے لیے بلاوا آگیاتھا‘ تو کیا اب اس کی خیر نہیں تھی؟ ایلیاہ میر ڈرتے ڈرتے اٹھی تھی اور ٹینا کے سامنے چلتی ہوئی آن کھڑی ہوئی تھی۔
’’یہ سب تم نے بدلا؟ وہ سامنے دیوار کی پینٹنگ‘ اس لیونگ روم کے کرٹین؟ میرے کمرے میں اشیاء کی ترتیب؟‘‘ ٹینا نے اسے گھوراتھا۔ اس نے ابھی اثبات میں سر نہیں ہلایا تھا جب ریان حق اس کے مقابل آن رکا تھا‘ اس سے پہلے کہ ٹینا اس پر غصہ نکالتی یا اسے جاب سے برخاست کرتی۔ وہ بول پڑا تھا۔
’’ٹینا! اسے ایسا میں نے کہا‘ مجھے لگا تمہیں یہ تبدیلی اچھی لگے گی‘ جو بھی ہوا میری مرضی سے ہوا ۔‘‘ وہ اسے سپورٹ کررہا تھا یا اسے صرف اس کے غصے سے بچا رہا تھا؟ ایلیاہ میر نے اس کی سمت دیکھا تھا‘ تبھی وہ اس کی سمت دیکھتا ہوا بولا تھا۔
’’ایلیاہ! تم جائو یہاں سے۔‘‘ اس کے حکم پر وہ وہاں سے ہٹ گئی تھی۔ دروازے کے قریب جاکر اس نے جانے کیوں پلٹ کر دیکھا تھا۔ وہ دونوں قریب تھے‘ اس کے اندر جانے کیوں دور تک خاموشی پھیلنے لگی تھی۔
ٹینا کے آجانے سے جانے کیوں اس کے اندر کے موسم خاموشیوں میں گھر گئے تھے‘ ایسا کیوں تھا؟ کیوں وہ ریان حق کو ٹینا کے ساتھ نہیں دیکھ سکتی تھی‘ کیوں یہ اتنا عجیب سا لگ رہا تھا؟ کیوں وہ بے چین ہورہی ہے؟ یہ اضطراب رگ و پے میں دور تک پھیل رہا تھا؟ وہ عجیب مشکلوں میں گھر گئی تھی‘ یہاں رکنے سے پہلے کچھ اور مسائل میں گھری تھی اور یہاں آکر کچھ عجیب نوعیت کی مشکلات اس سے بھی دوگنا بڑھ گئی تھیں‘ ان مشکلات سے وہ مشکلات زیادہ بہتر تھیں‘ تب سکون تو تھا‘ چین تو تھا۔
اس نے کچن کے دروازے میں رک کر گہری سانس خارج کی تھی۔ جب اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا‘ اس نے پلٹ کر دیکھا‘ اس کا لائٹ آف کرتا ہاتھ وہیں رک گیا‘ وہ اس کے قریب آرکا۔
’’آج کل کچھ کم دکھائی دے رہی ہو‘ ٹینا سے بہت ڈر لگتا ہے؟‘‘ اس کا مکمل جائزہ لیتا ہوا وہ بغور دیکھ رہا تھا‘ اس نے سر نفی میں ہلادیا تھا۔
’’میں یہاں جاب کے لیے ہوں‘ جاب کے دوران غلطی ہوجائے تو ڈانٹ پڑسکتی ہے‘ ٹینا اس گھر کی مالکن ہیں‘ باقی لوگوں کی طرح مجھے بھی ان کی مرضی کا احترام کرنا چاہیے۔‘‘ وہ مخصوص پروفیشنل انداز میں بولی تھی۔ ریان حق نے خاموشی سے اس کی سمت دیکھاپھر اور قریب آگیا اور دیوار پر ایک ہاتھ رکھ کر اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے وہاں سے نکل جانے کی ہر راہ مسدود کردی تھی۔
’’لگتا ہے تم بعید جاننے لگی ہو…‘‘ اس کیا آنکھوں میں جھانکتے ہوئے مدہم لہجے میں بولا۔
’’لگتا ہے تمہیں خبر ہونے لگی ہے‘ یہ جو آنکھوں میں رتجگوں کا شمار ہے یہ یوں ہی نہیں ہے یا پھر اس کا بھی کوئی بعید ہے؟‘‘ بہت مدہم سرگوشی تھی
ایلیاہ کی ساری جان ایک پل میں مٹھی میں سمٹی تھی۔ ساری خود اعتمادی ایک پل میں اڑنچھو ہوئی تھی‘ کوئی کہہ سکتا تھا یہ وہی ایلیاہ میر تھی جو دیدہ دلیری کی حد کرتے ہوئے ایک بندے کو پنچ مار سکتی تھی یا نڈر ہوکر کسی کی بھی گاڑی کے ٹائروں کی ہوا نکال سکتی تھی‘ اس لمحے وہ کیسی چاروں شانے چت کھڑی تھی‘ کیا شکست خوردہ سا انداز تھا‘ جیسے وہ کوئی مزاحمت کر ہی نہیں سکتی ہو‘ ریان حق نے اس کے چہرے کو بہت آہستگی سے چھوا تھا۔
’’محبت یہی ہے‘ ایسی ہی ہوتی ہے یا پھر یہ سارے بھیدوں سے واقفیت پانے کا احساس ہے اور یہ نگاہ اس لیے جھکی ہے کہ اگر ملی تو سارے راز افشا ہوجائیں گے۔ شکست خوردہ انداز ‘ یہ ڈری سہمی نظر‘ یہ سانسوں میں تلاطم‘ اس کے اسباب ڈھونڈنے میں کتنی دیر لگتی ہے ایلیاہ میر؟‘‘ ایلیاہ میر اس کی سمت دیکھنے سے مکمل گریز کرتے ہوئے اس کی گرفت سے نکلنے کی سعی کرنے لگی تھی مگر وہ اس آہنی دیوار کو نہیں ہٹا پائی تھی‘ اس کوشش میں سر اس کے سینے سے جاٹکرایا تھا‘ اس کی مخصوص خوشبو اس کے نتھنوں میں گھسنے لگی تھی‘ اس کی گرم گرم سانسیں اس کے چہرے سے ٹکرارہی تھیں‘ اس کے حواس خطا ہونے لگے تھے۔
’’گہرے سمندروں سے محبت ہے تو پھر سمندروں میں طغیانی کیوں لاتی ہے یہ محبت؟ کچھ سوچنے سمجھنے کیوں نہیں دیتی؟کناروں پر رکو تو سفر پر مائل کیوں ہے؟ اور رک جائو تو بے چینیوں کو سوا کیوں کرتی ہے؟ پوچھو اس محبت سے‘ بات کرو یا کہو اس محبت سے بے بس نہ کرے۔‘‘ وہ جنونی انداز میں اس کے کانوں میں سحر پھونک رہا تھا۔
کیا تھا‘ کیوں تھا؟ جیسے دل کسی نے مٹھی میں کیوں لے لیا تھا؟ وہ آنکھیں میچ گئی تھی یا پھر اس میں سکت ہی نہیں تھی کہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھ سکتی‘ سامنا کرسکتی۔
’’ایلیاہ میر… الجھنوں میں تیرتے رہنے سے سرا ہاتھ نہیں آتا‘ سرا ہاتھ میں لینے کے لیے دھڑکنوں کو سننا‘ آنکھوں کو پڑھنا‘ فاصلوں کو سمیٹنا ضروری ہوتا ہے اورفاصلوںکو سمیٹنے کے لیے خالی ہاتھ نہیں چلا جاتا‘ ہاتھ تھامناضروری ہوتا ہے۔‘‘ اس نے ایلیاہ میر کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لیا اور ایلیاہ میر اس گھڑی جیسے طوفان کی زد پر تھی‘ سارا وجود کانپ رہا تھا‘ جیسے سمندر میں طغیانی آجائے تو نائو ڈول جاتی ہے۔
’’سمندروں میں بے سمت سفر نہیں کیا جاتا ایلیاہ میر! سمندروں کے سفر سے سمتوں کا تعین کرنے کے لیے دل سے پوچھا جاتاہے۔ صرف دل کی سنو اور جانو کہ کیا کہتا ہے اور نظر کے لیے اور محبت کے لیے کیا ضروری ہے‘ جانتی ہو؟‘‘ مدہم سرگوشی اس کے کان کے قریب ہوئی تھی۔
’’محبت کے لیے محبت ضروری ہوتی ہے ایلیاہ میر! محبت کو جیتنے کے لیے صرف محبت سے جیتا جاتا ہے‘ اگر ذرا سی بھی حقیقت ہے تو میری نظروں میں جھانکو اور دیدہ دل وا کرو‘ اسی بہادری سے جیسے پہلے دن میرے آفس میں گھسی تھیں۔ اگر کچھ حقیقت ہے تو خرد کو ایک طرف رکھ دو‘ دل کو فیصلہ کرنے دو کہ کبھی کبھی عقل کو تنہا چھوڑ دینا بھی ضروری ہوتا ہے‘‘ وہ مدہم سرگوشی میں اس کی سماعتوں میں کوئی جادو پھونک رہا تھا‘ اسے لگا تھا کہ اس کے گرد محبتوں نے حصار کھینچ دیا ہو اور وہ بالکل بے بس ہوگئی ہو‘ وہ شخص جنونی ہورہا تھا‘ کیا تھا یہ؟ کیا حقیقت تھی؟ ٹینا جو اس کے حوالے سے اس گھر میں تھی؟ یا پھر اس کا یہ پل‘ جب وہ اس کے قریب تھا‘ کیا تھا سچ؟
ایلیاہ میر نے سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں لمحہ بھر کو دیکھا تھا پھر بہت سہولت سے اسے پرے دھکیلا تھا اور وہاں سے نکل گئی‘ وہ نہیں جانتی تھی سچ کیا تھا‘ مگر اسے اپنا سارا وجود شل لگ رہا تھا‘ جیسے وہ کسی محاذ سے لوٹی تھی مگر وہ فاتح نہیں لوٹی تھی۔ کچھ تھا جو وہیں رہ گیا تھا‘ اسے اپنا آپ بہت ادھورا لگا تھا‘ کیسا احساس تھایہ؟ کیوں تھا؟وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔
’’کیا ہوا؟ تم اتنی کھوئی کھوئی کیوں ہو؟‘‘ دادی اماں نے پوچھا۔ اس نے سر نفی میں ہلادیا تھا۔
’’ٹینا نے کچھ کہہ دیا؟ تم اس کی باتوں کا برا مت ماننا‘ دل کی بری نہیں ہے‘ ویسے یہ جرمن لوگ کچھ Weird ہوتے ہیں‘ ان کی سمجھ زیادہ نہیں آتی بڑے ان پری ڈکٹیبل قسم کے ہوتے ہیں مگر ایک بار سمجھ آجائے تو پھرنبھا آسان ہوجاتا ہے‘ دیکھو ریان کے کتنے قریب ہے وہ۔‘‘ وہ کہہ رہی تھیں۔
’’آپ کو بہت پسند ہے وہ؟‘‘ وہ جانے کیا جاننا چاہتی تھی۔
’’میری پسند نا پسند کی بات نہیں‘ میں کچھ دیسی ہوں‘ جس مٹی میں پیدا ہوئی اس مٹی کی خوشبو بھاتی ہے۔ تم اچھی لگتی ہو تبھی تو ساتھ بٹھا کر گھنٹوں باتیں کرتے رہنا چاہتی ہوں‘ ریان کے دادا‘ میں اور ریان کے ڈیڈی جب یہاں انگلینڈ میں آئے تھے تو ریان کے ڈیڈی بہت چھوٹے سے تھے‘ ریان یہیں پیدا ہوا‘ ریان کا باپ بھی یہیں پلا بڑھا‘ ان لوگوں نے اس زمین کو اپنا لیا‘ مگر ہمارے لیے اب بھی اپنی مٹی اور زمین کی قدر ہے‘ برسوں گزر گئے اس دیس کوچھوڑے مگر آج تم سے ملی تو اپنی مٹی کی مخصوص خوشبو آئی‘ اگر میرا بس چلے تو ریان کے لیے کوئی اپنے ہی دیس کی لڑکی ڈھونڈ کر دلہن بناکر لائوں مگر ریان کو مشرقی لڑکیاں زیادہ بھاتی نہیں‘ دو چار رشتے داروں سے کہہ کر رشتے دکھائے ہیں مگر ریان ٹس سے مس نہیں ہوا۔ اب تک تین گرل فرینڈز بدل چکا ہے اور ان میں کوئی ایک بھی دیسی نہیں‘ ایک آئرش تھی‘ دوسری انگلش اور تیسری یہ ٹینا جو جرمن ہے۔ مجھے لگتا ہے ان لڑکیوں میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے‘ ماڈرن سوچ کی نہیں ہوتیں۔ عجیب چھوٹی موٹی ٹائپ ہوتی ہیں‘ انہیں قدم سے قدم ملا کر چلنا نہیں آتا۔ آج تک کسی مشرقی لڑکی کے قریب سے نہیں گزرا ‘ کہتا ہے انہیں دیکھتے ہی Touch me Not کی آواز آتی ہے‘ اب تو میں بھی کسی مغربی بہو کے لیے مائنڈ سیٹ کرلیا ہے‘ اگر ریان کی ماں زندہ ہوتی تو شاید وہ اس کی سنتا‘ مگر اب ایسا مشکل دکھائی دیتا ہے ۔‘‘ دادی اماں نے افسوس سے کہا تھا۔
’’ریان کے ممی ڈیڈی کی ڈیتھ کیسے ہوئی تھی؟‘‘ اس نے پوچھا تھا۔
’’ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں‘دونوں ایک ساتھ چلے گئے۔ ریان کو اس کا بہت گہراصدمہ ہوا ‘ تبھی چپ سا ہوگیا‘ کئی برسوں تک تو نہ ہنستا تھا نہ بات کرتا تھا پھر آہستہ آہستہ زندگی معمول پر آہی جاتی ہے سو ریان کو بھی سچائی ماننا پڑی ۔ گئے ہوئوں کو واپس نہیں لایا جاسکتا‘ مگر وہ ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔‘‘
’’ریان حق محبت کرتے ہوں گے ٹینا سے؟‘‘ اس نے دل میں آیا سوال پوچھا تھا‘ دادی مسکرادیں۔
’’بیٹا! پچھلے دو سال سے وہ گھر میں ہے‘ محبت ہوگی تو ساتھ ہے نا۔ ہم ٹھہرے پرانے وقتوں کے لوگ‘ ہمارے لیے محبت دو لوگوں کا اور خاندانوں کا قانونی اور مذہبی طور پر جڑنا ہوتا تھا۔ محبت اس رشتے کے بعد شروع ہوتی تھی‘ آج کل یہی رسمیں نہیں نبھائی جاتیں‘ ان مغربی ملکوں میں تو بالکل بھی نہیں‘ ان کے لیے تو محبت بھی فاسٹ فورڈ ہے یا کوئی Smothy یا ڈرنک ادھر غٹا غٹ اندر اور نشہ ہرن۔‘‘ دادی بدگمان دکھائی دی تھیں۔
’’اس کے لیے آپ ریان حق کو قصو وار نہیں ٹھہرا سکتیں‘ وہ ایسا بن سکا کیونکہ وہ اس ماحول میں پیدا ہوا اور پروان چڑھا‘ اگر وہ کسی مشرقی ماحول میں پرورش پاتا تو شاید وہ ایسا ہی ہوتا۔‘ ایلیاہ میر نے اس کی حمایت کی تھی۔ وہ انگلش لوگوں کی طرح دوستانہ مزاج رکھتا تھا‘ اچھا حس مزاح رکھتا تھا‘ سو جہاں بہت سی چیزیں وہ نہیں سیکھ پایا تھا وہیں کچھ اچھی چیزیں تو اس نے‘ اس ماحول سے آڈاپٹ کرہی لی تھیں‘ اس کی اس اچھائی کو تو اس نے بھی مانا تھا‘ جس طرح وہ برے دور سے گزر رہی تھی اگر وہ اس کی مدد نہ کرتا تو آج شاید وہ اس سے بھی بدترین صورت حال سے دوچار ہوتی‘ وہ اتنا برا نہیں وہ سر جھکا کر سوچنے لگی تھی۔ اگر اسے مشرقی لڑکیوں سے لگائو نہیں تھا تو اس سے …کیا جاننے کے لیے اس نے دادی اماں سے اتنی بات چیت کی تھی اور کھلا کیا تھا؟ اس کا دل بہت سکوت سے بھر گیا تھا۔
ؤ…ز …ؤ
’’تمہارا پاسپورٹ کہاں ہے؟‘‘ وہ لیونگ روم میں تھی جب ٹینا نے اسے آلیا تھا۔ وہ چونک کر اس کی سمت دیکھنے لگی تھی‘ ٹینا کو اس کی خاموشی سے الجھن ہوئی تھی تبھی دوبار پوچھنے لگی تھی۔
’’میں نے تم سے پوچھا تمہارا پاسپورٹ کہاں ہے؟‘‘
’’وہ میرے پاس نہیں ہے۔‘‘ وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی۔
’’اوہ! تم غیر قانونی یہاں ہو؟‘‘ وہ سخت لہجے میں بولی تھی۔
’’نہیں‘ میں نے اپنے ویزا کو Extend کرنے کے لیے اپلائی کیا ہے سو پاسپورٹ یو کے بارڈر ایجنسی میں جمع ہے۔‘‘ وہ صاف گوئی سے بولی۔
’’اوہ! تب تمہارا کام کرنا بھی قانوناً نہیں‘ تمہیں یہ رعایت اس لیے ملی ہوئی ہے کیونکہ ریان کے گرینڈز کی کنٹری سے ہو۔‘‘ وہ اپنے مخصوص جرمن لہجے میں انگلش بول رہی تھی۔ اسے یہ چھان بین بہت بُری لگی تھی‘اس کا فطری غصہ عود کر آیا تھا۔
’’ایکسکیوزمی‘ میں تمہاری ملازم نہیں ہوں‘ سو تمہیں مجھ سے پوچھ گچھ کا حق بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ کٹے ہوئے لہجے میں بولی تو ٹینا اس کے پراعتماد ‘ انداز اور ایٹی ٹیوڈ پر حیران رہ گئی تھی
’’آئندہ مجھ سے ایسے سوالات مت کرنا۔‘‘ وہ کہہ کر وہاں سے نکل گئی تھی‘ کچھ فاصلے پر کھڑے ریان حق نے اسے بغور دیکھا تھا اور ٹینا کے قریب آگیا تھا۔
’’تمہیں ایلیاہ میر سے ایسے بات نہیں کرنا چاہیے‘ اسے میں نے یہاں جاب دی ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ اس سے سوالات کرنے کا حق بھی صرف تمہیں حاصل ہے؟‘‘ ٹینا نے اسے کڑے تیوروں سے دیکھا تھا‘ ریان حق سنجیدگی سے دیکھنے لگا تھا پھر شانے اچکادیئے تھے۔
’’جیسا تم سمجھو۔‘‘ ٹینا اس کے انداز پر چڑ گئی تھی۔
’’کیا؟‘‘ اس نے سرد لہجے میں پوچھا۔
’’مجھے یہ لڑکی بالکل مناسب نہیں لگتی‘ کچھ عجیب ہے۔ اس کے اندر خوامخواہ کی اکڑ ہے‘ تیسری دنیا کی ایک چھوٹی سی کنٹری سے ہے اور بات ایسے کرتی ہے جیسے کہیں کی پرنسس ہو۔‘‘ وہ تپے لہجے میں کہہ رہی تھی‘ ریان کو یہ الفاظ اچھے نہیں لگے تھے۔
’’ٹینا انسان کی عزت کرنا سیکھو‘ ایک انسان کی عزت بڑی یا چھوٹی‘ ترقی یافتہ‘ ترقی پذیر کنٹری کے باعث نہیں ہوتی‘ بہ حیثیت انسان ہوتی ہے‘ وہ بہت پڑھی لکھی اور قابل لڑکی ہے‘ وہ اتنی چھوٹی جاب کرنے پرمجبور ہے کیونکہ اس کا ویزا Expired ہوگیاہے‘ وہ کسی سے بدتر ہے نہ کم تر۔‘‘ وہ اسے بھرپور ڈی فنڈ کررہا تھا‘ ٹینا نے اسے چپ چاپ دیکھا اور پھر وہاں سے چلی گئی تھی۔
ؤ…ز …ؤ
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...