وہ ابھی تک وہیں بیڈ کے کنارے بیٹھی اپنی قسمت پر ماتم کرنے میں مصروف تھی جب دروازے پر دستک ہوئی۔ نمرہ نے اس بار سر اٹھانے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔ بلکہ اسے غصہ آنے لگا تھا اب بار بار علیزے کے آنے پر۔ وہ بغیر کوئی اثر لیے جوں کی توں بیٹھی رہی جب دروازہ کھلا اور کسی کے بھاری قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ نمرہ نے سر اٹھایا تو سامنے ایک اونچا لمبا مرد کھڑا تھا۔ سر پر کیپ پہن رکھی تھی جبکہ چہرہ رومال سے ڈھکا گیا تھا۔ وہ ہڑبڑا کر اپنی جگہ سے اٹھی۔ شاید اب بھی اسے علیزے کے آنے کی ہی توقع تھی لیکن سامنے کھڑا مرد۔۔۔ ۔ اٹھتے ہی اسے اپنے حلیے کا احساس ہوا۔ وہ بغیر دوپٹے کے کھڑی تھی۔ مقابل نے بڑی گہری نگاہوں سے اس کے سراپے کو دیکھا تھا۔
“کھانا وہاں رکھ دیں۔” وہ شخص کسی سے مخاطب ہوا تھا۔ اس کے عقب سے علیزے ٹرے لیے اندر داخل ہوئی۔ اس شخص کا دھیان علیزے کی جانب دیکھ کر نمرہ نے موقع غنیمت جانا اور تیزی سے دوسری جانب بڑھتی بیڈ کے قریب نیچے پڑا دوپٹہ اٹھاتے ہوئے اسے اپنے وجود کے گرد پھیلایا۔ اس نووارد نے بغور نمرہ کی یہ حرکت ملاحظہ کی تھی لیکن چہرہ ڈھکا ہونے کے باعث نمرہ اس کے چہرے کے تاثرات نہیں دیکھ پائی۔
“ٹھیک ہے۔ آپ جائیں۔” اس شخص نے پھر سے علیزے کو مخاطب کیا تھا۔ نمرہ کا خون خشک ہوا۔ علیزے کو جاتے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بے تحاشہ خوف آن سمٹا تھا۔ مزید ستم یہ کہ علیزے نے جاتے ہوئے دروازہ بھی بند کر دیا تھا۔ وہ متوحش سی بند دروازے کو دیکھے گئ۔
“کھانا کیوں نہیں کھایا تم نے؟؟” وہ شخص اب نمرہ کی جانب متوجہ ہوا۔ نمرہ کے حلق میں گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی۔ وہ اس وقت اس انجان جگہ بند کمرے میں ایک اجنبی کے ساتھ اکیلی تھی۔ خدانخواستہ اگر اس کے ساتھ کچھ غلط کرنے کی کوشش کی گئی تو کیا اس کا نازک وجود اس توانا مرد کا مقابلہ کر پائے گا؟؟ یہ سوچ ہی اس کی رگوں میں خون کو منجمند کر گئی تھی۔
“کچھ پوچھا ہے میں نے تم سے۔ کھانا کیوں نہیں کھایا؟؟” اس شخص کی نیلی آنکھیں نمرہ کے چہرے کے بدلتے رنگوں کو بخوبی دیکھ رہی تھیں۔ کبھی نمرہ عشق کرتی تھی نیلی آنکھوں سے۔ ناولز پڑھ پڑھ کر اس کے دل میں شدید چاہ تھی کہ کوئی نیلی آنکھوں والا مرد یونہی اسے کہیں دیکھ کر دل ہار بیٹھے، اسے اغواء کرے، زبردستی اس سے شادی کرے۔ لیکن آج جب اس کی یہ خواہش پوری ہونے جا رہی تھی تو نہ جانے کیوں اسے ان نیلی آنکھوں سے وحشت ہونے لگی تھی۔
“مم۔۔۔ مجھے بھوک نہیں ہے۔” وہ تھوک نگلتی بمشکل کہہ سکی۔ آواز بے حد آہستہ تھی۔ مقابل نے بغور اس کے چہرے کو دیکھا۔ پھر نہ جانے کیا سوچ کر قدم اس کی جانب بڑھائے۔ اسے اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر نمرہ کا دل رکنے لگا۔۔۔
“دد۔۔۔ دور۔۔۔ دور رہو مجھ سے۔۔۔” لرزتی ہوئی سی آواز میں کہا گیا تھا۔ ساتھ ہی وہ دو قدم پیچھے ہوئی۔
“ابھی تو فاصلے مٹانے کا وقت آیا ہے۔” اس مرد کی نگاہیں اسی کے وجود پر جمی تھیں۔ لمحہ بہ لمحہ فاصلہ کم ہو رہا تھا۔
“دد۔۔۔ دیکھو میرے قریب مت آؤ۔ خدا کا واسطہ ہے تمہیں۔” نمرہ نے التجا کی تھی۔ اس کی آنکھیں اپنی بے بسی پر بھیگنے لگی تھیں۔ شیفون کے دوپٹے کو مزید مضبوطی سے اپنے گرد لپیٹا گیا تھا۔ وہ اس کے اور اپنے درمیان فاصلہ بڑھانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن پیچھے موجود دیوار نے اس کی یہ کوشش ناکام بنا دی تھی۔ نمرہ نے وحشت بھری نگاہوں سے دیوار کو دیکھا اور پھر اس شخص کو جس کی آنکھیں شاید اس کی بے بسی کو محسوس کر کے مسکرائ تھیں۔
اس سے پہلے کہ وہ بچنے کا کوئی اور طریقہ سوچتی وہ شخص اس کے قریب آ کر ایک ہاتھ اس کے چہرے کے بالکل قریب دیوار پر جما چکا تھا۔نمرہ نے لب بھینچتے ہوئے اپنے آنسو روکنے چاہے تھے تبھی اس شخص کا دوسرا ہاتھ نمرہ کے چہرے کی جانب بڑھا۔ اس کے چہرے کے سامنے آئے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے مضبوط ہاتھ نمرہ کے چہرے سے ٹکرایا تھا۔ وہ سختی سے آنکھیں میچ گئ۔۔۔
“پپ۔۔۔ پلیز۔۔۔” لرزتی ہوئی آواز میں منت کی گئ تھی۔ آنکھوں سے آنسو پھسلتے رخساروں پر بہہ نکلے۔ دوپٹہ سر سے کھسکتا ہوا شانوں پر آن پڑا تھا جبکہ اس میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ دوپٹا ٹھیک کر لیتی۔ اس نے دوپٹہ دونوں مٹھیوں میں سختی سے بھینچا۔ اس کے آنسو دیکھ کر نیلی آنکھوں میں ایک پل کو ترس کی جھلک دکھائ دی تھی۔
“تمہیں معلوم ہے جب پہلی بار تمہیں مری میں دیکھا تھا میں نے تب ہی میرے دل نے کہا تھا کہ یہی وہ لڑکی ہے جسے میری شریک سفر بننے کا اعزاز حاصل ہو گا۔ اور میری خوش قسمتی دیکھو، جس دن پہلی بار تم پر نظر پڑی تب بھی تم سیاہ لباس میں تھی اور آج جب دو سال بعد تم سے روبرو ہوا ہوں تو آج بھی سیاہ رنگ پہن رکھا ہے تم نے۔ باخدا یہ رنگ تم سے زہادہ کسی اور پر جچتا کبھی نہیں دیکھا میں نے۔” دلکش لہجے میں کہا گیا تھا۔ نمرہ نے پٹ سے آنکھیں کھولیں۔ نگاہوں میں تعجب در آیا تھا۔
“مری میں۔۔۔؟؟” وہ استعجاب کے عالم میں فقط اتنا ہی کہہ سکی۔ تو کیا اس شخص نے اسے مری میں دیکھا تھا؟؟؟
“ہاں مری میں۔ دو سال قبل شاید کسی ٹرپ کے ساتھ گئ تھی تم۔۔۔ اور میری خوش نصیبی کے ان دنوں میں بھی کام کے سلسلے میں وہیں تھا۔ تبھی تمہیں دیکھا تھا وہاں کسی بات پر کھلکھلاتے ہوئے۔۔اور بس! اس دل کی دھڑکنوں نے شور مچا دیا۔ تمہیں دیکھتا ہوں تو رشک آتا ہے مجھے خود پر کہ میں وہ خوش نصیب ہوں جس کی ذندگی بننے والی ہو تم۔” اس نے اپنی نیلی آنکھیں نمرہ کی گہری سیاہ آنکھوں میں گاڑیں۔ نمرہ کو یاد آیا وہ دو سال پہلے صرف ایک دن کے کالج ٹرپ پر گھر والوں سے ضد کر کے مری گئ تھی۔ اور وہاں اس نے سیاہ جینز کے ساتھ سرخ ٹی شرٹ اور سیاہ کوٹ پہن رکھا تھا جس میں لی گئ بے شمار تصاویر اب بھی ان کے لیب ٹاپ میں موجود تھیں۔
“مم۔۔۔ مجھے یہاں قید کیوں کیا ہے؟؟” وہ ہمت جمع کرتی اس سے سوال کر گئ۔ جواب میں وہ ہنسا تھا۔ اس شخص کی ہنسی خوبصورت تھی لیکن نہ جانے کیوں نمرہ کو زہر لگا وہ۔
” تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ قید کرنے کے لیے۔ ” اس کی آنکھیں چمکیں تھیں۔
” مجھے جانے دو پلیز۔۔۔ ” وہ گڑگڑائ تھی۔
“ہرگز نہیں ڈئیر! دو سال جس طرح تمہاری تلاش میں خوار ہوا ہوں میں وہ صرف میں جانتا ہوں یا میرا رب۔۔۔ اور تم کہتی ہو اپنی دو سال کی محنت کو رائیگاں جانے دوں؟؟ تاکہ تم جا کر اپنے اس کزن سے شادی کر سکو؟؟ ایک بار تمہاری جھلک دیکھنے کے بعد جب تم دوبارہ کہیں ملی نہیں مجھے تو تب یوں لگا تھا جیسے کسی نے میرے جسم سے روح کھینچ لی ہو۔ کھونے کا احساس کیا ہوتا ہے یہ تب سمجھ میں آیا تھا مجھے۔ نہ میں تمہارا نام جانتا تھا نہ کوئی اتا پتا۔ لیکن پھر بھی تمہاری تلاش شروع کر دی میں نے۔ یہ سوچ کر کہ جس رب نے پہلی بار تم سے ملایا وہ دوسری ملاقات کا بندوبست بھی کر دے گا۔ اور دیکھو، میرے ارادے مضبوط نکلے۔ آخر تم سے ملاقات ہو ہی گئ۔ اور اب جب تم مل گئ ہو تو میں دوبارہ کھونے کی اذیت سے روشناس نہیں ہونا چاہتا۔ تبھی ہمیشہ کے لیے تمہیں اپنے ساتھ باندھے رکھنے کا انتظام کر لیا ہے میں نے۔” وہ دھیرے دھیرے بہت سی باتیں اس کی سماعتوں میں اتار رہا تھا۔ اس کی باتوں پر دنگ سی نمرہ یہ تک بھول بیٹھی تھی کہ وہ اس کے بے حد نزدیک کھڑا ہے۔ سب احساسات جیسے جامد ہو چکے تھے۔۔۔
“کک۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔؟؟” اس کی چھٹی حس مسلسل کچھ غلط ہونے کی نشاندہی کر رہی تھی تبھی وہ ہکلائی۔
“مطلب صاف ہے جانم! کل ہمارا نکاح ہے۔ اسی لیے بغیر کوئی ہنگامہ کھڑا کیے اس نکاح کے لیے ذہنی طور پر خود کو تیار کرو۔ جیسے ہی کل تم نکاح نامے پر دستخط کر کے اپنے تمام جملۂ حقوق میرے نام کر دو گی میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آؤں گا اور۔۔۔ ” وہ چند پل کو رکا تھا۔ نمرہ کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھے تھے۔
۔”اور رخصتی اسی دن ہو گی جس دن تمہاری اور تمھارے کزن کی شادی طے تھی۔ فرق صرف اتنا ہو گا کہ تم اپنے کزن کی نہیں بلکہ میری سیج سجاؤ گی۔ امید ہے تمہارے ذہن میں کلبلاتے تمام سوالات اب ختم ہو چکے ہوں گے۔ لہذٰا کھانا کھاؤ اور یہ رونا دھونا بند کر کے سکون سے سو جاؤ۔ کیونکہ کل میں اپنی دلہن کو بالکل فریش دیکھنا چاہوں گا۔” وہ بات مکمل کرتا پیچھے ہٹا تھا۔
“نہیں کرنی مجھے تم سے شادی۔ اور نہ کوئی کھانا کھانا ہے۔ مجھے اپنے گھر جانا ہے۔ ابھی اور اسی وقت۔۔۔ ” وہ اسے واپس پلٹتا دیکھ کر چلائ تھی۔ اس کے یوں چلانے پر وہ واپس مڑا۔ ابرو اچکا کر اسے دیکھا تھا۔ پھر دوبارہ اس کی جانب قدم بڑھائے۔ وہ سٹپٹائ تھی اسے خطرناک ارادوں سے اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر۔ اس کے مقابل آ کر وہ رکا۔ اس بار آنکھوں میں سختی کی جھلک تھی۔
“پیار سے بات سمجھا رہا ہوں تو مجھے سختی کرنے پر مجبور مت کرو۔ یہاں سے رہائی اسی وقت ممکن ہو گی جب تم میری ساری شرائط مان لو گی۔ لیکن ٹھیک ہے۔۔۔۔ اگر تم ضد اور اکڑ دکھانا چاہتی ہو تو مجھے بھی اکڑ توڑنا آتی ہے۔” اس نے کہتے ہوئے نمرہ کی کلائی تھامی تھی۔۔۔ اس کا پورا وجود لرز اٹھا۔
“چھ۔۔۔ چھوڑو مجھے۔۔۔” وہ بلکنے لگی تھی۔ آنسوؤں میں روانی آئی تھی۔
“کیوں؟؟ اب کیا ہوا؟؟” وہ طنزیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔ ” ایک بات میری اچھی طرح ذہن میں بٹھا لو نمرہ انور! تم میری ہو۔ تمہارے وجود پر صرف میرا حق ہے۔ رہنا تو تمہیں میرے ساتھ ہی ہے۔ اب چاہے حلال رشتے سے رہو یا حرام سے۔ ویسے بھی آج کی رات تو تم یہیں ہو میری قید میں۔ اور جانتی تو ہو گی کہ رات باہر گزار کر آنے والی لڑکی کی معاشرے میں کیا عزت ہوتی ہے؟؟ اگر کل کے دن تم نے نکاح کے وقت مجھے ٹھکرایا تب بھی تمہیں یہ معاشرہ، تمہارے گھر والے کبھی قبول نہیں کریں گے۔ اور پھر واپس تو تمہیں میرے پاس ہی آنا ہے۔ لیکن تب میں تمہارے ساتھ وہ سلوک کروں گا کہ تمہاری روح تک کانپ اٹھے گی۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ خوشی سے میری بات مانتی جاؤ۔ اسی میں تمہارا فائدہ ہے۔” اس کے لہجے میں دھمکی چھپی تھی۔ نمرہ کے حواس ساتھ چھوڑنے لگے۔
” اب کھانا کھاؤ گی یا اپنی ان دھمکیوں کا کوئی عملی ثبوت پیش کروں؟؟” اس کے رخسار پر انگلی پھیرتے ہوئے معنی خیزی سے کہا گیا تھا۔۔۔ نمرہ نے تیزی سے اس کا ہاتھ جھٹکا۔۔۔
“کھ ۔۔۔ کھا لیتی ہوں میں کھانا۔” کوئی اور چارہ نہ پاتے ہوئے وہ بولی کہ فی الحال اس وقت کو ٹالنا ضروری تھا۔
“گڈ گرل۔۔۔ علیزے آئے گی کچھ دیر تک چیک کرنے کہ کھانا کھایا تم نے یا نہیں۔ اور کوشش کرنا کہ مجھے دوبارہ نہ آنا پڑے۔” وہ ایک اچٹتی سی نگاہ اس کے سرخ پڑتے چہرے پر ڈالتا پیچھے ہٹا اور تیز قدموں سے چلتا کمرے سے نکل گیا۔۔۔
“ہاں لالے! ہو گیا کام؟؟” اسے اندر داخل ہوتے دیکھ کر ایان جو لان میں بیٹھا فون پر مصروف تھا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
“ہاں ہو گیا ہے۔” اس نے ہاتھ میں پکڑے دو شاپنگ بیگز وہیں ایک جانب رکھ دئیے۔ پھر کرسی پر بیٹھتا آنکھیں مسلنے لگا۔۔۔ ایان اٹھ کر اندر گیا تاکہ علیزے کو کچھ کھانے کے لیے لانے کا کہہ سکے۔
“کیا ہوا؟؟ طبیعت ٹھیک ہے؟؟” دوبارہ لان میں داخل ہوتے ہوئے ایان نے سوال کیا۔
“ہاں ٹھیک ہوں۔ بس تھکاوٹ ہو گئ ہے۔۔۔ کل ساری رات سو نہیں سکا تو شاید اس باعث بے چینی سی ہے۔ ” وہ تھکی تھکی سی آواز میں کہہ رہا تھا۔۔۔
“سو تو کوئی اور بھی نہیں سکا۔ کہیں اور بھی رت جگا منایا گیا ہے رات کو۔۔۔” ایان نے شرارت سے کہتے ہوئے اس کمرے کی جانب اشارہ کیا جہاں نمرہ کو رکھا گیا تھا۔جواباً وہ فقط مسکرا کر رہ گیا۔۔۔
” گھر میں کیا صورتحال ہے؟؟” ایان نے اگلا سوال کیا۔ اسی اثناء میں علیزے چائے کے ساتھ اسنیکس لا کر وہاں رکھ چکی تھی۔
“سب کنٹرول میں ہے۔ بابا کے سوا سب کو معلوم ہے کہ اسے میں یہاں لایا ہوں۔ ” جواب دیا گیا تھا۔ علیزے نے چائے بنا کر اس کی طرف بڑھائ۔
” تو انکل نے پوچھا نہیں بھابھی کے بارے میں؟؟” ایان نے چائے کی چسکی لی۔۔۔
“پوچھا تھا۔ گھر والوں نے کہہ دیا کہ نیند آ رہی تھی اسی لیے جلدی سو گئ۔ پہلے بھی کبھی کبھار وہ جلدی سو جاتی ہے گھر میں۔” مرتضٰی کسی سوچ میں گم تھا۔۔۔
“ویسے میں ایک بات سوچ رہا ہوں۔ اگر میں انکل کو تمہاری اس حرکت کے بارے میں بتا دوں تو تمہارا کیا حال کریں گے وہ؟؟ ساری عمر کے لیے گھر سے بے دخل کر دیں گے تمہیں۔۔۔ ” ایان کی آنکھوں میں شرارت چمک رہی تھی۔ مرتضٰی نے اسے گھورا۔
“اور اگر میں تمہارے ابا کو یہ بتا دوں جا کر کہ تم نے ایک اغواء شدہ لڑکی کو اور اغواء کرنے والے کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے تو تمہارے ساتھ اس سے بھی برا ہو گا۔ سوچ سمجھ کر پنگا لینا مجھ سے۔” مرتضٰی نے بدلہ چکایا۔ ایان نے منہ بسورا۔
“یار یہ بلیک میلنگ کہاں سے سیکھی ہے ویسے تم نے؟؟ سچ سچ بتانا۔۔۔ کہیں کسی گینگ کے ساتھ تو نہیں مل گئے؟؟” ایان نے آنکھیں سکوڑ کر اسے دیکھا۔
“میرے گھر میں جو دو عدد لڑکیاں رہتی ہیں نا وہ بھی کسی گنینگسٹر سے کم نہیں ہیں۔ انہوں نے ہی مجھے بلیک میل کر کر کے اس بلیک میلنگ کے سارے داؤ پیچ سکھائے ہیں۔” مرتضٰی کے لہجے میں ہلکا سا تبسم تھا۔
“اچھا ویسے ایک بات سمجھ نہیں آئ مجھے۔ یہ الگ جوڑے کا انتظام کرنا ضروری تھا کیا؟؟ جو جوڑا بارات کے لیے لیا تھا وہی رکھ دیتے۔” ایان نے باتوں کا رخ دوسری جانب موڑا۔
“محترمہ نے خود پسند کیا ہے جوڑا۔ اگر وہی رکھ دیتے تو ایک سیکنڈ سے پہلے وہ پہچان جاتی ہمیں۔ اور نقلی شادی تو چلو ہونی ہی نہیں، اس نے اصلی شادی سے بھی انکار کر دینا تھا۔ ” مرتضٰی کی بات پر ایان نے سر ہلایا۔ علیزے نے بھی وہیں نششست سنبھال لی تھی اور اب چائے پیتے ہوئے خاموشی سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔
“اچھا ایک بات یونہی میرے ذہن میں آئ ہے۔ دیکھو جیسا تم نے خود کو ظاہر کیا، میرا مطلب امیر ٹائپ، پہلی نظر کا عاشق، پھر لینزز کا استعمال کر کے نیلی آنکھوں والا شہزادہ بن کر بھابھی کے سامنے جانا بقول تمہارے وہ نیلی آنکھوں کی شیدائ ہیں۔ تو بھابھی کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ان کی تمام خواہشات پوری ہو رہی ہیں۔ ناولز کی دنیا میں رہتے رہتے یہی خواب بنتی رہی ہیں وہ۔ اب جب خواب پورے ہونے کا وقت آیا ہے اگر انہوں نے ہنسی خوشی اس شادی کے لیے ہاں کر دی تو؟؟” ایان کی بات میں دم تھا۔ اس کی بات پر ایک پل کو مرتضٰی بھی خاموش سا ہو کر رہ گیا۔ تبھی علیزے اپنا چائے کا کپ رکھتے ہوئے ان کی جانب متوجہ ہوئی۔
“میرا نہیں خیال کہ ایسا ہو گا۔ میں خود ایک لڑکی ہوں، لڑکیوں کی نفسیات کو اچھی طرح سے سمجھتی ہوں۔ ایک لڑکی کو جو کچھ بھی چاہیے ہوتا ہے ان میں پہلے نمبر پر عزت ہے، فقط عزت۔ محبت، دولت، خوبصورتی سب بہت بعد میں آتے ہیں۔ لڑکی ہمیشہ اس شخص کی طرف مائل ہوتی ہے جو اسے عزت دے۔ زور زبردستی کے رشتوں میں وہ مجبوری کے تحت بندھ سکتی ہے لیکن اپنی خوشی، اپنی رضا سے نہیں۔ اور جو شخص آپ سے سچی محبت کرتا ہو گا وہ ہر چیز سے پہلے آپ کی عزت کا خیال کرے گا۔ ایسے کیسز جہاں لڑکی کو اغواء کیا جاتا ہے، اسے معاشرے کی، اس کے گھر والوں کی، اس کے ماں باپ حتٰی کہ اس کی اپنی ہی نظروں میں گرا دیا جاتا ہے، اس کی عزت کو دو کوڑی کا کر کے رکھ دیا جاتا ہے، نکاح کے نام پر چھپ کر اس سے جسمانی تعلق بنایا جاتا ہے وہاں اور سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن محبت اور عزت نہیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے ایسی لڑکیوں پر جو اس سب کو محبت کا نام دیتی ہیں۔ لیکن اگر یہ سب خود ان پر گزرے نا تب انہیں احساس ہو کہ یہ محبت نہیں فقط ہوس ہے جس میں اذیت کے سوا کچھ نہیں رکھا۔ اور لعنت ہے ایسی محبت پر جو آپ کو دنیا والوں کے سامنے اتنا حقیر کر دے کہ آپ سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہ رہیں۔” علیزے کی باتیں خاصی گہرائ لیے ہوئے تھیں۔ ان دونوں نے اثبات میں سر ہلایا، گویا اس کی باتوں سے اتفاق کیا ہو۔
“خیر۔۔۔ اگر وہ راضی بھی ہو جائے گی تو یہاں کونسا سچ میں نکاح ہو رہا ہے۔ نکاح سے پہلے ہی ہمارے نقلی انسپکٹر ایان صاحب اور میں تشریف لے آئیں گے، اغواء کرنے والے کو پہلے ہی اریسٹ کر کے بھیج دیا جائے گا، نمرہ کو بازیاب کروا لیا جائے گا۔ اور بس۔۔۔ یہی دی اینڈ ہو گا ہمارے اس ڈرامے کا۔ یہ سب جو نمرہ کی نظر میں بھیانک حادثہ جبکہ درحقیقت ہمارا بنایا گیا پلان ہے اس کے باعث امید ہے اب تک عقل آ چکی ہو گی نمرہ کو۔ ” مرتضٰی نے چائے ختم کرتے ہوئے کپ رکھا۔
“اللّہ کرے آ ہی جائے۔ لیکن اگر بھابھی کو ذرا سی بھی بھنک پڑ گئ نا کہ تم نے یہ سب کیا ہے تو تمہارا گنجا ہونا لازم قرار پا جائے گا۔” ایان نے ہنستے ہوئے مرتضٰی کو چھیڑا۔
“اسے کبھی خبر ہی نہیں ہو سکے گی اس سب کی۔ بس تم دعا کرو ہمیں کامیابی مل جائے اور وہ سدھر جائے تاکہ شادی کے بعد وہ مجھے اپنے ناولز کے ہیروز سے کمپئیر کر کر کے ہمارا رشتہ خراب نہ کرے۔ ورنہ جیسے وہ تھی مجھے اپنی آنے والی شادی شدہ زندگی خطرے میں پڑتی دکھائ دے رہی تھی۔” مرتضٰی کی آنکھوں میں امید کے دئیے جگمگا رہے تھے۔ ان دونوں نے جواباً آمین کہا تھا۔۔۔
“ویسے ڈائیلاگ کافی اچھے تھے جو رات کو بولے تم نے بھابھی سے۔۔۔ لگتا ہے آج کل تم بھی ناولز سے واسطہ رکھنے لگے ہو۔ آواز تبدیل کرنے میں ویسے بھی خاصے ماہر ہو۔ ایک ہی گھر میں رہتے آئے ہو دونوں لیکن اس کے باوجود بھابھی تمہاری آواز نہیں پہچان سکیں۔” اچانک کچھ یاد آنے پہ ایان نے دانت نکالتے ہوئے اسے پھر سے مخاطب کیا۔ جواب میں مرتضٰی نے اسے گھورا تھا۔
“تم ہماری باتیں سن رہے تھے دروازے کے باہر کھڑے ہو کر؟؟” وہ کڑے تیور لیے اپنی جگہ سے اٹھا۔
“نہیں یار! میں تو بس یہی سوچ کر آیا کہ بھابھی غصے کی کافی تیز ہیں۔۔۔ کہیں تمہارے سر میں کچھ مار کر تمہارا کام ہی تمام نہ کر دیں۔ ایمرجنسی کی صورت میں جلدی سے تمہاری مدد تو کر سکتا تھا نا۔۔۔ لیکن جب۔۔۔” ایان اپنی صفائ میں کچھ کہنے جا رہا تھا جب اس کی گردن مرتضٰی کے بازو کے شکنجے میں آئ۔۔۔
“کمینے! میرا تو پتا نہیں لیکن آج تو ضرور میرے ہاتھوں گنجا ہو جائے گا۔” مرتضٰی نے گرفت سخت کی تو ایان چلا اٹھا تھا۔ جبکہ علیزے سے اپنی ہنسی روکنا محال ہونے لگا۔