عاصم میں نے شادی کے بعد آپ سے کچھ نہیں مانگا لیکن آج میں اپنی بیٹی کی پیدائش پہ آپ سے کچھ مانگنا چاہتی ہوں اس امید کے ساتھ کہ آپ نہ نہیں کہیں گے
سوہا نے اپنی ننھی سی گڑیا کو گود میں اٹھاتے ہوئے کہا
بولیں کیا چاہتی ہیں آ پ ؟
اگر میرے بس میں ہو سکا تو آپ کو مایوس نہیں کروں گا
عاصم نے ننھی گڑیا کا ماتھا چومتے ہوئے کہا
میں اپنی بیٹی کا نام مونا رکھنا چاہتی ہوں
اور آپ مجھے منع نہیں کریں گے
سوہا نے اپنی جان سے زیادہ دوست کو اداس لہجے میں یاد کرتے ہوئے کہا
پر سوہا تم سب جانتی ہو کہ اس نام کی لڑکی کے ساتھ کیا ہوا؟
اگر چہ وہ تمھاری دوست تھی مگر اس سے بڑھ کے بد قسمت لڑکی اور کون ہو سکتی ہے
اس کے باوجود؟
ہاں اس کے باوجود میں اس کے نام پہ اپنی بیٹی کا نام رکھنا چاہتی ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں کہ وہ کوئی غلط لڑکی نہیں تھی اس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ایک حادثہ تھا اور حادثہ کسی کے ساتھ بھی پیش آ سکتا ہے نہ تو کسی کے ساتھ اس کا کوئی ناجائز تعلق تھا اور نہ وہ بدکار تھی
اس کے باوجود وہ اب تک ان گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے جو کہ اس نے کیے ہی نہیں
سوہا نے نم ہوتی آ نکھوں سے کہا
اوکے جیسے تمھاری مرضی
عاصم نے سوہا کی مونا کے لیے شدید محبت کے آگے ہار مانتے ہوئے کہا
____________
ملک صاحب ہم نے اپنی پوری کوشش کر کے مونا کی دماغی حالت کو کنٹرول کیا ہے
وہ مکمل نہ صیح لیکن کافی حد تک اپنے جزبات کو قابو کرنا سیکھ گئی ہے اب اس مرحلے پہ آ پ کو ہمارا ساتھ دینا ہو گا
آپ اسے چند دنوں کے لیے گھر لے جائیں
تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ اس کا اپنے ملنے جلنے والوں کے بارے میں رویہ کیسا ہے
وہ زندگی کو کس نظریے سے دیکھتی ہے اور اس کی مزید بہتری کے لیے اور کیا کرنا ہو گا
مگر آپ کو اس کا مکمل دھیان رکھنا ہو گا روز ہمیں اس کے بارے میں رپورٹ دینی ہو گی
اور اگر وہ اوور ری ایکٹ کرے تو آپ نے ہمیں فوری بتانا ہے
ڈاکٹر سائرہ نے مونا کے باپ کو ہدایات دیتے ہوئے کہا
اور وہ ڈاکٹر کے ساتھ آگے کا مرحلہ طے کر کے واپس گھر آگیا تاکہ مونا کو گھر لانے کا انتظام کر سکے
__________________
مما میرا موبائل کہاں ہے کیا آپ اسے پاکستان ہی چھوڑ آئے ؟
گھر پہنچ کر مونا نے پہلا سوال کیا
جی نہیں بیٹا وہ تو وہیں اس حادثے والے دن سڑک پہ تمھارے ہاتھ سے جب گرا تو کسی نے اٹھا لیا تھا ہمیں وہ پھر نہیں ملا
لیکن میری جان آپ ڈیڈی کے ساتھ جا کے نیا موبائل لے آؤ
شاہدہ بیگم نے مونا کو پیار سے کہا
ننن نہیں مما اس کی ابھی ضرورت نہیں ہے وہ میں اس لیے پوچھ رہی کہ چلیں چھوڑیں
یہ بتائیں کہ جب میں ہاسپٹل میں بے ہوش تھی تو مجھ سے کون کون ملنے آیا تھا
مونا کسی طرح علی کے بارے میں جاننا چاہتی تھی
کوئی نہیں بیٹا بس میں اور تمھارے ڈیڈی ہی تھے وہاں
شاہدہ بیگم نے دکھ سے کہا
ہاں بھلا وہ کیوں مجھے ملنے آتا مجھ جیسی غلاظت کی پوٹلی کو کون ہاتھ لگاتا ہے
مونا نے آنکھیں بند کر کے بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے سوچا
سوہا نے ایک بار بھی میرا حال تک نہ پوچھا
علی نے پلٹ کر جھوٹے منہ تسلی تک نہ دی کوئی تعلق بنانا تو دور کی بات اپنی جھوٹی محبت کا بھرم بھی نہ رکھا
کسی کزن کسی رشتے دار نے کبھی دکھ بانٹنے کی کوشش نہیں کی
سب لوگ مجھے ہی بد کردار لڑکی سمجھ کے دور ہٹ گئے ہیں
میں کیسے سب کو یقین دلاؤں گی کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا
پر میری بات کا کون یقین کرے گا
مونا نے انتہائی مایوسی سے سوچا
شاہدہ بیگم مونا کے لیے سیب کاٹ رہی تھی کہ اچانک فون کی بل بجی اور وہ کال سننے چلی گئی
سامنے رکھی چھری دیکھ کے مونا کے دماغ میں یہی خیال آیا کہ یہ بہت اچھا موقع ہے اس سے اپنی شہہ رگ کاٹ کے اس اذیت ناک زندگی سے جان چھڑا لے
اس خیال کے آتے ہی وہ تیزی سے چھری کی طرف لپکی
ابھی اس نے چھری اپنی گردن کے اوپر رکھی ہی تھی کہ اس کے باپ نے اس کے ہاتھ کو مظبوطی سے پکڑ لیا
مرنا ہے نہ تمھیں
مر جاؤ پر اتنا سوچ لینا لوگ ساری عمر تیرے باپ کو طعنے دیں گے کہ میجر مدثر جیسے بہادر آرمی افیسر کی بیٹی بزدلوں کی طرح خود کشی کر کے جینے کی جنگ ہار گئی
یہ لو چھری پھیر لو اپنے گلے پہ _____
اس نے چھری مونا کی طرف پھینکی ______
بیٹا یاد رکھنا صرف جنگ کے میدان میں لڑنے والے مجاہد نہیں ہوتے
اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے والے ظلم کے خلاف کھڑے ہونے والے اور زندگی سے اپنے حصے کی خوشیاں چھیننے والے لوگ بھی مجاہد ہوتے ہیں
اور مجھے اپنی بیٹی پہ پورا یقین ہے کہ وہ یہ جنگ ضرور جیت کے دکھائے گی
ڈرپوک کم ہمت لوگوں کی طرح میدان چھوڑ کے بھاگے گی نہیں بلکہ زندگی کی ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی
آخر کو تمھاری رگوں میں ایک جنگجو باپ کا خون ہے
تم نے زندہ رہنا ہے لوگوں کے لیے نہیں اپنے ماں باپ کے لیے کیونکہ ہم دونوں کی اپنی بیٹی میں جان بسی ہے
جس دن تمھیں کچھ ہوا ہم دونوں بھی زندہ نہیں رہیں گے
میجر مدثر نے مونا کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا
مونا نے دوبارہ چھری مظبوطی سے پکڑی اور تیزی سے سیب کے چھلکے اتارنے لگی
اس کے ہاتھ سیب کے چھلکے اتار رہے تھے اور دماغ اس کے خیالات پر پڑے مایوسی اور ناامیدی کے پرت اتارنے کی جدوجہد میں مصروف تھا اگر چہ ایسا کرنا آ سان نہ تھا لیکن ناممکن بھی نہ تھا
مونا نے اپنے آپ کو اس خوفناک دلدل سے باہر نکالنے کی کوشش مزید تیز کر دی
نہیں میں لڑوں گی میں ایک بہادر باپ کی بہادر بیٹی ہوں
میں ہار نہیں مانوں گی
میں اپنے بابا کو یہ جنگ جیت کے دکھاؤ ں گی
میں پھر سے نئی زندگی شروع کروں گی
مونا نے اپنے آپ سے عہد کیا
________________
خیر سے بہو رانی کو نواں مہینہ لگ گیا ہے اماں جی تو میکے نہیں جائے گی
سوہا نے ماریہ کو دیکھتے ہوئے کہا
نہیں بیٹا میرا خیال ہے کہ یہ ادھر ہی رہے تو زیادہ بہتر ہے
علی کی ماں اور ماریہ کی ساس نے جواب دیا
پر اماں جی ماریہ سے تو پوچھ لیں وہ کیا چاہتی ہے
سوہا نے ماریہ کی طرف دیکھ کر پوچھا
جی جیسے آپ لوگ مناسب سمجھیں میں کیا کہہ سکتی ہوں ماریہ نے جواب دیا
ہوں خود تو بیٹی پیدا کر کے تیس مار بنی پھرتی ہے
جس دن میرا بیٹا اس دنیا میں آ گیا
سب دیکھنا کیسے میرے نخرے اٹھائیں گے
آخر کار اس خاندان کو وارث تو میں ہی دوں گی
ماریہ نے سوچا
چوہدری خاندان کی پوری فیملی اس وقت ہاسپٹل میں موجود تھی ماریہ کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی
اسے ایمرجنسی میں یہاں کے کر آئے تھے
اور اب اس کا آپریشن جاری تھا
سب باہر بیٹھے دونوں کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے
کچھ دیر بعد ڈاکٹر باہر آیا اور افسوس سے بولا
آئی ایم سوری ہم بچے کو نہیں بچا سکے ماں کی حالت بھی بہت سریس ہے
لیکن ایک بری خبر اور بھی ہے آپ سب کے لیے کہ وہ اب کبھی ماں نہیں بن سکے گی
اس کی زندگی بچانے کے لیے ہمیں آپ سے پوچھے بغیر فوری طور پر یہ فیصلہ کرنا پڑا جس کے لیے ہم معزرت خواہ ہیں
لیکن اگر یہ قدم نہ اٹھاتے تو آپریشن کے دوران اتنی پیچیدگی پیدا ہو گئی تھی کہ مریضہ کا زندہ بچنا نا ممکن تھا
ڈاکٹر تو یہ سب بتا کے چلا گیا
لیکن سب لوگ وہیں افسردہ چہرے لیے ایک دوسرے کو تسلیاں دے رہے تھے
_________________
بچے کی تدفین ہو چکی تھی ماریہ چند دن ہاسپٹل میں رہ کے گھر آ گئی
یہ آپ کس سے فون پہ باتیں کر رہے تھے
ماریہ نے علی سے کال کٹ۔ کرتے ہی پوچھا
میرا دوست ہے کیوں کیا ہوا
علی نے حیرانگی سے پوچھا
دوست ہے یا کوئی گرل فرینڈ
ماریہ نے تنک کر کہا
کیا بکواس کر رہی ہو تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے
علی نے مزید حیران ہوتے ہوئے پوچھا
لیکن ماریہ کسی طور پہ مطمئن نہ ہو سکی
اس کے رویے میں عجیب تبدیلی پیدا ہو چکی تھی
وہم ٫شک ، بات بات پہ بیجا غصہ
اور اب تو وہ سب کے سامنے اس کا کھل کے اظہار کرنے لگی تھی
ذرا سی بات پہ نوکروں کو پیٹ ڈالتی
خواہ مخواہ دوسروں کے گلے پڑ جاتی
علی کے گھر آنے پہ الٹے سیدھے سوال پوچھتی
ایک دن تو اس نے حد کر دی پورے گھر کو آدھی رات رو رو کے اکھٹا کر لیا
کہ علی نے اسے دھکے مار کے کمرے سے باہر نکال دیا ہے اور کسی دوسری لڑکی کے ساتھ کمرے میں سو رہا ہے
جب سب لوگ اندر گئے تو علی تنہا بیڈ پہ لیٹا تھا
بات بڑھی تو سب کے سامنے قسمیں کھانے لگی کہ اس نے خود اس لڑکی کو علی کے ساتھ لیٹا ہوا دیکھا تھا ضرور علی نے آپ سب کے آنے سے پہلے اسے کھڑکی سے فرار کر دیا ہو گا
یا خدا علی سر پیٹ کے رہ گیا
____________________
مونا کی صحت کافی حد تک ٹھیک ہو چکی تھی اور اب ڈاکٹر سائرہ نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ اسے آگے سٹڈی کرنے دیں کیونکہ پتہ نہیں کہ وہ کبھی شادی کا فیصلہ کرتی ہے یا نہیں
ایسے حادثات کے بعد لڑکیاں عام طور پر مردوں سے شدید نفرت کرنے لگتی ہیں اور تمام عمر اکیلی رہنا پسند کرتی ہیں اس صورت میں وہ کم سے کم اپنے پاؤ ں پہ کھڑے ہونے کے قابل تو ہو گی
ملک مدثر نے ڈاکٹر سائرہ کی کوششوں سے مونا کو وہیں داخل کروا دیا
وہاں مونا کے نئے دوست بن گئے اور وہ اپنی گزشتہ زندگی کو ایک ڈراؤنا خواب سمجھ کے بھولنے لگی
__________________
ایک تو علی مونا کے ساتھ اپنے اس سلوک کی وجہ سے کبھی خود کو معاف نہیں کر سکا تھا
کہ ایک مرد ہوتے ہوئے وہ اپنی محبت کو جب اسے سب سے زیادہ اس کی ضرورت تھی صرف لوگوں کے خوف سے تنہا چھوڑ کے آ گیا
وہ اپنے آپ کو لاکھ دلیلیں دے کر قائل کرتا لیکن دل ہر بار اس کے خلاف فیصلہ سنا دیتا
اور وہ محبت کی عدالت میں پیش ہو کر اس جرم میں روز ایک نئی سزا سنتا
اور اب ماریہ کی یہ حالت ہو گئی تھی
اتنے ڈاکٹروں سائکاٹرسٹ سے ماریہ کا چیک اپ کروایا لیکن کوئی بھی وجہ سامنے نہیں آئی تھی
بیٹا میری بات مانو تو تم ماریہ کو طلاق دے کر دوسری شادی کر لو
ایک دن علی کی ماں نے ماریہ کے رویے سے دل برداشتہ ہو کر کہا
نہیں ماں جی ایک بار تو میں کسی کو چھوڑ کر سزا بھگت رہا ہوں دوسری بار اب میں یہ گناہ نہیں کر سکتا
بیٹا پر تمام عمر ایک پاگل کے ساتھ رہے گا
بے اولاد ہی مر جائے گا
اماں جی نے تڑپ کر کہا
کوئی بات نہیں جن کی اولاد نہیں ہوتی ضروری تو نہیں کہ ان کا خاندان ختم ہو جائے
ہم کوئی لاوارث بچہ گود لے لیں گے اسے اپنا نام دیں گے
علی نے کہا
مگر بیٹا ماریہ کی حالت ہے کسی بچے کو پالنے والی
ماں جی نے بے یقینی سے کہا
ماں جی بچے کی وفات سے وقتی صدمہ ہے بہت جلد وہ ٹھیک ہو جائے گی
علی نے تسلی دیتے ہوئے کہا
اور اپنے کمرے میں سونے چلا گیا
علی علی بچاؤ مجھے بچاؤ
اچانک علی کو ماریہ کی دلخراش چیخوں کی آواز سنائی دی
وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا
وہ تمہارے پاس ہے ادھر دیکھو وہ مونا وہ وہ اس کے لمبے لمبے دانت ہیں ان میں خون
بچاؤ مجھے وہ مجھے کھا جائے گی
ماریہ کمرے کی دیوار کے ساتھ چپکی شدید خوف سے عجیب و غریب باتیں کر رہی تھی
علی کو شدید حیرت ہوئی
کیونکہ کمرے میں ان دونوں کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں تھا
کون مونا ماریہ یہاں کوئی نہیں ہے
تمھیں کیا ہوا ہے
علی نے ماریہ کے قریب جا کے کہا
دور رہو مجھ سے وہ تمھارے ساتھ ہے وہ مجھے مارنے آئی ہے وہ دیکھو مجھے کیسے دیکھ رہی ہے
بچاؤ مجھے بچاؤ
اچانک مونا نے گاڑی کی چابیاں اٹھائیں اور تیزی سے کمرے سے باہر بھاگ گئی
علی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا
ماریہ رکو ٹھہرو کہاں جا رہی ہو علی اس کے پیچھے اپنی گاڑی میں دوڑا
مگر ماریہ کی گاڑی کی سپیڈ اتنی زیادہ تھی کہ وہ چند لمحوں میں ہی آنکھ سے اوجھل ہو گئی
علی اسی راستے گاڑی چلا رہا تھا
اس امید پہ کہ شاید ماریہ کہیں رک گئی ہو
پورا ایک گھنٹہ گزر گیا تھا علی کو یونہی ادھر ادھر بھٹکتے مگر ماریہ کہیں نظر نہیں آ رہی تھی
میرا خیال ہے کہ مجھے گھر والوں کو اور پولیس کو اطلاع کرنی چاہیے
علی نے گاڑی واپس گھر کی طرف موڑ لی
مسٹر علی آ پ کے لیے ایک بہت بری خبر ہے ابھی ہمیں شہر سے باہر جانے والی سڑک کے پاس موجود نہر کے پل کے نیچے ایک گاڑی گری ہوئی ملی ہے جو کہ تیز رفتاری کے باعث پل توڑ کے پانی میں جا گری تھی
اور اس حادثے میں ایک جوان لڑکی جو اسے چلا رہی تھی اس کی ڈیتھ ہو چکی ہے
پلیز آپ لوگ جلدی جائے وقوعہ پر پہنچ جائیں کیونکہ گاڑی کا نمبر اور لڑکی کے حلیے سے وہ آپ کی بیوی سے بہت ملتی ہے
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...