ابراہیم ،تیمور اور اکبر جب ہسپتال پہنچے تو سامنے رفیق بیگ کی ڈیڈباڈی تھی۔۔ ایک دم سے تیمور کو لگا اسکے سر سے چھت ہی چھین گئی ہو وقت ایک پل میں بدل جاتا ہے اسکا اندازہ نہیں تھا۔۔ وہ باپ جس نے کبھی گرم ہوا تک نہ لگنے دی دنیا کی وہ سائیباں چھین لیا گیا تھا کس نے کچھ اندزہ نہ تھا۔۔
پولیس کا کہنا تھا ان کی اطلاع کے مطابق رفیق بیگ کی گاڑی پر فائیر ہوئے تھے جو کے ان کے قریبی دشمن کا کام تھا۔۔۔ ابراہیم کو کچھ دن پہلے ہونے والی پنچائت میں زمین کے ایک ٹکرے پر کی جانے والی بحث یاد آئی جو کے اکرام جٹ کے خلاف رفیق بیگ نے پنچائت بیٹھائی تھی۔۔ تب تو اکرام نے بہت آرام سے سر جُھکا لیا تھا اس فیصلے کو اس کے علاوہ کوئی واقعہ یا دشمن یاد نہ آیا جو ایسی حرکت کر سکتا۔۔ اور پولیس کو اکرام جٹ کا نام دیا اب کاروائی اکرام جٹ کے خلاف کرنا تھی۔۔
رفیق بیگ کی میت کو گھر لایا گیا تو اس گھر میں جہاں گچھ دیر پہلے خوشیوں کا سماں تھا اب ہر طرف غم کے بادل چھائے ہوئے تھے۔۔ ابراہیم نے تدفین کے انتظامات اپنے سر لئے امتیاز بیگ ایک دم سے بُرھے ہو گئے ہو کسی ان کا کندا ہی کاٹ کر پھینک دیا ہو جیسے ۔۔۔
ابراہیم نے اپنے حواسوں پر قابوپاتے ہوئے ہر زمیداری خود سنبھالی۔۔ تو ایک دم سے احسان کا خیال آیا ان سب میں وہی دیکھائی نہ دیا۔۔ ابراہیم نے ضویا سے احسان کے متلق پوچھا تو اس کے پاس بھی کوئی جواب نہ تھا۔۔ سب ایک دم پھر سے الڑٹ ہو گئے احسان کے نام سے شور مچ گیا وہ گھر پر نہیں ہے پہلے ہی ایک خبر سے سب کے حواس سلیب ہوئے تھے اس پر احسان کی گمشدگی کی خبر حواسوں پر ہتھوڑے کے مانند پری۔۔ ۔
واحد ملازموں میں راشی نے دیکھا تھا وہ رفیق بیگ کے ہمرا گیا تھا۔۔ اس خبر پر پولیس میں مسنگ رپورٹ کروائی گئی۔۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
نعیمہ چچی کے لئے ایک صدمہ کم تھا جو ایک اور جوان بیٹے کی گمشدگی کی خبر سن کر دنیا آخرت سے بیگانہ ہو کر بستر کی ہو کر رہ گئی۔۔۔
”میں چھوڑوں گا نہیں اکرام جٹ کے سارے خاندان کو میرے گھر تباہ کر دیا اسکی بے مطلب کی دشمنی نے ۔۔ اتنا ہی تھا اس زمین پر اسکا حق تو عدالت جاتا انسانیت سے کیوں گرگیا۔۔
میرے ابو جی کا کیا قصور تھا میرا بھائی اسے تو کوئی دنیا کی سمجھ بھی نہیں ہے صرف سولہ سال کا ہے ابھی۔۔“ ابراہیم کے لئے سب سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔۔
کچھ دیر کی کاروائی کے بعد پولیس والوں کو احسان مل گیا پر اسکے ساتھ اتنی مارپیٹ کی گئی تھی کے اسے ہسپتال داخل کروانا پڑا۔۔ رفیق بیگ کو سپردِ خاک کرنے کے بعد سب گھر آئے تو تیمور نے نامحسوس انداز سے نظرے سے بجا کے بلیک مارکٹ سے پستول گولیا اور رافل خریدہ جس کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور دن چڑے اکرام جٹ کے ڈیڑے پر چند کنڈوں کے ساتھ مل کر حملہ کر دیا۔۔ اکرام جٹ تو ملک سے فرارا ہو چکا تھا اپنی سیاسی پاٹیوں کی مدد سے پر اسکا ایک بیٹا اور پوتا مارا گئے فائرسے۔۔۔ گولیوں کی بارش دونوں طرف سے ہو رہی تھی۔۔
پولیس والوں کو خبر ملی تو انہوں نے ابراہیم کو آگا کیا۔ جس نے بنا کچھ دیکھے اکرام جٹ کے ڈیڑے کی روانہ ہوا ۔۔ وہا ں ہر طرف سے گولیوں کی آوازئیں آرہی تھی ۔۔ ابراہیم نے اپنی ساری جان لگا کے تیمور کو آواز لگائی ۔۔پر تیمور اپنے حواسوں میں ہوتا تو جواب دیتا بدلے کی آگ ایسی آگ ہوتی ہے جو خاندان کے خاندا لے کر ڈوبتی ہے کچھ یہاں بھی ایسا ہوا پولیس کے بر وقت پہنچنے سے ماحول پر قابو تو ڈالا گیا پر جانی نقصان بہت زیادہ ہوا۔۔ سب قابوں میں تھا تیمور کو ہتھ کریاں لگی پولیس وین میں بیٹھا یا جا رہا تھا اچانک سے ایک گوی ابراہیم کے سینے پر لگی بالکل دل کے اوپر۔۔ ماڑنے والا پہلے انتہائی زخمی تھا پر اپنا بدلہ لینا نہیں بھولا۔۔ وہ اکرام جٹ کا بڑا بیٹا نواز جٹ تھا جسے اپنے باپ کی خبر تو سب تھی کیا کرتا پھیڑتا ہے پر اس میں کوئی انٹرفیر نہ کیا۔۔ کبھی کبھی آپ ظالم کو نہ روکنے کی وجہ سے اس ظلم کا خود شکار ہو جاتے ہےنواز کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔۔ تیمور نے نواز کی آنکھوں کے سامنے ان کے بیٹے پر فائیر کیا تھا ۔۔ جسے وہ برداست نہ کر سکا اور جان ہار گیا تھا۔۔ خود کو بھی گولیاں لگی تھی پر پھر بھی بدلہ لیا کسی اور کے گھر کا چراغ مٹا کر۔۔ ظلم اور بدلہ کسی کا گھر نہیں دیکھتا اگر وقت پر نہ روکا جائے تو تباہی مقدر بن جاتی ہے۔۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ابراہیم کو جن آنکھوں سے عشق ہوا تھا۔۔ جن میں کبھی آنسوں نہ آنے کا وعدہ کیا تھا ان آنکھوں میں سوائیے قرب کے کچھ نہ بچا تھا۔۔ ضویا کی بنا پلکے چھپکائے اپنے سامنے ابراہیم کا بے جان پرا وجود دیکھ رہی تھی کبھی ایسے بھی دنیا اجڑتی ہے کسی کی ایک پل میں سب تباہ ہو چکا تھا۔۔ اسکا گھر اسکی زندگی کچھ باقی ہی نہ بچا تھا۔۔ بے جی نے آگے برھ کر ضویا کو اپنے سینے میں چُھپا لیا۔۔ اور پھوٹ پھوٹ کے رو دی انکی اکلوتی پوتی کی زندگی اُجر چکی تھی جو ستے میں کچھ بول ہی نہیں پا رہی تھی۔۔۔ ابراہیم کا جنازہ جب اُٹھایا گیا تو ایک دم سے ضویا کو لگا وہ اب اس وجود کو ساری زندگی نہیں دیکھ پائے گی سب اتنی جلدی چھین جائے گا اسکو پتہ بھی نہ چلا اور سب کے بیچ جا کے ضویا نے چارپائی کودونوں ہاتھوں سے تھام لیا کوئی کہی نہیں لے کر جائے گا ان کو میں کسی کو اجازت نہیں دوگی ان کو لے جانے کی۔۔ یہ ایسے کیسے جا سکتے ہیں بے جی انہوں نے تو وعدہ کیا تھا ساری زندگی ساتھ نبھانے کا پھر کسے مجھے بے سہارا چھوڑکے جا سکتے ہیں کیا انکوں اپنی بیٹی کا بھی خیال نہیں آیا۔۔ جو بنا بتائے ہی چلے گئے بے جی ان سے کہے نہ اُٹھ جائے دیکھے میں نے بھی تو ان کے ساتھ مزاخ کیا تھا۔۔ یہ اسکا ہی بدلہ لے رہے ہیں میں جانتی ہو یہ ابھی اُٹھ جائے گے۔۔بے جی کی اپنی حالت غیر ہو رہی تھی اپنی جویا کا یہ حال دیکھ کر کوئی محبت کی داستان اتنی مختصر بھی ہو سکتی ہے سارا گاؤں اشک بار تھا۔۔ ہر ایک کی آنکھ میں آنسوں تھے۔۔ امتیاز بیگ کا ایک کے بعد ایک کل آساسا ہی چھن گیا ہو بھائی کی موت دیکھی اس پر جوان بیٹے کو بے جان دیکھ کے دھڑکنوں نے ساتھ دینا ہی چھوڑدیا کوئی امید نہ باقی رہی اور دل میں درد اُٹھا اور ہسپتال لے جایا گیا۔۔ بے جی بہت مشکل سے ضویا کو سنبھالا۔۔ اور ابراہیم کی آخری سب رسومات اکبر رحمان نے کروائی۔۔
★★★★★★★★★★★★★★★★
کدی آ مل سانول یار وے
میرے لوں لوں چیخ پُکار وے
میری جندڑی ہوئی اُداس وے
میرا سانول آس نہ پاس وے
مجھے ملے نہ چار کہان وے
کدی آمل سانول یار وے
تجھ ہرجائی کی بانہوں میں
اور پیار پریت کی راہوں میں
میں تو بیٹھی سب کچھ ہار وے
کدی آ مل سانول یار وے۔
ضویا نے دنیا اور دنیا والوں سے منہ ہی پھیر لیا تھا۔ جب سے ابراہیم کی وفات ہوئی تھی اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کیے رکھتی تھی۔ بے جی زبردستی کھانا کھلا دیتی تو کھا لیتی ورنہ ہر وقت شانزہ کو ہاتھوں میں لیے بیٹھی رہتی کسی قیمتی متاح کی طرح کبھی بیٹھے بیٹھے رونے لگ جاتی۔ کبھی گم سم سی کھوئی رہتی۔ اکبر نے ہر ممکن کوشش کر لی کے وہ کمرے سے باہر آئے کچھ غم ہلکا ہو پر وہ تو بس ایک ہی بات دوہراتی۔
“ویر جی وہ اتنے دور کیوں چلے گئے۔ مجھے اکیلا چھوڑکر کیا انکو میری یاد نا آتی ہو گی۔ وہ تو کہتے تھے میرے بغیر نہ رہیں گے۔ اب کسے ہمارے بغیر رہ رہے ہونگے۔” اکبر کی آنکھیں بھر آئی پر وہ کیا جواب دے جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے ہمیں ہی ان کے پاس جانا پرتا ہے۔
“ضویا تو تے میرے بہت سمجھدار بہن ہے نہ چھوڑدے یہ جوگ کچھ نہیں ملنا اپنی بچی کی طرف دیکھ اسکے لئے جینا ہے تم کو۔”
“ویر جی اسکے لئے ہی تو جی رہی ہو ورنہ میں تو ابراہیم کے ساتھ ہی مر گئی ہوتی۔ میں تو حیران ہو اب تک سانس کیسے لے رہی ہوں یا مجھے انسے اتنی محبت ہی نہ تھی جو انکے ساتھ ہی مر گئی ہوتی۔” اکبر نے تڑپ کے اپنی چھوٹی سی بہن کو گلے سے لگا لیا اور دونوں کتنی دیر تک روتے رہے۔ بے جی کمرے میں جب بھی آئی تو دونوں بہہن بھائی رو رہے تھے۔۔ بے جی نے ضویا کے سامنے اپنی ساری طاقت جمع کر کے مسکرا کے سامنے آتی تھی۔
“اکبر بس کر پہلے ہی جویا نے اپنا حال بگاڑ رکھا ہے اوپر سے تو اور رولا رہا ہے اسکی ہمت بن پر نہیں اسکے ساتھ مل کے رونے لگ جاتا ہے۔”
“ماں جی میں تو کبھی کچھ نہیں مانگا تھا رب سے صرف اسکے اچھے نصیب ہی تو مانگے تھے وہ بھی نہ دیئے اسنے۔”
“نہ اکبر پُتر ایسی باتیں نہیں کرتے وہ سوہنا ناراض ہو جاتا ہے۔ وہ تو اپنے پسندیدہ بندوں کو مشکل میں ڈالتا ہے کے وہ اسکے قریب سے قریب تر ہو جائے۔ جب ہم خوش ہوتے ہیں تم اس وقت کیوں نہیں کہتے کہ اسنے ہمیں خوشیاں عطا کی ہے۔ دکھ پر شکوے کرنے لگ جاتے ہیں۔ آزمائش دیتا ہے پر برداشت سے زیادہ نہیں ہر حال میں شکر گزار ہونا چاہیے اگر اچھا وقت نہیں رہتا تو بُرا بھی کب ٹھہرتا ہے۔ ہر حال میں شکر ادا کرتے رہوں پھر دیکھوں کیسے دنیا اور آخرت میں نوازتا ہے۔”
”اور اسکی امانت تھی لے گیا۔۔ ہم کون ہوتے ہے اچھا بُرا سوچنے والے وہ ہم سے بہتر سوچنے والا ہے۔“
شانی آئی۔سی۔یو میں تھی۔ زیادہ خطرے کی بات نہ تھی گولی بازوں پر لگی تھی۔ مارنے والا یا تو کچا کھلاڑی تھا یا صرف ڈرانا چاہتا تھا۔
کچھ گھنٹوں کے بعد شانی کو ہوش آیا تو درد سے چلا اُٹھی۔ سب لوگ ہسپتال کے کوڑیڈور میں ماجود تھے۔ ڈاکٹر نے ملنے کی اجازت دی تو اماں رشیدہ سے رہا نہ گیا۔۔اور شانی کے پاس پہنچی۔۔
“شانی جلدی صحیح ہو جا میرے بچے میں تجھے اس حال میں نہیں دیکھ سکتی۔“
”اماں کچھ نہیں ہوا دیکھوں بھلی چنگی ہوں میں اور ڈاکٹر نے بھی کہا ہے جلدی سے بھاگنے دوڑنے لگ جانا ہے پریشان مت ہو۔“ اور نظریں کسی کی تلاش میں دوڑائی۔ شازیب نے شانی کی نظر میں بے چینی دیکھی تو سمجھ گیا۔”اپنے میاں صاحب کو ڈھونڈ رہی ہو تو وہ نہیں ملنے والے کیونکہ وہ شکرانے کے نفل ادا کر رہا ہے۔ بہت زیادہ پریشان ہو گیا تھا۔”
شانی نے خفت سے بات بدلتے ہوئے پوچھا۔
“کچھ پتہ ہے کن لوگوں نے گولی چلائی۔”
“بھابھی جی آپ فکر مت ہی کرو آپ کے میاں جی پتہ کروا لیں گے۔” مہتاب کمرے میں آیا جو کے شانی کی اس حالت کا خود کو ذمے دار مان ریا تھا۔
“یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔ مجھے دھمکی بھری کالز آتی تھیں پر میں نے ان پر کان نہیں دھڑا اور خدا نخواستہ کچھ ہو جاتا تو کیا منہ دیکھاتا اماں کو۔”
“نا باؤ جی کیسی بات کرتے ہو آپ اس میں بھلا آپ کا کیا قصور آپ نے تو ایسا نہیں چاہا تھا۔
اور جو زخم قسمت میں لکھے ہو وہ مل کر ہی رہتے ہیں۔”
★★★★★★★★★★★★★★★★
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...