شانی جلدی کر آسٹیشن پہ ٹرین پہنچنے ہی والی ہو گی۔ چوہدرائن نے غصہ کرنا ہے اگر اُن کے بیٹے کا استقبال ان کے شایان شان نہ ہوا تو۔۔۔ ”
“کر تو رہی ہو اماں اب کیا ہاتھ پاؤں میں کوئی مشین فٹ کروا لوں کیا؟”
“بہت زبان چلتی ہے اگر چوہدرائن نے سن لیا نہ تیرے ساتھ ساتھ میری بھی شامت آجائے گی کہ اُن کا بیٹا شہر سے گاؤں آرہا ہے اور ان کے کھانے کا انتظام ابھی تک نہیں ہوا۔”
“اماں اگر صبح جلدی جگا دیا ہوتا تو کیوں دیر ہوتی۔”
“شاباش ہے بیٹا میں پاگلوں کی طرح تجھے آوزے مار رہی تھی۔ اس کو جگانا نہیں کہتے ہیں کیا۔؟”
شانی ساگ کو دیسی گھی کا تڑکا لگاتے ہوئے مکئی کی روٹی کی تیاری کرنے لگی تو ساتھ ساتھ دونوں ماں بیٹی کی روز کی طرح نوک جھوک بھی جاری تھی۔
اتنے میں چوہدرائن کی کڑک دار آواز دونوں کی بولتی بند کرنے کے لئے کافی تھی۔
“رشیدہ۔۔ اہ رشیدہ۔۔۔”
رشیدہ بوتل کےجن کی طرح چوہدرائن کے سامنے حاضر ہوگئی۔
“رشیدہ کام کہاں تک پہنچ گیا ہے۔۔؟”
“چوہدرائن شفی محمد گیا ہے آسٹیشن پہ باؤ جی کو لینے اور استقبال کا بھی انتظام ہو گیا ہے۔ گاؤں والوں کے لئےمٹھائی اور کھانے کا انتظام ہو گیا ہے اور باؤ صاحب کے لئے کھانا جی شانو نے بس تیار کر دیا ہے۔” شانو کا نام سنتے ہی چوہدرائن کے منہ کے زاویہ بدلے۔
“تجھے کہا تھا نہ کہ اب سے شانی کو حویلی مت لایا کر کسی اور کا انتظام کر پر تجھے کوئی فرق پڑتا بھی ہے کہ نہیں؟ ”
“چوہدرائن میں آج اس لیے لے آئی کے چھوٹے چوہدری جی آرہے ہیں اور کام زیادہ تھا۔ ورنہ میں نے سوچ رکھا تھا جی کے اس کا داخلہ کالج میں کروا دوں دس کے بعد آگے پڑھ جائے گی تو آج کل کے دور کے مطابق چل سکے گی” رشیدہ کی چلتی زبان کو روکنے کے لئے چوہدرائن کو ہاتھ اُٹھا کے روکنا پڑا۔
“اچھا اچھا اب جلدی سے فارغ ہو جاؤ” اورچوہدرائن کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
“شانی کو مہتاب چوہدری کے سامنے مت آنے دینا اور باقی کا کام نبٹاؤ جلدی سے۔۔۔“
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
“جویا پُتر اے کینا سُوہنا لگ رہا ہے نہ رنگ تیرے پہ پھولوں کی طرح کھل رہا ہے۔۔” لال رنگ کے دلہن کے جوڑے میں ملبوس ضویا رحمان ملک شرماتے ہوئے پریوں سی خوبصوت بڑی بڑی آنکھوں میں کئی خواب سجائے ہوئے بارات کے انتظار میں بے جی کے گھٹنوں پہ سر رکھ کے بیٹھی ہوئی تھی۔ بے جی نے کبھی بھی ضویا کا صحیح نام نہیں پکاراتھا۔ جب بھی بُلایا جویا ہی کہہ کے بُلایا۔ یہ نام چوہدری رحمان ملک نے اپنی پسند سے رکھا تھا اپنی اکلوتی بیٹی کا نام جو کے اکبر ملک کے سات سال بعد منتوں مرادوں سے اِن کی زندگی میں آئی تھی۔
رحمان ملک نے اپنے بچپن کے دوست سے بیٹی کا رشتہ پکا کیا۔ جو کے خاندان کی روایت کے خلاف تھا۔ ان کے خاندان میں لڑکیوں کی شادی خاندان سے باہر نہیں کی جاتی تھی پر رحمان ملک نے گاؤں کے چوہدی بننے کے بعد ہر فیصلہ اپنی مرضی سے کیا تھا۔ برادری والوں کی لاکھ مخالفت ہو پر رحمان ملک نے اپنی ہی مرضی کی۔ اور ضویا کا رشتہ امتیاز بیگ کے بیٹے ابراہیم سے کر دیا۔ جن کا اپنا کاروبار گنے کی ملوں کا تھا۔ اور ابراہیم شہر میں ہی پلا بڑا تھا۔ کبھی گاؤں آنا نہیں ہوا۔ گاؤں کے سارے کام امتیاز کے چھوٹے بھائی رفیق بیگ کے سر پر تھا۔ جو اپنی فیملی کے ساتھ گاؤں کی حویلی میں رہتے تھے۔ باقی کے سارے معملات امتیاز بیگ نے سنبھال رکھے تھے۔ بیٹے نے پڑھائی مکمل کی تو دوستی میں کیا وعدہ نبھایا اور بیٹے کی شادی کے لیے اپنے ہی گاؤں کی لڑکی کے آگے کچھ نہ بھایا۔ اور تو اور جب سے ضویا کو دیکھا تھا امتیاز بیگ نے ان کو اپنے گھر کی بہو کے روپ میں بہت بھائی تھی۔ ابراہیم بنا ماں کے پلا بڑا تھا اور خاندان کی بقا اسی میں تھی کے کوئی گھر سنبھالنے والی لڑکی لائی جائے۔
ابراہیم اپنے بابا سے بہت پیار کرتا تھا۔ ماں تو کبھی دیکھی نہیں تھی باپ نے ماں اور باپ بن کے پالا تھا۔ ابراہیم کی پیدائش کے وقت ہی نسرین بیگم اس دنیا سے پردہ کر گئی۔ امتیاز بیگ کو اپنی محبوب بیوی سے اتنا پیار تھا کہ کبھی دوسری شادی کا خیال ہی نہیں آیا اپنے آپ کو کام اور بیٹے کی پرورش میں غرک کر لیا۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
“بابا جان میں آپ کی ہر بات مانوں گا پر میری بھی اک شرط ہے کہ پہلے میں لڑکی دیکھوں گا پھر ہاں کروں گا”۔ ابراہیم دوستانہ انداز میں اپنے باپ سے مخاطب تھا۔
“ارے یار میں کہہ رہا ہوں نہ اُن کے ہاں ایسا رواج نہیں ہے ملنے مالانے کا۔”
“پر بابا جان میں اپنی لائف کا فیصلہ ایسے کیسے کر لوں آپ ایک دفعہ بات تو کریں۔”
“اچھا یار میں بات کرتا ہو رحمان سے دیکھوں اگر اس نے انکار کر دیا تو میں کچھ نہیں کر سکتا۔ ”
“یو ار گریٹ بابا جان”۔ ابراہیم نے خوشی میں امتیاز بیگ کو گلے لگا لیا۔ امتیاز بیگ نے گاؤں فون کرنے لگے۔۔ ایک دم سے ابراہیم نے کچھ سوچتے ہوئے روک دیا۔
“روک جائے بابا جان آپ ایسا کریں رفیق انکل کو کال کر دے میں بھائی تیمور کے ساتھ دیکھ لوں گا۔ اور کیسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ کیسا رہا میرا پلان ؟؟۔” اور ساتھ ہی اپنے فرضی کالر کھڑے کیے اور باپ کی طرف دیکھا۔
“پر تم یا تیمور ان کے گھر کیسے جاؤں گے۔؟ ”
“وہ آپ ہم پر چھوڑ دے بابا جان بس آپ اجازت دے۔” امتیاز بیگ نے کچھ سوچتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔
“ٹھیک ہے پر کو اُلٹی سیدھی حرکت مت کرنا سمجھے۔” امتیاز بیک نے انگلی اٹھا کے بیٹے کو تنبیہہ کیا۔
“اوکے بابا جان جو آپ کا حکم”
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ابراہیم گاؤں پہنچا تو رفیق بیگ نے پُر جوش انداز میں استقبال کیا۔ ساتھ میں تیمور اور احسان ( چچا زاد بھائی) اور نعیمہ چچی تھی۔ان کے ساتھ باتوں اور کھانے کا دور چلا۔ ابراہیم ان سب سے فارغ ہوکر آرام کے غرض سے کمرے کی طرف جا ہی رہا تھا تو کچھ یاد آنے پرتیمور کے کمرے کی طرف ہو لیا۔ اور دروازے پہ دستک دی جو توقع کے مطابق کُھلا ہوا ہی ملا۔
“تیمور یار ایک بات کرنا تھی اگر وقت ہو تو۔۔”
“ارے یار کیسی باتیں کرتے ہو تمہارے واسطے تو وقت ہی وقت ہے بولو کیا بات ہے”۔
“میں یہاں رشتےکےسلسلے میں آیا ہو۔”
“پر میری تو کوئی بہن نہیں جس کا تم رشتہ مانگوں۔” اور دونوں قہقے لگا کے ہنسے۔
“نہیں یار بات کچھ یوں ہے۔۔۔”
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ابراہیم اور تیمور دونوں گاؤں والوں کے حلیے میں چوہدری رحمان ملک کی حویلی کی طرف گئے اور انتظار کرنے لگے کب لڑکیوں کا ٹولا کنوئیں کی چھور کی طرف روانہ ہوگا۔ اسی اثنا پر کچھ لڑکیاں حویلی سے نکلی رنگ برنگے شلوار سوٹ میں خوش گپیوں میں مصروف آس پاس سے بیگانا کہ کوئی ان پہ نظر رکھے ہوئے ہے۔ جب کنوئیں والی زمین پہ پہنچی تو ایک لڑکی اپنے پیچھے چلتے دو نوجوانوں کو دیکھا اور سب کو آگاہ کیا۔ ایک لڑکی نے دونوں بازوں کو اوپر کیے اور کمر پہ دونوں ہاتھ رکھ کے بولی۔
“کون وے توسی پینڈ دے تے نہیں لگدے ورنہ اس طرف آنے کی جرت نہ کرتے ابھی اور اسی وقت بھاگ جاؤں ورنہ ہمارے ویر جی کو پتہ چل گیا نہ تو تم لوگوں کا نقشہ ہی بدل دے گے۔”ابراہیم نے گھور کے پانچوں لڑکیوں کو دیکھا تو اسے کوئی بھی اتنی خوبصورت نہ لگی جتی تعریف بابا جان نے کی تھی اور بد مزہ سا ہو گیا۔ تیمور نے آگے بڑھ کے ان سے کہا۔
“کیا طوپ چیز ہے تمہارے ویر جی ہم بھی کسی سے کم نہیں ہے بُلا لے جس کسی کو بھی بُلانا ہے۔ دیکھنا سب ہمارے آگے پیچھے گھومے گے شرط لگا کے کہہ سکتا ہو۔” اب کے ایک اور لڑکی نے بھی حصہ لیا اور بولی۔
“زیادہ تیس مارخان نہ سمجھوں اپنے آپ کو ابھی کےابھی چلتے بنوں ورنہ تم اس دنیا سے گئے سمجھوں۔” اتنےمیں اِن کے پیچھے ایک جیپ آکر روکی جس میں ایک اترنے والے با رعب آدمی سفید کلف لگے سوٹ اور پشاوری چپل ماتھے پہ تیوریاں لئے ان کے پاس آیا۔ اور لڑکیوں کے تو طوطے اُڑ گئے۔
کیا ہو رہا ہے سب ؟
سب سے پہلے بولنے والی لڑکی نے تھوک نگلا اور بولی۔
“ویر جی ہم نہیں جانتے یہ ہی پیچھا کر رہے تھے ہمارا۔ ہم نے تو زمینوں پہ آنے سے روکا پر یہ کالے سوٹ والا ہے نہ اس نے کہا بلاؤ اپنے ویر کو دیکھ لے گے۔ اب آپ بتاؤں ان کو ہم تو چلتے ہیں۔”
“کوئی کہیں نہیں جائے گا۔ جیپ میں بیٹھوں اور حویلی پہنچوں میں ان لڑکوں کو دیکھتا ہو۔” تیمور نے ابراہیم کی طرف دیکھا جو کہ جیپ میں بیٹھے وجود پہ نظرے جمائے ہوئے تھا۔ منہ تو چُھپا رکھا تھا پر بڑی بڑی کانچ سی آنکھیں جو سیدا دل میں اُتر رہی تھی۔ ابراہیم کو لگاہو ناہو یہ وہی حسینہ ہے پر پوچھے کس سے۔ شکر کے نکلی مونچھیں لگا رکھی تھیں۔ کل کو کسی نے پہچان لیا تو مشکل تو نہ ہوتی۔ پر وہ اسکا دل چاہا کہ وہ کاجل سے بھری آنکھوں والی لڑکی کے پاس جائے اور اس کے رُخ سے نقاب ہٹا دے اور بتائے اس سے ملنے کے لئے کسے وہ یہاں تک آیا ہے پر اب رہ رہ کے اپنے ہی پلان پہ غصہ آرہا تھا سیدھے سے ملنے کی بجائے پچکانہ حرکت کر بیٹھا۔ تیمور نے زور سے ابراہیم کا کندھا ہلایا اور کہا۔
“بتاؤں ان کو ہم کون ہے۔” پر ابرہیم کسی کی آنکھوں میں ہی غرق ہوا تھا اُسے کیا ہوش۔اور بولا۔
“میں۔۔۔میں تو صرف ایک لڑکی کو دیکھنے آیا تھا پر لگتا ہے واپس نہیں جا پاؤں گا۔” تیمور کا تو رنگ ہی اُڑ گیا۔
“کیا بہکی بہکی باتے کر رہے ہو اپنا تعارف کرواؤ میرے بھائی۔”اور ابراہیم بولا کچھ۔
“اب تو لگتا ہے انہی کی تعریف کرنی ہے عمر بھر ۔” اتنا ہی کہنا تھا کہ چوہدری اکبر ملک کا پارا آسمان کو چھو گیا۔ جو انجان گاؤں والوں کو اپنے مطلق بتانے کا مو قع دے رہا تھا۔ اور زور سے ایک مُکا ابراہیم کے منہ پر جڑ دیا اس آفت کی تاب نہ لاتے ہوئے زمین پر جاگرا۔ پھر بھی کوئی اثر نہ ہوا۔ تیمور کی تو جان پہ بن آئی دوسری جیپ سے کچھ اور آدمی بھی اُتر آئے اور اپنے مالک کی پیروی کرنے لگے اور دونوں کو مار مار کے منہ ہی سُجھا دیا۔ تیمور کو خبر ہوتی ایسا کچھ ہونے والا ہے وہ کبھی ابراہیم کا ساتھ نہ دیتا۔ ابراہیم نے صرف اتنا بتایا تھا کہ چوہدری رحمان ملک کی بیٹی سے شادی کرنی ہے۔ کیوں؟ کب؟ کیسے؟ جیسے سوال پہ بس اتنا کہا تھا مل کے بتاؤں گا۔ اور اپنی دورگت بنتے تیمور کو مظلوم آدمی کی طرح معافی مانگنا پڑی جس کی بہن کو چھیڑنے کی سزا مل رہی تھی اِن کو۔ اکبر ملک دھاڑے۔
“آگے سے اس گاؤں کے آس پاس بھی نظر آئے تو آج تو معاف کیا پر اگلی دفعہ اس دنیا سے بنا معافی سے جاؤں گے۔” اور جیپ میں بیٹھ کے حویلی روانہ ہوگئے ۔ ابراہیم اور تیمور اپنے زخم سہلا کے اُٹھ کھڑے ہوئیے۔ تیمور غُصے سے ابراہیم کو قوس رہا تھا۔
“آگے سے مجھ سے کسی اچھائی کی امید مت رکھنا۔ تف ہے تیری زندگی پہ جو ایک بچاؤں کا لفظ تیرے منہ سے نکلا ہو حالت بگاڑ کر رکھ دی ہے سالے نے۔” ابراہیم مسکڑاتے ہوئے بولا۔
“چُن کے لفظ استعمال کیا ہے سالا ہی تو ہے وہ میرا۔”تیمور منہ بگاڑتے ہوئے بولا۔
“تف ہے تیری زندگی پہ”
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
چوہدری مہتاب ملک اپنی تعلیم کے لئے شہر لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں تھا۔ پڑھائی مکمل ہونے پہ اپنے گاؤں میں مختلف اور آسان طریقوں سے کاشت کاری سیکھانے کا خواہشمند تھا۔ آج ڈگری لے کے گاؤں روانہ ہونے ہی والا تھا۔ جب مہتاب کے بیسٹ فرینڈ شازیب باجوا نے درخواست کی وہ بھی گاؤں دیکھنے کا خوائشمند ہے۔ یہ نہیں تھا کے امتیاز ملک ان پانچ سالوں میں کبھی نہ کہا ہو کے گاؤں دیکھاتا ہوں جناب کا موڈ ہی کبھی نہ بنا تھا۔
“آج کیسے موڈ بن گیا تمہارا گاؤں جانے کا۔۔؟” مہتاب نے سرسری ہی پوچھا۔
“کیوں میں گاؤں نہیں جاسکتا ماں جی سے وعدہ کیا تھا کے اس دفعہ لازمی تمہارے ساتھ آؤں گا سو سوچا تیری بھی یہ کچ کچ ختم ہو گاؤں چلنے کی۔” مہتاب نے پیکنگ کرتے ہوئے ایک تکیہ اُٹھا کے شازیب کو مارا۔
“بک مت اپنا کوئی مطلب ہو گا ورنہ تیرا موڈ بنتا ہے۔”
“کیا کرے بہت خودپسند قسم کے انسان واقع ہوئے ہے جب دل مانتا ہے تو اس دل کے پیچھے پیچھے ہو لیتے ہے۔ تمہاری پیکنگ ہو گئی ہو تو میری بھی کر دینا ورنہ تیرا وہ خادم ہے اُسے کہہ دینا یار بہت کام کا بندہ ہے۔”
“وہ خادم اماں نے میرے لئے گاؤں سے بجھوا رکھا ہے نہ کہ تمہارے لئے”
“یار ہی یاروں کے کام آتے ہے۔۔”
“تم تو میرے کبھی کام نہ آئے۔۔” مہتاب نے آنکھیں بری کر کے شازیب کو گھورا۔
”ابھی بول کیا کام ہے نہ کروں تو کہنا جلدی جلدی۔“ شازیب عورتوں کی طرح کمر پہ ہاتھ رکھ کے کھڑا ہو گیا۔ مہتاب مسکراتے ہوئے بولا۔ “جا یار اپنی پیکنگ کر ٹرین کا ٹائم ہونے والا ہے۔”
“ہیں۔۔۔ ہم ٹرین سے جائیں گے ؟؟؟ “۔
“ہاں تو اور کیا”۔ “لیکن کیوں حویلی سے کوئی لینے نہیں آئے گا ۔۔؟”
“یار میں نے منع کیا تھا کہ کسی کو مت لینے بھیجیں میں خود آجاؤں گا۔ ماں جی تو مان نہیں رہی تھی پر پھر بھی میں کچھ سامان اور گاڑی کو گاؤں کی طرف روانہ کر دیا اور خود ٹرین کی ٹکٹ کٹوالی۔ تجھے ٹرین میں جانا ہے تو چل۔” شازیب تنگ تھا امتیاز کے عجیب عجیب سے اڈوینچرز سے۔
“چلو یہ بھی کر لیتے ہیں تیری دوستی میں۔ میں نے کبھی ٹرین کا سفر نہیں کیا پر تیرے لیئے یہ بھی منظور۔ ” اور دانت نکالنے لگا
مہتاب اسکے اسطرح دانت نکالنے پہ سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔ کیا ؟
“کچھ نہیں یار میں تو گاؤں کی الہڑ مٹیاروں کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ ماں جی نے کہا تھا جب بھی گاؤں آئے تو یہی تمہارے لئے لڑکی دیکھوں گی۔”مہتاب کا زور دار مکا شازیب کو پڑا۔
“اس لیے جا رہا ہےتو اور میں بھی کہوں سالوں بعد کیسے دل کر گیا تمہارا
شازیب اپنی بازوں سہلاتےہوئے بولا۔
“ہاتھ ہے کے پتھر جان ہی نکال دیتا ہے۔” مہتاب ہنسنے لگ گیا۔
“تیرے ساتھ اور بھی بُرا کرنا چائیے۔ میرے گاؤں کی لڑکیوں پر کوئی میلی آنکھ مت رکھنا بہت خطرناک طریقے سے پیش آسکتا ہو” مہتاب نے انگلی اُٹھا کے دھمکایا۔
“ہاں ہاں دیکھا ہے تم کو ساری یونیوسٹی لائف تیرے ساتھ برباد کر دی آج تک نہ خُود کسی لڑکی کو آنکھ اُٹھا کے دیکھا اور نہ مجھے دیکھنے دیا۔ کبھی کبھی تو لگتا میرے ماں باپ وہ نہیں جو گھر پہ ہے بلکہ تو ہے ہر کام میں روک ٹوک ہوہہہ۔۔”
“حد ہے ۔۔۔ تیرا ہی بھلا ہے اس میں اپنے لیے بہتر عورت چاہتے ہو تو خو د بہترین بن کے دیکھاؤ۔”
“چلوں جلدی تیار ہو جاؤ سٹیشن بھی پہنچنا ہے۔” دونوں نے کندھے پہ ڈالنے والے بیگ تیار کیے اور سٹیشن کو روانہ ہوئے۔ سٹیشن گہما گہمی اپنے عروج پہ تھی۔ سب سے پہلے شازیب کے لئے ٹکٹ خریدہ اور ٹرین کا پلیٹ فارم نمبر ڈھونڈا اور ٹرین چلنے تک دونوں سٹیشن پر گھومتے رہے۔ ٹرین نے اپنا مخصوص ہارن بجا کے باور کروایا کے وہ روانگی کے لئے تیار ہے۔ تو دونوں ٹرین کے لئے لپکے سیٹ تک نہ ملی جلتی ٹرین کے سفر کا جو مزہ دروازے میں کھڑے ہو کے ملتا ہے وہ سیٹوں میں کہا۔ مختلف سٹیشنز کے پکوڑے ، سواریوں کا رش ،عورتوں کا سیٹ کے لئے جھگڑنا وقت کب پر لگا کے گزرا دونوں کو پتہ ہی نہ چلا اور اپنی منزل پہ پہنچنے پہ ادراک ہوا کے وہ گاؤں پہنچ گئے ہیں ۔کیونکہ آدھے سے زیادہ گاؤں والے لینے سٹیشن پر آئے تھے۔ پھولوں کے ہار پہنائے گئے ڈھول تاشے اور پھولوں کی بوچھاڑ سے استقبال ہوا اور جیپ میں بیٹھ کے سب گاؤں کے لئے روانہ ہوئے۔ شازیب کے لئے یہ الگ ہی دنیا معلوم ہوئی۔ اس نے کبھی ایسا جوش اور ولولہ نہیں دیکھا تھا۔ جو ان سب میں بھرا ہوا تھا۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
“بی بی صاحب چھوٹے چوہدری آگئے نے جی ساتھ میں ایک نوجوان بھی ہے۔۔ ماشااللہ بہت سونے لگ دے پئے نے جی۔” مہتاب اور شازیب دونوں حویلی میں سب سے ملتے ملاتے چوئدرائن کے پاس پہنچے تو ماں صدقے واری جا رہی تھی۔
“دو سال تک شکل نہ دیکھانے کی قسم کھائی رکھی تھی۔ باپ کے بعد ذارہ رحم نہ آیا اپنی ماں پہ کیسے اکیلے سب دیکھ رہی ہوگی اور اپنے آپ جو دیکھ کتنا کمزور ہو گیا ہے۔ نہ شفی کو لانے بھیجا بہت خودمختار ہو گیا ہے۔” مہتاب ماں کے گلے لگا اُن کے شکوے سن رہا تھا۔ جو کہ بجا تھے پر کیا کرتا۔ باپ سے وعدہ لیا تھا کہ اپنے گاؤں کی بھلائی کی خاطر اپنی تعلیم مکمل کرئے گا۔ لوگوں کی مدد کے لیے نئے طریقوں سے آشنا کروائے گا۔ جدید دود کے ساتھ چلنے کے لیے سیکھنا اور علم حا صل کرنا سب سے پہلا عمل ہے سو وہ ہی کیا۔ گاؤں آنا جانا رہتا تو کبھی بھی پڑھائی میں دل نہ لگا پاتا۔
“ماں جی آپ صحیح کہہ رہی ہیں اس کے کان کھنچنے والے ہوئے ہیں۔ یہ تو مجھے کبھی نہ لاتا وہ تو میں اس کی منتیں کر کے آیا ہو کہ مجھے ماں جی سے ملنا ہے۔ مجھے بھی ساتھ لے کے جاؤ۔” شازیب نے دونوں جذباتی ہوتے ماں بیٹے کو دیکھا تو اپنی راگ آلپنے لگ گیا۔
“جھوٹ ہے ماں جی سراسر جھوٹ بول رہا ہے۔ یہ یہاں صرف اپنے رشتے دیکھنے آیا ہے۔ اور کوئی بات نہیں ہے۔”
“بک مت مہتاب میں ایسا ہرگز نہیں ہو ماں جی۔” دونوں کی نوک جوک سے لطف اندوز ہوتی شانی رسوئی کےدروازے کے پاس کھڑی سب دیکھ رہی تھی۔
“کتنا پیار ہے نہ دونوں میں اماں۔ اور چوہدائن بھی آج کتنے پیار سے بول رہی ہیں۔ ورنہ تھانیدارنی بنی رہتی ہے۔” رشیدا نے اپنی بیٹی کی چلتی زبان کے آگے ماتھا پیٹ لیا۔ پر اس کو عقل نہ آئی۔کوئی سن لیتا تو ۔۔
“شانی تو گھر جا میں حویلی کے کام نبٹا کے آتی ہو۔” شانی اپنی ایڑیوں پہ گھوم کی رشیدہ کے آگے ہاتھ لہرا کے بولی۔
“بالکل نہیں میں آپ کو سارے کام کیسے کرنے دوں۔ پہلے ہی طبعیت صحیح نہیں ہے اور آج ویسے بھی اتنا زیادہ کام ہے۔ ابھی گاؤں والوں کی روٹی کا انتظام دیکھنا ہے پھر جاؤں گی بے فکر ہو کر۔”
“تو تے بے فکر ہو جائے گی پر چوہدرائن نے مجھے فکر میں ڈال دینا ہے۔ بہتر ہے تو گھر جا ۔۔”
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
مہتاب اور شازیب دعوت سے فارغ ہو کے باغ کی طرف چل دئے۔ اور باتوں باتوں میں ان کی نظر اماں رشیدہ پہ پڑی۔ مہتاب نے اپنے سر پر ہاتھ مارا۔
“خُدایا۔۔ میں تو اماں رشیدہ سے ملا ہی نہیں۔” شازیب نے اپنی آبروئے اچکا کے پوچھا۔
“اب یہ کون ہیں۔” مہتاب شازیب کو اپنے پیچھے آنے کا اشارا کرتا۔ اماں رشیدہ کے پاس پہنچا اور سلام کرتے سر جُھکا کے اماں سے پیار لیا تو شازیب نے بھی پیروی کی اماں رشیدہ نے دونوں کو باری باری پیار دیا۔
“کیسی ہیں اماں ۔۔۔آپ تو نظر ہی نہیں آئی۔”
“اللہ کا شُکر باؤ پُتر اللہ جُگ جُگ جوانیاں مارے۔ میں کہاں ہونا آج کام زیادہ تھا اس لیے موقع ہی نہیں ملا سکا۔۔” “اور آپ مجھ سے ملا بنا ہی جا رہی تھی۔۔ ” مہتاب نے شکوا کیا۔
“نہ باؤ صاحب میری مجال ایسی۔”
“ارے اماں میں مزاق میں کہہ رہاتھا۔ آپ گھر جا رہی ہیں کیا؟ آئیں میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں۔” اماں رشیدہ نہ نہ کرتی رہ گئی پر مہتاب نے ایک نہ سُنی اُن کی۔ جب گھر کا دروزہ کُھلا اچانک سے جس شخصیت پر مہتاب کی نظر پڑی ایک دم سے اُس کا رنگ ہی اُڑ گیا۔ ہوبہو وہی شکل ویسی ہی آنکھیں پر یہاں اس جگہ کیسے اور اچانک سے پُوچھا۔
“اماں یہ کون ہے ۔۔” اماں ایک دم سے گھبرا گئیں۔ ہڑبڑاہٹ میں بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔ “یہ۔۔۔ یہ میری بیٹی ہے شانی۔۔ باؤ جی۔۔” مہتاب نے آج سے پہلے رشیدہ اماں کی بیٹی کا سُن تو رکھا تھا پر دیکھا کبھی نہیں تھا۔ یہ پہلا اتفاق تھا اور اس کا چہرہ کسی کی یاد دلا گیا کچھ یارئیں آنکھوں کے سامنے ریِل کی طرح گزری اور بہت کچھ یاد کرواں گئی آنکھوں کے کنارے چپکے سے صاف کییے اور دوبارہ گاڑی کی طرف ہو اور چابی شازیب کو تھما کے خود شازیب کی بگھل والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
شازیب اس کی حالت دیکھتے ہوئے پوچھے بنا نہ رہ سکا جو آتے ہوئے اتنے خوشگور انداز میں تھا۔ اچانک سے اتنا سنجیدہ کیسے۔
“کیا ہوا ہے تم کو اس طرح منہ کیوں اُتر گیا ہے۔اماں کی بیٹی سے کوئی ناراضی ہے کیا پر وہ اتنی خوبصورت ہے ایک دفعہ دیکھنے سے انسان سب بھول جاتا ہے۔” مہتاب نے گھور کے شازیب کو دیکھا۔
“گاڑی چالا بک بک مت کر۔۔۔” رات بھی ساری اسی میں گزری کے پُوچھے ماں جی سے کہ نہیں پھر سوچتے ہوئے آنکھ کب لگی پتہ ہی نہ لگا…..
مہتاب نے جب سے رشیدہ اماں کے گھر اُس لڑکی کو دیکھا وہ اُن سے اس کا نام پوچھنا چاہتا تھا۔ آیا یہ واقع وہ ہی ہے جو وہ سوچ رہا تھا یا اس کا وہم ہے۔ شازیب کو بھی اس نے بتایا تو اس کا کہنا تھا۔
“میں نے سن رکھا ہے دنیا میں ایک ہی شکل کے سات لوگ ہوتے ہیں۔۔ پر ایک ہی گاؤں میں ایک ہی شکل کے دو لوگ کیسے ہو سکتے ہیں۔” یہی سوچ سوچ کے بُرا حال ہو رہا تھا کے کسی کو شک بھی نہ ہو اور اسکاکام بھی بن جائے۔ مہتاب نے رشیدہ اماں کے گھر کی راہ لی اور ان کے گھر پر پہنچ کے دستک دی تو دروازہ کھولنے والی شخصیت وہ ہی تھی۔اور آنکھیں اُسی کے چہرے کا طواف کر نے لگیں۔ شانی نے گھبراکے دروازہ بند کر دیا۔ مہتاب کو شک سا لگا۔ “دروازہ کیوں بند کیا ۔؟”
“وہ اماں گھر پر نہیں ہیں مجھے لگا وہ ہونگی اسی لیے بنا پوچھے کھول لیا۔۔”
“اچھا اندر تو آنے دو میں اماں کا انتظار کر لوں گا۔”
“معاف کیجیے گا پر اماں نے کسی بھی غیر مرد کو گھر میں آنے سے منا کیا ہے۔ ان کی غیر موجودگی میں تو میں ایسا کبھی نہیں کرو گی جو کہنا ہے ایسے ہی بول لے۔”شانی اپنی رفتار میں بھر سے بولتی چلی گئی۔مہتاب نے اپنے سر پر چپت لگا کے مسکرایا۔
“اچھا تو لگتا ہے جیسے آپ مجھے پہچانی نہیں ہیں جو ایسا کہہ رہی ہیں۔؟”
“میں آپ کو اچھے سے پہچان گئی ہوں۔ آپ حویلی سے آئے ہیں اور چوہدرائن کے بیٹے ہیں۔ جو کل شہر سے آئیں ہے اور رات کو اماں کو گھر چھوڑنے بھی آئے تھے میں سب جانتی ہوں۔” شانی نے میں سب جانتی ایسے کہا جیسے اپنی ہوشیاری منوا رہی ہو کی مجھے سب پتہ ہے۔ مہتاب کی مسکراہٹ اور گہری ہوئی۔
“واہ۔۔ آپ تو کافی عقلمند ہے۔ ایم امپریس۔۔ ”
“پوچھ سکتا ہو اماں کہا ں گئی ہے۔؟” شانی اپنے لئے عقلمند کا لفظ سن کے بے حد خوش ہوئی اور جلدی سے بتانے لگی۔
“اماں میرے کالج کا یونیفام لینے گئی ہیں۔ آج میرا داخلہ ہوا ہے کالج میں اُسی کی وجہ سے بازار گئی ہیں۔ میں نے تو کہا تھا کے میں بھی ساتھ چلوں گی۔ پر کہتی ہیں تم ہر دکان کے آگے کھڑے ہو کے کہنا مجھے یہ بھی چاہیے اوریہ بھی کیونکہ ایسا سب کچھ عاشی کے پاس بھی ہے اب بھلا میں اتنی بیوقوف ہو کیا۔ عاشی کے پاس جو کچھ ہے ویسا تو میں پہلے ہی خرید چُکی ہو پھر سے کیوں خریدو گی۔” شانی اپنی جوں میں شروع ہو چُکی تھی۔ یہ سوچے بنا کے وہ کس سے ہم کلام ہے۔ مہتاب کا دل کیا قہقہ لگا کے ہنسے پر وہ اس کو بیوقوف نہیں کہنا چاہتا تھا۔ کچھ دیر پہلے اُسےعقلمند کہہ چُکا تھا۔ جو کے اپنی سادگی میں طنز کو بھی نہیں سجھ سکی تھی۔ اور اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے حویلی کی راہ لی۔
★★★★★★★★★★★★★★★★
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...