مجھ پر تہمت مت لگاؤ
میرا کردار تو پاک دامن ہے
میں ہوں حوا کی بیٹی
مجھے بھی حساب دینا ہے
میڈم عشرت کمرے میں داخل ہوئی”
سب سٹوڈنٹس اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔
اسلام علیکم ! کلاس، میڈم عشرت نے آتے ہی سلام کیا۔
کیسے ہیں آپ سب لوگ ، خوش دلی سے انہوں نے پوچھا” اللہ کا شکر ہے ! میم, آواز وہاں سے آئی تھی جہاں سے کسی کو گمان بھی نہ تھا ۔
بہت اچھے حناء رضا”
میڈم عشرت نے اس لڑکی کی طرف دیکھتے ہی کہا”
حناء رضا آمنہ کے منہ سے اچانک نکلا۔
عروج بھی ہاتھ میں بال پوائنٹ لیے گھمائے حناء رضا کی طرف دیکھ رہی تھی ۔
عروج ایک بات کہوں آمنہ نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔
عروج ،آمنہ کے اچانک سوال پر متوجہ ہوئی۔
ضرور اس نے دم درود پڑھ کر پھونکا ہوگا تب ہی اتنے ٹاپ پر ہے”
آمنہ ایسی بات نہیں ہے عروج نے جواب میں بس اتنا کہا”
یار عروج میں نے ایسا سنا ہے اسلامی بہن جو ہے ناایسے ہی کرتے ہیں یہ لوگ ”
آمنہ نے حناء رضا کی طرف دیکھتے ہی کہا۔
میم کی بات سنو عروج نے میڈم عشرت کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے آمنہ کو کہا۔
میڈم عشرت سادہ لباس زیب تن کیے اور حجاب کیے ہوئے تھی.
بہت ہی سادہ مزاج اور خوش اخلاق لگ رہی تھی۔
عروج بھی خوش اخلاقی سراہا رہی تھی تھی۔
اسٹوڈنٹس میں ہوں آپ لوگوں کی اسلامیات کی ٹیچر”
آج سے پہلا لیکچر کلاس میں میرا ہی ہو گا۔
خیر آج تو تعارف ہی چلے گا آپ سب اس یونیورسٹی میں نئے ہیں۔
میرے کچھ اصول ہیں۔
کیا اصول چلو بھئی میں نے تو سنا تھا یونیورسٹی میں کوئی اصول نہیں ہوتے آمنہ سرگوشی کرتے بولی ۔
آمنہ کبھی تو خاموش رہا کرو عروج نے اسکی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
میڈم عشرت کہنے لگی اگر کبھی سوال پوچھنا ہو تو ہمیشہ لیکچر کے بعد پوچھنا ۔
اور کبھی بھی کوئی لیکچر سمجھ نہ آئے تو وہ آپ مجھے لیکچر کے دوران نہ کھڑا ہو۔
آج کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے یہ کہتے ہوئے میڈم عشرت کلاس سے چلی گئی۔
تمام کلاس اپنی خوش گپیوں میں مصروف تھی۔
بس ایک لڑکی کے سوا!
وہ تھی حناء رضا”
عروج بار بار اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔
اور سوچے جا رہی تو کتنی عجیب ہے یہ لڑکی نہ کسی سے بات کرتی ہے بس خاموش۔۔۔۔ کب سے خاموش بیٹھی ہے ۔
کوئی ایسے کیسے بیٹھ سکتا ہے۔
اگلا لیکچر فری تھا ۔
اتنا سوچو گی تو دماغ کی کھچڑی بن جائے وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور حناء رضا کے پاس چلی گئی۔
ایکسکیوزمی! مس حناء رضا، عروج نے جاتے ہی مخاطب کیا۔
جی کہیے”
حناء نے شائستگی سے جواب دیا۔
آپ کی کوئی دوست نہیں ہے
عروج نے پوچھا۔
جی نہیں ہےکوئی دوست” تبھی تو آپ اتنی خاموش بیٹھی ہیں۔
ایسی بات نہیں ہے سسٹر عروج۔
سسٹر لفظ سن کر عروج تھوڑا حیران ہوئی۔
کیونکہ آج کے دور میں کون ہے کہتا تھا ۔
حنا رضا عروج سے مخاطب ہوئی۔
خاموشی بھی عبادت ہوتی ہے”
آپ کے الفاظ آپ کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں”
آپ کی سوچ آپ کے لفظوں میں موجود ہوتی ہے”.
غیر ضروری باتیں انسان کی اہمیت کو کم کر دیتی ہیں”
اسکا وقار قائم نہیں رہتا ”
اس لئے بس انسان کو اتنا ہی بولنا چاہیے جتنا ضروری ہو”
یہ کہہ کر حناء رضا خاموش ہوگئی۔
اوکے میں چلتی ہوں۔
عروج جاکر اپنی نشست پر بیٹھ گئ۔
توبہ ہے اللہ!
بہت بڑا لیکچر دینے کی کیا ضرورت تھی۔
میری کیا مت ماری گئی تھی۔
جو اس سے جا کر پوچھنے چلی گئی تھی”
سر جھٹک کر کتاب کھول کر بیٹھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابدال جیسے ہی کلاس میں داخل ہوا۔
کافی زیادہ شور تھا۔
سب سٹوڈنٹس ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔
اسکا داخلہ ایم ایس سی کیمسٹری میں ہوا تھا۔
وہ جاکر اپنی نشست پر بیٹھ گیا ۔
سر مرتضی کلاس میں داخل ہوئے۔
اسلام علیکم!
میرا نام ہے محمد مرتضیٰ ”
سر مرتضیٰ نے آتے ہی اپنا تعارف کروایا”
میں نے سرگودھا یونیورسٹی سے ایم فل کیمسٹری میں کیا ہوا ہے ”
اور پی ایچ ڈی جاری ہے۔
اس لئے میں ہی آپ کا لیکچر لوں گا روزانہ میرا لیکچر پہلا ہوگا۔
اور سب سے پہلے بتائیں رول نمبرایک کون ہے۔
ابدال نے جیسے ہی سنا فوراً اپنی نشست سے کھڑا ہوگیا۔
جی سر!
میں ہوں رول نمبرایک ۔
اوکے کلاس کی جو بھی رپورٹ ہو گئی تم سے لی جائے گی اور ساری ذمہ داری تم پر عائد کر دی گئی ہے ۔ ہاہاہا!
اس کی کون مانے گا یہ ہماری نگرانی کرے گا ابدال کے پیچھے بیٹھے لڑکے کی آواز تھی ۔
اگر نمبر زیادہ آ گئے تو اس کا مطلب یہ نہیں یہ حکومت کرے گا۔
اسے تو بعد میں دیکھ لوں گا آیا بڑا رول نمبرایک یہ عمر کی آواز تھی۔
جو سرگوشیاں کر رہا تھا ابدال کو واضح سنائی دے رہی تھی۔
سرگوشیاں بند کریں۔
کلاس میں سر مرتضی کی آواز تھی۔
اوکے رول نمبرایک آپ بیٹھ جائیں۔
میں لیکچر سٹارٹ کرنے لگا ہوں سرمرتضی یہ کہہ کر بورڈ کی جانب متوجہ ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رئیس اپنے کھیتوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ گھوم رہا تھا۔
اسے سامنے کھیتوں میں جنت نظر آئی۔
اس کے چہرے کی مسکان وہی غائب ہوگئی اور تاثرات تبدیل ہوگئے تھے۔
کیسی بے حیا لڑکی ہے یہ کیسے مزے سے گھوم رہی ہے ان لوگوں کے ساتھ۔
رشتے دار بھی نہیں ہیں۔
یہ کہہ کر رئیس نے چہرہ دوسری طرف کر لیا۔
جنت آؤ آم توڑتے ہیں۔
آم کا درخت تھا کچے آم لٹک رہے تھے۔
ثانیہ کی آواز تھی۔
اچھا یہ کام بھی میں ہی کرو جنت نے جواب دیا
بندہ مہمانوں کے لئیے اتنا بھی نہیں کر سکتا۔
ارسلان نے جنت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
کم سے کم ہمارا نہیں”
اپنی دوست کا خیال رکھ کر لو۔
جنت کو اس بات کی امید نہ تھی۔
بس ہاں میں سر ہلا کر درخت کی طرف چل دی۔
جنت درخت پر چڑھنے لگی۔
رئیس کھڑا سب دیکھ رہا تھا۔
وہ بھی اس طرف بڑھنے لگا تھا۔
دیکھ کر جنت سنبھل کر چلو کہیں گری نہ پڑی ہو۔
اپنے ماں ،باپ کی اکلوتی ہو ۔
اچھا جی خود بھیج کر اب خود ہی نصیحت۔
جنت آپ تو ماہر ہیں اس کام میں”
آخر میرے کزنز بھی تو دیکھیں میری دوست کس قابل ہے۔
ثانیہ نے جنت کی طرف دیکھتے جواب دیا ۔
جنت نے ایک ٹہنی سے دوچار آم توڑے ۔
ابھی اس نے اپنا ہاتھ اگلی ٹہنی کی طرف بڑھایا تھا اسکا پاؤں پھسل گیا۔
جنت ،ثانیہ بھی اسکی چیخ پر چونکی۔
مگر جنت کپاس کے بنے ایک بچھونے پر گری تھی ۔
اسے کیا معلوم تھا کہ رئیس وہاں پہنچ گیا تھا۔
ثانیہ، رائس کو دیکھ کر حیران ہو گئی تھی۔
کہ وہ اس کا پڑوسی بھی تھا۔
جنت نے جیسے ہی آنکھیں کھولی وہ محفوظ تھی۔
یا اللہ تیرا شکر ہے۔
لیکن جیسے ہی اسکی نظر رئیس پر پڑی۔
وہ حواس باختہ ہو گئی۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہو ۔
رئیس نے جنت کو دیکھتے ہی پوچھا ۔
جنت تمہیں رئیس بھائی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
ثانیہ نے جنت کو کہا۔
انہوں نے تمہاری جان بچائی ہے۔
اچھا چلو اٹھو مجھے میرا بچھونا واپس کرو۔
رئیس نے جنت کو دیکھتے ہی کہا۔
جنت اٹھی کپڑے جھاڑے۔
اور بچھونا دینے کے لیے آگے بڑھی۔
رئیس نے آگے بڑھ کر اس کے کان میں سرگوشی کی بے شرم لڑکی۔
شرم و حیا والی لڑکیاں ایسی حرکتیں کرتی اچھی نہیں لگتی۔
رئیس کی یہ بات جنت کو اندر سے چکنا چور کر گئی تھی۔
اور اسکے اندر کی دیوار ہلا گئی تھی۔
مگر اسے کیا خبر تھی وہ تو وہاں سے جاچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عروج نے گھر آتے ہی بیگ سائیڈ ٹیبل پر رکھا”
اور صوفہ پر ہی لیٹ گئی اللہ کیسی لڑکی ہے .
ابھی تک وہ حناء کی باتوں میں کھوئی ہوئی تھی ۔
عروج کیا بڑ بڑا رہی ہو۔
اسکی ماما عروسہ کی آواز تھی۔
چلو بتاؤ۔
بیٹیاں اپنی ماں سے کوئی بات نہیں چھپاتی۔
یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا ۔
مما آج ایک لڑکی عبایا پہنے کلاس میں آئی تھی۔
عجیب سی لگی۔
بیٹا عبایا پہنا کوئی عجیب نہیں ہے۔
جس سے انسان ڈھکا چھپا رہتا ہے۔
مما آپ بھی شروع ہو گئی یہ کہتے ہوئے روح اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ میں گھر جا رہی ہوں جنت نے ثانیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
کیوں کیا ہوا جنت ؟؟
ثانیہ نے جنت کی حالت دیکھتے پوچھا ،خیریت تو ہے نا ؟
بس مجھے کام یاد آ گیا ہے یہ کہہ کر وہ گھر کی جانب چل پڑی۔
اور جاتے ہوئے سوچنے لگی میں نے اس شخص کا کیا بگاڑا ہے
جو مجھے بے حیائی اور بے شرم ہونے کے طعنے دے رہا تھا۔
اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
گھر پہنچتے ہی جنت نے وضو کیا جائے نماز بچھا کر دعا کرنے بیٹھ گئی۔
اے مولا ہم تو تیرے ہی گناہ گار بندے ہیں”
سر جھک جاتے ہیں جب جب تیرے در پر آتے ہیں”
اور تجھے ہی پکارنے والے ہیں”
اے میرے مالک آپ تو رحیم ہیں”
اور آپ ہی قرآن پاک میں ارشاد کرتے ہیں
“اور فرمایا تمہارے رب نے! مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ (المؤمنون)”””
یا اللہ تیرے ہی آگے حاضر ہوں اور آپ ہی سننے والے ہیں”
یہ سب کہتے ہوئے اسکی آنکھیں بھر آئی””
اے الہی آپ ہی ایک اور جگہ ارشاد کرتے ہیں۔
“”” اے لوگو! تم سب اللہ کے در کے فقیر ہو اللہ بے نیاز ہے اور تعریف کے لائق ہے( سورۃ فاطر)”
جنت کو یہ سب باتیں یاد تھی وہ ہمیشہ ترجمہ کے ساتھ قرآن پڑھتی تھی۔
لیکن وہ بہت لمبی عبادات کرنے والی نہ تھی۔
میرے مولا میرا دامن تو پاک ہے”
میں نے تو یہی کوششِ کی ہے ہمیشہ تیری بات مانوں میں بہت گنہگار ہوں مگر بے حیا نہیں ہوں۔
میں تو پاک دامن ہوں”
اس شخص کو نہیں معلوم ” نہیں پتا مگر اگر ایسی باتیں کیوں کہہ رہا ہے.
ایک لڑکی کے لئیے اسکا کردار ہی سب کچھ ہوتا ہے۔
اسکی پاکیزگی ہی سب کچھ ہوتی ہے ۔
یہ سب جانتی ہوں میرے مولا تبھی حفاظت کرتی ہوں۔
“”
“”””میرے مالک بس !آپ ہی دلوں کے حال سے واقف ہیں اور آپ کی سب جانتے ہیں””
یہ کہتے کہتے وہ خاموش ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عروج کا یونیورسٹی میں دوسرا دن تھا وہ آج اپنی دوست آمنہ کی ساتھ یونیورسٹی آئی تھی کیوں کہ آج اسے کوئی چھوڑنے والا نہ تھا۔
جیسے دونوں یونیورسٹی میں داخل ہوئیں عروج کی ٹکر ایک لڑکے سے ہوگئی۔
آپ دیکھ کر نہیں چل سکتے آمنہ کی آواز تھی اوہ سوری میں نے دیکھا نہیں ”
آمنہ جانے دو کوئی بات نہیں عروج حد ہوتی ہے انسان کی دیکھ کر چلنا چاہیے”
آمنہ چلو آگے تم بھی نہ یہ کہہ عروج آمنہ کا ہاتھ پکڑ کر آگے لے جانے لگی۔
دیکھ لوں گا جو چھوٹی سی بات پر سنا گئی میں بھی عمر شاہ ہوں یہ کہتا ہوا آگے چل دیا۔
عروج کو سامنے سے ابدال آتا دکھائی دیا۔
اسلام علیکم !
عروج حیران تھی وہ یہاں کیسے؟
یہ کون ہے عروج آمنہ نے ابدال کو دیکھ کر پوچھا۔
یہ میرا کزن ہے عروج نے ابدال کو دیکھ کر جواب دیا۔
اچھا مجھے تو پتا ہی نہیں تھا عروج آپ کا کزن بھی یہاں پڑھتا ہے۔
مجھے بھی آج پتا چلا ہے یہ اس یونیورسٹی میں ہے عروج نے بیگ سہی کرتے جواب دیا۔
کیسی ہو آپ ابدال نے پوچھا۔
میں ٹھیک ہوں ہم لوگ چلتے ہیں ہماری کلاس کا وقت ہوگیا ہے یہ کہہ کر عروج اور آمنہ کلاس روم کی طرف چلی گئی۔ اور ابدال اپنی کلاس کی طرف کیونکہ وہ جانتا تھا یہ ہمیشہ اپنی مرضی کی مالک رہی تھی اب بھی یہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابدال جیسے ہی کلاس میں داخل ہوا عمر لڑکی سی بحث مباحثہ کر رہا تھا عمر بھائی یہ لڑکیوں سے بحث نہیں کرتے ان کی عزت کی جاتی ہے ابدال نے اس سے کہا۔
دو کتابیں کیا پڑھ لیں خود کو چیف سمجھ لیا ہے۔
عمر بھائی Mind your language ابدال نے تلخ لہجہ میں کہا۔
اوہ شٹ اپ چار نمبر کیا زیادہ لے لیے عمر شاہ سے زبان درازی میں نے سر کو شکایت کر دینی ہے ابدال بھی غصے میں بولا ۔
کر دینا شکایت میں نہیں ڈرتا کسی سے بھی یہ کہہ کر عمر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا ۔
ابدال آپ خاموش ہو جائیں ساتھ بیٹھی حرا کی آواز تھی ابدال خاموشی سے اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی عروج اور آمنہ کلاس میں داخل ہوئیں ۔
عبایا پہننے اور حجاب کیے ہوئے حناء رضا کلاس میں پہلے سے ہی موجود نظر آئی۔
آج تو بہت گرمی ہے جون کا مہینہ شروع ہو گیا ہے آمنہ نے کہا ۔
ہاں واقعی عروج نے آمنہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ۔
اللہ اتنی گرمی اور اس لڑکی کو دیکھو عروج، آمنہ نے حناء رضا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اتنی گرمی اور پھر سے یہ حجاب اورعبایا میں ہے
۔آمنہ بس کرو اب وہ دیکھو سامنے میم عشرت آرہی ہیں بیٹھ جاؤ تم اپنی جگہ پر یہ کہتے ہی عروج بیگ سامنے بینچ پر رکھ کر بیٹھ گئی اور منہ بناتے ہوئے آمنہ بھی بیٹھ گئی۔
اسلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ!
میم نے آتے ہی سلام کیا۔
عروج نے فوراً جواب دیا
وعلیکم السلام ورحمتہ وبرکاتہ!
آمنہ نے حیرت سے عروج کی طرف دیکھا۔
ایسے کیا دیکھ رہی آمنہ چلو لیکچر کی طرف توجہ دو یہ کہہ کر عروج میم کی طرف متوجہ ہو گئی۔
کلاس آج ہم جس ٹاپک کو ڈسکس کریں گے وہ ہوگا پردہ”
پردہ بہت اچھا ٹاپک ہے میم حناء نے جواب دیا۔
خود بھی ایسی ہے پسند تو ہوگی ہی آمنہ نے سرگوشی کی۔
میم پردہ کس قسم کا ایک لڑکے نے فوراً پوچھا۔
بتاتی ہوں میم عشرت نے شائستگی سے جواب دیا۔
پردہ اسکی بہت اقسام ہیں ۔
“”نظر کا پردہ،دل کا پردہ،چہرے کا پردہ، سوچ کا پردہ”
میم مجھے بھی جاننا ہے حناء کی طرف دیکھتے ہوئے عروج نے کہا۔
لیکن حناء میم کی طرف متوجہ تھی۔
انا پسند لڑکی لگ رہی ہے ویسے تو اسلامی بہن بنی پھرتی ہے عروج چلو مجھے کیا عروج یہ کہتے ہوئے میم کی طرف متوجہ ہوگئ۔
میڈم عشرت نے سب سے پہلے لباس سے شروع کیا۔
لباس” جسے ہم پہناوا کہتے ہیں انسانی جسم کو ڈھانپتا ہے۔
اور جسم کے شرم والے حصوں کو چھپاتا ہے۔
بچوں کی کلاس نہیں تھی اسلئے میم تفصیل سے اپنی بات بیان کر رہی تھی۔
اسی طرح قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
“””” یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠(القرآن)
“””””””اے آدم کی اولاد! ہر نمازکے وقت اپنی زینت لے لو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔””””””
اسی طرح لباس وہی پہننا چاہیے جو مناسب ہو۔
اللّہ کس قسم کا ٹاپک لیکر بیٹھ گئی ہیں میم آمنہ کی سرگوشی ہوئی۔
آمنہ چپ کرو کم سے کم اسلام کی بات تو سن لیا کرو عروج یہ کہہ کر میم کی طرف متوجہ ہوگئ۔
ہاں سننا ہی پڑے گا بال پوائنٹ کو ہاتھ میں گھماتے ہوئے آمنہ نے جواب دیا۔
قرآن کریم میں بھی اسکا ذکر آیا ہے بے شک اللّہ کے ہر لفظ میں سچائی ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے۔
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًاؕ-وَ لِبَاسُ التَّقْوٰىۙ-ذٰلِكَ خَیْرٌؕ-ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ(القرآن)
“”””””اے آدم کی اولاد! بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک لباس وہ اُتارا جو تمہاری شرم کی چیزیں چھپاتا ہے اور (ایک لباس وہ جو) زیب و زینت ہے اور پرہیزگاری کا لباس سب سے بہتر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔””””””٫
اسی طرح نظر کے پردے کا ذکر ہے۔
گناہ کا آغاز آنکھوں سے بھی ہوتا ہے آپکی حیاء آپکی کی آنکھوں سے جھلکتی ہے۔
اسی طرح قرآن کریم میں ارشاد ہے۔
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(القرآن)
“””””مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔””””””
اس طرح مردوں کو بھی اپنی نگاہیں نیچے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اگر نگاہ نیچے اور نظریں جھکی رہیں گی تو آپکا ایمان آپکے ساتھ ہے۔
اس طرح ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے سورت نور میں آیا ہے ۔
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ۪-وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ۪-وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّؕ-وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(القرآن)
“””””””اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا (بدن کاحصہ) خود ہی ظاہر ہے اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹوں یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں یا اپنی (مسلمان) عورتوں یا اپنی کنیزوں پر جو ان کی ملکیت ہوں یامردوں میں سے وہ نوکر جو شہوت والے نہ ہوں یا وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر اپنے پاؤں اس لئے زور سے نہ ماریں کہ ان کی اس زینت کا پتہ چل جائے جو انہوں نے چھپائی ہوئی ہے اور اے مسلمانو! تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔”””””””””
اسی طرح ہم اس آیات کے ترجمہ کو الگ کرکے اسکی تفصیل دیکھتے ہیں ۔
اوکے میم سٹوڈنٹس کی طرف سے جواب تھا۔
اور اے نبی مومن عورتوں کو کہہ دو اپنی نگاہیں بچا کر رکھیں
اور جیسے کہ مومن مردوں کو حکم ہے اور اپنی نظر بچا کر رکھیں۔
یعنی نامحرم کی طوف نظر پڑ جائے فوراً ہٹا لیں۔
سہی بات کہہ رہی میم عروج نے سوچتے ہوئے کہا۔
اس آیت سے خواتین و حضرات اختلاف رائے رکھتے ہیں کہ پہلے مردوں کو نظریں نیچے کرنے کا حکم آیا ہے تو ہم کیوں کریں اسلئے زیادہ فرض مردوں کا ہے”
اگر عورت پردہ نہیں کرتی تو مرد اسکی طرف دیکھے
اس میں عورتوں کا کیا قصور؟؟؟؟
اسکا جواب یہ ہے۔
اگر کوئی مرد اللّہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی نظریں نہیں بچاتا اور نظروں کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ خود اپنے اعمال کا جواب دہ ہوگا۔
اسی طرح نظریں نیچی رکھنے کا حکم مردوں کو بھی ہے اور عورتوں کو بھی ہے۔
قرآن مجید میں جہاں،جہاں ذکر مردوں کا آیا ہے وہی عورتوں کا بھی آیا ہے۔
اسی طرح سوری نور کی آیت نمبر 55,56 کے مطابق نگاہیں نیچے رکھنا جنتی حوروں کی نشانی ہے۔
اور شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔
اس طرح شریک حیات کے علاوہ سوچیں بھی نہ اور کپڑے ایسے پہنے جو اعضاء کو چھپائے۔
نا کہ ظاہر کرے۔
عروج پر میم کی باتیں اثر کررہی تھی۔
اسنے یہ سب سنتے ہی خود کا جائزہ لیا
وہ کسی ایک چیز پر بھی پورا نہیں اترتی تھی۔
ابھی عروج اپنی سوچوں میں گم تھی میم عشرت کہتی آج کے لیے بس اتنا ہی وقت پورا ہوگیا لیکچر کا یہ کہتے ہوئے کلاس سے چلی گئی۔
عروج نے ایک نگاہ حناء کی طرف دیکھا جو نظریں جھکائے بیٹھی تھی یہ لڑکی پورا اترتی ہے میم کی باتوں پر اسلام اس میں جھلکتا ہے بہت واضح طور پر”
عروج،آمنہ نے اچانک مخاطب کیا ہمم بولو آمنہ عروج نے کہا۔
آج تو بور ہی ہو گئی۔
کیا مطلب تمہارا آمنہ حیرانی سے عروج نے پوچھا ۔
اتنا لمبا فلسفہ توبہ میری تو چلو کینٹین ۔
نہیں میں نہیں جاتی تم جاؤ عروج یہ کہہ کر اپنی کتابوں کی طرف متوجہ ہوگئی۔
اوکے میں تو جارہی بوریت دور کرنے یہ کہہ کر آمنہ کلاس سے باہر چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رئیس نے گھر داخل ہوتے ہی دروازے پر زور سے پاؤں مارا
غصہ کی شدت اسکی آنکھوں میں تھی۔
ہائے !میری نکمی اولاد یہ رئیس کی ماں کی آواز تھی۔
کیا ہوگیا تجھے ۔
کچھ نہیں اماں صحن میں پڑی بالٹی کو ٹھوکر لگاتا کمرے چلا گیا۔
مصیبت ہے وہ لڑکی رئیس غصہ میں بڑبڑایا ۔
میں کیوں سوچتا ہوں اسکے بارے میں آخر کیوں اپنے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...