کبیر کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسا بھی کچھ ہو سکتا ہے‘وہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر باہر پہنچا تھا‘
اس کے دروازے کے عین سامنے خاک و خون میں آلود وہ آسمانی ستارہ آج زمین کو رونق بخش رہا تھا۔۔
لوگوں کا ایک جم غفیر وہاں موجود تھا‘اور ہر ہاتھ کف افسوس مل رہا تھا۔۔
کبیر نے پاس جا کر دیکھا‘ آنکھوں کو کھول کہ اندر جھانکا‘ ‘ وہ کسی امید کے تحت اس کی نبض ٹٹول رہا تھا۔۔۔
کبیر کی اپنی نبضیں ڈوب رہی تھیں۔۔ اس کا دل کسی انجانے خدشے سے وحشت زدہ ہونے لگا۔۔۔
ستارہ کی نبض ابھی چل رہی تھی‘ کبیر کو کچھ حؤصلہ ہوا ۔۔مگر خون اسقدر بہہ رہا تھا کہ چلتی نبض کسی بھی وقت رک سکتی تھی۔۔
گاؤں میں طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں‘ اسے شہر لانے میں وقت لگ گیا‘
آپریشن تھیڑ کے باہر کھڑا کبیر شاہ ایک ایسی عورت کی زندگی کے لیئے دعاگو تھا کہ جس سے اسکا انسانیت کے علاوہ کوئی رشتہ نہ تھا‘ لیکن اسکا دل اسے کسی اور طرف لے کے جا رہا تھا آج۔۔۔
وہ عورت صرف میری وجہ سے آج اس حال میں ہے‘ میرے خدا مجھے معاف فرما دے۔۔۔ یا خدا بحق اپنے حبیب کے اسے زندگی عطا فرما۔۔۔۔
کبیر کا روم روم دعا بنا ہوا تھا۔۔۔۔۔
مریض کی حالت بہت خراب ہے‘ اس کے لیئے جلدی سے یہ دوا اور خؤن کا انتظام کریں ورنہ مشکل ہو جائے گی (
نرس نے آکر ایک چیٹ کبیر کے ہاتھ میں تھمائی)
وہ میڈیکل سٹور پہ پہنچا اور دوا خریدی‘ دوا لے کہ واپس آیا تو اسے خون کو خیال آیا۔۔۔
‘‘اتنی رات ہو رہی ہے‘ اس وقت خون کا بندوبست کہاں سے کروں‘ یا خدا مدد۔۔۔۔۔‘‘
نرس کو دوا تھما کر اس نے خون کا گروپ پوچھا۔۔۔
‘‘ پیشنٹ کا بلڈ گروپ ‘بی پوزیٹو‘ ہے۔۔۔ آپ پلیز جلدی سے بلڈ ارینج کریں۔۔۔۔
‘بی پوزیٹو‘ ۔۔۔۔ کبیر نے زیر لب دہرایا۔۔۔۔
ایکسکیوز می نرس۔۔۔۔۔ !!!
(کبیر نرس کے پیچھے بھاگا)
یس۔۔۔ !!
(نرس پلٹی)
نرس وہ بلڈ ارینج ہو گیا ہے۔۔۔۔۔ !!
واٹ ؟؟ اتنی جلدی؟؟
(نرس حیران ہوئی)
جی۔۔۔ خدا کی ذات مسبب الاسباب ہے میڈم۔۔۔۔ وہ کھبی کسی کو تنہا نہیں چھوڑتا۔۔۔۔
(کبیر کی آنکھوں میں شکرانے کے آنسو اتر آئے)
نرس۔۔۔ میرا گروپ بی پوزیٹو ہے۔۔۔ آپ جتنا چاہیں نکال لیں لیکن اسے بچا لیں ‘ پلیز۔۔۔۔
(کبیر ایک ہی سانس میں بولتا گیا)
اوو گڈ۔۔۔ یہ تو بہت اچھا ہو گیا۔۔۔ آپ آئیں میرے ساتھ۔۔۔
(نرس اسے لیئے ایک کمرے میں آگئی‘اور اسکا بلڈ ٹیسٹ کرنے لگی)
‘‘پیشنٹ آپکی وائف ہیں یا سسٹر؟؟ (
نرس نے خون کا نمونہ لیتے ہوئے سوال کیا)
کبیر یک ٹک نرس کا منہ دیکھنے لگا۔۔۔ اس سوال کا جواب تو اس کے پاس نہ تھا‘اور نہ ہی معلوم تھا۔۔۔۔
اس نے کوئی جواب نہ دیا‘
نرس نے خود سے ہی جواب آخذ کر لیا۔۔۔
‘‘ دیکھیں آپکی وائف کی حالت نازک ہے‘ آپ گھر سے کسی کو بلوا لیں ‘پھر میں اپکو آپریشن روم میں لے جاؤں گی‘ ہم مزید وقت ویسٹ نہیں کر سکتے‘ ڈائریکٹ ہی بلڈ لگا دیں گے‘ سو باہر کوئی موجود ہونا ضروری ہے جو دوا وغیرہ لا سکے‘‘
کبیر کے چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگیں۔۔۔۔
نرس۔۔۔۔!!
ہمارا کوئی نہیں ہے‘خدا کے سوا‘‘ (
کبیر کو خود خبر نہیں تھی کہ اس نے جمع کا صیغہ کیوں استمال کیا ہے)
‘‘اوو سیڈ۔۔۔ چلیں آپ آئیں میرے ساتھ۔۔۔
(نرس کو اب واقعی اس سے ہمدردی ہونے لگی تھی)
آگے پیچھے وہ دونوں آپریشن روم میں داخل ہوئے‘ ڈاکٹرز منہ پہ ماسک چڑھائے ایک وجود پہ جھکے ہوئے تھے‘ ہر طرف خؤن کی بو پھیلی ہوئی تھی‘ عجیب ہولناک موحول تھا۔۔۔
اسے بھی ماسک چڑھا کر بیڈ پہ لٹا دیا گیا‘ اسکا بیڈ ستارہ ک بیڈ کے قریب ہی تھا‘ اسکے بائیں بازو سے خون نکل نکل کر ایک باریک سی نالی کے ذریعے ستارہ کے بےجان وجود میں دوڑنے لگا۔۔۔۔
ستارہ کو چار گوکیاں لگی تھی‘ بائیں ٹانگ میں دو‘ ایک گولی پیٹ میں اور ایک سیدھے کندھے پہ۔۔۔۔
تین گولیاں نکال لی گئی تھیں۔۔۔۔
پیٹ کی گولی کا نکالنا مشکل تھا‘ ڈاکٹرز اپنی پوری کوشش کر رہئے تھے۔۔۔ ایک کوشش کبیر بھی کر رہا تھا۔۔۔
بیڈ پہ لیٹے‘آنکھیں موندے وہ خدا کے حضور پیش تھا۔۔۔ آنسو تھے کہ اس کی آنکھوں کی باڑ توڑ توڑ کر باہر گر رہے تھے‘
ایک کوشش خدا بھی تو کر رہا تھا۔۔۔ لیکن خدا کی ذات تو کوششوں سے مبرا ہے‘ وہ تو جب چاہتا ہے کہ کچھ ہو جائے تو وہ صرف ‘کن‘ کہتا ہے اور وہ چیز ہو جاتی ہے۔۔۔
لیکن خدا کسی کے دل میں زبردستی تو محبت نہیں ڈال سکتا نہ‘ وہ تو اپنے محبوب بندوں کی محبت دوسروں کے دل میں قطرہ قطرہ کر کہ اتارتا ہے۔۔۔ تا کہ وہ دلوں میں جذب ہو سکے اور دلوں کی سرزمین کو سرشار کر دے۔۔اور پھر ایسی زمین سے جو پھول بوٹے اگیں وہ اپنی خوشبو سے ہر طرف بہار کر دیں۔۔ ہر چیز کو خدا کی محبر سے مہکا دیں۔۔۔
جب کبیر کی آنکھ کھلی اس وقت فجر کی آذان ہو رہی تھی‘‘
اس نے اپنی بائیں جانب دیکھا‘‘‘اسکی بازو سے خون کی ترسیل بند ہو چکی تھی۔۔۔ بے تحاشا مشینوں میں گھری ایک نازک سی لڑکی اپنی زندگی کی بازی لڑتے لڑتے اب آنکھیں موندے بیڈ پہ بے سود پڑی تھی۔۔۔ آکسیجن ماسک میں سانس لیتی وہ شاید ابھی تک تھکی نہیں تھی۔۔۔
کبیر باہر آچکا تھا‘اس نے فجر کی نماز ادا کی اور ساتھ کی شکرانے کے نوافل بھی۔۔۔
پھر ہسپتال کے کاونٹر پہ آ کہ اس نے اپنے گاؤں کے واحد پی سی او پہ فون ملایا۔۔۔
‘‘ منشی چاچا میں کبیر بات کر رہا ہوں‘
جی جی شکر ہے خدا کا‘‘‘
آپ میرے گھر پیغام بھجوا دیں بابا فضل کو۔۔۔ اور ان سے کہیں کہ جو پیسے میرے ان کے پاس امانتا پڑے ہیں وہ بھی ساتھ لے آئے یہاں۔۔۔۔ آپ ہسپتال کا پتا لکھ لیں منشی چاچا۔۔‘‘
ہدایات دے کر کبیر نے فون بند کر دیا۔۔۔
بابا فضل کے پاس اس کے دو لاکھ تیس ہزار روپے پڑے تھے کہ جو اس نے اپنی کچھ زمین بیچ کر جمع کر رکھے تھے حج پہ جانے کے لئے۔۔۔۔ آج ان کے استعمال کا وقت آگیا تھا۔۔۔ ہسپتال کے بل اور دواؤں کا خرچہ ادا کرنے کے لیئے اس نے وہ پیسے منگوا لیئے تھے اس دعا کے ساتھ کہ زندگی رہی تھی حج پہ بھی چلا جاؤں گا۔۔۔
شام کے چار بج چکے تھے۔۔۔ ستارہ ابھی تک بے ہوش تھی۔۔۔ بابا فضل اسے پیسے دے کر گاؤں رخصت ہو گیا۔۔۔
وہ ہسپتال کے باہر بنے چائے کے ڈھابے پہ پہنچا‘ اور چائے پینے بیٹھ گیا۔۔۔۔
اس کے سامنے میز پہ اخبار پڑھا تھا‘اس نے اخبار اٹھا لیا اور چائے کی چسکیاں لیتے لیتے اخبار پڑھنے لگا۔۔۔۔
————————————————-
ستارہ کو ملک تصور نے گڈی کے پاس لایا تھا اور اسکی ساری حقیقت اسے بتا دی تھی‘گڈی باجی نے تو اپنی آنکھیں یوں پھیری تھیں کہ جیسے وہ کچھ جانتی ہی نہ ہوں‘جب کہ ستارہ انہیں بارہا بتا چکی تھی کہ وہ آئندہ جسم فروشی نہیں کرے گی۔۔
گڈی باجی نے خود کو محفوظ رکھنے کے لیئے سارا الزام ستارہ پہ لگا دیا تھا ۔۔۔ ملک تصور نے گڈی کو بہت دھمکایا اور پھر زبردستی ستارہ کو اپنے ساتھ لے گیا‘گڈی نے رتی برابر بھی مذاحمت نہ کی۔۔۔ ستارہ کو ایک ایک بات یاد آرہی تھی کہ کیسے اس نے خود کو بیچ بیچ کر گڈی کی بیٹی سیم کو انگلینڈ میں تعلیم دلوائی۔۔اور اسے اس ماحؤل سے صرف اس لیئے دور رکھا کہ اگر مجھے کسی نے نہیں بچایا تو میں کسی کو ضرور بجا سکتی ہوں۔۔۔
سیم کو تو اس نے آج تک نہیں بتایا تھا کہ وہ کام کیا کرتی ہے۔۔۔
ملگ تصور اسے اپنے ڈیرے پہ لے آیا اور اسکی خوب بے عزتی کی‘گالم گلوچ اور پتا نہیں کیا کیا۔۔۔
مگر ستارہ کی زبان خاموش تھی۔۔
ملک نے اسے گولیاں اس لیئے مار دی کہ اگر تو میرے کسی کام نہیں آئی تو تو اس مولوی کے کام بھی نہیں ائے گی۔۔۔۔
اور پھر اسے کبیر کے دروازے پہ پھینکوا دیا۔۔۔
ایک ایک منظر ستارہ کی آنکھوں میں گھومنے لگا۔۔۔ اس نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولی۔۔۔
وہ ہسپتال کے بیڈ پہ تھی۔۔۔ قریب ہی ایک ڈاکٹر اور نرس کھڑے کچھ باتیں کر رہئے تھے۔۔۔ ڈاکٹر نے اسے دیکھا۔۔۔۔
‘‘ تھینک گاڈ آپکو ہوش آگیا مسز شاہ۔۔۔
‘‘ (ڈاکٹر نے ایک سمائل اس کی جانب اچھالی۔۔۔۔ اور نرس سے مخاطب ہوا۔۔۔ )
نرس آپ انجکشن دینے سے پہلے ان کے ہسبینڈ کو بلوا لیں۔۔۔ وہ کافی پریشان تھے رات سے۔۔۔ ‘‘
ستارہ کی سمجھ سے باہر تھیں یہ باتیں۔۔۔
ادھر کبیر نے اخبار میں ایک عچیب ہی خبر پڑھی۔۔
شہر کی معروف رققصا اور محفلوں کی زینت ستارہ کل رات نامعلوم افرار کی فائرنگ سے ہلاک۔۔ پولیس نے ایف ائی آر درج کر کے ملزموں کی تلاش شروع کر دی۔۔ شہر کی معروف سماجی و سیاسی کا اظہار افسوس‘ملزمان کو جلد کیفر کردار تک پہنچانے کی ہدایت شخصیات کا اظہار افسوس‘ملزماں کو جلد کیفر کردار تک پہنچانے کی ہدایت،،،
،،، (ساتھ ستارہ کی ایک نہایت شوخ و شریر تصویر بھی لگی ہوئی تھی‘ کبیر کو ایک لمحہ لگا تھا ساری کہانی کی تہہ تک پہنچنے میں)
کبیر کو لگا کہ اس کے پیروں کے نیچے سے کسی نے زمین کو نوچ لیا ہے‘اور اس کے سر پر سے آسمان چھین لیا گیا ہے۔۔ اسکی آنکوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...