ائیر پورٹ سے ہاہر ا کر اس نے لوگوں کا ہجوم دیکھا
‘ ہر کوئی اپنے عزیزوں سے مل کہ خوش تھا‘
شادمانی ہر ایک چہرے سے یوں ٹپک رہی تھی جیسے شہد کی مکھیوں کے چھتئے سے شہد ٹپکتا ہے۔۔۔ ایک عجیب سی بے زاری کی کیفیت طاری کئے وہ آگے ہڑھتی گئی‘
ساڑھے چار انچ کی ہیل‘کالی جینز‘سرخ کرتا کہ جس کے دامن پہ کالے دھاگے کا کام کیا گیا تھا‘
گلے میں اپنے نام کا لاکٹ پہنے کھلے بالوں کے ساتھ وہ نہایت کروفر سے یوں اس ہجوم سے نکلی کہ جیسے بادلوں کی اوٹ سے چاند نکلتا ہے۔۔۔ اردگرد کھڑے لوگ اسے یوں دیکھ رہے تھے کہ جیسے وہ کوئی انوکھی چیز ہے اور کسی اور ہی دنیا سے آئی ہے۔۔
اپنی بازو میں بندھی قیمتی گھڑی سے ٹائم دیکھتے ہوئے اس کے چہرے پہ ثبت ناگواری اتنی واضع تھی کہ ایک لمحے کو ماحول کی تپش میں اضافہ ہو گیا۔۔
پارگنگ کے قریب انتظار کرتے اس نے ناجانے کتنی ہی بار ٹائم دیکھا تھا۔۔
گاڑی کے ٹائر ایک شور کہ ساتھ اس کے عین سامنے رکے اور ڈرائیور نے اس کے لئے نہایت عزت سے کار کا پچھلا دروازہ کھول دیا۔۔۔ وہ نہایت شان سے کار میں بیٹھی اور کار فراٹے بھرتی وہاں سے ہوا ہو گئی۔۔۔ قریب موجود ہر ذی نفس اس خاتون کو رشک کی نظر سے دیکھتا رہ گیا۔۔۔
وہ تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی جب ڈرائیور نے آنکھ بچا کر بیک ویو مرر سے اسے دیکھا‘
وہ تیزی سے اپنے لمبے بال سمیٹ کر انہیں جوڑے کی شکل دے رہی تھی‘
پھر اس نے اپنے دستی بیگ سے ایک کالی چادر نکالی اور اور خوب اچھی طرح خود پہ اوڑھ لی‘
اس پہ بھی وہ مطمئن نہ ہوئی اور ٹشو لے کہ آنکھوں میں لگا کاجل صاف کرنے میں مصروف ہو گئی‘
خوب اچھی طرح رگڑ کہ صاف کرنے کہ بعد اس نے ہونٹوں پہ ہلکی سی لگی ہوئی لپ سٹک کو بھی رگڑ ڈالا
بازو میں بندھی گھڑی کو اس نے سختی سے کھولا اور بیگ میں الٹ دیا‘
دوسری کلائی میں بندھی سونے کی نفیس بریسلٹ کو اتارا اور اسے بھی بیگ کی نذر کر دیا۔۔۔
‘جلدی سے کسی مارکیٹ کی طرف چلو‘ پہلے ہی کافی دیر ہو گئی ہے‘
( وہ پہلی بار ڈرائیور سے مخاطب ہوئی)
مارکیٹ پہنج کر اس نے ڈرائیور کو رکنے کا بولا اور خود ایک عام سی اور قدرے چھوٹی دکان میں گھس گئی‘ جلدی جلدی ایک کالی سلیپرز لی
‘ اور اپنے نفیس سینڈلز ایک شاپر میں ڈالے‘
دکاندار کو ١٠٠٠ کا نوٹ تھمایا تو اس نے ٨٠٠ روپے واپس کئے‘
اور وہ دکان سے نکل گئی‘‘
‘ عجیب عورت ہے استاد‘ سات ہزار کا جوتا اتار کہ دو سو والا چپل پہن لیا‘
( دکان کا چھوٹا حیران کھڑا اپنے استاد کو دیکھ رہا تھا‘اس نے آج شاید پہلی بار کوئی ایسی عورت دیکھی
‘ اوو تو چپ کر‘ ہر وقت فضول ہی سوچتا ہے‘ اسے کوئی مجبوری ہو گی‘
او وہ ڈگ گئی ہو گی سیڑھی سے اس واسطے اس نے جوتا بدل لیا ہو گا۔۔۔۔ تو جا ۔۔جا کہ شیدے لسئی والے کو بول کہ آ کہ میری گل سن جا۔۔۔ چل نکل شاباش۔۔۔‘‘
(استاد نے اسے چلتا کیا)
وہ بھاگ کر باہر آیا
‘ تو دیکھا کہ وہی کالی چادر میں چھپا وجود ایک نہایت قیمتی گاڑی میں بیٹھ رہا ہے‘
اور پھر گاڑی زن سے اس کے سامنے سے گزر گئی۔۔۔
‘‘ جلدی چلو ۔۔۔ بہت کم وقت رہ گیا ہے‘‘ (وہ پھر ڈرائیور سے مخاطب ہوئی)
گاڑی گاؤں کی حدود میں داخل ہو چکی تھی۔۔۔ وہ سنبھل گئی۔۔۔ چادر کو ٹھیک کیا۔۔۔ دھڑکتے دل کو قابو میں رکھتے ہوئے گاڑی ایک طرف روکنے کا حکم دیا۔۔۔
‘‘ میں تھوڑی دیر تک واپس آجاؤں گی‘ تم یہاں میرا انتظار کروں‘ اور خبردار میرے پیچھے آنے کی ضرورت نہیں‘‘
( ڈرائیور کو دھمکا کہ اس نے دروازہ کھولا اور باہر نکلی‘
نہ اس کہ ہاتھ میں بیگ تھا نہ ہی موبائل‘
نہ کوئی جیولری۔۔
اس نے تو اپنا چہرہ بھی چھپا لیا تھا کالی چادر میں)
گاؤں کی کچی گلیوں سے گزرتی وہ اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگی‘
اس کا دل ایک الگ ہی لے پہ دھڑک رہا تھا۔۔۔
اپنی منزل کو سامنے دیکھ کہ اس نے اپنی بے ترتیب دھڑکن کو سنبھالا اور دروازے پہ دستک دی۔۔
دروازہ کسی ملازم نے کھولا تھا۔۔۔
وہ اندر داخل ہوئی اور مطلوبہ کمرے کی جانب چل پڑی‘ بارش کی وجہ سے صحن میں کافی کیچڑ تھی‘
وہ صحن عبور کر کہ برآمدے میں پہنجی تو اسے جیسے سکون آنے لگا۔۔۔
بڑے کمرے سے آتی وہ آواز اس کے کانوں میں رس گھولنے لگی۔۔۔ وہ ہوا کہ دوش پہ سوار کمرے کی جانب
بڑھی ۔۔۔
کمرے کہ باہر جوتوں کا ایک ڈھیر لگا تھا‘
اس ڈھیر کہ پاس اس نے بھی اپنی چپل اتاری اور کمرے میں داخل ہو گئی۔۔
گاوں کے مرد نہایت ادب سے زمین پہ بیٹھے تھے‘ چودھری فتح محمد اور اس کا اکلوتا بیٹا چودھری سکندر کہ جس کی دہشت گرد و نواح کے دیہاتوں میں بھی پھیلی ہوئی تھی‘ گاوں کا اکلوتا نمبردار کہ جس کا نخرہ آسمان پہ رہتا تھا اور تو اور معزز پنچایت کے بھی سارے رکن اپنی اپنی پگڑیاں اتارے ایک جذب کی کیفیت سے اس ہستی کی جانب دیکھ رہے تھے۔۔ غریب کسان‘ہاری اور مزدور طبقہ بھی پچھلی صفوں میں بیٹھا تھا۔۔ زنانخانہ ایک پردہ لگا کہ الگ کیا گیا تھا‘ جہاں گاوں کی تقریبا ساری ہی عورتیں موجود تھی‘جوان۔۔ بوڑھی۔۔ کنواری۔۔ بیوہ۔۔ یتیم۔۔ خود چودھری فتح محمد کی اپنی پہلی بیوی جو کہ اسی گاوں کی تھی جبکہ اس نے حال ہی میں دوسری شادی ایک نوجوان دوشیزہ سے رچائی تھی ‘ وہ دونوں خواتین بھی زنانخآنے میں موجود تھی‘ ان کے کپڑے اور زیورات دیکھ کر گاوں کی غریب عورتیں احساس کمتری میں مبتلا رہتی تھی‘ ان کی ٤ عدد ملازمائیں پہلے آتی اور ان کے لئے گھر سے لایا گیا قالین بچھایا جاتا۔۔پھر خاص پردے میں وہ خواتیں تشریف لاتیں اور قالین پہ گاؤ تکیہ لگا کہ بیٹھتی‘ ایک ملازمہ ہمہ وقت انکی خدمت کے لئے موجود رہتی۔۔
‘وہ‘ اپنی چپل اتار کر کمرے میں داخل ہوئی‘ آنکھوں میں شوق کا ایک جہاں آباد کئے اس نے کالی شال اوڑھے اس ہستی کو دیکھا اور دھیمی رفتار سے چلتی وہ عورتوں کے لئے مخصوص کئے گئے حصئے میں پہنچ گئی۔۔
سب عورتوں نے اسے دیکھا اور پہچان لیا‘ البتہ بڑی بیگم صاحبہ کو اس کی آمد کوئی خآص پسند نہ آئی تھی۔۔ ان کے ماتھے پہ پڑی شکنوں میں نجانے کیوں اضافہ ہو گیا۔۔
اس نے ابھی تک نقاب نہیں الٹا تھا اور وہاں ہی پردے سے لگ کہ وہ پردے سے پار ایک تصویر کو خود میں جذب کر رہی تھی۔۔۔
ادھر وہ بھوری آنکھیں جھکی ہوئی تھی‘کالے لباس میں ملبوس اپنے چوڑے شانوں پہ کالی شال ڈالے‘ہاتھوں میں سفید موتیوں کی تسبح تھمے ‘سید کبیر شاہ‘ کہیں سے بھی تو ٢٨ سال کا نہیں لگتا تھا‘ چہرے پہ سنت رسول سجائے‘ دھیما لہجہ ہلکی آواز‘ وہ اپنی عمر سے دس بارہ برس زیادہ کا نظر آتا تھا‘ گاؤں کا بچہ بچہ اسکی عزت کرتا اور ہر کوئی اسکے گن گاتا تھا‘اس نے کچھ ہی عرصے میں سب کے دل جیت لیئے تھے‘وہ تھا بھی تو ایسا ہی‘ ہر کسی کی مدد کرنے والا ‘نیک‘خوبرو‘اپنے کام سے کام رکھنے والا‘ کسی نے آج تک اسے کھل کے ہنستے ہوئے نہ دیکھا تھا‘ کسی کا کوئی بھی مسلئہ ہو شاہ صاحب کے پاس ہر مسلئے کا حل تھا‘ وہ مسائل یوں حل کر دیتے تھے کہ سائل دمبخود رہ جاتا۔۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ خدا کا بندہ آیا کہاں سے اور کون ہے۔۔
‘‘دیکھ کرم دین۔۔!!!
تیری عرضی میں نے گاؤں والوں کے سامنے رک دی ہے‘ اب آگے تیری دھی کی قسمت ہے کہ کوں آتا ہے اسکی مدد کو‘ میری جو استطاعت تھی وہ میں نے کر دی باقی دیکھ میرے پاس مال دنیا نہیں ہے ‘ہاں تیری دھی کے سر پہ ہاتھ رکھنے میں اسکی شادی میں ضرور آؤں گا
‘‘ (شاہ جی گاوں کے ایک کمی سے مخاطب تھے)
میرے بھایئوں‘ماوں اور بہنوں یہ کرم دین ہمارا بھائی ہے‘ ہم نے خود کو ذاتوں میں تقسیم کر رکھا ہے ورنہ خمیر تو ہمارہ ایک ہی مٹی سے گوندھا ہے اس سوہنے رب نے‘ اور بیٹیاں تو ویسے بھی سب کی سانجھی ہوتی ہیں نہ۔۔۔ اسکی بیٹی کی شادی میں شامل ہونا ہمارا فرض ہے اور اسکی مدد کرنا ہمارے ایمان کا حصئہ۔۔ مجھے امید ہے کہ آپ سب مجھے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مایوس نہیں کریں گے۔۔۔
(شاہ جی کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی)
‘ عصر کا وقت ہونے والا ہے۔۔ آپ سب سے پھر ملاقات ہو گی‘ ایک دوسرے کے کام آہیں رب سوہنا آپ سب کے کام آسان کرے گا۔۔
محفل برخواست ہو گئی‘سب لوگ شاہ جی سے ہاتھ ملا کے رخصت ہونے لگے‘
‘‘وہ‘‘ ابھی تک پردے سے لگی کھڑی تھی‘ عورتیں بھی رخصت ہو گئیں اور چودھریوں کی ملازمہ قالین بھی طے کر کے لے گئی‘ لیکن وہ نہ جانے کیوں ابھی تک وہاں ہی کھڑی تھی۔۔۔
شاہ جی کمرے سے نکل گئے‘ اور سامنے برآمدے میں لھے ٹیوب ویل سے پانی نکال کہ وضو کرنے لگے۔۔
وہ آہستہ آہستہ چل کہ باہر آگئی‘ دروازے سے لگ کہ کبیر شاہ کو وضو کرتے دیکھنے لگی۔۔۔
شاہ جی پلٹے اور اسے اپنی جانب متوجہ دیکھ کہ اس طرف بڑھے۔۔
‘‘کیا بات ہے بی بی؟؟ تو کیوں آ جاتی ہے روز روز؟؟ تیرا یہاں آنا اور اتنی دیر رکنا ٹھیک نہیں‘ دیکھ میں نے تجھے پہلے بھی سمجھایا ہے کہ میں تجھے کچھ نہیں دے سکت
‘ (کبیر شاہ نے قدرے ترش لہجے میں کہا)
میں نے تو آپ سے کچھ بھی نہیں مانگا شاہ جی۔۔۔!!
میں تو یہاں بس آپکی زیارت کرنے آتی ہوں۔۔۔ اور میں جن انگاروں پہ چل کہ آتی ہوں وہ صرف میرا خدا ہی جانتا ہے۔۔۔ شاہ جی خدا کے لیئے مجھے اس سعادت سے محروم مت کرنا۔۔۔ میں بس آپ کو دیکھ کے واپس چلی جاؤں گی۔۔۔۔ ( بہتی آنکھوں سے التجا کرتی وہ ٣١ سالہ عورت اب باقاعدہ ہچکیاں لے کے رہ رہی تھی)
کبیر کا دل ڈولنے لگا۔۔۔
جا۔۔۔چلی جا یہاں سے۔۔۔۔ ہماری نماز کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔ ( وہ تلخی سے کہہ کر اس کے پاس سے گزرا اور کمرے میں داخل ہو گیا۔۔۔مزید گفتگو سے بچنے کے لیئے اس نے جلدی سے نماز شروع کر دیا۔۔۔ )
بے بسی کی تصویر بنی وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکی۔۔۔ یہ دل بھی کیا چیز ہے نہ کہ ہمیشہ اسی پہ آتا ہے کہ جو اسکی قدر نہیں کرتا۔۔۔
چادر کے پلو سے آنکھیں صاف کرتی وہ صحن کو عبور کرنے لگی‘ دروازے پر پہنج کر اس نے مڑ کر دشمن جاں کو دیکھا‘ وہ نماز میں مشغول تھا‘ ایک پھیکی سی مسکراہٹ اسکے لبوں پہ آئی اور غائب ہو گئی۔۔ گاؤں کی گلیوں سے گزرتی وہ مین روڈ تک آگئی جہاں ڈرائیور اسکا انتظار کر رہا تھا۔۔
وہ آکے گاڑی میں بیھٹی اور کافی دیر آنسو بہاتی رہی‘ ڈرایئور اسکے اس معمول سے اچھی طرح واقف تھا‘ کوئی سوال کئے بغیر وہ گاڑی چلاتا رہا‘ شہر کے پوش علاقے میں گاڑی داخل ہو چکی تھی۔۔ اس نے چادر اتاری اور بیگ میں ٹھونس دی‘ ایک ایک کر کے وہ سارے زیوار خود پہ سجانے لگی۔۔ بالوں کو سنوارا اور پاؤں صاف کر کے اپنے قیمتی جوتوں کو شرف بخشا۔۔ ہونٹوں پہ ہلکے شیڈ کی سٹک لگا کہ خود کو آہینے میں دیکھا۔۔ پھر کاجل نکال کر خوب جما کر کاجل لگایا‘‘ ایک نظر خود کو دیکھا اور پھر اکتا کر ڈراہیور سے پوچھا۔۔۔
سب ٹھیک ہے نہ؟؟ میں ٹھیک لگ رہی ہوں؟؟؟
جی میم صاحب۔۔ہمیشہ کی طرح فریش۔۔۔ ( ڈراہیور نے رٹے ہوئے جملے ادا کئیے)
گاڑی ایک علیشان بنگلے کے سامنے رکھی اور وہ ایک ادا سے گاڑی سے اتری‘اور اندد داخل ہو گئی۔۔۔
ارے ستارہ۔۔۔۔۔ !!!!
ادھر آؤ۔۔۔۔ تم کہاں سے آرہی ہو ذرا مجھے بھی تو خبر ہو۔۔۔ (
گڈی باجی نے پان کو منہ میں سیٹ کرتے ہوئے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا)
کیا ہے گڈی باجی۔۔۔ میں زرا مارکیٹ تک گئی تھی‘ آپ بھی تفتیش کرنے بیٹھ جاتی ہیں۔۔۔ دیکھیں میں آپ کے لیئے کیا لائی ہوں کراچی سے۔۔۔۔
(اس نے ہاتھ میں پکڑے ایک شاپر کی طرف اشارہ کیا)
ارے چھوڑ اسے۔۔۔۔۔۔۔
(گڈی باجی نے لالچی آنکھوں کو گھومای
ا) یہ بتا کہ اس موئے شیخ نے کتنے پیسے دئیے؟؟؟؟
آپ کے پیسے آپکو مل جائیں گے‘ میں ذرا تھوڑا آرام کر لوں
(وہ نخوت سے کہتی سیڑھاں چڑھ گئی)
ادھر گڈی باجی نے جلدی سے موبائل سے ایک نمبر ملایا۔۔۔
ہیلو۔۔۔۔ جی ملک صاحب!!!
جی میں نے یہی اطلاع دینے کے لیئے فون کیا تھا‘ وہ آپکی لیلی آ گئی ہے کراچی سے۔۔۔۔
جی جی۔۔آپکا ہی گھر ہے‘ جب مرضی آئیں۔۔۔
(وہ فون پہ قہقہے لگاتی کسی ‘گاہک‘ سے بات کر رہی تھی)
نہیں نہیں ملک صاحب۔۔۔۔ باقی سب کو منع کر دیا ہے۔۔۔ وہ خواجہ صاحب تو اپکی قیمت سے ١٠ہزار فالتو دے رہے تھے‘ لیکن میں نے تو آپکو زبان دی ہے نہ اور گڈی اپنی زبان سے کھبی نہیں ہٹتی۔۔۔۔ آپ فکر نہ کریں۔۔۔ وہ پورے چوبیس گھنٹوں کے لیئے آپکی ہے۔۔۔۔ !!!!
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...