اب تو بات کر ہی سکتی ہے۔ اب تو نور بھی نہیں آئے گی اتنی جلدی یونیورسٹی۔۔۔
کون سی بات۔۔۔
ہائے لڑکی۔۔۔ ذرا نہیں پتا آپ کو کچھ بھی۔۔۔ معاذ نے سر پر ہاتھ مار کر بڑی بزرگ عورتوں کی طرح کہا۔۔۔
کیا نہیں پتا مجھے۔۔۔ ماہم نور کے جانے سے اس کی حالت پر بلکل چپ ہو گی تھی۔۔۔ پہلے جو سب کی اتنی کوششیوں کے بعد بولنا شروﻉ کیا تھا سب ختم تھا۔۔۔ جہاں بیٹھ جاتی کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی نہ اٹھتی۔۔ اب تو ویسے ہی مصطفیٰ ولاز میں نہ تو میره تھی نہ ہی نور، تو پھر باتیں کرتی کس سے۔۔۔ سب الگ الگ ہو چکی تھی۔۔
اففف۔۔۔۔ ماہم لڑکی۔۔۔۔ پہلے تو نور تھی۔ تو اتنا مزہ آتا تھا۔ اب وه جب تک نہیں آئے گی تو میں اور آپ دوستوں کی طرح بھی تو رہ سکتے ہیں۔۔۔ ایک دوسرے کے ساتھ بات کر سکتے ہیں۔۔۔ معاذ اپنے سامنے بیٹھی ماہم کو مسلسل نوٹ کر رہا تھا۔ اس کے دل میں جو چل رہا تھا وه باتوں کے ذریعہ جانے کی کوشسش کر رہا تھا۔۔۔
میں جس سے پیار کرتی ہوں جس کے ساتھ رہ کر اچھا محسوس کرتی ہوں وه میرے سے اتنا ہی دور ہو جاتا ہے۔ مجھے دکھ ہوتا ہے۔۔ تکلیف ، وہ اذیت مجھے بھولتی نہیں۔۔۔ میں وه سب بھولا نہیں سکتی۔۔۔ مجھے وہ ہر لمحہ۔۔ ہر بات۔۔۔ ہر پل یاد آتا ہے۔۔۔میری آنکھوں کے سامنے ساری فلم چل پڑتی ہے۔۔۔میں کس سے بات کرو۔۔۔ کیا بات کرو؟؟ کس کے لئے بات کرو؟؟
کوئی بھی تو نہیں ہے۔۔۔۔۔ کوئی بھی تو نہیں۔۔۔ کالی آنکھوں میں آئی نمی اب آنسوؤں میں بدل گی تھی۔۔
کس کے لئے میں ہنسو۔۔۔ کس کو اپنا درد تکلیف دکھاوں ۔۔۔ کوئی بھی آئے گا تسلی دے گا۔۔۔ پھر اپنی زندگی میں مگن ہو جائے گا۔۔ اکیلی تو میں ہوں۔۔۔ تکلیف میں تو میں ہوں۔۔۔ ماہم کا روتے ہوے پورا جسم کانپ رہا تھا۔۔ یونیورسٹی کے لاسٹ گراؤنڈ میں اس وقت بہت ہی کم سٹوڈنٹ تھے جو دور دور بیٹھے ہوئے نظر آ رہے تھیں۔۔۔۔
۔
۔
۔
کوئی کیوں نہیں ہے ماہم۔۔۔ سب تو ہیں۔۔۔ سب ہی پاس ہے آپ کہ۔۔۔ مصطفیٰ ولاز آپ کا گھر ہے آپ بھول گی ہے؟؟۔۔۔
نور پیلس بھی تو آپ کا اپنا ہے۔۔ سب وہاں بھی آپ کے اپنے ہیں۔۔۔آپ اس دن کے بعد آئی ہی نہیں۔۔۔ نور آپ کا ڈیلی پوچھتی ہے آپ کو یاد کرتی ہے۔۔ پھر اداس بھی ہو جاتی ہے۔پر آپ نہیں آتی۔۔۔ آپ کے جو بھی رشتے تھے وه اب آپ کے پاس نہیں ہیں۔۔ پر جو اللہ نے آپ کو ایک تحفے کے طور پر دئے ہیں آپ ان کی بھی تو قدر نہیں کر رہی ہے۔۔۔
یادماضی میں جو آنکھوں کو سزا دی جائے
اس سے بہتر ہے ہر بات بھولا دی جائے۔
(#copied)
“دل در حقیقت ایک قبرستان ہے۔ یہاں ہر روز ہر پل بہت سے احساس۔۔۔ ٹوٹے اعتبار۔۔۔ عزت۔۔۔مان۔۔۔آرزو۔۔۔ اپنا دکھ دفنانا پڑتا ہے۔ ایسے میں پھر اس دل میں کسی اور کی گنجائش بچتی ہی نہیں”
بھولنا آسان نہیں ہوتا معاذ۔۔۔
آسان نہیں ہوتا۔۔۔
وه رشتے نہیں تھے۔۔ وه خون میں بسے ہوتے ہیں۔۔۔ وه اپنے ہوتے ہیں۔۔۔اللہ ان کو الگ کر دے ہم سے دور۔۔ مطلب ان کو اپنے پاس بولا لے تو الگ بات ہے۔۔۔ ہمیں پھر صبر آ ہی جاتا ہے۔ پر کوئی ایسے۔۔۔ خود سے الگ کر دے بینا کسی وجہ کے تو سکون نہیں آتا۔۔ نہ ہی آپ وہ سب بھول پاتے ہو۔۔۔ وه کوئی بھی نہیں تھے میرے بھائی، بھابی تھے۔۔ میرے ماں باپ کے بعد ان کی جگہ پر تھے۔۔۔ پر کیا ہوا بھائی باہر چلے گے اور بھابی نے مجھے باہر نکال دیا۔۔۔۔ روتے روتے ایک طنز بھری مسکان ماہم کے چہرے پر آئی۔۔۔۔
پر جو اب پاس ہے ان کی بھی تو قدر نہیں کر رہی آپ۔۔۔۔ نہ شکری اور نہ قدری تو رب کو بھی نہیں پسند۔۔۔ ہم تو پھر انسان ہے۔۔۔ اور آپ انسان ہو کر انسانوں کی جو آپ سے پیار کرتے ہیں ان کی نہ شکری کر رہی ہے۔ تو کیسے آپ کو سکون آئے گا۔۔۔ کیسے آپ اتنے لوگوں کا دل دوکھا کر سکون سے خوش رہ سکتی ہے۔
“خوش رہنے کے لئے دوسروں کو پہلے خوش کرتے ہیں۔ پھر اللہ اس خوشی کے صدقے آپ کو خوش کرتا ہے۔ ان خوشیوں کے صدقے آپ پر مہربان ہوتا ہے۔ آپ پر سکون کی چادر ڈالتا ہے۔کچھ لوگ ہمیں بہت عام سے لگتے ہیں۔ پر وہ عام نہیں ہوتے۔اور رب کے لئے بہت بہت خاص ہوتے ہیں۔ صرف اس کے کہ وه لوگ دوسروں کی خوشیوں کی وجہ بنتے ہیں نہ کہ دکھ درد کا۔ اللہ بھی پھر ایسے لوگوں پر صدقے جاتا ہے۔ ان لوگوں کے پاس جو طاقت ہوتی ہے نہ وہ کوئی عام نہیں ہوتی۔ جیسے رب کی ذات اعلی ہے۔۔۔۔۔۔بےشک۔۔۔۔ویسے ہی رب ان خاص لوگوں کو اعلی سے اعلی عطا کرتا ہے”
ماہم اس کی باتوں میں اس قدر کھوئی ہوئی تھی کہ یہ جان ہی نہ سکی کہ معاذ اب اس کے اس معصوم کھوئے کھوئے سے چہرے پر اپنی گہری نظریں ڈالے ھوے ہے۔
ماہم۔۔۔۔
ماہم۔،۔۔۔ معاذ نے پھر سے اس کا نام لیا۔۔۔
جی۔۔۔ جی۔۔۔ میں سن رہی ہو۔۔۔ ماہم نے چہرے کو صاف کیا۔۔۔
کیا میں اب سمجو کہ آپ کو میری بات سمجھ آئی ہے اور اب آپ خود کو سب سے الگ نہیں کرے گی کبھی بھی۔۔۔۔
وه من۔۔۔میں۔۔۔
آپ آرام سے سکون سے کوئی بھی بات کر سکتی ہے۔۔۔۔ میرے سے کچھ بھی شئیر کر سکتی ہے۔۔۔
سوری۔۔۔ماہم نے چھوٹا سا لفظ بولو۔۔۔
سوری کس لئے۔۔۔۔
آپ تو بہت اچھے ہے۔۔۔ اور میں نے آپ کو اتنی باتیں کی۔۔۔ آپ کو برا کہا۔۔۔ ماہم شرمندہ تھی۔۔۔
آپ نے وه سب دل سے کہا تھا؟؟
نفی میں سر ہلایا۔ میں شروﻉ سے ایسی نہیں تھی۔ ماں ابا کے جانے کے بعد بھائی بھی باہر چلے گے ،پھر بھابی اچھی نہیں تھی۔مجھے کسی کے ساتھ اتنا فری ہونا نہیں پسند۔۔۔ پھر آپ مذاق کرتے تھے مجھے۔۔۔ وه مجھے۔۔۔۔
ماہم میں سن رہا ہوں آپ بولے۔۔۔معاذ کا دل چاہ رہا تھا اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تسلی دے۔۔ اس کو خود سے لگا کر حوصلہ دے۔۔ پر ابھی ایسا کچھ بھی ممکن نہیں تھا۔۔۔
مجھے لگتا تھا آپ جیسے کبھی آپ کو سچ۔۔۔ پتا چلے گا تو نفرت کرے گے۔۔۔ طنز کرے گے۔۔۔
میں آپ کے مطابق نہیں ہوں، اس لئے باقی کچھ لوگوں کی طرح آپ میرے پر بھی ہنسے گے۔۔۔ماہم کی آواز سے ہی لگ رہا تھا کہ وه اپنی سوچ پر بہت شرمندہ ہے۔۔
ہممم۔۔۔۔ پر ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔۔ نہ ہو گا۔۔۔ اور آپ کو نہیں معلوم پر میں آپ کے بارے میں فرسٹ ڈے سے ہی جانتا ہوں۔۔
ماہم آنکھیں بڑی کے معاذ کو تک رہی تھی۔۔۔
پریشان نہ ہوں۔۔ میں بہت اچھا ہوں۔۔ یہ بات تو اب آپ کو پتا چل ہی گئ ہو گی اب تک۔۔
جی۔۔ جی۔۔۔ پر آپ نے مجھے معاف کر دیا نا۔ میں بہت شرمندہ ہوں۔۔۔
ایک شرط پر معافی ملے گی، اگر منظور ہے تو بولے۔۔۔
آپ بتائے۔۔۔
آپ اب کبھی دکھی باتیں نہیں کرے گی۔ کسی سے الگ الگ نہیں رہے گی۔سب کے ساتھ فیملی کی طرح رہے گی۔ میرے سے دوستی کرے گی اچھے بچوں کی طرح۔۔ معاذ کچھ پل کو ہنسا۔۔ اور ہاں لاسٹ بات۔۔۔ آپ ڈیلی نور پیلس میرے ساتھ یونیورسٹی سے سیدھا جایا کرے گی اور رات کا ڈئنر کر کے پھر مصطفیٰ ولاز واپس جایا کرے گی۔۔۔
معاذ کی باتوں شرطوں پر ماہم منہ کھولے بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔
ساری مانی پڑے گی کیا؟؟ پر میں روز اتنی دیر۔۔۔
میں نائل انکل سے اور باقی سب سے بھی پوچھ چکا ہوں کسی کو کوئی مثلا نہیں۔۔۔
اگر میں ایسا کچھ نہ کرو تو۔۔۔۔
تو معافی نہیں ملے گی پھر۔۔۔ اور آپ ایک اچھا دوست کھو دو گی۔۔ اللہ کو ناراض کرو گی۔۔ اور پھر۔۔۔
مجھے منظور ہے۔۔ ماہم کو ڈرانے والی بات سے پہلے ہی ماہم مان گی۔۔۔
واہ۔۔۔یہ ہوئی نہ اچھے بچوں والی بات۔۔ چلے جلدی سے اٹھے گھر چلے۔۔ سب کو بتاؤں گا میں، کہ آپ سے دوستی ہو گی میری۔۔۔ اب ہم سب سے اچھے فرینڈ بنے گے۔۔۔
ماہم اٹھ کر اس کے ساتھ چل دی۔۔ پر جاتے ھوے معاذ اس کو خوش کرنے کے لئے اپنی پرانی والی حالت میں واپس آ چکا تھا۔۔۔
اس کی مسکراہٹ پر قسمت بھی خوش ہوئی تھی۔۔ دور آسمان پر اس کے اپنے تھے کچھ جن کی دعاوں کے حصار میں یہ دونوں ایک ساتھ بند گے تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوٹی سی میری بیوی۔۔۔ میری جان۔۔۔ ناراض ہے؟؟
نہ۔۔ نہیں۔۔۔
پر مجھے تو ایسا ہی لگ رہا ہے۔۔۔ بیڈ پر بیٹھی میره کب سے بیڈ شیٹ کے ساتھ لگی لائنز بنا رہی تھی۔۔ چہرہ اداس، اداس سا تھا۔
کوئی وجہ تو ہو گی میره۔۔۔ کسی نے کچھ کہا ہے یا کوئی بات بری لگی ہے؟؟غازی کب سے لیپ ٹاپ لئے جو اپنے آفس کا کم کر رہا تھا ساتھ ہی میره کو بھی نوٹ کر رہا تھا
وه میں۔۔ مطلب۔۔۔
بول بھی دے اب میڈم۔۔۔ غازی نے آنکھیں اچکا کر پوچھا۔۔
ہم۔۔۔ مطلب۔۔۔ نور کی بہت یاد آ رہی ہے۔۔۔ تو۔۔۔۔میره گھبراہٹ سے اپنی ہاتھوں کی انگلیوں کو مروڑ رہی تھی۔۔۔
آپ تیار ہو جائے ہم دونوں چلتے ہے۔۔۔ اوکے۔۔غازی نے اس کی مشکل آسان کی۔
سچ میں۔۔۔ آپ لے کر چلے گے نہ؟؟ میره ایک دم خوشی سے چہکی تھی۔
تو اور کیا، میں نے آپ کو نہ پہلے مانا کیا تھا اب کبھی کرو گا۔۔ بلکے مجھے خود نور کی یاد آ رہی تھی۔
غازی شکریہ۔۔۔۔
تیرے رونق بھرے چہرے پر ہم صدقے
کچھ تیری آنکھوں،کچھ تیرے لبوں پر صدقے
خدا کی مورت ہے’ خوبصورت تو ہو گی ہی
اک ہم ہی ہے جو پورے کے پورے تجھ پر صدقے۔
(میری حسین)
غازی نے ایک پیار بھرا شعر اس کی نظر کیا تھا۔ جس کو سن کر میره کا چہرہ سرخ ہوا۔
غازی۔۔۔۔۔
“ہائے اللہ جان لے گی اب آپ”
کی۔۔۔ کیا ہوا ؟؟
اتنے پیار سے بار بار میرا نام لے رہی ہے۔ بندہ نہ چیز کیا کرے۔۔
میره نے ایک ہلکی سی چیت اس کے کندھے پر لگائی۔ آپ نہ بہت تیز ہے۔
ساتھ بیٹھے غازی نے جلدی سے ایک بوسہ اس کے گال کا لیا تھا۔۔جس پر میره آنکھیں کھولے ابھی کچھ سیکنڈ میں ہونے والے عمل پر حیران ہوئی۔
جان اب کہہ سکتی ہو کہ میں تیز ہوں۔۔۔میره کی حالت دیکھ کر غازی نے قہقہ لگایا۔۔۔
میره کچھ کہے بغیر واشروم چلی گی۔پیچھے غازی اب تک اپنی بیوی کی حالت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کو کوئی اعترض ہے؟؟
وه۔۔۔ نہ۔۔۔ مطلب۔۔۔
آپ کچھ بھی کہہ سکتی ہے۔۔۔ آپ کی مانی جانے گی۔۔۔ تسلی سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا۔۔۔
جیسا سب کو ٹھیک لگے۔۔۔ پر ہم اتنی جلدی۔۔ ہماری اسٹڈی۔۔۔ پریشانی کیا، بات سن کر اس کے چہرے پر عجیب سے آثار تھے۔
سب ہو جائے گا۔۔۔ مطلب سب۔۔۔ اسٹڈی، میں ہوں نہ میں کروا دو گا۔۔۔اس کے چہرے پر اس وقت مسکان تھی۔ جو کافی عرصے بعد اس قدر خوبصورتی سے اس کے چہرے پر بہت سج بھی رہی تھی۔۔
ایش۔۔۔ ہمیں کچھ بھی نہیں یاد۔۔۔بس ایک دو باتیں ہی یاد ہے۔ پر جب ہم سوچنے کی کوشش کرتے ہیں ،تو سر میں بہت درد ہوتا ہے۔یا پھر ہمیں کبھی کبھی کچھ چیزیں دھندلی دھندلی نظر آتی ہیں۔۔مصترا نور شاہ نے اداسی سے کہا۔۔
تو آپ کیوں سوچتی ہے۔ میں ہوں نہ آپ کے پاس، ہم سب ہے۔باقی آپ کو کچھ سوچنے یا یاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
جی۔۔۔ جی۔۔۔تو پھر آپ اب جلدی سے ٹھیک ہو جائے۔۔۔ نکاح کی شاپنگ میں خود اپنی پسند سے کر لو گا۔۔ اوکے۔۔۔۔
مصترا نور شاہ محمش کے چہرے کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔ جہاں اس وقت صرف خوشی ہی تھی۔۔
ایش۔۔۔ آپ خوش ہے؟
آپ کو کیا لگتا ہے۔۔۔ محمش اس کے سامنے بیٹھ کر اس کو پڑھنے لگا۔۔۔
ہمیں آپ بہت خوش لگ رہے ہے۔بلی آنکھیں جھکی ہوئی تھی۔
آپ کو پتا ہے پری جب ،جس دن آپ نے اس پیلس میں اپنے قدم رکھے تھے۔ اس ہی دن جانی کو ہوش آیا تھا۔ ہمیں آپ کے آنے کی خبر ہو گی تھی۔ پھر جب آپ کو دیکھا سچ ثابت ہو گیا آپ ہی میری پری تھی۔۔۔ آپ ہی نور پیلس کی رونق۔۔۔ شہزادی تھی۔ اس دن میں نے بہت سارا وقت مسجد میں گزارا۔ وہ مسجد جس کی وجہ سے میں آپ کے بغیر۔۔جانی کے بغیر زندہ رہا۔ وه مسجد جہاں مجھے میری زندگی کا اصل ملا۔۔
ایش۔۔۔ آپ۔۔ آپ نے قرآن یاد۔۔۔مصترا سے بات نہیں ہو پا رہی تھی۔۔۔
آپ نے بچپن میں بس ایک بار کہا تھا۔ آپ کو میری آواز اچھی اور بھی پیاری سب سے پیاری سنی ہے۔ تب سے وه بات میرے دل میں دماغ میں بیٹھ گی تھی۔ پھر آپ کے جانے کے بعد جب میں نے مسجد جانا شروﻉ کیا تو تب مجھے اپنا اصل اپنی زندگی کا اصل مطلب سمجھ آیا۔محمش نور کے ساتھ بیٹھا اس کو اپنے حصار میں لئے سب بتا رہا تھا۔۔
ای۔۔۔۔ش۔۔۔ ایش۔۔۔ آواز میں نمی ضرور تھی۔۔
ایش آپ بہت اچھے ہے۔
آپ اتنے اچھے کیوں ہے؟؟مصترا نور اس کے سینے میں منہ چھپائے آنسوؤں بہا رہی تھی۔ محمش کو اپنی شرٹ پر نمی محسوس ہوئی تو اس کا چہرہ اوپر اٹھایا۔۔۔
آپ پھر سے پری۔۔۔ اب کیوں رو رہی ہے۔۔ محمش نے اس کی بلی آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو اپنی ہاتھ کی پوروں سے چونا۔
آپ نے تب کی میری بات مانی۔۔۔ آپ کیوں اتنا خیال کرتے ہے ہمارا؟؟ کیوں ہماری پروا کرتے ہے؟؟ روتے روتے پھر سے سوال کیا گیا۔۔
۔
۔
۔
“یہ بس میرے بس میں نہیں ہے۔اور کوئی بھی ہو کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ اللہ چونتا ہے۔ آپ اس پر گلہ کرو۔۔۔ رو چیخ لو۔۔۔ فرق نہیں پڑتا۔۔ آپ خود کو اذیت دیتے ہو۔۔ پر ہوتا وہی ہے جو اللہ نے،رب نے، آپ کی قسمت میں لکھ دیا ہو۔ وه ہو کر ہی رہتا ہے۔ وه رب ہے۔ ہم اس کے غلام۔ ہم پر مانا فرض ہے۔ اس رب کی ہر بات مانا۔ اور جب کوئی نہیں مانتا تو وه آپ کو اس قدر بے بس کر دیتا ہے۔ کہ آپ رو گڑگڑا کر خود اس کے پاس جاتے ہے۔ پھر آپ بدلتے ہو۔۔۔ آپ کا مان بدلتا ہے۔۔۔ آپ کا اندر۔۔ آپ کا ضمیر۔۔۔ آپ کی روح تک بدل جاتی ہے۔ وه کرواتا ہے سب۔۔ آپ تب خود سب کو اس رب کے حوالے کر دیتے ہو۔ پھر اللہ آپ کو سمٹ ہی لیتا ہے۔”
محمش بہت آرام آرام پیار سے اس کو سب بتا رہا تھا۔ وه تو اس کی آواز الفاظ میں ہی کھوئی ہوئی تھی۔۔محمش نے ایک بوسہ اس کے سر پر بہت آرام سے لیا تھا کہ اس کے ساتھ لگی اس کی پری کو بھی خبر نہ ہوئی۔
پری کو چپ دیکھے محمش نے ایک غزل پڑھی تھی۔
خیال اس کا، تصور اس کا، یاد اس کی
چلو مان لیا پیار اس کا؛
باقی بچا کیا جو اس کا ہو
یعنی میں فقیر اس کا، سوالی اس کا
اور نہ کر گمان’ یہی پل ہے تیرا
آج میں ہوں ملنگ تیرے در کا
سوہنا رب نہ لائے وه پل کبھی
کہ تو بیٹھا ہو بے آسرا کسی در پر
اک فریاد یہی ہے تم سے اگر سن لو
چلو غصہ چھوڑوں، یہاں میرے پاس بیٹھو
کہ چار باتیں روبرو ہم بھی کریں
پھر خیال کیسا،حال کیسا، تیرا چہرہ کیسا۔
(میری حسین)
مصترا نور شاہ اس کے خوبصورت الفاظ پر کچھ بول ہی نہیں سکی۔۔۔ پر محمش کے ہاتھ پر ایک پیار بھرا بوسہ لیا پھر ہاتھوں کو اپنی آنکھوں سے لگایا تھا۔۔۔
پری یار مت کیا کرے ایسا۔۔ مجھے بلکل اچھا نہیں لگتا۔۔۔ محمش عجیب عجیب منہ کے زوایعے بنا رہا تھا۔۔۔
آپ بھی تو کرتے ہے۔۔۔ اور اتنی بار کرتے ہے۔۔۔ ہم بھی مانا کرتے ہے پر آپ باز نہیں ہوتے۔ اور جب ہم سو جاتے ہے تب۔۔۔ تب بھی تو پیار۔۔۔
ایک دم نور کی زبان کو بریک لگی۔
تب بھی پیار۔۔۔ آگے بھی آپ کچھ بول رہی تھی۔۔۔ اس کی باتوں کا مزہ لیتے ہوئے کافی خوش ہو رہا تھا۔ بتائے نہ پھر کیا۔۔۔۔۔
وه ہمیں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کافی دیر یہاں ہی رہتے ہے۔۔ پھر آپ یہاں ہاتھوں پر پیشانی پر پیار بھی کرتے ہے ہمیشہ کی طرح۔۔۔
لائک سیریسلی۔۔۔۔۔آپ کو فِیل ہوتا ہے۔۔۔
بچوں کی طرح نور نے زور سے ثبت میں سر ہلایا۔۔۔ پر آپ کسی کو نہیں بتانا۔۔۔ پھر سب تنگ کرے گے۔۔۔ اوکے۔۔۔
محمش تو اس کے خیالات جان کر توبہ توبہ کر رہا تھا۔۔۔ مطلب میں اپنی پرسنل باتیں باقی سب کو بتاؤں گا۔۔۔ پر کیوں؟؟ پھر اپنی ہی سوچوں پر توبہ استغفار پر لی۔۔۔
پری یہ باتیں۔۔۔ مطلب ہسبنڈ وائف کے درمیان جو باتیں ہوتی ہیں۔ وه کسی تھرڈ پرسن کو نہیں بتاتے۔۔۔۔
ہمیں معلوم ہے۔آپ کو ہم بچی لگتے ہے۔ ہمیں پتا ہے کوئی بھی بات نہیں بتاتے۔پردہ رکھتے ہے۔اللہ تعالیٰ نہیں تو ناراض ہوتے ہے۔ سب پتا ہے ہمیں بھی۔ خوشی سے نور ایک ایک بات الگ الگ سے بتا رہی تھی۔۔۔
واہ ماشاءالله پری۔۔محمش کو اپنی پری اس کی معصومیت پر بہت پیار آ رہا تھا۔۔ آپ کو یہ سب باتیں کس نے سکھائی۔۔۔
مھین ماما نے۔۔۔ وه بہت اچھی باتیں سکھاتی ہے۔۔ وه ماما ہے نہ، تو ان کو سب پتا ہوتا ہے۔ پھر وه سب بتاتی تھی مجھے اور میره آپی کو بھی۔۔
یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔ وه آپ کو بتاتی تھی اور آپ اس سب پر عمل بھی کرتی ہے۔ محمش نے باتیں کرتے ساتھ ہی اس کو بیڈ پر ٹھیک سے لٹا دیا۔۔
ایش ابھی نہیں پلززز۔۔۔ ابھی تو بس نو ہوئے ہے۔ ہمیں ابھی بہت باتیں کرنی ہے اور ابھی ماما بھی نہیں آئی۔۔۔۔
پری نو۔۔۔ بہت باتیں کی ہے ہم نے۔۔ اور آنی سب کے ساتھ بیٹھ کر کچھ باتیں کر رہی تھی بس آتی ہی ہو گی۔۔۔
کیا۔۔۔ سب باہر ایک ساتھ بیٹھے تھے۔ اور آپ یہاں لے آئے ہمیں۔۔۔ نور نے ناراضگی دکھاتے ہوئے کہا۔۔۔
وه بڑوں کی باتیں تھی اس لئے۔۔۔ اور آپ اب سو رہی ہے، نہیں تو کل باہر لان میں نہیں لے کر جاؤ گا۔۔ محمش کو بھی اِس کی ساری کمزوریوں کا پتا چل رہا تھا۔
نور نے جلد ہی زور سے آنکھیں بند کی۔۔۔ ہم سو گے ہے۔ پر کل لان میں ضرور جائے گے۔۔ اوکے۔۔۔محمش نے بلنکٹ اس پر سہی کیا۔۔
شب خیر میری جان۔۔۔ محمش نے ہمیشہ کی طرح اس کی پیشانی پر بوسہ کیا۔۔مصترا نور نے ایک آنکھ ذرا سی کھولنے کی کوشش کی تھی۔۔
نو پری۔۔۔ نو۔۔۔محمش اس کی حرکت پر مسکرایا تھا۔۔بلی آنکھیں پھر بند ہو گی تھی اور کچھ ہی دیر بعد اس کے لمبے سانسوں کی آواز روم میں آ رہی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...