نور پیلس کو آج دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔۔ آہینور اور مصترا نور کے لان کو پھر سے ایک نئی شکل دی گی ۔لان کے سب پھولوں، سبزے پر گولڈن لائٹ لگائی گی۔نور پیلس کی چھت، ٹرس پر بھی خوبصورتی سے باریک باریک لائٹ کی لڑیاں لٹک رہی تھی۔
اندر حال میں جاتے ہی پھولوں کی بھنی بھنی سی خوشبو اپنے حصار میں بند رہی تھی۔پورے حال کو اور سب کونوں پر وائٹ اور پنک بلون سے سجایا گیا۔۔۔
پیلس کے ملازم تک آج خوشی سے چہک رہے تھے۔ سب ایسے تیار کھڑے تھے کہ جیسے آج اس پیلس میں کسی کی شادی ہو۔۔ پر آج کا موقع ان سب کے لئے کسی بھی شادی سے بڑھ کر تھا۔۔۔آج اس پیلس کی بیٹی اتنے عرصے کے بعد دوبارہ اپنے گھر اپنی اصل جگہ آ رہی تھی۔۔
عالمگیر شاہ’ اکفہ شاہ، اور آغا جان کب سے انتظار میں کھڑے یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہے تھے۔۔ پر آج انتظار بھی ختم نہیں ہو پا رہا تھا۔۔ اتنے سالوں کے انتظار نہیں، یہ انتظار زیادہ لمبا لگ رہا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب یہ بھی اترا دے پلززز۔۔۔ ہمیں درد ہوتا ہے یہ لگا کہ۔۔۔ مصترا نور بار بار ان چیزوں سے جان چھڑوا رہی تھی۔۔۔ اتنے دنوں سے ایک ہی روم ایک جگہ، اتنی میڈیسن ،انجکشن سے اس کا برا حال تھا۔۔۔ کچھ پل میں ہی اس کا رونا شروﻉ ہو جاتا۔ اس کی ایسی حالت دیکھ کر محمش نے اس کو گھر لے جانے کا فیصلہ کیا۔ پر کوئی بھی اس حق میں نہیں تھا۔ پر ان سب کی جان نے ہی سب کی جان کو تنگ کیا ہوا تھا۔جس کی وجہ سے سب پھر چپ ہی ہو گے۔۔۔
۔
۔
۔
نا میرا بچہ۔۔۔ ایسے نہیں کرتے۔۔۔ ہم نے آپ کی بات مانی ہے نہ، تو اب آپ بھی مان لو۔۔۔ کچھ دن اور بس۔۔۔ پھر انشاءلله سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ ہم پاس ہو گے نہ آپ کے تو درد نہیں ہونے دے گے۔۔۔ آہینور بہت پیار سے اس کو بہلا رہی تھی۔ معاذ ہسپتال کے بل ادا کرنے گیا ہوا تھا جبکہ محمش اس کی ایک ایک بات نوٹ کر رہا تھا ساتھ کچھ چیزیں بھی سمٹ رہا تھا۔۔۔
پری اب آنسوؤں نہ آئے آپ کی ان آنکھوں میں۔ کوئی رونا دھونا نہیں۔۔ سمجھ رہی ہے میری بات آپ؟؟؟
کوئی درد نہیں ہو گا آپ کو میں ہو گا آپ کے پاس۔۔۔ سب ہو گے۔۔۔ ہم سب سمبھال لے گے۔۔محمش سب چھوڑ کر اس کے پاس آ بیٹھا۔۔
پر۔۔۔ میں ایسے کب تک۔۔۔ مجھے نہیں پسند نہ یہ سب۔۔۔ ڈرد لگتا ہے مجھے ہسپتال سے۔۔ اور اب گھر میں بھی یہی سب ہو گا کیا؟؟
پری۔۔۔ آپ کو پتا ہے نہ آپ ویک ہے۔۔۔ اس لئے آپ کو سہی سے اپنا ٹریٹمنٹ کروانا ہے۔۔ تاکہ آپ اچھے سے ٹھیک ہو جائے۔۔۔ بس کچھ دن لگے گے پھر یہ انجکشن ڈرپ سب ختم ہو جائے گا۔۔۔ جسٹ میڈیسن کھانی پڑے گی۔۔۔نیلی آنکھوں والا لڑکا اس کو بہت آرام سے پیار سے سمجھا رہا تھا۔۔
نور غور سے اس کی باتیں سن رہی تھی۔ پھر محمش کی باتوں کا ہی اثر تھا جو چپ چاپ اس کی باتوں پر ثبت میں سر هالا دیا۔۔۔
اب گھر چلے سب وہاں ہی انتظار کر رہے ہے آپ کا۔۔۔ محمش نے اس کو اپنے حصار میں لیا۔۔۔
وہاں ڈیڈی ،ماما، سب ہو گے نہ؟؟؟ جیجھکتے ھوے پوچھا۔۔۔ آہینور اس کے اس انداز، معصومیت پر جی بھر کر خوش ہوئی۔۔۔
جی میری پری۔۔۔ سب آئیں گے، نہیں بلکے سب آ چکے ہیں۔ اور ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔محمش کے جواب پر نور کے چہرے پر خوشی آئی۔۔۔
آہینور نے چینج کروا کے اس کو تیار کیا۔۔ پھر کچھ دیر کے بعد ان چار لوگوں کا قافلہ ہسپتال سے باہر آیا۔۔مصترا نور کو محمش نے ویلچیئر سے اٹھا کر اپنی باہوں میں بھرا اور بہت پیار سے آرام سے کار کی پچھلی سیٹ پر بٹھایا۔۔۔ نور الگ سے شرمندہ ہو رہی تھی پر یہاں کسی کو کوئی خاص پروا نہیں تھی۔ معاذ جانتا تھا اپنے لالا کے اور اپنی سیس کے رشتے کو جبکہ آہینور تو اس کے ہر رنگ سے واقف تھی۔کار اپنی منزل کی جانب چل دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے کبھی کیوں نہیں بتایا؟؟
کیوں کبھی ظاہر نہیں کیا؟؟
میں بہت تکلیف میں ہوں۔۔۔۔ مجھے سانس نہیں آتی۔۔۔ میں رو رو کے تھک گی ہوں پر آنسوؤں ختم نہیں ہو رہیں۔۔۔ میرے دل میں بہت بےچینی ہے۔۔۔ میں پاگل ہو جاؤ گی ایسے۔۔۔۔پاگل ہو جاؤ گی۔۔۔ ثانیہ چیخ چیخ کر بول رہی تھی۔۔ اس کی بکھری حالت، کوئی بھی دیکھ کر نہیں کہ سکتا تھا کہ یہ وہی ثانیہ ہے۔۔۔سوجی آنکھیں۔۔ بکھیرے بال۔۔۔ شکجوں سے بھرے کپڑے۔۔۔ حالوں بے حال ثانیہ اپنے روم میں بیٹھی رو رہی تھی۔ جبکہ باقی سب گھر والے اس کے سامنے موجود تھے اس کو ماننے کی ایک کوشش کر رہے تھے۔ جو اتنے دنوں سے اپنے کمرے میں اب تک بند تھی۔۔ دن میں ایک ٹائم جو کوئی زبردستی کھانا کہلاتا تھوڑا بہت کھا لیتی۔۔
کیوں بتاتے آپ کو؟؟ کیوں بتاتے؟؟ آپ میری بیٹی ہے۔۔۔ میری بیٹی۔۔۔ میں نے اور آپ کی ماما نے پالا ہیں آپ کو۔۔۔ صرف ہماری بیٹی ہے آپ۔۔۔احتشام رضا اس کے سوال میں بول رہے تھے۔۔۔
نہیں ہوں آپ کی بیٹی۔۔۔ میں سزا ہوں۔۔۔ بس سزا۔۔۔۔
ثانی بکواس بند کرو اپنی۔۔۔ ایک لفظ اور نہیں بولو گی اب تم۔۔۔ غازی سخت لہجے میں بولا تھا۔۔
ثانیہ اور اونچی آواز میں روتے روتے زمین پر بیٹھتی چلی گی۔۔۔ اپنے دونوں ہاتھوں کو منہ پر رکھے اپنی آواز کا ہی گلہ گھونٹ رہی تھی۔
۔
۔
۔
ثانی کیوں تکلیف دے رہی ہو خود کو۔۔۔ یہاں دیکھو میری طرف۔ جھکے سر کو نفی میں ہلایا۔ میره نے آگے ہو کر اس کے ہاتھ نیچے کے اور اپنے ہاتھ سے اس کا چہرہ اوپر کیا جو پورا آنسوؤں سے گلا ہوا پڑا تھا۔
آپ کی تو کوئی غلطی بھی نہیں ہے ثانی۔۔ آپ ابھی بھی اس گھر کی ہی بیٹی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔۔ ہم سب سے غلطی ہوئی ہیں۔۔ میرے سے ہوئی میں اس دن بہت پریشان تھی تو۔۔۔ تو یہ سب منہ سے نکل گیا۔۔ میرا مقصد آپ کو ہرٹ کرنا یا تکلیف دینا نہیں تھا۔۔ ہم نے ہی نور کی وجہ سے آپ کو پیچے کر دیا۔۔ پر اتنا بھی ہم آپ کو نہیں بھولے تھے جتنا آپ خود سب سے دور ہو گی۔۔۔آپ اب غلط سوچ رہی ہے۔۔ یہ سب باتیں سوچ کر خود کے ساتھ ساتھ ماما، پاپا ہم سب کو بھی تکلیف دے رہی ہے۔۔۔ میره بہت پیار سے اس کو سمجھا رہی تھی ساتھ ہی ساتھ اس کے بکھرے بال بھی سنوارنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔
آپ کو لگتا ہے ہم آپ سے پیار نہیں کرتے۔۔۔ یا ماما پاپا نے آپ کو کبھی پیار نہیں کیا۔۔۔
نہ۔۔۔ سر کو نفی میں ہلایا۔۔۔
پھر آپ کو ایسے اچھا لگ رہا ہے۔۔ کیا یہ سب۔۔۔ ماما کا بی پی آپ کی وجہ سے اتنا ہائی ہے۔۔ ثانیہ نے فورا جھکے سر کو اٹھایا اور اپنی نگائیں اپنی ماں کی جانب کی۔۔۔
اب غور سے دیکھنے پر اپنے ماں باپ کی حالت کا اندازہ ہوا۔۔۔۔
آئی ایم سوری۔۔۔۔ مجھے معاف کر دے پلزز۔۔۔ ثانیہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنے ماں باپ کے پاؤں میں بیٹھی معافی مانگ رہی تھی۔۔۔
نہ۔۔۔ نہیں میرا بیٹا۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ مجھے میری بیٹی پہلے جیسی ہستی مسکراتی چاہے بس۔۔۔ رضا صاحب نے اس کو اپنے اور المیہ کے درمیان بٹھایا۔۔۔اس کی سسکیاں کافی دیر روم میں گونجتی رہی۔۔۔
پھر اس کے لمبے سانسوں کی آواز آتی رہی۔ غازی نے اس کو گود میں اٹھا کر بیڈ پر لٹا دیا۔۔میره نے بلنکیکٹ اس کے اوپر دیا۔۔ جیسے ہی دونوں پیچھے ہوئے اس نے اپنی نیند سے بھری آنکھیں کھولی اور غازی کا ہاتھ پکڑ کر نفی میں سر هالا۔۔۔ نہ جانے کا اشارہ دیا گیا۔ ایک طرف غازی جبکہ دوسری طرف میره اس کے پاس بیٹھ گے۔۔۔ رضا اور المیہ دونوں کچھ ہی دیر میں روم سے چلے گے۔۔۔
غازی۔۔۔ ثانی کو ٹمپریچر ہو رہا ہے۔۔۔
غازی جو الگ ہی کچھ سوچ رہا تھا ایک دم میره کی بات پر ہوش میں آیا۔۔۔
ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔۔
ثانی کو ٹمپریچر ہو رہا ہے۔۔۔ اور اس نے صبح صرف ایک گلاس جوس کا پیا تھا۔۔ میره اس کی حالت سے کافی پریشان ہو رہی تھی۔۔اتنی پریشانی تھی لگ ہی نہیں رہا تھا کچھ دن پہلے اس ہی گھر میں شادی ہوئی ہو۔۔ کچھ بھی نارمل نہیں ہو رہا تھا۔۔۔
اچھا میں ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں، آپ اس کے لئے کچھ لائٹ سا بنوا دے۔۔۔
میره اٹھ کر باہر کی جانب گی جبکہ غازی نے فون پر ڈاکٹر کو آنے کا کہا تھا۔۔۔ ایک نظر سوئی ہوئی اپنی چھوٹی بہن پر ڈالی۔ جس کا ان چند ہی دنوں میں کوئی حال نہیں رہا تھا۔۔ ابھی بھی اس کا چہرہ بخار سے لال سرخ ہو رہا تھا، جبکہ آنسوؤں کے نشان اب بھی چہرے پر باقی تھے۔۔۔
غلطی تو ہم سب سے ہوئی ہے۔ ایک دم سے ثانی کو وه پیار اہمیت نہیں دی جو نور کے آنے سے پہلے دی ہوئی تھی۔۔۔ قصور تو کسی کو بھی نہیں بنتا پھر۔۔۔ نور سے پیار کوئی بھی نہیں کرتا تھا وه پیار لیتی تھی۔۔وه سب قدرتی تھا۔۔۔ پر ہم ثانی کو سمجھ نہیں سکے۔۔۔ اس کی باتوں کو۔۔۔انداز کو۔۔۔ اس لئے یہ سب ہوا۔۔ غازی اپنی اور باقی سب کی غلطیاں یاد کر رہا تھا۔۔۔ گزارا ہوا وقت یاد کر رہا تھا۔۔۔ وه وقت جو بہت اچھا گزارا تھا پر اب آج کے وقت کو خود سے ٹھیک ،بہتر کرنے کے لئے بہت ہمت کی ضرورت تھی۔۔۔
افنان نے سوئی ہوئی اپنی بہن پر ایک نظر ڈالی اور ایک تھکا دینے والی سانس خارج کی۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے بہت لمبی مسافت تہ کی ہو۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دور سے ہی نور پیلس کی چکا چوند دیکھنے والے کو اپنی جانب متوجہ کر رہی تھی۔۔۔پھر بلیک کار نور پیلس کے اندر انٹر ہوئی۔کار کی آواز پر سب افراد گھر کے مین گیٹ پر آئے۔۔
محمش نے بہت آرام سے نور کو کار سے نکلنے میں مدد کی۔۔۔
نور کے ایک جانب محمش اور دوسری جانب آہینور تھی۔ آرام آرام سے قدم رکھتی اس گھر کی چھوٹی جان نور پیلس میں آ رہی تھی۔لائٹ پنک شوٹ فراک ساتھ کیپری پہنے۔۔۔ سر پر ہمرنگ ڈوپٹہ لئے بلکل سادہ سی۔۔۔پر اس کی صحت دیکھنے سے ہی ٹھیک نہیں معلوم ہوتی تھی۔ کمزور سی اس لڑکی ابھی کچھ قدم چل کر ہی تھک گی تھی۔۔۔
پھر قدم روک دئے۔۔۔ لمبے لمبے سانس لئے۔۔۔
پری آپ ٹھیک ہو؟؟ محمش نے اس کا بائیاں ہاتھ پکڑا تھا جبکہ دوسرے اپنے ایک ہاتھ سے اس کو پیچھے سے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔۔۔
ہم تھک گے۔۔۔اور نہیں۔۔۔ چلا جانا ہم سے۔۔۔
آہینور کو کلیجہ منہ کو آتا تھا اپنی بیٹی کی ایسی حالت دیکھ کر۔۔۔۔معاذ ویلچیر لے آؤ۔۔
محمش نے پر روکا۔۔۔ میں اٹھا لو گا اس کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ محمش کبھی بھی نہیں چاہتا تھا اس کی پری اس طرح کی چیئر کو کبھی یوز کرے۔۔۔
نہیں ہم آسانی میں رہے گے ایسے۔۔ پلزز جلدی سے لا دے بھائی۔۔۔ نور نے تھکے انداز میں اپنا سر آہینور کے کندھے پر رکھا۔۔۔
بس میری جان۔۔۔ آپ ٹھیک ہو جاؤ گی بہت جلد۔۔۔ انشاءلله۔۔۔پریشان نہیں ہونا میرے بیٹے نے۔۔۔۔آہینور نے اس کو بہلایا۔۔۔
معاذ ویلچیر لے آیا تھا۔ نور کو بٹھایا تھا پر محمش کو یہ وقت سب سے برا لگ رہا تھا۔ معاذ نے چیئر کو موو کرنا چاہا پر محمش نے روک دیا۔۔
روک جاؤ۔۔۔ میں خود کر لو گا۔۔ محمش کا لہجہ سخت تھا۔جو ان سب کو محسسوس ہوا۔۔۔
آغا جان نے پہلے آہینور کے ماتھے پر بوسہ دیا پھر جھک کر مصترا نور کو بھی ایسے ہی پیار دیا۔۔ خوش آمدید میری شہزادیوں۔۔۔ میری بیٹیاں۔۔۔ اللہ آپ دونوں کو سدا خوش اور ہمارے درمیان رکھے۔۔۔ آغا جان کی دعاوں پر سب نے امین بولا تھا۔ جبکہ اکفہ نے ان دونوں کا صدقہ اتارا۔
نور نے اپنا ہاتھ آگے کیا۔۔۔
ڈیڈی۔۔۔۔
نائل مصطفیٰ نور کی چیئر کے پاس نیچے ہوئے۔۔۔ میری جان۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔
ڈیڈی ہم نے آپ کو بہت مِس کیا۔۔۔ آپ آج آئے ہی نہیں۔۔۔دروازے پر ہی شکوہ کیا گیا۔۔
محمش نے چیئر کو آگے کی جانب دھکیلا تھا۔ ساتھ ہی نائل اٹھ کر اس کے ساتھ چلے۔۔
ہم سب اس لئے نہیں آئے ، کیوں کہ آپ کو یہاں ویلکوم کرنا تھا۔۔نور نے ثبت میں سر ہلایا۔۔۔
سب سے ملنے کے بعد مصترا نور کافی خوش اور مطمئن تھی۔ اکفہ نے ہاتھ کا بنا کیک نور بچپن میں بہت کھاتی تھی۔۔۔ بس ہر وقت اس کو یہی چیزیں چاہے ہوتی تھی کھانے کو جس کی وجہ سے تب مصترا نور گول مول سی بچی تھی۔ اب بھی اس کی بڑی اماں نے اس کے لئے کیک بنایا تھا۔ سب ہال میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔جب ملازم ایک ٹرالی میں خوبصورتی سے سجائے کیک لے کر آئی۔
کیک کو دیکھ کر نور کے منہ میں پانی آیا۔اتنے دنوں سے پھیکا سا سوپ پی پی کر اس کی بس ہو گی تھی۔
ماما یہ سب کیا ہے؟؟ مصترا نور ایسا کچھ بھی نہیں کھائے گی۔ بلکل بھی نہیں۔۔۔ محمش کو جس بات کا ڈر تھا وہی ہو رہا تھا۔ محمش اس کو جلد سے جلد ٹھیک دیکھنا چاہتا تھا پر یہاں تو سب اس کے ناز نخرے اٹھانے کو تیار بیٹھے ھوے تھے۔۔۔
ہمیں یہ کھانا ہے۔۔۔۔پلززز۔۔۔۔ یہ ہمارے لئے ہے نہ۔۔۔ اس کی معصومیت پر سب مسکرائے تھے۔
نور نو۔۔۔ آپ کو مانا ہے ایسا کھانا سب۔۔۔ ایک منتھ تک تو بلکل بھی نہیں۔۔۔ پرہیزی کھانا کھانا ہے آپ کو۔۔۔ یاد ہے نہ ہسپتال آپ نے پرومس کیا تھا۔ کہ آپ ساری باتیں ماننے گی بس آپ کو گھر جانا ہے۔۔۔
مصترا نور کے چہرے پر ایک دم اداسی آئی۔ اب اپنی غلطی یاد آ رہی تھی۔۔ کیوں کہا کے سب مانو گی۔۔۔
ایش۔۔۔۔ تھوڑا سا بس۔۔۔ بلکل تھوڑا۔۔۔۔
نو۔۔۔ پری۔، نو۔۔۔۔
رات کے اس وقت نو بج چکے تھے۔ ٹیبل پر کھانا لگایا گیا،۔۔۔ پر محمش نور کو لئے اس کے روم میں آیا۔۔۔ نور کا روم بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔۔ اس کی بچپن کی اور افنان سے اسکول کالج کی کافی تصویریں بڑی کر کے لگائی گی تھی۔۔۔
واؤ۔۔۔ ہائے ایش۔۔۔ یہ ہمارا روم ہے؟؟ نور ایک دم سے چہکی تھی۔۔۔
جی۔۔۔ یہ روم فلحال میری پری کا ہے۔ محمش اس کے اندازہ پر مسکرایا تھا۔
فلحال کیوں؟؟ کیا پھر چینج ہو جائے گا؟؟ مصترا نے محمش کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
محمش نے ایک قہقہ لگایا۔۔۔ چینج تو ہو گا۔۔ محمش نے اس کی ٹھوڈی کو آرام سے پکڑا اور اس کی ٹانگوں میں نیچے بیٹھا۔۔۔
چینج کیوں؟؟
کیوں بہت جلد آپ کی رخصتی ہو گی۔۔ پھر آپ میرے روم میں آ جائے گی۔۔۔
مصترا اس کی بات پر شرما کر منہ نیچے کر گی۔۔۔
ایک تو میری پری بلش بہت کرتی ہے۔ محمش نے اس کے سرخ ہوتے چہرے پر چوٹ کی۔۔۔
ایش۔۔۔ آپ اب ہمیں تنگ کر رہے ہے۔۔۔ نور نے سر کو جھکائے ہی کہا۔۔۔
اچھا نہیں کرتے تنگ ہم آپ کو۔۔۔ پر آنا تو ہے نا آپ کو ہمارے پاس ہی۔۔۔ ساتھ ہی محمش نے اٹھ کر نور کو تکیوں کے سہارے ٹیک لگوا دی۔۔۔۔۔
آپ اب میری ساری باتیں ماننے گی پری۔۔۔ آرام کرے گی۔۔۔ اور کسی بات پر پریشان نہیں ہو گی۔۔۔ سمجھ رہی ہے نہ آپ ۔۔۔
آپ سب ہے نہ میرے پاس دھیان رکھنے کو۔۔ پھر ہم کیوں رکھے؟؟
اچھا جی۔۔۔ آپ نہ رکھنا۔۔۔ میں ہوں میں خود رکھ لو گا۔۔ محمش نے اس کو اپنے ساتھ لگایا اور ہمیشہ کی طرح ایک بوسہ اس کے ہاتھ پر لیا اور ایک اس کی پیشانی پر لیا۔۔۔
مصترا نور شاہ جو اس کے ساتھ لگی بیٹھی تھی محمش کے ایسا کرنے سے اس کے اور ساتھ لگ گی۔۔ اپنا منہ اس کے کشادہ سینے میں چھپا لیا۔۔۔محمش کی روح تک میں سکون اترتا محسوس ہوا۔۔ ہر وقت اس کا دل’ زبان اپنے رب کا شکر ادا کرتی۔
“محبّت کی راہوں میں جو تو نے گرفتار کیا ہے
جاناں تیری قسم بہت ظلم کیا ہے ”
(میری حسین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...