چار سال کی تھی محض چار سال کی اور تب میری عمر چودہ سال تھی۔ وه رات میں کبھی نہیں بھولا, فروری کی دو تاریخ تھی۔ پری کو صبح سے ہی بخار تھا۔ نور شروﻉ سے ہی نازک کمزور تھی۔ پر ہمیں کبھی نہیں پتا چلا کے اس کا ہارٹ پیدائشی ہی ویک ہے۔ وه پورا دن نور بخار میں تپتی رہی۔ میڈیسن اپنا اثر نہیں کر رہی تھی۔ آخری حال یہی بچا کہ ہم نور کو ہسپتال لے گے۔ ڈاکٹر نے نور کو ایمرجنسی واڈ میں ایڈمٹ کیا اور پوری رات نور وہاں رہی کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ وه رات کو اس سے اگلا دن میں نے اپنی پری کو دیکھنے بغیر گزارا تھا۔
اس سارے وقت میں، میرے حلق سے ایک گھونٹ پانی کا بھی نہیں اترا تھا۔ پھر تین دن بعد پری کی طبعیت ٹھیک ہو گی۔۔
پر۔۔۔۔
محمش کے چہرے پر گہری مسکراہٹ در آئی۔ افنان نے غور سے دیکھنا کہ ایسا بھی کیا تھا جو محمش دکھی بات کرتے کرتے مسکرا گیا۔۔
پر میں نے اس کے گھر آتے کی ضد شروﻉ کر دی کہ پری صرف میری ہے۔اس کی شادی میرے ساتھ کرے، نہیں تو یہ دور ہو جائے گی۔
محمش کے الفاظ افنان کو سچ میں حیرت میں ڈال گے۔۔ افنان آنکھیں کھولے اس کی بات سن رہا تھا۔پر محمش کو بات ہی ایسے کر رہا تھا جیسے کوئی عام سی بات کہی ہو۔
میری عمر چھوٹی تھی اور پری جب سے پیدا ہوئی تھی۔میرے سے دور نہیں گی تھی یا میں نے کبھی اسے خود سے دور نہیں کیا تھا۔ پر وہ رات میرے لئے تب سب سے بری رات تھی۔۔ ایسا مجھے لگتا تھا۔۔
پر اس کے بعد اللہ نے اسے میرے سے اتنا دور کر دیا کہ میں تیرہ سال اس کو دیکھے بغیر سویا۔۔۔ تیرہ سال۔۔۔۔ بہت لمبا انتظار ہوتا ہے۔
افنان۔۔۔ بہت لمبا۔۔۔ بولنے میں آسان لگتا ہے پر ایسا نہیں ہوتا۔۔۔۔ وه درد۔۔۔ تکلیف۔۔۔ ازیت۔۔۔ کوئی جان ہی نہیں سکتا جب تک اس پر گزرے نہیں۔۔۔
اس کے بعد میری ضد یا جنون مجھے نہیں معلوم کیا تھا پر میں نے نکاح کر کے ہی دم لیا۔پری کو کچھ بھی یاد نہیں تھا اس کے بارے میں، پر میں بتا چکا ہوں۔۔۔ اس نکاح کے ٹھیک دس ماہ چار دن کے بعد مصترا نور کو اس کا باپ نور پیلس سے رات کے اندھیرے میں اس کو لے گیا۔۔۔ وه عرصہ۔۔۔۔ بتایا نہیں جا سکتا۔۔۔
اور اب دیکھ لو۔۔۔ میری پری میرے اتنے پاس تھی اور میں جان ہی نہیں سکا۔۔ اللہ نے مجھے انجان رکھنا تھا نہیں تو پاکستان چھان مارا تھا۔کون سی جگہ نہ تھی جہاں ہم نے نور کو نا ڈھونڈ نہیں۔۔۔ پر مجھے کوئی گلہ نہیں۔۔۔
۔
۔
۔
دل جس کے لئے پریشان تھا
وہی تو انجان تھا
مل کر بھی نہیں ملتا تھا
پھر بھی وہی دل کے پاس تھا
(میری حسین)
۔
۔
۔
پر افنان۔۔۔۔
“اتنے پیار، مان کے بعد کسی اپنے کو اتنا محض کسی معمولی بات کے لئے دور نہیں کرنا چاہے۔۔ بہت بار ہمیں لگتا ہے ٹائم دے گے چیزوں کو کچھ رشتوں کو تو وه بہتر ہو جائے گے۔۔ پر تب ہم غلط ہوتے ہیں۔۔ وه چیزیں رشتے ہم سے سپیس نہیں چاہتے بلکے اپنی ناراضگی میں بھی ہماری توجہ طلب کرنا چاھتے ہیں۔ اور ہم اپنے آپ میں کھو کر دوسروں کے ساتھ ساتھ خود کو بھی تکلیف دے جاتے ہیں۔ سمجھ تب آتی ہے جب پانی سر کے اوپر سے گزر چکا ہوتا ہے۔”
تم نے بھی پری کو اتنا پیار ،مان دے کر کچھ ہی پل میں اتنے سالوں کے پیار ،مان، عزت کو محض اپنے آپ کے لے کھو دیا۔ وه معصوم ہے ابھی بھی تمہیں ہی یاد کر رہی تھی اس کی نظریں بار بار تمہیں ڈھونڈ رہی تھی۔ اتنا سب ہونے کے بعد بھی اسے اپنا بھائی چاہے تھا۔ پر پری کی حالت۔۔۔۔
محمش نے بیڈ پر سوئی ہوئی بےخبر اپنی پری کی جانب اشارہ کیا۔۔۔ جس کی حالت آج تین دن کے بعد بھی بہتر نہیں تھی۔۔ آکسیجن ماسک۔۔ ڈرپ۔۔ پتا نہیں کون کون سی مشین تھی اس پرائیویٹ روم میں۔۔۔ اور سہنے برداشت کرنے کو وه ایک ننی سی جان تھی۔
حالت دیکھ رہے ہو۔۔۔ پری۔۔۔ میری پری کی یہ حالت بھی تو مصطفیٰ ولاز والوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ میری زندگی ہے یہ۔۔۔ جینے کی وجہ۔۔۔ میرے دل کی دھڑکن یہ میری مصترا نور شاہ ہے۔۔ میری بیوی۔۔۔
افنان کی حالت خود بھی عجیب تھی۔ بخار سے تپتا جسم۔۔ آنکھیں راتجگ کا اعلان کر رہی تھی۔ بس شرمندہ سا سر کو جکائے محمش کی باتیں سن رہا تھا۔۔۔
پری کے ذکر پر اس کے لہجے میں صرف پیار ہی پیار تھا۔۔ محبّت۔۔۔ احساس۔۔۔ عزت۔۔۔ ہی تھی۔۔۔ افنان کو کچھ سکون محسوس ہوا۔ اس کے بعد کوئی تو ہے۔ جو پری کو اس سے بھی بڑھ کر چاہتا تھا۔۔۔ شاید سب سے زیادہ ہی۔۔۔
رات یوں ہی کٹی تھی۔ افنان اور محمش اپنی یادوں کا سفر کر رہے تھے۔ رات کی گہری سیاہی کی طرح یہ بھی اپنا اپنا دکھ گزارا ہوا وقت یاد کر رہے تھے۔۔ بس فرق یہ تھا کہ محمش نے بہت سہا تھا۔ اس کا انتظار بہت لمبا دشوار تھا۔ پر افنان کو یہی کچھ دن موت کے برابر لگ رہے تھے۔
پوری رات دونوں ہی نا سو پائے تھے۔ فجر کی اذان پر دونوں نے نماز ادا کی تھی۔ محمش کو کچھ نوافل ادا کرنے تھے اس لئے ابھی مسجد میں ہی تھا پر افنان اپنی عین کے پاس آ چکا تھا۔۔
۔
۔
۔
نور نیند میں کسمائی۔۔ کچھ ہی دیر میں اپنی بلی آنکھیں کھولی تھی جن میں نیند کے دوڑے ابھی بھی باقی تھے۔۔پر افنان کو اس کی کھلی آنکھوں پر اپنے دل میں سکون اترا ہوا محسوس ہوا۔۔۔
نور آنکھیں کھولنے کے بعد کافی دیر حیرت سے دیکھتی رہی پر جب منظر واضع ہونا شروﻉ ہوا تو نور کی بلی آنکھیں نم ہوئی۔۔
ڈرپ لگے ہاتھ کو حرکت دی تکلیف درد کے آثار چہرے پر پائے گے۔ اپنے دائیں ہاتھ سے آکسیجن ماسک اتار کر افنان کے ہاتھوں پر اپنا کانپتا ہاتھ رکھا۔ جبکہ افنان شرمندگی میں سر کو جھکائے بیٹھا تھا۔۔ اندر کیا چل رہا تھا عین اس سے بےخبر تھی۔
بھائی۔۔ کانپتا لہجہ۔۔۔۔
افنان ضبط کیے بیٹھا رہا۔۔۔
افی۔۔۔ بھائی۔۔۔ پلززز۔۔۔
اتنے لاڈ، پیار پر افنان نے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا تھا۔۔ آنکھیں سرخ سجی ہوئی تھی۔۔۔ عجیب بکھری حالت میں نور کو اپنا بھائی بلکل بھی پسند نہیں آیا۔۔
عین۔۔۔۔گڑیا۔۔۔ میری جان۔۔۔۔ افنان کرسی سے اٹھ کر اس کے بیڈ تک آیا۔بھائی کو معاف کر دو بھائی بلکل بھی اچھے نہیں۔ آپ سے بات نہیں کی۔۔ آپ کو عین نہیں کہا۔۔۔ آپ کو نظر انداز کیا۔۔۔ آپ کو سمجھا نہیں۔۔۔۔افنان ایک ایک بات گن کر یاد کر رہا تھا اس پر معافی مانگ رہا تھا۔۔۔
بھائی آ۔۔۔ آپ اپنی عین کو بھول گے۔۔۔ آپ بھی شادی کے وقت سب بھول گے۔۔۔ آپ بھی باقی بھائیوں کی طرح نکلے۔۔۔ آپ نے اچھا نہیں کیا ۔۔۔نور جو اتنے دنوں سے چپ تھی ان باتوں پر آج بول ہی پڑی۔۔
نا۔۔۔ نہیں میری گڑیا۔۔۔ بھائی سب کو بھول سکتے ہیں پر اپنی عین کو نہیں۔۔۔ میں نے غلط کیا ہے۔۔ مجھے معافی مل سکتی ہے؟؟
افنان نے نور کے سامنے ہاتھوں جوڑے تھے۔
افی بھائی۔۔۔ مت کرے ایسے پلززز۔۔۔ آپ کی عین ناراض نہیں، ہرٹ ہوئی تھی۔نور روتے ہوئے افنان کے سینے لگی۔۔
اور افنان کو آج اتنے دنوں بعد چین آیا۔۔ اتنے دنوں کی بے قراری آج اس لمحے ختم ہوئی تھی۔
ثانیہ اپی اچھی نہیں۔۔۔ بہت بری ہے۔۔۔وه۔۔۔وه اچھا نہیں بولتی۔۔۔ ہرٹ کیا انہوں نے مجھے۔۔۔مجھے مارا بھی۔۔۔افی بھائی۔۔۔ یہاں تھپڑ مارا۔۔ نور نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کے بتایا۔۔ نہیں وه اچھی۔۔۔ ہمیں ان کو اب کبھی بھی نہیں دیکھنا۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔ ڈر لگتا ہے خوف آتا ہے۔۔
شیش۔۔۔۔ چپ۔۔۔۔وه اب کبھی بھی آپ کے پاس نہیں آئے گی کبھی بھی نہیں۔۔۔آپ پریشان نہیں ہو۔۔۔ ہم سب پاس ہے آپ کہ۔۔۔ اب تو نور پیلس بھی آپ کی فیملی ہے نا۔۔۔ اتنے رشتے ہے سب آپ کا خیال رکھے گے۔۔ آپ کے پاس رہے گے۔۔ افنان نے اس کا دھیان بٹانا چاہا۔۔۔دروازے کے مرر سے محمش کب سے نور کو روتے ھوے دیکھ رہا تھا۔ پر ضبط کر رہا تھا صرف نور کے لئے تاکہ دونوں بات کر لے، اپنے گلے شکوے دور کر لے۔۔۔۔
۔
۔
۔
آپ کا شہزادہ کیسا ہے۔ آپ کو پسند آیا؟؟؟ افنان نے اس کو تنگ کرنا چاہا۔۔
بھا۔۔۔ بھائی۔۔۔ نور افنان سے الگ ہو کر ذرا پیچھے ہوئی۔۔۔
کیا بھائی۔۔۔۔ آپ بھی نہ۔۔۔ نور بلش کر رہی تھی۔۔۔
اگر نہیں پسند تو بدل۔۔۔۔۔
ہم نے ایسا تو نہیں کہا۔۔۔ وه اچھے۔۔۔ ایک دم نور اپنی بات پر حیران ہوئی۔ پھر چپ کر گی۔۔ چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔۔۔
آہاں۔۔۔۔ بڑی بات ہے۔۔۔ میری عین کو اپنا شہزادہ مل گیا۔۔۔ وه بھی نیلی آنکھوں والا۔۔۔افنان اس کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ رہا تھا۔۔۔
اتنی دیر میں محمش اندر آیا۔ سر پر لی ہوئی سفید ٹوپی سائیڈ پر رکھی اور نور کے سر پر ہاتھ رکھ کر کچھ سورت پڑھی پھر اس کو اللہ کے کلام کے حصار میں بند دیا۔۔۔پھر افنان کی پروا کیے بغیر اس کے ہاتھ پر ایک بوسہ بھی کیا۔۔۔۔
نور جو محمش کی آمد پر چپ ہوئی تھی۔ اب اس حرکت پر آنکھیں کھولے اس کو دیکھ رہی تھی۔ جبکہ افنان بلکل نارمل بیٹھا مسکرا رہا تھا۔۔
پری اب طبعیت بہتر ہے آپ کی؟؟
جی۔۔۔ جی۔۔۔ ٹھ۔۔ ٹھیک۔۔۔ نور کی زبان ہلکالا رہی تھی۔۔
پر آپ بات نہیں مانتی۔بری بات ہوتی ہے۔ پرومس کر کے توڑتے نہیں۔۔
ہم نے کب۔۔۔نور کو محمش نے تکیے سے ٹیک لگوائی۔۔۔
آپ نے پرومس کیا تھا اب روئے گی نہیں۔۔ پریشان نہیں ہو گی۔۔۔ کچھ بھی نہیں سوچے گی۔۔۔ خوش رہے گی۔۔۔ یاد ہے آپ کو ؟؟؟
افنان نور کا ایک ہاتھ پکڑے پاس ہی بیٹھا کبھی محمش کو دیکھتا تو کبھی اپنی عین کو۔
وه ہم روئے تو نہیں۔۔۔ بس بھائی سے بات۔۔۔ پریشان بھی نہیں۔۔۔ خوش ہے ہم بہت۔۔۔ نور نے دہمے لہجے سے کہا۔۔۔
اچھا پر مجھے تو ایسا نہیں لگتا۔۔۔ آپ کی آواز رونے سے بھاری ہوئی ہے۔۔محمش بیڈ کی سائیڈ پر بیٹھا اپنی پری کو ہی مسلسل تک رہا تھا۔جبکہ نور بےچاری سہی شرما رہی تھی افنان کے سامنے محمش کا ایسا لہجہ اور یہ سب پیار۔۔۔
۔
۔
۔
توبہ توبہ۔۔۔ مطلب میری کوئی اہمیت ہی نہیں؟؟؟ حد ہی ہو گی۔۔۔ میں بھی بچہ ہی ہو۔۔ بلکے نور کا ٹوئن ہوں، پر نہیں۔۔۔ مجھے کوئی پوچھ ہی نہیں رہا۔ معاذ اندر آتے ہی شروﻉ ہو گیا۔۔
معاذ بھائی آپ بھی نہ۔۔۔
کیا میں۔۔۔ میں بیچارہ باہر بیٹھا ہوں اور یہاں آپ سب میرے بغیر ہی باتیں کر رہیں۔۔۔
لو آپ کروں بات اپنی بہن سے۔۔۔ افنان اپنی چیئر سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
افی بھائی پر آپ۔۔۔
عین میں تھوڑی دیر میں سب کے ساتھ آؤ گا۔۔ رات سے میں یہاں ہی تھا۔۔ پر ابھی محمش ،معاذ ہے تو میں گھر سے ہو آتا ہوں۔۔۔افنان نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور ایک بوسہ بھی لیا۔۔۔
ہم آپ کا انتظار کرے گے جلدی آنا آپ۔۔۔ نور اداس ہوتے ھوے بولی۔۔۔
بلکل بس تھوڑی دیر۔۔ اداس نہیں ہونا میرے بچے نے۔۔۔ میری عین بہت بہادر ہے نہ۔۔۔
افنان کی اس بات پر اس معصوم لڑکی نے پوری معصومیت سے ثبت میں سر ہلایا۔۔ اس کے اس انداز پر محمش جی بھر کر خوش ہوا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
المیہ اور آمنہ دو بہنیں تھی۔المیہ آمنہ سے پانچ سال بڑی تھی۔ آمنہ شروﻉ سے ہی اپنی خوبصورتی کو لے کر بہت خوش ہوتی۔۔ غرور حسد اس میں بھرا پڑا تھا۔۔ پر قسمت اس پر مسکراتی رہی۔۔
وجہ۔۔۔۔
وجہ اس کی خود کی بےوقوفیاں تھی۔۔۔ آمنہ کالج میں ہی عمر کو پسند کر بیٹھی۔ اور عمر ایک نمبر کا لوفر ٹائپ کا لڑکا تھا۔پر اس کو کوئی پروا نہ تھی۔۔ المیہ اور آمنہ کے والدین بہت نیک تھے۔۔ والد کچھ عرصہ پہلے انتقال کر چکے تھے ۔جبکہ آمنہ اپنی والدہ کے ساتھ ہی رہتی تھی۔۔ المیہ شادی کروا کے رضا ہاؤس آ چکی تھی۔۔
سب نے آمنہ کو بہت سمجھایا پر اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔۔۔ پھر یونہی آمنہ چھپ چھپ کے ملتی رہی۔۔۔ عمر شادی کا وعدہ کر کے اس کو اپنے ساتھ رکھتا۔۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت وقت گزرتے۔آمنہ کی اس وقت ایج کچھ زیادہ تھی بھی نہیں۔۔۔
۔
۔
۔
سکول کے بعد کالج کی عمر میں بچے اپنے آپ کو آزاد تصور کرتے ہیں۔ ایک ریگولر روٹین سے نکل کر کچھ آزادی ملتی ہے۔ اور بہت سے بچے لڑکے، لڑکیاں اس کا غلط استعمال بھی کرتے ہیں۔ اس ایج میں بچوں کو والدین کی زیادہ توجہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہیں۔ بچے اپنا اچھا برا نہیں جانتے۔۔ پر والدین کو بچوں کو سمجھنا چاہیں۔۔۔ ان کے پاس وقت گزر کر ان کی سوچ ،خیالات جانے کی کوشش کرنی چاہیں ۔۔۔ نہ کہ بس ان کی غلطیاں ہی گنواتے رہیں۔بچوں کو پیار محبّت سے سمجھایا جاتا ہے ان کو سہی راہ کی طرف مائل کیا جا سکتا ہیں۔
پر بات ساری اپنی سوچ کی ہے۔ آپ کیسے اور کس طرح اپنی زندگی میں آسانی لا سکتے ہے۔۔ سکون لا سکتے ہے۔۔۔یہ بھی آپ پر ہی ڈیپینڈ کرتا ہے۔۔
نتیجہ آمنہ کو سزا اس کی غلطی پر سزا اللہ نے سنا ہی دی۔۔۔ عمر اس کو چھوڑ کر چلا گیا۔۔ کہاں۔۔۔ کسی کو پتا بھی نہیں چلا۔۔ پر آمنہ کی حالت کچھ ہی دنوں میں سب کو توڑ کر رکھ گی۔ اس کی حالت دیکھ کر اس کی ماں مٹی تلے جا سوئی۔ پھر کچھ ماہ بعد اس نے ایک وجود کو جانم دیا تھا۔ اور سارا ضبط اس دن ختم ہو گیا۔۔ رو رو کے آمنہ نے سب سے معافی مانگی۔۔۔ اپنے آپ سے، اپنے رب سے۔۔ اپنی بیٹی سے۔۔ پر اس کو سکون نہیں مل رہا تھا۔۔۔
رضا بھائی۔۔۔ آپ بہت اچھے ہے۔۔۔۔ اتنا کچھ ہوا آپ نے مجھے گھر میں جگہ دی۔۔۔ پر۔۔۔۔ پر۔۔۔ میں اپنی بیٹی آپ کے حوالے کر رہی ہوں۔۔۔ اس کا خیال رکھے گے نہ آپ سب۔۔ اس کو اپنی بیٹی بنا لے۔۔۔ کبھی مت بنتا یہ کس کی بیٹی ہے۔۔۔
پر آگے سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔۔ آمنہ روتے روتے چھپ ہوئی اور پھر آخری فیصلہ سنا ڈالا۔۔۔
میں مر گی تو آپ اس کو کسی بھی یتیم خانے چھ۔۔۔۔
بکواس بند کرو۔۔۔ چھپ کر جاؤ۔۔۔ آمنہ کیوں ایسے الفاظ نکل رہی ہو۔۔۔۔ کیوں؟؟
رضا صاحب ایک دم اونچی آواز میں دھڑے تھے۔۔۔
تم بھی میری بیٹی ہو۔۔۔ اور یہ بھی۔۔ مانا غلطی ہوئی تھی تم سے۔۔۔ اگر اللہ معاف کر سکتا ہے تو میں بھی معاف کر سکتا ہوں۔۔ میرے لئے نہ تم ،نہ ہی یہ پھولوں جیسی بچی بھاری ہے۔۔ میں خود پال لو گا اس کو۔۔ تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔
رضا کے الفاظ اس کے دل کو سکون عطا کر رہے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی سانسیں اکھڑی اور آمنہ کا وجود ٹھنڈا ہو گیا۔۔۔۔
اس دن کے بعد سے یہ بچی رضا صاحب کی بیٹی تھی۔۔ اس کا نام بھی رضا نے اپنی پسند سے رکھا۔ سب کی لاڈلی تو تھی ہی پر رضا کا اس سے لاڈ ہی کچھ الگ تھا۔ پھر نور کے آنے سے غلطیاں ہوتی گی۔۔۔جو ان سب کی وجہ بنی۔۔۔ اس کو ایک دم سے پیچھے کر دیا گیا جو کہ ثانیہ کو بلکل پسند نہ آیا۔
نتیجہ پھر نور اس کا شکار ہوئی۔۔۔
۔
۔
۔
زندگی کھو گی تھی
ڈھونڈنے نکلی تھی
بھلا ہو زندگی کا جو مل گی
پھر۔۔۔۔
پھر کیا
میں کہی کھو گی بس۔۔۔۔
(میری حسین)
ثانیہ کو ابھی بھی میره کے الفاظ یاد آ رہے تھے۔۔ اس کا سر تین دن سے یہی سوچ سوچ کر پھٹ رہا تھا۔۔۔
“کسی کے لئے غلط بات، غلط الفاظ تو آسانی سے ادا ہو جاتے ہیں۔پر وہی الفاظ جب اللہ آپ کو لوٹتا ہے، تو وه برداشت نہیں ہوتے۔ ہم بہت آسانی سے کسی کا دل توڑ کر خوش رہ لیتے ہیں پر وه خوشی وقتی ضرور ہو سکتی ہے پر اس کا بدلہ سود سمیت لوٹنا پڑتا ہیں۔پھر وه برداشت نہیں ہوتا۔وه درد ،تکلیف ایک بار نہیں بار بار دی جاتی ہیں۔تاکہ آپ کو احساس دلایا جائے آپ کی غلطی پر وه شخص کتنی تکلیف میں رہا ہیں”
ثانیہ کو بھی آج احساس ہو رہا تھا۔۔ وه تکلیف آج خود محسوس ہو رہی تھی جو اس نے نور کو دی تھی۔ پر اب فرق صرف اس کو پڑنا تھا باقی تو سب ٹھیک تھے خوش تھے۔ بس ایک یہی وجود ہی تھا جو خوش نہیں تھا۔اللہ کے انصاف پر آج اس کو یقین آیا تھا جب خود کی ذات اس کی ہی نظروں میں گر گی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے سچ میں کچھ نہیں تھا پتا۔۔ وه سب مجھے علم نہیں تھا۔۔۔ کیوں کیا؟؟ کیسے میری سمجھ میں نہیں تھی یہ بات۔۔۔ میں نے کبھی بھی غلط نہیں چاہ اس گھر والوں کے لئے۔۔۔ یہ بھی میرا ہی گھر ہے۔۔۔ آپ سب میرے اپنے ہے۔۔۔ پر میں مانتی ہوں غلطی ہوئی ہے پر اس میں میرا کوئی قصور نہیں سچ میں۔۔۔ میں سچ کہ رہی ہوں۔۔آپ کو یقین ہے نہ میری بات کا؟؟؟
میری غلطی نہیں تھی۔۔۔ پر آپ مجھے اپنے سے دور تو نہیں کرے گے نہ۔۔۔ مجھے یہاں سے کہی نہیں جانا۔۔ مجھے اپنا گھر کو چھوڑ کر کہی نہیں جانا پلززز۔۔۔پلززز۔۔۔۔سارہ ہاتھ جوڑے افنان کے سامنے بیٹھی تھی۔۔ ان چند دنوں میں اس گھر کا کوئی بھی فرد ایک دوسرے کو بولنا تو دور کی بات دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔۔ سب کے اندر اپنی کی ایک جنگ چل رہی تھی۔۔
۔
۔
۔
سار۔۔۔۔ہ۔۔۔ سارہ۔۔۔ یہ سب کیا ہے؟؟ دماغ خراب ہو گیا ہے آپ کا کیا؟؟ کس نے کہاں آپ کو یہاں سے جانے کا بتائے۔۔۔ جواب دے۔۔۔۔
نور ٹھیک نہیں صرف ثانیہ کی وجہ سے تو۔۔۔ تو۔۔۔ وه میری بہن کی وجہ سے ہوئی۔۔۔ اس لئے مجھے لگا۔۔۔۔
آپ کو کیا لگا۔۔۔۔؟؟
میں بےغیرت نظر آتا ہو آپ کو جو یہ سب سوچ لیا اور میرے سامنے بول رہی ہے۔۔۔ افنان کافی سختی سے بولا۔۔۔
سارہ اس کے لہجے سے کانپ گی۔۔ کچھ اتنے دنوں کی پریشانی اور پھر اب افنان کا اس پر چلانا۔۔۔۔سارہ گرنے کے انداز میں زمین پر بیٹھتی چلی گی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
آپ کو اپنی زندگی میں سب سے پہلے اگر کسی کا خیال پیار ہے وه نور ہے۔۔۔ مجے۔۔۔مجھے لگا آپ ناراض ہو کر مجھے گھر۔۔۔۔
بس۔۔۔ آواز بند۔۔۔میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں۔۔ وه بہن ہے تو آپ کیا ہے میری؟؟ بولو جواب دو۔۔۔۔افنان نے نیچے بیٹھ کر اس کے کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑ ڈالا۔۔۔
بی۔۔۔۔وی۔۔۔ بیوی۔۔۔۔
تو آپ کو پھر کیسے خود سے دور کر سکتا ہوں۔۔ ثانیہ کی غلطی ہے تو سزا کی حق دار بھی وہی ہے۔۔۔ آپ نہیں۔۔۔۔افنان نے روتی ہوئی اپنی بیوی کو ساتھ لگایا۔۔۔
اب بس بھی کرو۔۔ اور کتنا رونا ہے یار۔۔۔ اتنے دنوں سے رو رو کر خوش نہیں ہوئی کیا؟؟ یا دل نہیں بھرا۔۔۔۔افنان کا لہجہ یکدم نرم ہوا۔۔
پر سارہ چپ چاپ اس کے ساتھ لگی آنسوؤں بہاتی رہی۔
دل میں بسنے والے دل توڑا نہیں کرتے خوشبو کے لیے بھی پھول توڑا نہیں کرتے
دل مان جائے جس پر اُس سے منہ موڑا نہیں کرتے
فقط اک پھول کے لیے پورا باغ چھوڑ نہیں کرتے
(میری حسین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔،
دس دن ہو چکے تھے نور کو ہسپتال میں ایڈمٹ ھوے۔۔۔ اور اب دن میں کیی بار نور روتی۔۔۔ بار بار گھر جانے کی ضد کرتی۔ آج محمش نے تنگ آ کر اس کو گھر لے جانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔۔۔
نور آنسوؤں بہاتی بار بار آہینور کو محمش کا بتا رہی تھی جو اس کو ابھی بھی گھر جانے نہیں دے رہا تھا۔۔ محمش کیا کوئی بھی اس حق میں نہیں تھا کہ یہ گھر جائے۔ ہسپتال کے روم میں اس وقت نور پیلس اور مصطفیٰ ولاز کے سب بڑے بیٹھے ھوے تھے۔۔۔
ہم ابھی کچھ دنوں کے لئے نور کو گھر۔۔۔ نائل مصطفیٰ کی آواز پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ محمش بول پڑا۔۔۔
بات کاٹنے کے لئے معافی۔۔۔ پر پری اب ہمارے ساتھ ہی جائے گی نور پیلس۔۔۔ ایک منٹ بھی میں پری کو دور نہیں کرنا چاہتا اب۔۔ نہ ہی کسی کو اجازت دو گا۔۔ محمش کا جواب نور پیلس والوں کو معلوم تھا پر مصطفیٰ ولاز والے کہاں جانتے تھے اس شہزادے کے خیال۔
پر بچے کچھ دن کی بات ہے۔ نور سہی ہو جائے گی تو رخصتی مصطفیٰ ولاز سے ہی کرے گے ہم۔۔۔ مصطفیٰ صاحب نے ایک کوشش کی۔۔۔
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔ کچھ بھی کر لے، کہہ لے۔۔۔ اب میں کسی کی نہیں سنو گا۔۔۔ میں خود کو اجازت نہیں دیتا کہ مصترا نور شاہ میری وجہ سے کبھی روئے یا اداس ہو۔۔ پر آپ سب۔۔۔
خیر۔۔۔ جو ہوا سو ہوا۔۔۔ میں پچھلا کچھ بھی برا یاد نہیں کرنا چاہتا۔۔۔ پر آپ سب کبھی بھی کسی وقت بھی نور پیلس آسکتے ہے۔ اپنی نور سے ملنے۔۔ اگر شفٹ ہونا چاہتے تو کوئی کچھ نہیں کہے گا آپ سب کو۔۔۔ پر میری پری اب میرے پاس میرے ساتھ ہی رہے گی۔۔۔ میں اور دور نہیں جانے دو گا اس کو۔۔۔ نہ ہی میں کسی کو اجازت دو گا۔۔۔محمش کا لہجہ انداز نارمل سا تھا۔۔۔
پر۔۔۔۔۔
پر اس کی دیوانی اس کے لہجے، آواز میں ہی
کھوئی ہوئی کسی اور ہی دنیا میں پوھنچی ہوئی تھی۔۔۔
یہ دونوں کے دوسرے کے دیوانے تھے۔۔۔ پر اب ان دیوانوں کا ملنا بہت قریب تھا۔۔۔ واجب کیا گیا ان کا مقدس رشتہ اب ان کر ملے کے بہت قریب تھا۔۔۔
دور کھڑی قسمت ان کے ساتھ ہی خوش تھی۔۔۔۔ اس عاشق کو بس انتظار تھا اس مقدس ملن کا جب یہ دونوں پھر سے ایک ہوتے۔۔ اس کی نور اس کی آنکھوں کے سامنے رہتی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...