رات کے سات بج رہے تھے۔ نور پیلس کے سب لوگ نور کے پاس اس سے ملنے آئے تھے۔ نور کو محمش سب کچھ پہلے ہی بتا چکا تھا سوائے اپنے اور اس کے نکاح کے بارے میں۔۔۔
گو۔۔۔ گڑیا۔۔۔ کوئی ایسے بھی کرتا ہے کیا؟؟معاذ نور کے بیڈ پر بیٹھا گلہ کر رہا تھا۔
نور جو کہ اب اتنے دنوں بعد سہی سے ہوش میں آئی تھی سب کو غور غور سے دیکھ سن رہی تھی۔۔۔ یا پھر رشتوں کا فرق پڑ گیا تھا اب یہ رشتے اس کے اپنے تھے۔۔۔ اس کے اصل رشتے۔۔۔ بھائی۔۔ ماں۔۔۔ نانا۔۔۔ بڑے پاپا۔۔۔ بڑی ماما۔۔۔ اور سب سے پیار۔۔۔ سب سے الگ۔۔۔ اس کی جان اس کا ایش۔۔۔ اس کا شہزاد۔۔۔ نیلی آنکھوں والا اس کا حافظ محمّد محمش شاہ۔
۔
۔
۔
ہم نے کچھ بھی نہیں کیا معاذ۔۔۔ وه خود ہی غلط۔۔۔۔نور کا لہجہ بہت دھم تھا اتنا کے پاس بیٹھا معاذ بھی مشکل سے سن پایا۔۔۔
خود نہیں آپ کو بس ہماری پروا نہیں تھی، اس لئے۔۔۔ کوئی بھی ایسے نہیں کرتا۔۔۔ پر آپ اب ایسے نہیں کرنا۔۔ معاذ اپنی ٹوئن بہن کو پھر سے کھونے سے ڈرتا تھا۔۔۔ اس لئے اس سے وعدہ لے رہا تھا۔۔
نور نے محض سر کو ثبت میں ہلایا۔۔۔
آہینور کب سے کھڑی نور کے پاس آنے کی کوشش کر رہی تھی۔ پر ہمت نہیں کر پا رہی تھی۔۔ نور کب سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی۔ اور صبر آزمانا نہیں چاہتی تھی اس لئے اپنا ہاتھ اٹھا کر آہینور کی جانب کیا۔۔پاس آنے کا اشارہ کیا۔۔ محمش نے جو نور کا اپنی ماں کو ایسے بلانا دیکھا فورا سے پہلے آہینور کو لے کر آیا۔۔۔
قدموں میں لڑکھڑاہٹ۔۔۔ جسم میں وظیع کپکپاہٹ تھی۔۔ لبوں کو سختی سے آپس میں بِیچا ہوا تھا۔۔۔ ضبط کیا جا رہا تھا۔۔
محمش نے ان کو بیڈ پر نور کے پاس لا کر بٹھایا ہی تھا کہ نور کو تکیوں کے سہارے بیٹھی ہوئی تھی۔ آہینور کے گلے لگی۔ زور سے اپنا حصار اپنی ماں کے گرد حصار بندھا۔
لاڈو۔۔۔
میری جان۔۔۔
میرا بچہ۔۔۔
میری نور۔۔۔
آہینور کا صبر۔۔۔ ایک ماں کا صبر وہاں موجود ہر ایک کی آنکھیں نم کر گیا۔۔
اپنی ماما کو معاف کر دو میں نے اپنی بیٹی کی حفاظت نہیں کی۔۔۔ آپ دور چلی گئ۔۔۔ میری مصترا نور سب سے دور ہو گی۔۔۔ میری جان۔۔۔میرا بچا۔۔۔ آہینور شدت سے بھرپور نور کے چہرے پر بوسے کر رہی تھی۔۔ اتنے سالوں کا پیار ایک ماں آج نچھاور کر رہی تھی۔آپ اپنے دل میں سکون اتر رہی تھی۔۔ آہینور اپنی بیٹی کے کبھی ہاتھوں پر کبھی آنکھوں پر کبھی گالوں پر بوسہ لیتی۔۔۔ ساتھ رو رو کر مافیاں مانگ رہی تھی۔
“نور کی ماما۔۔۔۔”
کی۔۔۔ کیا کہا۔۔۔ آہینور کے ساتھ سب ہی حیران ھوے۔۔۔
پھر سے بولو۔۔۔ میرا بچہ پھر کہوں۔۔۔
“نور کی ماما۔۔۔ نور کی روشنی۔۔۔”
نور نے ایک لمبی سانس لی اور آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر بولا۔۔۔
نور کی ماما صدقے۔۔۔ ماں صدقے۔۔۔ میری جان۔۔ آپ کو یاد تھا آپ مجھے ایسے ہی بولتی تھی بچپن میں۔۔
آغا جان کی آنکھوں میں سکون ہی سکون اتر آیا۔۔۔ آج اتنے برسوں کے بعد اتنی مکمل فیملی کو ٹھیک اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر۔۔۔
ہمیں۔۔۔ تھوڑا تھوڑا یاد ہے بس۔۔۔ زیادہ نہیں۔۔
ہماری بیٹی ٹھیک ہو جائے بس ہمیں کچھ نہیں چاہے۔۔۔ اب آپ کو کہی نہیں جانے دے گی آپ کی ماما۔۔۔ آہینور نے نور کو تکیوں کے سہارے ٹیک لگوا دی۔۔۔
پری آرام کرو آپ زیادہ بات نہیں کرنی ڈاکٹر نے مانا کیا ہے نہ۔۔۔۔ ابھی صرف ریسٹ کرنا ہے آپ کو۔۔ محمش نے نور کو بولنے سے مانا کیا تھا۔ پر تب ہی مصطفیٰ ولاز سے نائل ،مھین ماہم ،میره اندر آتے ھوے نظر آئے۔
نور کی آنکھیں ایک بار پھر سے نم ہوئی۔۔ ثانیہ کی کہی ہوئی باتیں۔۔۔ مصطفیٰ ولاز کا اس سے اتنے عرصے اس کی اصل پہچان چھپانا۔۔ اس کو بیٹی مان لیا پر بڑی ہونے پر بھی سچ نہیں بتانا۔۔۔ نور کو یہی سب ہرٹ کر رہا تھا۔
سب جیسے اندر آئے تھے ویسے ہی کھڑے تھے۔ جبکہ عالَم ،اکفہ، آغا جان نور سے مل کر واپسی کے لئے ابھی نکلے ہی تھے۔ روم میں بلکل سناٹا سا تھا۔۔
بلی آنکھوں سے آنسوؤں لڑیوں کی طرح بہہ رہے تھے۔۔ زرد رنگ۔۔ آنکھوں کے نیچے حلقیں۔۔
وه کہی سے بھی ان کی نورالعین لگتی ہی نہیں تھی۔
نو،۔۔۔۔نور میرا بیٹا۔۔۔۔ نائل کے الفاظ پر نور کی ہمت جواب دے گی۔۔۔ اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔ ہارٹ بیٹ مونیٹر پر نور کی ہارٹ مسلسل گر رہی تھی۔۔۔آہینور کے حلق سے چیخ نکلی۔۔۔
پری۔۔۔ پری۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔۔۔کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔ شسش۔۔۔ مت رو۔۔۔
میرا شیر بیٹا۔۔۔ ڈیڈی سے ناراض ہے؟ نائل کسی کی بھی پروا کے بغیر نور کے پاس آ ئے۔
نائل مصطفیٰ نے اپنے کانپتے ہاتھوں سے نور کے آنسوں صاف کیے۔
نو۔۔۔۔ نور۔۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔ ڈیڈی آپ کو سب بتا کر ہرٹ نہیں کرنا چاھتے تھے۔۔۔ معاف کر دو پلززز۔۔۔
لفظ ڈیڈی پر زور دیا گیا۔ جیسے ڈر تھا نائل مصطفیٰ اب اپنی بیٹی کے منہ سے یہ لفظ سن ہی نہیں پائے گے۔۔نائل مصطفیٰ نور کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں صاف کر رہے تھے بکھرے بالوں کے چند لٹے جو چہرے پر جھول رہی تھی اپنی ہاتھوں سے بار بار پیار بھرے انداز سے سہی کر رہے تھے۔۔۔
ڈیڈی اپنی گڑیا سے معافی مانگے گے تو معافی مل جائے گی؟؟ یا کان پکڑ کر سوری کرے ؟؟
نور ان کے اس انداز پر مسکرا گی۔۔۔ کچھ پلوں کے بعد سانس ہموار ہوئی تو آہستہ آہستہ سے بولی۔۔
آپ میرے ڈیڈی ہی رہے گے نہ؟؟ اپنا خدشہ ظاہر کیا جیسے سب اک پل میں سب بدلہ تھا، رشتے بھی بدل جائے گے ۔۔۔
میرا بیٹا ہمیشہ میرا ہی رہے گا۔میرا شیر بیٹا۔۔۔ ہماری جان۔۔۔ میری آنکھوں کا سکون ہو آپ۔۔۔
نور نے لاڈ سے نائل کا ہاتھ اپنے گالوں پر رکھا۔ نائل اس کی حرکت سے دل کھول کر خوش ھوے۔۔۔ نور جب اداس ہوتی یا، پریشان تو باپ سے ایسے ہی لاڈ اٹھواتی۔۔۔
آہینور نے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔۔ کہتی بھی کیوں آخر اتنے سال جو اس کی بیٹی کا خیال رکھا پیار دیا۔۔ سو چپ چاپ اپنی بیٹی کو دیکھ کر خوش ہو رہی تھی۔۔۔ ماہم ،میره مھین، بھی باری باری سب اس سے ملے۔۔۔
ہائے سیس۔۔۔۔ کتنا پیار کرتے ہے سب آپ سے۔۔۔معاذ نے اداس سے ماحول میں اپنا تڑکا لگایا۔۔
معاذ بھائی میری تین ماما ہے اب۔۔۔ اکفہ ماما میری بڑی ماما۔۔۔ آہینور میری اماں۔۔۔ اور مھین ماما میری ماما ہے۔۔۔ نور اس قدر معصومیت سے بتا رہی تھی کہ سب کو اس پر پیار آ رہا تھا۔۔ پر کچھ قدر دور کھڑا محمش بہت مشکل سے ان سب کو برداشت کر رہا جو کہ اس کے ٹائم میں اس کی پری سے باتیں کر رہے تھے۔۔
نور ایک سے ناراض ہو گی تو دوسری ماما کے پاس چلی جائے گی پھر تیسری ماما کے پاس۔۔۔ پر میں بتا رہا ہوں۔۔ بڑی ماما کے پاس میں ہی رہتا ہوں بس۔۔۔ محمش لالا کو بھی ان کے پاس نہیں جانے دینا۔۔۔
” وه میری جانو ٹائپ کی ماما ہے۔۔۔”
معاذ اتنے دنوں کے بعد آج کھل کر چہک رہا تھا۔۔۔
معا۔۔۔ معاذذ۔۔۔ محمش نے اس کو چپ ہونے کا کہا۔۔۔
دو گھنٹے نور کے پاس بیٹھ کر سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو چکے تھے۔ اس وقت نور محمش ہی روم میں تھے جبکہ معاذ کنٹین گیا ہوا تھا۔۔۔
۔
۔
۔
ہم آپ سے ایک بات کہے گے تو آپ ماننے گے؟؟روم کے سکوت میں نور کی آواز نے توڑا۔
محمش جو پاس ہی اس کا ہاتھ پکڑے بیٹھا تھا ایک دم چونکا۔۔۔
میری پری کو اجازت کی ضرورت نہیں، آپ حکم کرے۔۔ محمش کا پیار بھرا انداز نور کو کچھ عجیب لگا۔۔۔
کیوں ہم کیوں۔۔؟؟مطلب آپ ایسے کیوں دیکھ رہے ہے بار بار۔۔۔ ہم۔۔۔۔
نور کے اس انداز پر گھبراہٹ میں پتا نہیں کیا کیا منہ سے نکل رہا تھا۔۔۔محمش اس کے اس طرح کہنے سے ہنس پڑا۔۔۔۔
اگر ہم آپ کو وجہ بتائے گے تو آپ یقین کرے گی؟؟بلکے آپ پریشان نہیں ہو گی پھر بتاؤ گا میں آپ کو۔۔۔
آپ بتا دے نہ کیا وجہ ہے؟؟
پری۔۔۔ شدت سے بھرپور لہجہ۔۔۔
پری آپ ہمارے نکاح میں ہے۔۔۔ محمش کے بولنے کی دیر تھی نور تو حیران پریشان اس کے ادا کیے الفاظ پر غور کر رہی تھی۔۔۔
مطلب آپ۔۔۔ ہمارا نکاح۔۔۔ مطلب سچ میں۔۔۔
ہاں جی۔۔۔ سچ میں۔۔۔
نور کے دل میں نہ جانے کیا سمائی کے اٹھ کر محمش کے قریب ہوئی۔پر محمش کو اس کا انداز سے گھبراہٹ ہونے لگی۔کہ اس کی پری نہ جانے کیا کرتی۔۔
نور کچھ اور پاس ہوئی کہ محمش کی سانسوں کی آواز تک باآسانی سن سکتی تھی۔ پھر تھوڑا اوپر کو اٹھ کر نیلی آنکھوں پر باری باری بوسہ کیا۔۔۔ اس کا یہ انداز۔۔۔ بچپن کی یاد۔۔ کیا کچھ نہ تھا جو محمش کو یاد آیا اور اس کی نیلی آنکھیں نم کر گیا۔۔
پر جیسے ہی نور کی جانب دیکھا تو اپنا قہقہ نہ روک پایا۔۔ بچپن کی طرح ہی شرما کر اس کے سینے میں منہ دے دیا۔۔۔
تیری فرقت میں یہ آنکھیں ابھی تک نم ہیں
کبھی آنا میری آنکھوں کی زیارت کرنا
(#copied)
لائک سیریسلی۔۔۔۔ محمش اس کی حالت سے خوب خوش ہو رہا تھا۔ دل میں سکون اتر رہا تھا جیسے جیسے اس کی پری ٹھیک ہو رہی تھی اس کی دھڑکن کو قرار آ رہا تھا۔۔
اب کوئی مسئلہ تو نہیں میری پری کو میرے بار بار دیکھنے سے۔۔۔ محمش نے اس کو ساتھ لگے ہی پوچھا۔۔۔
ایش مت کرے۔۔۔۔
کیوں میں نے کیا کیا ہے۔۔۔
نہیں کرےپلززز۔۔۔ ہمیں شرم آئے گی نہ ایسے۔
وہی معصومیت۔۔۔ محمش کو پتا تھا اس کی پری شروع سے ہی ایسی ہے۔ خود پیار آنے پر پیار بھی کر دیتی تھی۔ کسی کی پروا کیے پر اپنی باری میں اس کی معصوم پری کو شرم بھی بہت آتی تھی۔۔۔
اچھا ہم کچھ نہیں کر رہے۔۔ اور بات کیا کرنی ہے بتائے۔۔۔۔
وه آپ۔۔ آپ بہ۔۔۔
پری کیا ہوا ہے بولو۔۔۔ شاباش۔۔۔ آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ ہممم۔۔۔۔ بتائے کیا بات ہے۔
وه ہم افی۔۔۔ افی بھائی سے ملنا چاہتے ہے۔۔۔ پلززز۔۔۔ ایک دم سے اس کی پری اداس ہو گی۔ نور کو ڈر تھا محمش انکار کر دے گا۔۔۔
بس اتنی سی بات۔۔۔ اس میں پریشانی والی بھالا کیا بات تھی۔۔۔
وه آپ بھائی کے ساتھ لڑے تھے نہ اس لئے۔۔۔ بڑی ماما نے بتایا آپ ناراض ہو گے ان سے۔۔ اس کے بعد بھائی آئے بھی نہیں ہم سے ملنے۔۔۔
ابھی ملنا ہے؟؟ محمش نے اس کے جھکے سر کو دیکھا۔۔۔جس پر اس نے ثبت میں سر ہلایا۔۔
محمش نے افنان کو کال کی اور موبائل سپیکر پر لگایا۔۔۔ بل جاتی رہی۔۔ پر کال کسی نے نہیں اٹھائی۔۔ پھر سے محمش نے کال کی جو کہ اٹھا لی گی۔۔۔ پر دونو طرف خاموشی تھی۔۔۔
افنان۔۔۔
محمش معاف کر دو پلززز۔۔۔۔ ابھی باقی الفاظ منہ میں ہی تھے کہ محمش بول پڑا۔۔
پری تمہیں یاد کر رہی ہے۔ ملنا چاہتی ہے ہسپتال آ جاؤ۔۔۔
عین ٹھ۔۔ ٹھیک تو ہے نہ۔۔۔ افنان کی بھاری آواز کی اس خراب طبعیت کا پتا دے رہی تھی۔
“الحمداللہ” پری ٹھیک ہے بس تم سے ملنا چاہتی ہے۔۔۔ پھر آ رہے ہو ابھی ہسپتال؟؟
ہاں۔۔۔ ہاں ابھی آ رہا ہوں میں۔۔۔۔ کچھ دیر میں۔۔ ساتھ ہی کال افکر دی۔۔۔
محمش نے کال بند کر کے نور کی جانب دیکھا جو بلکل خاموش سی تکیوں کے سہارے لیٹی ہوئی تھی۔۔۔پر لمبی لمبی سانس لے رہی تھی۔
محمش جلدی سے اٹھ کر نور کے سرہانے آیا۔
پری آر یو اوکے؟؟ سانس کیوں لے رہی ہو اس طرح۔۔۔۔
ایش۔۔۔ سانس نہیں۔۔۔ زور زور سے سانس لینے سے نور کی آنکھوں میں پانی آ گیا جبکہ چہرہ لال سرخ ہو گیا۔۔۔
محمش نے بھاگ کر ڈاکٹر کو آواز دی۔ تب ہی معاذ دروازہ کھول کر اندر کی جانب آیا۔۔۔
لالا۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔
معاذ ڈاکٹر کو بلاؤ۔۔ پری کو سانس نہیں آ رہی ٹھیک سے۔۔۔۔
معاذ باہر کی جانب بھگا۔۔ نور کی طبعیت ایسی ہی تھی بظاہر تو بہتر تھی پر ایک پل لگتا تھا طبیعت بگاڑتے۔۔۔
کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر نرس سب روم میں تھے۔۔ نور کو آکسیجن ماسک لگایا۔ ساتھ ہی نیند کا انجکشن بھی دیا گیا۔
آپ ان کو زیادہ سے زیادہ آرام کرنے دے۔۔۔ زیادہ باتیں نہ ان کے ساتھ کرے اور نہ ہی ان کو کرنے دے۔ ڈاکٹر کہہ کر روم سے چلے گے۔ جبکہ معاذ ابھی بھی ڈرا سا سائیڈ پر کھڑا نور کو غنودگی میں جاتا دیکھ رہا تھا۔۔
محمش کی آواز پر معاذ پاس آیا۔۔۔ ڈرو نہیں معاذ یہ سب کچھ عرصہ ایسے ہو گا۔ پر ہم نے پری کا خیال رکھنا ہے۔۔ آپ سمجھ رہے ہو نہ میری بات۔۔۔
جی لالا۔۔۔ میں اپنی سیس کا پورا دهيان رکھو گا۔۔۔ انشااللہ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...