“مصلے پر دھری دعاؤں کی تاثیر
آنکھ کے پانی سے جوڑی ہوتی ہیں
پانی مر جائے تو دعائیں بھٹک جاتیں ہیں”
میں نے اتنے سالوں کا پیار۔۔۔ ایک پل میں ضائع کر دیا۔۔۔ وه میری زندگی میں سب سے اہم تھی۔ کیوں تھی ۔یہ مجھے بھی نہیں پتا۔۔ پر مجھے وه سب رشتوں سے زیادہ خاص اہم لگتی تھی۔۔ ہمیشہ اُسے سب سے بڑھ کر آگے رکھا ۔۔۔ پر اب کیا کر دیا میں نے اپنے ہاتھوں سے ہی۔۔۔
وه دور ہو گی،
اور میں نے بھی پروا نہیں کی۔۔۔۔
کیوں میں لاپروا ہو گیا؟؟
کیوں میں اپنی زندگی میں کھو گیا؟؟
کیوں مجھے اس کی اداس آنکھیں نہیں نظر آئی، جس میں وه مجھے ہم سب کو تلاش کرتی رہی؟؟
وہ تکلیف میں تھی۔۔۔ درد ہو رہا تھا اسے۔۔۔ اذیت میں تھی۔۔۔
میرے اللہ میں نے کیا کر دیا۔۔۔ میرے اللہ۔۔۔ اللہ جی۔۔۔جی۔۔۔۔۔ معاف کر دے۔۔۔۔ ما۔۔۔ میں نے تیری ایک بندی کا دل دکھا دیا۔۔ میں نے اپنی بہن کا دل دکھا دیا۔۔۔ وہ مناتی رہی مجھے دیکھتی رہی پر میں۔۔۔ میں نے اکڑ دیکھا دی۔۔۔ اللہ جو آپ کو نہیں پسند۔۔۔ میں اسے بھول گیا، جس کو کبھی بھلا نہیں تھا۔۔۔
ہم سب نے بھلا دیا۔۔۔ وه میری زمیداری تھی۔ میں نبھاہ نہ سکا۔۔۔
اللہ ج۔۔۔ جی۔۔۔ میری بہن۔۔۔ میرا بچا۔۔۔۔
افنان زمین میں بےحال پڑا چیخ رہا تھا چلا رہا تھا۔۔۔ اپنے رب سے معافی مانگ رہا تھا۔۔ رو رو پر اپنی غلطیاں یاد کر رہا تھا۔افنان کی حالت وہاں سب دیکھ رہے تھے۔ بلکے اس کی بکھری حالت باقی سب کو بھی رولا رہی تھی۔
۔
۔
۔
بھائی۔۔۔پلززز مت کرے ایسا۔۔۔۔ پلززز اٹھ کر اوپر بیٹھے۔۔۔ میره افنان کے پاس نیچے بیٹھی تھی۔۔ بکھری حالت۔۔۔ کالی آنکھوں میں سرخ ڈورے۔۔۔ ماتھے پر بکھرے بال۔۔۔افنان سے آنسوؤں بھری آنکھیں اٹھائی تھی کہ ماہم نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔
افی بھائی۔۔۔ پلززز مت روئے۔۔ آپ ایسے کرے گے تو۔۔۔تو باقی سب کو۔۔۔
سب چلے جاؤ یہاں سے۔۔ مو۔۔۔ مجھے کسی سے بات نہیں کرنی۔۔۔ سب چلے جاؤ۔۔۔
بھائی۔۔۔۔ ماہم نے نفی میں سر کو ہلایا۔۔ جبکہ سارة کی روح تک کانپ رہی تھی، افنان کی حالت دیکھ کر۔۔۔
افنان مرد ہو کر رو رہے ہے تو۔۔۔
” مرد کا دکھ جب برداشت سے باہر ہو جائے تو وه بھی روتا ہے۔۔ اپنی ماں۔۔ اپنی بہن۔۔۔اپنی بیوی۔۔۔ اپنی بیٹی کے لئے۔۔۔ مرد کے سینے میں بھی دل ہے جو دھڑکتا ہے۔ پھر جس دل میں اپنے خاص رہتے ہو، ان کی تکلیف میں مرد رو بھی سکتا ہے۔”
۔
۔
۔
نور کو تو افنان اپنی بیٹی کہتے ہے۔ وه ٹھیک نہیں ہے وجہ میرا گھر میری بہن ہے۔۔۔ افنان مجھے۔۔۔ افنان مجھے چھوڑ دے گے۔۔۔ گھر سے نکل دے گے۔۔ شادی کے دو دن بعد ہی میں اجڑ کر اپنے گھر چلی جاؤ گی۔۔۔ سارہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی تھی ایک دم سے صوفے پر گرنے کے انداز سے بیٹھی تھی۔۔
وه میری بیٹی تھی۔۔ میری اولاد۔۔۔ میری جان۔۔ تمہیں پتا ہے نہ۔،۔۔ نہیں تمہیں بھی نہیں پتا میره، ماہم۔۔۔ وه خون سے بھری پڑی تھی۔ بیہوش تھی۔ اُس کو بہت مارا گیا تھا اس کا ریڈ فراک رنگ سے نہیں اس کے خون سے ہی بھرا ہوا تھا۔ وه سرخ سفید رنگ والی بچی سردی میں بے یاروں مدد گار روڈ پر پڑی تھی۔میں نے ان ہاتھوں سے اٹھا تھا اسے میں تب پندرہ سال کا تھا۔۔ پہلی۔۔۔ پہلی بار میں نے زندگی میں کسی کا اتنا خون بہتے ھوے دیکھا تھا۔ وه بھی پانچ سال کی بچی کا۔۔۔ میری روح کانپی تھی۔۔ میرا جسم ساتھ نہیں تھا دے رہا۔۔۔ پر میں اسے ہسپتال لے کر گیا تھا۔۔ اور لمحہ جو میں نے باہر آپریشن روم کے گزارا تھا میری زندگی کا سب سے برا وقت تھا۔۔ میں آج پھر ویسی تکلیف سے گزارا رہا ہوں۔۔۔
پہلی آواز اس نے ہوش میں آنے کے بعد مجھے دی تھی۔ اس نے مجھے بھائی بولا تھا۔۔
وہی لمحہ تھا۔ جب مجھے لگا تھا۔ یہ میری کوئی بہت قیمتی چیز ہے۔ اگر اس کو کچھ ہو جاتا تو میں ساری زندگی وہاں ہی کھڑا رہتا۔۔
پھر اس کے آنے سے اس گھر میں ہماری زندگی میں رونق آئی۔۔۔ میں سوچتا تھا کہ جب اللہ مجھے بیٹی عطا کرے گا تو کیا میں اسے بھی اتنا پیار دے سکو گا۔۔۔
پر نہیں۔۔۔
وه میری بیٹی تھی۔۔۔ میری جان۔۔۔ اس جیسا کوئی بھی نہیں۔۔ نا کوئی ہو سکتا تھا۔۔۔ نا کوئی ہو گا۔۔ میری عین۔۔۔
۔
۔
۔
” ماں باپ اولاد سے ناراض نہیں ہوتے۔ بلکے اولاد ناراض ہوتی ہے۔ الٹا پھر ماں باپ ہی اپنے بچوں کو مناتے ہیں۔ ماں، باپ، اولاد کے رشتوں میں، تو’ میں نہیں ہوتا۔ ماں باپ کو اولاد کے لئے اپنی جان بھی دینی پڑے تو سوچتے نہیں۔ کہی اپنی پگڑی بھی کسی کے پاؤں میں رکھنی ہو تو رکھتے ہیں۔ پر اولاد کو کچھ نہیں کہتے۔ماں باپ مناتے ہیں۔ غلطی چاہے کسی کی بھی کیوں نہ ہوں۔ اولاد کے لئے ماں باپ ہی اتنا سب کرتے ہیں۔ بچوں کو تو سکھایا جاتا ہیں۔ وه معصوم، صاف، شفاف ہوتے ہیں۔ ہر ماں باپ جس کو دعائیں مانگ کر اس دنیا میں لاتے ہیں پھر اس کے لئے سب کرتے بھی ہیں۔ اور بہت کچھ سہتے بھی ہیں۔
اولاد تو کچھ بھی نہیں کرتی پھر بھی ماں باپ ہمیشہ اپنی اولاد کو سینے سے لگا کے رکھتے ہیں”
وه بھی میری اولاد ہی تو تھی۔۔ میں نے اس کی پروا نہیں کی اس کا خیال نہیں رکھا۔۔۔ اس کو اداس تکلیف میں دیکھتا رہا پر اس سے پوچھا نہیں۔۔
کیوں کیا میں نے ایسا؟؟
کیوں؟؟؟
افنان پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ غازی نے سارة کو اشارہ کیا تھا۔ افنان کو روم میں لے کر جانے کا۔۔۔ پر وه ڈری ڈری سی لگ رہی تھی۔۔
افنان کو مشکل سے غازی نے اٹھایا اور روم میں لے کر گیا ساتھ سارہ بھی ساتھ ہی تھی۔ زبردستی جوس کے ساتھ نیند کی میڈیسن دی۔۔ سارہ کو اس کا خیال رکھنے کو بول کر خود حال میں ہی آیا جہاں میره ماہم دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ لگی رو رہی تھی۔
میره۔۔۔ غازی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔
میره۔۔۔۔
میره نے چہرہ اٹھا کر دیکھا۔۔۔ پر اس کے چہرے پر اس وقت کوئی تاثر نہیں تھا۔
روم میں چلے ریسٹ کر لے تھوڑا سا۔۔۔
نہیں جانا کہی بھی۔۔۔ جائے آپ اپنی بہن کے پاس۔۔۔ سب برباد کر گی وه۔۔۔ دو دن۔۔۔دو دن کی خوشی برداشت نہیں ہوئی اس سے۔۔۔ شادی والے گھر میں ایسے لگ رہا ہے کوئی مر گیا ہو، اتنا سوگ ہے۔۔ آپ کو نظر نہیں آ رہا کیا،؟؟
ثانی سب چھین گی ہم سے سب کچھ۔۔۔ خوشیاں کھا گی وه لڑکی۔۔۔ ہماری نور کو گندہ بول رہی تھی وه۔۔۔ اس کو ناجائز کہا تھا نہ؟؟
خود کیا ہے وه۔۔۔ وه گندی ہے۔۔۔ وه ہے آپ کی خالہ کی ناجائز اولاد۔۔۔ وه ہے۔۔۔ وه ہے۔۔۔ گندی۔۔۔ میری نور نہیں۔۔۔ ثانی نہیں ہے آپ کی بہن۔۔۔ پھر بھی وه خوش ہے۔۔ کسی نے اب تک کچھ نہیں بتایا اسے۔۔۔ پر اس نے کیا بول دیا میری معصوم بہن کو اتنے غلط الفاظ بولے۔۔۔ وه وہاں مر رہی ہے۔۔۔ پر آپ میں سے کسی کو پروا نہیں ہے۔۔ آپ نے کسی نے کبھی اسے اس کی غلطی نہیں بتائی۔۔۔ اس لئے وه ایسی ہو گی۔۔۔ آپ نے غلط کیا سب نے۔۔۔ اور اس کی سزا ہمارا گھر بھگت رہا ہے۔۔۔
۔
۔
۔
میره کے الفاظ اس کی باتیں کچھ بھی غلط نہیں تھی۔۔۔
باتوں میں ایک سچ بول گئے تھی پر باہر سے آتے ھوے یہ سچ۔۔۔ رضا، المیہ ، اور ثانیہ سن چکے تھے۔۔ ثانیہ اس سچ پر منہ پر ہاتھ رکھے کبھی المیہ اور کبھی رضا کو دیکھتی۔۔۔ پھر روتی ہوئی مصطفیٰ ولاز سے نکلتی چلی گی۔ پیچھے ہی رضا، المیہ گے تھے۔۔ ان کی آمد کا اندر حال میں موجود کسی کو بھی نہیں پتا چلا۔۔۔
ماہم ان سب میں رو رو کر بے حال ہو رہی تھی۔۔ نور بچپن کی واحد دوست تھی ایک دوسرے کی جان۔۔۔ اس کی حالت۔۔ اور پھر یہ سب باتیں۔۔ اس کا سر پھٹ رہا تھا۔۔۔
آپ سب نے بہت غلط کیا ہے۔۔ آج میرے ماما، پاپا،بھائی میرا گھر بہت رویا ہے۔ اتنا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں ان سب کو کبھی اداس ہوتے بھی نہیں دیکھا اور آج۔۔۔ آج۔۔۔ میره نے اپنی بات بھی پوری نہیں کی تھی کے بیہوش ہو کر صوفے پر گری۔۔۔
“ایک انسان کی اہمیت بہت سی کی زندگیوں کے لئے خوشی نہیں، بلکے جینے کی وجہ ہوتی ہے۔ پر اگر وه انسان آپ سے ناراض ہو جائے یا اسے کچھ ہو جائے تو اس انسان کی ڈوبتی زندگی بھی آپ کی زندگیوں میں طوفاں لے آتی ہیں۔کچھ لوگ آپ کے دل میں بستے نہیں ہیں ،بلکے آپ کی دل کی دھڑکن کی طرح ہوتے ہے۔ جو دھڑکتی ہے تو زندگی سانس لیتی ہے۔ ٹھیک اس ہی طرح خاص لوگ بھی جب اس پاس ہوتے ہے تو زندگی ،زندگی لگتی ہے۔ آپ کو اپنا آپ جیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔”
۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج نور کو ہسپتال ایڈمٹ ھوے پورے تین دن ہو چکے تھے۔ پر معاذ آہینور، محمش کے علاوہ کوئی بھی روم میں نہیں گیا تھا۔ معاذ اور آہینور کو بھی تب اندر جانے دیتا جب نور نیند میں ہوتی۔ محمش ابھی کسی بھی قسم کی مصیبت برداشت نہیں کر سکتا تھا اس لئے نور کو سب سے دور رکھنے کی وجہ وه سوال جواب بھی تھے جن سے نور پریشان ہوتی۔۔
نائل مھین بلکے مصطفیٰ ولاز کے سب افراد اس کو دور سے ہی دیکھ کر چلے جاتے۔ محمش اپنے علاوہ کسی کو بھی اس کے پاس بھی جانے کی اجازت نہیں دینا چاہتا تھا۔۔ اس کے جینے کی وجہ اب تو اس کے سامنے آئی تھی۔ پھر کیسے نہ اس کا خیال رکھتا۔
۔
۔
۔
دوپہر ظہر کی نماز پڑ کر محمش ابھی فری ہوا ہی تھا۔ کہ ڈاکٹر نور کے چیک اپ کے لئے روم میں آئے۔۔۔
نور ابھی بھی دوائیوں کے زیر اثر سو رہی تھی۔ تین دن سے یہی سب چل رہا تھا نور بہت کم ہوش میں آئی تھی۔ یا یہ کہنا بہتر تھا کہ ابھی اس کو پورا ہوش میں نہیں لیا جا رہا تھا۔۔۔ نیند میں ہی کبھی محمش اور کبھی معاذ سے چند باتیں کرتی پھر غنودگی میں چلی جاتی۔۔
اب ہم کہہ سکتے ہے کہ یہ بہتر حالت میں ہے۔ پر یہ تب تک ہی بہتر رہ سکتی ہے۔ جب تک آپ ان کو خوش رکھے گے۔ کوئی پریشانی ان کو نہیں دے گے۔۔۔باقی ہم اب ان کو پرائیویٹ روم میں شفٹ کر رہے ہے۔ ڈاکٹر نے دہمی مسکراہٹ لئے ساری بات کی۔۔۔
“جزاك اللہ” ڈاکٹر علی، آپ نے اور آپ کی پوری ٹیم ہی بہت خیال رکھا ہے۔ اللہ کے بعد اگر میں کسی کا شکر گزر ہوں تو وہ صرف آپ سب کا۔۔۔ آپ نے میری پری کی زندگی بچنے کی پوری کوشش کی ہے۔۔ محمش کا لہجہ کسی کو بھی اپنا دیوانہ بنانے کے لئے کافی تھا۔ پر یہ لڑکا سچ میں شکر گزر تھا اس ہسپتال، ڈاکٹرز کا پوری ٹیم کا۔۔۔
“کچھ لوگ بہت خاص ہوتے ہے۔ یا پھر اللہ کو بہت پیارے ہوتے ہے، اتنے کے ان کی دعائیں کبھی رد نہیں کرتا۔ ان کی خاموشی۔۔ صبر۔۔ لہجہ۔۔ اخلاق۔۔ رب کو بہت پسند ہوتا ہے یہی باتیں تو رب سے تعلق بنانے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ اور جس کے پاس یہ سب ہو، وه رب کے بہت نزدیک ترین پایا جاتا ہے۔ یا پھر یہ کہنا بہتر ہو گا وه اللہ کا لاڈلہ بن جاتا ہے۔اس بندے نے بہت کچھ سہا ہو گا پر یہ صرف اس کا رب یا وه بندہ جانتا ہو گا۔ پر اللہ اس صبر پر عطا کرتا ہے وه سب دیکھتے ہیں۔ یہ اللہ کا پیار ہوتا ہے جو آپ کو عطا کرتا ہے۔”
میں نہیں جانتا کون کیسا، اور کیا ہے۔ پر اس بچی پر رب کا کرم ہے۔ یہ بہت خاص ہے۔بہت سی دعائیں اس کے ساتھ ہے۔ اس لئے یہ لوٹ آئی یہ پھر سے۔۔۔ نہیں تو آپ یا میں سب کو معلوم تھا کے ایسا ممکن نہیں۔۔۔ پر اس بچی کو جیتنا آتا ہے۔۔ اب خود ہی دیکھ لو موت کو مات دے کر آئی ہے ایک بار نہیں دوسری بار۔۔ڈاکٹر نے ایک نظر سوئی ہوئی نور پر ڈالی۔۔۔
ٹھیک کہہ رہے ہے آپ یہ بہت خاص ہے۔۔ کسی کے لئے ہو یا نہ ہو پر میری زندگی ہے یہ۔۔
میرے اللہ کا ساتھ ہے اس کے ساتھ۔۔۔ مجھے محسوس ہوتا ہے۔۔ وہ اپنے بندوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔۔ پھر میرے ساتھ تو میرے رب کا تعلق الگ ہے۔
“جس کی ہر دعا میں ایک ہی بات ہو، ایک ہی شخص کا ذکر ہو، ایک ہی چاہ ہو ، ایک ہی بات کو منوانے کے لئے بار بار اس کی بارگاہ میں جائے، جس کے سجدے لمبے ہو جائے، جس کی دل میں اللہ کے نام کے بعد ایک ہی نام ورد کرے، جس کا نہ ہو کر بھی آپ کی زندگی میں رہنا، رب سے کی گئی باتوں میں صرف اس ایک بندے کا ذکر ہو۔۔۔ یہ سب ہوں، پھر اللہ کیسے نہیں سنے گا اس کی۔ میں مان ہی نہیں سکتا کہ اللہ نہیں سنے گا۔ اللہ تو بندے کی ایک پکار پر ہی اس ایک ساتھ ہوتا ہے۔ جیسے ماں کو ہم تنگ کر لے ایک لمحے کی ہی وه ہم سے منہ بھی موڑ لے پر جب ہم تکلیف میں ہوں بھی تو ماں کو پتا چل جاتا ہے اسے بنا کہے محسوس ہو جاتا ہے۔ ٹھیک اس ہی طرح اللہ بھی سنتا ہے ہر پکار پر۔ بےشک اللہ ہر ایک کو اس کے وقت کے مطابق عطا بہت کرتا ہے۔”
محمش کی باتیں ساتھ کھڑے ڈاکٹر علی کو بھی حیران کر رہی تھی۔۔ وه کچھ سوچ رہے تھے۔
آپ کہاں کھو گے؟؟
میں یہ سوچ رہا ہوں کہ آپ کی باتیں اتنی خوبصورت ہے۔ آپ اپنے رب کے اتنے شکر گزر ہے اتنی بڑی آزمائش کے بعد بھی۔۔ تو آپ کا تعلق اپنے رب کے ساتھ کیسا ہو گا۔
محمش کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔۔۔
” یہ باتیں سوچنے کی نہیں ہوتی۔ رب کا تعلق ہر ایک سے الگ ہوتا ہے۔ یہ بیان نہیں ہوتا، نا ہی کیا جاتا ہے۔ بلکے یہ محسوس ہوتا ہے۔ کسی بھی عمل سے پہلے آپ کو آپ کے اللہ کا ساتھ محسوس ہو جاتا ہے۔ اس کی مجودگی آپ خود سے محسوس کر لیتے ہے۔ اور جو بات، چیز صرف محسوس کرنے کی ہو اس کے لئے الفاظ نہیں ہوتے نہ ہی وہ زبان سے بیان ہوتی ہے۔۔۔”
ٹھیک کہا آپ نے بلکل۔۔۔ چلے پھر ملاقات ہو گی آپ دھیان رکھے۔۔ ابھی ان کو روم میں شفٹ کر دے گے پھر آپ سب آسانی سے مل سکتے ہے ان سے۔۔۔ڈاکٹر کہہ کر روم سے چلے گے۔۔
محمش نے ایک پیار بھری نظر اپنی پری پر ڈالی۔۔۔ اور خود اس کے دل میں اندر تک سکون اتراتا محسوس ہوا۔۔۔
عشق فقیری جد لگ جائے، پاک کرے ناپاکاں نوں
عشق دی آتش لے جاندی اے عرشاں تیکر خاکاں نوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...