یاد آوں تو بس اتنی سی عنایت کرنا
اپنے بدلے ھوے لہجے کی وضاحت کرنا
تم تو چاہت کا شاہکار ہوا کرتے تھے
کس سے سکھا ہے الفت میں ملاوٹ کرنا
ہم سزاؤں کے حق دار بنے ہیں کب سے؟
تم ہی کہہ دو کہ جرم ہے محبّت کرنا
تیری فرقت میں یہ آنکھیں ابھی تک نم ہیں
کبھی آنا میری آنکھوں کی زیارت کرنا
(# copied)
دل کا ٹوٹنا تو الگ بات ہے۔۔۔پر روح ۔۔۔ آپ کے اندر چوٹ لگے تو کچھ نہیں بچتا۔۔۔ روح کا معملا بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جسم میں جان ہونا کیا ہے؟
جسم میں جان آپ کے اندر ایک روح ہے۔ پاک صاف روح۔۔۔۔خاص لوگوں کو جیسے اچھی چیزیں پسند آتی ہے ویسے ہی روح کا معملہ ہے۔ انسان کی روح جتنی پاک صاف ہو گی وہ خود بھی ویسا ہی اچھا پاک صاف ہو گا۔ روح کا پہلا تعلق خدا سے ہوتا ہے۔ اور اس تعلق کو انسان پہچان لے اگر جان لے تو ساری بات ہی سمجھ آ جائے۔۔
“اصل میں یہ جو روح کا تعلق ہوتا ہے نہ یہ سیدھا رب سے ملاتا ہے۔ جب تعلق روح سے جڑ جائے تو پھر سب حاصل میں آ جاتا ہے۔ آپ پر وه ہر چیز واجب ہو جاتی ہے جس کی ذرا سی جھلک بھی آپ کے دل میں آ جائے
روح آپ کے اندر رب کی تلاش ہے۔ رب اندر بستا ہے یہ جو اندر ہے’ آپ کا ضمیر یہی روح ہے۔”
بات سمجھے کی ہے جو سمجھ جاتا ہے وه پا بھی لیتا ہے اور جو سمجھ کر بھی انجان بنتا ہے وه کبھی بھی کچھ حاصل ہی نہیں کر سکتا ہے۔ جس نے اپنا آپ ہی نا پہچانا وه کسی کو کیا پہچانے گا۔۔ کیسے رب کو تلاش کرے گا جبکہ اسے اصل کا مطلب ہی نہیں معلوم۔
آپ کی پوری باڈی کو کنٹرول دل، دماغ کرتا ہے ٹھیک اس ہی طرح ان دونوں کو کنٹرول کرنے کے لئے آپ کی روح۔۔۔ آپ کا اندر۔۔۔آپ کا ضمیر ہے۔۔۔ اگر آپ اپنے ضمیر کو اپنے اندر کو ہی مار لے گے تو کچھ بھی محسوس نہیں کر سکے گے۔۔ پھر آہستہ آہستہ آپ کھوکھلے ہو جاتے ہے آپ کی جڑیں کمزور ہو جاتی ہے جو آپ کو دن با دن ختم کرتی جاتی ہیں۔ پھر نا تو آپ بچتے ہے، نہ ہی کچھ بچتا ہے۔
روح کا پاک ہونا لازم ہے جیسے خاص چیزیں پاک ہوتی ہیں۔ویسے ہی روح پاک ہونی چاہے۔ صاف پاک چیزیں دیکھنے سے ہی خوبصورت لگتی ہیں، دلکش ہوتی ہیں اپنے جانب متوجہ کرواتی ہیں۔ ٹھیک ویسے ہی پاک روح والے اللہ کے قریب ہوتے ہیں، پھر کیسے نا ان لوگوں کا پتا چلے جو اللہ کے قریب ہوں کیسے نا دل ان کی جانب متوجہ ہو جو پاک روح پاک دل کے مالک ہو۔ دل خود با خود اُن کے جانب دوڑتا ہے۔
ایک کشش ہوتی ہے جو ان کی جانب آپ کو خود سے متوجہ کرتی ہے۔ پھر آپ نا چاہتے ھوے بھی ان تک پہنچ ہی جاتے ہے۔ راستہ بنانے والا راستہ بنا ہی دیتا ہے آپ ان سب سے خود کو دور کر ہی نہیں پاتے۔نور ان کے چہرے سے ہی نہیں ان کی آنکھوں سے ان کی باتوں سے جھلکتا ہے۔ پاک روحوں کا ملنا واجب ہوتا ہے۔
یہ دنیا انسان کو اپنی جانب کھینچ ہی لیتی ہے پھر انسان ان دنیا کے رنگ میں رنگوں میں ڈھل جاتا ہیں جیسے جیسے وہ دنیا میں کھوتا جاتا ہے ویسے ویسے ہی وه اپنے رب سے دور۔۔۔ اور بہت دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر ہی تو اصل کام شروﻉ ہوتا ہے۔
۔
۔
۔
۔
انسان کو پہلے دھوکا ملتا ہے۔۔۔ اعتبار ٹوٹتا ہے۔۔۔ دل کے ارمانوں کا قتل ہوتا ہے۔۔۔آہستہ آہستہ آپ ٹوٹنے لگتے ہے پر۔۔۔۔ پر اگر ٹوٹنے کے بعد اپنے رب اپنے اصل کی جانب لوٹ جانے تو وه رب سمبھال لیتا ہے۔۔ ہاں وه تھام لیتا ہے۔ وه رب آپ کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے تب ایسا معلوم ہوتا ہے آپ محفوظ ہو آپ کسی کے مظبوط حصار میں بند گے ہو۔
۔
۔
۔
وه بھی تو معصوم تھی۔۔۔ دنیا سے الگ۔۔۔ نہ کوئی چالاکی۔۔۔ نہ اس کو دنیا کا معلوم تھا کہ یہ دنیا اس میں بسنے والے بہت سے لوگ، بہت سے آپ کے اپنے ہی آپ کو جینے نہیں دیتے۔۔ آپ کی خوشیوں سے جلتے ہے۔ آپ سے حسد کرتے ہے۔یہی حسد بہت سی خوشیوں کو کھا جاتا ہے۔ گھروں کے گھر اجاڑ دیتا ہے۔پر وه بھی تو خاص تھی۔ اللہ نے اسے بنایا ہی پیار کرنے کے لئے تھا، پر ظلم ہو گیا۔۔۔ ظلم بھی اس دنیا والوں نے خوب کیا۔۔۔
پہلا ظلم باپ نے کیا۔ پانچ سال کی معصوم سی اس بچی کو گھر سے اٹھا لایا۔ باپ کا پیار نہ پہلے کبھی جگا نہ ہی اب اس معصوم کی شکل صورت دیکھ کر جگا۔ ارحم تو تھا ہی بےحس۔۔۔ لالچی انسان۔۔ اپنی بیٹی کو ہی اس کے گھر سے دور لے آیا۔ ایک بار پھر اس نور پیلس کو تڑپانا چاہتا تھا ۔ارحم مصترا نور شاہ کو لئے راتوں رات ہی لاہور آ گیا۔۔
اگلی صبح نور پیلس پر قیامت بن کر نازل ہوئی، اس گھر کی شہزادی کو اس کا باپ ہی لے گیا۔ سب کی جان مانو کسی نے ایسے نکالی تھی کہ ایسے لگ رہا تھا جسم کا ایک ایک پارٹ چیر چیر کر کوئی الگ کر رہا ہو۔
پری کو خوب پہچان تھی اپنوں کی پر کسی کو بھی اپنی آنکھوں کے سامنے نہ پا کر جو روئی تو پھر ارحم کے بھی قابو میں نہ آئی۔
پورا دن یہی گزارا۔۔۔
اور پھر ایسے ہی ایک مہینہ گزر گیا۔ پھولوں جیسی وه بچی اس ایک ماہ میں مرجھا گی پر ارحم کو بس لالچ تھا پیسوں کا پر اب تو اس ظالم کو اور پر لگ گے تھے جب پتا چلا کے اس کے دو بچے بھی ہے پر نور پیلس والوں کی جان تو اس کی بیٹی میں تھی اس لئے نور پیلس والوں کو تڑپنے کے لئے اس کو لئے ساتھ آ گیا۔۔
پری ذرا سا روتی تو ارحم رکھ کر ایک دو تھپڑ جھاڑ دیتا۔
دسمبر کی سخت سردی میں بھی وه بچی معمولی سی جرسی پہنے ھوے تھی۔ نیچے والا ہونٹ بری طرح پھٹا ہوا تھا۔ روئی جیسے گالوں پر تھپڑ کے نشان اتنے وضیع تھے کہ دیکھ کر لگتا خون اب نکلا کہ اب۔۔۔۔
بکھرے بال۔۔۔۔بخار سے بےحال وہ بچی آج موقع دیکھ کر اس قید خانے سے باہر نکلی۔ پر جاتی کہاں کچھ پتا بھی نہ تھا۔ چلتے چلتے رات کے دس بجے مصترا نور مین روڈ پر نکل آئی۔ پر روڈ کراس کرتے ھوے بےحال ہوتی وہی گر گی۔ نجانے اتنی دیر گزر چکی تھی۔
روڈ پر ایک کار دوسری جانب سے آتی ہوئی نظر آئی۔پر جلد ہی بریک لگا کر روک گی۔ نائل اور ساتھ ہی افنان کار سے باہر آئے پر۔۔۔
۔
۔
۔
پر روڈ پر کوئی چھوٹی سی بچی بیہوش پڑی تھی۔ نائل نے بہت کوشش کی پر ہوش مین نہیں آئی۔ افنان کو اس وقت نہ جانے کیا ہوا بچی کو باہوں میں لیا اور کار کی پچھلی سیٹ پر گود میں لے کر بیٹھ گیا۔۔
ڈیڈ ہسپتال فاسٹ۔۔۔ افنان پریشان سا اس بچی کے بکھرے بال پیچھے کر رہا تھا پر ڈر حد سے زیادہ سوار تھا۔۔۔
ڈیڈ پلزز جلدی۔۔۔۔ یہ بہت چھوٹی ہے۔۔۔ اس کو بہت درد ہے۔۔۔ چوٹ۔۔۔۔ تھپڑ۔۔۔ خون۔۔ ڈیڈ اس کو کچھ ہو جائے گا۔۔ افنان اپنے ساتھ ساتھ نائل مصطفیٰ کو بھی حد سے زیادہ ڈرا رہا تھا۔۔
افی بچے کچھ نہیں ہو گا ہم بس جا رہے ہے ہسپتال یہ ٹھیک ہو جائے گی۔نائل کو سوچنے کا موقع بھی نا ملا تھا کہ کون تھی اور اکیلے اس وقت۔۔۔۔۔
اس پری کو ہسپتال لے جایا گیا۔۔ پر افنان پر یہ انتظار بہت بھاری ہو رہا تھا۔نائل مصطفیٰ کا فیملی ڈاکٹر ولید آپریشن روم سے باہر آئے۔
انکل بچی۔۔ افنان بھاگ کر پاس آیا۔۔
ڈاکٹر ولید کے چہرے پر اس وقت کوئی بھی اچھا تاثر نا تھا۔
ولید یار جھوٹ مت بولنا۔۔ سچ سچ بتا دو بچی کیسی ہے کچھ برا۔۔ مطلب۔۔۔۔
ولید نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔ جبکہ افنان کھڑا انتظار میں تھا۔ وه کچھ بھی غلط سوچنا نہیں چاہتا تھا۔
نائل میں نہیں جانتا وه کس کی بیٹی ہے یا وہاں کیسے آئی۔۔۔ پر وه ٹھیک نہیں ہے کچھ عرصہ پہلے یا کہہ لو کچھ ماہ پہلے اس بچی کو ہارٹ اٹیک آ چکا ہے۔ اس کا مطلب سمجتھے ہو تم۔۔۔ اس کو کسی اچھی جگہ نہیں رکھا گیا۔ مارا جاتا رہا ہے وه ذہنی جسمانی طور پر ٹھیک نہیں ہے اتنی عمر میں اس کو ہارٹ کا مریض بنا دیا گیا ہے۔۔۔
پر۔۔۔۔ آپ علاج۔۔ مطلب میڈیسن۔۔۔۔
افنان علاج وقت پر نا ہونے کی وجہ سے ہم اب اس کا آپریٹ بھی نہیں کر سکتے بچی کا دل بہت زیادہ کمزور ہو چکا ہے اس کا فلحال ایک ہی ہل ہے اس کو خوش رکھا جائے۔ کوئی ایسی چیز جس سے وه ڈرتی ہو دور کر دو ، وه چیز وه وجہ اس سے۔۔۔ اور ہاں۔۔۔ سر پر بہت چوٹ آئی ہے گرنے کی وجہ سے۔۔ میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا فِل وقت۔۔۔۔
مطلب۔۔۔ انکل پلزز کچھ کرے وه بچی ہے۔۔۔ بہت تکلیف میں ہو گی۔۔۔ پلزز
افنان بچے برا تو ہو چکا ہے اس کے ساتھ۔۔ صبر کرنا پڑے گا سب کو اس کو سمبھلنا ہو گا۔۔۔ ہوش میں آنے کے بعد ہی پتا چلے گا۔۔۔ بچی کی یاداشت پر کوئی اثر تو نہیں پڑا۔۔ ابھی ہم کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔۔۔۔
ڈاکٹر کہہ کر روم میں چلے گے پیچھے نائل اور افنان حیرت سے کھڑے ایک دوسرے کو تک رہیں تھے۔
پورے ایک دن کے بعد ہوش آیا اس پری کو، پر اس کی حالت کہی سے بھی بہتر نا تھی۔۔ جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا۔۔۔ مصترا نور شاہ اپنی اصل پہچان بھول گی، اپنا اصل بھول گی۔۔
اور پھر وه نور پیلس کی پری مصترا نور شاہ مصطفیٰ ولاز کی بیٹی نور العین بن گی۔۔۔۔
پر اس کے بیگ سے کچھ کپڑے اور ایک تصویر ملی تھی جس کی بیک سائیڈ پر مصترا نور مائے لوو اونلی مائے۔۔۔
(مصترا نور میرا پیار صرف میرا۔۔۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رقصِ دل ہے جاری تیرے عشق کے سازؤں پہ
کوئی ایسا سُر نہ چھیڑ کہ دل تڑپ کے مر جائے
بہت سی آوازیں ایک ساتھ مصطفیٰ ولاز میں گونجی تھی پر جس کے لئے تھی وہ بیہوش ہونے کو تھی کہ افنان آگے بڑھتا اس سے پہلے محمش نے نیچے گرتی اپنی پری کو باہوں میں سمیٹا۔۔۔
سب آنکھیں پھاڑ ے محمش کو دیکھ رہے تھے پر اس کو کوئی پروا نہیں تھی۔۔۔
افنان بہت غلط کر دیا تم نے بہت غلط۔۔۔ مصطفیٰ ولاز کا ایک ایک فرد آج میری پری پر ہوئے ظلم کا حساب دے گا۔۔۔ اور خدا قسم میں اپنی پری کے معاملے میں خود کو یا اپنے ہی گھر والوں بھی رایت نہیں دیتا اور تم سب تو۔۔۔۔
افنان پری کو اپنی باہوں میں لئے باہر کو بھگا ساتھ معاذ بھی تھا۔۔۔ پر مصطفیٰ ولاز والوں کے پاؤں جیسے ایک ہی جگہ جم گے تھے۔۔ وقت حالت کیا رنگ دیکھا گے تھے۔۔ ثانیہ جس کو برا بھلا کہ رہی تھی وہی لڑکی نور پیلس کے لئے نیلی آنکھوں والے شہزادے کے لئے بہت اہم تھی۔
نور پیلس کے سب افراد اپنی اپنی کار میں ہسپتال کے لئے روانہ ہوئے پیچھے ہی مصطفیٰ ولاز کی کار تھی۔۔۔۔
عین۔۔۔۔ اپنی نور۔۔۔ نور پیلس۔۔۔۔ افنان کی سوچے بہت دور جا رہی تھی پر اتنی بھی نہیں یہ سچ جان پاتا۔۔۔
۔
۔
۔
معاذ کار ڈرائیو کر رہا تھا جبکہ محمش اپنی گود میں لئے اپنی پری کو لئے پیچھے بیٹھا تھا۔
پری۔۔۔ میری ڈول۔۔۔ نور پلزززز ایسے نہیں کرو اپنے ایش کے ساتھ۔۔۔۔ معاف کر دو۔۔۔ پلززز آنکھیں کھول دو۔۔محمش ایک ہاتھ سے نور کے چہرے کو سہلا رہا تھا۔۔۔ بےرابطہ الفاظ۔۔۔ جوڑ۔۔۔ پر آج تو سب کی جان یہ بلی آنکھوں والی معصوم سی گڑیا سب کا امتحان لینے پر تھی۔۔۔ بےسود پڑی تھی۔۔ جبکہ کلائی پر بندھا رومال بھی سرخ ہو گیا ، نور کا سانس اکھڑ رہا تھا۔۔۔پر محمش کو اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایش۔۔۔۔۔۔
ہمممم۔۔۔۔۔
ہممم ن ۔۔۔۔۔نہیں کیکتے۔۔۔ جی کیکتے۔۔۔( ہممم۔ نہیں کہتے۔۔۔ جی کہتے ہے)
لائٹ گولڈن بالوں کی چوٹیاں بنائے ریڈ فراک پہنے اس وقت محمش کی پری اس کے ہی روم میں بیٹھی باتیں کرنے کی ارادے سے آئی۔
سوری۔۔۔ جی بولے میری پری کو کیا بات کرنی ہے۔ محمش نے اپنی بکس سائیڈ پر رکھی اور پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔
ایش جب ہم مل جے گے تو آپ گود مہ ات کے بھگو گے۔۔۔ ہمیں ہوشپیٹل لے کرر جاو گے۔ (ایش جب ہم مار جائے گے تو آپ گود میں اٹھا کے بھاگو گے ،ہمیں ہسپتال لے کر جاؤ گے)
بلی آنکھوں والی یہ بچی آنکھیں میں معصومیت لئے کچھ غلط بول گی۔۔۔ بلکے غلط نہیں کسی کی جان نکل گی۔۔۔
پ۔۔۔ پری۔۔۔۔۔ ایسے نہیں کہتے آپ سے یہ سب کس نے کہا۔ محمش نے فورا سے اپنی پری کو اپنے ساتھ لگایا۔۔ جو بات سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور جس کے لئے، وه خود اپنے منہ سے یہ سب۔۔۔ مرنے کی باتیں۔۔۔۔ ایک دم سے محمش کو خوف آیا۔۔
چار سال کے لگ بھگ مصترا نور شاہ محمش کے انداز آواز سے گھبرا گی۔۔
ایش آپ دانتاو گے۔۔۔ (آپ ڈانٹوں گے)
پری ہم آپ کو کچھ کہہ ہی نہیں سکتے میری جان۔۔۔ پر ایسی باتیں نہیں کرتے مرنے والی۔۔۔
ہم نے خودد نی کہا سچی میں، وه گل داما دیکھ رہی تھی نا تو اس میں لڑکی گیر جاتی اسے جہاں پین ہوا پھر لڑکا اسے گود میں اٹھا کر لے گیا ہسپتال۔ ہم نے اش شے پوچھا پر اب نج ہو گے۔۔ آخری بات میں اداسی چاہ گی۔
(ہم نے خود سے نہیں کی سچ میں،وه تو گل ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔۔ اس میں لڑکی کو یہاں درد ہوا دل کی جانب ہاتھ لگا کے بتایا گیا پھر وہ گر گی لڑکا جو تھا نا اس میں وه گود میں اٹھا کے بھاگا اسے ہسپتال لے کر۔۔۔ اس لئے ہم نے آپ سے پوچھا پر آپ ناراض ہو گے۔۔)
پر میری جان ایسے نہیں کہتے آپ نے ایسا کیوں سوچا کہ آپ کو کچھ ہو۔۔۔ ہم ہرٹ ہوئے ہے آپ کی ایسی بات سے۔۔۔محمش نے نرم دہمے لہجے سے کہا۔۔
چھوٹی سی یہ پری فورا سے پہلے سیدھی ہوئی اور گود سے اٹھ کر محمش کی نیلی آنکھوں پر باری باری بوسہ لیا پھر اس کے گال پر۔۔۔
اب آپ کو پین نہیں ہو گی ہم نے آپ کو ٹھیک کرر دیا۔( اب آپ کو درد نہیں ہو گا ہم نے آپ کو ٹھیک کر دیا)
اس کے اس انداز پر محمش کے دل میں سکون اتر گیا۔۔۔ میری شہزادی ہے ہی بہت اچھی۔۔۔ محمش نے اس کے نرم و ملائم سرخ سفید گال پیارے سے کھنچے۔۔۔
ہاہاہا ایش نا۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ پجججج(پلزز)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنے سال پہلے کے، بے دہانی، بچپن کے کہے ھوے الفاظ باتیں محمش کو یاد آئی تھی۔ وہی سچ ہو رہا تھا گود میں اٹھا کر ہسپتال لے کر جانا۔۔۔۔
جیسے جیسے وقت گزارا رہا تھا محمش کی خود ہی سانس اٹک رہی تھی۔۔ اسے لگ رہا تھا کہ جان قطرہ قطرہ کر کے نکل رہی ہو۔۔
۔
۔
۔
ہسپتال کے آمنے جیسے ہی کار روکی محمش اس نازک سی پری کو لے کر اندر کی جانب بھاگا۔۔ معاذ کی بلی آنکھیں آنسوں سے بھری پڑی تھی۔ صرف اس ایک لڑکی کی جان ان سب میں بسی تھی پر وه انجان، بیہوش، زندگی سے جیت کی جنگ لڑ رہی تھی۔
ڈاکٹر نے محمش معاذ کو آتے دیکھا تو کوئی بھی سوال کیے بینا چیک اپ سٹارٹ کیا۔جبکہ ان کو اندر جانے کی اجازت نا تھی۔
کچھ دیر کے بعد نور پیلس اور مصطفیٰ ولاز والے بھی آتے ھوے نظر آئے۔۔پر مصطفیٰ ولاز کی فیملی کو یہاں دیکھ کر غصے سے محمش کی ہاتھ کی رگیں ابھر گی
ابھی محمش اس کے پاس جاتا ہی کہ ڈاکٹر باہر آئے۔
کیا۔۔۔ کیا ہوا پری ٹھیک۔۔۔ وه ٹھیک ہے نہ۔۔۔ ہوش میں آئی؟؟ ایک ساتھ بہت سے سوال کر ڈالیں۔
ڈاکٹر کے چہرے سے مایوسی صاف جھلک رہی تھی۔
بچی کی ایج کیا ہے محمش۔۔ سوال کیا گیا۔
اُنیس کی ابھی ہوئی ہے۔۔۔
اور اس کا آپ سے تعلق۔ ڈاکٹر کے سوال سب کو ہی پریشانی میں ڈال گے
کچھ پل کو محمش روکا۔۔۔ ہوا کیا ہے پری کو پلزز بتا دے۔۔۔
میں نے بھی کچھ پوچھا ہے’ جو پوچھا ہے اس کا جواب دے۔۔۔اس کا سب سے نزدیک رشتہ کیا اور کس کے ساتھ ہے۔
افنان دو قدم ہی آگے بڑھا تھا پر پھر محمش کی آواز پر قدموں میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہوئی۔
۔
۔
۔
“بیوی ۔۔۔۔۔”
” بیوی ہے پری میری۔۔ ”
آج سے ہی نہیں پچھلے کئی سالوں سے۔اس کے الفاظ بیوی کہنا مصطفیٰ ولاز والوں کے سر پر ایسے لگے جیسے ہسپتال کی چھت ایک ایک فرد پر الگ سے گری ہو، پر ابھی تو بہت کچھ باقی سنا تھا۔
ان کو اتنی پریشانی کیوں دی گی جب کے آپ کو معلوم بھی ہے یہ ہارٹ کی مریض ہے کافی عرصے سے، ان کو پہلے بھی ایک اٹیک آ چکا ہے اور اب۔۔۔ نور پیلس والوں کے دل دھڑکنا بند ھوے۔۔ کتنی آنکھیں ایک ساتھ بہہ گی
اب کیا ڈاکٹر؟؟ بولے بھی کچھ۔۔۔ معاذ کی بھاری آواز سے اب سب سکتے سے باہر آئے۔
اب ان کو دوسرا اٹیک ہوا ہے جو کافی برا ثابت ہو سکتا ہے۔۔ ہم نے ٹریٹمنٹ شروع کر دیا ہے۔۔ پر امید آپ کو کوئی بھی نہیں دے سکتے۔۔ محمش آپ ان کے شوھر ہے آ کر فوم پر اپنے دستخط کر دے۔ باقی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔۔۔ ڈاکٹر کہ کر اندر چلے گے۔
پر باقی سب پر قیامت برپا تھی۔آہینور گرتی کے عالَم نے سہارا دے کر بٹھایا۔۔۔
لالا میری گڑیا۔۔۔ میری جان۔۔۔اس حالت میں۔۔۔ میرا کلیجہ۔۔۔ میرا دل۔۔۔ نور۔۔۔۔ آہینور عالَم کا سہارا پاتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔
اس وقت بھی ایک بندہ تھا جو کمال کا ضبط کے ھوے تھا اور وه بلی آنکھوں والی کا شہزادہ محمش شاہ تھا۔
لڑکھڑاتے قدم جھکے جھکے کندھے۔۔۔۔ یہ فوم کو ہاتھ میں پکڑے کھڑا تھا۔۔ ہاتھ کانپے تھے جبکہ نیلی آنکھوں سے گرم سیاہ بہہ کر اس فام پر گیر کر جذب ہو گیا۔۔۔ایک سکی تھی جو اس وقت اس کے منہ سے نکلی تھی۔
آج یہ شہزادہ ٹوٹا تھا بکھرا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ اپنے کسی خاص رشتے کو کبھی بھی دکھ تکلیف میں دیکھ ہی نہیں سکتے چاہے آپ کتنے ہی مظبوط کیوں نہ ہو۔ ایک مرد بھی خاص، اپنے پیار کرنے والے رشتے کو تکلیف میں دیکھ کر ٹوٹ جاتا ہے۔ ہر رشتہ اپنے آپ میں خاص اور مخلص ہے۔ پر میاں بیوی کا رشتہ رب کے بعد واحد ایک ایسا رشتہ ہے جو بہت نازک ہے۔ پر مخلص پیار سے بھرا ہوا بھی اتنا ہی ہے۔۔۔ اگر آپ کا دل صاف ہے آپ کا دماغ تو سب سے آسان خوبصورت رشتہ بھی یہی ہے۔۔۔
ایسا واحد رشتہ جس میں ہر احساس ہے۔ پیار۔۔۔۔ محبّت۔۔۔۔ قدر۔۔۔۔ احساس۔۔۔۔ عزت۔۔۔ احترم۔۔۔ سب کچھ۔۔۔ کسی ایک کہ بس کی بات نہیں ہوتی یہ رشتہ سمھجنا۔۔۔ دونوں کے لئے یہ رشتہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ دونوں کے فرض ،حقوق برابر رکھے گے ہے۔ جہاں اگر ایک چپ رہتا ہے تو اس ہی طرح دوسرے کو بھی بہت باتوں میں خاموشی دکھانی پڑتی ہے۔ کومپرومز کرنا پڑتا ہے اور دونوں کو ہی کرنا پڑتا ہے کوئی ایک اس رشتے میں ہی نہیں جان ڈال سکتا۔۔
“ہر رشتہ وقت۔۔۔ پیار ۔۔۔احساس ۔۔۔عزت مانگتا ہے۔ ہر رشتے کی بنیادی ضرورت یہی تو سب ہے۔۔”
آہینور نے بھی جان لگا دی تھی اپنے رشتے کو نبھانے میں پر ہوا کیا؟؟
سب ختم ہو گیا ایک لڑکے نے اس کے لالچ نے بہت سے لوگوں کی خوشیاں کھا لی۔۔ بہت سے لوگوں کی بددعا اپنے نصیب میں لکھوا لی۔۔۔۔
خیال باندھ کے لاؤں کمال کر ڈالوں
تمہاری ذات کو پھر بے مثال کر ڈالوں
جو تو پکارے تو پھر مجھ پر وجد طاری ہو
میں پاؤں جھوم کر رکھوں تو دھمال کر ڈالوں
ہر اک شام فلک پر تمہارا غم لکھ دوں
یوں دل اتاروں میں دریا کو لال کر ڈالوں
(#copied)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...