کافی دیر مسجد میں نوافل ادا کرنے کے بعد محمش نے گھر کی جانب رہ لی۔۔ معاذ کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ وه اس کا انتظار کرے گھر میں کسی کو فلحال کچھ نا بتایا جائے۔۔۔
رات کے نو بجے محمش واپس آیا تھا اور سب اس کے انتظار میں ہی تھے۔۔۔ آج اصل میں لگ رہا تھا کے نور پیلس روشن ہوا ہے۔۔۔ نور لگ رہا تھا آج خاص اس گھر پر اترا ہو۔۔۔
پر ایسا نہیں تھا۔۔ ہر روز کی طرح ہی آج بھی نور پیلس عام دنوں کی طرح تھا۔۔ پر آج اس گھر میں برسوں بعد خوشیاں آئی تھی آج برسوں کے بعد اس پیلس میں رونق اتری تھی۔۔ دیکھنے والا خوش تھا اس پیلس میں بسنے والے خوش تھے تو ہر چیز رنگی روشن چمکتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔۔۔ دیکھنے والی کی نظر تھی۔۔ جو اندر تک سکون بخشے ھوے تھی۔۔۔
سب اس وقت بھی آہینور کے کمرے میں ہی موجود تھے۔۔۔ بیڈ کے ایک جانب معاذ اپنی ماں کے ساتھ لگا بیٹھا ہوا تھا جبکہ دوسری جانب آغا جان بیٹھے اپنی بیٹی کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لئے سکون محسوس کر رہے تھے۔۔۔
محمش چل کے بیڈ کے پاس آیا۔۔
مجھ معصوم کو بھی تھوڑی جگہ مل سکتی ہے جانی کے پاس کیا؟ چہرے پر انتہا کی معصومیت لئے محمش اس وقت لاڈلہ بنا ہوا تھا۔۔۔
آ۔۔ اؤ۔۔ پا۔۔۔ یا۔۔ (اؤ پاس یہاں) آہینور کی آواز آئی۔۔۔
کہاں۔۔۔دونوں تو چپک کے بیٹھے ہیں آپ کے ساتھ میری یاد بھی نہیں آئی۔۔۔
معصوم مت بن کے دکھاؤں محمش شاہ۔۔۔ دوپہر سے کہاں تھے اب یاد آ گی گھر کی آپ کو۔۔۔ آغا جان اپنا چشمہ ٹھیک کرتے ھوے بولے نہیں بلکے گرجے تھے۔۔۔
مسجد تھا۔۔۔ نوافل ادا کر کے آ رہا ہوں۔۔۔ اس لئے دیر ہو گی۔۔ محمش سر کو جھکے ھوے ادب سے ہی بولا۔۔۔
آہینور کو اپنے شہزادے پر دل و جان سے پیار آیا۔۔۔ آج یہ لڑکا پہلے سے بھی زیادہ حساس ہو گیا تھا اپنے رشتوں کو لے کر پہلے سے بھی زیادہ محتاط ہو چکا تھا۔۔۔
آہینور نے بہت مشکل سے کانپتے ہاتھوں سے محمش کو پاس بولایا۔۔۔
۔
۔
۔
آپ نے بہت انتظار کروایا۔۔۔ بہت۔۔۔ آپ کو کبھی احساس ہوا میں معاذ باقی سب آپ کے بغیر کیسے رہے گے۔۔ کیسے؟
اس کے کھونے کا دکھ تو سب کو تھا۔۔ پر آپ ماں ہے نہ آپ سے برداشت نہیں ہوا۔۔ میں بھی تو آپ کا بیٹا ہوں معاذ بھی آپ کا خون ہے۔۔ آغا جان بھی تو ایک باپ ہے۔۔ پاپا بھی تو آپ کے بھائی ماما آپ کی بہن تھی پھر ہم سے کیسے برداشت ہوتا۔۔
یہاں سب کسی نا کسی رشتے کی خاطر جی رہے ہیں۔۔ زندہ ہیں۔۔۔ پر آپ کو ذرا ترس نہیں نا آیا۔۔ اپنی عادت ڈال کہ اس طرح اتنے عرصے تک ہم سے اپنوں سے منہ موڑے رہی۔۔ اتنے سال ہم سب خوشیوں کو ترسے۔۔۔ آپ کو خیال نا آیا۔۔۔ ایسا کون تھا جو آپ کے پاس نہیں آیا۔۔ معافی بھی مانگی۔۔ واسطے بھی دیں پر آپ۔۔۔۔ محمش کی آواز تھی ہی اتنی خوبصورت پر آج سارا دن رونے سے بہت بھاری آواز ہو چکی تھی پر یہ جب بھی بولتا تھا ایک الگ ہی احساس ہوتا۔۔۔۔ خوبصورت آواز لب و لہجہ دوسرے کو اپنی طرف متوجہ ضرور کرتا تھا۔۔
میرے بس۔۔۔ میں ہو۔۔۔ ہوتا تو ایسا کچھ۔۔۔ بھی نا ہوتا۔۔۔ اس دن۔۔ درد نہیں ہوا تھا۔۔۔ میری روح میرے وجود کو الگ کیا گیا تھا۔۔ میں۔۔۔ میں ماں ہوں۔۔۔ وه میری بی ٹی۔۔۔ بیٹی۔۔۔ میں کیسے ٹھیک رہتی۔۔۔ اتنا کچھ پہلے برداشت۔۔۔ کیا تھا۔۔۔ پر تب۔۔ ظلم ہم پر ہوا تھا۔۔۔ اس دن ظلم۔۔۔ بیٹی۔۔ پر ہوا محمش۔۔۔ میری بچی۔۔۔ چھوٹی۔۔۔ میری جان۔۔۔
آہینور کے الفاظ۔۔۔ لہجہ۔۔۔ انداز۔۔۔ سب کو رولا گیا تھا۔۔۔ پھوٹ پھوٹ کے روتی ماں کو آج بھی چین قرار نصیب نہیں ہوا تھا۔۔ محمش نے آہینور کو اپنے ساتھ لگا کے چپ کروایا۔۔۔
میں آپ سب کو کچھ بتانا چاہتا ہوں پر آپ کو یقین کرنا ہو گا۔۔۔ اور ابھی کچھ بھی نہیں پوچھے گے۔۔۔ بس انتظار کرے گے میں جیسا کہوں گا سب ویسے ہی کریں گے۔۔۔ اگر آپ کو یقین ہے کہ میں سچا ہوں۔۔ اگر یقین ہے مجھے پر تو پھر۔۔۔۔۔محمش اب سب کو حیران کرنے والا تھا۔۔۔
ہاں بولو بیٹا۔۔۔ ہمیں یقین ہے ہمارا بیٹا سچ بولتا ہے۔۔۔ عالمگیر شاہ نے حوصلہ بڑھایا۔۔۔
مصترا نور شاہ۔۔۔۔ زندہ ہے۔۔۔
ہر وه لمحہ جو تجھ سے جدا ہوتا ہے
چلتی سانسوں کے لئے اک سزا ہوتا ہے
کیسے سمجھاوں جہاں والوں کو آداب وفا
دنیا رکھو تو میرا عشق قضا ہوتا ہے
(#copied)
ایک دھماکہ ہوا تھا۔۔۔ کسی کے بولے چند الفاظ باقی سب پر پورے زور سے آ کے گرے تھے۔۔۔
وه زندہ ہے اس نور پیلس کی جان۔۔۔ شہزادی زندہ ہے۔۔۔ بلکے ہم سب کے بہت پاس۔۔۔ خوش ہے۔۔۔ جیسے ہم نے اسے اتنا پیار دیا ویسا ہی پیار وه لوگ دے رہے ہیں جن کے ساتھ وه اتنے سالوں سے رہ رہی ہیں۔۔۔ محمش ایک کے بعد ایک راز کھول رہا تھا۔۔۔ اور باقی سب ضبط کے دور سے گزر رہیں تھے۔۔۔
پر۔۔۔ کا۔۔ کہاں۔۔۔ میری بچی۔۔۔ میری نوری۔۔۔ مہش۔۔۔ محمش کہاں وه۔۔۔
جانی۔۔۔ وه یہاں ہی رہ رہی ہے۔۔۔ آغا جان مصطفیٰ ولاز کی نور ہی ہماری مصترا ہے۔۔ اس گھر کی جان۔۔۔ وه ہی ہے۔۔۔
آپ سب کیسے نہیں پہچان سکے۔۔۔
کیسے نہیں آپ کو لگا؟؟
اکفہ۔۔۔ عالَم۔۔۔ آغاجان حیران پریشان محمش کے چہرے کو تک رہیں تھے۔۔۔
میں ایک جھلک دیکھ کے آیا ہوں۔۔۔ نظر بھر بھی نہیں دیکھ سکا تو مجھے احساس ہو گیا۔۔۔ آپ سب کو اس سے ملے تھے گلے لگایا۔۔ پیار دیا پھر بھی۔۔۔
بس مجھے یہ پتا کروانا ہے وه ان تک گی کیسے۔۔ ملی کیسے۔۔۔ باقی کچھ اہم نہیں میرے لئے۔۔۔ بہت جلد وه یہاں اس پیلس میں ہو گی میرا آپ سب سے وعدہ ہے۔۔۔ پر تب تک آپ سب کو انتظار کرنا ہو گا۔۔۔ بس کچھ دن۔۔۔
مجھے ملنا۔۔۔ دیکھنا ہے۔۔۔ بس ایک بار۔۔ محمش ایک بار۔۔۔ آہینور کا دل بےچین ہوا۔۔۔
پانچ دن انتظار کر لے پلززز جانی۔۔۔ صرف پانچ دن۔۔۔ وه چل کے خود آپ کے پاس آے گی۔۔۔ آپ کے گلے لگے گی۔۔۔
لالا پانچ دن بعد۔۔ مطلب۔۔۔ معاذ کب سے چپ بیٹھا تھا پر اب پانچ دن بعد پر الجھ گیا۔۔۔
بھول گے پانچ دن بعد آپ کا اور پری کا برتھڈے ہے۔۔۔ محمش نے خوش ہوتے بتایا۔۔۔
پھر اس بار برتھڈے یہاں نور پیلس ہو گا۔۔۔ گرینڈ برتھڈے۔۔۔۔
سچ محمش۔۔۔ میری بیٹی آئے گی۔۔۔ میرے پاس۔۔۔ یہاں۔۔۔ آہینور کی آنکھوں کو ٹھنڈک مل رہی تجی ایک احساس جگا تھا۔۔۔ برسوں بعد بچھڑی بیٹی کو گلے لگانے کا۔۔۔۔۔
جی سچ میں۔۔۔ انشاءلله۔۔۔ محمش کی باتوں سے آہینور اصل میں زندہ ہو رہی تھی۔۔۔ روح میں سکون اتر کر قرار مل رہا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ماضی۔۔۔۔۔۔۔۔
کار اس وقت ہواؤں سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔ ڈرائیور کے ساتھ علی جبکہ پچھلی سیٹ پر عالمگیر شاہ اپنی گود میں آہینور کو لئے بیٹھا ہوا تھا۔۔۔
عالَم کا سفید سوٹ بھی جگہ جگہ سے لال ہو چکا تھا۔۔۔ آہینور کی حالت کیا تھی کوئی بھی نہیں جانتا تھا پر ایک زندہ انسان کے جسم سے روح دِہرے دِہرے کیسے نکلتی ہے اس بات کا اندازہ آج عالَم کو خوب ہو رہا تھا۔
گود میں بیہوش لیٹی آہینور کی سانسیں بہت مدھم چل رہی تھی۔۔۔
نوری۔۔ جان۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔ نا کرو ایسا۔۔۔ لالا مر جائے گے۔۔۔ آنکھیں کھول دو۔۔۔ ایک بار لالا ہی بول دو۔۔۔ پلززز۔۔۔
کار میں عالَم کی سسکیاں پھوٹ پھوٹ کر رونا سنا جا رہا تھا۔۔ وه شخص کبھی رویا نہ تھا آج اپنی بہن کو اذیت ، تکلیف میں دیکھ کر رو پڑا تھا۔۔۔
لالا نے دیر کر دی۔۔۔آپ کے لالا نے دیر کر دی۔۔۔ معاف کر دینا میری گڑیا۔۔۔ آپ کے لالا نے زندگی میں پہلی بار دیر کر دی۔۔۔ آپ اتنی تکلیف میں تھی اور ہم کچھ نا کر سکے۔۔۔
عالَم کی آنکھیں مسلسل بہہ رہی تھی۔۔۔ بار بار آہینور کی پشانی پر بوسہ لیتا۔۔۔ کبھی چہرہ تھام کے گالوں کو سہلاتا۔۔۔۔
ہسپتال آنے کے بعد آہینور کو آپریشن روم میں لے جایا گیا۔۔ سب کام اس وقت علی کر رہا تھا۔۔ عالَم کو کچھ ہوش نا تھا۔۔۔ نور پیلس سے بہت بار کال آ چکی تھی پر عالَم کو کچھ خبر نا ہوئی۔۔ علی نے کندھے پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ عالَم ہوش کی دنیا سے واپس آیا۔۔
۔
۔
۔
ہممم۔۔۔۔ہاں۔۔
سر آغا جان کی کال ہے بات کرنا چاہتے ہے آپ سے۔۔۔ آپ کو کافی دیر سے کر رہے ہے پر آپ کو پتا نہیں چلا۔۔۔ علی موبائل دے کر سائیڈ پر کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔
عالَم کہاں ہو گھر سے نکلے ہوے ہو صبح کے، بتا کہ تو جایا کرو گھر میں سب پریشان ہیں۔ اب کچھ بولو گے بھی کہ نہیں۔۔۔۔
آغاجان۔۔۔۔ سیسكی۔۔۔ کچھ۔۔۔۔
اللہ خیر۔۔۔ عالَم بچے کیا ہوا۔۔۔ آواز اتنی بھاری کیوں ہے۔۔۔ تم ٹھیک ہو نا۔۔۔ آغا جان عالَم کی آواز سن کے پریشان ہوئے۔۔
آغا۔۔۔۔جان۔۔۔ آہین۔۔۔۔۔
بولو میرے بچے ہوا کیا ہے۔ میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔۔۔
کراچی آ جائے سب۔۔۔ ضروری کام ہے۔۔۔ سب کو لے آئے ابھی۔۔۔ عالَم کی ہمت جواب دے گی یہاں۔۔۔۔ علی نے موبائل لیا اور بات کی۔۔۔۔
آغا جان آپ سب کو لے کر کراچی آ جائے۔ آہینور میڈم مل گی ہے۔۔ہم ان کے پاس ہی ہے۔ سر اس لئے ذرا پریشان ہو گے۔۔۔
کیا۔۔۔ کیا۔۔۔ سچ۔۔۔ مطلب۔۔۔ میری شہزادی مل گی۔۔۔کہاں ہے میری بات کروا ابھی۔۔۔
سر وه ابھی کچھ ٹھیک نہیں عالَم سر کو دیکھ کر بہت روی جس کی وجہ سے طبیعت خراب کر لی انہوں نے اس لئے ڈاکٹر کے پاس لے کر آئے ہے ان کو۔۔۔ آپ بس آ جائے۔۔۔
علی نے بہت مشکل سے بات کو سمبھالا تھا۔۔۔جھوٹ بولا اتنی دور بیٹھے ابھی آہینور کی حالت بتا کے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔
ہاں ہم آ رہے ہیں۔۔۔۔ سب آ رہے ہیں۔۔۔ میری بچی کا خیال رکھنا علی۔۔۔ عالَم کو سمبھلنا۔۔۔ ہم آ رہے ہیں۔۔۔
جو حکم آغا جان۔۔۔ بس آپ سب دھیان سے آ جائے۔۔۔ باقی میں سمبھال لو گا۔۔۔
ہاں۔۔۔ ٹھیک۔۔۔۔
موبائل رکھ کے علی عالَم کے پاس آیا۔۔۔۔
سر انشاءلله سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ ہم خوش ہو کے واپس اسلام آباد جائے گے۔۔ اللہ بہتر کرے گے ابھی بھی تو اللہ نے ملوا دیا ہے۔
تسلی پر تسلی دی جا رہی تھی۔۔۔ پر عالَم کو کسی پل چین نہیں آ رہا تھا۔۔۔
۔
۔
۔
کافی دیر کے بعد ڈاکٹر باہر آئے تھے۔ عالَم کو کچھ برا ہونے کا ڈر تھا۔
آپ آئے میرے ساتھ کچھ بات کرنی ہے آپ سے۔۔
کیا۔۔۔ مطلب۔۔۔ میری گڑیا کیسی ہے۔۔آپ بتا کیوں نہیں رہی۔۔۔
ٹھیک ہے وه اب، پر ضروری بات کرنی ہے۔۔۔آ جائے ساتھ میرے۔۔۔
پرائیویٹ روم میں عالَم پریشانی میں بیٹھا ڈاکٹر کے سامنے تھا۔۔
آپ کی بہن پر جسمانی اور ذہنی تشدد کیا جاتا رہا ہے۔۔۔اور ان کی حالت بھی ایسی نہیں تھی کے ان کو کسی قسم کی پریشانی دی جاتی۔۔۔
مطلب۔۔ کیا ہوا ہے آہینور کو۔۔۔ وه ٹھیک۔۔۔ ہے۔۔۔ ٹھیک ہو جائے گی نا۔۔۔ عالَم پورا کانپ رہا تھا۔۔ الفاظ ٹھیک سے ادا نہیں کر پا رہا تھا۔۔ اپنے کسی عزیز کو کوئی بھی ایسی حالت میں دیکھ کے کہاں ہوش میں رہتا۔۔۔۔
ان کی شادی کو کتنا عرصہ ہوا۔۔۔
سات، آٹھ ماہ ہوئے ابھی۔۔۔ عالَم نے اپنا سر جھکایا ہوا تھا۔۔۔
وه ماں بنے والی ہے،اور اس حالت میں یہ سب تشدد۔۔۔ حیران کن بات ہے کہ یہ دونوں بچ کیسے گے۔۔۔
عالَم کی آنکھوں سے کئی آنسوؤں بہہ نکلے۔۔ اتنی بڑی خبر ملی اور وه بھی اس حال میں۔۔۔ کتنی تکلیف میں ہو گی۔۔۔ کتنی بار پکارا گیا ہو گا مجھے۔۔۔ اتنا ظلم۔۔۔
زخم بھر جائے گے پر ان کو آپ کی اور آپ کی فیملی کی ضرورت ہے ان کا جتنا ہو سکے خیال رکھے۔۔۔ خوش رکھا جائے۔۔۔ باقی صبح تک انشاءلله ان کو ہوش آ جائے گا۔۔۔
عالَم چپ چاپ اٹھ کے باہر چلا گیا۔۔۔اس کے قدم اس کا ساتھ دینے سے انکاری تھے۔۔۔ آنکھیں رو رو سوج چکی تھی۔۔۔ چہرہ اداسی پریشانی کی الگ ہی داستان سنا رہا تھا۔۔
پوری رات عالَم نے جاگ کے گزاری۔۔۔ نماز ‘ نفل ادا کیے۔۔۔ رو رو کے اپنے رب سے بہن اور آنے والی خوشی کے لئے دعائیں مانگی گئی۔۔۔
فجر کی نماز کی نماز کے بعد باقی گھر والے بھی آ چکے تھے آہینور کی حالت کے بارے میں ڈاکٹر کے منہ سے سب سن بھی لیا تھا۔۔۔سب کی حالت ایک جیسی تھی پر آغا جان کی تو قل کائنات آج لوٹی تھی۔۔۔
عالَم نسرین کے لاکھ منا کرنے کے باوجود ارحم کے ساتھ شادی کی اور نتیجہ۔۔۔ عالَم کا دل نہیں راضی تھا ضد، آنا، اپنی زبان کے چکر میں اپنی ہی بیٹی کو جہنم میں جھوک دیا۔۔
۔
۔
۔
لالا کون ہے اس بچی کے۔۔۔ ایک نرس باہر آئی تھی۔۔۔
می۔۔۔ میں ہوں۔۔۔
ہوش آ گیا ہے۔۔۔ آپ کو بولا رہی ہے۔۔ پلززز جلدی آ جائے۔۔۔
آہینور کی حالت دیکھ کر عالَم کی جان نکل رہی تھی۔۔۔ اپنے آپ پر قابو پا کر آہینور کے پاس آیا۔۔۔
گڑیا۔۔۔ میری جا۔۔۔جان۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔ لالا کو ما۔۔۔ معاف کر دو۔۔ دیر کر دی لالا نے آنے میں۔۔۔ عالَم آہینور کا ہاتھ پکڑے جو کھڑا تھا رو پڑا۔۔۔
ل۔۔۔لالا۔۔۔۔ لا۔۔۔ نہیں۔۔۔ جانا اب۔۔۔۔آہینور کے الفاظ۔۔۔ اس کی آواز۔۔۔ لہجہ۔۔۔ عالَم کو مار رہا تھا۔۔۔
لالا گھر۔۔۔ گھر چلے۔۔۔ یہاں نہیں۔۔۔ وه آ جائے۔۔۔ مارے گا۔۔۔ بہت مارتا۔۔۔ لالا نہیں رہنا۔۔۔
آہینور چیخ چیخ کر فریاد کر رہی تھی اس وقت اپنے آپے میں بلکل نا تھی۔۔۔
بس۔۔۔ بس۔۔۔ ہم ہے نا اب آپ کے پاس کوئی بھی نہیں کچھ کہے گا میری گڑیا کو۔۔۔نا یہاں کوئی آئے گا۔ آپ ٹھیک ہو جاؤ ہم گھر واپس چلے جائے گے میری گڑیا میری نوری کو ہمیشہ میں اپنے پاس رکھو گا۔۔۔ ہمممم۔۔۔ پریشان نہیں ہونا۔۔۔ لالا ہے نا پاس آپ کے۔۔۔
عالَم نے آہینور کے ساتھ ساتھ خود کو بھی دلاسا دیا۔۔۔
لالا آپ۔۔۔ آپ کی گڑیا ٹوٹ گی۔۔۔ بکھر گی۔۔۔ وه آپ کی گڑیا کے ساتھ کھیل گیا۔۔۔ مج۔۔۔ مجھے مار گیا۔۔۔ آپ کی نوری کو بہت مارا اس نے۔۔۔ اس کا پورا بدن کانپ اور لرز رہا تھا ہچکیوں کی آوازیں کمرے میں گونج رہی تھی۔۔۔
نا۔۔۔ نہیں گڑیا کچھ بھی نہیں ہو گا۔۔۔ لالا اب کچھ نہیں ہونے دے گے۔۔۔ بس چپ ہو جاؤ۔۔۔ آنکھیں بند کرو شاباش۔۔۔
نہیں سونا۔۔ وه آ جائے گا۔۔۔ لے جائے گا پھر سے۔۔۔ آپ بھی چلے جائے گے۔۔۔ نن۔۔۔ نہیں سونا اب۔۔۔۔
نوری۔۔۔ کچھ نہیں ہو گا میں یہاں ہوں اب آپ کے پاس۔۔کوئی بھی نہیں آئے گا آپ کے پاس۔۔ وه ارحم بھی نہیں۔۔۔ لالا کسی کو بھی نہیں آنے دے گے پاس۔۔۔ میری جان اب بس آرام کرے۔۔۔ پھر عالَم نے اس کے بالوں کو سہلایا۔۔ ڈرپ لگے ہاتھ کو احتیاط سے اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔۔ درے درے آہینور پھر نیند میں چلی گی۔۔۔
عالَم بےبسی کی انتہا کو چھو رہا تھا۔۔۔ ضبط کسے کہتے ہے آج سمجھا تھا۔۔۔ آج ایک ہی دن میں دنیا کا سب سے بڑا درد دکھ دیکھا تھا۔۔۔
ترستے ھوے گزر دیا اتنا عرصہ ہم نے
دو گھڑی جو اب یوں ملے ہو جان ہی نکال گے ہو
(میری حسین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...