مبارک ہو۔۔۔۔ یہ اب بلکل ٹھیک ہے۔۔۔ کوئی معجزہ ہی ہے جو یہ یوں واپس آ گی۔۔۔
بس کچھ دوا ہے جو دینی پڑے گی ساتھ کچھ ورزش جو آپ ان کوکروائے۔۔۔ پھر انشاءلله یہ مکمل صحتیاب ہو جائے گی۔۔۔ڈاکٹر کے چہرے پر بھی مسکان تھی۔۔۔ بہت عرصے کا ساتھ تھا ایک ایک پل سے واقف بھی تھا اسلئے اس پیلس کی خوشی میں خوش نظر آ رہے تھے۔۔
آہینور کو مکمل ہوش آ چکا تھا۔۔۔ سب ٹھیک ہو رہا تھا۔۔۔۔ آغا جان آج بھی بیٹی کے سرہانے بیٹھے معافی مانگ رہے تھے۔۔۔ بہت سالوں کی باتیں تھی جو کی جا رہی تھی۔۔۔ اور آہینور سن رہی تھی۔۔۔ آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات جاری تھی۔۔۔ نہ باپ چپ ہوا نہ یہ بیٹی چپ ہوئی۔۔۔
باقی سب ان کو اکیلا چھوڑ کر باہر چلے گے۔۔۔
معاذ ، محمش دونوں چپ بیٹھے تھے۔۔۔ کسی گہری سوچ میں۔۔۔ کہی بہت دور سوچوں کا سفر ہو رہا تھا ۔۔۔پھر ایک دم سے دونوں کی نظریں ملی تھی۔۔۔
پوری رفتار سے دونوں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ھوے ، باہر کو ڈور لگائی۔۔۔بریک باہر آ کے ہی لگا۔۔۔
۔
۔
۔
ساجد۔۔۔۔ معاذ پوری آواز میں دھڑا۔۔۔۔
جی۔۔ جی۔۔ چھوٹے صاحب۔۔۔!!!
باہر ابھی یا کچھ دیر پہلے کوئی آیا تھا۔۔۔
نہ۔۔۔ نہیں صاحب۔۔۔ کوئی بھی نہیں آیا۔۔۔ معاذ اور محمش جس بکھرے حال میں تھے ساجد سیکورٹی گارڈ بھی ڈر رہا تھا کچھ بولتے ھوے۔۔۔
یاد کر کے بتاؤں۔۔۔ کوئی یہاں آیا تھا۔۔۔۔
جی۔۔۔ جی۔۔۔ سر وہ ایک بچی آئی تھی۔۔۔
بچی۔۔۔ کون۔۔۔ کہاں سے آئی تھی۔۔۔ دیکھنے میں کسی تھی۔۔۔ ایک ساتھ اتنے سوال محمش ،معاذ کو اندازہ ہو چکا تھا وہ ان کی نور ہی تھی۔۔۔ جس کے قدم ، جس کی مہک سے اس کی ماں کو ہوش آ گیا۔۔۔
سر اب یہ تو نہیں پتا۔۔۔ پر اس کی بلی اندر آ گی تھی تو وه لینے آئی تھی.. میں نے اندر آنے دیا وه بلی لے کر چلی گی۔۔۔ چھوٹی سی کوئی بچی تھی ۔۔ پہلے کبھی یہاں نہیں دیکھی ,ویسے ہم نے…..
ہممم۔۔۔۔۔ کہاں سے آئی ہو گی۔۔ بلی اس کی بھی تھی۔۔۔ آنی کا ہوش میں آنا۔۔۔۔ مصترا نور شاہ یہاں آئی تھی۔۔۔ پر کہاں رہتی ہے۔۔۔۔محمش کا ذہن سوالوں سے بھر چکا تھا۔۔ ایک کے بعد ایک سوال دماغ میں چل رہا تھا۔۔۔
معاذ ہماری پری یہاں کہی پاس ہی ہے۔۔۔ وہ آئی ہی تھی یہاں جو آنی کو ہوش آیا تھا۔۔۔ محمش معاذ کو بتا رہا تھا یا پھر خود یقین کر رہا تھا۔۔۔
کچھ دیر معاذ کی طرف سے جواب نا آیا تو محمش نے موڑ کر دیکھا۔۔۔ پر معاذ اپنی بازو دبا رہا تھا۔۔۔
کیا ہوا معاذ۔۔۔ چوٹ لگی ہے؟؟
نہیں۔۔۔ نا۔۔۔ پر درد ہو رہا ہے کافی دیر سے۔۔چوٹ نہیں لگی تو درد کیوں؟
ساجد جو یہاں لڑکی آئی تھی اس کو کہی چوٹ لگی تھی؟ مطلب کہی۔۔۔۔ محمش کو سمجھ ہی کچھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔کیا پوچھے اور کیا نا پوچھے۔۔۔۔
جی سر۔۔۔ وه یہاں آنے سے پہلے گری تھی ان کو چوٹ لگی ہوئی تھی بازو اور پاؤں پر۔۔
لالا پر آپ کیوں پوچھ رہے ہے۔۔۔ معاذ کو محمش کا سوال کچھ عجیب سا لگا۔۔۔
معاذ آپ دونوں ٹوئن ہو تو اگر ایک کو چوٹ لگے تو بہت بار ایسا ہوتا ہے کے دوسرا وه چوٹ محسوس کرتا ہے۔۔۔اس لئے آپ کو درد ہو رہا ہے چوٹ مصترا کو لگی تھی۔۔۔معاذ حیران تھا۔۔۔۔
پر اب پتا نہیں کہاں اور کس حال میں ہو گی۔۔۔محمش کو کسی پل سکون نہیں تھا ایک بار دیکھنا چاہتا تھا اپنی پری کو۔۔۔ پر اب اگر آہینور ٹھیک تھی تو مصترا کی ایک جھلک ان سب کو دیکھنی نصیب نہیں ہوئی۔۔۔ ابھی ان پر انتظار کا پہرہ تھا۔۔۔ ابھی جھلک دیکھنے کا وقت نہیں تھا۔۔۔
۔
۔
۔
لالا۔۔۔۔
لالا۔۔۔۔
ہ۔۔۔ ہاں۔۔۔ کیا بولو۔۔۔
اگر میں آپ کو کچھ کہوں گا تو آپ اس پر یقین کرے گے؟؟ معاذ کو کچھ آس تھی۔۔۔
جی۔۔۔بولو۔۔ مجھے یقین ہے معاذ آپ پر۔۔۔ بتاؤں کوئی بات ہے کیا؟محمش معاذ کو لئے اندر کی جانب بڑھا۔۔۔
وو۔۔۔ وه۔۔۔۔ مطلب۔۔۔
معاذ آرام سے بتاؤں۔۔۔ میں آپ کو کچھ نہیں کہوں گا۔۔۔
لالا۔۔۔ ہماری گڑیا مصترا یہاں پاس ہی رہتی ہے۔۔۔ پر وہ اب ہماری نہیں ہے مصطفیٰ ولاز کی بیٹی ہے۔۔۔۔ ان بلی آنکھوں میں اس وقت۔۔ دکھ۔۔۔ کرب۔۔۔ تکلیف۔۔۔ کیا کچھ نا تھا۔۔۔
ایک دھماکہ تھا جو محمش پر ہوا تھا۔۔اس کو محسوس ہوا جیسے سارا نور پیلس اس کے سر پر آ گرا ہو۔۔۔۔معاذ کا کچھ دن پہلے بتانا ضد کرنا ان کی نور۔۔۔۔ شکل۔۔ ماما جیسی ہے۔۔۔ مطلب۔۔۔۔
معاذ کیا سچ میں آپ کو لگتا ہے۔۔۔مطلب سب نے دیکھا ہے پر اس دن آپ کے کہنے پر سب نے کہا تھا کہ وہ نائل انکل کی ہی بیٹی ہے۔۔پھر آپ کیسے۔۔۔۔ اتنا یقین۔۔۔۔
آپ کہتے ہے نا ہم دونوں ٹوئن ہے۔۔۔ پھر ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اپنی بہن کو دیکھو اور مجھے محسوس نا ہو کہ وه میری بہن ہے۔۔۔ مجھے یقین ہے تو میں اتنی بڑی بات بول رہا ہوں۔۔۔ کچھ تو ہے جو میں بار بار سب سے کہ رہا تھا۔۔۔ معاذ نے باہر سیڑھیوں پر ہی بیٹھ کر کہا۔۔۔ لہجہ اداس سا تھا۔۔۔ ہارا ہوا انداز۔۔۔۔۔
محمش سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔ اس گھر کی بیٹی۔۔۔ مصطفیٰ ولاز میں کیسے۔۔۔۔
معاذ مجھے دیکھنا ہے اُن کی نور کو۔۔۔ اگر مجھے لگا وه ہماری پری ہے تو میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں اس کو واپس بھی میں ہی لے کر آؤ گا۔۔۔
ابھی چلے کیا؟ معاذ تو تیار بیٹھا تھا۔۔۔
ہاں۔۔۔ پر میں اندر بتا کے آتا ہوں کچھ۔۔۔ کوئی بہانہ ہی۔۔۔۔محمش کے چہرے پر لمحہ بھر کو مسکان آئی۔۔۔۔۔
کچھ دیر کے بعد دونوں کے قدم مصطفیٰ ولاز کی طرف تھے۔۔۔ معاذ کے چہرے پر خوشی تھی اپنی جیت۔۔۔ اپنے یقین کی۔۔۔ جبکہ محمش حیران پریشان تھا۔۔۔
پر ابھی تو بہت سے انکشاف ہونا باقی تھے۔۔۔ابھی بہت سے راز تھے جن سے پردہ اٹھنا باقی تھا۔۔۔ ایسی بہت سی باتیں تھی جن پر دل خون کے آنسوؤں رونا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلکوں پر ہلکی سی ہلچل ہوئی۔۔۔ ایک دو بار آنکھوں کو بھی کھولنے کی کوشش کی گی پر زیادہ رونے اور سوجن کی وجہ سے آنکھیں کھل نہیں پا رہی تھی۔۔۔ زرد چہرہ۔۔۔ ابھی کل رات ہی یہ چہرہ جگمگا رہا تھا۔۔۔۔ تروتازہ تھا۔۔۔۔ اور آج صبح سے ہی کیسے۔۔۔۔
۔
۔
نور کی آنکھ کھلی تو خود کو اپنے کمرے میں پایا۔۔۔ بیڈ کے ساتھ ہی چیئر پر افنان بیٹھا ہوا تھا جس کا ایک ہاتھ نور کے ہاتھ میں تھا۔۔ بلی آنکھوں کے کھلنے کی دیر تھی۔۔۔ افنان جلد ہی اٹھ کر نور کے پاس بیڈ پر بیٹھا۔۔۔پر کہا کچھ نا۔۔۔
صاف نظر آ رہا تھا کے افنان ناراضگی کا اظہار کر رہا ہے۔۔غلطی بھی نور کی ہی تھی جو بغیر بتائے باہر چلی گی۔۔۔
افی بھائی۔۔۔ پا۔۔۔ پانی۔۔۔
افنان نے گلاس میں پانی ڈالا۔۔۔ نور کا تکیہ ٹھیک کیا اور پھر سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر سر کو تھوڑا سا اوپر اٹھایا، تاکہ نور آسانی سے پانی پی لے۔۔۔ پر اس سارے وقت میں بھی افنان نے کوئی بات نا کی۔۔۔
نور کو اب سچ میں رونا آ رہا تھا۔۔ بلکے رونے کے آثار آنکھوں میں نظر آ رہے تھے۔۔۔
بھائی۔۔۔ افی بھائی۔۔۔ نور نے نم آنکھوں سے افنان کی جانب دیکھا جو عجیب انداز میں پاس رکھی دوائی کو پڑھ رہا تھا جیسے اس سے ضروری کوئی کام نا ہو۔۔۔
اتنی دیر میں مھین اور ماہم روم میں آئے۔۔۔ ساتھ ہی افنان اٹھ کے باہر چلا گیا۔۔۔ کچھ نہ کہاں ، نہ ہی بولا۔۔۔
افی بھائی پلززز۔۔۔ بلی آنکھوں سے پانی بہہ نکلا۔۔ آواز میں بھاری پن تھا۔۔۔
ماما کھانا کھلا دے اور یہ سائیڈ پر میں نے دوائی رکھ دی ہے یہ بھی دے دینا۔۔اور پھر روم کے دروازے کے بند ہونے کی آواز آئی۔۔۔۔
ابھی افنان نیچے آ کر بیٹھا ہی تھا کے معاذ کو اندر آتے دیکھا۔۔ پر ساتھ کوئی اور بھی تھا۔۔۔۔
محمش کی آنکھیں کچھ پل کو حیرت سے اُبھری۔یہی حال افنان کا بھی تھا۔۔ جب کہ باقی کھڑے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔۔۔
۔
۔
افنان۔۔۔۔
محمش۔۔۔۔
یار تم یہاں کیسے بتایا بھی نہیں۔۔۔ محمش بہت روز سے اس کے گلے لگا۔۔۔ دونوں کے چہرے پر خوشی ہی خوشی تھی۔۔۔
بس یار ابھی کچھ عرصہ ہی ہوا ہے۔۔۔ اور یہ معاذ تمہارے ساتھ کیا کر رہا ہے؟؟افنان نے حیرانگی سے معاذ کی جانب دیکھا۔۔۔
اواو۔۔ پر بتایا نہیں تم نے۔۔۔ اچھا نہیں کیا۔۔ کبھی نہیں ہوا کہ مل لے آ کے، جب بھی میں لاہور جاتا تھا خود ملتا تھا۔۔ بہت ہی کوئی بےوفا ہو۔۔۔
محمش کو افنان سے مل کے خوشی تو ہوئی تھی پر اسلام آباد میں شفٹ ہونے پر زیادہ خوش تھا۔۔۔ آخر کار اب کہی جا کے یہ تین دوست اکھٹے مل پائے گے۔۔افنان’ ارون ‘ اور محمش کی دوستی کافی پرانی تھی پر ارون اور محمش اپنی اسٹڈی کے بعد سے اسلام آباد ہی آ گے پر افنان لاہور کا تھا اس لئے وہاں ہی رہا۔۔۔ پر آج یہاں مصطفیٰ ولاز میں دیکھ کر محمش کافی خوش ہوا آخر کو ان کا یارانہ تھا۔۔۔
معاذ۔۔۔۔
معاذ میری آنی کا بیٹا ہے۔۔۔ ہمارے ساتھ ہی رہتا ہے نور پیلس میں۔۔۔ محمش نے جواب دیا۔۔۔
میره اور نائل بھی ان کو دیکھ سن رہے تھے۔۔ پر معاذ کی نظریں کسی اور کو ہی تلاش کر رہی تھی۔۔۔
محمش کو ملے کے بعد ہوش آیا۔۔ اتنے سالوں سے ساتھ ہونے کے باوجود یہ کبھی افنان کے گھر اس کی فیملی سے نا ملا تھا اور اس کی پری یہاں ان کے ساتھ ہی رہ رہی تھی۔۔ اگر وہ سچ میں میری پری ہوئی جیسے کے معاذ کہتا ہے۔۔۔
اللہ جی اتنا صبر آزمایا۔۔۔ اتنی بڑی آزمائش۔۔۔ سامنے رهتے ہوئے بھی پردہ کروا دیا۔۔۔ اتنے سال۔۔ اللہ اتنے سال۔۔۔ کبھی میرے پر رحم نا آیا میرے رب۔۔۔ ایک ملاقات کی کروا دیتے۔۔۔
محمش دل میں اپنے رب سے ہم قلام تھا۔۔ کچھ باتیں کچھ شکوے کیے گے۔۔۔۔
۔
۔
انکل نور کہا ہے نظر نہیں آ رہی۔۔۔ معاذ جب سے آیا تھا اس کی نظریں چاروں جانب گھوم رہی تھی۔۔۔
بیٹا چوٹ لگ گی اسے تو۔۔۔ باہر نکل گئ بغیر بتائے آج صبح۔۔۔ آج ایسا پہلی بار ہوا ہے اکیلی نکلی اور چوٹ لگوا کے آ گی۔۔۔
او۔۔۔ اب کسی ہے نور۔۔ زیادہ تو نہیں لگی اسے۔۔۔ معاذ کو اندر ہی اندر خوشی بھی ہو رہی تھی مطلب کچھ تو تھا۔۔۔
ہاں بیٹا لگی تو کافی ہے ریسٹ کر رہی ہے اب۔۔۔ کچھ دن تو بیڈ ریسٹ کا بتایا ہے ڈاکٹر نے۔۔۔نائل بھی پریشان سے تھے۔۔۔ پہلے ہی نور کمزور سی تھی اور پھر چوٹ کا لگ جانا یا طبعیت کا خراب ہو جانا اس گھر والوں پر بہت مشکل ہوتا۔۔۔
محمش ان سب میں چپ تھا۔۔ مطلب آج پھر ملاقات نہیں ہو گی۔۔۔
زندگی وفا کر جائے مذاق نا کرو صاحب
پل پل جو سیسکیے ایسی ہے ہماری زندگانی
(میری حسین)
” اللہ جی آج تو ۔۔۔۔۔ آج تو ترس کھا لے اپنے اس بندے پر۔۔ بس ایک جھلک ہی۔۔۔ زیادہ نہیں مانگ رہا۔۔۔ آپ کے خزانے بھرے پڑے ہیں پر زیادہ نہیں بس ایک جھلک دیکھا دے میری پری کی۔۔۔ آج اور نہیں ترسانا میرے رب۔۔ میں بہت گناہ گار ہوں۔۔۔ پر اپنی شان بہت اونچی ہے۔۔ آج ملوا دے۔۔۔ آج اجازت دے دو۔۔۔”
محمش کی نیلی آنکھوں میں اب پانی اترنے کو تھا۔۔۔ چہرے پر صاف رحم جھلک رہا تھا۔۔۔
وہ میں نور سے ملنے آیا تھا کچھ کام تھا اس سے۔۔۔ پر یہاں ساتھ لالا کو بھی لے آیا، آپ ملے نہیں تھے نا تو اس لئے پر یہاں تو دوست مل گے۔۔۔۔ معاذ نے خوشی خوشی سے کہا۔۔۔
اچھا کیا آپ محمش کو بھی لے آئے۔۔۔ بس اسلام آباد آ کے اتنا مصروف ہو گیا کے ملنے کا یاد ہی نہیں رہا۔۔ پر اب اچھا ہوا ہم مل گے۔۔۔ افنان نے بات کرتے محمش کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔
کیا ہم مل سکتے ہے نور سے۔۔ اب تو چوٹ لگی ہے پوچھنا تو بنتا ہے۔۔۔ خیر خیریت۔۔۔
ہاں۔۔۔ مل لو بچے۔۔۔ وہ بھی خوش ہو جائے گی۔۔ بہت تعریفیں کرتی ہے آپ کی۔۔۔ نائل نے اجازت دے دی۔۔۔
لالا آپ بھی آ جائے بیمار کی عیادت کر لیتے ہے۔۔ ساتھ ہی آپ کو اپنی بہن سے بھی ملوا دو گا۔۔۔ بہت اچھی ہے نور گڑیا۔۔۔
معاذ کے اس انداز سے افنان کافی خوش ہوا۔۔ پھر معاذ اور محمش کو ساتھ لئے چل دیا۔۔۔
۔
۔
تجھ سے میں ملنے آؤ
پھر تو میرے پاس آئے
پاس بیٹھا کے تجھے جی بھر کے دیکھو
ترے ہاتھ تھام لو ، تجھے محسوس کرو
تیری آنکھوں کی گہرائی کو ماپو
پھر تو نظریں جھکا لے
تیرا چہرہ اٹھاؤ اور اک اک نقش کو چُھوو
تیری گبھراہٹ کو میں محسوس کرو
تجھے اپنی باہوں میں بھروں
اور پھر تیری تڑپ ختم کرو
میں تیری اک نا سناؤ، دل کی ساری مانو
اُدھر تو اقرار کرے، ادھر ہمارا دل بند ہو جائے
(میری حسین)
۔محمش کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔گھبراہٹ حد سے زیادہ تھی۔۔۔ پاؤں چلنے سے انکاری ہو رہے تھے۔۔۔ اوپر کی منزل پر پہلا کمرہ تھا نور کا۔۔۔ جیسے ہی دروازہ کھلا افنان اندر آیا۔۔۔
بیڈ پر تکیوں کے سہارے نور بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ بکھرے بال۔۔۔ سوجی ہوئی بلی آنکھیں جو اب بھی آنسوؤں سے بھری پڑی تھی۔۔۔ محمش کو آج ایک جھلک دکھا دی گی۔۔۔ پر اس شہزادے کی نیلی آنکھوں میں آنسوؤں تھے۔۔۔
مجھے ایک جھلک بھی نظر آ جائے تو میں پہچان لو گا۔۔۔ میرے دل میں بستی ہے وه۔۔۔ میری روح کا حصہ ہے پھر ایسے کیسے ہو سکتا کہ وه پاس ہوں میرے اور مجھے خبر ہی نا ہو۔۔۔
کچھ سالوں پہلے ارون سے کہے ھوے الفاظ محمش کو اس پل یاد آئے۔۔۔ ٹھیک ہی تو کہا تھا پھر ایک جھلک میں ہی پہچان لیا گیا۔۔۔
افی بھائی۔۔۔ سو۔۔۔ سوری۔۔۔ غلطی۔۔۔ ہو گی۔۔۔ ایسا نہیں کرے گے اب۔۔ نور کا رونا سٹارٹ افنان کا دیکھ کے ہوا۔۔ جو بات نا کرنے کی قسم کھا چکا تھا۔۔۔ جب کہ آخر میں کھڑے محمش پر ابھی کسی کی نظر نہیں پڑی تھی۔۔۔
محمش نے معاذ کا ہاتھ پکڑا۔۔۔
افنان ہم بعد میں آئے گے۔۔ آنی جان کو ہوش آ گیا ہے، تو وه یاد کر رہی ہے ہم دونوں کو۔۔ گھر سے ٹیکسٹ آیا ہے۔۔ بعد میں ملتے ہیں۔۔ محمش کچھ بھی سنے بغیر معاذ کو لئے مصطفیٰ ولاز سے نکل گیا۔۔ جبکہ دوسری طرف افنان کافی حیران ہوا محمش کی اس حرکت پر۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملاقات ہونا نا لکھی تھی جو ہو نا پائی۔۔۔۔معاذ اور محمش نے بہت کوشش کی تھی کے نور سے دوبارہ ملا جائے۔۔۔ اس واقعے کو گزرے ایک ہفتہ ہوا تھا۔۔۔۔
مصطفیٰ ولاز اس دن محمش کی نیلی آنکھیں برسی تھی۔۔۔ نور کو دیکھ کر۔۔۔۔ ایک جھلک نے ظاہر کر دیا تھا کہ وو مصطفیٰ ولاز کی بیٹی نہیں بلکے نور پیلس کی شہزادی تھی۔۔
۔
آغا جان کی بلی۔۔۔آہینور کی جان۔۔۔ معاذ کی گڑیا۔۔۔ عالمگیر اور اکفہ کی شہزادی۔۔۔ اور محمش کی جان۔۔۔ اس کی پری تھی۔۔۔۔
دل دیکھ کہ رو پڑا تھا۔۔ وه اتنے سال سے افنان کے ساتھ دوستی میں تھا۔۔ جب بھی کبھی ساتھ ہوتے نور کی کال آتی تو محمش اور ارون اس کا اچھا خاص ریکارڈ لگاتے۔۔۔ پر اس کو کیا خبر تھی کہ افنان سے بات کرنے والی۔۔۔ اس کے گھر رہنے والی نور پیلس کی ہی شہزادی تھی۔۔۔۔
مصطفیٰ ولاز سے نکل کے محمش کار لئے قاری عبدالعفیف کی مسجد کی طرف نکل گیا۔۔۔
۔
۔
برستی بارش میں یاد رکھنا’ تمہیں ستائیں کی میری آنکھیں
کسی ولی کی مزار پر جب، دعا کرو گے،تو رو پڑو گے
مسجد میں قدم نہیں رکھا۔۔۔ محمش سجدے میں گرا تھا۔۔۔ بہت انتظار کیا تھا اس پل کا۔۔۔ پر اب کہاں اور کیسے ملا۔۔۔ کافی دیر محمش سجدے میں روتا رہا اس کا پورا جسم لرز رہا تھا۔۔۔ ہچکیاں۔۔۔ سسکیاں۔۔۔
۔
۔
۔
میر۔۔۔۔ میرے مولا۔۔۔ میرے رب۔۔۔ اللہ۔۔۔ اللہ جی۔۔۔۔ میرے اللہ۔۔۔۔ درد ناک آواز۔۔۔ دلخلش لہجہ۔۔۔ روتا سسکتا پورا قدمت واجد۔۔۔ اللہ جی۔۔۔ میں بہت گناہ گار ہوں۔۔۔ تیرا یہ بندہ اپنے گناہوں پر توبہ کرتا ہے۔۔۔ می۔۔۔ میں اس قابل۔۔۔ نہ تھا کہ آپ مجھے اتنا کچھ عطا کرتے۔۔۔ میرے مالک۔۔۔ تیرا شک۔۔۔ تیرا شکر۔۔۔ شکر مولا۔۔۔ میری دعا سنے کا۔۔۔ میری زندگی مجھے لوٹانے کا۔۔۔ میری خوشی۔۔۔ میری جان واپس کرنے کا۔۔ میرے اللہ۔۔۔۔
محمش کی بھاری آواز کافی بلند تھی۔۔۔ مسجد کے احاطے میں اس وقت کوئی بھی نا تھا۔۔ تیز برستی سرد بارش میں ایک بندہ مسجد میں اپنے رب کو یاد کر رہا تھا۔۔۔ شکر ادا کر رہا تھا۔۔ رو رہا تھا۔۔۔ دور بیٹھے مسجد میں یہ منظر ایک اور شخص نے دیکھا تھا۔۔۔بات کو سمجھتے ھوے وہ شخص شکر میں سجدہ ریز ہوا۔۔۔
بچے بس کرو۔۔ اٹھو اندر آ جاؤ۔۔۔ بارش بہت تیز ہے بیمار پڑ جاؤ گے۔۔۔ جھک پر محمش کے کندھے پر ہاتھ رکھا گیا۔۔۔
محمش نے اپنا سر سجدے سے اٹھایا اور سامنے ہی سفید شلوار قمیض میں قاری عبد الفیف تھے۔۔ چہرے پر مسکراہٹ تھی۔۔۔۔
۔
۔
۔
بابا.۔۔۔ بابا۔۔۔ سیسكی۔۔۔
قاری عبد الفیف نے محمش کو گلے لگایا تھا۔۔۔بس میرے بچے۔۔۔ نا رو۔۔۔ چپ کر جاؤ۔۔۔۔
بابا۔۔۔ وه۔۔ وه مل گی۔۔۔ با۔۔۔ بابا وه میرے پا۔۔ میرے پاس ہی تھی۔۔۔ مل گی مجھے آج۔۔۔ میں نے وعدہ۔۔۔ وعدہ کیا تھا نا۔۔۔ ایک جھل۔۔ ایک جھلک ہی دیکھو گا۔۔۔ میں نے نظر بھر بھی نہیں دیکھا۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں دیکھا گیا میرے سے۔۔۔ وه۔۔۔ پاس تھی میرے۔۔۔ بابا۔۔۔۔
میں انجان رہا۔۔۔۔ کیوں؟؟ اتنا آزما دیا رب نے۔۔۔ پاس رهتے ھوے بھی۔۔۔ وه آ گی۔۔۔ میری جان(مصترا نور) واپس آ گی۔۔ میری جانی(آہینور) واپس آ گی۔۔ میں واپس آ گیا۔۔ میری زندگی واپس آ گی۔۔۔
بلند بھاری آواز آہستہ آہستہ مدھم ہو چکی تھی۔۔۔ محمش کا بدن پورا کانپ رہا تھا کچھ سردی میں بھیگنے کی وجہ سے کچھ اپنے رب کے شکر میں۔۔۔
قاری صاحب محمش کو ساتھ لگائے اندر آ گے۔۔۔ اپنی گرم چادر اتار کے اس کے وجود کو پورا ڈھانپ دیا۔۔۔ پر محمش نے اپنے ہاتھوں میں ابھی بھی ان کے ہاتھ پکڑے ہوے تھے۔۔ آج کی خوشی میں محمش کیسے اس ہستی کو بھلا دیتا جن کی وجہ سے وه آج زندہ تھا مکمل تھا۔۔۔ زندگی گزار رہا تھا۔۔۔ کیسے بھلا دیتا پھر اس ہستی ہو۔۔۔ جو اس کی جینے کی وجہ بنا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاپا۔۔۔ ماما۔۔۔۔پا۔۔۔پا۔۔۔۔بھائی۔۔۔ بھا۔۔۔ئ۔۔۔کوئی ہے۔۔۔ کوئی تو آ جائے۔۔۔ ما۔۔۔۔ماما۔۔۔ مار دے گا وہ مجھے۔۔۔ پلززززز۔۔۔۔ مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ۔۔ دور۔۔۔ دورررر۔۔۔۔ ہو جاؤ۔۔۔
نور۔۔۔۔نور۔۔۔۔ گڑیا آنکھیں کھولو دیکھو کوئی بھی نہیں ہے یہاں۔۔۔میره ساتھ سوئی ہوئی نور کو ہوش میں لانے کی کوشی کر رہی تھی۔۔۔ دونوں ہاتھوں کو سختی سے پکڑا گیا تھا نا چھوڑنے کے لیے۔۔۔نور کی سانس بہت تیز تیز چل رہی تھی۔۔ نہیں بلکے سانس لینے میں دشواری آ رہی تھی۔۔۔ پورا وجود پسینے سے گلا ہونٹ پککپا رہے تھے جبکے پلکوں کی باڑ میں چھپی آنکھیں سختی سے بند کی ہوئی تھی۔۔۔
میره نور کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ بہت مشکل سے چھڑوا کر دروازہ کی جانب بھاگی تھی۔ جان چکی تھی کے نور کا ہوش میں آنا بہت ضروری ہے۔۔۔ نور کا اس طرح ڈرنا عام بات نہ تھی اور میره کا سب سے بڑا ڈر نور کا ہوش میں نا آنا۔۔۔ کمرے سے نکل کے میره بھاگ کے افنان کے کمرے پر اب زور زور سے دستک دے رہی تھی۔۔۔
۔
۔
۔
بھائی کھولے نہ۔۔۔ بھائی۔۔۔۔ دروازہ اور روز سے بجایا گیا۔۔۔۔ رات کے اس پہر جب گھڑی کی سوئی 1:27 بجا رہی تھی۔۔ نور کی حالت سوچ کے میره کی جان آدھی ہو گئی تھی۔۔۔بھا۔۔۔۔ ابھی آدھا بولا ہی تھا کے دروازہ کھل گیا تھا۔۔۔
مِیرہ کیا ہوا ہے۔۔۔ کیوں شور کر رہی ہو آدھی رات کو۔۔۔ افنان سرخ آنکھیں آدھی کھلی اور آدھی بند ہوئی آنکھوں سے بول رہا تھا یہ جانے بغیر کے سامنے والا کس حل میں کھڑا ہے۔۔۔ بھائی وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔وووہ وہاں نور۔۔۔۔ نور نہیں۔۔۔ٹھیک۔۔وہ۔۔ میره سے بات نہیں ہو پا رہے تھی۔۔ آنسوں مسلسل بہے رہے تھے۔۔۔ افنان کو دیر نہیں لگی تھی جاننے میں کے مِیره کیا کہنا چاہ رہی تھی۔۔۔افنان دیر کیے بینا باہر کو لپکا تھا۔۔۔کمرے میں پہنچ کے افنان کو اندازہ ہوا تھا کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔۔ نور کو مسلسل جھٹکے لگ رہے تھے۔۔ کچھ الفاظ بول رہی تھی۔۔۔
نور بچے کیا ہوا ہے۔۔ افنان تیزی سے بھاگ کے نور کے پاس بیٹھا تھا نور کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کے اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔۔۔ ایک ہاتھ نور چہرے پر پر چلا رہا تھا نور کو ہوش میں لانا چاہ رہا تھا۔۔ ایک نور تھی اپنی دنیا میں کھوئی ہوئی سب سے بےخبر یہ جانے بغیر کے اس کی یہ حالت اُس کے اپنوں کو پل پل مار رہی ہے۔۔۔ پیچھے کھڑی مِیره کو جیسے ہوش آیا پاس رکھے جاگ سے پانی نکل کے نور کےچہرے پر ڈالا تھا۔۔۔
پانی کی ان بوندون نے اس دنیا سے بےخبر وجود میں ہلکی سی جان ڈالی تھی۔۔۔ آنکھیں ہلکی کھل کے پھر سے بند ہوئی تھی۔ عین میری جان۔۔ بچے۔۔۔ آنکھیں کھولو۔۔ میں ہو یہاں۔۔ بھائی ہے نہ پاس بچے کھول دو آنکھیں۔۔۔ کوئی نہیں لے کے جائے گا آپ کو یہاں سے۔۔۔۔ افنان مسلسل نور کو اپنی آواز سے اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔۔۔
افی۔۔۔۔ مِیره۔۔۔ کا۔۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔ شور کیسا ہے۔۔۔ سب۔۔۔۔سب۔۔۔۔ ٹھیک۔۔۔۔
کمرے کا منظر اگلے لفظ کو کھا گیا تھا۔۔ نائل مصطفیٰ اور اندر آتی مھین, ماہم جیسے ہی کمرے میں داخل ھوے اندر کا منظر ایسا تھا کے مھین کا دل بیٹھ گیا۔۔
کیا۔۔۔ کیا ہوا تھا میری بچی کو۔۔۔ مھین اگے بڑی تھی۔۔نور ہوش میں آ رہی تھی۔۔۔ اپنی دنیا اور اس خواب کی دنیا میں سے نور کے اپنوں کی دنیا۔۔۔ نور کی اپنی دنیا جیت گئی۔۔۔ آنکھیں کھلی تھی۔۔۔۔ سرخ سوجی ہوئی گیلی آنکھیں۔۔۔ گردن سامنے بیٹھے افنان کی جانب کی تھی۔۔ ہاتھوں میں موجود افنان کا ہاتھ اور زور سے پکڑا گیا تھا۔مھین بیگم جلدی سے ڈور کے نور کے بیڈ کے باہیں جانب آیئ تھی۔۔۔
بھا۔۔۔۔بھائی۔۔۔ وہ۔۔۔وہ۔۔ آیا تھا پھر سے۔۔۔۔ لے۔۔۔لے جائے گا وہ ہمیں۔۔ نور اٹھ کے آگے کی جانب ہوئی۔۔ ہونٹوں میں وضیع لرزش تھی۔۔ آنسوں چہرہ بھگو رہے تھے۔۔۔ لے جائے گا ہمیں۔۔ وہ مارے گا۔۔ مارا ہے یہاں۔۔ نور نے چہرے کے جانب اشارہ کیا تھا۔۔ وہ پھر سے آ گیا ہے۔۔بھائی۔۔۔ نور کی رونے کی آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی۔۔۔۔ وہ اب پھوٹ پھوٹ کے رو رہی تھی۔
مھین بیگم نے نورکا ماتھا چوم کے سر کو اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔ بس۔۔۔بس۔۔۔ شی۔۔چپ کوئی بھی نہیں ہے۔۔۔ دیکھو ہم سب پاس ہے نا آپ کے۔۔۔ سب یہاں ہے کوئی بھی نہیں آے گا۔۔۔ بس میری جان بس۔۔۔ ماما ہے نا پاس۔۔۔ بس۔۔۔ مھین کا ایک ہاتھ نور کے بالوں کو سہلا رہا تھا جبکے دوسرے ہاتھ سے نور کو اپنے سینے سےلگاے بیٹھی تھی۔۔۔ نور کی سیسكیاں کمرے میں گونج رہی تھی۔۔۔نائل صاحب، ماہم اور میره بھی بیڈ پر بیٹھے پرشانی سے نور کی جانب دیکھ رہیں تھے۔۔۔۔
نائل دل ہی دل میں خدا سے مخاطب تھے۔
میری بچی بہت کمزور ہے اے رب اُس کی مشکل آسان کر دے۔۔۔ میره آنسوں لیے نور کی حالت دیکھ رہی تھی۔ رونا سسکیوں اور پھر ہچکوں میں بدل چکا تھا۔۔۔ اب صرف کمرے میں نور کی ہچکیوں کی آواز تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...