دونوں بازؤں پر پاؤں پر زخم صاف کر کے پٹی کر دی۔۔۔ انجکشن لگا کے کچھ ہدایات دے کر ڈاکٹر جا چکا تھا۔۔۔۔
ہوش سے بیگانہ پڑی نور کے چہرے پر ابھی بھی تکلیف کے آثار نظر آ رہیں تھے۔۔۔ سردی لگنے سے نور کچھ ہی دیر میں اب بخار میں تپ رہی تھی۔۔۔
افنان بہت مشکل سے ضبط کر کے بیٹھا ہوا تھا نور کے ہوش میں آنے کا انتظار کیا جا رہا تھا۔۔۔ آج افنان کے چہرے سے صاف لگ رہا تھا کہ اس کے غصہ سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا۔۔
۔
۔
۔
تین گھنٹے سے نور بےسود پڑی تھی۔۔ سرخ صاف چہرہ زرد نظر آ رہا تھا بکھیرے بال۔۔۔ اس گھر کا کوئی بھی فرد تین گھنٹوں سے یہاں سے ہلا تک نا تھا۔۔۔سب کہ چہرے مرجھائے پڑے تھے۔۔ پر ان سب کو یوں ستانے والی خود نیند کی وادیوں میں تھی۔۔۔
آہ۔۔۔ آہ۔۔۔
ما۔۔ ماما۔۔۔ بھا۔۔ بھائی۔۔۔
ڈیڈی۔۔۔ آہ۔۔ نور کو ہوش آ رہا تھا پر بازؤں ہلانے پر کراہ اٹھی۔۔۔.
۔
۔
۔
عین۔۔۔ آرام سے یہاں ہی ہے سب۔۔۔ عین کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔۔ افنان اس وقت نور کی تکلیف پر لب بیچے برداشت ہی حد کو چھو رہا تھا۔۔
ماما۔۔۔ درد۔۔۔ کانپتے لبوں سے کچھ الفاظ ہی ادا ہو پائے۔۔
میرا بچہ۔۔۔ نور۔۔۔ ماما پاس ہے نا۔۔ درد بھی ٹھیک ہو جائے گا بس میری جان رونا نہیں۔۔۔مھین نور کے پاس بیڈ پر بیٹھی سر کو سہلا کر دلاسا دینا چاہا.۔۔۔
افنان نے آگے بڑھ کر پانی نور کے منہ کو لگیا ، دو تین گھونٹ ہی بس پیے گے۔۔۔
آرام سے نور کا سر دوبارہ نرم’ ملائم تکیے پر رکھا۔۔۔نور ابھی پوری طرح ہوش میں نہیں تھی۔۔
بچوں آپ دونوں جاؤ ناشتہ لگواؤ۔۔ دوپہر ہونے کو آیی ہے اور کسی نے اب تک کچھ بھی نہیں کھایا۔۔۔ جاؤں شاباش۔۔۔ اور ہاں نور کے لئے الگ سے سوپ کا بھی کہہ دے۔۔۔
جی ڈیڈ۔۔۔ میره اور ماہم دونوں خاموشی سے نیچے چل دی۔۔
مھین اٹھے آپ اب۔۔۔ افنان آ جاؤ بچے کچھ کھا پی لو پھر دیکھ لینا نور کو۔۔۔ ابھی ہوش میں بھی نہیں آئی۔۔۔ نائل خود پریشان تھے لیکن اپنی فیملی کو بھی ساتھ سمبھال رہے تھے۔۔۔
ڈیڈ آپ پلززز ماما کو لے جائے۔۔۔ میں یہاں ہی ہوں عین کے پاس۔۔۔ اگر عین اٹھ گی تو پاس کسی کو نہ دیکھ کر پریشان ہو گی۔۔۔
پلززز میں یہاں ہی ہوں ابھی۔۔۔افنان نور کے پاس سے اٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا جب تک اپنی آنکھوں سے نور کو ٹھیک ہستا ہوا پھر سے چلاتا پھرتا نا دیکھ لیتا کہا سکون آنا تھا۔۔۔
نائل نے مھین کو خاموشی سے اشارہ کیا اور روم نے نکل گے۔۔۔
۔
۔
عین کیوں کرتی ہو آپ ایسے۔۔۔ جان نکل دیتی ہو آپ سب کی۔۔۔ آپ کو پتا بھی ہے سب آپ سے کتنا پیار کرتے ہے۔۔۔ جان ہو آپ سب کی۔۔ پھر بھی اپنا خیال نہیں رکھتی۔۔۔ افنان سوئی ہوئی نور سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔ یا اپنا دکھ بانٹ رہا تھا۔۔۔
مجھے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ اگر میری بیٹی بھی ہوئی تو میں اسے اتنا پیار نہیں دے پاؤں گا جتنا آپ سے کرتا ہوں۔۔۔ آپ میری بہن نہیں میری بیٹی سے بھی بڑھ کے ہو۔۔۔ میں کبھی بھی دکھ میں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا آپ کو۔۔۔ پتا نہیں میرا اور آپ کا رشتہ کیسا ہے۔۔۔ جتنا پیار آپ کو دیا ہے دیتا ہوں میں کسی اور کو دے ہی نہیں سکتا۔۔ میره ماہم بھی میری بہنیں ہے پر پھر بہت مجھے آپ سب سے زیادہ عزیز ہو۔۔۔ آپ تحفہ ہو میرے لئے۔۔ میرے زندگی کے لئے۔۔۔ میری خوشیاں۔۔۔ اس گھر کی خوشیاں آپ سے جوڑی ہے۔۔۔
افنان اپنے الفاظوں سے جادو جگا رہا تھا۔۔۔ نور کے ہاتھ بھی ابھی افنان کے ہاتھوں میں تھے۔۔ کچھ دیر پہلے والی تکلیف اب چہرے اور نا تھی۔۔۔ سکون سا تھا اس زرد چہرے پر جیسے نیند میں بھی اپنے بھائی کی آواز اس کے باتیں سن کر اطمینان کر رہی ہو۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی۔۔،۔۔۔۔۔
تیرے سوا کیا جانے کوئی
دل کی حالت ربا
سامنے تیرے مجھ پر گزری
کیسی قیامت ربا
میں وہ کس طرح سے کروں بیاں
جو کیے گئے ہیں ستم یہاں
سنے کون میری یہ داستان
کوئی ہم نشیں ہے نا ہم رازدارں
میری ذات ذرا بے نشاں
میری ذات زار بے نشاں
مجھے بتاؤں مجھے کیا ملے
مجھے صبر کا ہی صلہ ملے
۔
۔
۔
آہینور رو رو کے تھک گی تھی پر آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات اب بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔
آہینور کو ارحم سے محبّت نا تھی جب ارحم یونیورسٹی میں بھی آہینور سے اپنی پسند کا اظہار کر چکا تھا تب بھی اپنے دل میں کوئی فللنگس نا لا پائی۔۔۔ بعد میں رشتہ لے کر آیا تب بھی آہینور نے سارا معملہ گھر والوں پر چھوڑ دیا۔۔۔ پر منگنی کے بعد سے ارحم آہینور سے رابطے میں تھا۔۔۔ ارحم پہلے ہی سب پلان بنا کے بیٹھا تھا اس پیلس کی کمزوری اس کے ہاتھ اب لگ جانی تھی پھر کیسے نا یہ لالچی انسان اپنا لالچ دیکھتا۔۔۔
یہی لالچ ایک لڑکی کی نہیں بلکے بہت سی کی زندگیاں تباہ، برباد کر گیا۔۔۔
جیسے شادی دو لوگوں کے درمیان نہیں ہوتی۔۔۔ بلکے شادی دو خانداؤں کے درمیان ہوتی ہے۔۔۔۔لڑکی سارا دن اپنے شوھر کے ساتھ نہیں رہتی ساری عمر صرف شوھر کے ساتھ نہیں گزرتی۔۔۔ اسے اپنی زندگی اس گھر کے افراد کے ساتھ بھی گزرنا ہوتی ہے۔ سارا دن وہ باقی گھر والوں کے ساتھ رہتی ہے اور اگر یہ دیکھ کے شادی کر دی جائے کے لڑکا اچھا ہے ہماری لڑکی نے لڑکے کے ساتھ رہنا ہے تو یہ سارا سر لڑکی ک ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔۔ اگر گھر والے ہی اچھے نا ہو تو وه گھر گھر نہیں رہتا بلکے پھر وہاں گزر بسر ہو رہا ہوتا ہے۔۔۔ وه گزر بسر وه لڑکی اپنا آپ مار کر کرتی ہے.۔۔۔
شادی کامیاب نا رہے تو صرف لڑکے یا لڑکی کی زندگی خراب نہیں ہوتی بلکے ان سے جوڑے رشتے بھی بہت متاثر ہوتے ہے۔۔
یہاں بھی یہی ہوا ہے۔۔ عالمگیر شاہ کے لاکھ کہنے پر بھی آغا جان نا مانے۔۔۔ یہی الفاظ ہوتے۔۔۔
۔
۔
۔
عالَم ہوش سے کام لو۔۔۔ وه خود چل کےآئے ہے میری پھول جیسی بیٹی کا رشتہ لے کر۔۔۔ ارحم پسند کرتا ہے میری جان میری بیٹی کو، وه خوش رکھے گا۔۔۔
کچھ ایسے ہی الفاظ ہوتے۔۔ عالَم نے لاکھ چاہ تھا کے ارحم ساتھ شادی نا ہو پر آغا جان نے عالَم کی ناراضگی کو کسی کھاتے میں نا گنا۔۔ شادی ہو گی اور نتیجہ وہی ہوا۔۔۔۔۔ لالچی انسان نے اپنا لالچ شادی کے صرف ایک ہفتے میں ہی دیکھا دیا۔۔۔پچھلے سات مہینے سے آہینور کا کچھ پتا نا تھا۔۔۔ عالَم پاگلوں کی طرح اپنی جان سے پیاری گڑیا اپنی بہن کو ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔
پورے گھر کا ماحول ہل گیا۔۔۔۔ نسرین شاہ بیٹی کے غم میں بستر کو جا لگی۔۔۔ آغا جان کو چپ ہی لگ گی۔۔۔ اپنی بیٹی کو خود اپنے ہاتھوں سے برباد کر کے۔۔ محمش الگ اپنی جانی۔۔۔ آنی کو یاد کر ک روتا رہتا۔۔ کھانا پینا بھی چھوڑ دیتا۔۔ عجیب ضدی چڑچڑا ہو چکا تھا۔۔۔
اس ایک کی خوشیاں اتنے لوگوں سے جوڑی تھی وه خوش تھی ٹھیک تھی تو یہ پیلس بھی خوش تھا مہک رہا تھا۔۔ اب یہاں ویرانیاں تھی۔۔۔ چپ۔۔۔ خاموشیاں باقی رہ گی تھی۔۔۔۔
۔
۔
۔
روتے روتے آہینور کب سوئی اس کو کچھ خبر نہ تھی۔۔ایک جگہ کافی دیر سوئے رہنے سے جسم اکڑ چکا تھا جس وجہ سے اس کی آنکھ کھل گی۔۔ سب سے پہلے خیال ارحم کا آیا کے وه آ گیا ہوا تو۔۔۔ اس سے آگے وه سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔۔۔
جلدی سے اٹھ کے فلیٹ دیکھا پر کوئی بھی نا تھا۔۔ شکر کرتی ہوئی سب سے پہلے موبائل چھپایا۔۔ پھر اپنا حلیہ ٹھیک کیا۔۔۔
ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کے فلیٹ کا دروازہ کھلا ارحم۔ اندر آیا۔۔
عجیب ہی نظریں۔۔۔ حلیہ تھا۔۔۔ آہینور بہت ڈریہوئی تھی پر ارحم کو اس حال میں دیکھ کے خوف سے کانپ رہی تھی۔۔۔
کیا آنکھیں نکال نکال کے دیکھ رہی ہے تو۔۔۔ آنکھیں نکال دو گا سمجھی۔۔۔۔چل اٹھ کھانا لا کے دے مجھے۔۔۔ارحم کی آنکھیں حد سے زیادہ سرخ تھی۔۔ صاف نظر آ رہا تھا سارا دن نشہ کرتا رہا تھا۔۔۔
جی۔۔ جی۔۔۔ لاتی ہوں۔۔۔ آہینور کانپتے ھوے کچن میں گی اور کچھ دیر میں ہی کھانا لے کر آئی۔۔۔
کھانا آرام سکون سے کھایا۔۔۔ اس پر بھی آہینور اپنے رب کا لاکھ لاکھ شکر ادا کر چکی تھی کے آج اس کو تھپڑ نہیں پڑا۔۔۔
برتن رکھ کر کمرے میں آئی۔۔ جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا.۔۔ لڑکھراتے قدم، کانپتا بدن، چہرے سے خوف ٹپک رہا تھا۔۔۔۔
میرا موبائل کدھر ہے۔۔۔ بول کہاں رکھا ہے۔۔ کس سے بات کی ہے۔۔۔ گالی۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی تھپڑوں کی بارش اس معصوم کر نازک سے چہرے پر کر دی۔۔ یہ جانتے ھوے بھی کے آہینور کی حالت کیسی ہے۔۔۔ جس حال میں سب سے زیادہ خیال رکھا جاتا تھا ارحم۔ کو یہاں بھی رحم نا آیا۔۔۔
لگا تار اتنے تھپڑ کھانے سے آہینور کی حالت غیر ہو چکی تھی پر آج ہمت کرنی تھی۔۔۔
ارحم نے اس کے بالوں سے پکڑ کے ایک دو جھٹکے دئے۔۔۔ بول بتا کہاں ہے کس سے بات کی ہے۔۔۔ بول۔۔۔۔ارحم روز روز سے بلند آواز میں چیخ رہا تھا۔
ہمیں۔ ۔۔ نہیں۔۔۔ پتا۔۔۔ پلززز چھوڑ دے۔۔۔ درد ہو رہا ہے ارحم پلززز۔۔۔
درد تکلیف سے آہینور چلا چلا کے رو رہی تھی پر یہاں کوئی بھی نا تھا۔۔۔
بکواس کرتی ہے میرے سے۔۔ آخری بار پوچھ رہا ہوں بتا دے۔۔ نہیں تو۔۔۔
آہینور بری طرح کانپ رہی تھی۔۔۔
نہیں تو آج تیری نا اس بچے کی پروا کرو گا۔۔۔ مر بھی گے تو مجھے پروا نہیں۔۔۔
نہیں پتا ارحم ہم سچ۔۔۔ بول رہے ہے۔۔۔ جھوٹ نہیں۔۔۔ ابھی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کے ارحم نے ایک دھکا دیا آہینور بیڈ پر گری۔
۔
۔
۔
ارحم نے اپنی بیلٹ اتاری۔۔۔ رول کر کے ہاتھ پر بندھی۔۔۔ چہرے پر عجیب مسکراہٹ تھی۔۔۔ آج پھر اس کا وحشی پن جاگ چکا تھا۔۔ آج پھر ظلم ہونا تھا۔۔ آج پھر ایک حوا کی بیٹی کو بیدردی سے مارا جانا تھا۔۔۔
بیلٹ کو دیکھ کر آہینور کی جان حلق کو آ گی۔۔۔ نا۔۔ نہیں۔۔ آ۔۔ ارحم نا۔۔۔ ہم۔۔ بچہ۔۔ ما۔۔۔
ہوا میں بلند ہوتا بیلٹ ارحم نے پوری طاقت سے آہینور کے بازو پر مارا۔۔۔ پورے فلیٹ میں آہینور کی دلخراش چیخے تھی۔۔۔۔
نا.۔۔ ارحم درد۔۔۔اس کی آواز بھی نا نکل رہی تھی بات کیا کرتی۔۔۔ سسکیاں۔۔ ہچکیاں۔۔۔ کسی دیکھنے والے کا دل دہلا دیتی۔۔۔ پر یہاں سامنے کھڑا کوئی انسان نا تھا۔۔۔۔
لالچی۔۔۔
پاگل۔۔۔
نشی۔۔۔
نفسیاتی۔۔۔
وحشی کھڑا تھا۔۔ جس کو نا خود کی پروا تھی نا اپنی بیوی کی نا اپنے ہونے والے بچے کی۔۔۔
ارحم نے جب دیکھا کے آہینور کچھ نہیں بتائے گی تو ایک بر پھر سے اس کو سیدھا کیا۔۔۔ اور۔۔۔۔
پھر نا دیکھا کے کہا بیلٹ لگ رہی ہے۔۔ پوری جان لگ کے حوا کی بیٹی کو مارا جا رہا تھا تڑپایا جا رہا تھا۔۔۔
بیلٹ سے مار کھانے سے جسم کی چمڑی جگہ جگہ سے اتر چکی تھی۔۔ خون سفید لباس کو لال رنگ گیا۔۔بازؤں،سینے، ٹانگوں پر کہاں کہاں نہیں مارا تھا۔۔۔
وه معصوم سی گڑیا ہر بار کی طرح ظلم برداشت نا کر سکی اور کب سب ہوش سے بیگانہ پڑی ہوئی تھی۔۔۔ جسم نیل سے بھرا پڑا تھا اور اس پر اب دئے جانے والے نئے زخم۔۔۔ چہرہ الگ ہی داستان سنا رہا تھا۔۔۔۔
ارحم کو جب ہوش آیا تو آہینور کو دیکھ کر ایک دم پریشان ہو گیا۔۔ پاس جا کے دیکھا کہ سانس بھی چل رہی ہے کے نہیں۔۔۔ مدھم سانس چل رہی تھی۔۔۔
ارحم غصہ سے باہر نکل پڑا یہ بھی یاد نا رہا کے دروازہ لاک کرنا ہے۔۔۔۔
پیچھے آہینور تھی اور اس کی بیان کرتی ظلم کی داستان جو سات ماہ سے برداشت کر رہی تھی۔۔۔۔
رات کے آٹھ بج رہے تھے جب عالَم اس فلیٹ کے باہر کھڑا تھا۔۔۔ یہ جانے بغیر کے اندر ایک قیامت اس کی منتظر ہے۔۔۔
۔
۔
پری۔۔۔ گڑیا۔۔۔ لالا کی جان۔۔۔ کہاں ہو۔۔۔ عالَم فلیٹ کے اندر بولتا ہوا آ رہا تھا پر اس کی جان کہی بھی نظر نا آئی۔۔۔فلیٹ ہی باہر ہی باقی گاڈر کھڑے تھے عالَم خود اندر جا کے اپنی بہن سے ملنا چاہتا تھا۔۔۔
کمرے کے باہر کھڑے عالَم نے ناب گھما کے جیسے ہی دروازہ کھولا۔۔۔
۔
۔
۔
آہینور بیڈ پر بیہوش پڑی تھی خون جسم سے جگہ جگہ نکل رہا تھا۔۔۔ بازؤں سے کپڑے پھٹ چکے تھے۔۔۔ کچھ بھی ٹھیک نہ تھا۔۔۔ وه تو اس کی بہن تھی ہی نہیں۔۔۔ چہرہ جو کبھی رویا نا تھا۔۔۔ اس وقت تھپڑوں سے سوجا اور لال ہوا۔۔۔ بلی آنکھوں کے نیچے گہرے حلقے نمایا تھے۔۔۔
۔
نوری۔۔۔۔۔۔ عالَم اپنی پری کا نام لے کر چیخ پڑا۔۔۔ ظلم کی داستان آہینور پر جو نظر آ رہی تھی آج عالَم کو سمجھ آئی کے جسم سے روح خیچنا کس کو کہتے ہے۔۔۔ آج جانا تھا اپنی جان کو کیسے نکلتے ھوے تکلیف ہوتی ہے۔۔۔۔
باہر دروازے پر کھڑا عالَم کا سیکٹری اس کی چیخ سن کے اندر آیا پر کمرے کے دروازے پر ہی روک گیا۔۔۔
سر میڈم کو پلززز ہسپتال لے کر چلے۔۔۔۔ جلدی۔۔۔
لالا ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ جلدی آ جائے۔۔۔ وه مارتا ہے روز۔۔۔ درد ہوتا ہے۔۔۔ ڈرد لگتا ہے۔۔۔ خوف آتا ہے۔۔۔ آپ آ جائے۔۔۔ نہیں تو آپ کی گڑیا مر جائے گی۔۔۔۔
ایک ایک لفظ عالَم کے کانوں میں گونج رہا تھا۔۔ تکلیف۔۔ ازیت۔۔۔۔
ایک مرد اگر مار کر گیا تھا بیدردی سے۔۔۔ تو یہ مرد ایک بھائی اپنی بہن کو اس حال میں دیکھ کر رو رہا تھا چیخ رہا تھا۔۔۔ سر کے بالوں کو نوچ رہا تھا۔۔۔۔
علی نے آگے بڑھ کے ایک شال پکڑی اور آنکھیں بند کے جا کے آہینور کے وجود پر ڈالی۔۔۔ جسم کو ڈھانپا گیا۔۔۔ عالَم کو ہوش آیا تو اٹھ کے اس تک آیا۔۔۔
سوری سر میں بھی بہنوں والوں ہو عزت جانتا ہو۔۔۔ بےفکر رہے میں نے کچھ نہیں دیکھا نا سنا ہے۔۔۔ ہمیں میڈم کو ہسپتال لے کر جانا چاہے۔۔۔۔
عالَم نے بہت احتیاط سے اپنی گڑیا کو باہوں میں اٹھایا اور باہر کی جانب ڈور لگائی۔۔۔۔
ہسپتال تک یہی الفاظ چاروں جانب گونج رہیں تھے۔۔۔
لالا آپ کی گڑیا ٹھیک نہیں۔۔۔ درد ہوتا۔۔۔ مارتا ہے بہت۔۔۔ مار جائے گے۔۔۔ جلدی آ جائے۔۔۔ ڈرد لگتا ہے۔۔۔۔
میں نے دیر کر دی میری جان۔۔۔ لالا آپ کی حفاظت نہیں کر سکے۔۔۔ میری گڑیا کو کوئی بےمول سمجھ کر اس پر ظلم کرتا رہا۔۔۔میری جا۔۔۔۔ جان۔۔۔ ایک بار لالا کہہ دو۔۔۔ دیکھ لو لالا آ گے میری گڑیا۔۔۔۔ میری گڑیا کو وه ظالم توڑ گیا۔۔۔ میری گڑیا اتنی سی عمر میں کیا کیا سہ گی۔۔۔۔۔
یااللہ۔۔۔۔ رحم۔۔۔۔ میرے مالک توبہ۔۔۔۔ عالمگیر شاہ رو رہا تھا۔۔۔ روح روک روک کے جسم سے نکل رہی تھی۔۔ تکلیف بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...