جتنا شور یونیورسٹی کے نام پر نور نے کیا تھا دیکھ کے کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ نور دو دن بھی یونیورسٹی جائے گی پر اندازے سب غلط ہو چکے تھے۔۔
وجہ؟؟
یونیورسٹی میں نور،ماہم،معاذ ،اور ساتھ معاذ کا دوست میراب ایک ساتھ پائےجاتے۔۔ معاذ بلکل بھائیوں کی طرح نور کا دھیان رکھتا۔۔۔ جبکہ ماہم کے ناک میں دم کر کے رکھا ہوا تھا۔۔
ماہم معاذ کی شرارتوں سے عاجز آ چکی تھی معاذ چڑاتا بھی ماہم کو ہی تھا جانتا تھا وہ بہت غصہ کرتی ہے۔۔۔ اور یہ غصہ معاذ شاہ کو اور بھی اچھا لگتا۔۔۔ کوئی سوچتا تو عجیب سا لگتا۔۔۔ پر یہاں بات معاذ کی تھی ہر انوکھاکام یہی سرانجام دیتا۔۔۔
یونیورسٹی جاتے ہوئے ان سب کو ایک ماہ گزر چکا تھا۔۔۔ سب اچھا چل رہا تھا۔۔ نور یہاں آ کے بہت خوش تھی’اس کو دیکھ کر باقی گھر والے بھی خوش اور مطمین تھے۔
آج ویکنڈ تھا اور سب گھر والے ابھی پورے ہفتے کی نیند پوری کر رہے تھے پر اس نور کو آج کہا نیند آنے والی تھی۔۔ کل ہی سب کو بتا چکی تھی کہ کل اپنی ایش ( بلی)کے ساتھ ٹائم سپنڈ کرے گی۔۔ اس کو بچہ سمجھ سمجھ کے نور کی حرکتیں بھی بچوں والی تھی۔۔
مصطفیٰ ولاز صبح کے دس بجے بھی خاموشی میں ڈوبا پڑا تھا۔۔۔
نور خاموشی سے اٹھ کے دبے دم نیچے آئی باہر لان میں اس کی پیاری سی نیلی آنکھوں والی بلی بیٹھی نظرآئی۔۔
دسمبر میں اچھی خاصی سردی تھی اور آج تو موسم کچھ زیادہ ہی ٹھنڈا تھا۔۔ سرد ہوائیں چل رہی تھی ایسے میں لان کہ پھول ہواؤں سے باتیں کر کہ جوھم رہے تھے۔۔
نور نے جیسے ہی قدم باہر نکالا سرد ہوا ٹکرائی’ نور نےجھرجری لی۔۔۔
سر کو اچھے سے کیپ سے کوور کیا گیا تھا جبکہ رات والے بلیک ڈھیلے ڈھلے سوٹ میں بھی کسی پری سے کم نا لگ رہی تھی۔۔ نیند کا خمار ابھی بھی باقی تھا۔۔ سفید رنگ بلیک سوٹ میں کچھ اور نکھرا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔۔اتنی سردی میں سردی سے بچاؤں کے لئے ایک شال لی ہوئی تھی وہی عادت اپنے سے بےپروا یہ لڑکی کسی کے دل میں اتر جاتی تھی۔۔۔
۔
۔
ہائے۔۔۔۔ ایش کتنی پیاری صبح ہے نہ۔۔۔ کیوں نہ سب کے اٹھنے سے پہلے ایک چکر ہم دونوں باہر کا لگا کے آئے۔۔۔
پھر نور اپنی بلی کو ساتھ لئے مین گیٹ تک آئی۔۔
بیٹا آپ اکیلی باہر نہیں جا سکتی۔۔ ہمیں اجازت نہیں ہے آپ کو اکیلا باہر بھجنے کی۔۔۔
گیٹ پر کھڑا ملازم سر کو جھکا کے بولا۔۔۔
اس بات پر نور کی ساری خوشی دھری کی دھری رہ گی۔۔۔
پر انکل ہم یہاں ہی ہے باہر۔۔ گھر کےباہر۔۔ آپ یہاں ہی تو کھڑے ہے آپ۔۔۔ پلزززز۔۔۔ جانے دے نہ۔۔ زیادہ دور نہیں جائے گے۔۔۔ پلززز نا۔۔۔۔نور منت پر اتر آئی تھی۔۔۔
ایک موسم کے تیور کچھ ٹھیک نہیں تھے اور اس پر نور کی باہر اکیلے جانے کی ضد۔۔
پر بیٹا۔۔۔۔
پر۔۔۔۔ور۔۔۔۔ کچھ نہیں آپ گیٹ کھولے ہمیں جانا ہے باہر۔۔۔ یہاں ہی تو ہے۔۔۔ نور کہتی ہوئی گیٹ پار کر گئی۔۔۔
باہر نکلتے ہی نور کی بلی بھاگ بھاگ کر آگے جانے کی کوشش کر رہی تھی اور پھر ایک دم نور کی گرفت ذرا سی ڈھیلی ہوئی اور بلی اپنا کام کر گی۔۔
اب منظر کچھ یوں تھا بلی آگے آگے تھی اور نور بلی کو پکڑنے کو اس کی پیچھے پیچھے۔۔
پر بلی آگے کی بڑھتی جا رہی تھی۔۔ مصطفیٰ ولاز اب کافی پیچھے رہ گیا تھا۔۔۔
ایک دم بادل زور سے گرجا۔۔ اور آسمان سیاہ ہوا۔۔۔ بادلوں پر جیسے ہی بجلی پڑتی ایک عجیب’ بھیانک آواز گوجتی۔۔
نور اب اصل میں ڈری تھی پر ایش کا گھر جانے کا دور دور تک کوئی ارادہ نا تھا۔۔۔
بارش کی بوندے زمین کو بھگونے کو تیار تھی اور اس پر ایک ستم نور اسلام آباد کی اس سردی میں بغیر کچھ گرم پہنے باہر نکل آئی۔۔۔
بھاگتے بھاگتے نور کی پاؤں مین ایک پتھر آیا اور نور روڈ پر بری طرح گری۔۔۔ دونوں بازؤں کی کونیاں چِھل چکی تھی۔۔ داہیں پاؤں کی لاسٹ فنگر سے خون نکل رہا تھا۔۔۔
بلی آنکھیں بادلوں کے گرجنے(خوف) سے اور کچھ ابھی لگی چوٹ کی تکلیف پر رو دی۔۔ پر غلطی بھی نور کی تھی جو ایسے ہی بتاۓ بغیر گھر سے باہر آ گی۔۔۔
نور نے اٹھنے کی کوشش کی پر لڑکھڑا گی۔۔ ہمت کی اور ایک دم چلی۔۔۔
آہ۔۔۔۔ ہا۔۔۔۔
پر یہاں کون سننے والا تھا۔۔۔ نور کی بلی اپنی ہی خوشی میں اب اس فیز کے لاسٹ اور سب سے خوبصورت پیلس کے دروازے پر سکون سے جا کے بیٹھ گی۔۔۔۔
لڑکھڑکے چلتی نور ابھی اس پیلس کے پاس گئے ہی تھی کے بلی نے نور کو دیکھ کے چھلانگ لگائی اور یہ بلی نور پیلس کے اندر تھی۔۔۔ باہر کھڑی نور حیرت سے نم آنکھیں پھیلے ہوئی تھی۔۔
ایک بارش زور پکڑ چکی تھی اوپر سے بلی اپنی موج مستیوں میں تھی۔۔
چند قدم نور آگے بڑھی۔۔۔۔
۔
۔
۔
سوئے وجود کی ہارٹ بیٹ ایک دم تیز ہوئی۔۔ ہاتھوں میں وضع حرکت ہوئی۔۔ لمبا سانس لیا گیا۔۔ پاس بیٹھے محمش اور آغا جان دونوں چونک گے۔۔۔
قومے میں سوئی ہوئی آہینور مسلسل تیز تیز گہرے سانس لے رہی تھی۔۔۔
محمش نے آگے بڑھ کے اپنی آنی جان کا ہاتھ پکڑا۔۔۔
آنی جان کیا ہوا ہے آپ کو۔۔۔ ایسے کیوں کر کے جان نکلتی ہے۔۔۔ محمش کو اب ڈر لگ رہا تھا آہینور جیسے سانس لے رہی تھی کوئی بھی ایسے مریض کو دیکھ کے یقیناً ڈرتا ہی۔۔۔۔
نوری۔۔۔۔ میری جان۔۔۔۔
۔
۔
یہ موسم نے اچانک کیسی کروٹ بدلی ہے
تیرے آنے کی آہٹ میں پہلی بارش جو برسی ہے
سب کچھ نکھرا نکھرا دھلا دھلا سا ہے
تیرے آنے سے اب یہ آسمان بھی جھوم اٹھا ہے
(میری_حسین)
انکل میری کٹ اندر آ گی ہے پلززز کیا ہم اسے لے سکتے ہے؟
بارش میں بِھگتی نور سردی سے کانپ رہی تھی اور سردی میں لگی چوٹ سہی ہوش اڑھا رہی تھی۔۔۔
پلززز ہم کچھ بھی نہیں کرے گے بس لے کے چلے جائے گے۔۔۔
معصوم سی اس چھوٹی لڑکی کو دیکھ کر باہر کھڑے گارڈ کو رحم آ گیا اندر آنے کی اجازت دی گئی۔۔۔
۔
۔
۔
تیری وادی میں ہم پھر سے آۓ ہے
کچھ پچھلی یادیں پھر سے تازہ کرنے آۓ ہے
فقط یہی نہیں کہ بس تیری وادی ہی دیکھنے آۓ ہے
اب تمہیں کیسے بتائیں کہ آج پھر سے تمہیں ڈھونڈھنے آۓ ہے
ایسا بھی نہیں ہے کہ تم کہیں کھو گئے ہو
بس تمہیں چھونے کی خواہش لے کر پھر سے آۓ ہے
(میری_ حسین)
ایک مبارک قدم ابھی گیٹ کے اندر تھا اور دوسرا باہر تھا۔۔۔ہوا کا تیز جھنکا آیا، بارش پورے زور سے برسی اور پھر انتظار ختم ہوا۔۔۔ٹھیک آج اتنے عرصے کے بعد جیسے اس گھر کے بیٹی یہاں سے گئ تھی آج ویسے ہی اس کہ قدم اس پیلس میں واپس رکھے گے۔۔
آزمائش میں کمی آئی۔۔۔ آج انتظار ختم ہوا۔۔ بہت سی دعائیں کو آج معراج نصیب ہوئی۔۔
جیسے ہی قدم اس پیلس میں رکھا۔۔۔ اندر سوئی ہوئی آہینور نے ایک لمبی سانس لی۔۔۔ اور۔۔۔۔ اپنی۔۔۔ آنکھیں کھول دی۔۔۔ دونوں بلی آنکھیں آرام سے نہیں یکدم پوری کھلی۔۔۔
سب جیسے روک گیا۔۔۔ محمش آنکھوں میں آنسوؤں لئے اب حیرانگی سے اپنی آنی جان کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ پھر لرزتے ہاتھ سے چہرے کو چھووا گیا۔۔۔جہازیب شاہ نے یہ منظر دیکھا ہی تھا کے پھوٹ پھوٹ کے رو دیں۔۔۔
آواز اتنی بلند تھی کے اس بڑے سے کمرے میں گونج رہی تھی۔۔
ایک باپ کا برسوں کا انتظار آج ختم ہوا۔۔ آج سزا سے آزادی ملی تھی۔۔۔ آج آزمائش میں کمی کی گئ تھی۔۔۔ بیٹی سے پیار کی جنگ میں آج باپ جیت ہی گیا باپ کی دعائیں اپنی بیٹی کو آخرکار موت کے منہ سے واپس لے ہی آئی۔۔جہازیب شاہ کے خون کی ایک ایک بوند میں ان کی بیٹی آہینور کا نام تھا۔۔۔
جسم کو چوٹ لگے تکلیف ہوتی ہے پر اگر آپ کی روح کو چوٹ لگ جائے تو تکلیف نہیں ہوتی، بلکے انسان قطرہ قطرہ مرتا ہے پر موت نہیں آتی۔۔۔ آپ کو اس تکلیف کے مراحل سے گزارا جاتا ہے کہ آپ جان سکے آپ پہچان سکے آپ کا پیار آپ کے لئے کیا اہمیت رکھتا ہے۔۔۔ پیار کرنے والے ضروری نہیں آپ کی روح میں بسے ہوں’ باز دفع جان نکل جاتی ہے پر وہ روح آپ کے آس پاس ہوتی ہے آپ اسے محسوس کرتے ہے۔۔ پھر کیسے نا، معلوم ہو کے روح میں بسا ہوا آپ کا پیارا آپ سے بےخبر ہو۔۔۔ دل کے معاملوں میں اگر خبر ہو جاتی ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن نا ہو کہ جن سے روح کا تعلق ہو ان کو الہام نا ہو۔۔
پتا چل جاتا ہے۔۔۔ خبر پہلے ہی ہو جاتی ہے۔۔۔ دل ایسے ہی نہیں بیچن ہو جاتا۔۔ دماغ ایسے ہی نہیں اسی ایک کو بار بار سوچ رہا ہوتا۔۔ آنکھوں کو بار بار وہی منظر وہی جھلک ایسے ہی نظر نہیں آتی۔۔۔۔ وہ رب آپ کو پیار عشق کے مراحل سے گزار رہا ہوتا ہے۔۔ اس لئے خبر دی جاتی ہے۔۔۔
“دل میں وسوسے ، ڈر ، خوف ڈالا جاتا ہیں۔ پیار ہو جانے کی نشانی ہے۔۔۔۔۔ پر ان وسوسوں’ ڈر ‘ خوف میں بھی اگر ایک جھلک آپ پر حاوی ہو جائے اور پھر وہی جھلک آپ کو اپنے رب سے ملا دے، سمجھو عشق اپنا کام کر گیا۔۔۔اپنا رنگ آپ پر چڑھا گیا۔۔۔”
ایسا ہی کچھ حال محمش کا تھا۔۔۔ پر آہینور کی دل کی دھڑکن کے ساتھ ہی محمش کی دھڑکن بےقابو ہوئی۔۔۔ دل نارمل سے زیادہ تیزی سے دھڑکا۔۔۔
ہوش میں آنے کے بعد آہینور آنکھوں کو ہی ہلکا سا گھوما کر سامنے بیٹھے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ بولنے کی کوشش کی جا رہی تھی پر اتنے سالوں کے بعد کچھ بھی خود سے موو نہیں کر پا رہی تھی۔۔ الفاظ ادا نا ہو سکے۔۔۔
جہازیب شاہ نے آنسوؤں سے بھگے اپنے چہرے کو صاف کیا۔۔ دل کو سکون ملا تھا اتنے سالوں سے کھویا ہوا سکون آج نصیب ہوا تھا اپنی جان سے پیاری بیٹی کی آنکھیں کھلنے پر اتنا سکون تھا تو پھر اپنی جان کی جان کو دیکھنے پر دنیا کا سب خوشیاں دولت پا لیتے۔۔۔۔
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...