نومبر کے شروﻉ ہوتے ہی مصطفیٰ ولاز پوری طرح سج گیا تھا۔۔۔ بہت وقت لگا اس بڑے سے گھر کی سیٹنگ کرتے کرتے۔۔۔۔
ایک گرینڈ پارٹی ہونی تھی اس گھر میں اب۔۔ نائل مصطفیٰ اور مھین دونوں آج اس فیز کے سب گھروں میں انویٹیشن دینے گے ھوے تھے۔۔۔
دونوں نے ایک ساتھ نور پیلس میں قدم رکھا ۔۔ چند پل کو حیرانگی آنکھوں میں اتر آئی۔
وجہ؟؟؟
نور پیلس کا خوبصورت۔۔۔ آنکھوں کو تحسین بخشنے والا لان تھا۔۔۔ جیسے جیسے قدم آگے کی جانب بڑھ رہے تھے حیرانگی میں اضافہ بڑھتا چلا گیا۔۔۔
ماشاءالله۔۔۔
مھین کے منہ سے نکلا۔۔۔ کیا خوبصورت گھر ہے یہ لوگ بھی اتنے ہی اچھے ہو گے۔۔۔
ماوں والی روح ایک دم سے بیدار ہوئی۔۔۔
اندازے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ہی پل آہینور کے وجود میں ہل چل ہوئی۔۔۔ ہاتھ کو تھوڑا سا ہلایا گیا۔۔۔ سانس۔۔۔ ایک لمبا سانس اندر اتآرا۔۔۔خبر ہو چکی تھی۔۔۔
واجب کیا گیا صبر پورا ہو رہا تھا۔۔۔آزمائش میں کمی آ رہی تھی۔۔۔
لاڈلی۔۔۔ اس گھر کی لاڈو۔۔۔ اس گھر سے کچھ قدم ہی دور تھی بس۔۔۔ صرف چند قدم۔۔۔
۔
۔
۔
پر آج آہینور کی لاڈلی اس گھر کی لاڈو کے گھر والے یہاں اس پیلس میں اپنے قدم جما چکے تھے پھر کیسے ایک ماں اب بھی سوئی رہتی۔۔۔
بس ایک مبارک قدم کی دیر تھی۔۔۔ پندرہ سال سے سویا یہ نیم وجود اب ہوش میں آنے والا تھا۔۔۔
ہل چل ایسے ہی نہ تھی۔۔۔ الہام ہو رہا تھا۔۔۔
۔
۔
۔
“ماوں کو الہام ہوتا ہے ان کی مان لینی چاہیی۔۔۔ان کو اپنی اولاد اپنے سے جوڑے رشتوں کو لے کر الہام ہوتا ہیں۔”
اس ماں کو بھی الہام ہو چکا تھا، اس کا خون اس کے پاس آ رہا تھا پھر کیسے یہ ماں اپنی آنکھیں نہ کھولتی۔۔۔ کیسے نہ اپنی دنیا میں واپس لوٹتی، جب اس کی دنیا اس کو امانت سمت واپس کی جا رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسٹر نائل اور مسز نائل دونوں کو حال میں بٹھایا گیا۔۔۔ کچھ ہی پل بعد آغا جان، بیٹا اور بہو وہاں چلے آئے۔۔۔
سلام دعاکے بعد تعارف کروایا گیا اور آنے کا مقصد بتایا گیا۔۔۔
ہم یہاں کچھ دیر پہلے ہی شفٹ ھوئے ، تو بس اس لئے یہاں کے لوگوں سے ملنے کے لئے ایک پارٹی رکھی ہے اس ویکنڈ آپ سب آئے گے تو ہم گھر والوں کو خوشی ہو گی۔۔۔۔
جی۔۔ جی۔۔۔ کیوں نہیں۔۔۔ انشاءلله ہم سب آئے گے۔۔۔ آپ خود اتنے پیار سے دعوت دینے آئے ہے ایسا کیسے ہو سکتا کوئی نور پیلس چل کے آے تو خالی ہاتھ لوٹیا جائیں۔۔۔
نائل اور مھین کافی متاثر نظر آ رہیں تھے اس گھر کے مکینوں سے۔۔۔
کچھ دیر باتوں چائے پینے کے بعد دونوں اپنے گھر کی جانب چل دیئے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبتوں میں کچھ ایسے حل ہوتے ہیں
خفا ہوں جن سے انہی کے خیال ہوتے ہیں
مچلتے رهتے ہیں ذہنوں میں وسوسوں کی طرح
حسیں لوگ بھی جان کا وبال ہوتے ہیں
تری طرح ہیں دل کے زخم چھیاوں کیسے
کہ تیرے پاس تو لفظوں کے جال ہوتے ہیں
بس ایک تو ہی سبب تو نہیں اداسی کا
طرح طرح کے دلوں کو ملا ہوتے ہیں
سیاہ رات کو جلتے ہیں جگنووں کی طرح
دلوں کے زخم بھی محسن کمال ہوتے ہے
(#copied)
اوو۔۔۔۔ بھائی۔۔۔ میرے بھائی۔۔۔ اسلام آباد ہے یہ ،یار کوئی مذاق نہیں۔۔۔۔
میں بھی بکواس نہیں کر رہا ارون۔۔۔ کافی دیر بحث کے بعد اب چیئر پر بیٹھا محمش اچھا خاصا تپا ہوا نظر آ رہا تھا۔۔۔
نہیں مطلب پورا اسلام آباد۔۔۔ اب کے ایک قہقہ بھی ساتھ گونجا تھا۔۔
دفع ہو۔۔۔ نکل یہاں سے۔۔۔ نکل۔۔۔ ڈش انسان۔۔۔
ہاہاہا۔۔۔ اچھا نہ مذاق تھا یار یہ۔۔
میں یہاں دن رات تڑپ رہا ہوں اور تم مزے لے رہے ہو۔۔۔ افسوس ہو رہا ہے مجھے خود پر کے کب سے میں تم سے سر کھپا رہا تھا۔۔،
دیکھ محمش میں یار تیرا موڈ لائٹ کر رہا تھا اور کچھ بھی نہیں۔۔۔ ارون ایک دم سنجیدہ ہوا تھا محمش سے کچھ بعید نہیں تھا کے نکل کے باہر کرتا۔۔
اسلام آباد چھوٹا تو نہیں۔۔۔
کہا کہا ڈھونڈے گے اور کیسے۔۔۔
مطلب کچھ بھی نہیں پتا نام کے علاوہ۔۔۔ اور اب اتنا عرصہ ہو چکا ہے اس بات کو وہ اتنی بڑی ہو چکی ہو گی۔۔۔ پہچانے گے کیسے.۔۔۔ کچھ تو ہو جس سے ہم اسے ڈھونڈ بھی سکے۔۔۔
یہاں ہی ہمت جواب دیتی تھی۔۔ نہ صرف محمش بلکے نور پلیس کے سب فرد کی۔۔۔ کہا کیسے ڈھونڈا جائے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پر اب تو الہام ہوا تھا۔۔۔ بات محبّت سے بہت آگے بڑھ چکی تھی۔۔۔ محبّت سے آگے کی منزل پر قدم رکھا جا چکا تھا۔۔۔ اب منٹ منٹ پر آزمائش پر آزمایا جانا تھا۔۔
” اب ہی محبوب کو سامنے دیکھ کے نظرانداز کرنا تھا۔۔۔ بات الہام سے آگے نکل چکی تھی۔۔ جو آزمائش واجب تھی اب اس سے آگے بےچینی میں اقرار ڈھونڈنا تھا۔۔۔ ابھی بہت منزلیں تہ ہونی تھی ابھی تو اس الہام سے آگے کا سفر اس عاشق کو کروایا جانا تھا۔۔”
۔
۔
کچھ خاص عطا ہونا تھا پر اس خاص کے لئے تیار کیا جاتا تھا۔۔۔ کوئی بھی سیدھا امتحان نہیں دیتا پہلے اسے تیاری کروائی جاتی ہے پھر اس امتحان میں بٹھایا جاتا ہے۔۔۔ اس عاشق کو بھی تیار کیا جا رہا تھا۔۔۔قدم قدم پر ٹھوکر۔۔۔ تکلیف۔۔۔ اذیت۔۔۔ تھی۔۔۔ پر واجب بھی کیا گیا تھا۔۔۔
صبر شکر۔۔۔۔
محمش بھی ٹوٹا تھا پھر اس کو جوڑا گیا۔۔۔
کسی کو ٹوٹ کر چاہنا۔۔۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کے جس کو ٹوٹ کے چاہو اس کے لئے ہم خود نہ ٹوٹے۔۔۔
نئے سرے سے سب شروﻉ ہوتا ہے توڑنا پھر اس بندے کو رب پہلے اوقات میں لاتا ہے پھر اس پر کام کیا جاتا ہے۔۔۔ اس کے بہت بعد میں جا کے اس انسان کو جوڑا جاتا ہے۔۔۔
بندے کو اس کی اوقات یاد دلا کے اس کے دل میں اپنا احساس پیدا کیا جاتا ہے۔۔۔ پھر اسے دکھایا جاتا ہے۔۔۔
ہاں یہ ہے رب تیرا کچھ بھی کر سکتا ہے سب کر سکتا ہے کچھ بھی مشکل نہیں اس کے لئے۔۔۔ پھر اس انسان کے دل کو اس دنیا سے بےپروا کرتا ہے۔اس کا دل اس دنیا سے جڑی چیزوں سے موڑ لیتا ہے۔ اس بندے کے دل میں اپنی لئے طلب ڈالتا ہے۔۔ آنکھوں سے دنیا کی ہر بڑی سے بڑی خوبصورت سے خوبصورت چیزوں کے لئے بےنور کر دیتا ہے۔۔۔
آنکھیں وہی دِکھاتی ہے جو وہ رب دیکھنا چاہتا ہےباقی سب فضول بےمول ہو جاتا ہے۔۔
اپنی طلب کے بعد بندے کے دل میں اپنا ڈر پیدا کرتا ہے۔۔۔
ڈر ایسا کے کھو جانے کا۔۔۔
جو صدیوں کے بعد ملنا۔۔۔ کسی کو صدیوں کے بعد ملوں, پھر اسے ڈر ہوتا ہے اس کے دور جانے کا بچھڑنے کا۔۔۔
ٹھیک ویسا ہی ڈر۔۔۔
سکون ڈالا جاتا ہے۔۔۔
ملنگ طبیعت بنا دی جاتی ہے۔۔۔
عشق کی منزل کو معراج ایسے ہی نہیں ملتی۔۔۔۔
ملنگ بنا پڑتا ہے۔۔۔
طبیعت میں ملنگ پن لانا پڑتا ہے۔۔۔
پھر دل میں دللگی نہیں بلکے درویش پن آ جاتا ہے۔۔۔
عزت۔۔۔
احترم نظروں سے جھلکتا ہے،۔۔۔۔ یہ سارا چکر چلانا پڑتا ہے۔ جو رب کے نزدیک عام سے خاص میں شمار ہونے لگ جائے بس وہاں سے بات انسان کے اختیار سے نکل جاتی ہے۔۔۔ پھر آگے رب جانے اور اس رب کے کام۔۔۔
کیسے کیسے وسیلے پیدا کرتا ہے کہ انسان نہ چیز اس سے بھی بےخبر ہوتا ہے۔۔۔۔
محبّت کی کہانی الگ۔۔۔۔ عشق کی داستان لازوال۔۔۔
۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...