احتشام کو اب تک یقین نہیں آ رہا تھا کے ان کی اولاد کی وجہ سے وہ معصوم بچی اتنی تکلیف میں تھی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کے اپنی لاڈلی بہن کی آنکھوں میں آنسوؤں بھی ان کی خود کی بیٹی تھی۔۔۔
چٹاخ۔۔۔..
کوئی عام آواز نہیں اچھے خاصے بھاری ہاتھ کے تھپڑ کی آواز تھی۔۔
ثانیہ منہ پر ہاتھ رکھ کے سہمی کھڑی تھی۔۔پا۔۔۔پاپا۔۔۔!!!
چپ۔۔۔ بلکل چپ ایک لفظ نا نکلے۔۔احتشام رضا نے انگلی منہ پر رکھ کے چپ رهنے کو کہا تھا۔۔۔ غصہ مصطفیٰ ولاز کو ہلا رہا تھا۔
المیہ سر کو جھکا کے بیٹھ گئ تھی۔ جانتی تھی کے وہ جلدبازی میں بہت بول گئ تھی
۔۔۔۔’
پھر گہری خاموشی تھی۔۔۔
دلوں کو چیرتے الفاظوں کا طوفان آیا تھا۔۔ وہ بہت سے دلوں کو۔۔۔ رشتوں کو بھی ہلا گیا تھا۔۔۔ احساس تو بہت بعد کی بات تھی یہاں تو بہت سو، کا یقین ٹوٹا تھا۔۔۔
وعدہ کیا تھا۔۔ وعدہ۔۔۔ کی۔۔۔کیا تھا نا۔۔۔ نہ۔۔۔ پھر۔۔۔بھی یہ سب۔۔۔ سب ختم کر دیا۔۔۔ سب۔۔۔ میرے بچے۔۔۔۔ میرے بچوں کے دل۔۔۔ دل توڑ دئے۔۔۔ جب ٹھیک ہوتا ہے تب ہی۔۔۔ تب ہی کچھ ہو جاتا ہے۔۔۔ و۔۔۔ وہ۔۔۔ میری پھول جیسی گڑیا۔۔۔ کچھ اس کا ہی خیال کر لیا کریں۔۔۔ بھابھی۔۔۔ اور ثانی۔۔۔۔ یہ جینے نہیں دیتی میری بچی کو۔۔۔ جانتے بھی ہے وہ نازک سی ہے۔۔۔ پر نہیں۔۔
۔۔
مھین کی آواز بولتے بولتے مدھم ہو گی تھی۔۔۔ رونے کی وجہ سے الفاظ بھی ٹھیک سے ادا نہیں ہو پا رہیں تھے۔۔آنکھیں۔۔۔ شکوہ کر رہی تھی۔۔۔ نظریں اٹھی تھی۔۔پر غازی کی جانب۔۔۔
بہت کچھ تھا ان نظروں میں۔۔جس کے لئے تھی وہ بھی جان چکا تھا۔۔۔
سدرہ اپنی پھپھو کے پاس آئی تھی۔ نفی میں سر ہلایا۔۔
نور ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔ آ۔۔ آپ۔۔۔ پریشان نا ہو ، میں معافی مانگتی ہو نا۔۔ پلزز۔۔۔ ناراض نا ہو۔۔۔ اگلی بار ایسا کوئی بھی کام نہیں ہو گا کے نور ہرٹ ہو۔۔ آپ ہرٹ ہو یا ہماری فیملی۔۔۔ پلزز۔۔
سدرہ نا صرف بڑی تھی بلکے سمجھدار۔۔۔عقلمند بھی تھی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کے دوستی کرنے والی۔۔۔ خوش اخلاق بھی۔۔۔
مجھے کسی سے کچھ نہیں چاہیئے ۔۔۔
بس میرے بچے۔۔۔ ان کی خوشیاں چاہیئے۔۔ جو وعدہ آج سے بہت سال پہلے لیا گیا تھا وہ وعدہ وفا کریں بس۔۔۔ وہ میری ہی نہیں۔۔۔ اس گھر کی جان ہے۔۔۔ ہماری جان نور میں ہے۔ وہ ٹھیک تو ہم ٹھیک۔۔۔ اگر وہ نہیں ٹھیک۔۔۔ میرا دل کا ٹکڑا نہیں ٹھیک تو میں کیسے ٹھیک ہو جاؤں۔۔۔
احتشام نے آگے بڑھ کے مھین کو چپ کروایا تھا۔۔۔
۔۔،
وہ ٹھیک ہے۔۔۔ ایسی نوبت پھر نہیں آئے گی۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔۔ ایسا اگر کسی نے دوبارہ کرنے کا سوچا بھی تو بہت۔۔ بہت برا پیش آؤ گا۔۔۔
“کچھ لوگ بہت اچھی قسمت لے کے آتے ہے۔۔۔ قسمت تو سب کی اچھی ہوتی ہے۔۔۔ رب جو لکھتا ہے۔۔۔۔ پر کچھ خاص ہوتے ہے، یا پھر یہ کے وہ خاص لوگ بہت سی کی مانگی ہوئی دُعاوں کے حصار میں ہوتے ہے۔۔۔
خاص کرم۔۔۔ خاص عنات ان پر ہوتی ہے”۔۔۔۔ یہ معصوم بھی اُن میں سے ہی ہے۔۔
۔
دل کی سلطنتوں پر راج کرنے کے لئے اس دنیا میں اُتاری گئی ۔۔۔حکمرانی کے لئے۔۔۔ دلوں میں بسنے کے لئے۔۔۔
غازی سوچ رہا تھا نور کے بارے میں۔۔۔ سب کا اُسے لے کے اتنا پیار آج سے نہ تھا۔ یہ پیار بچپن سے ہی ایسا تھا۔۔
ٹھیک سوچا جا رہا تھا۔۔۔ پر کچھ تھا وہ ابھی سمجھ میں نہیں تھا۔۔۔ کچھ تھا جو اس ،نہ سمجھ کو بھی نہیں تھا معلوم۔۔ کچھ راز تھا۔۔۔
جیسے یہاں کوئی راز میں کیا ہوا وعدہ تھا۔۔۔ وعدہ ایک راز تھا۔۔۔ اور اس راز سے بہت اور راز جوڑے ہوئے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کا اجالا آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا۔ ہوا میں خنکی بڑھ گی تھی۔ آسمان پر پرندے اپنی روزی کے لئے پرواز کر رہے تھے۔۔۔ ہر جانب اک الگ ہی سکون تھا۔ الگ جذبہ۔۔۔ کچھ پانے کی اک چاہ۔۔۔ باہر پورا لان پھولوں سے جھوم رہا تھا۔۔۔ ہر طرف رنگینی ہر رنگ ہر سو بکھرا ہوانظر آ رہا تھا۔۔۔
اس نور پیلس میں داخل ہونے والا کچھ لمحوں کے لئے نہیں بلکے کافی پلوں کے لئے اس خوبصورتی کے سحر میں جکڑا جاتا تھا۔۔۔
دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کے مانو جیسے یہ دنیا سے الگ بسی ایک خوبصورت دنیا ہے۔ یہ دنیا زندہ دل لوگوں کی ہے۔ صرف دیکھنے والوں کو محسوس ہوتا تھا اصل میں ایسا تو تھا ہی نہیں۔۔۔
۔۔،
اس پیلس کے لوگ زندہ ہو کے بھی زندہ نا تھے۔ دولت بہت تھی، اتنی کے ایک وقت میں اگر لاکھ کیا کڑوڑ بھی خرچ کیے جاتے تو فرق نہیں پڑتا تھا۔پر اس گھر میں خوشیاں نا تھی۔۔۔
یا خوشیاں ان سے روٹھ چکی تھی۔ اس پیلس کے لوگ کوئی موقع خود تلاش کرتے تھے کے وہ کچھ پل کے لئے ہی خوش ہو سکیں۔۔۔ مسکرا سکیں۔۔۔
یہ میں کیا سوچ رہا ہو۔۔۔ صبح صبح مایوسی کیوں؟
محمش فجر کی نماز ادا کر کے آیا تھا۔۔۔ صبح کی خوبصورتی میں کھویا نا جانے کہا کہا کا سفر کر رہا تھا۔۔ سر جھٹ کے اندر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
دروازے پر روکا ضرور تھا۔ یہ کمرہ یہاں کا راستہ۔۔ آنکھیں بند کر کے بھی آ سکتا تھا۔۔ پچھلے پندرہ سالوں میں کوئی دن ایسا نا آیا تھا کے محمش فجر کے بعد یہاں نا آئے ماسوائے جب شہر یا ملک سے باہر ہو۔
۔
کمرے کا دروازہ جیسے ہی کھولا تھا۔ سامنے بیڈ پر ویسے ہی سویا ہوا وجود پڑا تھا۔۔۔
ساتھ ہی بیڈ کی دوسری جانب آغا جان بیٹھے نظر آئے۔۔
بس کر دو۔۔نوری۔۔۔ کیوں ترساتی ہو۔۔۔ رحم کر دو ہم سب پر۔۔۔ نو۔۔۔۔ نور۔۔۔۔ نوری۔۔۔ میری جان۔۔۔ آہینور۔۔ میری شہزادی۔۔۔ کھول دو آنکھیں۔۔۔
آپ کے ابا جانی ترس گے ہے بچے۔۔۔۔ ایک بار بول دو بس۔۔ ایک ب۔۔۔ بار کہ۔۔۔ دو۔۔ اک۔۔۔ ایک بار کہ دو نا مجھے ابا جانی۔۔۔ ابا جانی۔۔۔
میرے کان ترس گے ہے آپ کی آواز سننے کو۔۔۔
آغا جان رو رہے تھے۔۔۔
ہاں ایک مرد رو رہا تھا۔۔
اس ہی ظالم دنیا میں ایک باپ اپنی بیٹی کے لئے رو رہا تھا۔۔۔ وہ باپ جس کے پاس دنیا جہاں کی ہر چیز موجود تھی۔۔۔
وہ اپنی بیٹی کی خوشی کے کھونے پررو رہے تھے ۔۔۔ وہ بیٹی جسے کسی شہزادی کی طرح پلا گیا۔۔ اس گھر کی ہی نہیں بلکے اس خاندان کی اکلوتی بیٹی ۔۔۔ پچھلی چھ
نسلوں میں اس خاندان میں کوئی بیٹی پیدا نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔
پھر آئی آہینور شاہ جس نے حسن اپنے خاندان سے چوری کیا تھا۔۔ یا پھر اتنے سالوں کی دعاوں کا ثمر تھا آغا جان کی یہ نوری دلوں پر راج کرنے کو اس دنیا میں اتاری گی تھی۔۔
پر کہی دعاوں میں کچھ چوک گیا تھا۔۔۔ بار بار اس کے نصیب میں مانگی گی دعا اب تک قبول نہیں ہوئی تھی۔۔۔
ایک باپ اپنی بیٹی کے نصیب اُس کی اِس حالت پر رو رہا تھا۔۔ رونے کی آواز اونچی تھی۔۔۔
دروازے پر کھڑا وجود جانتا تھا اس کے آغا جان چھپ چھپ کے روتے ہے۔۔۔ اپنا درد چھپا کے سب کو سبھالتے ہے۔۔ پر اندر سے تو وہ وہی انسان تھے نرم۔۔۔
مرد تھے تو کیا مرد انسان نہیں ہوتا، یا پھر اُسے رونے حق نہیں ہوتا۔۔۔
ایک مرد اپنی ماں کے لئے بھی رو سکتا ہے۔۔۔
بہن، اپنی بیوی اپنی بیٹی کے لئے بھی رو سکتا ہے۔۔
ماں تو جنت ہے۔۔
اس کی تکلیف برداشت نہیں ہوتی۔۔۔
پر ایک مرد کی خود کی جان اس کی بیٹی میں ہوتی ہے پھر کیسے مرد اپنی بیٹی کے دکھ میں نا رویے۔۔۔ کیسے ایک مرد آنسوؤں نا بہائے۔۔۔؟؟؟ کیسے۔۔۔۔؟؟؟
۔۔۔،
جانی۔۔۔۔
جانی۔۔۔۔ آپ بس میری جانی ہے اور کوئی بھی آپ کو جانی نہیں کہے گا۔۔ بہت پیار سے گلے میں اس بچے نے بازوں حائل کی۔۔۔
اچھا میری جان۔۔۔ اور کوئی نہیں کہے گا۔۔ اب خوش۔۔۔
بہت۔۔۔۔ بہت سارا۔۔۔
آہینور نے اپنے شہزادے کے اس پیار پر بہت سارا پیار نچھاور کیا تھا۔،
پر آپ سے تھوڑا زیادہ نا میں۔۔۔۔نیلی آنکھوں والا شہزادہ ایک دم سے بولتے بولتے چپ ہو گیا۔
تھوڑا زیادہ کیا محمش؟؟؟
آپ سے تھوڑا زیادہ پیار میں اپنی پری سے کرتا ہوں۔۔
اوو۔۔۔ تو یہ بات ہے۔۔۔ ہاں۔۔۔ میرے سے زیادہ کیوں؟؟؟
وہ بس۔۔۔ معصوم سی ہے۔۔۔۔ بلکل ڈول کے جیسی۔۔۔ جب اسے میرا نام نہیں آتا بولنا سب سکھاتے بھی ہے پھر بھی اس سے بولو نہیں جاتا۔۔۔ پھر جب وہ “ایش” کہتی ہے تو بہت پیار آتا ہے مجھے اس پر۔۔ میں نے آپ کو اور اس کو ہمیشہ اپنے پاس رکھنا ہے۔۔۔
ہاہاہا۔۔۔ اچھا آپ رکھ لینا اس کو۔۔۔ میری گڑیا ہے ہی اتنی پیاری سب کو پیار آتا ہے اس پر۔۔
نہیں۔۔!!
سب نہیں۔۔۔ سب میرے سے پیار کر لے۔۔ اور سب کا پیار میں خود اس سے کر لیا کرو گا۔
لاجواب سا ایک جواب حاضر تھا۔ آہینور اس بچے پر اس کی اس طرح کی باتوں پر اکثر حیران ہو جاتی تھی۔۔
محمش کی اس بات پر آہینور کی آنکھیں ضرورت سے زیادہ بڑھی ہوئی تھی۔
پندرہ ، سولہ سال کا بچہ اس طرح سے اس پانچ سال کی گڑیا کے لئے بول رہا تھا۔۔ اس گڑیا کی ماں کیسے نہ چونکتی۔۔۔
آپ آغا جان کی نوری۔۔۔
میری جانی۔۔۔
آپ کی جان مصترا نور۔۔۔
اور میرا سب کچھ یہ گڑیا۔۔۔
محمش نے سوئی ہوئی مصترا کے ماتھے پر ایک بوسہ دیا تھا۔۔۔
نو۔۔۔ محمش پلزز بچے مت کرو پھر سے اٹھ جائے گی۔ سارا گھر سر پر اٹھا لے گی رو رو کے۔۔۔
سو واٹ جانی۔۔۔ میں ہوں نا چپ کروا لو گا۔ ڈونٹ وری۔۔پر یہ کچھ زیادہ ہی نہیں سوتی۔
ہاں میری نور کو نیند بہت پسند ہے۔۔
نیند ہو اس کے پاس اور بس تم سب ہو اس کے لاڈ اٹھانے کو۔۔
تو کیوں نا اٹھائے ہم اس کے لاڈ۔۔۔ جانی میں تو بس اس کے ہی اٹھاؤ گا سارے لاڈ۔۔۔
مت کیا کرو اتنا پیار اس کو۔۔۔ محمش کیوں عادت ڈال رہیں ہو خود کو۔۔
ماضی کی ایسی بہت سی یادیں۔۔۔ اب بس ان پر آہیں بھرنا ہی رہ چکا تھا۔۔
ٹھیک کہا تھا جانی آپ نے عادت نہیں ڈالی چاہئے بہت تکلیف دیتی ہیں یہ۔۔۔ انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں۔۔ مجھے آپ دونوں کی دوری۔۔۔ محبّت۔۔۔۔ توڑ گی۔۔
“میرے اختیار میں ہوتا تو دل تک آنے ہی نا دیتا
اب تو رگ رگ میں اتار چکا ہے سمجھو کام ہی تمام”
(از:: میری حسین)
محمش ان یادوں پر سر جھٹک کے اس کمرے سے دور چلا گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔:
آغا جان بھی اپنی بیٹی کے دکھ اس کی تکلیف میں رو رہے تھا۔۔۔ پیچھلے پندرہ سالوں سے تکلیف سے گزر رہا تھا۔۔ اپنی بیٹی کو اس حال میں دیکھ کے۔۔۔ وہ بیٹی جو نا زندہ میں تھی نا ہی مردہ میں تھی۔۔۔
آغا جان پھوٹ پھوٹ کے رو رہے تھے۔۔۔ صبر۔۔۔ صبر۔۔۔ ختم۔۔۔ ہو رہا تھا۔۔
اپنی اس بیٹی کو دیکھ رہے تھے جو اس قدر کمزور ہو چکی تھی کے بیڈ پر لٹے ہوئے بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کے جیسے کوئی سولہ سال کی لڑکی ہو۔۔۔
قومے میں سویا ہوا یہ وجود اس گھر کی جان کا تھا۔۔۔ اس پیلس کی شہزادی کا۔۔۔ جو ٹھیک آج سے پندرہ سال پہلے سے دنیا سے بے خبر سوئی ہوئی تھی۔۔۔
اپنے خاص رشتے کو کھو کے۔۔۔۔ پھر اپنی جان کو کھو کے اس حالت میں پڑی تھی۔۔۔ تب سے نا اٹھنے کا ارادہ کر کے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں کوئی پریشانی چل رہی ہے؟؟؟
نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔۔۔
میں مان ہی نہیں سکتا کہ کوئی پریشان نا ہو۔
ہوا کیا ہے؟؟؟ ڈاکٹر ولید۔۔۔!!!
میں نے کیا کہا تھا آپ سے کے ان کو خوش رکھا کرے۔۔۔ یہ بے شک عام بچوں کے جیسی دیکھتی ہے پر یہ ویسی ہے نہیں۔۔
ان کا دل بہت نازک۔۔۔ کمزور۔۔۔ہے یہ بات جانتے ہے آپ؟؟
سوال پوچھا گیا تھا۔ ڈاکٹر ولید کا لہجہ سرد تھا۔نظریں ابھی بھی افنان پر جمی تھی۔۔
جی۔۔۔!!!
پھر بھی۔۔۔۔
وہ بس کچھ بات ہو گی تھی فیملی میں اور ڈیڈ بھی یہاں نہیں تھے۔۔ نا ہی میں۔۔۔ افنان شرمندہ ضرور ہوا تھا۔۔۔
ڈاکٹر ولید نے افسوس سے سر کو نفی میں ہلایا۔۔۔
افسوس۔۔۔ صدا افسوس۔۔۔۔
آفی دیکھو میں اب سے نہیں بہت پہلے سے نور کو ٹریٹمنٹ دے رہا ہوں۔ مجھے پتا ہے اسے کمزور نہیں بلکے اور مظبوط کرنا ہے پر تم سے اور نائل سے مجھے یہ امید نہیں تھی
۔
پلزز۔۔۔۔ بتا دے میری عین ٹھیک تو ہے نا؟؟؟
بیپی لو ہے۔۔۔
جو اس کے ہارٹ کے لئے نہیں ٹھیک۔۔۔ بچپن میں جو چوٹ لگی تھی اس سے اب تک نور کے سر میں درد اٹھتا ہے اب بھی ایسا ہی ہوا ہے۔۔۔ اور اس درد کی وجہ سے وِین میں کھنچ پڑی ہیں دماغ پر زور ڈالنا اس وجہ سے ایسا ہوا۔۔۔۔ گلے کی وِین متاثر ہوئی ہے۔۔ دو، تین دن بولے سے روکنا ہو گا۔۔۔ نہیں تو مسئلہ بڑھ سکتا ہے۔۔۔
سمجھ رہے ہو نا میری باتیں۔۔
ہممم۔۔۔۔ جی۔۔۔ سمجھ گیا۔۔۔
دھیان تمہیں رکھنا پڑے گا اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں۔
گھر کب تک لے کے جا سکو گا میں عین کو۔
ابھی ڈرپ لگی ہے۔۔۔۔ ختم ہو گی تب۔۔۔ لاسٹ چیک اپ میں کر کے بتاؤں گا پھر گھر لے کے جا سکتے ہو کے نہیں۔۔۔
ٹھیک۔۔۔۔
آفی کے کندھے پر ہاتھ رکھ لے تسلی دی۔۔
پریشان نا ہو۔۔۔ اس کا خیال رکھو۔۔ خوش رکھو۔۔۔ جس سے اسے نقصان ہو وہ سب کچھ نور سے دور کر دو۔۔۔ہممم۔۔۔۔
ٹھیک کہ رہے ہے اب ایسا ہی ہو گا۔۔۔
گوڈ۔۔۔ باقی اللہ ملک ہے۔۔
انشااللہ بہتر ہو گا۔۔
جاؤ اندر روم میں۔۔۔ زیادہ دیر اکیلا مت چھوڑنا اُسے۔۔۔
سر کو ہلا کے روم کی جانب بڑھ گیا تھا۔
عین۔۔۔ میری شہزادی۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔۔ ہممم۔۔۔پریشان نہیں ہونا بھائی ہے نہ۔۔۔بس ڈاکٹر نے کہا ہے گلے میں ذرا سا انفیکشن ہو گیا ہے اس لئے درد۔۔۔ تو آپ دو تین دن بلکل نہیں بولے گی۔۔۔ اوکے۔۔۔۔ تا کہ کوئی مسئلہ نہ ہو۔۔۔آپ کو درد نا ہو۔۔۔
آفی نے ڈرپ والا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کے عین کو بتایا تھا۔
ایک تو نور ڈرپ کی وجہ سے بہت آنسوؤں بہا چکی تھی۔۔۔ پر اب دی جانے والی خبر پر آنکھیں ضرورت سے زیادہ بڑھی کیے دیکھ رہی تھی۔۔۔ ساتھ انکار میں سر کو ہلکا سا ہلایا۔۔
نہ۔۔۔نا۔۔۔۔ میرا بچہ رونا نہیں۔۔۔پریشان نہیں ہونا۔۔۔ بھائی ہے نا پاس۔۔۔ سب ٹھیک کر دینا ہے میں نے۔۔۔
ڈرپ والے ہاتھ کو آفی مسلسل سہلایا جا رہا تھا۔۔۔ درد کی شدت کو کم کرنے کی اک کوشش۔۔۔
چلو اب آنکھیں بند کرو ریسٹ کرو۔۔۔ میں یہاں ہی ہوں آپ کے پاس۔۔
بلی آنکھیں بند ہوئی تھی۔۔۔ تھکن۔۔۔ تکلیف۔۔۔ ازیت۔۔۔۔ دکھ۔۔۔ سب چہرے سے جھلک رہا تھا۔۔۔ معصوم گڑیا آج پھر تکلیف کی حد کو چھو رہی تھی۔۔۔
دیکھنے والا خود مجبور تھا۔۔۔ اس گڑیا کو بچا کے سب سے دور لے کے جانا چاہتا تھا جہاں کوئی بھی اس کی جان۔۔۔ اس کی عین کو تکلیف نا دے سکے۔۔۔
پر۔۔۔ پھر۔۔۔۔ وہی۔۔۔ بات۔۔۔۔ مجبور۔۔۔۔ تھا۔۔۔۔ یہ۔۔۔ شخص۔۔۔اپنوں۔۔۔۔ کی۔۔۔۔ خوشی۔۔۔۔ بھی۔۔۔۔ اس۔۔۔ وجود۔۔۔ سے۔۔۔ جڑی۔۔۔۔ تھی۔۔۔۔ کچھ۔۔۔۔ کر۔۔۔ بھی۔۔۔ نہیں۔۔۔سکتا۔۔۔ تھا۔۔
۔
پر ہاں ایک کام کر سکتا ہوں۔۔۔۔ ہاں یہ بیسٹ رہے گا۔۔۔۔ کچھ سوچتے ہوئےافنان کےچہرے اور دل میں سکون اترا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...