خان جی کھانا۔۔ اس کے حکم کے عین مطابق اس کے نہا کر باہر آنے تک وہ کھانا ٹیبل پہ رکھ چکی تھی۔۔
نظر آتا ہے مجھے۔۔ اندھا نہیں ہوں میں۔۔ یہ فضول کی ہمکلامی سے بھی پرہیز کرو مجھ سے۔۔ گیلے تولیے کو تولیہ سٹینڈ پہ رکھ کر وہ ٹیبل کے قریب آیا۔۔
اس وقت وہ بلیک شرٹ اور بلیک ہی ٹرائوزر میں تھا ۔۔ روایتی وڈیروں جیسی تو اس کی ڈریسنگ کبھی نہ رہی تھی ہاں کبھی جرگے میں جانے کے لئے اسے وہ سب کرنا پڑتا تھا کہ یہ بائو جی کا حکم تھا۔۔
گیلے بال لمبے ہونے کی وجہ سے اس کے ماتھے پہ آ رہے تھے جو اس پہ بہت سوٹ کر رہے تھے۔۔ دسترخوان سے روٹی نکال کر ابھی اس نے آملیٹ کے ساتھ پہلا لقمہ لگایا ہی تھا کہ وہ بول اٹھا۔۔
یہ ناشتہ کس نے بنایا ہے۔۔ وہ جو اس کو دیکھنے میں محو تھی اس کے چباچبا کر لفظوں کو ادا کرنے پہ چونکی۔۔
وہ۔۔ وہ۔۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ یہ سوال کرے گا اب اس سوال پہ سچ بولنا تھا یا جھوٹ یہ بھی اس کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔۔
کیا وہ وہ لگا رکھی ہے۔۔ فارسی میں پوچھ رہا ہوں جو جواب نہیں آ رہا۔۔ہاتھ کو ٹیبل پہ مار کر وہ زور سے دہاڑا۔۔
وہ آپ کی ماما نے۔۔ اسے تو پتہ ہی نہ تھا کہ انہیں اس گھر میں بے جی کہتے ہیں۔۔ ڈر اور خوف میں اسے جو سمجھ آیا اس نے بول دیا۔۔
کیوں۔۔ اب وہ غصے سے کھڑا ہو کر اسکی طرف بڑھا۔۔ اتنے سالوں سے وہ بے جی کے ہاتھ کا بنا کھانا کھا رہا تھا پہلے لقمے میں ہی ان کے ہاتھ کا ذائقہ محسوس کر چکا تھا۔۔
میں نے تمہیں کہا تھا نہ ناشتے کا۔۔ وہ جیسے جیسے آگے بڑھتا جا رہا تھا وہ پیچھے قدم اٹھاتی جا رہی تھی یہاں تک کہ پیچھے دیوار سے جا لگی۔۔
بولو جواب دو۔۔ وہ اتنی زور سے دہاڑا کہ کمرے کے در و دیوار گونج اٹھے۔۔
وہ۔۔ مم۔۔ میں نے انہیں کہا تھا۔۔ پپ۔۔ پر انہوں نن۔۔ نے زبردستی تھما دیا ۔۔ خوف سے اس کی زبان بلکک کنگ ہو گئی تھی بشمکل اٹک اٹک کر جملہ مکمل کیا۔۔
کیوں۔۔ تب منع کیوں نہیں کیا۔۔ بتایا کیوں نہیں کہ میں نے تمہیں حکم دیا۔۔ بولو۔۔ اس کی اونچی آواز روشم کو اپنے کانوں پہ ہتھوڑوں کی مانند لگ رہی تھی۔۔
لیکن زبان ساتھ چھوڑ گئی تھی اور شاید یہی بہتر تھا کیونکہ مزید بولنا اس کے لیے مزید پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں لا سکتا تھا۔۔
آئندہ میرے کسی بھی کام کو کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا۔۔ میرے ناشتے سے لے کر میرے شوز پالش تک سب کام تم کرو گی۔۔ تا کہ لمحہ لمحہ احساس ہوتا رہے کہ تم ۔۔ میری نوکرانی نہیں غلام ہو۔۔
اسے گردن سے پکڑ کر دیوار سے لگا کر وہ گرایا۔۔
سمجھی؟؟ اس کے دہاڑنے اور جھٹکا دینے پہ روشم نے جھٹ سے اثبات میں سر ہلایا ورنہ تو اسے لگ رہا تھا کہ آج وہ ادے مار کر ہی چھوڑے گا۔۔
نان سینس۔۔ اس کے اثبات میں سر ہلانے پہ اس نے عرش میر نے جھٹکا دے کر اس کی گردن کو چھوڑاجس سے اس کا سر دیوار پہ زور سے لگا۔۔ روشم کے سر میں درد کی لہر سی اٹھی۔۔
پر اسے کیا پرواہ تھی وہ تو اسے وہی چھوڑکر بالوں میں انگلیاں پھیرتے لمبےلمبے ڈگ بھرتا باہر چلا گیا۔۔
جبکہ روشم پیچھے گٹنوں میں سر دیے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔ اسے ابان نمل اور اماں نے ہمیشہ ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھا تھا ڈانٹنا تو دور کی بات کبھی کسی نے اس سے اونچی آواز میں بات تک نہ کی تھی۔۔
لیکن آج قسمت اسے سب سکھا رہی تھی۔۔ برداشت کرنا بھی اور صبر کرنا بھی۔۔
کہاں ہے وہ منحوس لڑکی۔۔ تمہاری مدد نہیں کر رہی کیا۔۔ وڈی اماں جو ٹیبل پہ ناشتے کے لیے آئیں تھیں۔۔ بے جی کو اکیلا کام کرتا دیکھ کر غرائی۔۔
جی وڈی اماں۔۔ وہ آئی تھی عرش میر کو کھانا دینے گئی تھی۔۔ بے جی نے اس کی حمایت کی جانتی تھی کہ وڈی اماں کے اعتاب سے کوئی نہیں بچ سکتا۔۔
عرش میر تو کب کا مجھ سے مل کر جا چکا ہے۔۔ وہ کیا اوپر اب آرام فرما رہی ہیں محترمہ۔۔ بلا کر لائو اسے اس کے باپ کا گھر نہیں ہے یہ نہ ہی من چاہی بہو وہ اس گھر کی جو دن چڑھے تک کمرے میں رہے۔۔
وڈی اماں نے اس کئ غیر موجودگی میں ہی اس کو اچھی خاصی سنا دی تھی اب پتہ نہیں اس کے آنے پہ کیا ہوتا۔۔ یہ تو بے جی صرف سوچ ہی سکتی تھی اور اس کے لیے انہیں روشم سے دل سے ہمدردی تھی۔۔
اس لیے ان کے حکم پہ جی اچھا کہتی وہ اوپر کی طرف بڑھی۔۔
***
جب سے عرش میر گیا تھا تب سے وہ رو ہی تھی۔۔ سر پہلے ہی رونے اور بھوکا رہنے سے دکھ رہا تھا رہی سہی کسر دیوار سے ٹکرانے کے بعد پوری ہو گئی تھی۔۔
اب تو اسے لگ رہا تھا کہ اس کا سر پھٹ جائے گا۔۔ داب کے درد سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھی۔۔
وہ اسی پوزیشن میں بیٹھی تھی جب بے جی کمرہ ناک کر کے اندر آئی۔۔ اور اسے یوں کونے میں بیٹھا دیکھ کر فورا اس کی طرف بڑھی۔۔
کیا ہوا ہے بچے۔۔ سوجی آنکھیں بکھرے بال اس کی بے حال کا ثبوت تھے۔۔
کچھ نہیں۔۔ آنکھوں سے آنسو صاف کر کے وہ سیدھی ہوئی کہ یہاں اپنا حال دل کسی کو کہنا ہی فضول تھا۔۔
ناشتہ کر لیا؟؟۔۔ وہ سمجھی شاید کہ اپنے گھر والوں کو یاد کر کے وہ رو رہی ہے کیونکہ عرش میر سے انہیں کسی غیر اخلاقی کی توقع ہی نہ تھی۔۔
نہیں۔۔ آنسو صاف کرتے یلفظی جواب آیا۔۔
کیوں نہیں کیا ناشتہ بچے۔۔ میں نے کہا تھا نا وہ لازمی کرنا۔۔ اچھا چلو اٹھو۔۔ اب وقت نہیں ہے۔۔ نیچے وڈی اماں بلا رہی ہیں۔۔ اس کے سر پہ دوپٹہ دے کر انہوں نے اس کی حالت ہاتھوں سے جتنی بہتر ہو سکتی تھی کی۔۔
وڈی اماں کون۔۔ روشم کو تو پتہ ہی نہیں تھا کہ گھر میں افراد کتنے رہتے ہیں ناموں سے کیا واقف ہوتی۔۔
عرش میر کی دادی ہے۔۔ اور یہاں کی بڑی بھی۔۔ ان کی بات ہم سب کے لیے ہی حکم کا درجہ رکھتی ہے جسے ہر حال میں ماننا ہے۔۔ باقی وہ تمہیں خود بتا دے گی۔۔
سیڑھیوں کے آنے تک وہ اسے جتنی تفصیل دے سکتی تھی جلدی جلدی میں دے دی۔۔ کیونکی سیڑھیوں کے سٹارٹ کا منظر نیچے سے بخوبی نظر آتا تھا۔۔
بے جی کی بات پہ وہ بھی چپ کر گئی اور خاموشی سے ان کے پیچھے ہی چلدی۔۔
آ گئی محترمہ۔۔ وڈی اماں جو اسی کا انتظار کر رہی تھی اس کے نیچے آنے پہ پہلا طنز حاصل تھی۔۔
ان کی بات پہ وہ خاموش رہی۔۔
دیکھو بی بی یہاں کا رواج نہیں ہے کمروں میں بند رہنے کا۔۔ اور تم کوئی ایسی نئی نویلی دلہن نہیں ہو جس کے ہم چائو اٹھائے۔۔ تمہارے بھائی نے اس گھر کے بڑے سپوت کو قتل کیا اقر تم اس گھر کی ونی ہو۔۔ اور ونی یہاں غلام کی حیثیت رکھتی ہے یہ بات مجھے تمہیں بار بار بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ اب یہ گھر دیکھ رہی ہو۔۔ یہ اب تمہاری ذمہ داری ہے۔۔ برتنوں کہ صفائی سے لر کر گھر کی صفائی اب سب تمہیں ہی کرنا ہے۔۔ صرف اکیلے تمہی کو۔۔ اور تم۔۔
آخر میں انہوں نے بے جی طرف اشارہ کیا۔۔
تم اس کی کوئی مدد نہیں کرو گی۔۔اگر مجھے ایسی کوئی خبر ملی تو تم دونوں ہی سزا کے لیے تیار رہنا۔۔ سن رہی ہو تم دونوں۔۔
جی۔۔ دونوں کی یک زبان ہو کر بولی۔۔
اب تم میری شکل کیا دیکھ رہی ہو۔۔ شروع کرو صفائی۔۔ اور دوپہر کے کھانے پہ میں باہر آئوں تو ہلکی سی بھی گرد دیکھنے کو نہ ملی مجھے۔۔ سمجھی تم۔۔
ان کی گرجدار آواز پہ روشم کا سر میکانکی انداز میں اثبات میں ہلا۔۔
جبکہ وہ ایک سخت نظر اس پہ ڈال کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔۔ ان کے جانے کے بعد روشم ویسے ہی کھڑی رہی۔۔ اسے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کہاں سے شروع کرے۔۔ اتنا بڑا گھر حویلی نما گھر تھا۔۔
وہ اپنی انہی سوچوں میں گم تھی جب بے جی اس کے پاس آئیں۔۔
تم پریشان مت ہو۔۔ اب وہ دوپہر کے کھانے تک کمرے سے باہر نہیں نکلے گی۔۔ میں ملازمہ کو کہہ دیتی ہوں وہ تمہاری ہیلپ کر دے گی سب سے پہلے تم ناشتہ کرو۔۔ کیونکہ تمہارے بیمار پڑنے پہ یہاں کسی کو رتی برابر بھی فرق نہیں پڑنے والا۔۔
اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے کچن میں لے آئی تھی کہ باہر ڈائننگ پہ کوئی بھی دیکھ لیتا تو شامت پکی تھی۔۔
ویسے تمہارا نام کیا ہے۔۔ ناشتہ اس کے سامنے رکھنے کے بعد وہ بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی مقصد صرف اس کو تھوڑا جاننا تھا۔۔
روشم۔۔ تھوڑا ہچکچا کر پہلا نوالہ منہ میں ڈالتے اس نے جواب دیا۔۔
ہمم اچھا نام ہے۔۔ روشم کے نام پہ وہ چونکی۔۔
بھرجائی یہ کیا۔۔ میں نے تو بیٹی کا سوچا تھا بلکہ میں نے تو اس کا نام بھی سوچ لیا تھا۔۔ عرش میر کو گود میں لیے وہ شکوہ کر رہا تھا۔۔ پورے گھر میں ایک وہی تو تھا جو ان کو عزت دیتا تھا۔۔
اچھا جی تو کیا نام سوچا تھا۔۔ وہ کپڑے سمیٹ رہی تھی۔۔ یہاں آرام کرنے کا تو کوئی رواج تھا ہی نہیں۔۔ عرش میر کی پیدائش کے تیسرے دن ہی وہ اپنے معمول کے سارے کام کر رہی تھی۔۔
روشم۔۔ عرش میر کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ پکڑ کر وہ جزب سے بولا۔۔
آہاں۔۔ اچھا نام ہے۔۔ کیا مطلب ہے اس کا۔۔ انہیں واقعی یہ نام پسند آیا تھا۔۔
جنت کی حور۔۔
چلو کوئی نہیں۔۔ اگلی بار بیٹی ہوئی تھی یہی نام رکھوں گی میں۔۔ چیزیں سمیٹ کر اب وہ اس کی طرف آئی تا کہ عرش میر کو پکڑ سکیں۔۔
رہنے دیں بھرجائی۔۔ میں اب اپنی بیٹی کا نام رکھوں گا۔۔ ان کے ہاتھ میں عرش میر کو دے کر وہ مسکرایا۔۔ ہمیشی کی طرح اس کی مسکراہٹ میں دلفریبی تھی۔۔
تھینک یو آنٹی۔۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی جب روشم نے ناشتہ ختم کر کے انہیں مخاطب کیا۔۔ ان کے چہرے سے لگ رہا تھا وہ کچھ سوچ رہی ہیں۔۔ روشم کے بلانے پہ وہ چونکی۔۔
آنٹی نہیں بے جی۔۔ یہاں سب بے جی کہتے ہیں مجھے۔۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ مسکرائی۔۔
روشم کو وہ سب سے انہوکی لگی تھیں۔۔ یہاں اسے صرف ایک وہی تھی جن کا لہجہ اتنا میٹھا اور اتنا نرم تھا۔۔ بلاشبہ وہ ان کے لیے بلیسنگ ان ڈسگائز ثابت ہوئی تھی۔۔
ان کے چہرے سے کہیں سے دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ اس جاہل معاشرے کا ایک حصہ ہیں۔۔
***
ملازم کی مدد کے باوجود اس کو صفائی کرنا بے حد مشکل لگا تھا۔۔ ظاہر سی بات ہے اتنا بڑا گھر حوالی کی طرح سجانا کوئی آسان کام نا تھا۔۔
اس کے بعد کھانا بنا کر تو وہ مکمل گھن چکر بن گئی تھی حالانکہ بے جی نے اس کی مدد بھی کی تھی چھپ چھپ کر۔۔ لیکن پھر بھی کبھی اس نے اتنا کام کیا جو نہ تھا۔۔ تو تھکاوٹ حد سے سوا تھی۔۔
ابھی بھی کھانا ٹیبل پہ لگا رہی تھی اور بے انتہا کام کرنے سے تھکن اور بھوک سے اس کا برا حال تھا مگر بے جی نے اسے بتایا تھا کہ اس گھر کا رواج ہے کی مرد پہلے کھانا کھاتے ہیں۔۔ اس لیے وہ بچاری اب صبر کے علاوہ کچھ نہ کر سکتی تھی۔۔
سب کھانے کی ٹیبل پہ آ چکے تھے۔۔ عرش میر باؤجی اور وڈی اماں تینوں ابھی آ کر براجمان ہوئے۔۔
یہ گھٹیا عورت یہاں کھڑی کیا کر رہی ہے۔۔ اس سے کہو وہاں ڈائننگ کے آخر میں جا کر کھڑی ہو۔۔ اس سے تو ویسے ہی مجھے اپنے بیٹے کے قتل کی بدبو آتی ہے۔۔ بد ذات۔۔
اپنے لفظوں کو چبا چبا کر وہ بے جی سے بول رہے تھے۔۔ وہ جو عرش میر اور باؤ جی کے درمیان کھڑی تھی اتنی تذلیل سے خفت سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔۔
خاموشی سے سر جھکائے وہ اپنے آنسو اندر اتارتی عرش میر کی دوسری سائڈ پہ کھڑی ہو گئی تھی۔۔ کچھ بھی تھا اب اسے ادھر رہنا تھا تو اپنے لب سی کر رہنا تھا۔۔
کھانے کے دوران جب جب عرش میر نے کسی بھی چیز کی طرف ہاتھ بڑھایا روشم نے فوراً آگے بڑھ کر اسی ضرورت پوری کی۔۔ بے جی نے اسے کافی باتیں پہلے ہی بتا دیں تھیں اس لیے وہ اس معاملے پہ ہونے والی تذلیل سے بچ گئی تھی۔۔
مگر یہ بھی روشم کی خام خیالی تھی اب تو تذلیل کا لفظ اس کے ساتھ چسپاں کر دیا گیا تھا۔۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اب وہ اس سے بچ سکتی۔۔
کم ذات عورے وہاں سے پانی پکڑاؤ مجھے۔۔ وہ جو ابھی سب کو چائے سرو کر کے سیدھی ہوئی تھی وڈی اماں کی کرخت اواز پہ جی اچھا کہتی پانی کے جگ کی طرف بڑھی ہی تھی کہ ایک گلاس اس کی کہنی سے لگ کر زمین بوس ہو گیا۔۔
بے جی نے زور سے اپنی آنکھیں میچی کہ اب جو ہونے والا تھا وہ بہت برا تھا۔۔
منحوس عورت۔۔ تیرے باپ کا راج ہے جو اندھا دھند گلاس توڑتی جائے گی۔۔ اس کے بالوں کو پکڑ لر انہوں نے جھٹکا دیا۔۔
اتنی عمر میں بھی ان کے ہاتھوں میں جان بہت تھی۔۔
آہ۔۔ درد سے وہ کراہ اٹھی۔۔
بول نا۔۔ تیرے ماں باپ نے تجھے کہ سکھایا ہے سوائے منحوسیت پھیلانے کے۔۔ جیسے والدین ویسی اولاد۔۔ اس کے سر کو پکڑ انہوں نے ایک اور جھٹکا دیا۔۔
میرے والدین کو کچھ مت کہیں پلیز۔۔ جو بھی تھا وہ اماں اور بابا پہ کوئی حرف برداشت نہیں کر سکتی تھی۔۔ اپنی ذات تو اس کی بے نشان ہو ہی چکی تھی۔۔
کیا کہا۔۔ کچھ نہ کہوں تیرے والدین کو۔۔؟؟ وڈی اماں کو اس کی بات سن کر طیش ہی تو آ گیا تھا۔۔ انہوں نے بال چھوڑ کر اس کا ہاتھ پکڑا۔۔
اور گرم گرم چائے اس کے ہاتھ پہ انڈیل دی۔۔
درد اور جلن سے روشم کی چیخیں نکل رہی تھی۔۔ بے جی پاس کھڑی تھی دل ان کا دکھ رہا تھا پر وہ مجبور تھی۔۔ ان کے بس میں کچھ بھی نہ تھا۔۔
جبکہ جو اختیار میں تھی وہ ایسے خاموشی سے چائے پینے میں مصروف تھے جیسے یہ سب یہاں ہو ہی نہ رہا ہو۔۔ بے جی نے صدمے سے عرش میر کی طرف دیکھا جس کا چہرہ بلکل سپاٹ تھا۔۔
اور اس کا بے تاثر چہرہ دیکھ کر ان کے دل کو ہاتھ پڑا۔۔ یہ تو ان کا وہ بیٹھا نہ تھا۔۔ ان کا بیٹا تو ندرت کے ساتھ ذیادتی پہ بھی غصے سے پاگل ہو جاتا تھا۔۔ خواتین کے حقوق کی بات کرنے والا آج خاموش ہو گیا تھا۔۔
اور پہلی بار عرش میر کو چائے پیتے دیکھ کر انہیں عرش میر نہیں نظر آ رہا تھا۔۔ انہیں لگا ان کا عرشمان زندہ ہو گیا ہے۔۔ مری ہے تو بس ایک لاش جس کا نہ پہلے وجود تھا نہ اب۔۔ خصلتیں تو ابھی تک زندہ ہیں۔۔
رات کے 11 بج رہے تھے۔۔ گھڑی کی صرف ٹک ٹک کی آواز کمرے میں سنائی دے رہی تھی۔۔ انہوں نے کروٹ بدل کر ایک نظر پاس پڑے بائو جی کو دیکھا۔۔
ان کی آدھ کھلی آنکھیں ان کی گہری نیند کی غمازی کر رہی تھی۔۔ بے جی نے ایک نظر باہر دروازے کی طرف دیکھا اور کفرٹر اتار کر دروازے کی جانب بڑھی۔۔
بہت آہستگی سے دروازہ کھولا اور پھر بند کیا۔۔ رخ ان کا اوپر کی طرف تھا لیکن کچن سے آتی سسکیوں کی آواز نے ان کے قدموں کے رخ کو موڑ دیا۔۔
وہ جانتی تھی کہ اس وقت کچن میں کون ہو گا۔۔ اور اس کے رونے کی وجہ سے بھی وہ بخوبی واقف تھی۔۔ دوپٹے میں بندھی ٹیوب کو انہوں نے نکال کر ہاتھ میں پکڑا اور کچن کی طرف چل دی۔۔
ایسے زمین پہ کیوں بیٹھی ہو؟؟ ٹھنڈ لگ جائے گی۔۔ اسے کچن کی ٹھنڈی زمین پہ بیٹھا دیکھ کر وہ فکرمند سی اس کی آگے بڑھی۔۔
وہ جو سخت تکلیف اور درد سے رو رہی تھی بے جی کی آواز پہ چونکی۔۔
اچھا ہے نہ بیمار ہو کر مر جائوں گی۔۔ اس وذاب زندگی سے میری جان چھوٹ جائے گی۔۔ وہ ہلکی آواز میں غرائی۔۔ اس وقت اسے اپنی زندگی اجیرن لگ رہی تھی اور کیوں نہ لگتی۔۔ وڈی اماں نے چائے پھینکنے کے بعد اس سے سارے برتن دھلوائے تھے اور رات کے کھانے تک وہ اس کے سر پہ ہی کھڑی رہی تھی۔۔
کیونکہ انہیں اس لڑکی سے بغاوت کی بو آ رہی تھی اور جس جگہ سے بو آ رہی تھی وہ اس کی جڑیں ہی نکال کر پھینک دینا چاہتی تھی۔۔ اتنا برا جلنے کے بعد مسلسل پانی میں ہاتھ رکھنے سے اس کے ہاتھ میں آبلے پڑ گئے اور سکن بے حد نرم ہو گئی تھی۔۔ ایسی حالت میں اس کا چلانا اور غصہ کرنا بنتا تھا۔۔
مجھے تو لگا تھا تم شہر کی ہو تو بڑی ہمت والی ہو گی۔۔ تعلیم یافتہ ہو تو مایوسی گناہ ہے جیسے سب اقوال زریں یاد ہو گئے۔۔ لیکن تم تو میری سوچ سے بلکل الٹ نکلی ہو۔۔ اتنی کم ہمتی والی باتیں کہیں سے بھی تمہاری اعلی تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت نہیں دے رہیں۔۔
اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ اس کے ہاتھ پہ ٹیوب لگاتے بولی۔۔ اس طرح کی باتیں کرنے کا مقصد صرف اس کی ہمت بندھانا تھا۔۔
تو کیا کروں میں آپ ہی بتائیے مجھے؟؟۔۔ ٹیوب لگنے سے جلن تو ہوئی تھی پر کچھ سیکنڈز بعد ہی اس کی ٹھنڈک اب اسے سکون دے رہی تھی۔۔
تمہیں کیا لگتا ہے؟؟ تم بیمار ہو کر یہاں آسانی سے مر جائو گی؟؟ یہ لوگ جو تمہیں یہاں لے کر آئیں ہیں وہ تمہیں مرنے دیں گئے؟؟ نہیں روشم۔۔ یہ پل پل مارنے والے لوگ ہیں۔۔ موت کے منہ سے نکال کر زندگی کیسے دینی ہے یہ ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔۔
اس کا ہاتھ پکڑے اب وہ دھیرے دھیرے سہلا رہی تھی۔۔ روشم خاموشی سے ان کی باتیں سن رہی تھی کہ اب اس کے پاس بولنے کو کچھ تھا بھی نہیں۔۔
دیکھو روشم۔۔ یاد رکھو اگر اللہ نے تمہیں اس آزمائش میں ڈالا ہے تو نکالا گا بھی وہی۔۔ بس تم ہمت مت چھوڑو۔۔مایوسی اللہ کو بہت نا پسند ہے۔۔ اور دعا کرو کہ تمہارے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے اس وقت میں کہ وہ مکمل ناراض ہو جائے کیونکہ وہ ناراض ہو گیا نہ تو کچھ بھی بچے گا۔۔ نا دنیا نہ آخرت۔۔ ہماری سب برداشت کی گئی تکلیفیں رائیگاں چلی جائیں گی۔۔ سمجھ رہی ہو نا۔۔
اس کا چہرہ اوپر کر کے انہوں نے اس سے پوچھا۔۔ وہ جو سر جھکائے سن رہی تھی ان کے پوچھنے پہ اثبات میں سر ہلایا۔۔ ان کی باتوں سے اسے لگ رہا تھا اس کی ذات کا کیتھارسس ہو رہا ہے۔۔
چلو اب اٹھو شاباش۔۔ کمرے میں جا کر آرام کرو۔۔ اور ہر رات یہی سوچو صبح ایک نئی کرن آنے والے ہے ایک نئی امید لے کر۔۔ انشاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔
اسے ٹھنڈی زمین سے اٹھا کر انہوں نے کمرے کی طرف بھیجا۔۔ لیکن وہ وہی کچن کی دہلیز پہ کھڑی رہی۔۔ پھر مڑ کر انہیں دیکھا جو نرم نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
تھینک یو بے جی۔۔ ایک سمائل پاس کر کے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔۔ ان کئ باتوں نے واقعی اس کے امدر ایک نئی امید بھر دی تھی۔۔ سب کچھ ٹھیک ہو جانے کی امید۔۔
کمرے میں آ کر وہ پر سکون سی بیڈ پہ لیٹ گئی۔۔ عرش میر ابھی تک گھر نہیں آیا تھا۔۔ وہ اناج کے سلسلے میں کسی دوسرے شہر گیا تھا اور اس کی واپسی کل ہی متوقع تھی۔۔ وہ سکون سے اپنے بستر پہ لیٹ گئی۔۔ کہ اب نیند اس پہ حاوی ہو رہی تھی۔۔
***
رات کے ڈھائی بج رہے تھے وہ بھی گھر آیا تھا۔۔ آج سارا دن ہی اس کا تھکا دینے والا تھا۔۔ نئی فصل کے لیے بیجوں کی ضرورت تھی اور اسی کی ڈیلنگ کے کیے وہ گیا تھا۔۔ دوپہر کا نکلا وہ اب آیا تھا سارا دن ہی اس کا انہی کی ریسرچ میں گزرا تھا۔۔
پہلے سوچا شہر میں ہی رک جائے لیکن پھر اس کا ارادہ بدل گیااور وہ سیدھا ڈرائیو کر کے ابھی حویلی آیا تھا۔۔
اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر وہ جونہی اندر آیا سامنے روشم کو خواب خرگوش کے مزے لیتے دیکھ کر اسکے ماتھے پہ بل پڑ گئے۔۔
ذیادہ غصہ تو اسے اپنے بیڈ پہ سوتا دیکھ کر آیا تھا۔۔ بجلی کی سی تیزی سے وہ اس کے پاس آیا۔۔ اور اوپر سے کمفرٹر ایک جھٹکے سے اتارا۔۔
وہ جو گہری نیند میں تھی اچانک کمفرٹر اترنے سے جھٹ سے اٹھی۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی سامنے عرش میر و دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے اس کے خیال میں تو وہ آج رات نہیں آنے والا تھا۔۔
آپ۔۔ اٹک کر بولتی وہ فورا بیڈ سے اتر کر کھڑی ہو گئی۔۔
میں نے کیا کہا تھا۔۔ میرے سونے کے بعد سو گی اور میرے اٹھنے کے بعد اٹھو گی۔۔ اس کا منہ ہاتھ میں دبوچ کر وہ دہاڑا۔۔
لل۔۔ لیکن۔۔ آآ۔۔ آپ تو گھر پہ نہیں تھے۔۔ تو ممم۔۔ میں کیسے۔۔ لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر اس کے منہ سے ادا ہو رہے تھے۔۔
گھر پہ نہیں تھا تو تم میرے بیڈ پہ سو گی؟؟۔۔ پتہ بھی ہے تمہارے لیٹنے سے میرا بیڈ غلیظ ہو گیا ہے۔۔ ہنوز اسی پوزیشن میں اسے پکڑے وہ اس کے کان میں سیسہ انڈیل رہا تھا۔۔
سبکی اور ذلت کی انتہا سے روشم کی آنکھوں سے آنسو جھلک پڑے۔۔
اب دفعہ ہو جائو یہاں سے۔۔ اسے جھٹکے سے چھوڑ کر وہ غرایا۔۔
میں۔۔ میں کہاں سو گی۔؟؟ کمرے میں دو سنگل کائوچ ہی تھی جس پہ وہ سو نہ سکتی تھی۔۔
میری بلا سے بھاڑ میں جائو یا زمین پہ سو جائو۔۔ آئی ڈونٹ کئیر۔۔ غصے سے بوکتے اس نے بیڈ شیٹ کی چادر اور کمفرٹر اتار کر پھینک دیا یوں جیسے سچ میں یہاں پہ روشم کی غلاظت ہو۔۔ اور کبرڈ سے دوسرا کمفرٹر لے کر اوڑھ کر لیٹ گیا۔۔
جبکہ روشم اپنی قسمت پہ ماتم کر رہی تھی۔۔ کل سے اب تک وہ ذکت اور رسوائی ہی سہہ رہی تھی۔۔ ایک نظر مڑ کر کائوچ کی طرف دیکھا جن پہ سویا نہیں جا سکتا تھا۔۔
پھر نیچے گرے کمفرٹر کو۔۔ کچھ سوچ کر اس نے وہ کمفرٹر اٹھایا۔۔ اور نیچے گری چادر کو پہلے زمین پہ بچھا کر پھر آدھا کمفرٹر نیچے اور آدھا اوپر اوڑھ کر لیٹ گئی۔۔
اب کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا نہ اسے۔۔ اور فی الوقت اسے یہ بھی غنیمت لگ رہا تھا۔۔
***
وائو وجدان یہ تو بہت پیارا ہے۔۔ کس کا ہے یہ۔۔ وجدان آج اسے ایک فلیٹ میں کر آیا تھا۔۔ کچھ ہی دنوں میں وہ ایکدوسرے کے اتنے قریب آ گئے تھے کہ نیلم کو لگتا تھا کہ وجدان نہ رہا تو اس کی زندگی نہیں رہے گی اور وجدان۔۔ وہ تو اسے دور بھیجنے کا سوچ بھی نہ سکتا تھا۔۔
تمہارا۔۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے ایک ایک چیز دکھا رہا تھا۔۔ اس کے پوچھنے پہ یک لفظ جواب آیا لیکن دلفریب لہجے میں۔۔
میرا؟؟ یعنی کہ صرف میرا؟؟ نیلم کو تو یقین ہی نہ آ رہا تھا یہ فلیٹ اس کا ہے۔۔
ہاں مائی کوین صرف تمہارا۔۔ اس کے ناک کو زور سے دبا کر اس نے اسے یقین دلایا۔۔
لیکن وجدان یہ تو بہت ایکسپینسیو لگ رہا ہے۔۔ اور ویسے بھی میں تو ہاسٹل میں رہتی ہوں۔۔ وہاں سے یہاں کیسے۔۔ نیلم کو تو سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے۔۔
میں نے آج صبح ہی ہاسٹل انتظامیہ سے بات کر لی ہے اب تم یہاں رہو گی۔۔ یہاں ہر جگہ کیمرے لگے ہیں تا کہ تم دن رات میری نظر میں رہ سکو۔۔ وجدان نے آنکھ دباتے ہوئے کہا۔۔
آگے کونسا آپ مجھے نظروں سے دور رکھتے ہیں۔۔ ہر دومنٹ بعد تو پوچھتے رہتے کہاں ہو کیا کر رہی ہو۔۔ اور مل کر روز دیکھ بھی لیتے ہیں۔۔ نیلم نے بھی اس کو یاد کروایا کہ وہ ہر وقت اس کی نظر میں ہی رہتی ہے۔۔
ہاہاہاہا۔۔ ہاں تو کیا کروں؟؟ شادی پہ فی الحال تم راضی نہیں ورنہ تو تمہیں گھر میں آنکھوں کے سامنے ہر وقت بٹھا کر رکھوں۔۔ اس کا ہاتھ پکڑے اب اس نے اسے صوفے پہ بٹھا دیا۔۔
شادی میری اسٹڈیز کے بعد ہی ہو گی۔۔ اس پہ ہماری بات ہو چکی ہے تو اس لیے نو آرگیومنٹ۔۔ باقی سامنے بٹھا کر بھی دیکھنے کی خوب آپ نے۔۔ یعنی صرف مجھے دیکھیں گئے تو آفس کب جائیں گئے اور کام کب کریں گئے۔۔
نیلم بھی کہاں اس کی باتوں میں آسانی سے آنے والی تھی ۔۔ وہ کون سا کسی مووی کی ہیروئن تھی اور وہ ہیرو۔۔ لیکن باتیں وجدان صاحب کی ساری فلموں والی ہی تھی۔۔
مائی کوین اتنا تو میں کما ہی چکا ہوں کہ ساری عمر تمہیں اور ہمارے بچوں کق بٹھا کر کھلا سکتا ہوں۔۔ باقی شادی تم نے ڈیڑھ سال بعد کرنی ہے تو تب تک اور کما لوں گا۔۔ اس لیے شادی کے بعد صرف تمہیں ہی دیکھوں گا۔۔
مٹھی پہ ٹھوڑی ٹکائے وہ اسے پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔
میرے خیال سے بہت ہو گئی باتیں۔۔ ابھی مجھے ہاسٹل چھوڑیں۔۔ وہاں سے مجھے سامان لینا ہے اور ہاں میرے پیپرز بھی سٹارٹ ہونے والے ہیں لہذا ایک ہفتے کے لیے سب ملاقاتیں بند۔۔ وہ جتنی بھی کانفڈنٹ سہی پر وجدان کے دیکھنے سے ہی اسکے گال سرخ ہو جاتے تھے اس لیے اس نے بات ہی چینج کر دی۔۔
یہ کیا بات ہوئی۔۔ یہ تو فائول ہے۔۔ میرا تمہارے بغیر ایک لمحہ نہیں گزرتا اور تم ایک ہفتے کی بات کر رہی ہو۔۔ وجدان کی شکل ایسی تھی جیسے ابھی رو دے گا۔۔ یہ پیپرز والی شرط تو اس نے بتائی ہی نہ تھی۔۔
آپ سے بات کرتی رہی تو فیل ہو جائوں گی اور فیل ہوئی تو دوبارہ پیپرز دینے پڑے گئے اور اس طرح شادی لیٹ ہو جائے گی۔۔ اس کیے سوچ لیں ایک ہفتہ یا ایک سال۔۔ کمر پہ ہاتھ رکھے وہ اسے بلیک میل کر رہی تھی کیونکہ یہ تو کنفرم تھا کہ وجدان سے دور نہ رہتی تو وہ پیپرز میں اسے کبھی پڑھنے نہ دیتا۔۔
بلیک میلر۔۔ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا کہ اب اسے اس کو ہاسٹل لے کر جانا تھا تا کہ وہ اپنا سامان کے سکے۔۔
ارے ہاں۔۔ تمہاری ایک دوست بھی تھی جب ہماری ملاقات مری میں ہوئی تھی۔۔ اس کو میں نے بعد میں نہیں دیکھا تمہارے ساتھ۔۔ اسے اچانک یاد آیا ۔۔ اب تک اس نے نیلم کو اکیلے ہی پایا تھا اور ان دونوں کی اپنی باتیں ختم نہ ہوتی تھی اس لیے کسی اور کے بارے میں اب تک بات ہی نہ ہو پائی تھی۔۔
ہاں وہ روشم تھی۔۔ پتہ نہیں کیا ہوا ہے۔۔ فون اس کا بند جا رہا ہے۔۔ مجھے تو اس کے گھر کا اڈریس بھی نہ پتہ نہ ہی کوئی اور کاتٹیکٹ نمبر ہے کہ پوچھ لوں۔۔ میرا تو بس دل گھبراتا ہے۔۔ اللہ کرے جہاں ہو خیریت سے ہو۔۔
نیلم نے دل سے دعا دی کہ اب دعا کے علاوہ کچھ کر بھی نہ سکتی تھی۔۔ روشم کا سوچ کر اس کا دل ایک بار پھر سے اداس ہو گیا تھا۔۔
کبھی میرے لیے بھی دعا کر دیا کرو۔۔ وجدان نے شوخی سے کہا۔۔
اتنی ویلی دعائیں نہیں ہے میری۔۔ نیلم نے اسے زبان چڑائی اور دوڑ لگا دی۔۔
رک جائو تم بتاتا ہوں تمہیں میں۔۔ اس کی بات اور پھر بھاگ جانے پہ وہ بھی اس کے پیچھے بھاگا۔۔ اب سین یہ تھا کہ آگے نیلم تھی جبکہ پیچھے وجدان اور ان دونوں کی ہنسی پورے فلیٹ میں گونج رہی تھی۔۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...