یہ دو ٹکے کا انسان عرشمان کو بلیک میل کر رہا ہے۔۔ وہ غصے سے کمرے میں چکر لگا رہا تھا۔۔
یہ غصے کی شدت ہی تھی کہ اس کی آنکھیں لال اور کن پٹیوں کی رگیں ابھری ہوئی تھی۔۔
سرکار کھانا لائوں۔۔ ندرت جو دہلیز پہ معمول پہ مطا بق کھڑی تھی۔۔ عرشمان کے غصے سے نا واقف تھی۔۔
دفع جائو منحوس عورت۔۔ ایک تو تم نے میری زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔۔ پاس پڑا گلدان اس کی طرف پھینکا تھا جو خوش قسمتی سے اس کے پیروں میں ہی چور ہو گیا تھا۔۔
لیکن چند کرچیوں کی چھینٹیں اچھل کر ندرت کے نازک پیروں میں پیوست ہو گئی تھی۔۔ لیکن اس وقت اسے اس لہجے کی تکلیف تھی۔۔ وہ وہی سے الٹے قدموں باہر کی طرف بھاگی تھی۔۔
جبکہ اس کے جانے کے بعد عرشمان نے اپنے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑ لیا تھا۔۔
میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں ابان شاہ۔۔ تمہارا وہ حشر کروں گا کہ قیامت تک عبرت تک نشان بن جائو گے۔۔ اور پھر سب دیکھیں گئے کہ عرشمان خان کو بلیک میل کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔۔
اپنی مونچھوں کو تائو دیتا وہ خیال میں ہی ابان سے مخاطب تھا۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اس کے سامنے ہوتا تو اس کا بھی حشر کر دیتا۔۔ غصے نے اس کی سوچ کو مفلوج کر دیا تھا۔۔
کیوں میرے معاملےمیں ٹانگ اڑا رہے ہو۔۔ اس وقت عرشمان اور ابان آمنے سامنے بیٹھے تھے۔۔ ذیشان کو ایمجنسی ہو گئی تھی اس لیے وہ دونوں اکیلے تھے۔۔ جب سیگریٹ کا کش لگا کر عرشمان نے بات کا آغاز کیا۔۔
تمہارا معاملہ؟؟ ہونہہ۔۔ تمہارا معاملہ ہوتا تو کبھی نہ آتا۔۔ لیکن میں ان لڑکیوں کو بچانا چاہتا ہوں جن کی تم زندگی برباد کر رہے ہو۔۔ اس کے قریب ہو کر وہ چبا چبا خر بولا۔۔
تمہیں کیا اتنی تکلیف ہو رہی ہے صحافی۔۔ اپنے کام سے کام رکھو۔۔ یہی بہتر ہے تمہارے لیے۔۔ ورنہ میں نے سنا ہے تمہاری بہن بھی بہت پیاری ہے شاید لاہور یونی میں پڑھتی ہے۔۔ ہے نا؟؟
مونچھوں کو تائو دیتا وہ خباثت سے بولا۔۔ ابان کو اس کی بات پہ غصہ ہی تو چڑھ گیا تھا۔۔
تیری ہمت کیسے ہوئئ میری بہن کے بارے میں بات کرنے کی۔۔ دوبارہ ایک لفظ بھی نکالا تو تیریزبان کو گدی سے نکال دوں گا میں۔۔
اس کے گریبان کو ہاتھ میں پکڑے وہ دھاڑا۔۔
عرشمان نے ایک نظر اس کے ہاتھوں کو دیکھا اور پھر انہیں جھٹک کر سیدھا ہوا۔۔
اپنی اوقات میں رہ صحافی۔۔ ورنہ مجھے یاد کروانی بھی آتی ہے۔۔
نہیں تو کیا کرے گا تو۔ ہاں بتا مجھے ۔۔ کیا کرے گا تو۔۔ اس کے سینے پہ مسلسل ہاتھ مار کر وہ اسے پیچھے دھکیل رہا تھا۔۔ عرشمان نے غصے سے اسے دیکھا اور اپنا ریوالور نکال لیا۔۔
نہیں تو یہ تیرے بھیجے میں ٹھوک دوں گا۔۔ اپنی ریوالور اس کی کن پٹی پہ وہ رکھ چکا تھا۔۔
ابان نے ایک گٹنا اس کے پیٹ پہ مارا۔۔ حملہ غیر متوقع تھا اس لیے وہ درد سے نیچے کو جھکا۔۔ لیکن ریوالور ابھی تک ہاتھ میں تھا۔۔
اس کے جھکنے پہ ابان نے فورا اس کے ہاتھ سے ریوالور کھینچنا چاہا۔۔ اسی کھینچا تانی میں ٹریگر دبا تھا۔۔ اور اس کے بعد ایک لمبا سناٹا چھا گیا۔
***
یار وہ سٹالر دیکھو پیارا ہے نا۔۔ روشم پاس کھڑی نیلم کو سٹالر دکھا رہی تھی۔۔ اس وقت مال روڈ پہ بے انتہا رش تھا جب اسے اچانک دھکا لگا۔۔
وہ نظر انداز کر دیتی لیکن سامنے عرش میر کو دیکھ کر اس کے اعصاب تن گئے۔۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے ٹکرانے کی۔۔ لہجہ اور آواز دونوں ہی اونچے تھے۔۔
میں جان بوجھ۔۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتا روشم نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔۔
بس کر دو۔۔ جانتی ہوں تم جیسے چھچھورے انسان کو۔۔ پہلے مجھے کمرے میں بند کر کے مجھ سے فائدہ اٹھانا چاہ رہے تھے اور جب بات نہ بنی۔۔ تو اب بہانے بہانے سے مجھ سے ٹکرارہے ہو۔۔
وہ کچج ذیادہ ہی غصے میں تھی اس لیے اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا بول رہی ہے۔۔ عرش میر کا تو خفت سے چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔۔
آس پاس کافی رش لگ چکا تھا۔۔ روشم کی آواز ہی اتنی اونچی تھی شاید اس نے جان بوجھ خر رکھی تھی کہ سب سن لیں۔۔ موسٹلی کوگ یونی کے ہی تھی جو عجیب سی نظروں سے عرش میر کو دیکھ رہے تھے۔۔ اور عرش میر اس کا تو سر ہی اوپر نہ اٹھ رہا تھا۔۔
دیکھو روشم۔۔ تمہیں غلط فہمی ۔۔ وہ پھر کچھ بولنے لگاتھا لیکن روشم نے پھر سے اس کی بات کو بیچ میں ہی کاٹ دیا۔۔
غلط فہمی؟؟۔ ہونہہ۔۔ سنیں سب۔۔ کچھ روز پہلےعرش میر نے مجھے کلاس روم میں بند کر دیا۔۔ اور کہا کہ اگر یہ بات کسی کو بتائی تو وہ میرے ساتھ اس سے بھی برا کرے گا۔۔
پاس کھڑے لوگوں کو متوجہ کرتی وہ اور اونچا بولی۔۔ جس میں کچھ سچ اور کچھ جھوٹ شامل تھا۔۔ اس وقت روشم کا مقصد صرف اسے ذلیل کرنا تھا۔۔ اور وہ بلکل بھول چکی تھی اس کے لیےوہ کیا کر رہی ہے۔۔
عرش میر کا چہرہ بلکل سرخ ہو چکا تھا۔۔ غصے سے اس کی رگیں ابھر رہی تھی۔۔ سب لوگ اب چہ مگوئیاں کر رہے تھے۔۔
دیکھو تو کتنا معصوم بنتا تھا۔۔ عورتوں سے دور رہنے والا اور کیا نکلا۔۔ یہ ان کی کلاس فیلو کا ہی تجزیہ تھا۔۔
چھوڑو یار۔۔ یہ سب وڈیرے ہوتے ہی ہوس پرست اور بد کردارہیں۔۔ اور بس یہ وہ آخری حد تھی جہاں تک وہ سن سکتا تھا۔۔
بنا پلٹے بنا کچھ کہے وہ وہاں سے لمبے لمبےڈگ بھرتا چلا گیا۔۔ پیچھے اب کیا باتیں ہو رہی تھی وہ اب نہیں جانتا تھا۔۔ اسے پتہ تھا تو صرف اتنا کہ اب روشم کی وجہ سے وہ کبھی سر اٹھا کر جی نا پائے گا۔۔
وہ اپنی ہی سوچوں میں تھا جب اس کے موبائل پہ رنگ ہوئی سامنے بائو جی کالنگ دیکھ کر اس نے فون اٹھایا۔۔
اسلام علیکم بائو جی۔۔ سے کتنا بھی غصہ سہی لیکن بائو جی سے بات کرتے اس کا لہجہ ہمیشہ مئودبانہ ہی ہوا تھا۔۔
عرش میر جہاں بھی ہو فورا گھر پہنچو۔۔ ایک جملے میں بات کہہ وہ فون بند کر چکے تھے۔۔ عرش میر نے حیرت سے موبائل کو دیکھا جہاں اب کال ڈسکنکٹ ہو چکی تھی۔۔
اتنا تو وہ جانتا تھا کہ کوئی ایمرجنسی ہی ہے۔۔ ورنہ بائو جی نے ایسے کبھی اسے نہ بلایا تھا۔۔ ان کے حکم کی تکمیل کرتے وہ فورا ہوٹل کی طرف بڑھا تا کہ اپنا سامان لے سکے۔۔
***
روشم اتنی بڑی بات تم نے مجھ سے کیوں چھپائئ۔۔ نیکم عرش میر کو جانتی تھی کہ وہ ایسا نہیں ہے اسے وہ واقع اچھے سے یاد تھا جب ان کی کلاس کی ایک لڑکی نے اس کی طرف قدم بڑھائے تھے اور عرش میر نے اس کی بے عزتی کی تھی اور اسے یاد دلایا تھا کہ وہ جس معاشرے میں رہتی ہے وہاں خواتین کی فیلنگز حجاب میں ہی اچھی لگتی ہے۔۔
ہممم۔۔ بند کیا تھا اس نے مجھےکمرے میں لیکن ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔۔ اس کے انداز میں بے فکری تھی۔۔
تو تم نے ایسے سب کے سامنے کیوں کہا پھر۔۔ نیلم کو حیرت ہوئی۔۔
تا کہ اسے پتہ چلے کہ آئندہ کسی بھی لڑکی کو کمرے میں بند نہیں کرنا۔۔ وہ سرشاری سے آگے بڑھ رہی تھی جب نیلم کو اہنے ساتھ قدم نہ بڑھاتے دیکھ رک گئی۔۔
تمہیں کیا ہوا۔۔ رک کیوں گئی۔۔
روشم تمہیں پتہ ہے تم نے کیا کیا ہے؟؟ تم نے اس نیک باز پہ بد کرداری کا الزام لگایا ہے۔۔ اور تم جانتی ہو اس کا کتنا گناہ ہے روشم۔۔ وہ کبھی سب کے سامنے سر نہیں اٹھا پائے گا۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔ نہیں روشم پلیز تم ابھی جائو اور اس سے معافی مانگو اور سب کو حقیقت بتائو۔۔
نیلم اس کا ہاتھ پکڑے اسے لے کر جانا چاہ رہی تھی پر اسے وہی اسٹل دیخھ کر ٹھٹھک گئی۔۔
کیا ہوا روشم۔۔ اس کے قریب آئی۔۔
نیلم میں سب کے سامنے کیسے کنفیس کروں گی۔۔ سب کبھی مجھ پہ اعتبار نہیں کریں گئے۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔ ہمیشہ میرا مذاق اڑائیں گئے۔۔
اب کہ روشم کی آنکھوں میں آنسو چمک اٹھے تھے۔۔
تو بتائو کیا تم کسی بے گناہ پہ اتنا بڑا الزام لگا کر خوش رہ سکو گی؟؟ کبھی تمہارا ضمیر تمہیں سکون سے رہنے دے گا؟؟ اس کا بازو پکڑ کر نیلم نے اسے جھنجھوڑ ڈالا تھا۔۔
جب یہ زبان کسی پہ کیچڑ اچھالتے ہوئے نہیں رکتی تو اسے اس کیچڑ کو صاف کرتے ہوئے بھی نہیں جھجھکنا چاہیے ۔۔ وہ جو آگے ہی شرمندہ تھی نیلم کا سر اس کی بات نے اور نیچے کروا دیا تھا۔۔
تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔ مجھے اس سے جا کر معافی مانگنی چاہیے۔۔ اس بار اس کا ہاتھ پکڑ کر خود بوائز ہوٹل کی طرف بڑھی تھی۔۔
***
عرش میر اسلام آباد سے ڈائرکٹ ملتان کی فلائیٹ لے کر آیا تھا اس کے پاس اتنا ٹائم نہیں تھا کہ بائی روڈ آتا اور جو خبر اسے آگے ملی تھی وہ اسے شاک کرنے کو کافی تھی۔۔
عرشمان کو قتل کر دیا گیا تھا۔۔ اور قاتل ایک صحافی تھا۔۔ وہ جب پہنچا تو جرگہ بیٹھا ہوا تھا۔۔ اور جب تک فیصلہ نہ ہو جاتا بائو جہ کبھی بھی عرشمان کو دفنانے والے نہ تھے کہ بدل ان کے لیے بہت ضروی تھا۔۔
تو آخر میں جرگہ اس نتیجے پہ پہنچا ہے کہ ملزم کی بہن کا نکاح خون بہا کے طور پہ عرشمان کے چھوٹے بھائی عرش میر سے کیا جائے گا۔۔
جرگہ کا فیصلہ سن کر ابان اور ذیشان دونوں کو ہی سانپ سونگھ گیا تھا جبکہ بائو جی مونچھوں کو تائو دے رہے تھے کہ یہ فیصلہ انہی کی منشا پہ تو کیا گیا تھا۔۔
نہیں ۔۔۔ بلکل نہیں۔۔ آپ کو بدلہ لینا ہے تو مجھ سے لے لیں۔۔ مجھے قتل کر دیں۔۔ لیکن میری بہن کا کیا قصور ہے اس سب میں۔۔ ابان چلا ہی تو پڑا تھا۔۔
خاموش لڑکے۔۔ جرگے کے فیصکے کو تمہاری رضامندی کی ضرورت نہیں۔۔ جس نے فیصلہ دیا تھا وہ اکڑ کر بولا۔۔
میں ایسے کسی فیصلے کو نہیں مانتا۔۔ میں کبھی اپنی بہن کی شادی اس سے نہیں کروں گا۔۔ ابان جہاں تک احتجاج کر سکتا تھا کر رہا تھا۔۔
تو پھر ٹھیک ہے۔۔ تمہاری بہن کو ہم اٹھوا لیں گئے۔۔ کہ وہ اب ہماری ہے۔۔ اور اس کے ساتھ بغیر نکاح کے ہا نکاح کے ساتھ رہنا تو اسے اب عرش میر کو ہی ہے۔۔ آخر یہ جرگے کا فیصلہ ہے۔۔
حقے کا کش لگاتے اس بار بائو جی بولے۔۔ جبکہ پاس پڑا عرش میر اس کایا پلٹ پہ حیران تھا۔۔
بس فیصلہ ہو چکا ہے۔۔ کل اپنی بہن کو لے آنا نکاح کے لیے۔۔ نہیں تو میرے بندے اسے اٹھا لائیں گئے۔۔بائو جی کی بات پہ سب ہی اٹھ چکے تھے۔۔ ذیشان بھی ابان کو سہارا دیے چل پڑا تھا کہ اس میں تو ہلنے کی بھی سکت نہ تھی۔۔
بائو جی یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔۔ میں نہیں کرنا چاہتا یہ نکاح۔۔ عرش میر سب کے جانے کے بعد ان کے پاس آیا۔۔ وہ تو یہاں رہنا ہی نہ چاہتا تھا کجا نکاح ۔۔
عرش میر ہم نے تمہاری ہر بات مانی ہے۔۔ لیکن اس بار جو ہم کہہ رہے ہیں وہ تمہیں ماننا ہو گا۔۔ ورنہ تمہاری ماں اس عمر میں مطلقہ اچھی نہیں لگے گی۔۔
وہ اپنی بات کہہ کر رکے نہیں تھے لمبے لمبے ڈگ بھرتے چلے گئے تھے۔۔
جبکہ پیچھے عرش میر سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا۔۔ زندگی آج ہی کے دن اسے شاک پہ شاک دیے جا رہی تھی۔۔
***
عرش میر کو وہ بتانے گئی تھی لیکن اسے روحان اور نومی سے پتہ چلا تھا کہ وہ نہیں ہے۔۔ ایک دم تو وہ مایوس ہوئی تھی لیکن پھر روحان اور نومی کو ساتھ کے کر ساری کلاس کو اکٹھا کیا تھا۔۔ جس جس نے سنا تھا اس اس کے سامنے اس نے کنفیس کیا تھا کہ وہ صرف عرش میر کو ڈیگریڈ کرنا چاہتی تھی۔۔ اپنی دشمنی میں وہ بلکل اندھی ہو چکی تھی۔۔ اس لیے جب سب ہو گیا تب اسے احساس ہوا۔۔
سب کو بتا دینے کے بعد اسے لگا تھا کہ کوئی اسے منہ نہیں کگائے گا۔۔ لیکن سب نے ہی اسے گلے لگایا تھا اور روحان اور نومی نے بھی اس کے سر پہ ہاتھ پھیر کر اسے بہن مانا تھا۔۔
یونی میں جب عرش میر کو پتہ چلے گا تو وہ کتنا خوش ہو گا۔۔ اپنی ہی سوچوں میں گم وہ سرشار سی گم ابھی بیڈ پہ لیٹی تھی کہ موبائل بج اٹھا۔۔
اوپر ابان بھائی کالنگ لکھا آ رہا تھا۔۔ کال لاگ دیخھ کر وہ مسکرائی اور ایسے ہی فون اٹھا لیا۔۔
اسلام علیکم بھائی ۔۔ اس کے مزاج کی بشاشت اس کے کہجے سے جھلک رہی تھی۔۔
کل صبح سات بجے کی تمہاری فلائیٹ ہے ملتان کی۔۔ میں تمہارے سر سے بات کر چکا ہوں وہ تمہیں آنے دیں گئے۔۔ جلدی آ جائو۔۔ ہم۔سب ویٹ کر رہی ہیں۔۔
اتنی سی بات کہہ کر فون بند کر دیا گیا تھا۔۔ جبکہ روشم حیران پریشان سی فون کو دیکھ رہی تھی جو ایک جملہ کہہ کر بند ہو چکا تھا۔۔
پھر اس کا دھیان ڈیٹ پہ گیا۔۔
اوہ۔۔ کل تو میری برتھ ڈے ہے۔۔ اسی وجہ سے بھائی مجھے سرپرائز دینا چاہتے ہوں گئے ہمیشہ کی طرح۔۔ اس کا ضمیر اتنا ہلکا ہوا تھا کہ اسے بلکل بھی کسی انہونی کا احساس نہ ہو رہا تھا۔۔ وہ تو بس خود میں خقش تھی۔۔
***
ہو گئی بات۔۔ فون سائڈ پہ۔رکھتے ہی نمل اس کے پاس آئئ۔۔ اماں تو اتنی ناراض تھی اس سے کہ اس کی شکل بھی نہ۔دیکھ رہی تھی۔۔
ان کے بقول نہ وہ۔اس سب میں ہاتھ ڈالتا نہ ہی اس کا بھگتان روشم کو بھگتنا پڑتا۔۔
ہمم۔۔ وہ تو بولنے کے قابل بھی نہ رہا تھا ساری زندگی جس بہن کو اتنی چاہتوں سے پالا آج اسے ایک فیصلے کی بھینٹ چڑھانا پڑ رہا تھا۔۔
روشم سے بھی کیسے اس نے بات کی تھی یہ بس وہ جانتا تھا یا اس کا خدا۔۔
بھائی مت پریشان ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ نمل نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔ جبکہ اس کی آواز بھی اس کے لفظوں کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔۔ پر وہ اب کچھ اور کہہ بھی تو نہ سکتی تھی۔۔
یہ رات بہت بھاری گزری تھی سب پہ ہی۔۔ وہاں عرش میر بے سکون تھا اور یہاں ابان اماں اور نمل کے لیے قیامت کی رات تھی۔۔
***
کیا ہوا ہے۔۔ بھائی کدھر ہے۔۔ وہ جو ایکسپیکٹ کر رہی تھی کہ گھر اس کی برتھ ڈے کے لیے سجایا گیا ہو گا۔۔ پورے راستے ہی وہ پتہ نہیں کس کس طرح کا سرپرائز سوچ آئی تھی آگے ویرانہ دیکھ کر ٹھٹھکی۔۔
نمل۔جو لائونج میں ہی بیٹھی تھی اس نے بھی کوئی جواب دیے بنا روشم کے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ نارمل بات کرنے کو تو کچھ بچا نہ تھا۔۔ اور جو بچا تھا وہ وہ چاہتی تھی کہ ابان سے ہی سنے۔۔
اماں بھی کمرے میں بند تھیں رات سے۔۔ روشم کا۔سامنا کرنے کی ان کی بھی ہمت نہ تھی۔۔ وہ حیران ہوتی اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔۔
اندر ہی اسے ابان سر جھکائے نظر آ گیا تھا۔۔
بھائی۔۔ وہ فورا اس کی طرف بڑھی۔۔ اس وقت کہیں سے بھی اسے وہ۔اس کا دلیر بھائی نہیں لگ رہا تھا۔۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ کتنا بوڑھا ہو چکا ہے۔۔
روشم کی پکار پہ وہ اٹھا۔۔ اور آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔۔
کب سے آنسو جو اس کے رکے تھے۔۔ کتنی ہمت سے اس نے جسے اس نے روکا تھا وہ سب بہہ نکلے تھے۔۔ اس کی ہمت ٹوٹ گئی تھی اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔۔ عجیب تھا نہ وہ مرد ہو خکر رو رہا تھا پر جب انسان قسمت کے ہاتھوں بے بس ہو جائے تو اسی طرح آنسو بے اختیار ہو کر نکلتے ہیں جیسے ابھی ابان کے نکلے تھے۔۔
بھائی کیا ہوا ہے۔۔ وہ انہیں پیچھے کرنا چاہتی تھی پر ابان کی گرفت مضبوط تھی۔۔
روشم مجھ سے گناہ ہو گیا ہے۔۔ مجھ سے قتل ہو گیا۔۔ میں نے اسے جان بوجھ کر نہیں مارا روشم۔۔ وہ سب غلطی سے ہوا۔۔
اس کے کندھے پکڑے اس پہ سر رکھے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔
بھائی مجھے یقین ہے آپ پہ۔۔ آپ نے سب جان بوجھ کر نہیں کیا ہو گا۔۔ کوئی بات نہیں آپ پولیس کو سب سچ بتا دینا۔۔ سیلف ڈیفینس کی تو سزا نہیں ہے۔۔ وہ اسے حوصلہ دے رہی تھی لیکن اس کے رونے کی وجہ سے ابھی تک قاصر تھی۔۔
روشم انہوں نے تمہیں مانگا ہے۔۔ اصل بات اب زبان پہ آئی۔۔
کیا مطلب بھائی۔۔
انہوں نے تمہیں مانگا ہے خون بہا میں۔۔ روشم کو تو لگا جیسے اس پہ کسی نے بمب گرا دیا ہو۔۔ جتنا اس کا لہجہ ٹوٹا تھا اتنی ہی روشم ٹوٹ گئی تھی۔۔
یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ بھائی۔۔ روشم کی تو آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔۔ کیا کچھ نہیں تھا اس کے لہجے میں ۔۔ اعتبار ٹوٹنے کا دکھ۔۔ اس کی شکل دیکھ کر ابان نے ایک بار پھر بولنے کی کوشش کی۔۔
میں مجبور ہوں گڑیا ۔۔ میرے ہاتھ۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا روشم چلائی۔۔
مت کہیں مجھے گڑیا۔۔ کھو چکے ہیں آپ سارے حق۔۔ اور مت سنائے مجھے اپنی مجبوری کے دکھڑے۔۔ آپ نے مجھے بھینٹ چڑھانا تھا سو چڑھا دیا۔۔ اب خود کو بے بس ظاہر مت کریں میرے سامنے۔۔
اس کے ہاتھوں کو جھٹک کر روشم نے پیچھے کیا۔۔ گھن آ رہی تھی اسے آج اس رشتے سے جس پہ ساری زندگی اس نے اعتبار کیا تھا۔۔ جد پہ اسے یقین تھا کہ جب تک وہ رشتہ ہے اسے کچھ نہیں ہو گا۔۔
لیکن اس کا یقین ٹوٹ گیا تھا اس کا مان ٹوٹ گیا تھا۔۔ وہی رشتہ اسے سائبان سے تپتی دھوپ میں لے آیا تھا۔۔
گڑیا۔۔ وہ بے یقین سا بولا۔۔ اسے روشم کے رویہ مزید توڑ رہا تھا۔۔
میں نے کہا چلے جائے یہاں سے۔۔ میں آپ کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی۔۔ پاس پڑا ویس اس نے مخالف سمت میں پھینکا تھا۔۔ جبکہ اس کا اتنا ایکٹریم ری ایکشن دیکھ کر ابان نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر باہر چلا گیا۔۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...