روشم دیکھو عرش میر آ گیا ہے۔۔ وہ دونوں ٹیبل پہ بیٹھی تھی روشم کی دروازے کی طرف پشت تھی۔۔ لیکن نیلم با آسانی ہر آنے جانے واکے کو دیکھ سکتی تھی۔۔
اور عرش میر کا نام سن کر اس کے ہونٹوں پہ جو مسکراہٹ آئی تھی وہ تو شاید کسی اور چیز سے آ ہی نہیں سکتی تھی۔۔
اس نے پاس پڑے کیلے کا چھلکا اٹھایا اور اسے زور سے پیچھے پھینکا۔۔
وہ جو اپنے دھیان سے چل رہا تھا۔۔ کیلے کی چھلکے پہ پائوں پھسلا اور وہ یقینا گر جاتا اگر پاس کھڑے روحان اور نومی اسے پکڑتے نا۔۔
ذیادہ تو لوگ اپنے دھیان میں تھی کچھ دیخھ کر مسکرا دیے۔۔ لیکن اس سب میں صرف ایک ٹیبل تھا جہاں قہقہے گونج رہے تھے۔۔
اور وہ یقینا اور کوئی نہیں روشم کاور نیلم کا ٹیبل تھا۔۔
سبکی اور غصے سے اس کی رگیں پھولتی جا رہی تھی۔۔ یہ سب اب بہت ذیادہ ہوتا جا رہا تھا کم از کم عرش میر کی برداشت سے تو بہت ہی ذیادہ ہو رہا تھا۔۔
وہ غصے سے وہاں سے واک آئوٹ کر گیا جب کہ روشم اپنی فتح پہ سرشاری سے ہنس رہی تھی۔۔ جتنا سکون اسے عرش میر سے بدلہ کے کر آتا تھا شاید ہی اتنا سکون اسے زندگی میں کبھی آیا ہو۔۔
روشم تم کیا چیز ہو یار۔۔ نیلم کی تو ابھی تک ہنسی نہیں رک رہی تھی۔۔
میں چیز بڑی ہوں مست۔۔ یک آنکھ دبا کر بولتی وہ نیلم کو پھر سے ہنسنے پہ مجبور کر گئی۔۔ اس بات سے بے خبر کہ اب جو کچھ اس کے ساتھ ہونے والا تھا وہ بہت برا تھا۔۔
***
ابان تم مان کیوں نہیں جاتے سر کی بات۔۔ تمہیں ابھی تک کیوں اس قصے کے پیچھے ہو۔۔ چھوڑو دفع کرو۔۔ ذیشان اس کا کولیگ اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا پر ابان کے سر پہ اس وقت بھوت سوار تھا۔۔
قصہ؟؟ تم اس ظلم کو قصہ کہہ رہے ہو؟؟۔۔ تم جانتے بھی ہو وہ وڈیرا کیا کر رہا ہے۔۔ اپنے گائوں کی خوبصورت لڑکیوں کو اٹھاتا ہے ان کے ساتھ رات گزارتا ہے اور بس ان کو پھر لاوارث چھوڑ دیتا ہے۔۔ کتنی زندگیاں وہ اب تک برباد کر چکا ہے۔۔ اور تم چاہتے ہو میں اس لیے اس کے خلاف آواز نہ اٹھائوں کیونکہ وہ ہمارے چینل کو سپورٹ کرتا ہے۔۔ تو سوری ذیشان مجھ سے یہ نہیں ہو گا۔۔
ابان کی باتوں سے ذیشان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ پیچھے نہیں ہٹے گا۔۔
تو تم باز نہیں آئو گئے۔۔ ہاں؟؟ پھر بھی اس نے پوچھنا ضروری سمجھا۔۔
بلکل بھی نہیں۔۔ پتہ ہے کیوں۔۔ کیونکہ وہ سب میری بہنیں ہیں۔۔ اور میں اپنی کسی بھی بہن کے ساتھ ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔۔ تم بتائو تم میرا ساتھ دو گے یا نہیں۔۔
انہیں انصاف وہ اکیلا نہیں دلا سکتا تجا اسے کسی نہ کسی کی ضرورت تھی اور وہ بندہ ذیشان سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔۔
اب تم فیصلہ کر ہی چکے ہو تو میں تمہارے ساتھ ہوں یار۔۔ اس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر اس نے اسے یقین دلایا۔۔ جس پہ دونوں ہنس پڑے۔۔
***
سر آج آپ کی دوپہر آفندی گروپ آف انڈسٹریز کے ساتھ میٹنگ ہے۔۔ وہ ابھی گھر آیا تھا جب واصف نے اسے آج کے دب کی میٹنگز کا بتانا شروع کیا۔۔
اففف واصف۔۔ ابھی فریش تو ہو لینے دو مجھے۔۔ پھر دیکھتے ہیں۔۔ جب بلائوں تب بتانا مجھے۔۔ ابھی کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں۔۔ اپنی بات مکمل کر کے وہ کمرے کی جانب بڑھا۔۔
جبکہ واصف حیرت سے اس بندے کو دیکھ رہا تھا۔۔ اس کو یاد تھا کاسٹ ٹائم اس نے اسی بات پہ کتنا غصہ کیا تھا اور اب وہ بتا رہا تھا تو وہ ریسٹ کرنا چاہتا تھا۔۔
اس نے ایک گہرا سانس کے کر باہر کا رخ کیا کہ اب اس کو تبھی حاضر ہونا تھا جب اس کے باس کا حکم ہوتا۔۔
***
اسلام علیکم بھائی کیسے ہیں آپ۔۔ ابان ابھی فارغ ہوا تھا جب روشم کی کال آئی۔۔
میں بلکل ٹھیک ہقں ھڑیا تم سنائو تم کیسی ہو۔۔ پڑھائی کیسی جا رہی ہے۔۔ واپسی کی طرف راہ لیتے وہ فون کان کو کگائے اس سے باتیں کر رہا تھا۔۔
میں بھی ٹھیک ہوں بھائی اور پڑھائی بھی اچھی جا رہی ہے۔۔ وہ اداس سی بولی۔۔
کیا بات ہے گڑیا اداس کیوں ہو۔۔ کسی نے کچھ کہا ہے۔۔ ابان اس کی آواز میں چھپی اداسی کا عنصر اتنے میلوں کے فاصلے پہ بھی آسانی سے محسوس کر سکتا تھا۔۔
بھائی مجھے آپ سب کی یاد آ رہی ہے۔۔ بات کرتے ایک آنسو ٹوٹ کر اس کے گالوں پہ لڑھکا۔۔
قہ چاہے سب کے سامنے کتنی ہی بہادر کیوں نہ بن لیتی تھی لیکن سچ تو یہ تھا کہ وہ اندر سے سب کو بہت مس کر رہی تھی۔۔
ارے گڑیا تو اس میں اداس ہونے والی کیا بات ہے۔۔ میں آج ہی آ جاتا ہوں تمہیں لینے۔۔ ابان نے چٹکیوں میں حل نکالا تھا۔۔
نہیں بھائی۔۔ بھی فرسٹ سمسٹر کے فائنلز ہونے والےہیں۔۔ اس کے بعد دو ہفتے کی چھٹیاں ہیں تو پھر آئوں گی۔۔ انسو صاف کرتے وہ بولی۔۔
چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔۔ اماں کو کال کی تم نے۔۔ اب وہ گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔۔
نہیں۔۔ ان کو کال نہیں کی۔۔ اگر کرتی تو رونے لگ جاتی اور پھر وہ پریشان ہو جاتی۔۔ لہجہ اس کا ابھی بھی گلوگیر تھا۔۔
ہائے میری جان۔۔ ابھی تک چھوٹی سے گڑیا ہو۔۔ بلکل بچی۔۔ اس کی بات پہ وہ ہنسا۔۔
آپ مذاق اڑا رہے ہیں میرا۔۔ وہ سچ میں برا مان گئی تھی۔۔
نہ نہ میری مجال۔۔ اس بار اس نے مشکل سے ہنسی روکی۔۔
مجھے پتہ ہے آپ نے اپنی ہنسی روکی ہوئی ہے۔۔ روشم کی بات پہ اب اس کا بے اختیار قہقہہ پڑا تھا۔۔
بہت سیانی ہو گئی ہو یونی جا کر۔۔ ابان اسے تنگ کر رہا تھا تا کہ اس دھیان بٹ جائے اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوا تھا وہ فورا چہک کر بولی۔۔
سیانی تو میں پہلے ہی تھی بس آپ ہی مجھے بچہ گڑیا کہتے تھے۔۔ وہ اپنی جون میں اب واپس آ چکی تھی۔۔
ہاں تو تم ہو گڑیا۔۔ ننھی سی بچی۔۔ ابان نے اسے مزید تنگ کیا۔۔
ابان بھائی۔۔ وہ چیخی۔۔
اچھا بھئی۔۔ میری جان بہت سمجھدار ہو گئی ہے۔۔ اب خوش؟؟۔۔ انہوں نے اب اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔۔
یہ ہوئی نا بات۔۔ اچھا بھائی اب میں پڑھ لوں پھر بات ہوتی ہے۔۔ اور اماں کا بھی خیال نہ رکھنا اللہ حافظ ۔۔ وہ فون آف کر کے جا چکی تھی۔۔
جبکہ ابان اس کی بچوں سی حرکتوں پہ ابھی تک ہنس رہا تھا۔۔
***
سر کیا میں آپ کے کچھ منٹس لے سکتا ہوں۔۔ سر علوی کلاس لے رہے تھے جب ایڈمنیسٹریشن کے سر کاشف نے دروازہ ناک کیا۔۔
جی بلکل۔۔ انہیں اجازت دے کر وہ ایک سائڈ پہ ہو گئے
السلام علیکم ۔۔ تو کلاس آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے فائنلز ہونے والے ہیں۔۔ لیکن یونی نے آپ کا ٹور ارینج کیا ہے پانچ دن کا۔۔ جو کہ اسلام آبار مری نتھیا گلی اور پتریاٹا کا ہو گا۔۔ جو سٹوڈنٹس جانا چاہتے ہیں وہ پے منٹ دو دن تک جمع کروا دے۔۔ تھینک یو سر۔۔
کہہ ہر وہ رکے نہیں تھے باہر چلے گئے۔۔ جبکہ ان کے پیچھے بہت سی چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔۔
روشم تم جائو گی۔۔ نیلم نے اس کے کان میں پوچھا۔۔
پتہ نہیں یار۔۔ ابان بھائی سے پوچھ کر ہی کچھ بتائوں گی۔۔ اس نے بھی ہلکی آواز میں ہی جواب دیا۔۔
چلو ٹھیک ۔۔ اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کرتی سر عارف اونچی آواز میں بولے۔۔
سائلنس کلاس۔۔ آپ اس کے بارے میں کلاس کے بعد بھی ڈسکس کر سکتے ہیں۔۔ ابھی لیکچر پہ کنسنٹریٹ کریں۔۔ ان کی دھاڑ جیسی آواز پہ ساری کلاس ہی چپ کر گئی تھی۔۔
اور پھر سارے لیکچر کوئی نہ بولا تھا۔۔
کیا ہوا ہے۔۔ آ جائو باہر۔۔اس کو چئیر کے نیچے دیکھتے نیلم نے اس سے پوچھا۔۔
یار میرا بریسلٹ نہیں مل رہا۔۔ وہ ابھی تک نیچے جھکی تھی۔۔
تم دیکھو ادھر ہی ہو گا۔۔ میں ذرا امی سے اجازت لے آئوں ۔۔ نیلم تو باہر جا چکی گئی تھی۔۔
کلاس بھی آف ہو چکی تھی۔۔ لیکن اس کا بریسلٹ کہیں نہیں مل رہا تھا۔۔ تقریباً سبھی سٹوڈنٹس کلاس سے باہر جا چکے تھے۔۔ وہ کبھی جیئرز کے نیچے دیکھتی تو کبھی بیگ کو ٹٹولتی۔۔
لیکن وہاں کچھ ہوتا تو اسے ملتا نا۔۔ اسے تو یہ بھی ہوش نا تھا کہ کلاس میں اس کے علاوہ عرش میر موجود ہے۔۔ وہ تو بس اپنی ہی پریشانی میں تھی۔۔
اس کی ایک ایک حرکت کو وہ نوٹ کر رہا تھا۔۔ پھر موبائل نکال کر روحان کو ڈن کا میسج کیا۔۔
کیا ڈھونڈ رہی ہیں استانی صاحبہ۔۔ اپنی گاڑی کی چابی گھناتا وہ تمسخر انگیز لہجے میں پوچھ رہا تھا۔۔
تمہیں کوئی مسئلہ ہے۔۔ اپنے کام سے کام رکھو۔۔ ایک تو ٹینشن اوپر سے اس کے استانی صاحبہ کہنے سے وہ ہمیشہ کی طرح اور تپی تھی۔۔ آج اس کی بدتمیزی پہ وہ دل کھول کر ہنسا۔۔
اس سے پہلے کی ہنسی پہ اسے دو چار سناتی جو دروازہ ٹھک کی آواز سے بند ہو گیا۔۔
یہ کیا ہوا ہے۔۔ روشم کے تو صحیح معنوں میں طوطے اڑے تھے۔۔ وہ بھاگتی ہوئی دروازے کے پاس گئی۔۔ اور اسے زور زور سے کھولنے کی کوشش کرنے لگی۔۔
بیکار ہے سب۔۔ دروازہ لاک ہو گیا ہے۔۔ اس کے لہجے میں بشاشت اور کمینگی محسوس کر کے وہ حیرت زدہ سی مڑی۔۔
تم سے اسی قسم کی گھٹیا حرکت کی توقع کی جا سکتی ہے۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ سامنے کھڑے عرش میر کو آگ لگا دے۔۔
پھر تو تمہیں خوش ہونا چاہیے۔۔ تمہاری توقعات پہ پورا اترا ہوں میں۔۔ ہلکا سا جھک کر سر خم کرتا وہ پھر ہنسا۔۔
تمہیں میں چھوڑوں گی نہیں۔۔ دروازہ کھولو ذلیل انسان۔۔ اس کا گریبان پکڑتے وہ چیخی تھی۔۔
عرش میر نے ایک نظر اس کے ہاتھوں کو دیکھا پھر اس کو کمر سے پکڑ کر بورڈ کے ساتھ لگا دیا۔۔
تمہیں ایک مشورہ دوں جب انسان اس طرح کی سچویشن میں پھنس جائے تو اسے اپنی اکڑ کو سلا دینا چاہیے ورنہ نتائج بہت برے ہو سکتے ہیں۔۔ وہ اس کے کان کے اتنا قریب بول رہا تھا کہ اس کے ہلتے لب روشم کی کان کی لو کو چھو رہے تھے۔۔ اور اس کی کمر پہ اس کے ہاتھوں کی سختی سے روشم کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اس کی انگلیاں اس کے پیٹ میں ہی دھنس جائے گی۔۔
پلیز مجھے جانے دو۔۔ اب کہ ناچاہتے ہوئے بھی اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔۔
اور عرش میر۔۔ وہ یہی تو چاہتا تھا۔۔ یہی آنسو اس کی انا پہ لگے زخموں پہ مرحم بن کر گر رہے تھے۔۔
تھوڑا اور رو۔۔ تھوڑے اور آنسو بہائو۔۔ مجھے تسکین دے رہے ہیں یہ۔۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا وہ اپنی خواہش کو زبان پہ لے آیا تھا۔۔
پلیز جانے دو۔۔ وہ بے بس ماہی بے آب کی طرح اس کے بازوئوں میں تڑپ رہی تھی۔۔ آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر گالوں پہ بہہ رہے تھے۔۔
ایک گہرا سانس لے کر عرش میر الگ ہوا۔۔ موبائل پہ روحان کو میسج کرتے ہی دروازہ کٹک کی آواز پہ کھلا۔۔ اور روشم بھاگتی ہوئی دروازے سے باہر بھاگی۔۔
اس کا رخ سیدھا ہاسٹل کی طرف تھا۔۔ اور سیدھا کمرے میں آ کر ہی اس نے دم لیا تھا۔۔
کمرے میں آ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔ عرش میر کی انگلیوں کا دبائو اسے ابھی تک اپنی کمر پہ محسوس ہو رہا تھا۔۔
مر جائو تم منحوس انسان۔۔ وہ غصے سے چلائی۔۔ آنسوئوں کی برسات ابھی تک جاری تھی۔۔
اسے بچپن سے ہی کسی نے مارا تک نہ تھا۔۔ اماں ابان اور نمل نے اسے ہمیشہ پھولوں کی طرح رکھا تھا شاید اس لیے بھی کہ یہ ان کی باپ کی وصیت تھی۔۔
میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں عرش میر۔۔ آج جو کچھ تم نے کیا ہے۔۔ اس کو تمہیں بہت برا بھگتنا پڑے گا۔۔ خون کا جوش پھر سے ابل آیا تھا۔۔
وہ سوچ چکی تھی وہ نہیں روئے گی۔۔ بلکہ اب وہ روئے گا۔۔ اپنے انسو سختی سے صاف کر کے وہ واشروم کی طرف بڑھی۔۔
***
جب سے روشم گئی تھی وہ بلکل ٹرانس کی کیفیت میں ویسے ہی کھڑا تھا۔۔ وائٹ بورڈ پہ ایک ہاتھ جمائے سر نیچے کو جھٹکے وہ مسلسل اسی کو سوچ رہا تھا۔۔
اس کی روتی آنکھیں اس کی بے بسی جو پہلے اسے خوشی دے رہی تھی اب وہی آنکھیں اسے تکلیف میں مبتلا کر رہی تھی۔۔
یہی آنکھیں ایسی ہی بے بسی وہ شروع سے ہی تو اپنی ماں کی دیکھتا آ رہا تھا۔۔ اور ہر بار عہد کرتا تھا کہ کچھ بن کر وہ اپنی ماں کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہ آنے دے گا۔۔
ان کو ان سب تکلیفوں سے دور لے جانا چاہتا تھا۔۔ وہ جو اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتا تھا وہ کسی اور لڑکی کے لیے کیسے کر سکتا تھا۔۔
کیوں ایسا ہوا۔۔ کیا مجھ پہ بھی میرے خون کا اثر بڑھ گیا ہے؟؟۔۔ نہیں میں ایسا نہیں چاہتا تھا۔۔ میں اسے تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔۔ میں نے کیسے کر دیا یہ۔۔
اپنے بالوں کو اپنے ہاتھوں میں جکڑتا وہ انچی اونچی آواز سے بول رہا تھا۔۔ پوری کلاس میں صرف اسی کی آواز گونج رہی تھی۔۔
عرش میر کیا ہوا ہے۔۔ نومی جا چکا تھا۔۔ روحان جو کب سے اس کے باہر آنے کا ویٹ کر رہا تھا۔۔ اس کے نہ آنے پہ وہ کلاس میں دیکھنے آیا تھا۔۔ لیکن اندر عرش میر کو اس طرح دیکھ کر اسے حیرت ہوئی۔۔
روحان میں نہیں چاہتا تھا ایسے۔۔ مجھے نہیں پتہ میں نے کیوں کیا ایسا۔۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔ اس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا۔۔
یار کیا ہو گیا۔۔ کیا بولے جا رہا ہے۔۔ کچھ نہیں کیا تو نے۔۔ اٹھ یہاں سے۔۔ اسے زبردستی وہاں سے اٹھا کر وہ باہر لے آیا۔۔ جبکہ عرش میر تو بلکل روبوٹ کی طرح اس کے ساتھ جا رہا تھا۔۔
***
ندرت کیا بات ہے یہاں کیوں بیٹھی ہو۔۔ بے جی جگ میں پانی کینے باہر آئی تھی جب ندرت کو باہر لائونج میں بیٹھے دیکھا۔۔
کیا کر سکتی ہوں میں بے جی سوائے انتظار کے۔۔ مجھے تو لگتا ہے میری قسمت میں صرف انتظار لکھا ہے۔۔ اچھے وقت کا انتظار۔۔ خوش رہنے کا انتظار۔۔ عرشمان کا انتظار۔۔ سب انتظار ہی جان لیوا ہیں بے جی۔۔ اور میری زندگی لگتا ہے ان سب میں ہی گزر جائے گی۔۔
وہ مسکرائی۔۔ ایک تلخ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پہ آ کر معدوم ہو گئی۔۔ کیونکہ دک سے شاید اسے مسکرانا آیا ہی نا تھا۔۔
ایک گہرا سانس لے کر بے جی نے جگ پاس پڑے ٹیبل پہ رکھا اقر خود اس کا ہاتھ پخڑ اس کے ساتھ ہی صوفے پہ بیٹھ گئیں۔۔
مایوسی گناہ ہے۔۔ جانتی ہو نا۔۔ بہتر وقت ضرور آتا ہے۔۔ صدا رات نہ کبھی رہی ہے نا رہے گی۔۔ یہ میرے اللہ کا وعدہ ہے وہ کہتا ہے۔۔
ان مع العسر یسرا
بے شک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔۔
اس بات پہ اپنا ایمان مضبوط رکھو ندرت۔۔
اس کا ہاتھ پکڑے وہ اسے سمجھا رہی تھی۔۔ لیکن ندرت کی زندگی اس وقت مکمل مایوسی میں ڈوب چکی تھی۔۔
اللہ کرے کہ آسانی آ جائے بے جی۔۔ ورنہ ابھی تک مجھے عرشمان کے سدھرنے کے آثار تو نظر نہیں آ رہے۔۔ ندرت کا دل عرشمان سے کچھ ذیادہ ہی بدگمان تھا۔۔
ہدایت کا کیا ہے ندرت ۔۔ وہ اللہ اہے تو کسی بھی وقت کسی کو بھی دے سکتا ہے۔۔ ویسے گیا کدھر ہے وہ۔۔
وہ اس وقت سمجھنا نہیں چاہتی تھی اور انہوں نے اس کا موڈ دیکھتے ہوئے بات ہی بدل دی۔۔
آپ کو لگتا ہے بے جی کہ انہوں نے مجھے یہ حق دیا ہے؟؟۔۔ ان کی آنکھوں میں دیکھتی وہ بولی۔۔ جبکہ اس کی بات پہ بے جی نے آنکھیں چرا لیں۔۔
آپ جا کر سو جائیں۔۔ میرا تو یہ دوسرے تیسرے دن کا معمول ہے۔۔۔
ان کے آنکھیں چرانے پہ وہ آنکھیں نیچے کیے تلخی سے بولی۔۔ پتہ نہیں کیوں۔۔ پر آج وہ ذیادہ ہی تلخ ہو رہی تھی۔۔
ایک گہری سانس کے کر انہوں نے اس کی طرف دیکھا۔۔ پھر بغیر پانی پیے ہی کمرے میں چلی گئیں۔۔
انہیں ندرت کے لے دل سے افسوس تھا۔۔ اس کی تلخی کی وجہ بھی وہ جانتی تھی۔۔ اس لیے خاموشی سے اندر چلی گئیں۔۔
***
تم نے لے لی پرمیشن۔۔ وہ دونوں اس وقت اپنے کمرے میں تھی۔۔ نیلم کو روشم کل سے ہی کچھ بجھی بجھی سی لگ رہی تھی۔۔ آج وہ یونی بھی نہ گئی تھی۔۔ نہ ہی کوئی بات کی تھی بس صبح سے لیپ ٹاپ میں ہی بزی تھی۔۔
ہاں۔۔ کیا کہا تم نے۔۔ اپنی سوچوں میں وہ اتنی گم تھی کہ نیلم کی بات بھی صحیح سے سن نہ پائی۔۔
کیا ہوا ہے تمہیں روشم۔۔ میں کل سے نوٹ کر رہی ہوں۔۔ کوئی پرابلم ہے کیا۔۔ نیلم اب اس سے وجہ جان ہی لینا چاہتی تھی۔۔
نہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔ بس سر میں درد ہے ہلکا سا۔۔ خیر تم بتائو۔۔ کیا کہہ رہی تھی۔۔
نیلم کا دل تو نہ مانا تھا پر کریدنا اس کی عادت نہ تھی۔۔ اس لیے چپ کر گئی۔۔
کچھ نہیں میں کہہ رہی تھی تم نے ٹور کی پرمیشن لی؟؟۔۔ اس نے اپنی بات پھر سے دہرائی
نہیں یار میں نے تو نہیں لی۔۔ تم نے لے لی۔۔ ؟؟ اب اس طرح رہنے کا خوئی فائدہ نہ تھا۔۔ اسے روٹین کی طرف آنا تھا۔۔ آج نیلم نوٹ کر رہی تھی کل پوری کلاس کرتی۔۔ اور یہ سب ٹھیک نہیں تھا۔۔
ہاں یار میں نے تو لے لی۔۔ اب پیچھے دن ہی کتنے رہ گئے۔۔ اس ہفتے تو ٹرپ جانا ہے اور آج منگل ہے۔۔ تم نے کیوں نہیں لی پرمیشن۔۔ کل لاسٹ ڈیٹ ہے پیسے جمع کروانے کی۔۔
نیلم نے تو اس کی اچھی خاصی کلاس لے ڈالی تھی۔۔
ہار یاد نہیں رہا۔۔ اس کے بجھے جواب پہ نیلم کو تو تائو ہی آ گیا۔۔
کیا مطلب یاد نہیں رہا۔۔ چلو ابھی اپنے بھائی کو کال کرو اور ان سے پرمیشن لو۔۔ اس کا موبائل اس کے ہاتھ میں دے کر وہ اس کے پاس ہی بیٹھ گئی۔۔
روشم نے گہرا سانس لے کر نیلم کہ طرف دیکھا پھر کال ملائی جو دوسری بیل پہ ہی اٹھا لی گئی تھی۔۔
اسلام علیکم کیسی ہے میری گڑیا۔۔ فون کان سے لگائے وہ مصروف انداز میں بولا۔۔
وعلیکم اسلام بھائی۔۔ میں ٹھیک ہوں بھائی۔۔ وہ دراصل مجھے آپ سے اجازت لینی تھی۔۔ روشم ہچکچائی۔۔
کیسی اجازت۔۔
وہ۔۔ ٹور جا رہا ہے پانچ دن کے لیے مری سائڈ پہ۔۔ نیلم بھی جا رہی ہے ساتھ۔۔ آخر میں اس نے نیلم کا ریفرنس بھی دیا۔۔
ابان نیلم کو جانتا تھا۔۔ اور اس کے ساتھ ہونے سے اسے آسانی سے اجازت مل جاتی۔۔ کیونکہ نیلم ایک ذمہ دار لڑکی تھی۔۔
تو ٹھیک ہے گڑیا۔۔ نیلم ساتھ ہے تو چلی جائو۔۔ بس اپنا خیال رکھنا۔۔ اور مجھے اپنی خیریت کی اطلاع بھی ساتھ ساتھ دیتی رہنا۔۔ اوکے۔۔
ابان نے اسے فورا ہی اجازت دے دی۔۔
اوہ۔۔ تھینک یو بھائی۔۔ آئی لو یو سو مچ۔۔ اللہ حافظ ۔۔ روشم کی تو خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔۔
فون بند کر کے اس نے نیلم کی طرف دیکھا اور پھر جوش سے چلائی۔۔
نیلم مل گئی اجازت۔۔ اسے گلے سے لگائے وہ بلکل بچوں کی طرح خوش ہو رہی تھی۔۔ کل والی کسی بھی بات کا چہرے پہ شائبہ تک نہ تھا۔۔
اففف شکر ہے مجھے تو ڈر ہی لگ رہا تھا۔۔ چلو کل ہی فیس جمع کروا دینا۔۔ پھر شاپنگ کے لیے بھی تو جانا ہے۔۔
نیلم نے تو جھٹ پٹ ہی پلان بنا لیا تھا۔۔ جبکہ روشم تو پہلی بار فیملی ٹرپ کے علاوہ باہر جانے کا سوچ کر ہی بہت ایکسائٹڈ تھی۔۔
***
کل پھر وہ کسی کی لڑکی اٹھا کر اپنی رات رنگین کر چکا ہے ڈیش انسان۔۔ ابان اس وقت فل غصے میں تھا۔۔ صبح ہی اس نے گاؤں کا چکر لگایا تھا اور جو خبر اسے ملی تھی وہ اس کو شاک کرنے کو کافی تھی۔۔
روشم سے اس نے کس طرح غصہ کنٹرول کر کے بات کی تھی یہ بات صرف وہی جانتا تھا۔۔
ابان تم غصہ نہیں کرو۔۔ ذیشان نے اسے کول ڈاؤن کرنے کی ناکام کوشش کی۔۔
وہ لڑکیوں کی زندگیاں برباد کر رہا ہے اور تم کہہ رہے ہو غصہ نہ کروں۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اس وڈیرے کو قتل کر دے۔۔
تم نے اس لڑکی کے گھر والوں سے بات کی؟؟۔۔ وہ جانتا تھا وہ اب نہیں مانے گا۔۔ تو بہتر تھا کچھ سوال جواب ہی ہو جاتے۔۔
ہمم۔۔ کی ہے بات۔۔ وہ لڑکی والے ہیں ذیشان۔۔ اس بات کو وہ باہر لیک نہیں ہونا دینے چاہتے۔۔ ظاہر سی بات ہے۔۔ ان کی عزت کا سوال ہے آخر۔۔
اپنے ہاتھوں میں سر گرائے وہ تھکے ہوئے جواری کی طرح بیٹھا تھا۔۔ کتنی کوشش کی تھی اس نے ان لڑکیوں کو بچانے کی لیکن ایک پھر اس کی ہوس کا نشانہ بن ہی گئی تھی۔۔
پھر آگے کیا پلان ہے تمہارا۔۔ اس کے کندھے پہ سر رکھ کر ذیشان نے پوچھا۔۔
کیا پلان ہونا۔۔ مزید ثبوت اکٹھے کر کے پہلے اسے وارن کرتے ہیں۔۔ ہماری بات مانے۔۔ اور اپنی ذیادتیوں کو قبول کر کے ان لڑکیوں کو حق دے۔۔ اگر نہیں مانتا تو پھر تیار رہے مقابلے کے لیے۔۔
غصے سے اس کے جبڑے بھینچے ہوئے تھے۔۔ جبکہ ذیشان اس کے لہجے سے ہی اس کے ارادوں کی پختگی کا اندازہ لگا سکتا تھا۔۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...