سر آپ کی پاکستان کی کل کی سیٹ بک ہو گئی ہو۔۔ واصف مؤدب بنا دروازے کے پاس کھڑا تھا۔۔ جبکہ وہ اپنے اوپر پرفیوم سپرے کر رہا تھا۔۔
ہممم۔۔ کل کتنے بجے۔۔ پرفیوم ڈریسنگ پہ رکھے اب وہ کف لنکس باندھ رہا تھا۔۔
سر کل شام پانچ بجے۔۔ وہی مؤدبانہ انداز میں جواب آیا۔۔
ٹھیک ہے۔۔ میں مٹنگ سے آؤں تو ایک بار پھر مجھے یاد کروا دینا۔۔ اب تم۔ جا سکتے ہو۔۔
اس کے حکم کرتے ہی وہ جی سر کرتے کمرے سے نکل گیا۔۔
واصف کے جانے کے بعد اس نے ایک نظر خود کو پھر سے شیشے میں دیکھا۔۔ کبھی اس ملک میٹنگ کبھی اس ملک۔۔ اس پورے عرصے میں اس کی زندگی تو گھن چکر بن کر رہ گئی تھی۔۔
***
روشم جلدی کرو۔۔ وہ آ گیا ہے۔۔ نیلم جو دروازے پہ کھڑی باہر نظر باہر کی نظر رکھ رہی تھی۔۔ عرش میر کو دیکھ کر اس نے اسے آنے کی اطلاع دی۔۔
اپنا کام کر کے وہ سیدھی اپنی سیٹ پہ آئی۔۔ اس وقتکلاس میں ان کے علاوہ چند اور سٹوڈنٹس تھے جن کو وہ۔ کل کے واقعے کا بتا کر پہلے کی اعتماد میں لے چکی تھی۔۔ اس لیے کوئی بھی اسے نہیں بتانے والا تھا۔۔
عرش میر کے آنے سے پہلے وہ دونوں ہی اپنی سیٹ پہ آ کر بیٹھ گئی۔۔
وہ جو اپنے دوستوں سے ہنس ہنس کر باتیں کرتا آ رہا تھا۔۔ اپنے دھیان سے اپنی مخصوص سیٹ پہ آ کر بیٹھ گیا۔۔
لیکن بیٹھتے ہی اسے نیچے چپ چپ کا احساس ہوا۔۔ اٹھ کر کھڑا ہوا تو چیئر اور پینٹ شہد کی چپچپاہٹ سے بھری تھی۔۔
اس کی حالت دیکھ کر اب کہ پوری کلاس کا قہقہہ لگ تھا جس میں سب سے جاندار قہقہہ روشم کا تھا۔۔
اس نے غصے سے مڑ کر پیچھے دیکھا جہاں وہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔۔ کیونکہ کسی کو اسے بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ یہ کارنامہ کس نے کیا ہے۔۔
غصے سے وہ وہاں سے واک آؤٹ کر گیا جبکہ پیچھے روشم کا قہقہے اسے اپنی ذات پہ تازیانے کی طرح لگ رہے تھے۔۔
نومی اور روحان نے ایک افسوس بھری نگاہ اس پہ ڈالی۔۔ اب وہ بیچارے اس کو کہتے بھی تو کیا۔۔ اس نے خود ہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالا تھا۔۔
***
یار تم نے بدلہ لے تو لیا ہے لیکن اب نجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔ وہ دونوں ہنستے ہوئے کیفے ٹیریا پہنچی تو نیلم نے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔۔
یار۔۔ ڈرو نہیں کچھ بھی نہیں ہو گا۔۔ جسٹ چل۔۔ میں ہوں نا۔۔ اگر اس نے کچھ کیا تو اس کے ساتھ پھر اس سے بھی برا ہو گا۔۔ ابھی تو شہد لگایا تھااگلی بار گلیو لگاؤ گی۔۔
اس کی بات پہ اب نیلم بھی ہنستی تھی۔۔
اففف۔۔ کہاں سے آتےہیں تمہارے دماغ میں یہ پلینز۔۔ نیلم تو اس کےشرارتی دماغ کی فین ہو گئی تھی۔۔
جب انسان شیطانی دماغ لے کر پیدا ہوا ہو تو ایسے ہی ہوتا ہے۔۔ وہ دونوں اپنے دھیان میں تھی جب قریب ہی عرش میر کی آواز سن کر چونکی۔۔
وہ ان دونوں کے پاس ہی ٹیبل پہ ہاتھ باندھے کھڑا تھا جسے دونوں ہی اپنی مستی میں نہ دیکھ پائی تھیں۔۔
تم۔۔ اس کے تاثرات بدلے تھے لیکن فوراً ہی اس نے قابو پا لیا۔۔
ہاں میں۔۔ ٹیبل پہ ہاتھ رکھ کر وہ آگے کو جھکا۔۔
جو تم نے آج حرکت کی ہے نا۔۔ یہ بہت گھٹیا تھی۔۔ وہ لفظوں کو اتنی زور سے چبا کر بول رہا تھا کہ اس کے گلے کی اور دماغ کی رگیں پھول رہی تھی۔۔
ایک لمحے کو تو روشم اس کا غصہ دیکھ کر سہم گئی تھی۔۔ لیکن اس وقت بزدلی وہ دکھانا نہیں چاہتی تھی۔۔
تم نے جو کرنا ہے کرو۔۔ میں تم سے ڈرتی نہیں ہوں مسٹر عرش میر خان۔۔ کرسی سے کھڑی ہو کر عرش میر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولتی وہ اس کے غصے کو ہوا دے رہی تھی۔۔
چلو نیلم۔۔ اپنا بیگ ٹیبل سے اٹھا کر وہ وہاں رکی نہیں تھی۔۔۔ بلکہ نکلتی چلی گئی تھی۔۔ جبکہ نیلم عرش میر کا چہرہ دیکھ کر فوراً ہی وہاں سے رفوچکر ہوئی۔۔
دیکھ لوں گا تمہیں۔۔ وہ چلی گئی تھی۔۔ لیکن عرش میر ایسے بولا جیسے وہ اس کے سامنے ہو۔۔ اتنا غصہ اسے شاید ہی کبھی آیا ہو۔۔ لیکن فی الحال اسے کنٹرول کرنا تھا۔۔
***
سر آپ نے یہ نیوز شائع ہونے کیوں نہیں دی۔۔ جبکہ اس کے سارے شواہد اور ثبوت میرے پاس ہیں۔۔
ابان اس وقت اپنے باس کے سامنے کھڑا تھا جو اس چینل کے اونر تھی۔۔ اس نے سندھ میں بڑھتے ہوئے وڈیرہ نظام کے ظلم کی ساری انفارمیشن حاصل کرنے کے لیے اتنی محنت کی تھی۔۔
اور اس پہ ہی اس نے چند شواہد کے ساتھ کالم اداریے میں لکھا تھا جسےغفار صاحب نے ریجیکٹ کر دیا تھا۔۔
کیا اس کی وجہ آپ نہیں جانتے مسٹر ابان؟؟۔۔ جن وڈیروں پہ آپ نے یہ کالم لکھا ہے وہی ہمارے چینل کو سپورٹ کرتے ہیں۔۔ اگر ہم انہی کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے لگے تو ہمیں سپورٹ کون کرے گا۔۔
غفار صاحب کے کہنے پہ اس نے سختی سے اپنے لب بھینچے۔۔ وہ اچھے سے جانتا تھا وہ رشوت خوری کو سپورٹ کا نام دے رہے ہیں۔۔
لیکن سر ان مظلوموں کا کیا جو ان کی غلامی میں پس رہے ہیں۔۔ کیا انہیں انصاف دلانا ہمارا کام نہیں؟؟۔۔ ابان انہیں ہر طرح سے قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔
دیکھو ابان۔۔ اس ملک میں اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔۔ تم ان کو دیکھو۔۔ ان پہ کوریج بناؤ۔۔ تمہارا کام اس چینل کی ریٹنگ کو بڑھانا ہے نا کہ ہمارا کاروبار ٹھپ کرنا۔۔
ابا کو ان کی باتوں سے غصہ تو بہت آ رہا تھا مگر اس وقت وہ کہہ کچھ نہیں سکتا تھا۔۔ اس لیے چپ کر کے “جی سر” کہتا وہ باہر آ گیا۔۔
لیکن دل میں وہ ٹھان چکا تھا۔۔ ان سب کو انجام تک پہنچا کر ہی دم لے گا۔۔
***
سمجھ آ گئی۔۔ اس مشکل کیا تھا۔۔ خامخواں پریشان ہو رہی تھی بس۔۔ وہ اس وقت کلاس فیلو نیلوفر کو ٹاپک سمجھا رہی تھی اس بات سے بے خبر کہ پیچھے عرش میر نامی جلاد بیٹھا ہے۔۔
اس کی بات سن کر بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔۔
استانی صاحبہ۔۔ ساتھ ایک طنزیہ مسکان بھی۔۔ روشم کو تو اس کی آواز سن کر ہی غصہ چڑھ گیا۔۔ قدرے نخوت سے اس نے پیچھے اسے منہ کر دیکھا جہاں وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔
ہاتھ سے ہیلو کا سائن دے کر اس کی بالوں کی طرف اشارہ کیا۔۔ روشم نے غیر ارادی طور پہ اپنےبالوں پہ ہاتھ پھیرا جو کہ وہی درمیان میں رک گیا۔۔
کیونکہ ایک چیونگم اس کے بالوں پہ بری طرح چپکی اور ہاتھ پھیرتے اس کا ہاتھ بھی اس کی زد میں آیا۔۔
اس کا منہ کھلا دیکھ کر عرش میر کا قہقہہ پڑا۔۔ آخر اس نے شہد لگایا تھا تو وہ کیوں پیچھے رہتا۔۔
کیا ہوا روشم۔۔ نیلوفر جو لکھنے میں مصروف تھی اس کا دھیان روشم کی طرف نہ گیا تھا اس کو اپنے بالوں سے الجھتے پوچھا۔۔
کچھ نہیں۔۔ ایک جاہل نے بالوں پہ ببل لگا دی ہے۔۔ اب چپک گئے ہیں سارے۔۔ اس نے جان بوجھ کر جاہل اونچی آواز میں بولا تھا تا کہ وہ سن لے۔۔
لیکن اس کے جاہل بولنے پہ وہ غصہ ہونے کی بجائے قہقہہ لگاتا اس کے پاس آیا۔۔
اس جاہل نے ببل کو اچھے طرح چبا کر تمہارے بولوں پہ لگایا ہے۔۔ اس لیے اس سے جان چھڑوانے کے لیے شاید تمہیں انہیں کاٹنا پڑا۔۔ مگر کوئی نہیں۔۔ ان کی ہاف لینتھ دیکھ کر یقیناً تمہیں بار بار نصیحت ہوتی رہے گی استانی صاحبہ ۔۔
ہنستے ہوئے وہ کہتا کلاس سے ہی باہر چلا گیا۔۔ جبکہ روشم کا پارہ ساتویں آسمان کو پہنچ رہا تھا۔۔
روشم۔۔ پلیز تم اس کے ساتھ اب مت الجھنا۔۔ یہ وڈیرے لقگ ذرا کھسکے ہی ہوتے ہیں۔۔ ناجانے کب ان کا میٹر گھوم جائے کچھ پتہ نہیں چلتا۔۔ تم پلیز اس کو اگنور کرو۔۔
نیلوفر اسے سمجھا رہی تھی وہ نہیں چاہتی تھی اس پیاری سی لڑکی کا کسی بھی قسم کا کوئی کنفلیکٹ ہو۔۔
ڈونٹ وری نیلوفر۔۔ اینٹ کا جواب پتھر سے کیسے دینا ہے مجھے خوب آتا ہے۔۔ اپنے بالوں سے الجھتی بیگ پکڑ کر وہ بھی باہر ہی گئی تھی۔۔
جبکہ نیلوفر اسے افسوس سے جاتا دیکھتی رہی تھی۔۔
***
اففف نکالو اسے۔۔ وہ یونی سے سیدھا ہاسٹل آئی تھی اور اب کمرے میں بیٹھے نیلم پہ چیخ رہی تھی۔۔
نکالنے کی کوشش تو کر رہی ہوں۔۔ لیکن یہ نکلنے والی نہیں ہے تمہیں بال کٹوانے ہی پڑیں گئے۔۔ نیلم کب سے اس کے بالوں پہ مختلف قسم کے ٹوٹکے کر چکی تھی مگر وہ بھی عرش میر کی طرح ڈھیٹ تھی۔۔
ایسے کیسے اتر جاتی۔۔ اتنی تگ و دو کے بعد بھی وہ ویسے ہی چپکی تھی۔۔
یارر۔۔ میں بال نہیں کٹوانا چاہتی۔۔ اماں کو اتنے پسند ہیں۔۔ ان کو پتہ چلا تو ناراض ہو جائیں گی مجھ سے۔۔
اب کہ روشم۔ واقعی رونے والی ہو گئی تھی۔۔ اماں کی بات پہ ایک آنسو بھی نکل آیا تھا۔۔ اس نے سوچا تھا کہ اس ویک اینڈ پہ جائے گی دل ویسے بھی بہت اداس تھا۔۔
لیکن اس عرش میر کے بچے نے اس کا سارا پلان خراب کر دیا تھا۔۔ اب وہ جائے گی تو یقیناً اماں سوال کرے گی۔۔ بس یہی فکر اس کو کھائے جا رہی تھی۔۔
تو کس نے کہا تھا پنگے لو اس سے۔۔ اب بھگتو۔۔ نیلم کو بھی اب غصہ آ گیا تھا۔۔
تم نہ بس مجھے ہی غلط کہنا۔۔ یہ نہیں کہ کبھی میری سائڈ ہی لے لو۔۔ مگر نہیں تم نے تو ہمیشہ مجھے غلط کہنا ہوتا ہے۔۔ تم مجھے بتا ہی دو۔۔ تم میری دوست ہو یا دشمن۔۔
اس کے ہاتھ سے برش لے کر وہ اب نیلم سے دو دو ہاتھ کرنے لے موڈ میں تھی۔۔
یہ مجھ پہ غصہ کرنے کی بجائے تم ذرا فضول کے پھڈے لینے سے باز آ جاؤ تو کام ذیادہ بہتر ہو جائے۔۔ اب سیدھی ہو کر بیٹھو۔۔ یہ بال کاٹوں تمہارے۔۔
ہاتھ میں قینچی لے کر وہ اس کی طرف بڑھی۔۔
یار۔۔ یہ ظلم نہیں کرو۔۔ کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔۔ بال کٹنے کے ڈر سے اس نے اپنے بالوں کو ہاتھ میں پکڑ کر چھپانے کی ناکام سی کوشش کی۔۔
اگر اب تم نے کوئی اور بات کہ نا۔۔ تو اس قینچی سے تمہارے بالوں کی جگہ تمہاری زبان کاٹوں گی۔۔
نیلم کو پتہ تھا کہ اب یہ گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلنے والا۔۔ اس لیے دھمکی دینا ضروری سمجھا۔۔
کاٹ لو بال میری تم بد تمیز عورت۔۔ شاید کاٹ کر ہی تمہارے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جائے۔۔ ناراضی سے ہی سہی اس نے مان لی تھی اس کی بات۔۔
اور جب نیلم نے اس کے بال کاٹے تو روشم کو لگا وہ اس کے بال نہیں اس کی زندگی کاٹ رہی ہے۔۔ اپنے عزیز از جان بالوں کو اس نے زمیں پہ بے جان پڑے افسوس سے دیکھا۔۔ لیکن اب کوئی فائدہ نہ تھا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...