کیسی طبیعت ہے اب۔۔ وہ اٹھی تو سر میں ٹیسیں اٹھ رہی تھی۔۔ شاید چوٹ ذیادہ لگی تھی اس لیے۔۔ اس کے حواس بھی ابھی ٹھیک سے بیدار نہ ہوا تھا جب اسے بے جی کی آواز سنائی دی۔۔
ایک خاموش نظر اس نے بے جی پہ ڈالی۔۔ زبان سے کچھ نہ کہا تھا مگر آنکھیں سب کہہ رہی تھی۔۔ شکوہ بے بسی درد اپنی ذات کی نفی کی تکلیف۔۔ کیا کچھ نہ تھا ان میں۔۔
کیوں آپ نے میری اپنے بیٹے سے شادی کروائی۔۔ کیوں نہ روکا مجھے اس کی دلہن بننے سے۔۔ بات کرتے ساتھ آنسو خودبخود نکل کر کن پٹیوں میں جذب ہو گئے۔۔
اس کی بات پہ انہوں نے اپنے لب کاٹے۔۔ اس کی تکلیف وہ بخوبی محسوس کر سکتی تھی۔۔
اگر میری اتنی اہمیت ہوتی تو میں عرشمان کو کبھی ایسا بننے ہی نہ دیتی جیسا وہ ہے۔۔ بات کرتے ان کے لہجے میں بے بسی ندرت اچھی طرح محسوس کر سکتی تھی۔۔
دونوں ایک ہی سانپ کی ڈسی تھی۔۔ ایک ہی طرح کا زہر ان کی رگ رگ کو تکلیف دے رہا تھا۔۔ وہ تو کچھ نہ بھی کہتی تو سمجھ جاتی ایکدوسرے کو۔۔ ندرت اب خاموش رہی۔۔
تم ریسٹ کرو۔۔ وڈی اماں کو ہم دونوں کو نہ ملی تو طوفان کھڑا کر دے گی۔۔ کوئی بھی چیز چاہیے ہو تو مجھے آواز دے لینا۔۔ اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتی وہ اٹھ گئی۔۔ وہ اتنا ہی کہہ سکتی تھی کیونکہ ان کے بس میں صرف اتنا سا ہی تھا۔۔
***
اسلام علیکم سر۔۔ سر غفور کی کلاس آف ہوتے ہی وہ ان کے پیچھے لپکی۔۔
وعلیکم السلام۔۔ جی کہیے بیٹا۔۔ کلاس کی سائڈ پہ رک کر انہوں نے اسے کہا۔۔ باقی سٹوڈنٹس ابھی کلاس سے نکل رہے تھے۔۔
سر وہ ایکچویلی میں ایک ہفتہ لیٹ ہوں تو کیا مجھے نوٹس مل سکتے ہیں پچھلے لیکچرز لے۔ اس نے یہ نیلم سے بھی مانگے تھے پر وہ نکمی نے بنائے ہوتے تو دیتی۔۔
صحیح۔۔ آپ ایسا کرے کلاس کے سی آر سے لے لیں۔۔ میں نے ان کو ہی ہینڈ اوور کر دیے تھے۔۔
اوکے سر۔۔ تھینک یو سو مچ۔۔ وہ سر ہلا کر جا چکے تھے۔۔ جبکہ پیچھے روشم کے لیے ابھی بھی مسئلہ تھا۔۔ کیونکہ آج تو دوسرا دن اس کا یونی کا۔۔ اور آج ہی دن نیلم بھی نہ آئی تھی تو سی آر کلاس کا کون تھا اسے معلوم ہی نہیں تھا۔۔
اففف۔۔ اب کیا کروں۔۔ نیلم کو کال کرتی ہوں۔۔پرسوں تو کویز رکھ دیا ہے سر نے۔۔ ایک دل پہلے ہی نوٹس کاپی کروا لیتی ہوں۔۔ کچھ سوچتے اس نے نیلم کو کال ملائی جو دوسری ہی بیل پہ پک کر لی گئی تھی۔۔
کہاں ہو لڑکی۔۔ فون اٹھتے ہی اس نے سوال۔ داغا۔۔
سو رہی تھی یار۔۔ ابھی اٹھی ہون۔۔۔ تم بتاؤ۔۔ اس کی آواز کا بھاری پن بتا رہا تھا۔۔
کیا ہوا ہے طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی۔۔
ہاں اب بہتر ہے بسس۔۔ تم کہو سب خیریت ہے نا۔۔ نیلم۔ کو لگ رہا تھا کوئی مسئلہ ہی ہو گا۔۔
یار وہ مجھے بتاؤ ہماری کلاس کا سی آر کون ہے۔۔ اس کے پاس سر نے نوتس رکھوائے ہیں۔۔ وہ لینے ہیں۔۔ وہ ایک ہی سانس میں سب بولتی چلی گئی۔۔
جبکہ روشم کی بات سن کر نیلم جو ہنسنا شروع ہوئی تھی تو ہنستی ہی چلی گئی تھی۔۔
تمہیں کیا ہوا ہے؟۔۔ کویی دورہ تو نہیں پڑ گیا؟۔۔ روشم کو اس کے ہنسنے پہ حیرت ہوئی۔۔
میری بہن جب تم میری ہنسنے کی وجہ سنو گی تو تمہیں دورہ نہیں۔۔ سانپ سونگھ جائے گا۔۔ وہ ابھی بھی ہنس رہی تھی۔۔
کیوں ایسی کیا بات ہے۔۔
بات یہ ہے کہ ہمارا سی آر مسٹر عرش میر خان ہے۔۔ اب کہ وہ دوبارہ ہنسنا شروع ہوئی تھی۔۔ اور روشم کو تو سچ میں سانپ سونگھ گیا تھا۔۔
نہ کرو یار۔۔ اس کی مری مری آوازنکلی۔۔
میں کیا نہ کروں۔۔ اب اس کو سی آٰر اس کے نمبرز نے بنایا ہے میں نے نہیں۔۔ وہ اس کی حالت کو اب انجوائے کر رہی تھی۔۔
یار اب میں کیا کروں گی۔۔ تم آؤ ابھی۔۔ اور اس سے نوٹس مانگو۔۔ مجھے اس کے منہ بھی نہیں لگنا۔۔ روشم اس کو دیکھنا بھی نہ چاہتی تھی۔۔
یار اب میں تمہیں کیا کہہ سکتی ہوں سوائے اس کے کہ یہ یونی ہے اور یہاں مصیبت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے۔۔ اس لیے ریلیکس۔۔ وہ اس کو کام ڈاؤن کرتے بولی۔۔
یا اللہ ایک تو میری قسمت ہی اس معاملے میں بہت خراب ہے۔۔ جس سے پھڈا ڈالو اا سے ہی کام پڑ جاتا ہے۔۔ چلو کرتی ہوں میں کچھ۔۔ کال بند کر کے وہ اب عرش میر کو ڈھونڈ رہی تھی کہ اب اسے گدھے کو باپ بنانا تھا۔۔
اس کے ڈھونڈنے پہ وہ اسے کیفے میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا نظر آ گیا۔۔
ایک گہری سانس لیتے خود پہ آیت الکرسی اور آ لتو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو کا ورد کر کے وہ اس کی طرف بڑھی۔۔
ایکسکیوزمی مسٹر عرش۔۔ نسوانی آواز پہ اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔۔ اور آنے والی ہستی کو دیکھ کر عرش کے ساتھ ساتھ روحان اور نومی بھی حیران ہوئے تھے اور سوچ رہے تھے کہ
اس لڑکی کو اپنی جان عزیز نہیں ہے۔۔ کل کی بات کے بات کے بعد آج کے دن ہی وارد ہو گئی تھی۔۔ یہ تو انہیں پتہ تھا کہ وہ انکی کلاس کی ہی ہے۔۔
بولو بی بی۔۔ ایک نظر اسے دیکھ کر وہ دوبارہ فون میں کھو گیا۔۔
بی بی پہ اس کا خون تو کھولا تھا لیکن کام تھا اس وقت اسے۔۔
وہ۔۔ نجھے سر عارف کے نوٹس چاہیے تھے انہوں نے کہا تمہارے پاس ہیں تو اس لیے وہ مجھے دے دو۔۔ میں کاپی کروا کر واپس کر دوں گی۔۔
روشم پتہ نہیں کیوں اسے اتنی وضاحت دے رہی تھی شاید اس لیے تا کہ وہ سٹڈیز کے معاملے میں اس سے دشمنی نہ نکالے۔۔
اس کی بات پہ اس نے پاس پڑا اپنا بیگ اٹھایا اور بنا کچھ کہے اس میں سے نوٹس نکال کر اس کے حوالے کر دیے۔۔
روشم تو اس کی اس مہربانی پہ جتنا حیران ہوتی کم تھا۔۔ اسے تھا وہ اس سے بدلہ لے گا لیکن اس کی اس حرکت نے اسے شاکڈکر دیا تھا۔۔
نوٹس لیتے وہ اس کے چہرے کے تاثرات بخوبی پہچان چکا تھا اس لیے جب بولا تو لہجے میں ٹھہراؤ تھا۔۔
میں ایک اصول پسند انسان ہوں۔۔ جس بات پہ ہمارا اختلاف ہے تمہیں اسی میں جواب دوں گا۔۔ اتنا کم ظرف نہیں عرش میر کہ ایسی چیزوں سے اپنا بدلہ لے۔۔ اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا وہ روشم کو حیران کر گیا۔۔
وہ واقعی اس بار اس سے امپریس ہوئی تھی۔۔ لیکن افسوس اب وہ اس کا دشمن تھا۔۔
شکریہ۔۔ نوٹس بیگ میں ڈالے وہ وہاں سے چلی گئی تھی جبکہ روحان اور نومی نے اسے حیرت سے دیکھا۔۔
تم نے خوامخواہ اسے نوٹس دے دیے۔۔ رہنے دیتے تھوڑا خوار ہوتی تو اسے بھی سنجھ آتی۔۔ سب سے پہلے نومی کو ہوش آیا۔۔
تم لوگ پریشان کیوں ہوتے ہو۔۔ میں ان لوگوں کو زہر سے نہیں مارتا جو گڑ سے مر جاتے ہو۔۔ یہ تو پھر نازک سی لڑکی ہے اسے تو گڑ کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کی ضرورت ہے۔۔
اس کی بات پہ وہ پر اسرار سا ہنستا مسکرایا۔۔ جبکہ اب کے اس کی ہنسی میں دونوں کی ہنسی بھی شامل تھا۔۔ کیونکہ وہ دونوں جانتے تھے عرش میر موقع پہ چوکا مارنے والا بندہ ہے۔۔
***
اماں کو میں نظر نہیں آیا۔۔ کیا کچھ نہیں کیا میں نے اس گدی کو پانے کے لیے۔۔ اور فقط چھوٹا ہونے کی وجہ سے اماں اسے چن رہی ہے۔۔
ایک اگ تھی جو ہاشم کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھی۔۔ اس نے جب سے سنا تھا اس کا خون کھول رہا تھا۔۔
نہیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔۔ یہ گدی میری زندگی ہے۔ اور مجھے اس کے لہے جس حد تک جانا پڑا میں جاؤں گا۔۔
غصے سے اس کی کن پٹیوں کی رگ پھول رہی تھی۔۔
تم دیکھتے جاؤ ویرے میں کیا کرتا ہوں۔۔ کم از کم تمہیں اس گدی پہ بیٹھنے نہ دون گا میں۔۔
ٹیرس کیریلنگ کو پکڑتے وہ مسکرایا۔۔ ایک شیطانی مسکراہٹ۔۔
***
عفان۔۔ وہ تیار ہو رہا تھا جب اس نے اسے پکارا۔۔
ہاں بولو مائی لیڈی۔۔ مرر سے ہٹ کر وہ اس کے قریب آیا۔۔
عفان آج آفس نہ جائیں۔۔ اس کی ٹائی کو چھیڑتے وہ جیسے فرمائش کر رہی تھی۔۔
لیڈی آج جانا ضروری ہے۔۔ ایک اہم میٹنگ ہے۔۔ اس کے بالوں کو کان کے پیچھے اڑستا وہ اسے پیار سے سمجھا رہا تھا۔۔
نہ جاؤ نا۔۔ میرا دل گھبرا رہا ہے۔۔ طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے مجھے میری۔۔ پلیز مت جاؤ۔۔ لیکن وہ ماننا نہیں چاہتی تھی اس کے کندھے پہ سر رکھ کر وہ لاڈ سے بولی۔۔
جاناں۔۔ تہارا موڈ سوینگ ہو رہا ہے اور کچھ نہیں۔۔ تم عظمیٰ آپی کو بلا لو۔۔ اگر طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تو۔۔ میں میٹنگ کے بعد فوراً واپس آ جاؤں گا۔۔
پیار اے اس کا سر کندھے سے ہٹایا۔۔
میں کال کر کے بلا لیتا ہوں عظمیٰ آپی کو۔۔ تم ذیادہ پریشان نہ ہو۔۔ اوکے۔۔ میں بھی جلدی آ جاؤں گا۔۔ اس کے گال تھپتھپاتا وہ باہر کی طرف چل دیا۔۔
جبکہ آسیہ کا دل کیا کہ چیخ چیخ کر اسے بولے آج مت جاؤ۔۔ رک جاؤ۔۔ کچھ غلط ہونے کا احساس اسے مسلسل ہو رہا تھا جسے عفان محسوس کرنے سے قاصر تھا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...