وہ سب لوگ تیار ہو کر ائرپورٹ کے لیے نکل گئے تھے۔
عنیزہ اور نوال گھر ہی تھیں۔
باہر کھڑے وہ لوگ ان کا ویٹ کر رہے تھے۔
ماما میں تھک گیا ہوں کب آئیں گے وہ لوگ باہر؟
ابراھیم بےزار سا بولا۔
بری بات ابراھیم۔
آتے ہی ہوں گے۔
یار گھنٹے سے اوپر ہو گیا ہے۔
کہیں ان لوگوں نے آنے کا پروگرام کینسل تو نہیں کر دیا۔
وہ عفت بیگم کی طرف دیکھ کے بولا۔
کبھی اچھی بات بھی بول لیتے ہیں ابراھیم۔
عفت بیگم اسے گھوری سے نواز کر بولیں۔
ماما ہو بھی تو سکتا ہی ہے۔
آ گئے وہ لوگ۔۔
فواد صاحب ان کو باہر آتا ہوا دیکھ کے بولے۔
شکر ہے۔
ابراھیم بولا۔
حازم اس کے شکر کہنے پر مسکرایا۔
بھائی اب آپ شادی شدہ ہیں تو۔۔
تھوڑا لڑکیوں کی طرف دیکھ کے مسکرانے سے گریز کریں۔
شرم کرو تھوڑی سی۔
کتنا بڑا ہوں میں تم سے۔
حازم خوفگی سے بولا۔
اچھا سوری۔۔
مسکرا لیں مسکرا لیں۔۔
اگر بھابھی آپ کو مسکراتا ہوا دیکھ لیں تو سہی سیٹ کریں گی۔
ابراھیم کہ کے آگے بڑھ گیا۔
حازم اسے دیکھ کے رہ گیا تھا۔
وہ لوگ چلتے ہوۓ ان تک پہنچے۔
سب باری باری ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔
حازم نے دور سے ہی سحر کو سلام کیا۔
وہ جواب دیتی اس تک آئی۔
حازم سے ملنے کے لیے وہ آگے کو ہوئی ہی تھی جب وہ بولا۔
سٹے آوے۔۔
کہ کے وہ پیچھے کو ہوا۔
واٹ ڈو یو مین ٹو سے؟
وہ نا سمجھی سے بولی۔
منہ سے سلام ہو گیا نا۔۔ یہی کافی ہے۔
حازم سنجیدگی لیے بولا۔
اففففف۔۔
مطلب سیریسلی۔۔
اس نے نخوت سے سر جھٹکا۔
وہ سلیولیس شرٹ پہنے ہوۓ تھی جو بامشکل اس کی قمر ڈانپ رہی تھی۔ ساتھ اس نے جینز پہنی ہوئی تھی۔ بالوں کی پونی ٹیل بنائے آنکھوں پر گوگلز لگائے حازم کے سامنے کھڑی تھی۔
یس۔۔
وہ دوسری طرف دیکھتا صرف اتنا ہی بولا۔
شادی کیا ہوئی تمھارے تو رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے۔ پہلے تو ایسے نہیں تھے۔ یا پھر تمہاری بیوی نے روکا ہے۔
وہ گوگلز اتار کے بولی۔
مجھے نہیں یاد پڑتا کے پہلے کبھی کوئی خاص ہماری ملاقات ہوئی ہو۔ جو ہم اتنا فرینکلی ملے ہوں۔ جہاں تک روکنے کی بات ہے یہ تمہارا مسلہ نہیں ہے۔ اور مین بات ہمارا اسلام ہمیں اجازت نہیں دیتا کسی نا محرم سے ملنے کا۔
وہ سنجیدگی سے کہتا فواد صاحب لوگوں کی طرف بڑھ گیا۔
وہ بھی پیر پٹکھتی اپنی ماما کے پاس آئی۔
ماما گھر چلیں یا یہیں رہنے کا ارادہ ہے؟
صبح سے تھک گئی ہوں۔ باتیں تو بعد میں بھی ہو سکتیں ہیں۔
وہ بغیر کسی کا لحاظ کیے بولی۔
ہاں ہاں چلو۔
میں بھی بہت تھک گیا ہوں۔
حیدر صاحب بولے۔
سب گاڑیوں میں بیٹھ کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنیزہ اٹھو۔۔
ہم لوگ واپس آ گئے ہیں۔
حازم اسے اٹھا رہا تھا۔ ان لوگوں کو واپس آتے آتے کافی ٹائم ہو گیا تھا۔ عنیزہ اور نوال دونوں اپنے اپنے کمروں میں سو چکی تھیں۔
اچھا اٹھتی ہوں۔
وہ کہ کے سائیڈ بدل گئی۔
یار اٹھ جاؤ نا کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔
میں ابھی تو سوئی ہوں۔
وہ آہستہ سے بولی۔
کھانا کھا کے پھر جتنا مرضی سو لینا۔ اب اٹھو شاباش۔۔
حازم نے بلینکٹ تھوڑا سا کھینچا۔
کیا ہے؟
سو لینے دو تو۔
وہ بیٹھ کے منمنائی۔
کھانا کھا لو پھر سو جانا۔
حازم نے ٹرے اس کے سامنے رکھی اور خود بھی بیٹھ گیا۔
میرا موڈ نہیں ہو رہا۔
اس لیے میں نہیں کھاؤں گی۔
وہ آنکھیں ملتے ہوۓ بولی۔
تم کھاؤ گی۔ یہ ماما نے بیجھا ہے اور وہ کہ رہیں تھی کے ضرور کھلانا ہے تمھے۔
کہتے ھی حازم نے چاولوں سے بھرا سپنوں اس کے منہ کی طرف بڑھایا۔
وہ منہ بناتی کھا گئی۔
آہستہ آہستہ وہ چپ چاپ حازم کے ہاتھ سے ھی کھانے لگی۔
حازم تم لوگ تو اپنے چاچو کو لینے گئے تھے؟
وہ اس کی طرف دیکھ کے بولی۔
ہاں۔۔
تو کیا وہ لوگ آ گئے؟
اس نے پھر سوال کیا۔
ہاں آ گئے ہیں۔
حازم سپون اس کے آگے کرتا بولا۔
اوہ۔۔
تو تم نے بتایا کیوں نہیں۔
میں مل لیتی ان سے۔
ابھی وہ لوگ اپنے گھر چلے گئے ہیں۔ یہاں نہیں آئے۔ کل ان کا لنچ ہماری طرف ہے تب مل لینا۔
اچھا۔۔
وہ سوچنے کے سے انداز میں بولی۔
اب بس۔۔
وہ ٹرے کو پیچھے کر کے بولی۔
مجھے نیند آ رہی ہے۔
اچھا ٹھیک ہے۔
تم سو جاؤ۔
حازم ٹرے اٹھا کے کمرے کی لائٹ اوف کرتا باہر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ صبح صبح کیا پڑھنے بیٹھ گئی آج؟
حازم قد دراز آئینے کے سامنے کھڑا اپنے بال برش کر رہا تھا تو عنیزہ کی طرف دیکھ کے بولا۔
وہ صوفے پر بیٹھی بک آگے رکھے کچھ پڑھنے میں مصروف تھی۔ پڑھ تو کم ہی رہی تھی پر کچھ سوچ زیادہ رہی تھی۔
یہ میرا ناول۔۔
وہ خوشی سے بولی۔
اچھا۔۔
تو اس میں کیا ہے ایسا جو تم اتنا خوش ہو رہی ہو؟
حازم اسے ایک نظر دیکھ کے بولا۔
اس میں بہت کچھ ہے۔ تم نہیں سمجھ سکتے۔
وہ بالکونی کی طرف دیکھتی آہستہ آواز میں بولی۔
کیوں؟
میں کیوں نہیں سمجھ سکتا۔
حازم بیڈ پر بیٹھ گیا تھا ساتھ ساتھ شوز اتار رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس سے پوچھ رہا تھا۔
یہ مجھے نہیں پتہ۔ میں ابھی کچھ سوچ رہی ہوں تو پلیز چپ رہو۔
وہ منہ بنا کے بولی۔
جا رہا ہوں میں سکون سے سارا دن بیٹھ کے سوچتی رہنا۔ پہلے یہ بتاؤ وہ بیگز کھول کے دیکھے تھے؟
وہ اب پوری طرح سے اس کی طرف متوجہ ہو کر بولا۔
ہمم دیکھے تھے۔
اس میں کچھ چیزیں تھیں اور ساتھ ایک فون تھا۔
چیزیں ساری مجھے لگا میرے لیے تھی اس لیے وہ میں نے رکھ لیں اور فون تمہاری کپبورڈ میں رکھ دیا۔
وہ خود ہی سب کچھ بتا گئی۔
تمھے کس نے کہا وہ تمھارے لیے تھیں؟
کہتے ہوۓ حازم اپنی ورڈروب کی طرف بڑھ گیا۔
مجھے لگا۔۔
وہ اتنا ہی بولی۔
اچھا۔
تو یہ فون بھی تمھارے لیے ہی ہے۔ اس میں میں نے سب کے نمبر سیو کر دیے ہیں۔
میں نے کیا کرنا تھا۔
مجھے بس ناولز چاہیے تھے وہ میں نے لے لیے۔
وہ مسلسل باہر دیکھتے بول رہی تھی۔
کبھی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔
اچھا۔
وہ بول کے چپ ہو گئی۔
حازم اپنا یونیفارم نکال کر چینج کرنے چلا گیا۔
عنیزہ اپنی بک پڑھنے میں پھر سے مگن ہو گئی تھی۔
اففف اللّه اسے بھی ابھی ٹوٹنا تھا۔
بٹن بند کرتے حازم کی شرٹ کا اوپر والا بٹن ٹوٹ گیا تو وہ اسے دیکھ کے بولا۔
اب ماما پاس جاؤں اتنے سے کام کے لیے؟
وہ بربرایا۔۔
نہیں۔ ایسا کرتا ہوں خود ہی لگا لیتا ہوں۔
وہ ٹیبل کی طرف آیا اور ڈراور کے اندر سے ایک باکس نکالا۔
باکس میں سے سوئی اور دھاگہ نکال کر کھڑا ہو گیا۔
مسلسل تگ و ود کے بعد وہ دھاگہ ڈالنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
وہ شرٹ پہنے پہنے ہی بٹن لگانے کی کوشش کرنے لگا۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔
اچانک سے عنیزہ کی نظر حازم پر گئی تو وہ زور سے قہقہ لگانے لگی۔
یہ کیا کر رہے ہو لڑکیوں والے کام؟
وہ ہنسنے کے درمیان بولی۔
حازم اسے دیکھ کے رہ گیا۔
ایک منٹ ایک منٹ۔
اپنا فون دینا۔
وہ اس کے پاس آ کر بولی۔
کیوں؟
حازم نے ناسمجھی سے پوچھا۔
میں تمہاری ویڈیو بناتی ہوں۔ پھر ہم یہ انسٹا پر لگائیں گے۔ قسم سے یار تم تو ایک رات میں ہی فیمس ہو جاؤ گے۔
وہ چہرے پر سنجیدگی سجائے اپنی طرف سے بہت کام کی بات بتا رہی تھی۔
ویری فنی۔۔
بہت ہنسی آئی۔۔
حازم اسے گھور کے بولا۔
ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔
عنیزہ کا پھر قہقہ گھونجا۔
کتنے کیوٹ لگتے ہو ایسے منہ بنا کے۔
عنیزہ آگے آ کر اس کے گال کھینچ کے بولی۔
ہٹ جاؤ پیچھے۔
میں پہلے ہی لیٹ ہو رہا ہوں۔ پھر مجھے جلدی واپس بھی آنا ہے۔
یار کیوں کر رہے ہو یہ لڑکیوں والے کام۔۔
اگر خود کو تم آئینے میں دیکھو تو تمہاری ہنسی نا بند ہو۔
تو۔۔
اور کون لگائے گا؟
اتنے سے کام کے لیے میں ماما کو ڈسٹرب کروں۔
اور مجھے ہنڈرڈ اینڈ ٹین پرسینٹ یقین ہے کے تمھے نہیں آتا ہو گا۔
حازم نے اس کی طرف کے کہا۔
اب ایسی بھی بات نہیں ہے۔
مجھے آتا ہے۔
یہ تو میرے الٹے ہاتھ کا کام ہے۔
دو بار اوپر سے کرو اور دو بار نیچے سے کرو تو بٹن لگ گیا۔
وہ چہچہائی۔۔
اچھا۔
یہ تو بہت آسان ہے۔
ہے نا؟
ہاں۔
وہ فورا بولی۔
ادھر دو نیڈل!! میں ابھی لگا کے بتاتی ہوں۔
اوکے
دیکھ لیتے ہیں۔
حازم نے سوئی اسے پکڑا دی۔
وہ پہلے تو دو منٹ کھڑی بٹن کو دیکھتی رہی پھر ایک نظر حازم کو دیکھا وہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
مجھے آتا ہے۔
وہ منہ بنا کے بولی۔
تو یار میں نے کب کہا کے تمھے نہیں آتا۔
وہ بال کان کے پیچھے کرتی بٹن لگانے لگ گئی۔
حازم اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
وہ ڈارک بلیو کلر کی شارٹ فروک پہنے جس پر گولڈن کلر کا کام ہوا تھا ساتھ بلیو ہی کپری پہنے ،کندھوں تک آتے بال کھلے چھوڑے ہوۓ تھی۔ چہرے پر معصومیت سجائے وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔
اتنی معصوم اگر حقیقت میں ہوتی تو کیا ہی بات تھی۔
حازم نے دل میں سوچا۔
عنیزہ نے لگانے کے دوران پھر ایک نظر اٹھا اٹھا کر اسے دیکھا۔
وہ ابھی بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
کیا ہے؟
ایسے مجھے لگانا بھول جائے گا۔
وہ کنفیوز ہوتے ہوۓ بولی۔
کیسے؟؟
اور بٹن لگانا بھی کوئی بھول سکتا ہے بھلا؟
حیرت ہے۔
حازم اسے دیکھ کے بولا۔
عنیزہ بغیر کوئی جواب دیے منہ بسورتی سوئی بٹن کے سراخ کے اندر سے نکالنے لگی۔
ایک دم سے دروازہ کھلنے کی آواز پر دونوں نے دروازے کی طرف دیکھا۔
واہ واہ۔
کیا سین چل رہے ہیں۔
سحر تالیاں بجاتے ہوۓ اندر کی طرف آئی۔
عنیزہ فورا حازم سے دور ہوئی۔
حازم نے ہاتھ پکڑ کے اسے اپنے پاس کیا۔
تم کس کی اجازت سے کمرے میں آئی؟
حازم تیکھے تیور لیے بولا۔
کنٹینیو کرو نا۔
وہ حازم کی بات کو اگنور کرتے ہوۓ بولی۔
تمیز کے دائرے میں رہو۔
حازم آہستہ آواز میں بولا۔
کیوں رہوں میں تمیز کے دائرے میں۔
میری زندگی تباہ کر کے تم یہاں گلچھرے اڑاؤ اور میں تمیز میں رہوں۔
وہ حازم کا گرےبان پکڑتے ہوۓ بولی۔
میری دفعہ تو تمھے محرم اور نا محرم سب یاد تھا اور اپنی دفعہ۔۔
جسٹ کیپ یور موتھ شٹ۔۔
حازم اس کے ہاتھ جھٹک کے بولا۔
عنیزہ آنکھوں میں حیرت سموئے پوری آنکھیں کھولے ان دونوں کی طرف دیکھ رہی تھی۔
اب اپنی دفعہ کیوں تقلیف ہو رہی ہے۔
مجھے بھی تو ایسے ہی ہوئی تھی جب تم نے اس کے لیے مجھے چھوڑا۔
وہ عنیزہ کی طرف دیکھ کے نخوت سے بولی۔
ہے ہی کیا اس میں۔
اس سے پہلے وہ عنیزہ کی طرف بڑھتی حازم عنیزہ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
عزت کے ساتھ یہاں سے چلی جاؤ۔ ورنہ پھر مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔
میری تربیت میں یہ شامل نہیں ہے کے میں عورت ذات سے بدتمیزی کروں۔ اس لیے خود ہی چلی جاؤ یہاں سے۔
حازم تحمل سے بولا۔
اوہ ہو۔
مجھے لگتا ہے میں نے کافی سخت لمحات میں آ کر ڈسٹرب کیا ہے جو اتنا غصّہ کر رہے ہو۔
وہ پھر ڈیٹھائی سے بولی۔
جسٹ شٹ اپ۔
تم میں تو شاید تمیز ختم ہی ہو گئی ہے۔
ایک منٹ بھی تم اور رکی تو میں بہت برے سے پیش آؤں گا۔
عزت کے ساتھ ہی چلی جاؤ یہاں سے۔
نہیں جا رہی۔
جو کرنا ہے کر لو۔ میں ڈرتی نہیں ہوں تم سے۔ اور نا ہی میں تمہاری پراپرٹی ہوں جو مجھ پر ایسے روب ڈال رہے ہو۔
وہ جانے کی بجائے مزید بولنے لگ گئی۔
تم تو۔
حازم عنیزہ کا ہاتھ چھوڑتا اس کی بازو پکڑ کے کمرے سے باہر پھینکنے کے انداز میں چھوڑ آیا۔ اور آ کر دروازہ بند کر دیا۔
عنیزہ حیران پریشان سی کھڑی صورت حال سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
حازم کو دروازے کے پاس کھڑا دیکھ کے وہ جگ سے پانی ڈال کے گلاس حازم کی طرف لے کر گئی۔
نو تھینکیو۔۔
وہ کہ کے باہر چلا گیا۔
عنیزہ گلاس ٹیبل پر رکھ کے صوفے پر بیٹھ گئی۔
کیا یہ سب میری وجہ سے ہوا؟
اس کے آگے اس کے پاس صرف سوالیہ نشان تھا۔
۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما جان۔۔
ماما جان۔۔
حازم سیڑھیوں سے اترتے ہوۓ زور سے پکارنے لگا۔
جی!!!
وہ کچن سے باہر آ کر بولیں۔
یہ سحر میرے روم میں کس کی اجازت سے آئی۔
کیا مطلب آپ کا؟
وہ لوگ تو ابھی آئیں ہی نہیں ہیں۔
عفت بیگم حیرت سے بولیں۔
ماما وہ میرے روم میں پہلے تو بغیر پوچھے آئی اوپر سے اس نے بدتمیزی کی انتہا کر دی۔ وہ وہ باتیں بولیں جو بولنے کے قابل نہیں تھیں۔
وہ غصّہ ضبط کرتا آہستہ آواز میں بولا۔
یہاں آؤ۔
عفت بیگم نے ڈائننگ کے پاس بلایا اور کرسی کھینچ کے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
وہ آ کر بیٹھ گیا۔
وہ خود بھی پاس بیٹھ گئیں۔
پانی کا گلاس بھر کے اس کے آگے کیا۔
حازم نے نا میں سر ہلایا۔
پیو میرے بچے۔۔
وہ پیار سے بولیں۔
حازم نے ان کے کہنے پر دو سپ لے لیے۔
دیکھو بیٹا۔
مجھے نہیں پتہ آپ کو سحر کیا کہ کے گئی اور کیا نہیں۔ پر آپ بھی تو اس کی سیچوایشن سمجھو نا۔ کافی ٹائم پہلے سے آپ دونوں انگیج تھے۔اور ظاہری سی بات ہے اس نے اپنے شوہر کے روپ میں آپ کو ہی سوچا ہو گا۔ ایسے ایک دم سے تمہاری شادی کسی اور سے ہو گئی اس پر وہ ری ایکٹ تو کرے گی ہی نا۔
تو ماما اس میں میرا کیا قصور ہے۔
وہ ان کے اور کچھ بولنے سے پہلے فورا بولا۔
بیٹے آپ کا تو کوئی قصور نہیں۔ بلکے کسی کا بھی کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ تو قسمت کا کھیل ہے۔
وہ سمجھانے کے انداز میں بولیں۔
ماما آپ اسے خود سمجھا دیجئے گا کے میرے سے الجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مہمان بن کر آئی ہے تو مہمان ہی رہے۔
وہ عفت بیگم کی طرف دیکھ کے بولا۔
بری بات ہے حازم۔
اور یہ غصّہ دور کرو اپنا۔
لیکن ماما۔
لیکن کیا؟
وہ آپ کے چاچو کی بیٹی ہے بچے۔ ہم ان کو کچھ کہ کے ناراض تو نہیں نا کر سکتے۔ ناراض کریں گے تو ایسے ہم نے شیطان کی بات مان لی۔ وہ تو پہلے ہی لڑائیاں ڈلوانا چاہتا ہے۔ تا کے ہم ایک دوسرے سے دور ہو جائیں۔ رشتے توڑنے میں تو ایک منٹ لگتا ہے پر یہ بنتے بہت مشکل سے ہیں۔ ایک بار ان میں گھانٹ آ جائے تو وہ ساری زندگی کے لیے ٹھیک نہیں ہوتی۔
اور ہمیں تو رحمٰن کی بات ماننی ہے۔ توڑنے کی بجائے جوڑنا ہے تا کے اللّه راضی ہو جائیں۔
ابھی سحر نا سمجھ ہے اور کچھ وہ غصّے میں ہے۔
آپ فکر نا کرو ان شاءاللّه بہت جلد وہ ٹھیک ہو جائے گی۔ تب تک آپ صبر کر لو۔
عفت بیگم اس کا چہرہ تھپتھپا کے بولیں۔
امید ہے اب آپ مجھے شکایت کا موقع نہیں دیں گے۔
جی ان شاءاللّه۔
وہ کہ کے اٹھ کے کھڑا ہو گیا۔
اوکے ماما۔
میں چلتا ہوں۔
لیٹ ہو رہا ہوں۔
اچھا بچے۔
اللّه نگہبان۔
وہ اس کا ماتھا چومتی ہوئیں بولیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...