صبح عنیزہ اٹھی تو کمرہ خالی تھا۔
اس نے ادھر ادھر دیکھا تو اسے اپنے ساتھ ایک طرف کارڈ پڑا ہوا نظر آیا۔
وہ لمبا سانس کھنچ کے بیٹھ گئی۔
کتنا مشکل کام ہے۔
وہ صرف سوچ سکی۔
اب میں کیسے سوری کروں۔
وہ منہ پر ہاتھ رکھ کے سوچنے لگی۔
آئیڈیا۔۔۔
وہ چٹکی بجا کے بولی۔
میں ایسا کرتی ہوں اس کی ورڈروب میں رکھ دیتی ہوں جب آ کر کپڑے نکالے گا تو ضرور دیکھ لے گا۔
وہ مسکرا کے اٹھی اور خیال کے عین مطابق اس کے کپڑوں میں کارڈ رکھ دیا۔
اپنے کپڑے لیے اور فریش ہونے چلے گئی۔
حازم واک کر کے آیا تو ہمیشہ کی طرح اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی سلام کیا۔
عنیزہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی تھی۔ اس نے آہستہ آواز میں اس کا جواب دیا اور بظاہر اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔ نظر اس کی حازم پر ہی تھی۔
وہ اپنا یونیفارم لیتا واشروم کی طرف بڑھ گیا۔
ہا ہائے۔۔
اس نے تو دیکھا بھی نہیں۔
وہ منہ کے زاویے بنا کے بولی۔
اب اتنی بھی کیا ناراضگی ہوئی۔
وہ کمرے میں ادھر سے ادھر چکر لگانے لگی۔ اور ساتھ ساتھ سوچ رہی تھی کے سوری کیسے کرے۔
حازم فریش فریش سا واشروم سے نکلا۔
ہمیشہ کی طرح اس کے چہرے پر سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔
اگر میں فیس ٹو فیس بات کروں تو۔۔
عنیزہ نے دل میں سوچا۔
نہیں نہیں۔۔
بےشک وہ تھپڑ مار دے۔ مجھ بیچاری کی کیا عزت رہ جائے گی۔
وہ اپنے سے خود ہی سوال کر رہی تھی اور خود ہی جواب۔
حازم ڈریسنگ کی طرف بڑھا اور اپنے اوپر اسپرے کرنے لگا۔
وہ حازم کی طرف بڑھی اور اس کا بازو پکڑ کے رخ اپنی طرف کیا۔
اس نے منہ کھولے حیرت سے اسے دیکھا۔
مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔
وہ اٹک اٹک کے بولی۔
حازم نے کوئی جواب نا دیا۔
مجھے تم سے بات کرنی ہے۔
اب وہ اس کا بازو ہلا کے بولی۔
وہ پھر چپ رہا۔
کیا تم اب میرے سے بات بھی نہیں کرنا چاہتے۔
میں مانتی ہوں میری غلطی ہے پر تمہیں پتہ ہے نا وہ جلدی جلدی میں میرے منہ سے نکل گیا۔
میں سچ میں وہ نہیں کہنا چاہتی تھی۔
وہ اتنا بول کے رکی اور اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی۔
جلدی جلدی میں ہمیشہ سچ ہی نکلتا ہے۔
حازم جوابا بولا۔
سوری۔۔
میں آئندہ غلط بات کرنے سے گریز کروں گی۔
وہ نظریں جھکا کر بولی۔
بلیک کلر کی شارٹ سی شرٹ جس کے نیچے بلیک ہی پھول بنے ہوۓ تھے ساتھ ویسا ہی ہم رنگ ٹراوزر پہنے گلے میں وائٹ کلر کا ہیوی دوپٹہ لیے چہرے پر معصومیت سجائے وہ سامنے والے کو زیر کر سکتی تھی۔
پر مقابل بھی کسی سے کم نا تھا۔
آج اس نے بالوں کی اونچی پونی بنائیتھی جس میں سے کچھ لٹیں باہر آ رہی تھیں۔
بچوں کی طرح منہ نیچے کیے کھڑی وہ حازم کو مسکرانے پر مجبور کر گئی۔
اوکے۔۔
ٹھیک ہے۔
حازم بول کے چپ ہوا۔
عنیزہ نے فوری منہ اوپر کیا اور مسکرائی۔۔
تھنکیو۔۔
تم بہت اچھے ہو۔
حازم اس کے ایسا کہنے پر مسکرا دیا۔
نیچے چلیں۔۔
آنٹی ویٹ کر رہی ہوں گی۔
اوکے چلو۔
وہ دونوں آگے پیچھے نیچے بڑھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عفت بیگم کھانا سرو کر رہی تھیں جب ان کی نظر سیڑھیوں سے آتے حازم اور عنیزہ پر گئی۔
انہوں نے دیکھتے ہی ماشاءاللّه کہا۔
ابراھیم کی نے بھی فوری پیچھے دیکھا اور بولا۔
پرفیکٹ۔۔
ماما دونوں ساتھ میں کتنے پیارے لگتے ہیں۔
نوال نے بھی حصّہ ڈالا۔
ماشاءاللّه کہتے ہیں بچے۔
اور اللّه ان کو ہمیشہ خوش رکھیں آمین۔
فواد صاحب نے دعا دی۔
سب آمین بولے۔
السلام علیکم۔
دونوں نے آتے ہی سلام کیا۔
اور بیٹھ گئے۔
کیسے ہیں آپ بابا؟
عنیزہ نے مسکرا کے پوچھا۔
سب نے عنیزہ کی طرف دیکھا۔ اس نے پہلی دفعہ فواد صاحب کو بابا کہا تھا۔
الحمداللہ ٹھیک بچے۔۔
آپ سناؤ؟
وہ بھی جوابا مسکرا کے بولے۔
انھیں بہت اچھا لگا تھا عنیزہ کا بابا کہنا۔
میں بھی ٹھیک۔۔
تھینکیو بیٹا۔
اتنا مان دینے کے لیے۔
آپ سے بابا سن کے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔
فواد صاحب اسے پیار دے کے بولے۔۔
وہ صرف مسکرائی۔
بابا جان اس خوشی میں آج آپ ہمیں باہر ڈنر کرائیں گے۔
ابراھیم جھٹ سے بولا۔
ابراھیم کبھی کھانے کے علاوہ کوئی اور بات بھی کر لیا کرو۔
بھوکر۔۔
نوال سر جھٹکتی بولی۔
ماما اسے سمجھا دیں۔
میں اس بڑا ہوں۔ ذرا عزت نہیں کرتی میری ۔
ابراھیم۔
چپ کر کے کھانا کھاؤ۔
حازم نے تنبیہ کیا۔
بھائی جان آپ بھی مجھے ہی۔
وہ معصومیت سے بولا۔
اچھا ٹھیک ہے ابراھیم۔ جہاں آپ کہیں گے ہم وہاں ہی ڈنر کریں گیں۔
فواد صاحب کھانے کے دوران بولے۔
تھینک یو بابا جان۔
آپ ہی اچھے ہیں۔
فواد صاحب مسکرا دیے۔
سب اپنے اپنے کھانے میں مصروف ہو گئے۔
حازم سنڈے کو تمھارے چاچو لوگ واپس آ رہے ہیں۔
فواد صاحب بولے۔
بابا انہوں نے تو لیٹ آنا تھا؟
جی۔
پر اب سنڈے کو۔
اچھا جی۔
حازم نے اتنا کہنے پر اختفاع کیا۔
ناشتے کے بعد سب چلے گئے۔ عفت بیگم اور عنیزہ لاؤنج میں بیٹھ گئیں۔
وہ دونوں باتوں میں مصروف ہو گئیں۔
آنٹی یہ حازم کے کونسے چاچو ہیں جو آ رہے ہیں؟
عنیزہ نے باتوں کے دوران پوچھا۔
بیٹا یہ اوٹ اوف کنٹری رہتے ہیں۔
آپ کو ان کا نہیں پتہ۔
پہلے یہاں ہی ہوتے تھے تین سال پہلے ہی گئے ہیں۔
اچھا جی۔
عنیزہ ان کی بات سن کے بولی۔
ان کی ایک ہی بیٹی ہے۔
سحر۔۔
اس کا رشتہ حازم سے طے ہوا ہوا تھا۔
لیکن۔۔
وہ اتنا بول کے روکیں۔
کیا وہ شادی کرنے آ رہے ہیں؟
عنیزہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔
نہیں بیٹا۔
اب تو حازم کی شادی آپ سے ہو چکی ہے۔
وہ لوگ تو ویسے ہی آ رہے ہیں۔
اور آپ حازم کی وائف ہو۔ اس کی ہر چیز کا خیال اب سے آپ ہی رکھا کریں گی۔ اس کے کپڑوں سے لے کر کھانے تک کا۔ اور جو بھی آپ کو مدد چاہیے ہوئی آپ بلا جھجھک میرے سے پوچھ سکتی ہیں۔ اپنی جگہ سمبھالو۔
اس سے پہلے تمہاری جگہ کوئی اور لے لے۔
وہ اسے سمجھانے کے سے انداز میں بولیں۔
اچھا جی۔
وہ کچھ سوچتے ہوۓ بولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج خیریت ہے تم صبح سے ایک بار بھی میرے پاس نہیں آئے۔۔
حازم بابر کے سامنے چیئر پر بیٹھتے بولا۔
ہاں یار۔
آج صبح سے بہت مصروف ہوں۔ ضروری کیس پر کام کر رہا ہوں۔
وہ فائل بند کر کے بولا۔
اچھا۔۔
اور آج تو مجھے کچھ بانٹنا چاہیے تو خود میرے پاس آیا ہے۔
بابر ہمیشہ کی طرح مسکرا کے بولا ۔
حازم نے قہقہ لگایا۔۔
اوئے۔
یہ ذرا میرے چٹکی کاٹی۔
اس نے اپنی بازو آگے کی۔
کیوں؟
حازم نے ناسمجھی سے پوچھا۔
آج تو ہنس رہا ہے بات بات پر۔
خیر ہے۔۔
بابر نے اسے ہلا کر پوچھا۔
یار تجھے ہنستا ہوا اچھا نہیں لگ رہا کیا میں؟
حازم نے اسے گھورا۔
کیوں نہیں۔
تو اچھا ہی ہنستے ہوۓ لگتا ہے ویسے تو۔۔
وہ منہ بسور کے بولا۔
ویسے تو سے کیا مراد ہے تمہاری؟
کچھ نہیں یار۔
اور بتا گھر میں سب ٹھیک؟
ٹھیک ہی ہوں گے تب ہی تو خوش ہو۔
وہ خودی سوال کر کے خود ہی جواب بھی دے گیا۔
اور بھابھی ٹھیک ہیں؟
ہاں سب ٹھیک۔۔
یار ایک بات تو مجھے اب یاد آئی۔
حازم سنجیدہ ہو کر بولا۔
کیا؟
بابر نے آنکھیں اچکائیں۔
چاچو لوگ آ رہے ہیں سنڈے کو۔
وہ کہ کے چپ ہوا۔
اوہ واؤ۔
مطلب۔۔۔۔
مطلب۔ ۔۔۔
نا ہونے والی وائف آ رہی ہیں۔
بکواس نا کر۔
حازم نے اسے گھڑکا۔
یار نا ہونے والی ہی کہا ہے۔
وہ منہ بسور کے بولا۔
اب پتہ نہیں کیا ہو گا۔
اور عنیزہ کا ری ایکشن کیا ہو گا جب اسے پتہ چلے گا۔
وہ سوچتے ہوۓ بولا۔
یار اگر دوست بن کے میں مشورہ دوں تو ایسا کر۔۔
بابر نہایت سوچنے والے انداز میں بولا۔
کیا؟
تو ایسا کر بھابھی کو لے اور آرام سے ہنی مون پر چلا جا۔
سکون ہی سکون۔
بابر سنجیدگی سے بول رہا تھا جیسے بہت کام کی بات بتا رہا ہو۔
تو سوچتا کہاں سے ہے اتنی فضولیات۔۔
حازم نے تیکھے تیور لیے پوچھا۔
جاؤ یار۔
بھلائی کا زمانہ ہی نہیں ہے۔
ایک تجھے اتنا اچھا آئیڈیا دیا اور بےعزتی بھی میری۔
سہی ہے۔
جو مرضی کر۔
اپنے ایسے فضول آئیڈیاز میرے سے دور رکھا کر۔
اگر کسی دن میں نے بھول کے بھی عمل کر لیا میں تو گیا پھر۔
بس کر۔
اتنی بےعزتی تو ساری زندگی میری کسی نے نہیں کی۔
وہ حازم کو روکتے ہوۓ بولا۔
ہاہاہا ہا ہا ہا ہا۔۔
حازم اس کے منہ بنانے پر ہنسا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حازم یہ تمھارے فون پر کسی کی کال آ رہی ہے۔
وہ باہر سے آیا تو عنیزہ نے اسے دیکھتے ہی بتایا۔
کس کی ہے؟
کوئی ہارٹ ہے۔۔
نام نہیں لکھا ہوا نام کی جگہ ہارٹ ہیں۔
حازم نے آگے بڑھ کے فوری فون پکڑا اور لے کر بالکونی کی طرف چلا گیا۔
ہو ہائے۔۔
یہ کیا تھا۔
عنیزہ منہ بسورتے بولی۔
ضرور کسی گرل فرینڈ کا ہو گا۔ تبھی تو فوری لے کر یہاں سے چلا گیا۔ کہیں اس کی کزن کا تو نہیں۔
آئے گا تو ابھی پوچھتی ہوں۔
حازم فون سن کے کمرے میں آیا اور فون ٹیبل پر رکھ دیا۔
کس کا فون تھا؟
عنیزہ فورا بولی۔
کسی کا نہیں۔
وہ صوفے پر بیٹھ کے اپنے شوز پہنتے ہوۓ بولا۔
میرے سے تو نا چھپاؤ۔
میں تو تمہاری دوست ہوں اور دوستوں سے بات شئیر کر لیتے ہیں۔
اس نے اپنی طرف سے تجویز پیش کی۔
کیا ہو گیا ہے عنیزہ۔
کسی کا فون نہیں تھا۔
حازم جھنجھلا کر بولا۔
بتا دو نا۔
میں نہیں بتاؤں گی کسی کو۔
ہاں ایک مزے کی بات۔
اگر کوئی تمہاری گرل فرینڈ ہے تو بتا دو۔ میں تمہاری شادی کروا دوں گی۔
قسم سے حازم بہت مزہ آئے گا۔
ہم چھے لوگ ہی تو رہتے ہیں گھر میں۔
جب تمہاری دوسری وائف آئے گی تو کیا ہی بات ہو گی۔
پھر تمھارے چھوٹے چھوٹے بچے۔
اور میں خود کرواؤں گی تمہاری شادی۔
آنٹی انکل سے سب سے بات کروں گی۔
عنیزہ آنکھیں مٹکا مٹکا کے خوشی سے کہ رہی تھی۔
اسٹاپ اٹ۔۔
حازم ایک دم سے بولا۔
وہ خاموش ہو گئی۔
تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا آج؟
کہیں پاگل تو نہیں ہو گئی۔
کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو۔
حازم اس کے سامنے کھڑا ہو کر بولا۔
کیا مطلب؟
میں ٹھیک تو کہ رہی ہوں۔
وہ منہ بنا کے بولی جیسے حازم کی بات پسند نا آئی ہو۔
یہاں آؤ۔
حازم اس کی بازو پکڑ کے اسے بیڈ کے پاس لے کر گیا اور اسے بٹھایا۔
جگ سے پانی گلاس میں ڈالا اور اس کی طرف بڑھایا۔
عنیزہ نے نا سمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔
یہ پیو۔۔
اس نے دو سپ لے کر گلاس واپس پکڑا دیا۔
اب بتاؤ۔
کوئی ہوش آیا یا نہیں؟
یا ہوسپیٹل لے کر جانا پڑے گا۔
وہ کھڑے کھڑے ہی بولا۔
مجھے تو تم ٹھیک نہیں لگ رہے۔
میں تمھارے فائدے کی بات کر رہی ہوں اور تم ہو کے مجھے پاگل سمجھ رہے ہو۔
بی بی رہنے دو تم میرا فائدہ۔۔
ایک تم تو سمبھالی نہیں جاتی دوسری کیا میں سر میں ماروں گا۔
اور ایک اور بات۔۔
کیا تم سچ میں میری دوسری بیوی کو برداشت کر لو گی؟
حازم اس کی طرف دیکھ کے بولا۔
لے۔۔
مجھے کیا ہو گا۔
بلکے مزہ آئے گا۔
وہ چہرے پر خوشی کے تاثرات لیے بولی۔
سچ میں کچھ نہیں ہو گا؟
کوئی اور تمہاری جگہ لے لے گی۔
میں تمھے ٹائم دینے کی بجائے اسے دیا کروں گا۔ اس سے دوستی کر لوں گا۔
ہاں یار۔
کچھ نہیں ہو گا۔
وہ اپنی ہی دھن میں بولی۔
اوکے۔
کبھی وقت آیا تو دیکھوں گا تمھے کچھ ہوتا یا نہیں۔
میری نظر میں تو عورت اپنی ہر چیز بانٹ سکتی ہے لیکن اپنا شوہر وہ کسی سے بانٹنا پسند نہیں کرتی۔
پر تم تو بہت بہادر ہو یار۔۔ اور
ٹھک ٹھک۔۔
ابھی وہ بول ہی رہا تھا جب دروازہ کھٹکا۔
آ جاؤ۔۔
حازم عنیزہ سے فاصلے پر ہو کے بولا۔
بھائی وہ بابا کہ رہے ہیں کے آ جائیں آپ لوگ۔
ٹائم پہلے ہی کافی ہو چکا ہے۔
نوال کمرے میں انٹر ہو کے بولی۔
اچھا۔
ہم آ رہے ہیں بس دو منٹ۔
حازم مسکرا کے گویا ہوا۔
اچھا جی۔
وہ کہتی باہر نکل گئی۔
عنیزہ میڈم اگر آپ کی سوچیں مکمل ہو گئیں ہوں تو نیچے چلیں۔
حازم نے اسے سوچوں میں گم دیکھا تو بولا۔
ہا ہاں چلو۔
کہ کے وہ اپنا حجاب دیکھنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا تھا۔
نوال کے کہنے پر اب وہ لوگ آئس کریم کھا رہے تھے اور ساتھ ساتھ خوشگپیوں میں مصروف تھے۔
عنیزہ بچے کیا سوچ رہے ہو آپ؟
عفت بیگم نے اسے چپ دیکھا تو کہا۔
کچھ نہیں آنٹی۔
وہ مسکرا کے بولی۔
عنیزہ ضرور کچھ الٹا سیدھا ہی سوچ رہی ہو گی۔
حازم آہستہ آواز میں بولا جو صرف عنیزہ تک ہی پہنچی۔
تم سے مطلب۔
اپنے کام سے کام رکھو۔
وہ بھی آہستہ آواز میں بولی۔
ویسے اب تمھارے سارے مطلب میرے تک ہی آتے ہیں بس۔۔
حازم ایک آنکھ دبا کر بولا۔
وہ جانتا تھا کے اسے کچھ سمجھ نہیں آئے گی۔
مطلب۔۔
اس کی توقع کے عین مطابق اسے سمجھ نہیں تھی آئی۔
کچھ نہیں۔
یہ تمہاری سمجھ سے اوپر کی بات ہے۔
وہ مسکرا کے بولا۔
زیادہ فری نا ہو۔
ایک بار صحیح سے بتاؤ پھر بتاتی ہوں تمھے۔
وہ اسے گھور کے بولی۔
اہم اہم۔۔
یہاں اور بھی لوگ موجود ہیں۔
ابراھیم بتیسی کی نمائش کرتے بولا۔
حازم نے اسے گھورا۔
اچھا سوری۔۔
وہ گھوری نظر انداز کر کے بولا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے روز عنیزہ کی آنکھ کافی لیٹ کھلی۔
آج تو فجر کی نماز کے لیے بھی اٹھا نہیں گیا۔
کتنی شرمندگی کی بات ہے۔
وہ خود سے افسوس کرتے ہوۓ بولی۔
حازم نے بھی نہیں اٹھایا۔
بہت چالاک ہے۔
اب میں کیا کروں۔
وہ سوچ ہی رہی تھی جب عفت بیگم کمرے میں آئیں۔
کیسی ہو عنیزہ؟
آج آپ ناشتے پر بھی نیچے نہیں آئیں؟
طبیعت ٹھیک ہے آپ کی بیٹا۔
وہ اس کے پاس بیٹھ گئیں۔ اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر پوچھا۔
جی آنٹی میں ٹھیک ہوں۔
وہ رات کو لیٹ سوئی تھی تو اٹھا نہیں گیا۔
وہ ہلکا سا مسکرائی۔
اچھا اچھا۔
پھر ٹھیک ہے۔
اگر آپ نے اور نہیں سونا تو ناشتہ کر لو۔ میں تب تک زاہدہ سے کہ کے آپ کے روم کی صفائی کروا دیتی ہوں۔
جی اچھا۔
میں آتی ہوں۔
وہ اٹھ کے فریش ہونے کے لیے بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...