برات آ چکی تھی۔ برات میں صرف چند لوگ تھے فواد صاحب کے کچھ جاننے والے اور حازم کے چند دوست۔ عورتوں میں صرف عفت بیگم اور نوال ہی تھیں۔
ان کا اچھے طریقے سے استقبال کیا گیا تھا۔
عنیزہ برائیڈل روم میں تھی۔ اسے کسی بات کا کچھ علم نہیں تھا۔ ساری کزنز وغیرہ سب باہر تھے۔ وہ اکیلی صوفے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی تھی۔
یار ماشاءاللّه ہمارے دولہا تو بہت پیارے ہیں۔ اور تم لوگوں کی جوڑی ایک دم پرفیکٹ لگے گی۔ ھما اندر آتے ہوۓ خوشی سے بولی۔
عنیزہ نے اس کی بات سن کے مسکرانے پر اکتفا کیا۔
اوہ ہو۔۔
دلہن تو شرما رہی ہے۔
ھما تنگ نا کرو مجھے۔ میرا پہلے ہی بہت دل گھبرا رہا ہے۔
وہ جھنجھلا کے بولی۔
اچھا جی نہیں کرتے۔ اب تمھے تنگ بھی نہیں کر سکتے. جا رہی ہوں میں باہر۔
ھما نے منہ بسورتے کہا اور وہاں سے واک اوٹ کر گئی۔
وہ گئی ہی تھی کے بعد فردوس بیگم اندر آئیں۔
عنیزہ بچے سیدھے ہو کر بیٹھ جاؤ مولوی صاحب آ رہے ہیں نکاح کے لیے۔ انھوں نے زبردستی مسکراہٹ سجائے کہا۔ وہ عنیزہ کے بارے میں سوچ کر پریشان ہو رہی تھیں۔ باہر تو انھوں نے سب ہینڈل کر لیا تھا۔ پر اسے ہینڈل کرنا انھے مشکل مرحلہ لگ رہا تھا۔ وہ اپنی بیٹی کے رویے سے اچھی طرح واقف تھی۔ نا ہی وہ کسی کے ساتھ نا انصافی کرتی تھی اور نا اپنے ساتھ ہونے دیتی تھی۔ انھوں نے تو اسے کچھ بتایا بھی نہیں تھا۔ بس وہ اللّه سے دعا کر رہیں تھیں کے سب کچھ ٹھیک سے ہو جائے۔
کیا سوچ رہی ہیں ماما؟
عنیزہ نے انھیں ہلا کر پوچھا۔
نہیں کچھ نہیں۔
وہ فورا بولیں۔
بس تمہارے بارے میں سوچ رہی تھی۔ کیسے بڑی ہو گئی پتہ بھی نہیں چلا۔ اور آج رخصت بھی ہو رہی ہو۔ وہ اداسی سے بولیں۔ ان کی آنکھوں میں نمی صاف واضح تھی۔
یار ماما۔ آپ مجھے اموشنل نا کریں۔ آپ کو پتہ ہے نا میں رو پڑی تو پھر آپ کو چپ کروانا مشکل ہو جائے گا۔ اور میں کونسا دنیا چھوڑ کر جا رہی ہوں۔ بس گھر ہی تو ایک حساب سے چینج ہو رہا۔ میں روز آ جایا کروں گی۔
اللّه نا کرے تمھے کچھ ہو۔ تم کیوں جاؤ دنیا چھوڑ کے۔ تمھے اللّه ہماری بھی عمر لگا دیں۔ اور خوشی کے موقع پر ایسی باتیں نہیں کرتے لڑکی۔ تمھے کتنی بار سمجھایا ہے۔
فاخرہ بیگم بولیں۔
بی جان آپ۔
آئیں نا۔
عنیزہ ان کو دیکھ کے مسکرا کر بولی۔
اور آج تو بہت ہوٹ لگ رہیں ہیں۔ عنیزہ نے دائیں آنکھ دبا کر کہا۔
وہ تینوں مسکرا دیں۔
یہ باتیں بعد میں کر لیں گے۔ فائق مولوی صاحب کے ساتھ آ رہا ہے۔ تم بیٹھ جاؤ۔ اور یہ دوپٹہ ٹھیک کر لو۔
اچھا جی۔
وہ بیٹھ کے دوپٹہ ٹھیک کرنے لگ گئی۔
۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
چند منٹ بعد فائق مولوی صاحب کے ساتھ برائیڈل روم میں موجود تھا۔ اس کے ماموں اور فواد صاحب ساتھ تھے۔ فاخرہ بیگم اور فردوس بیگم بھی وہیں تھیں۔
عنیزہ صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی اور مولوی صاحب قریب ہی کرسی پر بیٹھ گئے۔ فردوس بیگم اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھیں تھیں۔ باقی تمام لوگ ارد گرد کھڑے تھے۔
مولوی صاحب نکاح شروع کیجئے۔ فائق کی آواز گھونجی۔
مولوی صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کیا۔ کمرے میں ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
وہ بول رہے تھے جب نام سن کے عنیزہ کو جھٹکا لگا۔
اس نے حیرت سے مولوی صاحب کی طرف دیکھا وہ نیچے منہ کر کے بول رہے تھے۔ پھر اس نے فائق کی طرف دیکھا وہ نظریں جھکائے کھڑا تھا۔
اس سے پہلے وہ فردوس بیگم کی طرف دیکھتی انھوں نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔ اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ہاں کہنے کی التجا کی۔ عنیزہ نے نا میں سر ہلایا۔
انھوں نے پھر زور سے اس کا ہاتھ دبایا۔ وہ نا میں سر ہلا گئی۔
مولوی صاحب تیسری بار پوچھ رہے تھے پر وہ کوئی جواب ہی نہیں تھی دے رہی۔
تمھے تمہارے بابا کی قسم۔۔
فردوس بیگم آگے ہو کر اس کے کان میں بولیں۔
عنیزہ کی آنکھوں سے آنسو لڑکھے۔ اسے سمجھ نہیں تھا آ رہا اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ اس کی شادی تو عدیل سے ہو رہی تھی پھر یہ حازم۔۔
اس کے آگے فل اسٹاپ آ رہا تھا۔ کیوں کے اسے کچھ نہیں تھا پتہ۔
اپنے بابا کی قسم سن کے اس نے حیرت سے فردوس بیگم کی طرف دیکھا۔ ان کی طرف دیکھ کے آنسو صاف کیے مسکرائی اور بولی۔
مجھے قبول ہے۔۔
مولوی صاحب نے دستخط کروانے کے لیے رجسٹر اس کے آگے کیا۔ اس نے پین پکڑا اور دستخط کر دیے۔ دستخط کرتے ہوۓ بے شمار آنسو رجسٹر پر گر رہے تھے۔
مولوی صاحب رجسٹر اٹھا کے کھڑے ہو گئے۔ سب نے عنیزہ کے سر پر باری باری پیار دیا۔
فائق نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو اس نے اپنا سر پیچھے کر لیا۔ وہ اپنا ہاتھ پیچھے کرتا مولوی صاحب کو لیے باہر کی طرف بڑھ گیا۔ اسے پتہ تھا وہ غصے میں ہے۔ اس لیے ضبط کرتا چپ چاپ وہاں سے چلا گیا۔
عنیزہ۔
بچے۔۔
پلیز۔۔
فردوس بیگم کچھ بولتیں وہ بول پڑی۔
مجھے کوئی وضاحت نہیں چاہیے۔ اگر آپ چاہتی ہیں کے مہمانوں کے سامنے کوئی تماشا نا لگے تو یہاں سے باہر چلے جائیں۔ میری برداشت ختم ہو گئی تو ذمہدار میں نہیں ہوں گی۔
عنیزہ بیٹا سنو تو سہی ماما کیا کہ رہی ہیں۔
فاخرہ بیگم بولیں۔
میں نے کہا چلے جائیں یہاں سے۔ کچھ نہیں سننا مجھے۔ اکیلا چھوڑ دیں۔
وہ چیخی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہ رہے تھے۔
اچھا ہم جا رہے ہیں۔ تم رو نا۔
چلو فردوس۔
فاخرہ بیگم خود بھی چلے گئیں اور انھیں بھی ساتھ ہی باہر لے گئیں۔
عنیزہ نے آگے بڑھ کے دروازہ بند کیا اور دروازے کے ساتھ بیٹھ کے ہی رونے لگ گئی۔ اسے سمجھ نہیں تھا آ رہا ہوا کیا ہے۔ وہ اس بات پر ہنسے یا روئے۔
شادی آپ کی کسی کے ساتھ ہونی ہو اور دولہا بن کے کوئی اور آیا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
نکاح ہو گیا تھا اور سب کھانا کھا رہے تھے۔
عنیزہ اکیلی برائیڈل روم میں بیٹھی ہوئی تھی اس نے وہاں کھانا بھی رکھوانے سے منع کر دیا تھا۔ تب سے وہ مسلسل رو رہی تھی۔ کیسے اس کے اپنے ہی گھر والوں نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا تھا۔رونے کی وجہ سے اس کا سارا میک اپ بھی خراب ہو گیا تھا۔
باہر سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ میوزک کا شور ہر سو چھایا ہوا تھا۔
وہ رونے میں ہی مصروف تھی جب فاخرہ بیگم ، فردوس بیگم ، عفت بیگم ، نوال اور عفاف کمرے میں داخل ہوئیں۔
وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے آنسو صاف کیے۔
عفت بیگم نے آگے بڑھ کے اسے پیار کیا ۔وہ سمجھ سکتی تھی ایک لڑکی کے لیے ساری سیچویشن کو سمھجنا بہت مشکل کام ہے۔ جب سوچا کچھ ہو اور ہو کچھ جائے۔
فردوس بیگم بھی آگے بڑھنے ہی والی تھیں جب وہ بولی۔
پلیز یہی رہیں۔ آپ لوگوں نے جو میرے ساتھ کر دیا ہے وہ کافی ہے۔
عنیزہ آپ ہماری بات تو سنو۔
وہ لوگ برات نہیں تھے لے کر آ رہے۔ ایسے میں ہم کیا کرتے؟
ہمیں جو ٹھیک لگا وہ ہم نے کیا۔
فردوس بیگم اسے سمجھاتے ہوۓ بولیں۔
واہ واہ۔۔
داد دینی تو بنتی ہے آپ کو ویسے۔ نہیں آئی تھی برات تو نا سہی۔ میں نے کونسا مر جانا تھا۔ اصل میں تو آپ لوگ جان چھرانا چاہتے تھے میرے سے۔ بوجھ جو تھی آپ سب پر۔ اتنی ہی میں بوجھ تھی آپ پر تو بچپن میں ہی میرا گلہ دبا دیتے۔ یہ ایسا تو نا کرتے میرے ساتھ۔
وہ آنسو ضبط کرتے ہوۓ بول رہی تھی۔
اگر ایسا نا کرتے تو آپ کی بدنامی ہوتی۔ لوگ آپ کو برا بھلا کہتے۔ اور یہ بات ہم برداشت نہیں کر سکتے۔
فائق وہاں اسے سمجھانے آیا تھا تو اس کی بات سن کے بولا۔
کیا کہتے لوگ۔ زیادہ سے زیادہ مجھے بد کردار کہ دیتے۔ ان کے ایسا کہنے سے مجھے دکھ نا ہوتا۔ پر آپ لوگوں نے تو میرا کردار میری ہی نظروں میں مشقوق کر دیا ہے۔ میں تو خود سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی۔
اور اس ٹائم آپ نے مجھے بابا کی قسم دی تھی۔ کیا ہتھیار ڈھونڈھا آپ نے۔
وہ تالی بجاتے ہوۓ بولی۔
سب اسے دم سادھے سن رہے تھے۔
اور ایک بات بتاؤں اس ٹائم میرا دل کیا کہ رہا تھا۔
کے کاش۔۔
اللّه جی کاش بابا کے ساتھ میں بھی مر جاتی۔ سب کی۔۔۔۔
وہ مزید بولتی فائق کا ہاتھ اٹھا اور اس کے منہ پر لگا۔
وہ کب سے اپنے لیے غلط الفاظ بول رہی تھی اور وہ برداشت کر رہا تھا۔ پر اس بات پر اس کی برداشت ختم ہو گئی تھی۔ اور اس کا ہاتھ اٹھ گیا تھا۔
عنیزہ نے حیرت سے منہ کھولے فائق کی طرف دیکھا۔
اس کی آنکھوں سے آنسو اور روانگی سے بہنے لگ گئے تھے۔
آپ پ۔۔
آپ نے مجھے مارا۔ آپ نے تو کبھی اونچی آواز میں میرے ساتھ بات بھی نہیں کی تھی اور آج۔۔
وہ اٹک اٹک کے بولی۔
جسی سچ میں یقین کرنا چاہ رہی ہو کے اس کو فائق نے ہی تھپڑ مارا ہے۔
چلو اس کے لیے بھی شکریہ۔
مجھے جاتے ہوۓ دکھ نا ہو گا اب۔
وہ آنسو صاف کر کے مسکرا کے بولی۔
پر ایک آخری بات۔۔
آپ تو مجھے اپنی بیٹی کہتے تھے نا۔ آپ تو مجھے ایک بار بتا دیتے۔ اور اپنی بیٹیوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا جاتا۔
آنٹی انکل سے کہیں اور ہم لوگ چلیں۔ بہت بوجھ بن لیا میں نے ان کے اوپر۔ اب ان کی زندگی میں تھوڑا سکون آنے دوں۔
ایک اور بات۔۔
آج سے میرا ان سب کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں۔ یہ سمجھیں میں کبھی تھی ہی نہیں۔ اور کسی کو میرے پیچھے آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں جہاں بھی رہوں اب یہ ان کا مسلہ نہیں ہے۔
اور یہ جو ڈریس اور جیولری میں نے پہنی ہے وہ بھی میں واپس بجھوا دوں گی۔ کوئی احسان نہیں لینا چاہتی میں کسی کا۔
وہ کہ کے چپ ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
تھوڑی دیر بعد رخصتی کا شور اٹھا۔
وہ بغیر کسی سے ملے کار میں جا کر بیٹھ گئی تھی۔ عفت بیگم نے ان سب کو بہت تسلی دی تھی کے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ابھی وہ غصے میں ہے اس لیے ایسے کہ رہی ہے۔ جب وہ سکون سے بیٹھ کر سوچے گی تو ٹھیک ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...