میڈم پلیز آپ اپنی گاڑی چیک کروائیں؟
اور اگر اب آپ نے انکار کیا تو مجبوراً مجھے سر کو بلانا پڑے گا۔
نہیں تمھیں میں منہ سے چور لگتی ہوں۔
یا میں مرڈر کرنے والی لگتی ہوں۔
وہ تیکھے انداز میں اپنی طرف انگلی کر کے بولی۔
اور تمہارا سر کہیں کا ڈان ہے۔
یا پرائم منسٹر ہے۔
یا۔۔
میڈم یہ ہماری ڈیوٹی ہے۔ جو بھی کار گزر رہی ہے ہمارا چیک کرنا لازمی ہے۔ آپ چیک کروائیں اور جائیں۔
وہ اسے ٹوکتے ہوا بولا۔
وہ بول ہی رہا تھا جب پیچھے سے آواز آئی۔
کیا ہو رہا ہے یہاں؟
وہ کب سے کرم دین کو کسی سے بحث کرتا ہوا دیکھ کے اس کی طرف آیا۔
سر ان میڈم سے میں کب سے کہ رہا ہوں کے اپنی کار کی چیکنگ کروائیں۔ پر یہ مان ہی نہیں رہیں ۔ اور آگے سے سوال کر رہیں ہیں کے میں منہ سے چور لگتی ہوں۔
کرم دین بتا کے چپ ہوا۔
وہ اسے گھور رہی تھی۔
جاؤ تم میں دیکھتا ہوں۔
کرم دین فورا وہاں سے چلا گیا۔
جی بی بی۔
کیوں نہیں چیک کروا رہیں آپ؟
آپ منہ سے تو چور نہیں لگتی لیکن کیا پتہ آپ اندر سے ہوں۔ اس بات کا اندازہ ہم کسی کا منہ دیکھ کر نہیں لگا سکتے۔ ایسے تو ہر چور یا قاتل یہ ہی کہتا ہے میں منہ سے ایسا لگتا ہوں کیا؟
ان کی باتوں پر یقین کرنے بیٹھے تو پھر ہماری جاب ہو گئی۔ اور ایک اور بات پولیس سے بدتمیزی کرنے والے کو ہم دو منٹ کے اندر لاک اپ میں ڈال سکتے ہیں۔
لمٹ میں رہو مسٹر۔ میرے ساتھ فری ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔رہی بات کار چیک کروانے کی تو تم شوق سے کرو۔ ڈرتا تو وہ ہے جو چور ہوتا ہے۔
اور یہ جو تم نے بد تمیزی کی ہے اس کی بنا پر میں تمھے تمہاری جاب سے فارغ کروا سکتی ہوں۔
پولیس کی جاب کرتے ہو گے پولیس سٹیشن میں۔ میرے بھائی بھی پولیس میں ہی ہیں۔ ان سے کہ کے تمھے ایسے ایسے نکلوا دوں۔ وہ چٹکی بجا کے بولی۔
تم جو۔۔۔۔۔۔
سر سر۔۔
ابھی وہ کچھ بولتا پیچھے اسے کسی نے پکارا۔
وہ دوسری طرف متوجہ ہوا۔
جی۔۔
سر وہ اس کار میں۔۔
کرم دین بتاتا بتاتا رکا۔
کیا ہے؟؟
حازم نے تحمل سے پوچھا۔
سر آپ میرے ساتھ آئیں۔۔
حازم اس کی طرف بڑھ گیا۔ کچھ یاد آنے پر پیچھے مڑا اور بولا۔پانچ مینٹ صبر کرو۔ میں ابھی آتا ہوں۔کہ کے وہ چلا گیا۔
رکتی ہے میری جوتی۔۔
روب تو ایسے ڈال رہا ہے جیسے کہیں کا شہزادہ ہو۔ وہ نخوت سے کہتی کار میں بیٹھی اور کار اڑا لے گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
ساجدہ۔۔
جی بی بی جی۔
وہ مودب سی آ کے بولی۔
پلیز ایک گلاس پانی کا لا دو۔
وہ کہتی صوفے پر سر ٹکا گئی۔
اچھا جی۔ میں ابھی لاتی ہوں۔
وہ پرسکون انداز میں صوفے پر بیٹھی ہی تھی کے فردوس بیگم لاؤنج میں آئیں۔۔
تم کب آئی عنیزہ؟
وہ بیٹھتے ہوۓ بولی۔
ابھی آئیں ہوں ماما۔
اچھا۔
وہ بھی صوفے پر بیٹھ گئیں۔
ماما بی جان اور عفاف کہاں ہیں؟
بیٹا بی جان کمرے میں ہیں اور عفاف بازار گئی ہے ڈرائیور کے ساتھ۔ اسے کچھ لینا تھا۔
اوکے ۔۔
بی بی جی پانی!!
عنیزہ نے گلاس پکڑا اور گٹا گٹ پی گئی۔
گلاس واپس پکڑا کے وہ فون میں مصروف ہو گئی۔
فون چلاتے کچھ ہی وقت گزرا تھا کے اس کے کانوں میں رضیہ بیگم کی آواز پڑی۔
مجال ہے کے آج کل کی لڑکیاں کسی بڑے کو سلام ہی کر لیں۔ ادب ہی ختم ہو گئے ہیں۔
رضیہ بیگم کہتی تخت پر بیٹھ گئیں۔
عنیزہ اٹھی اور تخت پر جا بیٹھی۔
میری جان سے پیاری دادو۔
السلام علیکم!!
وہ ان کو ہگ کرتے ہوۓ بولی۔
وعلیکم السلام!!
اب زیادہ مکھن لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہائے اللّه جی۔۔
آپ کو یہ مکھن لگ رہا۔
آپ کو پتہ ہے آپ ہماری جان ہیں۔
ہاں سب پتہ ہے۔
یہ چھوڑو پہلے یہ بتاؤ کہاں سے آ رہی ہو؟
اور کتنی بار کہا ہے یہ فرنگیوں والا لباس پہن کے گھر سے باہر نا نکلا کرو۔ پر تم تو تم ہو اگر بات مان لی تو تمہاری جان نکل جائے گی۔
رضیہ بیگم اسے نا گوری سے دیکھ کر بولیں۔
بی جان۔۔
کیا برائی ہے اس میں؟
اس نے منہ بسورتے روز کی طرح ان سے سوال کیا۔
کیا برائی۔۔
تم یہ بتاؤ اچھائی کیا ہے؟
یار یہ ٹرینڈ میں ہیں۔
وہ منمنائی
ایسے ٹرینڈ کو آگ لگا دو۔
اچھی بھلی چھوٹی ہوتی قمیض شلوار پہنتی تھی۔ پر اب یہ۔
تھوڑے دن بعد تمہاری شادی ہے اگر سسرال والوں نے ایسے کپڑے نا پہننے دیے تو۔۔
اففففف۔۔
ایک تو آپ کو ہر بات میں میرا سسرال یاد آ جاتا ہے۔
سسرال والوں کی ایسی کی تیسی۔
کیوں نا پہننے دیں گے وہ۔
ایک یہ تمہاری بیس گز کی زبان۔۔
بی جان۔۔۔
جب میری شادی ہو گئی سب سے زیادہ مجھے آپ نے ہی مس کرنا ہے۔ پھر آپ نے کہنا ہے آ جاؤ اور میں نے نہیں آیا کرنا۔
چلو لڑکی۔۔
کیسی باتیں کر رہی ہو اور کیوں نہیں آیا کرنا؟
تمہارا گھر ہے دن آؤ رات آؤ۔
رضیہ بیگم اسے چپت لگا کے بولیں۔
فردوس بیگم ان دونوں کو دیکھ کے مسکرا رہی تھیں۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا۔
رضیہ بیگم گھر کی سربراہ تھیں۔
اکبر صاحب ان کے اکلوتے سپوت تھے۔ ایک سال پہلے ہارٹ اٹیک آنے کی وجہ سے وہ وفات پا گئے تھے۔
ان کی شادی رضیہ بیگم نے فردوس سے کی تھی۔
اکبر اور فردوس کے تین بچے تھے۔ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں۔
بیٹا پولیس میں تھا اور بیٹیاں پڑھ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
عنیزہ سو کے اٹھی تو شام کا وقت تھا۔ وہ فریش ہوئی اور کپڑے چینج کیے۔ شارٹ سی نیوی بلیو شرٹ ساتھ بلیو ہی جینز پہنے وہ قد دراز آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔ کندھوں تک آتے بال ہمیشہ کی طرح کھلے ہوۓ تھے۔ اپنا عکس آئینے میں دیکھ کر اسے فوری بی جان یاد آئیں۔ وہ سوچ کے مسکرا دی۔اب اس کا ارادہ نیچے جانے کا تھا۔
اپنے دیہان فون استعمال کرتی وہ لاؤنج کی طرف آ رہی تھی جب سامنے صوفے پر بیٹھے شخص پر اس کی نظر پڑی۔
فون اس کے ہاتھوں سے گرتا گرتا بچا۔
مقابل بھی اسے دیکھ چکا تھا وہ بھی فوراً کھڑا ہوا۔
تم۔۔
یہاں کیا کر رہے ہو؟
عنیزہ نے حیرت سے پوچھا۔
وہ کچھ بولتا پھر خود ہی بول پڑی۔
تم میری کار چیک کرنے میرے گھر تک آ گئے؟
یا اریسٹ کرنے آئے ہو؟
اور یہ بھی بتاؤ پیچھا کب سے کر رہے ہو؟
وہ تیکھے تیور لیے اسے گھور کے پوچھ رہی تھی۔
تم حور پری ہو جو میں تمہارا پیچھا کروں گا۔کار تو اب میں نہیں چیک کروں گا ہاں لاک اپ میں ضرور ڈال دوں گا۔
وہ بھی اسی کے انداز میں بولا۔
اور ایک اور بات کہیں تم فائق کے گھر کام والی ماسی تو نہیں ہو؟؟
حازم کا یہ کہنا تھا کے بس۔۔
عنیزہ کا غصہ ساتویں آسمان کو پہنچ گیا۔
تم بہت ہی۔۔
وہ بول ہی رہی تھی جب پیچھے سے فائق کی آواز سنائی دی۔
Hazim what a pleasent surprise..
کہتا آ کر وہ اس کو ملنے لگ گیا۔ عنیزہ حیرت سے اپنے بھائی کو دیکھ رہی تھی۔
عنیزہ یہ ہے میرا دوست حازم۔ہم ساتھ ہی پڑھیں ہیں پر یہ ہائر اسٹڈیز کے لیے اوٹ اوف کنٹری چلا گیا تھا۔ اب تھوڑے دن پہلے ہی واپس آیا ہے۔ اور یہ بھی پولیس میں ہی ہے۔
اور حازم یہ میری بہن عنیزہ۔ اس کی اسٹڈی اسی سال کمپلیٹ ہوئی ہے۔
بہت اچھا لگا آپ سے مل کے۔ عنیزہ نے با مشکل یہ لفظ منہ سے نکالے۔ اگر فائق نا ہوتا تو وہ اچھا کہنے کی بجائے اس کی خوب بے عزتی کرتی۔
مجھے بھی۔
وہ بھی سرسری سا بولا اور فائق کی طرف مت وجہ ہو گیا۔
بھائی جان آپ لوگ کریں باتیں میں چلتی ہوں۔
اوکے۔
ایک بار باہر ملو پھر بتاؤں گی کے ماسی کون ہے۔ میرے گھر میں کھڑے ہو کے نواب صاحب مجھے ہی ماسی کہ رہے تھے۔
اچھا لگا مائے فٹ۔
ایک نمبر کے۔۔۔
وہ بڑبڑاتے بڑبڑاتے رکی۔
اگر اس نے بھائی کو کچھ بتا دیا تو؟
اس نے دل میں سوچا۔
نہیں منہ سے تو نہیں لگتا کے بتائے گا۔
وہ اپنے دیہان خود سے باتیں کرتے آ رہی تھی کے اسے فردوس بیگم کی آواز سنائی دی۔
وہ سامنے کھڑی اسی کو دیکھ رہی تھیں۔
یہ تم خود سے کب کی باتیں کرنے لگ گئی؟
اور کون بد قسمت ہے جسے تم صلاواتوں سے نواز رہی تھی۔
کسی کو نہیں ماما۔
وہ میں اپنی بات کر رہی تھی۔
اچھا۔
آپ کہاں سے آئیں ہیں؟
بیٹا تمھے پتہ تو ہے ایک ویک رہتا بس تمہاری شادی میں اسی کی تیاری میں مصروف ہوں۔
اور تم اپنے کپڑے کب لاؤ گی؟
ماما۔۔
میں نے آپ سے کہا تھا آپ ہی لے آئیں۔ آگے بھی تو آپ اور عفاف ہی میری شاپنگ کرتی ہیں۔ ویسے بھی یہ بازاروں کے چکر میرے سے نہیں لگتے روز روز۔۔
میں لے تو آؤں پر یہ شادی کے ہوں گے بیٹا۔
اپنی پسند کے لے لو۔
ماما جان پلیز نا۔۔
میں نہیں جا سکتی بازار۔
وہاں جا کر میرا سر دکھتا ہے۔
اتنا کہ کے وہ خاموش ہوئی۔
اوکے میں ہی لے آؤں گی۔
فردوس بیگم نے ہامی بھری۔ کیوں کے وہ جانتی تھیں جس بات سے یہ ایک بار انکار کر دے پھر کوئی کتنی بھی ٹل لگا لے۔ یہ نہیں مانتی۔
لوو یو ماما۔۔
وہ فردوس بیگم کے گلے لگتے ہوۓ بولی۔
لوو یو ٹو۔۔
وہ بھی پیار سے بولیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...