مہرین نے اپنا سارا سامان بیگ میں ڈال لیا اور پھر مزید ایک لمحہ تاخیر کیئے وہ نیچے آگئی۔ اس نے زریاب کو کال کر دی تھی اور اب اسے وہاں رکنا بے معنی لگ رہا تھا۔ عاشر کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اس نے ایک بار بھی پلٹ کر مہرین کو نہیں دیکھا۔ کیا مہرین اتنی بھی حق دار نہیں تھی کہ وہ اسے جانے سے روکتا؟ اس سے کوئی باز پرس کرتا؟۔۔۔۔اس وقت وہ صرف ایک بات جانتا تھا اور وہ یہ کہ مہرین کو اس کی زندگى سے جانا ہوگا۔ وہ مزید اسے وہاں برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اسے اپنے گھر میں کیوں رکھتا؟ کیا رشتہ تھا اس کا اور مہرین کا؟ اس بے کبھی مہرین کو اپنی زندگی میں قبول کیا ہی نہیں تھا اور نہ ہی اس کے لیئے کوئی جذبہ رکھتا تھا تو پھر کیوں اور کس حثیت سے وہ اسے روکتا؟ اور جتنے زخم مہرین نے اسے دیئے تھے وہ آج تک بھرے نہیں تھے۔ وہ بس اس کے جانے کا انتظار کر رہا تھا۔
مہرین دیوار کا سہارا لیتی ہوئی نیچے آئى تھی۔ بخار کی وجہ سے سارا جسم درد کر رہا تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنے ہاتھوں میں ہینڈ بیگ اٹھایا تھا۔ وہ دبے قدموں کے ساتھ ٹی وی لاؤنج تک پہنچی تھی۔ عاشر کو اس کے قدموں کی آہٹ محسوس ہوئی۔ اس نے اب بھی پیچھے مڑ کر اسے دیکھنا گوارہ نہیں کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ رک جائے مگر یہ جذبہ اس کے دل میں کیوں پیدا ہو رہا تھا وہ خود نہیں جانتا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو وہ اسے اپنے گھر سے نکالنا چاہتا تھا مگر اب کیوں اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اسے روک لے۔ اس نے ان وقتی جذبات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے سر کو جھٹکا اور ایک بار پھر کھڑکی سے باہر چمکتے ہوئے چاند کی طرف دیکھنے لگا جس کی روشنی ہر سمت پھیلی ہوئی تھی۔ جس کی روشنی آج پورے آسمان کو روشن کر رہی تھی۔ مگر اس کا دل اس اندھیرے کی طرح تھا جس پر جتنی بھی روشنی ڈال دی جائے وہ کبھی جگمگا نہیں سکتا۔ مہرین نے خاموشی سے اپنا سامان اٹھایا اور پھر باہر کی جانب بڑھنے لگی۔ اس نے جاتے جاتے ایک سرسری نظر کھڑکی کے پاس کھڑے سنگ دل شخص کی طرف ڈالی تھی۔ جس کا دل پتھر ہو چکا تھا۔ مہرین نے ایک گہرا سانس لیا اور پھر باہر نکل گئی۔ عاشر نے اسے جاتا دیکھ کر ﺍپنے دل میں کرب کی ایک لہر کو محسوس کیا۔ وہ جا چکی تھی اس کی زندگى سے دور اس کے وجود سے دور اور وہ بس اسے جاتا دیکھ کر اپنی آنکھوں کو بند کرنے لگا۔ مہرین نے جیسے ہی اس گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھا اس نے خود سے ایک وعدہ کیا۔
“تم نے مجھے نکالا ضرور ہے عاشر احمد مگر ایک بات ياد رکھنا اس گھر میں تو قدم کیا میں کبھی زندگى میں تمہارى صورت تک نہیں دیکھوں گى۔ اور وہ وقت آئے گا جب تم آؤ گے میرے در پر کہ میں اس گھر میں واپس آجاؤں! اس وقت میں تمہیں بتاؤں گی مہرین حسن کسے کہتے ہیں۔” اس نے یہ جملہ ادا کیا اور باہر نکل گئی۔ پانچ منٹ بعد ہی زریاب گاڑی لے کر آگیا تھا۔
“بیٹھو!” اس نے دور کھڑی مہرین سے مخاطب ہو کر کہا۔مہرین نے فوراً گاڑی کا دروازہ کھولا۔ پہلے سارا سامان پچھلے حصے میں رکھا پھر خود آگے آکر بیٹھ گئی۔
“مہرین کیا ہوا ہے؟ سب خیریت تو ہے؟” زریاب فکر مندی سے پوچھ رہا تھا۔ مہرین خاموش تھی اس نے اب تک ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا۔
“مہرین کیا ہوا ہے؟ کچھ بولتی کیوں نہیں ہو؟” زریاب کو اس کی خاموشی کھل رہی تھی۔ مہرین ابھی تک خاموش تھی وہ شاید اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔
“زریاب ابھی رات میں ہی مجھے کراچی کا ٹکٹ کروا دو پلیز!” بہت دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے بولا تھا۔ اس کی یہ بات سن کر زریاب حیرانی سے اس کی شکل تکنے لگا۔
“کراچی؟ سب ٹھیک تو ہے نا؟” وہ مزید فکر مند ہو گیا۔ اسے کچھ نہیں سمجھ آ رہا تھا کہ مہرین واپس کیوں جانا چاہتی ہے۔
“میں نے کہا نا زریاب بات کرنے کا ابھی وقت نہیں ہے فلحال تم مجھے رات گزارنے کے لیے ابھی پناہ دلوا دو۔” اس نے خشک لہجے میں کہا۔
“ٹھیک ہے۔” اس نے مختصر سا جواب دیے کر گاڑی اسٹارٹ کی۔ رات کے اس وقت وہ اسے لے کر کہا جاتا اسے بلکل سمجھ نہیں آرہی تھی۔ پھر فوراً اس کے دماغ میں خیال آیا اور اس نے گاڑی کو دوسری طرف موڑا۔ اس نے سوچا کہ مہرین کو اپنے اسٹوڈیو ہی لے جائے وہاں اس کی کام کرنے والی اوپر والے فلور پر ہی رہتى ہے وہاں مہرین آرام سے رات گزار سکتی ہے۔ یہی سوچ کر اس نے گاڑی کو اسٹوڈیو کے سامنے روکا۔ مہرین نے اس وقت تو آنکھوں کو بند کر لیا تھا۔ وہ کمزوری کی وجہ سے اٹھ نہیں پا رہی تھی۔ زریاب نے اتنی دیر میں اسٹوڈیو کا اوپر والا دروازہ کھولا اور پھر ان انٹی سے بات کی۔ وہ مہرین کو اپنے ساتھ اوپر لے گئى اور ایک کونے والے بستر پر لٹا دیا۔ پھر زریاب باہر آگیا اور اس نے مہرین کے لیئے کل صبح اسلام آباد سے کراچی جانے والی فلائٹ بک کروا لی۔ ساری رات وہ اس کے پاس بیٹھا رہا۔ اس کے ماتھے پر ٹھنڈی پٹیاں رکھیں۔ اور صبح ہونے کا انتظار کیا۔
عاشر نے میرین کے جانے کے بعد باہر کا دروازہ بند کردیا۔ خود وہ اس وقت کسی تکلیف سے دوچار تھا۔ اسے رہ رہ کر بابا جان کا وہ وعده یاد آرہا تھا۔
“بیٹا مہرین کا ہاتھ ہمیشہ تھامے رکھنا۔”
وہ کیسے بھول سکتا تھا وہ وعدہ جو اس نے بابا جان سے کیا تھا۔ مگر اس کے باوجود بھی اس نے ان کی بات کا بھی پاس نہیں رکھا اور ان کی بیٹی کو رات کے اس پہر گھر سے نکال دیا۔ اس کے دماغ میں عجيب طرح کے وہم آنے لگے۔ مہرین کہاں گئ ہوگی؟ وہ کیسے اکیلی تنہا رات کو نکلی ہوگی۔ کہاں گئ تھی اس کی مردانگی؟ وہ اس کی بیوی تھی وہ اور کیا ایک کو مرد یہ گوارا ہونا چاہیئے کہ اس کی موجودگی میں بھی اس کی بیوی رات کے اس پہر در در کی ٹھوکریں کھائے۔ وہ ابھی یہ سوچ کر پلٹا ہی تھا کہ اس کا ضمیر ملامت کرنے لگا اس کا دل بیٹھنے لگا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی دوڑتا ہوا گھر سے باہر نکلا آیا۔ وہ پوری سڑک پر مہرین کو تلاش کرتا رہا مگر وہ اسے کہیں نہیں ملی۔ اس نے اس کو ڈھونڈنے کے لئے آوازیں بھی دیں مگر مہرین دور دور تک اسے نظر نہیں آئى۔ اس کا دل گھبرانے لگا۔ وہ بوجھل دل لیئے واپس گھر میں آیا تو بانو اس وقت کھڑی اس کو گھورنے لگی۔
“یہ کیا ہو رہا تھا عاشر؟ مہرین بیٹا کہاں ہے؟” اس کے اندر آتے ہی بانو نے سوال کیا۔
”وہ چلی گئی۔“ اس کی آواز میں افسردگی تھی۔
“کہاں چلی گئی اس وقت عاشر؟” بانو نے گھر کے چاروں سمت نظریں دوڑائیں۔ عاشر پہلے ہی مجرم سا کھڑا تھا اور اب بانو اسے مزید الجھا رہی تھیں۔
”زریاب کے ساتھ“ وہ بس اتنا کہہ سکا تھا۔ وہ اس وقت کسی سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا اور مزید کوئى اور جواب دیئے بغیر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ بانو نے اسے کو جاتا دیکھ کر اس کو روکنا چاہا مگر وہ اس وقت اتنے غصے میں تھا کہ شاید بانو کی آوازوں کا بھی کوئى اثر نہیں ہوا اسے۔
وہ اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ آج کی رات گزارنا اسے دشوار لگ رہا تھا۔ ایک درد نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اسے بس مہرین کی وہ بے بسی یاد آرہی تھی جب وہ مہرین کو اپنی زندگی سے نکلنے کا کہہ رہا تھا۔ وہ کیوں بار بار اس کے بارے میں سوچ رہا تھا؟ کیوں اسے آج پہلی بار مہرین سے ہمدردی محسوس ہو رہی تھی؟ وہ کیوں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو سوچ رہا تھا۔ یہی سوچتے سوچتے کس وقت اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ گہری نیند سو گیا۔
******
مہرین نے جب صبح آنکھ کھولی تو وہ کسی ٹوٹے پھوٹے بستر پر پڑی ہوئی تھی۔ اس نے بمشکل خود کو سہارا دیتے ہوئے بستر پر سے اٹھنے کی کوشش کی۔ زریاب کونے پر کھڑا ہو کر فون پر بات کر رہا تھا۔ مہرین کو اٹھتا دیکھ کر اس نے ایک دم پیچھے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔
”کیسا محسوس کر رہی ہو؟“ زریاب نے اس کے قريب آکر پوچھا۔
“ہاں بہتر محسوس کر رہی ہوں! مجھے یہ بتاؤ تم نے ٹکٹ بک کروا لیا؟” اسے ایک دم یاد آیا تھا کہ ہر حال میں واپس کراچی جانا تھا۔ زریاب نے ایک نظر گھڑی پر ڈالی جس میں اس وقت صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔ اسے یاد آیا اس نے مہرین کا ٹکٹ کنفرم کروانا ہے۔ اس نے فوراً ہی صبح کی فلائٹ کنفرم کروائی اور پھر مہرین کا سامان لے کر اسے ایئرپورٹ چھوڑنے کے لئے خود اس کے ساتھ گیا۔ پورا راستہ وہ ایک دم چپ تھی۔ ناشتہ بھی اس نے صیحح سے نہیں کیا تھا۔ وہ بس وہاں سے کراچی جانا چاہتی تھی۔ گاڑی ائیرپورٹ کے پارکنگ ایریا میں پارک کرنے کے بعد وہ اور مہرین ویٹنگ ایریا میں آگئے جہاں اس نے اپنا ٹکٹ کنفرم کروایا اور کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد جب اس کی فلائٹ کا وقت ہوا تو وہ سامان اٹھا کر وہاں سے جانے لگی جب زریاب نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا۔
“مجھے معاف کر دینا مہرین میری وجہ سے تمہارے اور عاشر کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے۔” اس نے ایک نظر مہرین کے افسرده چہرے پر ڈالی۔
“نہیں زریاب پلیز اس سب میں تمہارا کوئى قصور نہیں۔ تم تو اچھا ہی چاہتے تھے مگر حالات کچھ ایسے تھے کے ۔۔۔” وہ کہتے کہتے خاموش ہوگئ۔
مہرین نے اس کو سمجھایا۔ وہ پھر بھی اس سب میں خود کو قصور وار سمجھ رہا تھا۔
“میں عاشر کو اتنا احمق نہیں سمجھتا تھا۔ تم جیسی ہیرہ لڑکی اسے مل گئی اور اس کا دماغ ابھی تک ساتوے آسمان پھر ہی ہے۔ رہنے دو اسے اکیلے خود عقل آئے گی اس کم عقل کو۔” زریاب نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ مہرین عاشر کا ذکر سن کر مزید اداس ہوگئی۔ وہ کل رات ہونے والے بھیانک واقعہ کو نہیں بھول پائی تھی۔ وہ الزام جو عاشر نے اس پر لگایا تھا وہ زخم جو اس نے اس کی روح کو پہنچایا تھا وہ نہیں سہہ پا رہی تھی۔
“ان باتوں کا نہ ہی تو کوئی حاصل ہے اور نہ ہی کوئی جواز۔ میں اس کی زندگی سے ہی نکل گئی ہوں تو اب مزید بچا کیا ہے؟ یہ سزا ہے میری زریاب جو عمر بھر مجھے کاٹنی ہے۔ اس لئے مجھے فرق نہیں پڑتا۔” اس نے اداس لہجے میں کہا اور وہاں سے جانے کے لئے آگے نکل گئی۔ مہرین کی یہ حالت دیکھ کر زریاب کو بہت دکھ ہوا۔ وہ جانتا تھا مہرین کے دل میں کیا ہے۔ وہ جان گیا تھا کے مہرین کا دل عاشر کے لئے دھڑکتا ہے وہ عاشر کو چاہتی ہے اور اس کی محبت کی خاطر ہی اس سے دور جا رہی ہے۔ زریاب سے بہتر کون جان سکتا تھا درد و تکلیف جو وصالِ یار میں ملتی ہے۔ اس کا درد وہ سمجھ سکتا تھا مگر اب صرف آنسوں کے سوا اس کی زندگی میں بچا کیا تھا۔
*****
وہ آج دیر سے سو کر اٹھا تھا تب ہی جب اس کی نظر گھڑی پر پڑی تو وہ چونک گیا۔ وہ جلدی سے بستر سے اٹھا اور فون چیک کرنے لگا جس پر عدیل کی دس مس کال اور شیزہ کے ڈھیر سارے میسیجز بھرے پڑے تھے۔ اس نے ایک سرسری سے نظر فون پر ڈالی اور اسے سائیڈ پر رکھ دیا۔ کچھ دیر کھڑکی سے باہر دیکھتا رہا اور کل رات ہونے والے واقعہ کو یاد کرنے لگا۔ اس کا ذہن اس وقت کام نہیں کر پا رہا تھا اور وہ خود اپنے ذہن سے وہ باتیں نکالنی کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کا دل بیٹھنے لگا اور وہ بوجھل دل لئے کرسی پر بیٹھ گیا۔
“عاشر یہ کیسا الزام لگا رہے ہو مجھ پر!” یہ آواز اس کے ذہن میں گونج رہی تھی۔ وہ آواز وہ آنسوں اس کے دل کو تڑپا رہے تھے۔
وہ کیا واقعی بیمار تھی؟ کیا وہ سچ بول رہی تھی کے اس کا زریاب سے کوئی تعلق نہیں؟ کیا عاشر نے مہرین کے ساتھ زیادتی کی؟ وہ نہیں سوچ پا رہا۔
وہ بچپن سے ہی نرم طبیعت کا مالک تھا۔ اگر کبھی کسی کو روتا دیکھتا تو خود بھی آنسوں اس کی آنکھوں سے نکل آتے۔ اگر کسی کو تکلیف میں دیکھتا تھا تواس کا بس نہیں چلتا تھا کے اس کے درد کو اپنا درد بنا لے۔ اس نے کبھی کسی کے ساتھ برا نہیں کیا کبھی کسی کا برا نہیں چاہا تو پھر کل کیسے کس طرح اس نے اتنا گھٹیا الزام مہرین پر لگایا۔ کیوں سب جانتے ہوئے بھی اس نے رات کے اندھیرے میں اپنی بیوی کو گھر سے نکل دیا۔
“بیوی؟” اس نے خود سے سوال کیا۔
“کیا میرا ان کا رشتہ ہے؟ کیا میں ان کے بارے میں سوچنے لگا ہوں؟” یہ سوال جو وہ خود سے کر رہا تھا ان کا جواب اس کے پاس خود نہیں تھا۔ رات کو جو اس نے ساری پرفیوم کی بوتلیں توڑی تھیں ان کے کانچ ابھی تک کمرے کےہر کونے پر بکھرے ہوئے تھے۔ وہ ابھی ایک ٹوٹا ہوا شیشہ اٹھانے والا ہی تھا کے اس کا فون بجنے لگا۔ بہت آہستہ قدموں کے ساتھ وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھا پھر فون کو کان سے لگایا۔
“ہیلو؟ عاشر؟ کہاں ہے آپ؟ کب سے ہم سب آپ کو کال ملا رہے ہیں اور آپ اٹھا نہیں رہے!” وہ آواز شیزہ کی تھی اور وہ بغیر سانس لئے بولے جارہی تھی۔
“آرہا ہوں۔” اس نے بہت ہی دھیمے لہجے میں بات کا جواب دیا۔
“سب آپ کا ویٹ کر رہے ہیں پلیز جلدی آئیں۔” شیزہ نے اسے بتایا۔
“ہاں نا آرہا ہوں۔” یہ کہہ کر اس نے فون کو بستر پر پٹخا اور پھر باتھ روم میں گھس گیا۔ شیزہ کو اس کے اس لہجے میں بیزاری محسوس ہوئی تھی۔ یہ زندگی میں پہلی بار اس نے عاشر کو اس طرح بات کرتے ہوئے سنا تھا جو اس کے لئے بہت مشکوک تھا۔
*********
کراچی پہنچ کر اس نے بابا جان اور ماما جان کو اپنے آنے کی اطلاح دی۔ بابا جان نے فوراً ہی ڈرائیور کو اسے لینے کے لئے بھیج دیا۔ کراچی کی ہوا میں سانس لے کر اسے کچھ سکون اور قرار آیا تھا۔ وہ آدھے گھنٹے میں ہی اپنے گھر پہنچ گئی تھی۔ ماما جان گیٹ کے باہر کھڑی اس کے راہ تک رہی تھیں۔ جیسے ہی گاڑی گھر پر روکی مہرین نے دروازہ کھول کر ماما جان کی طرف دیکھا۔
“ماما جان!” وہ بھاگتی ہوئی ان کی طرف آئی اور ان کے گلے سے لگتے ہی رونے لگی۔ آنسوں کا ایک سمندر اس کی آنکھوں سے جاری ہوا۔
“مہرین میری جان میری بچی کیا ہوا ہے؟” اس کے یوں رونے سے ماما جان گھبرا گئیں۔ وہ بجائے کچھ بتانے کے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
“مہرین آخر بات کیا ہے ایسے اچانک کیوں آئی ہو؟ سب ٹھیک تو ہے نا؟ عاشر کہاں ہے؟ کچھ بولو بھی!” اس کی چپ ماما جان کو کسی خطرے کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔
“اچھا اندر آؤ۔” انہوں نے اس کا ہاتھ تھاما پھر اسے سہارا دیتے ہوئے اندر لے آئیں۔ بابا جان جو اس وقت چاۓ پی رہے تھے اسے آتا دیکھ کر کھل اٹھے۔
“مہرین! بابا کی جان!” وہ ایک دم اس کی طرف بڑھے۔ وہ ماما جان سے الگ ہو کر بابا جان کے سینے سے لگ کر رونے لگی۔ ماما جان کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔ انہوں نے کبھی مہرین کو اس قدر پریشان اور اداس نہیں دیکھا تھا۔
“مہرین کیا ہوا ہے؟ میری طرف دیکھو؟” بابا جان نے اسے خود سے الگ کیا اور پھر اپنی انگلیوں سے اس کے آنسوں پوچھے۔
“آپ کی یاد آرہی تھی بابا جان! بس مجھ سے رہا نہیں گیا میں آگئی۔” اس نے بڑی آسانی سے جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے کہا۔
“میرے بچے اگر آپ کو یاد آرہی تھی تو آپ ہمیں پہلے سے بتاتیں آپ اس طرح اچانک آیئں ہم ڈر گئے۔” بابا جان کی آواز میں تشویش آئی تھی۔
“بس آپ کی جدائی نہیں سہی گئی مجھ سے اور میں یہاں چلی آئی۔” اس نے آنسوں صاف کرتے ہوئے بابا جان کے سپاٹ چہرے کی طرف دیکھا۔ اس نے معملہ کو بہت اچھے طریقے سے سنبھال لیا تھا۔ بابا جان نے جب اس کی بات سنی تو تب جا کر انہیں کچھ تسلی ہوئی۔
“عاشر ساتھ نہیں آیا؟” انہیں ایک دم عاشر کا خیال آیا۔ عاشر کا نام سنتے ہی اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور وہ گم سم کھڑی رہی۔ اس نے بہت مشکل سے اپنے چہرے کے تاثرات کو چھپانا چاہا اور کچھ سوچ کر جواب دیا۔
“وہ آفس کے کام کی وجہ سے نہیں آسکا! جلد ہی یہاں چکر لگاۓ گا۔ مجھے تو آپ کی اتنی یاد آرہی تھی کے مجھ سے رہا نہیں گیا۔ پھر عاشر نے بھی یہی مشورہ دیا کے مجھے کچھ وقت آپ کے ساتھ بتانا چاہیے اس لئے میں آگئی۔” اس کے تفصیل سے بتانے پر بابا جان نے سر ہلا دیا۔
“اچھا کیا آپ آگئیں ہمیں بھی آپ کی بہت یاد آرہی تھی۔” انہوں نے محبت سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ ماما جان جو کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھیں ان کو معملہ کسی حد تک گڑبڑ لگا تھا مگر انہوں نے زبان سے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
پھر وہ کچھ دیر بات چیت کرنے کے بعد سونے چلی گئی۔ ماما جان کے دل میں وسوسہ تھا کے کچھ تو ایسا ہوا تھا کے مہرین یوں اچانک کراچی آگئی۔ وہ بابا جان سے بھی کوئی بات نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ ان کی طبیعت ویسے ہی خراب تھی اور ان سے مہرین کے یوں اچانک آنے والی بات پر تبصرہ کرنا نامناسب تھا۔ وہ اپنے دل میں آنے والے ہار خدشہ کو چھپا گئیں۔
*******
عاشر آفس دیر سے سے پہنچا تھا جس پر میٹنگ میں بیٹھے سب ہی لوگوں نے غصہ کیا۔ وہ آج خود اندر سے آگ بگولہ ہورہا تھا مگر آفس میں اپنا غصہ کنٹرول میں رکھنا اس کے لئے بہت ضروری تھا۔ شیزہ اسے آتا دیکھ کر مسکرانے لگی اور پھر اس کی برابر والی سیٹ پر آکر بیٹھ گئی۔ عاشر نے صرف ایک نظر شیزہ کے چہرے پر ڈالی اور پھر اس نے سنجیدگی کے ساتھ میٹنگ کا آغاز کیا۔ آج سب نے یہ بات نوٹ کی تھی کے عاشر کا لہجہ بجھا بجھا سا ہے۔ وہ چیزوں کو صحیح طرح سے بتا نہیں پا رہا تھا جس کی وجہ سے سارے آفیسرز کو پروجیکٹ سمجھنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ ابھی وہ بات کر ہی رہا تھا کے ایک لڑکا بیچ میٹنگ میں بول پڑا۔
“سر لگتا ہے آج آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں آپ کل یہ میٹنگ رکھ لے گا۔ یہ پروجیکٹ ویسے بھی چھوٹا ہے جلد ختم ہوجاۓ گا۔” اس لڑکے نے عاشر ،کی طرف رخ کر کے کہا تو ساری نگاہیں عاشر کے بے زار چہرے پر اٹھنے لگیں۔
“سر میں بھی یہی بات کہنے والا تھا۔” ایک اور لڑکے نے دوسرے لڑکے کی حمایت میں کہا تو عاشر کا خون کھول اٹھا۔
“اسٹاپ اٹ! یہ میری کمپنی ہے میں اس کا Ceo ہوں میں جیسا چاہوں گا ویسا ہی ہوگا! یہ میٹنگ آج ہی مکمل ہوگی جس کو مئسلہ ہے وہ یہاں سے اٹھ کر باہر جا سکتا ہے!” اس نے زور سے اپنا ہاتھ desk پر مار کر کہا تو سب ایک دم خاموش ہوگئے اور پھر ایک دوسرے کی طرف تشویشی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔
عدیل نے بھی آج پہلی بار عاشر کو اس قدر غصے میں دیکھا تھا۔ میٹنگ ختم ہونے پر عدیل عاشر کے آفس گیا۔ وہ کرسی سے ٹیک لگائے آنکھوں کو بند کر کے اپنی انگلیوں سے اپنے سر کو دبا رہا تھا۔
“عاشر؟” عدیل نے اس کا بازو ہلایا۔
“بولو!”
“کیا ہوا ہے آج تجھے؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟” عدیل نے ایک بار اس کا بازو ہلایا تو اس نے یک دم اپنی آنکھوں کو کھولا اور پھر آگے ہو کر بیٹھ گیا۔
“کچھ نہیں ہوا۔” اس نے بے فکری سے کہا۔
“لگ نہیں رہا۔”
“تو میں کیا کروں؟” اس نے چڑ کر جواب دیا۔
“مہرین بھابھی کے ساتھ جھگڑا ہوا ہے کیا؟” وہ اب اصل بات کی طرف آیا تھا جس پر عاشر نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔
“وہ چلی گئی ہے اپنے عاشق کے ساتھ ہمیشہ کے لئے۔ میں اب ان کا ذکر سننا نہیں چاہتا۔” اس کا لہجہ کا خشک تھا۔
“کیا مطلب ہے؟ کیا کہہ رہے ہو تم؟” عدیل نے حیران نظروں سے عاشر کی طرف دیکھا۔
“وہ چلی گئی ہیں۔۔۔۔” اس کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔
“کہاں؟” عدیل کو اچھنبھا ہوا۔
“مجھے نہیں پتا۔” اس نے کندھے اچکائے۔
“عاشر وہ بیوی ہے تمہاری ایسے کیسے چلی گئی وہ؟ تم ہوش میں تو ہو؟” عدیل زچ ہوا۔
“عدیل اگر ہم اس موضوع پر بات نہ کریں تو بہتر ہوگا۔ وہ جہاں ہیں جس کے ساتھ ہے خوش ہی ہوں گی۔” وہ یہ بات بہت مشکل سے کہہ پایا تھا۔ ہجر یاراں کی اذیت اسے تڑپا رہی تھی۔ اس اذیت نے تاحال اس کے سینے کو جکڑ رکھا تھا۔ عدیل نے اس کے چہرے پر لکھی بے بسی اور بے قراری کو جان لیا تھا۔ وہ ایک بوجھل سی سانس لیتے ہوئے باہر نکل گیا۔
**********
مہرین کے جانے کے بعد زریاب بہت خاموش رہنے لگا۔ ہفتے میں اکثر کلاسز آف کر دیتا یا پھر اگر کلاس میں پڑھا رہا ہوتا تو بولتے بولتے خاموش ہوجاتا۔ اس کے اس رویہ پر عروسہ کو بہت تجسس ہوا۔ وہ اسے نوٹ کر رہی تھی وہ دن بہ دن اداس اور اکیلا رہنے لگا۔ مہرین بھی اسٹوڈیو نہیں آرہی تھی جس سے ظاہر تھا کے وہ مہرین کی وجہ سے پریشان ہے۔ عروسہ اکثر جب زریاب کی آنکھوں میں دیکھتی تھی تو اسے محسوس ہوتا تھا کے ان آنکھوں میں درد اور تکلیف کی ایک داستان چھپی ہے جسے اس نے اپنے دل کے کسی کونے میں چھپا رکھا تھا۔ وہ آج ان سب کو pochade بنانا سکھا رہا تھا۔ یہ اسکی آخری کلاسز چل رہی تھیں اس کے بعد اس کے اس سمر کورس کا اختتام ہونا تھا۔ آج بھی کلاس میں حسب معمول شور وغل عروج پر تھا۔
“Silence! This is my last warning!”
اس نے بہت تیز آواز میں کہا تو ساری کلاس ایک دم چپ ہوگئی۔ عروسہ جو مسلسل میسج کر رہی تھی اس کی زور دار آواز پر سہم گئی اور فوراً موبائل بند کر کے زریاب کی طرف متوجہ ہوئی۔ اس نے پھر ایک گہرا سانس لیا اور پھر کینوس اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے pochade box میں سے پینٹ نکالا اور آہستہ آہستہ اس پر پھیرنا شروع کیا اور ساتھ ساتھ اس کے بارے میں بتاتا بھی گیا۔ اس نے آدھے گھنٹے میں ہی وہ پینٹنگ مکمل کر لی تھی جس میں اس نے گہرے رنگ کا آسمان اور سوکھے پیڑ بنائے تھے۔
“کیوں کے یہ آپ کا آخری ہفتہ ہے اس لئے میں چاہوں گا کے آپ سب بہت محنت اور جذبے سے اس طرح کی پینٹنگ بنائیں۔ آپ نے یہاں بہت کچھ سیکھا سے اس لئے میں امید کرتا ہوں کی آج مجھے کوئی مایوس نہیں کرے گا۔” وہ اپنے سارے سٹوڈینٹس سے مخاطب تھا جو بہت غور سے اس کی بات کو سن رہے تھے۔
“جی سر!” سب نے بہت خوش اسلوبی کے ساتھ ہامی بھری اور اپنی اپنی پینٹنگز بنانا شروع ہوگئے۔ عروسہ نے بہت ہی مشکل سے اس کے چہرے سے نظریں ہٹاتے ہوئے کینوس کی طرف دیکھا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو دیکھے جارہی تھی جب کے باقی سب لوگ پینٹنگ کرنے میں مصروف تھے۔ وہ یہاں پینٹنگ سیکھنے نہیں آئی تھی وہ تو زریاب کی وجہ سے یہاں آئی تھی۔ اس کی محبت عروسہ کو یہاں کھینچ لائی تھی۔ اسے یاد ہے وہ دن جب آج سے دو سال پہلے وہ اپنی خالہ کے ساتھ کراچی گھومنے آئی تھی اور وہاں اس نے کافی دن گزرے تھے۔ انہی دنوں میں ایک دن کی بات ہے جب وہ گھومنے کسی آرٹس گیلری میں آئی تھی اور وہاں اس کی نظر زریاب پر پڑی تھی جو ہر کسی کو وہاں گائیڈ کر رہا تھا بہت ہی تحمل اور برداشت کے ساتھ۔ ساری لڑکیاں اس کے ارد گرد جمع تھیں اور اس کے ساتھ بہت بے تکلفی سے بات کر رہی تھیں مگر مجال ہو جو زریاب نے آنکھ اٹھا کر کسی ایک لڑکی کو بھی دیکھا ہو۔ وہ نظریں جھکا کر بہت ہی دھیمے لہجے میں بات کر رہا تھا۔ اس کا یہ انداز عروسہ کو بہت پسند آیا تھا۔ وہ ابھی آگے جانے کے لئے بڑھی ہی تھی کے لڑکوں کا ہجوم ہونے کی وجہ سے وہ رک گئی۔ سارے لڑکے ایک پینٹنگ کے گرد جمع تھے اور تصویر کھنچننے میں مصرروف تھے۔ کوئی بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹ رہا تھا جس کی وجہ سے وہ ان لڑکوں کے درمیان پھس سی گئی تھی۔ اسے بہت گھٹن محسوس ہورہی تھی اس لئے کیونکہ آگے جانے والا سارا راستہ بند تھا اور وہ لڑکے وہاں سے جانے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ وہ ابھی جانے کے لئے آگے بڑھی ہی تھی کے ایک لڑکے کی کہنی اس کے منہ پر زور سے جا لگی اور اس کے ہونٹوں سے خون رسنے لگا۔ اس نے بہت غصے سے اس لڑکے کی طرف دیکھا مگر اس نے معذرت تو دور کی بات ہے پیچھے مڑ کر دیکھنا تک گوارہ نہیں کیا۔ زریاب نے یہ سب دیکھ لیا تھا وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور وہاں سب کو دھکا دیتا ہوا عروسہ کے قریب آکر کھڑا ہوگیا۔
“Excuse me! You should apologise to this Lady!”
اس نے اس لڑکے کے کندھے کو تھپکا۔
“میں؟” اس لڑکے نے حیران ہو کر پوچھا۔ عروسہ کا وجود پتھر کا ہوگیا وہ بس چپ چاپ زریاب کے چہرے کو دیکھتی گئی۔
“جی آپ! آپ کو اتنی تمیز نہیں ہے کے آپ نے ایک لڑکی کو کہنی ماری اور بجائے اس سے معذرت کرتے آپ الٹا ہنس رہے ہیں!” زریاب نے سرد لہجے میں کہا۔
وہ لڑکا بھی بہت شرمندہ ہوا اور پھر عروسہ سے معذرت کر کے وہاں سے ہٹ گیا۔
“سوری مس آپ کو اس طرح کی تکلیف اٹھانی پڑی۔” زریاب نے عروسہ سے کہا۔
“کوئی بات نہیں۔” وہ کچھ بول نہیں پا رہی تھی۔ اس نے پھر ایک دم اپنے ہاتھ شرٹ کی جیب میں ڈالے اور ٹشو اس کو تھاما کر وہاں سے چلا گیا۔ عروسہ کو لگا جسے وہ کوئی انسان نہیں فرشتہ تھا۔ اس کی یہ ادا عروسہ کے دل کو بے چین کر گئی اور وہ بس بس اسے دور جاتا دیکھتی رہی۔ بعد میں اسے معلوم ہوا کے وہ ایک آرٹسٹ ہے اور بہت پینٹنگز اور اسکیچ بناتا ہے۔ اسی لئے دو سال بعد اسکی ویب سائٹ پر اسے پتا چلا تھا کے زریاب اسلام آباد میں ہی ایک اسٹوڈیو چلا رہا ہے جس میں وہ سٹل ڈرائنگ اور پینٹنگ سیکھاتا ہے۔ اس کی محبت کے حصار میں جکڑی عروسہ آج اس کے اسٹوڈیو میں بیٹھی تھی۔ وہ صرف اور صرف زریاب کی محبت میں یہاں آئی تھی اور اسے اپنا بنانے کی چاہ رکھتی تھی۔
***********
کراچی آنے کے بعد مہرین بہت بجھی بجھی سی رہنے لگی تھی۔ سارا دن یا تو کمرے میں بند ہوتی تھی یا پھر درختوں کو پانی دے کر اپنا وقت بتاتی تھی۔ ماما جان نے اس سے کئی بار عاشر کے بارےما پوچھا اور وہ ہر بار ٹال دیتی کے وہ آفس میں مصروف ہوگا۔ اس نے بابا جان کے ساتھ وقت بتانا شروع کردیا تھا۔ ان کے ساتھ chess کھیلتی یا پھر ان سے بچپن کی کہانیاں سنتی اور وہ بھی اسے اپنے قریب بیٹھا کر اس سے باتیں کرتے اسے خوب پیار کرتے۔ مہرین کی جان میں ہی ان کی جان تھی۔ وہ آج مل کر chess کھیل رہے تھے جب فون بجا۔
“بابا جان آپ نے غلط کیا ہے! یہ باری میری تھی! ” اس نے خفگی سے کہا اور پھر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی۔ فون بجنے پر ماما جان اٹھ کر گئیں۔
“ہیلو!”
“اسلام و علیکم ماما جان!” دوسری طرف آواز عاشر کی تھی۔ اس کی آواز سنتے ہی ماما جان نے ایک چھبتی نظر مہرین کے چہرے پر ڈالی۔
“وعلیکم اسلام! عاشر کہاں ہو تم؟ اکیلے تم نے مہرین کو بھیج دیا اور خود وہاں ہو!” ان کا ٹھہرا ہوا انداز عاشر کو چونکنے پر مجبور کر گیا۔
“وہ ۔۔۔۔” وہ کچھ بول نہیں پا رہا تھا۔
“بولو عاشر؟” انہوں نے دوبارہ اس سے پوچھنا چاہا۔ عاشر کا نام سنتے ہی مہرین کے دل میں ایک عجیب سی گھبراہٹ ہونے لگی۔
“کون ہے زرمینہ؟” بابا جان آخر کار بول پڑے۔
“عاشر ہے آپ ہی بات کریں اس سے۔” ماما جان الجھ گئیں اور فون بابا جان کو تھما دیا۔
“بیٹا عاشر کہاں ہیں آپ؟ سب خیریت تو ہے؟” وہ پریشان ہوگئے۔
“میں ٹھیک ہوں بابا جان بس خیریت معلوم کرنے کے لئے فون کیا تھا۔” عاشر نے بہت مشکل سے جواب دیا۔
“ہم ٹھیک ہے مگر آپ آجاتے تو اچھا تھا۔”
“بابا جان میں نے یہی بتانے کے لئے فون کیا ہے کے میں لندن جارہا ہوں۔ وہاں میرا ایک پروجیکٹ نا مکمل رہ گیا ہے۔ اس لئے کافی عرصہ میں اب وہی رہوں گا۔” وہ ان کو بتانے لگا۔
“یوں اچانک؟” وہ کافی حیران ہوئے۔
“جی بابا جان مگر جلد ہی واپس آؤں گا تب تک مہرین وہیں رہیں گی۔” وہ دھیرے سے گویا ہوا تو بابا جان کے چہرے پہ تاسف پھیل گیا۔
مہرین وہاں مزید نہیں بیٹھنا چاہتی تھی اسے عاشر کے نام سے بھی نفرت تھی۔ وہ وہاں سے اٹھ کر جانے لگی تھی جب بابا جان نے اسے آواز دے کر روکا۔
“یہ لو اس سے خود ہی بات کرلو۔” بابا جان نے مہرین کو اشارے سے بلایا۔
“جی۔” وہ گم سم وہاں کھڑی تھی۔
“عاشر بات کرنا چاہ رہا ہے۔” انہوں نے فون اسے تھما دیا۔ عاشر سے بات تو کیا وہ اس کا ذکر بھی نہیں سننا چاہتی تھی اور بابا جان نے زبردستی اسے فون پکڑا دیا تھا۔ وہ بابا جان کے سامنے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی اسی لئے اس نے خاموشی سے فون کان سے لگا لیا۔
“ہیلو؟ مہرین؟” عاشر وہ الفاظ بہت ہی مشکل سے کہہ پایا تھا۔ مہرین نے اس کی آواز سنی تھی مگر جواب میں کچھ نہ کہا۔ اس کی آواز سن کر اس کے دل میں ایک طوفان اٹھنے لگا مگر تب بھی وہ خاموش رہی۔
“مہرین؟ آپ سن رہی ہیں نا؟” وہ ایک بار پھر بولا تو مہرین نے فون رکھ دیا۔
“کیا ہوا بات نہیں کی؟” بابا جان نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔
“لائن کٹ گئی شاید۔” اس نے کندھے اچکا کر کہا اور پھر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ عاشر لندن جارہا تھا یہ سوچ کر اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔
******
مہرین کے جانے کے بعد عاشر کو ایک پل کے لئے بھی سکون نہیں آیا۔ وہ بات بات پر غصہ کرنے لگ جاتا یا پھر دوسروں پر اپنا غصہ اتارتا۔ ان سب وجوہات کی بنا پر اس نے لندن جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ فلحال کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔ اس نے ذہن میں عجیب سے الجھن تھی جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان تھا۔
“لندن جانے کی وجہ؟” عدیل نے اس سے جاننا چاہا۔
“کام ہے مجھے۔” اس نے مختصر سا جواب دیا۔
“کیسا کام؟ یہاں کمپنی ہے تمہاری اور تم لندن جا رہے ہو؟ اتنے دن کون دیکھے گا؟” عدیل سوال پر سوال کر رہا تھا۔
“میں بہت ضروری کام سے جارہا ہوں جلد ہی واپس آجاؤں گا۔ تب تک کے لئے یہ کمپنی تمہارے حوالے۔” اس نے سارے ڈاکومینٹس اپنے روم کی کونے والی الماری میں بند کئے۔
“مگر عاشر؟۔۔۔۔” عدیل نے اسے روکنا چاہا۔
“میں تم پر بھروسہ کرتا ہوں اس لئے یہ ذمہ داری تمہیں سونپ رہا ہوں اب آگے مزید کچھ مت کہنا۔” عاشر نے مسکرا کر ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ دیئے۔
“اور مہرین؟ وہ رہ لے گی تمہارے بغیر؟” عدیل نے ایک بار پھر اس کا تذکرہ چیھڑا۔
“ہاں وہ بابا جان کے پاس ہیں۔” اس نے فوراً منہ پھیر لیا۔
“یہ سب تم مہرین کے لئے کر رہے ہو نا؟” عدیل جانتا تھا کے وہ صرف اپنا دیھان بٹانے کے لئے جارہا تھا۔
“مجھے نہیں معلوم!” وہ آہستہ سے بولا پھر اپنے الفاظ پر غور کرنے کے بعد بات کا رخ موڑ گیا۔
“آج جارہا ہوں میں، امید کرتا ہوں کے تم سارا کام سنبھال لو گے۔” اس نے عدیل کو تاکید کی۔
“کوشش کروں گا۔ اپنا خیال رکھنا۔” وہ دھیمے لہجے میں بولا تو عاشر نے جواب میں صرف سر ہلا دیا۔
*******
موسم اب بدل چکا تھا۔ سردیاں شروع ہوگئی تھیں اور یہ نومبر کا مہینہ تھا جب وہ لندن کی سڑکوں پر اکیلے چل رہا تھا۔ برف باری کا امکان آج پھر تھا۔ وہ بغیر کوٹ کے باہر نکل آیا تھا مگر اس قدر ٹھنڈ میں بھی اسے سردی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ وہ اپنے خیالات میں اس قدر گم تھا کے اسے اپنے ارد گرد کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ چلتے چلتے وہ ایک bridge کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ اس کے سامنے بار بار مہرین کا چہرہ آرہا تھا۔ وہ کیوں اسے سوچ رہا تھا؟ لندن آکر بھی وہ صرف مہرین کو ہی سوچ رہا تھا اس کی آواز اس کے ذہن میں گونج رہی تھی۔ وہ کیا وہ مہرین کے وجود کا آدھی ہوگیا تھا؟ اس نے ایک سیکنڈ کو سوچا تھا کے شاید وہ اپنے دل میں مہرین کے لئے نرمائی محسوس کر رہا تھا مگر اگلے لمحے اسے شیزہ کا خیال آیا۔ وہ روشنی بن کر اس کی زندگی میں آئی تھی اور پھر وہ روشنی اپنے ساتھ واپس لے گئی۔ وہ اس کی محبت تھی وہ ہمیشہ سے اسے چاہتا تھا۔۔۔۔ مگر اگر وہ شیزہ کو چاہتا تھا تو وہ مہرین کے بارے میں پچھلے تین ماہ سے کیوں سوچ رہا تھا؟۔۔۔۔ کیا وہ واقعی سچ میں بدل گئی تھی؟۔۔۔۔ عاشر خود سے یہ سوالات کر کر کے تھک گیا۔ اس نے سوچ لیا تھا کے وہ مہرین کو آزاد کر دے گا تاکہ وہ بھی خوش رہے اور مہرین بھی۔
اس کو لندن گئے ہوئے تین ماہ گزر چکے تھے اور ان تین مہینوں میں اس نے ایک بار بھی مہرین سے بات نہیں کی۔ مہرین نے خود بھی کبھی اس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ روز فون کرتا تھا مگر بابا جان سے بات کرتا یا پھر ماما جان سے بات کر کے فون بند کر دیتا۔ وہ آج ماما جان کے ساتھ سارا کام کروا کر بیٹھی ہی تھی کے اس کا موبائل بجا۔
اس نے بغیر نمبر دیکھے فون اٹھا لیا۔
“ہیلو؟”
“افف! کب سے آپ کی آواز سننے کے لئے ہم بے تاب ہو رہے تھے۔” فون پر کسی انجان شخص کی بھاری آواز تھی۔
“کون ہو تم؟” مہرین نے چیخ کر کہا۔
“پتا چل جائے گا اتنی جلدی بھی کیا ہے؟” اس نے ہنس کر کہا تو مہرین کے پسینے چھوٹ گئے۔
“میں آخری بار پوچھ رہی ہوں کیا چاہیئے تمہیں؟ کیوں میرا جینا مشکل کر دیا ہے؟” مہرین نے شدید غصّے کا اظہار کیا۔
“ہم تو آپ کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر آپ تو اپنے نئے شوہر کے ساتھ دل لگا بیٹھی ہیں!” اس نے زور کا قہقہہ لگایا۔ مہرین کا تو خون کھول اٹھا اور وہ غصے سے لال ہوگئی۔
“شٹ اپ! جسٹ شٹ اپ!” اس نے اتنا کہہ کر فون بند کردیا۔ پھر بہت ہی مشکل سے اٹھ کر وہ صوفے پر بیٹھ گئی۔ اس کا چہرہ پسینے سے بھیگ گیا تھا اور جسم کانپ رہا تھا۔ وہ کون تھا جو اسے جانتا تھا؟ ۔۔۔۔۔۔ یہ کون اسے یوں کال کر کے بلیک میل کر رہا تھا۔ وہ پہلے ہی رنج و الم سے گزر رہی تھی اور اب یہ ایک نیا غم جس نے اس کی روح کو ہلا دیا تھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ جگ اٹھایا اور گلاس میں پانی ڈال کر ایک گھونٹ پانی پیا۔ مگر اس کی گھبراہٹ ختم نہیں ہوئی ۔۔۔۔وہ کس کو بتاتی؟ کیا بتاتی کے کون اسے اس طرح تنگ کر رہا ہے۔ اس نے آج ایک بار پھر antidepressants لیں اور سوگئی۔
*******
بابا جان کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا سب ہی صبح سے ہسپتال میں موجود تھے۔ مہرین نے رو رو کر برا حال کر لیا تھا۔ دو دن تک انہیں ہسپتال میں ہی رکھا گیا جس پر ڈاکٹرز نے میجر آپریشن کروانے کا مشورہ دیا۔ مہرین اور ماما جان دو دن سے جاگ رہے تھے مگر بابا جان کی طبیعت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ بابا جان کی طبیعت کا سن کر بانو بھی اپنے گاؤں سے کراچی آگئی تھیں۔ مہرین نے دو دن تک نہ ہی کچھ کھایا تھا اور نہ ہی کچھ پیا بس نماز میں رو رو کر ایک ہی دعا کر رہی تھی کے بابا جان کو کچھ نہ ہو۔
وہ ہاتھ اٹھا کر ابھی دعا کر ہی رہی تھی کے سامنے سے آتی بانو کو دیکھ کر وہ رونے لگی۔
“بانو۔۔۔ بابا جان۔۔۔۔” وہ رو رو کر چیخ رہی تھی۔
“کچھ نہیں ہوگا انہیں میری بچی آپ دعا کرو بس۔” انہوں نے اس اپنے گلے سے لگایا۔ وہ ابھی آنسوں پوچھ کر اٹھی تھی کے ماما جان دبے قدموں سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئیں۔
“عاشر کو فون کر کے بتا تو دو مہرین۔” ماما جان نے بہت ہی آہستہ سے کہا۔
“میں؟۔۔۔ آپ کر لیں۔۔۔” اس نے فون انہیں پکڑا دیا۔
“مہرین خدا کے لئے اس وقت تو عقل سے کام لو۔ فون ملاؤ اسے۔” ماما جان نے اسے ڈانٹا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو فون ملانے لگی۔
کافی دیر بعد اس نے فون اٹھایا تھا۔
“عاشر ہیلو؟” مہرین کی آواز میں لرزش تھی۔
“مہرین؟” اس نے گھبرا کر کہا تھا۔
“عاشر۔۔ عاشر۔۔۔” وہ اپنے آنسوں تھام نہ سکی اور رونے لگی۔ آج وہ تین ماہ بعد اس سے بات کر رہا تھا اور وہ رو رہی تھی آخر ایسا کیا ہوا تھا۔
“مہرین ہوا کیا ہے؟ خدارا کچھ بولیں بھی!” اس کو اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔
“بابا جان۔۔۔وہ ٹھیک نہیں ہیں تم جلد از جلد پاکستان آجاؤ۔”
“کیا ہوا ہے انہیں؟” اسے لگا کے کسی نے اس کا دل پیروں تلے روند دیا ہو۔
“ہارٹ اٹیک۔” یہ کہتے کہتے فون اس کے ہاتھوں سے گر گیا۔
*******
وہ بھاگتی ہوئی بابا جان کے کمرے میں آئی تھی۔
“بابا جان! بابا جان! نہیں پلیز نہیں! مجھے معاف کر دیں بابا جان پلیز مجھے چھوڑ کر مت جائیں!” اس نے ان کے ہاتھوں کو تھاما تھا اور چوما تھا۔ سارے ڈاکٹرز اسے دور ہٹا رہے تھے مگر وہ ضد پر اڑی تھی۔ آنسوں تھے کے تھم نہیں رہے تھے اور درد وہ جو اس کی جان لے رہا تھا۔ بابا جان نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا تھا اور پھر ہلکا سا مسکرائے۔ وہ مسلسل رو رہی تھی وہ بس بابا جان کو کھونا نہیں چاہتی تھی مگر قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا انہوں نے بس آخری لمحے اتنا کہا تھا:
“مہرین، عاشر۔”
*******
سفید رنگ کے کمیز شلوار میں ملبوس وہ سفید فرش پر گھٹنے کے بل سر رکھ کر رو رہی تھی۔ بال کھلے تھے اور آنسوں تھے کے تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ ایک ہاتھ زریاب نے اس کے کندھے پر رکھ دیا تھا۔ اسے ہوش نہیں تھا کے وہ اس وقت کہاں ہے۔ ایک احساسِ مالامت نے اسے جکڑ لیا تھا۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ گھر میں آیا تھا۔ ہر طرف رونے کی آواز گونج رہی تھی۔ عاشر پورے راستے دعائیں کرتا یہاں آیا تھا۔
“یہ نہیں ہوسکتا۔۔۔ نہیں!!” وہ بہت زور سے چیخا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور وو مزید آگے نہیں بڑھ سکا۔ مہرین نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔ اسکی سرخ آنکھوں نے عاشر کے دل کا درد محسوس کیا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی تھی اور عاشر کی طرف بڑھی۔ اس نے بھی مہرین کو روتے ہوئے سسکیوں میں دیکھا تھا۔
وہ بھاگتی ہوئی اس کے کشادہ سینے سے جا لگی۔ وہ اس کے وجود سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔ عاشر کے آنسوں مہرین کے ماتھے پر ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔
“عاشر میں اکیلی ہوگئی ہوں۔۔۔ میں ہمیشہ کے لئے اکیلی ہوگئی ہوں۔۔۔۔” وہ زور زور سے رو کر کہہ رہی تھی۔ عاشر نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر پھیرا تھا اس کے کمزور وجود کو سہارا دیا تھا اور اپنے بازوں اس کے گرد لپیٹ کر خود بھی رونے لگا۔
“آپ اکیلی نہیں ہیں میں ہوں نا آپ کے ساتھ۔” یہ کہہ کر اس نے مہرین کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ مگر مہرین آنسوں روک نہ سکی تھی اور نا ہی عاشر۔ وہ بابا جان کی موت کا صدمہ سہہ نہ سکی اور اس کے بازوں میں ہی ڈھیر ہوگئی۔
“مہرین! مہرین!” اس نے اس کے گالوں کو تھپکا تھا مگر وہ ہوش میں نہیں آئی۔ سامنے ہی سب لوگ اٹھ کر اس کی طرف بھاگے تھے اور عاشر وہاں بیٹھا صرف ہاتھ ملتا رہ گیا۔
*****
غم ابھی مہرین کی زندگی سے دور نہیں ہوئے تھے۔ بابا جان کی موت کا صدمہ ماما جان برداشت نہیں کر پائیں۔ ایک گہرا زخم ان کے دل پر لگا تھا۔ بابا جان کی موت کے ایک ہفتے بعد ہی ماما جان بھی اس دنیا سے چل بسیں۔ مہرین سوائے آنسوں بہانے کے کچھ نہ کر سکی۔ وہ اب اکیلی رہ گئی۔ اس گھر میں اب صرف مہرین اکیلی تھی اور اس کا بھیانک ماضی تھا۔ عاشر ابھی کراچی میں ہی رہ رہا تھا۔ مگر اس گھر میں نہیں بلکہ دوست کے گھر۔ وہ بابا جان اور ماما جان کی موت کا صدمہ دل پر لے گیا۔ اس کی تکلیف مزید بڑھ جاتی جب جب اسے مہرین کا خیال آتا۔ وہ اسے اس حالت میں تڑپتا دیکھتا تو اس کے دکھ میں مزید اضافہ ہوجاتا۔
ایک ماہ بعد۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج ایک ماہ بعد اس سے ملنے اپنے گھر آیا تھا۔ دو دن بعد اس کی فلائٹ تھی اسلام آباد کی۔ وہ کمرے میں لیٹی تھی جب اس نے دستک دی۔
مہرین دوائی لے کر لیٹی تھی کے دروازے کی دستک پر اس کی آنکھ کھل گئی۔
“آجاؤ۔” اس نے بستر کے کونے کا سہارا لیتے ہوئے کہا۔
“مہرین؟” وہ بہت آہستہ سے اس کے کمرے میں آیا تھا۔
“ہاں۔۔۔”
“میں بیٹھ جاؤں؟” اس نے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ مہرین نے نظریں پھیر لیں اور پھر آنکھیں موند لیں۔
“کیسی ہیں آپ؟” اس نے ایک نظر اس کے چہرے پر ڈالی۔
“سانسیں چل رہی ہیں۔” وہ مایوسی سے بولی تو عاشر کی آنکھوں میں بھی اداسی پھیل گئی۔
“آپ نے کیا سوچا ہے؟ میرا مطلب ہے کے میں کل اسلام آباد جارہا ہوں۔” عاشر نے بغور اسے دیکھا جو بغیر کوئی تاثرات دیئےاس کی باتوں کو سن رہی تھی۔
“اچھا۔۔۔” وہ پھیکی سی بولی تو وہ بھی چپ ہوگیا۔ اس کا یوں چپ رہنا عاشر کو پریشان کر رہا تھا۔
“اکیلے رہ لیں گی آپ؟” اس نے چند لمحوں کے توقف کے بعد مہرین کی جانب دیکھا۔
“مجھے اب اسی طرح رہنا ہے۔ بابا جان کی یادوں میں۔۔۔۔ یہ مقدر ہے میرا۔ مگر تم یوں اکیلے مت رہنا۔۔۔ اب تو بابا جان بھی نہیں ہیں اور نہ ماما جان تم شیزہ کا ساتھ اپنا لو۔ تمہارا اکیلا پن وہ دور کر دے گی۔” اس نے لب بھینچ کر کہا تو عاشر کا وجود پتھر کا ہوگیا۔
“اور آپ؟” اس کے سوال نے مہرین کو چونکا دیا۔
“میں یوں ہی ٹھیک ہوں۔”
پھر وہ مزید وہاں رکے بغیر جانے لگا تو بانو جو اس کے لئے چاۓ بنانے میں مصروف تھیں انہوں نے زہر خندہ نظر عاشر پر ڈالی اور وہاں سے چلی گئیں۔
*********
مہرین کو بابا جان کا صدمہ اندر سے کھا رہا تھا۔ یہاں تک کے وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتی تھی۔ ماما جان کی یاد اس کے دل میں تکلیف کا اضافہ کرتی تھی۔ وہ درد سہہ کر اس قدر بیمار ہوچکی تھی کے وہ سوکھ کر کانٹا ہوگئی۔ عاشر اپنے آفس سے ہر روز کراچی فون کرتا تھا مگر بانو کہتی تھیں کے اب وہ مر بھی جائے تو وہ فون نہ کرے اور یوں عاشر نے بھی اس کی پروا نہ کی اور اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ شیزہ کے کام کرنے کا یہ آخری ہفتہ تھا مگر وہ اب شیزہ سے بھی بات نہیں کرتا تھا۔ شیزہ اور دانیال حسن سب مہرین کے والدین کی موت پر افسوس کرنے آئے تھے مگر ایک ہفتہ گزار کر واپس آگئے۔ نانی جان نے بھی عاشر کو کافی فون کئے اور اسے اپنے پاس بلایا مگر وہ نہیں جا سکا۔ وہ دن رات اذیت میں گزارتا۔ عدیل نے بھی اب خاموشی اختیار کر لی تھی۔ وہ اس کے معملے میں اب مداخلت نہیں کرتا تھا۔
مہرین کی آج حالت اتنی بگڑ گئی تھی کے وہ چل بھی نہیں پا رہی تھی۔ بانو بھاگ کر اس کی طرف آئیں۔
“مہرین میرے بچے میں یوں تمہیں مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی! خدا کے لئے رحم کرو خود پر! مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔” انہوں نے اس کا کندھا ہلایا تو اسے لگا اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا ہے۔ وہ ایک دم زور سے زمیں پر گر گئی اور پھر بانو کی آوازیں گونج رہی تھیں۔
“مہرین! مہرین!” مگر وہ کچھ نہیں سن پا رہی تھی۔
******
“ہیلو!” اس نے کافی دیر بعد کال اٹھائی تھی۔ سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے اس نے کہا تھا۔
“اتنا بتا دو عاشر کیا تم اس کے مرنے کے بعد آؤ گے؟” بانو جو اس وقت عاشر سے بات تو دور کی بات ہے اس کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی تھیں نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے بات کرنے پر مجبور تھیں۔
“کیا مطلب بانو؟” وہ ان کی بات نہ سمجتھے ہوئے حیرانی سے پوچھنے لگا۔
“تم نے میری تربیت کی ذرا بھی لاج نہیں رکھی۔ کیا انتقام کی آگ میں اتنے اندھے ہوگئے ہو کے تمہیں کچھ نہیں دکھائی دے رہا؟” بانو نے برہم ہو کر کہا۔ وہ ابھی تک ان کی بات کو سمجھ نہیں سکا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کے آخر کیوں وہ اس سے اس قدر خفا ہیں۔
“بانو ایسا کیا کردیا ہے میں نے؟” اس نے جھنجھلا کر کہا۔
“تم نہیں جانتے؟ میں دو دن سے ہسپتال میں ہوں! جانتے ہو کیوں؟ کیونکہ مہرین کا nervous breakdown ہوگیا ہے۔ وہ بہت کریٹیکل حالت میں ہے مگر مجھے افسوس ہے کے تم نے ایک بار بھی اس کی خبر تک نہیں لی؟” وہ اس پر اس قدر غصہ تھیں کے ان کا بس نہیں چل رہا تھا کے کبھی اس کی صورت نہ دیکھیں۔
“کیا؟ کیا ہوا مہرین کو؟” یہ خبر سن کر اسے لگا جیسے اس پر قیامت ٹوٹ پڑی ہو۔ وہ سکتے میں چلا گیا۔
“افسوس ہے مجھے کے تم بابا جان کے بیٹے ہو! یہ سلوک کیا ہے تم نے ان کی بیٹی کے ساتھ! ہاں اس نے بہت غلط کیا مگر اس سب کا ازالہ کرنے کے لئے اس نے کیا کچھ نہیں کیا! تم سے دل لگایا! تمہارے لئے اپنے دل میں پیوست ہر غلط فہمی کو نکالا! تمہارا دل جیتنے کے لئے دن رات کوسش کی! تمہاری محبت کی خاطر وہ مہرین حسن سے مہرین عاشر بن گئی۔۔۔۔ اس نے اپنا دل تمہارے ٹوٹے ہوئے وجود کے سامنے بکھیر دیا۔ کیا اس کا دل زخمی نہیں تھا؟ وہ بھی تو تمہاری طرح ٹوٹی ہوئی تھی مگر اس نے پھر بھی اپنی غلطی سدھارنا چاہی اور تم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ اگر اسے اس طرح چھوڑنا چاہتے ہو تو طلاق دے دو اسے تاکہ میں اپنے ساتھ لے جاؤں اسے!” یہ کہہ کر اانہوں نے کال کاٹ دی۔ عاشر کا دل اس وقت دھڑکنا بند ہوگیا تھا اور آنسوں مسلسل بہہ رہے تھے وہ ان باتوں کی تاب نہ لاتے ہوئے زمین پر بیٹھ گیا۔ مہرین کو بانو جیسے تیسے ہسپتال لے آئیں تھی مگر وہ اس قدر بیمار تھی کے انہیں صرف نا امیدی نظر آئی تھی۔
وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بالوں کو نوچنے لگا۔ اس نے اپنے ہاتھوں کو دیوار سے مار مار کر زخمی کر لیا تھا۔ وہ اپنے آپ سے نفرت کر رہا تھا۔ اس نے مزید دیر کئے بغیر کراچی جانے کا فیصلہ کیا۔
******
بھاگ بھاگ کر وہ فرسٹ فلور پر آیا تھا۔ وہاں بانو تسبیح لے کر دعائیں کر رہی تھیں۔ عاشر کو دیکھ کر انہوں نے اپنا رخ پھیر لیا۔ وہ شرم سے سر جھکا کر ان کی طرف بڑھا۔
“کہاں ہے مہرین پلیز مجھے ملنا ہے ان سے۔” اس نے ہے قرار ہو کر کہا۔ بانو تو اس وقت اس کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔
“بانو؟ خدا کے لئے بتائیں مجھے!” اس نے زور سے کہا تھا۔
“چلے جاؤ!” وہ غصے سے بولیں۔
“میری بیوی کہاں ہے دیکھنا ہے مجھے انہیں!” اس نے ہاتھ جوڑ کر گزارش کی۔
“بیوی؟ بس رہنے دو۔”
“میں ہاتھ جوڑتا ہوں آپ کے مجھے ایک بار دیکھنے تو دیں انہیں!” اس کے لہجے میں درد تھا۔
انہوں نے اسے بتایا کے وہ کونے والے ICU میں ہے۔ اس کا دل بند ہونے لگا اور بہت ہی دبے قدموں کے ساتھ وہ اندر آیا۔ آج اس کی محبت کا امتحان تھا آج پہلی بار وہ ٹوٹا تھا۔ آج پہلی بار اس کی دھڑکن اس کے لئے نہیں دھڑک رہی تھی بلکہ وہ مہرین کے وجود کے قریب اس کی سانسوں کو محسوس کرنے کے لئے بے چین تھی۔ اس کے دل میں پیدا ہونے والی گھبراہٹ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کے مہرین اس کی ہے اور اس کی زندگی میں اس کی روح میں ہی عاشر کی روح ہے۔ وہ اس کے قریب گیا۔ اس کے ساکن وجود کو دیکھ کر رونے لگا۔ آج آنسوں صرف مہرین کو زندہ کرنے کے لئے نکل رہے تھے۔ اس کا دل صرف ایک نام پکار رہا تھا اور وہ مہرین تھا۔ آج وہ اسے مہرین عاشر لگی تھی۔ اس کی مہرین اس کی بیوی اس کی جان اس کی زندگی۔ یہ سب کیسے ہوا کیوں ہوا اسے نہیں معلوم تھا۔ اس کو یوں بے ہوش دیکھ کر اس کے آنسوں ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ اس کے معصوم چہرے پر نظر ڈالتے ہی اس نے اپنے لب اس کی پیشانی پر رکھ دئے۔
“مجھے مت چھوڑ کر جائیں! میری جان تو آپ کی زندگی سے وابستہ ہے بچپن سے لے کر اب تک اور ہمیشہ کے لئے۔” وہ آنسوں اب مہرین کی پلکوں پر گرے تھے۔