شیزہ کا دل اس وقت ٹوٹا تھا جب اسے معلوم ہوا کہ جہانزیب نے مہرین کی شادی عاشر سے کر دی ہے۔ اس دن وہ زندگی میں پہلی بار پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔ ہاں وہ اس دن بھی روئی جس دن اس کی ماں نے عاشر سے اس کی منگنی توڑ کر کسی اور سے کروا دی تھی لیکن اسے اطمینان تھا کہ عاشر کے دل پر بس اسکا ہی نام سجا ہے۔ لیکن یہ کس موڑ پر زندگی نے لا کر اسے کھڑا کردیا تھا۔ جس کا نام بچپن سے اس کے ہاتھ پر لکھ دیا گیا تھا، جس کے نام پر وہ زندگی کی ہر خوشی محسوس کرنا چاہتی تھی آج وہی شخص اس کے ہاتھوں کی لکیروں میں نہیں کسی اور کا نصیب بن چکا تھا۔
وہ دل جو عاشر کے نام پر دھڑکتا تھا اب اس مقام پر تھا جہاں درد کی انتہا شروع ہہوتی ہے۔
★★★★★
گل خان دس منٹ سے ہارن بجا بجا کر پورے گھر کو اٹھا چکا تھا۔ ہارن کی وجہ سے مہرین کی آنکھ کھل گئی تھی۔ عاشر نے ٹائی ہاتھ میں اٹھائی اور Le Male کا پرفیوم چھڑک کر کے نیچے اترنے لگا۔مہرین اپنے کمرے سے باہر نکلی تھی مگر ایک خشبو نے اسے اپنے حصار میں لیا تھا۔ اس کا خالی وجود اس خوشبو سے بھر چکا تھا۔ آج پہلی بار وہ عاشر کے وجود کی مہک خود میں محسوس کر رہی تھی۔
اس نے اوپر سے ہی نیچے جھانکا تھا عاشر ٹائی باندھ رہا تھا۔ اور ساتھ میں فون پر گفتگو کر رہا تھا۔ سفید رنگ کی شرٹ، براؤن بوٹس اور بلیک ٹائی میں آج وہ اسے بہت مختلف لگا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ٹک ٹکی باندھے اسے دیکھتی چلی گئی۔ بڑی بڑی آنکھیں، کھڑی ناک اور چہرے کی سنجدگی اسے عاشر کے وجود کی طرف کھینچ رہی تھی۔ وہ کیوں اس کی طرف مائل ہو رہی تھی؟ یہ کیا ہو رہا تھا اس کے ساتھ؟؟ اس نے اپنا سر جھٹکا اور وہاں سے ہٹ گئی۔
★★★★★
عروسہ مسلسل باتیں کر رہی تھی۔ زریاب نے تنگ آ کر اسے اپنے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا دیا۔ وہ آج بہت غصّے میں تھا اس لیے اس نے بنا سوچے سمجھے عروسہ کو ڈانٹ دیا۔
”مجھے تو لگتا ہے آپ کے والدین نے آپ کو تمیز نہیں سیکھائی۔” اس بات پر عروسہ کی آنکھوں میں آنسوں آ گئے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کلاس سے باہر چلی گئی۔
زریاب گھبرا گیا اور نہ سمجھی کے انداز میں اس کے پیچھے آیا مگر وہ سٹوڈیو سے جا چکی تھی۔آخر ایسی کیا بات ہوئی تھی کہ وہ یوں روتے ہوئے سٹوڈیو سے چلی گئی؟ زریاب نے زندگی میں کبھی کسی کو تکلیف نہیں دی مگر اب عروسہ کو یوں ڈانٹ کر وہ شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ اسے یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اتنی سی بات پر رونے کی کیا تک تھی۔
★★★★★
عاشر اور عدیل لنچ کر رہے تھے اور اس پورے وقت میں ان کی گفتگو کا مرکز کمپنی میں ہونے والا نقصان تھا۔ عدیل چاہ رہا تھا کہ وہ کہیں تو مہرین کا تذکرہ کرے مگر عاشر صرف آفس کی بات کئیے جارہا تھا۔
”یہ سب باتیں تو ہوتی رہیں گی۔۔۔۔ تو یہ بتا کہ مہرین بھابی کیسی ہیں؟” عدیل نے موقع دیکھتے ہی تذکرہ چھیڑا۔ مہرین کا نام سنتے ہی عاشر کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
”انہیں کیا ہونا ہے زندہ ہیں میری زندگی برباد کرنے کے لیے۔” عاشر نے روہانسی ہو کر کہا۔
”یہ تو کیا ہر وقت اپنی بیوی کی برائیاں کرتا رہتا ہے؟” عدیل نے خفگی سے عاشر کے کندھے پر ہاتھ مارا۔
”میں انہیں اپنی زندگی کا حصہ نہیں سمجھتا تم نہیں جانتے اس نے کس قدر تکلیف دی ہے مجھے۔میرے وجود کے ٹکڑے کر دیے ہیں۔ انہوں نے ساری زندگی خوشیوں کے لیے ترسایا ہے مجھے۔ اس عورت نے کبھی میری زندگی میں خوشیاں نہیں آنے دیں مگر اب۔۔۔۔۔ وہ میری زندگی میں آگئ ہے میری زندگی برباد کرنے اور میں ایسا ہونے نہیں دوں گا۔” عاشر کے دماغ میں وہ تلخ یادیں تازہ ہوگئیں۔
عدیل نے عاشر کی باتیں سن کر صرف افسوس ہی کیا تھا۔
”مگر حالات اب مختلف ہیں اب وہ تمہاری بیوی ہے اور ہو سکتا ہے وہ اتنی بری نہ ہوں جتنا تم انہیں سمجھ رہے ہو۔” عدیل نے ایک دفع پھر مہرین کی وکالت کی۔
“عدیل میں نے تمہیں کہا ہے نا کہ میں مہرین کے بارے میں بات کرنا نہیں چاہتا اور ویسے بھی میں جلد ہی انہیں اپنی زندگی سے نکل دوں گا۔” یہ کہتے ہوئے عاشر کے لہجے میں نفرت سمٹ آئی تھی۔ عدیل مزید کچھ نہ کہہ سکا۔ سارا دن آفس کا کام کر کے وہ تھکن سے چور ہو رہا تھا۔ اسے اپنی زندگی میں گھٹن ہونے لگی تھی۔ وہ اس گھر سے بھی فرار حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ابھی وہ گھر کے لیے نکلا ہی تھا کہ کسی اور کمپنی کے مینیجر نے کال کر کہ اسے اپنے ساتھ ہونے والی میٹنگ سے آگاہ کیا جس پر وہ اور سرخ ہو گیا۔ گھر آتے ہی اس نے اپنے لپ ٹاپ پر کل کی میٹنگ کے لیے پریزنٹیشن تیار کی مہرین نیچے کی صفائی کر کے اوپر آئی تو عاشر کے کمرے کا دروازہ کھلا دیکھا۔
کمرے میں وہ اکیلے بیٹھا اپنی قسمت کو رو رہا تھا۔ شدید غصے اور غم کی کفیت میں مبتلہ ہو کر وہ اپنے بال ہاتھوں سے کھینچنے لگا۔ تین سال بیت چکے تھے مگر پھر بھی اسے سکون نہیں مل سکا تھا۔ یہ قسمت نے اسے کس جگہ لا کر کھڑا کر دیا تھا۔ اس کے پاس صبر کے علاوہ تھا ہی کیا؟
بہت تھکے انداز میں وہ لیپ ٹاپ بند کر کے ٹیبل پر سر رکھ کے سو گیا۔
مہرین وہیں سے گزر رہی تھی مگر جوں ہی اس کی نظر عاشر پر پڑی وہ ٹھہر گئی۔ وہ اسے بہت پریشان لگ رہا تھا اور وہ جانتی تھی کہ اس کا کل کوئی بڑا پروجیکٹ ہے تو وہ اس وجہ سے پریشان ہے۔ وہ زندگی میں پہلی دافع کچن کی طرف بڑھی۔
اور کچھ ہی دیر بعد اس کے کمرے میں آئی اور اس کی طرف بڑھی۔
وہ آنکھیں بندھ کرے سر رکھ کے بیٹھا ہوا تھا۔
اس کی بند آنکھوں پر مہرین کی نظر پڑی تھی اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ اسے یہ بلیک کافی کیسے دے تو اس نے اس کے سر پر اپنی انگلییوں سے ہاتھ پھیرا تو وہ ایک دم چونک گیا اور بےدھانی میں اپنے ہاتھ سے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تو وہ خود بھی عجیب سا ہوگیا کہ مہرین یہاں کیا کر رہی ہے۔ اس نے فوراً ہاتھ کو پیچھے کیا اور بہت عجیب نظروں سے اسے گھورنے لگا۔
“یہاں کیوں آئی ہیں؟” وہ خشک لہجے میں مہرین سے پوچھنے لگا۔
“وہ تمہارا کل کوئی ضروری کام ہے اور تم تھکے ہوئے بھی تھے۔۔۔۔تو میں نے تمہاری پسندیدہ بلیک کافی تمہارے لیۓ بنائی ہے۔” اس نے بہت ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا تو وہ ایک دم غصے میں کھڑا ہوگیا۔
” اس سب کا کیا مقصد ہے آخر؟” وہ بہت زور سے چیخا۔
“مقصد کیا؟ یہ کافی لائی ہوں میں بس۔” وہ بہت نرمی سے بولی اور کپ آگے بڑھایا تو اس نے کپ چھین کر زور سے نیچے پھینک دیا اور ساری کافی مہرین کے پاؤں پر آگئی اور شیشے ہر طرف بکھر گئے۔
“میں زندگی میں زہر تک پی لوں گا مگر آپ کے ہاتھ سے بنائی ہوئی چیز میرے لئے زہر سے بھی زیادہ کڑوی ہے۔ کون سا کھیل کھیل رہیں ہیں آپ اب؟ ایک ہی بار بتا دیں بار بار میں بارباد ہونا نہیں چاہتا۔ مجھے ہر زہر گوارا ہے مگر آپ کے ہاتھ کا زہر نہیں!” وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور مہرین کی آنکھوں سے آنسوں ٹاپکنے لگے۔
★★★★★
کپ ٹوٹنے سے چند ٹکڑے اس کے پاؤں میں پیوست ہو گئے اور اس کا پاؤں بھی کافی حد تک جلا تھا اور اس نے مشکل سے بس لبوں سے آہ بھری تھی۔ وہ جانتی تھی کہ عاشر اس کے ساتھ ایسا ہی رویہ برتے گا وہ اپنے گناہوں کی سزا کاٹنے کو تیار تھی۔اگر وہ خودکشی کرتے وقت مر جاتی تو شاید اس کی روح کو چین آجاتا مگر زندہ ہو کر اسے اس زخم کے ساتھ جینا مشکل لگ رہا تھا۔ خودکشی کرنے کی وجہ عاشر نہیں بلکہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اس کا مذاق اڑایا تھا جس میں اس کی دوست شرمین بھی شامل تھی۔ اس نے ساری زندگی عاشر کی بےعزتی کی تھی مگر قسمت نے کیا خوب پلٹا کھایا تھا کہ وہ خود ہی سب کے سامنے بےعزت ہو گئ تھی۔ کوئی ایسا نہ تھا جس نے اس کا مذاق نہ اڑایا ہو اس لیے اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی زندگی ختم کر ڈالے گی۔ مگر نجانے خدا کو کیا منظور تھا کہ وہ بچ گئی اور اسے بچانے والا عاشر تھا۔ عاشر نے اسے زندگی دی تھی۔ اس مرجھاۓ ہوئے پھول کو رنگ سے بھرا تھا اس لیے وہ اس کے دل میں اتر گیا تھاجب اس نے مہرین کا کیا ہوا گناہ اپنے سر لے لیا تھا۔ مہرین نے نجانے کتنی دفعہ اپنے دل میں سوچا تھا کے وہ نئی زندگی شروع کرے گی۔ یہ اسے پرانا عاشر نہیں لگا تھا بلکہ یہ وہ عاشر تھا جس نے اس کی زخمی روح کو زندہ کیا تھا۔
مہرین خود بخود اس کی طرف کھنچی چلی جا رہی تھی۔ اس کی قربت اس کی چاہ بننے لگی تھی۔ عاشر نے جس طرح اس پر کافی پھینکی تھی اسے بلکل برا نہیں لگا تھا وہ جانتی تھی کہ عاشر کا دل مہرین کے لیے کبھی صاف نہیں ہو سکے گا شاید اس لیے کہ اس کے دل میں زہر بھی مہرین نے ہی بھرا تھا۔
★★★★★
صبح چھ بجے وہ الارم لگا کر بنا منہ دھوۓ کچن میں گئی۔ پاؤں پر گرم کافی گر جانے کے باعث سوجن تھی۔ وہ بہت مشکل سے کچن تک آئی تھی مگر وہاں بانو پہلے سے موجود تھیں۔
”اسلام و علیکم بانو!” اس نے انہیں سلام کیا۔
کچھ دیر تک وہ حیران رہ گئیں پھر اپنے تاثرات چھپاتے ہوئے بولیں۔
”وعلیکم اسلام، مہرین تم اس وقت یہاں؟ بیٹا ابھی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔” بانو نے فوراً اسے آرام کی تاکید کی۔
” نہیں بانو میں آپ کی مدد کرنا چاہتی ہوں پورا دن میں بور ہو جاتی ہوں۔” اس نے جواب دیا اور لڑکھڑاتے ہوئے برتن اٹھانے لگی۔
”مگر آپ کے تو پیر میں تکلیف ہے آپ مجھے کرنے دیں۔” بانو نے اسے سمجھایا مگے وہ جانا نہیں چاہتی تھی۔
”آج میں ناشتہ بنانا چاہتی ہوں، عاشر کو کیا پسند ہے ناشتے میں؟” مہرین نے جیسے ہی یہ کہا تو بانو ایک دم سکتے میں چلی گئیں۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کہاں تو وہ عاشر کی شکل دیکھنے کی روادار نہیں تھی اور کہاں وہ اس کے لیے ناشتہ بنانا چاہتی ہے۔
”آپ یہ کیوں پوچھ رہی ہیں بیٹا؟” بانو کو یہ سب مذاق لگ رہا تھا۔
”کیوں کے میں اس کے لیے ناشتہ بنانا چاہتی ہوں۔” مہرین نے مسکرا کر کہا۔
”مگر بیٹا وہ۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔” وہ آگے کچھ کہہ نہیں پا رہیں تھیں۔
”وہ کیا بانو؟” مہرین نے پوچھا۔
”وہ آپ کے ہاتھ کا بنا ناشتہ نہیں کھائے گا آپ رہنے دیں میں بنا دیتی ہوں۔” بانو نے مہرین کو کہا تو وہ افسردہ ہو گئ۔
”کیوں نہیں کھاۓ گا؟ میں کیا زہر ملا کر دوں گی؟” مہرین نے تلملا کر جواب دیا۔
”چلیں آپ بنا لیں اسے ناشتے میں ٹوسٹ کے ساتھ Nutella پسند ہے اور ساتھ میں گرم چاۓ کا کپ لیکن دودھ زیادہ نہیں ڈالیے گا۔” بانو نے اسے بتایا اور کچن سے باہر چلی گئں اسے یقین تھا کہ آج ضرور کوئی بڑا ہنگامہ ہونے والا ہے۔
مہرین نے ٹوسٹر میں بریڈ کو ٹوسٹ کیا اور ایک اچھی سی چاۓ بنا کر سب کچھ ٹیبل پر سجا دیا اور خود ٹی وی لاؤنج میں جا کر بیٹھ گئی وہ عاشر کے دل میں اپنے لیے جگہ چاہتی تھی اور اس کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی تھی۔کیوں کہ وہ پہلا مرد تھا جس نےاتنا کچھ ہو جانے کے باوجود اسے بچایا تھا اور زندگی بھر کی نفرت و حقارت اس نے ایک لمحے نے مٹا دی تھی۔ عاشر فون پر بات کرتے ہوئے نیچے آیا مگر مہرین کو دیکھ کر اس کے ماتھے پر بل صاف نمایاں ہو گئے۔ غصّے کی ایک تیز لہر اس کے وجود میں اٹھی۔
“بانو! بانو!” وہ بھر زور سے چینخا تھا۔
”ہاں بیٹا؟” بانو اس کی آواز پر فوراً حاضر ہوئیں۔
”یہ ناشتہ کس نے بنایا ہے؟” اس نے نہایت خشک لہجے میں پوچھا۔
”وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” بانو کچھ بول نہیں پا رہی تھیں۔
”میں نے کچھ پوچھا ہے؟” وہ مزید تلخ ہوا تو مہرین ڈائننگ ٹیبل کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔
”میں نے بنایا ہے۔” مہرین نے عاشر کو مخاطب کر کے کہا۔
”کیوں کس خوشی میں؟” اس کا لہجہ بہت برہمی لیے ہوئے تھا۔
”میں بنانا چاہتی تھی۔” وہ جواب میں صرف اتنا ہی کہہ سکی تھی۔
” پتا نہیں کون سا کھیل کھیل رہی ہیں آپ؟ کیا چاہتی ہیں آخر آپ؟ میں آپ پر ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں آپ سے تعلق رکھنے والی ہر چیز سے نفرت کرتا ہوں اور یہ بات یاد رکھئیے گا اور آئندہ میرے معملات میں دخل دینے کی کوشش مت کرے گا اور یہ جو اچھے بننے کا کھیل ہے امید کرتا ہوں جلد ہی ختم ہو جاۓ گا۔” اس نے بڑی بےرحمی سے انگلی اٹھا کر اسے تنبیہ کی تھی۔ وہ مزید کچھ کہے بغیر وہاں سے چلا گیا اور مہرین اسے خالی آنکھوں سے جاتا دیکھتی رہی۔
★★★★★
مہرین شکستہ دل ہو کر گھر سے گاڑی لے کر نکل گئی۔ وہ خود گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ایک مال کے سامنے آ رکی۔ وہ کتنی ہی دیر اوپر نے نیچے پھرتی رہی تھی اسے ان لڑکیوں پر رشک آیا جو اپنے شوہروں کے ساتھ مزے سے شاپنگ کرنے میں مصروف تھیں۔ اس کا دماغ گھومنے لگا اور ماضی کی تلخ یادیں ایک بار پھر اس کر سامنے آ کھڑی ہوئیں۔ وہ ایک ایک اذیت جو اس نے عاشر کو دی تھی ان سب کو یاد کر کے وہ خود کو ملامت کرنے لگی۔ زندگی میں انسان کتنا ہی کیوں نہ آگے بڑھ جاۓ لیکن ماضی کی تلخ یادیں اس کے ذہن پر کسی برے سائے کی طرح سوار رہتی ہیں۔ زندگی پھر رک سی جاتی ہے اور انسان ماضی کی تلخ یادوں میں کھونے لگتا ہے۔ اس کا سر چکرا رہا تھا اور اس کے بازوں میں تکلیف اور بھی بڑھ گئی تھی ابھی وہ واپسی کے لیے پلٹی ہی تھی کہ اس کی نظر ایک بک شاپ پر پڑی اس نے اس شاپ کی طرف قدم بڑھاۓ اور اس نے اپنا دھیان بٹانے کے لیے کافی کتابیں لے لیں۔ پیمنٹ کرنے کے بعد وہ شاپ سے جیسے ہی نکلی کسی سے زور سے ٹکرائی سامنے والا اگر بروقت اسے تھام نہ لیتا تو وہ اب تک زمین بوس ہو چکی ہوتی اس شخص نے اسے سہارا دیا تھا۔
”مہرین؟” یہ آواز جانی پہچانی سی تھی۔
★★★★★
”کہاں جا رہی ہو شیزہ؟” فرح ملک نے شیزہ سے پوچھا جو ضروری کام کے لیے جا رہی تھی۔
”ضروری کم کے لیے نانی جان۔” وہ یہ کہہ کے تیزی سے نکل گئ۔
★★★★
آفس کا دروازہ کھولا تھا اور وہ تیز قدموں کے ساتھ اس کے آفس میں آئی تھی۔ وہ اس وقت آرام سے بیٹھا لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا۔
اس کے اندر آنے سے اس نے ایک دم چونک کر اسے دیکھا تھا۔ وہ اس وقت شدید غصہ کے عالم میں اسے گھور رہی تھی۔
“شیزہ؟” عاشر حیرانی کے عالم میں اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا۔
“ہاں تو بےوفا میں تھی یا آپ عاشر؟” شیزہ اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکی اور آنسوں اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔
”تم کیا کر رہی ہو یہاں؟” عاشر اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اور عدیل جو وہاں بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا خاموشی سے اٹھ کر چلا گیا۔
”میں صرف یہ کہنےآئی تھی کہ بےوفا صرف عورت نہیں مرد بھی ہوتے ہیں۔” شیزہ کی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔
”تم اچھی طرح جانتی ہو کہ ایسے حالات کیوں ہوئے بہتر ہو گا کہ ہم اس موضوع پر بات نہ کریں۔” وہ بولا۔
”ہاں مگر میں صرف یہ بتانے آئی ہوں کے رشتے یوں ختم نہیں ہوتے اگر آپ نے شادی کی تھی تو آپ ہم سب کو اطلاع کر سکتے تھے مگر پھر بھی مبارکباد دینے آئی ہوں۔” اس نے ہلکی سی مکراہٹ سجا کر کہا اور پھر بغیر کچھ کہے وہاں سے چلی گئی۔ عاشر بس اسے جاتا دیکھتا رہا۔
★★★★★
“زریاب!” مہرین پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ زریاب کو دیکھتے ہی وہ پل بھر میں سارے دکھ ساری تکلیفیں بھول گئی تھی۔ زریاب بھی بس حیرانی سے مہریں کی اتری صورت دیکھ رہا تھا۔ مہرین جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور اس کے گلے لگ گئی۔ اس کے گلے لگتے ہے وہ جیسے ساری تکلیفیں اور سارے دکھ بھلا بیٹھی۔ اس نے اپنا زخمی وجود اس کے سامنے رکھ دیا تھا۔
”مہرین کیا ہوا؟” وہ پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا مگر وہ کچھ نہیں بول پا رہی تھی بس آنکھوں سے آنسوں جاری تھے۔ بڑی مشکل سے وہ خود کو زریاب سے الگ کر پائی۔
”کہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔” اس نے مہرین کا ہاتھ تھاما اور اسے قریبی ریسٹورنٹ میں لے گیا۔
”کچھ دیر دونوں میں کوئی بات نہ ہوئی مگر زریاب سے مہرین کی خاموشی برداشت نہ ہوئی۔
”مہرین کہاں تھیں تم؟ میں نے بہت یاد کیا تمہیں۔” اس نے مہرین کو بتایا۔
‘میں اپنے گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہوں۔” وہ روتے ہوئے بولی۔
”ایسے نہیں بولو مہرین مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے؟” اس سے مہرین کی یہ حالت نہیں دیکھی جا رہی تھی۔ پھر اس نے زریاب کو سب کچھ بتا دیا ارحم سے طلاق سے لے کر عاشر سے شادی تک کا سفر۔ زریاب کو مہرین کی بےبسی پر افسوس ہو رہا تھا۔
”کیا عاشر تمہارے ساتھ برا کر رہا ہے؟” اس نے پوچھنا چاہا۔
”میں یہ سب deserve کرتی ہوں زریاب میں نے تمہارے ساتھ بھی برا کیا تھا۔” وہ اندر سے بلکل ٹوٹ گئی تھی۔
“تم یہ ڈسرو نہیں کرتی مہرین تم بہت اچھی ہو۔” وہ شاید اس کے زخموں پر مرہم رکھ رہا تھا مگر وہ جانتی تھی کے اس کے اندر سکون جب تک نہیں آئے گا جب تک عاشر اسے معاف نہیں کرے گا۔
“تم بہت اچھے ہو زریاب مگر میں اس قابل بھی نہیں کے تم میری فکر کرو۔” اس کی الجھی ہوئی نگاہیں اس کے چہرے پہ آٹھری تھیں۔
“مہرین بس کردو اب ہم تین سال بعد مل رہے ہیں اور تم فضول باتیں کر رہی ہو۔ آج کا دن میرا اور تمہارا ہے اور میں نے کچھ اسپیشل آرڈر کیا ہے۔” اس نے محبت سے اس کا ہاتھ تھاما تو وہ مسکرا گئی۔
“اور کیا آرڈر کیا ہے تم نے؟” مہرین نے تجسس سے پوچھا۔
“سرپرائز ہے تم خود دیکھ لینا۔” ایک دل فریب مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیل گئی تھی۔
******
پورا دن اس نے زریاب کے ساتھ گزارا تھا اور پھر زریاب نے اس کی جگہ گاڑی ڈرائیو کی تھی۔ آج اس کا دن بہت پر سکون گزرا تھا شاید اب اس کی زندگی میں کوئی دکھ بانٹنے والا شخص آگیا تھا۔
“ہم پھر ملیں گے۔” زریاب نے گاڑی سے اتر کر کہا۔
“اندر آجاؤ۔” مہرین نے زریاب کو دعوت دی جس پر وہ ہنس دیا۔
“رات کو اس وقت میں تمہارے گھر آؤں گا تو آپ کے شوہر صاحب پتا نہیں کیا سمجھیں گے۔” اس نے شوخ ہو کر کہا تو مہرین سپاٹ چہرہ لئے اس کی طرف دیکھنے لگی۔
“ایسا کچھ نہیں ہے۔” اس نے اپنا لہجہ نارمل رکھنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
“میں چلتی ہوں بائے۔” پھر وہ دبے قدموں سے گھر میں چلی آئی تھی مگر اندر آتے ہی اس کی ایک کھوجتی نظر عاشر پہ پڑی تھی جو صوفہ پر بہت گہری نیند سو رہا تھا۔ بال منہ پر بکھرے ہوئے تھے اور ایک ہاتھ ماتھے پر رکھا ہوا تھا اور دوسرا نیچے زمین پر لگ رہا تھا۔ مگر شاید وہ گہری نیند سو رہا تھا۔ بانو کے کمرے کی لائٹ بھی بند تھی جس سے ظاہر تھا کے گھر میں سب سو گئے ہیں۔ وہ ابھی عاشر کا ہاتھ اوپر رکھنے کے لئے بڑھی ہی تھی کے اس کا فون بجنے لگا۔ نمبر جانا پہچانا نہیں تھا مگر پھر بھی مہرین نے فون اٹھا لیا تھا۔
“ہیلو!” اس نے کہا۔
“ہیلو مہرین! It’s been so long” یہ بات کہہ کر کسی نے فون بند کیا تھا۔ مہرین کے تو ہاتھ پیر ٹھنڈے ہوگئے کے آخر یہ کون ہوسکتا ہے؟ وہ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کے اس کی نگاہ عاشر کے چہرے پہ پڑی جو بے فکری سے سو رہا تھا۔ وہ ٹک ٹک اسے کو دیکھے جارہی تھی۔ یہ کیا ہورہا تھا اسے؟ وہ کیوں اس شخص کی طرف مائل ہورہی تھی۔ کیا وہ اس کی زندگی میں داخل ہو چکا تھا؟مگر کیسے؟ کیوں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا دل اس کے وجود کی قربت محسوس کرنا چاہ رہا تھا۔ کیا وہ وہی شخص نہیں جس نے اس کے ماں باپ کو اس سے چھینا تھا؟ کیا یہ وہی انسان نہیں جس سے وہ بے انتہا نفرت کرتی تھی؟ پھر کیوں آج وہ اس کے لئے اپنے دل میں نرمائی محسوس کر رہی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ آگے بڑھی اور اسکا ہاتھ اپنے نرم ہاتھوں میں پکڑنے ہی لگی تھی کے عاشر کی آنکھ ایک دم کھل گئی۔
مہرین نے جوں ہی اس کے ہاتھ کو تھاما اس ہی لمحے عاشر کی آنکھ کھل گئی۔ وہ ایک دم چونک کر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ عاشر کا ہاتھ اب تک مہرین کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے ایک سرسری سی نظر مہرین پر ڈالی جو باغور اس کے چہرے کے تاثرات کو پڑھ رہی تھی۔ مہرین کو لگا جیسے اب وہ چیخے گا یا یقیناً اسے سنائے گا مگر وہ کچھ کہے بغیر زور سے اپنا ہاتھ مہرین کی گرفت سے چھڑا کر کھڑا ہو گیا۔ مہرین تو شرم سے پانی پانى ہوگئی۔ اس کی نگاہیں اوپر نہیں اٹھ رہی تھیں۔ عاشر کو مہرین کی یہ حرکت سمجھ نہیں آئى مگر اسے معلوم تھا کے وہ یقیناً کوئی سازش کھیل رہی ہے۔ وہ بغیر ایک لفظ کہے وہاں سے چلا گیا اور اس نے پلٹ کر مہرین کو دیکھنا تک گوارہ نہیں کیا۔ اس کے جانے کے بعد وہ کتنی ہی دیر خود پر ملامت کرنے لگی۔ آخر کیوں وہ عاشر کی طرف راغب ہو رہی تھی؟ کیا اس کی نفرت کی شدت ختم ہوگى تھی؟ وہ کیوں چاہ رہی تھی کہ عاشر بھی اس کے نرم ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھ دے؟ اس کے زخمی دل پر مرہم رکھے۔ وہ کیوں چاہتی تھی کے وہ اس کے وجود کو محبت سے بھر دے؟ اس نے ایک پل کے لئے اپنی آنکھوں کو بند کیا۔آنکھوں کو بند کرتے ہی ماضی کی یادیں اس کے سامنے آگئیں۔ آنسوں اس کی آنکھوں سے بہنے لگے اور دل بوجھل ہونے لگا۔
********
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...