بابا جان نے جوں ہی یہ بات کی تو ماما جان سے رہا نہ گیا وہ ایک دم غصے میں کھڑی ہوگئیں ان کو بابا جان کی یہ بات سخت ناگوار لگی تھی۔
“جہانزیب یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کے عاشر اور مہرین بچپن سے ساتھ ہیں اور وہ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں یہ بلکل نہ ممکن ہے۔” انہوں نے بابا جان کے اس فیصلے پر احتجاج کیا۔
“تو کیا تم مہرین کو بے سہارا اور بے گھر دیکھنا چاہتی ہو؟ کیا عاشر کے علاوہ کوئی اور اسے سنبھال سکتا ہے؟ وہ ہمارا بیٹا ہے چاہے وہ زہرہ کے خون سے ہی کیوں نہ ہو مجھے یقین ہے کے عاشر نے اگر مہرین کا ہاتھ تھام لیا تو سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔” وہ بولتے جا رہے تھے اور ماما جان کے لئے تو جیسے ہر لفط ایک قیامت کی طرح ٹوٹ کر گر رہا تھا۔
“آپ سوچ لیں جہانزیب یہ بہت مشکل ہے۔ کیا مہرین راضی ہوگی کبھی؟” ماما جان سخت پریشانی کے عالم بولیں۔
“میں کروں گا اس سے بات بس میری تو شروع سے ہی خواہش تھی کے عاشر مہرین کی شادی ہو جائے مگر حالات نے کبھی ایسا نہیں ہونے دیا۔ ہماری بیٹی اگر کسی کے ساتھ خوش رہ سکے گی تو وہ عاشر ہے۔” بابا جان نے فیصلہ کر لیا تھا۔
“مگر۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے اگر آپ کا فیصلہ یہی ہے تو میں کیا کہہ سکتی ہوں مگر یہ عاشر کے ساتھ زیادتی ہوگی۔” انہوں نے بہت مشکل سے یہ بات کہی۔
“اس کا دکھ ہے مجھے مگر یہاں اولاد کی محبت کی خودغرضی مجھے ایسا کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔” بابا جان نے تھوک نگلا اور آنکھیں بند کر لیں۔
موسم میں اب ہلکی ہلکی نمی تھی اور بادل آسمان پر ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔ سورج تو جیسے ان بادلوں میں کہی چھپ گیا تھا اور کالی گھٹا نے ہر شے کو اپنے اندھیرے میں لے لیا تھا۔
عاشر دو دن سے اپنے کمرے میں بند تھا۔ جسم میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں اسے درد نہ ہو رہا ہو مگر دردِ دل سے زیادہ کوئی درد تکلیف نہیں دیتا یہ بات اسے آج محسوس ہوئی تھی۔ آنکھوں سے اب آنسوں نہیں کوئی دریا بہہ رہا تھا اس کا دل بھی اس موسم کی طرح ابرآلود تھا۔
کیا عورت بے وفا ہوتی ہے؟
کیا زندگی میں دکھوں کے علاوہ کچھ نہی؟ وہ اب سوچوں میں گم تھا۔ پہلے اس کی ماں جس نے اس کو جنم دیا اس کی جدائی کا غم برداشت کیا۔ پھر عورت کو مہرین کی شکل میں دیکھا جس نے بھگو بھگو کے تنظ کے تیروں سے اس کا وجود چھلنی کر دیا تھا۔ اور اب شیزہ کی بے وفائی؟ مگر کیا شیزہ بے وفا تھی؟
یہ بات اسے ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے بہت سوچنے کے بعد شیزہ کو کال ملائی۔ کچھ دیر بعد اس نے فون اٹھا لیا۔
“ہیلو؟” اس کی آواز سن کر عاشر کے آنسو تھم گئے تھے۔
“کیسی ہو؟” وہ بولا۔
“ٹھیک۔” بہت آہستہ سے بولی وہ۔
“آپ؟”
“زندہ ہوں۔” وہ بولنے لگا۔
“کیا تم اس فیصلے پر راضی ہو شیزہ؟” عاشر نے درد بھرے لہجے میں کہا۔
“کیا کروں سوائے راضی ہونے کے؟” شیزہ نے جواب دیا۔
“میری محبت کے لئے لڑی نہیں تم؟”
“نہیں۔” شیزہ نے جواب میں کہا۔
“کیوں شیزہ؟”
” کیونکہ میں ایک عورت ہوں اور اس مجبوری نے مجھے کچھ کہنے سے روک دیا ہے۔ میری ماں اگر راضی نہیں ہیں تو میں بھی نہیں ہوں۔” وہ بس اتنا کہہ سکی تھی۔
“ٹھیک ہے مگر ایک بات سنتی جاؤ کہ میں محبت کرتا ہوں تم سے اور کرتا رہوں گا۔” اس نے اقرار کرتے ہوئے کہا شیزہ کے دل کے تو جیسے ٹکڑے ہو گئے۔
“میں محبت کے قابل نہیں ہوں عاشر۔” اس نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔
“تم بھی بے وفا نکلیں شیزہ۔” اس نے گلاس کو زمین پر مارتے ہوئے سرخ آنکھوں سے کہا۔ رات بھر جاگنے کی وجہ سے اس کا دماغ درد سے پھٹ رہا تھا اس لیے وہ نیند کی دوائی لے کر سو گیا۔
******
“عاشر ۔۔۔عاشر!” کوئی بہت زور سے اس کے کندھے ہلا رہا تھا مگر وہ صحیح سے آنکھ کھول ہی نہیں پا رہا تھا۔
” اٹھو جلدی!” بانو نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔
اس نے بہت مشکل سے آنکھیں کھولیں پھر آہستہ سے بستر سے اٹھ کر ان کی طرف متوجہ ہوا۔
” کیا ہوا بانو؟” اس نے ان کے چہرے پر لکھی ہوئی پریشانی پڑھ لی تھی۔
“قیامت ہو گئ ہے! بابا جان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔” وہ روتے ہوئے بتانے لگی۔
“کیا ؟ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟” وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
“بیٹا کیا ہوا کیا نہیں ہمیں اس وقت چلنا ہو گا سب وہیں ہیں۔” انہوں نے اسے بتایا۔
“میں گاڑی نکال کر جارہا ہوں آپ یہی رہیں گھر پر۔” اس نے بس اتنا کہا اور وہاں سے چلا گیا۔
******
وہ ہسپتال میں پریشانی کے عالم میں ادھر سے ادھر بھاگ دوڑ کر رہی تھی۔ آنکھوں کے نیچے ہلکے صاف نمایاں تھے۔ اس نے کتنی بار ڈاکٹر سے اپنا خون دینے کی خواہش کی تھی مگر مہرین کی حالت ایسی نہیں تھی وہ خون دے سکے۔
بہت تیزی سے دوڑتا ہوا وہ سیڑھیاں سے اوپر والے فلور کی طرف آرہا تھا۔ ماما جان کو دیکھ کر وہ روک گیا اور پھر ان سے بات کرنے لگا۔
“ہاں تم دے دو خون ابھی فوراً۔” ماما جان نے اسے تاکید کی۔
“آپ پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہوجائے گا۔” وہ ان کو سمجھانے لگا۔
مہرین نے اسے جاتے دیکھا تو اس کے راستے میں آگئی۔
“تم وہاں نہیں جاؤ گے۔ وہ میرے بابا ہیں میں دوں گی انہیں خون!” وہ جنونی ہورہی تھی۔
“اس وقت فضول باتوں کا وقت نہیں ہے مہرین پلیز!” وہ اسے راستے سے ہٹانے لگا۔
“آج تم نہیں جاؤ گے! میرے بابا کو میری ضرورت ہے بس۔” وہ شاید اس وقت ہوش کھو بیٹھی تھی۔
“اگر ان کو کچھ ہوگیا تو اس کی ذمہ دار آپ ہوں گی!” وہ چلایا۔ وہ پھر کچھ نہ کہہ سکی اور وہ چلا گیا وہاں سے۔
****
باباجان کو اس نے خون دے دیا تھا ڈاکٹر نے انہیں اپنی نگرانی میں رکھا ہوا تھا۔ سر پر گہری چوٹیں آئیں تھیں اور کافی خون ضائع ہوا انہیں ابھی ہوش نہیں آیا تھا جس کی وجہ سے سب کافی پریشان تھے۔ اس دن جس دن انہیں عاشر کی منگنی ٹوٹنے کی خبر ملی تھی اس کے اگلے دن کی شام کو ہی وہ کسی کام سے نکل گئے۔ مگر پورے راستے انہیں صرف مہرین ہی کی فکر کھائی جا رہی تھی۔ اس سوچوں میں ان کی گاڑی سامنے سے آتے ہوئے ٹرک سے ٹکڑا گئی۔
مہرین مسلسل رو رہی تھی جبکہ عاشر ماماجان کے برابر بیٹھ کر انہیں تسلی دے رہا تھا۔ مہرین اپنے آپ کو کوس رہی تھی کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے اطلاع دی کے بابا جان خطرے سے باہر ہیں اور اب انہیں ہوش آگیا ہے۔
” کیا میں مل لوں؟” مہرین دوڑتی ہوئی آگے بڑھی تو ڈاکٹر نے ان سے کہا:
“ابھی وہ کسی عاشر سے ملنا چاہتے ہیں یہی ہیں تو آپ ملنے چلے جائیں۔”
جوں ہی مہرین نے سنا ایک بیزاری سی اس کے چہرے پر نمایاں ہوگئی۔
عاشر دبے قدموں کے ساتھ اس کمرے میں گیا جہاں بابا جان لیٹے ہوئے تھے۔ وہ ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور ان کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دئیے۔
بابا جان بستر پر بہت تکلیف میں لیٹے ہوئے تھے۔ ایک ہاتھ میں ڈرپ تھی اور دوسرے میں کینیولا لگا ہوا تھا۔ سر میں ہر طرف پٹی بندھی ہوئی تھی اور آنکھوں سے آنسوں جاری تھے۔ ذہن میں صرف ایک خیال تھا کہ کیا ہوگا مہرین کا اگر انہیں کچھ ہوگیا۔ وہ تنہا رہ جائے گی۔
“عاشر، میری ایک گزارش ہے بیٹا۔” وہ ہاتھ میں ہلکی سی لرزش سے بولے۔
“آپ حکم کریں بابا جان!” اس نے اپنے ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھ کر کہا۔
“بہت بڑا سوال کر رہا ہوں شاید میں زیادتی کر جاؤں تمہارے ساتھ مگر اپنے اس مجبور باپ کو معاف کردینا۔” آج پہلی بار بابا جان نے کہا تھا ایسا جو عاشر کو پریشانی میں مبتلہ کر رہا تھا۔
“بابا جان آپ بولیں تو۔” وہ مسکرا کر پوچھنے لگا۔
“تم میری بیٹی مہرین سے شادی کر لو۔ مہرین کو اپنا نام دے دو بس اور کچھ نہیں مانگ رہا میں۔ بھلے تم کسی سے بھی شادی کر لو بس اس کا ہاتھ تھام لو تاکے میں سکون سے جی یا مر سکوں۔” عاشر نے جو ہی یہ الفاظ سنے تو اس پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی اور ہاتھ جو بابا جان کے ہاتھ پر تھے اس نے ہٹا لئے۔ چہرہ زرد ہوگیا اور شدید غصے میں وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
“یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بابا جان ؟۔۔ یہ کبھی کسی صورت نہیں ہوسکتا وہ جو بھی ہیں آپ کی بیٹی ہیں اور میرے لئے قابل احترام ہیں اور دوسری بات یہ کے میں کبھی نہیں سوچ سکتا ایسا پلیز بابا جان ایسا نہ کہیں۔” وہ بہت شدید غصّے میں بولا۔
“عاشر میری بات تو سنو!” بابا جان نے بہت مری حالت میں کہا۔
“بابا جان خدارا نہ لیں مجھ سے یہ امتحان جس میں نہ جینا ہے نہ مرنا۔ اس سے اچھا تو آپ مجھے۔۔۔۔۔مجھے مار دیں۔” وہ ہاتھ جوڑ کر بولا۔
بابا جان نے اس کے چہرے پر اداسی دیکھی تو خاموش ہو گئے۔
“آج سے پہلے عاشر میں اتنا مجبور نہیں تھا مجھے معاف کر دینا۔” انہوں نے عاشر کے آگے ہاتھ جوڑ لئیے ایک ہاتھ میں ڈرپ کی وجہ سے وہ بہت مشکل سے ہاتھ ملانے لگے تھے۔
“یہ آپ کیا کر رہے ہیں بابا جان؟ پلیز یہ ہاتھ کبھی مت جوڑے گا۔ “وہ خفگی سے بولا۔
”عاشر کیا تم میری خاطر اسے اپنا نام نہیں دے سکتے؟ میں التجا کر رہا ہوں بھلے تم دوسری شادی کر لینا میں ایک لفظ بھی نہیں کہوں گا۔” بابا جان کے لہجے میں درد تھا۔ عاشر سے تو یہ سب برداشت نہیں ہوا اس نے فورا بابا جان کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیے۔
“میں وہ کروں گا جو آپ کہیں گے میں آپ کی بیٹی سے شادی کر لوں گا بابا جان مگر اس کے آگے میں کچھ نہیں کر سکوں گا۔” اس نے انہیں بتانا چاہا۔
”جیتے رہو خوش رہو مجھے معاف کر دینا اگر ہو سکے۔” انہوں نے عاشر کی شکل پر لکھی ہوئی اداسی کی تحریر پڑھ لی تھی۔
”سب باہر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان سب سے بھی مل لیں۔” یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔
جوں ہی اس نے دروازہ کھولا سامنے مہرین کو دیکھ کر اس کا پارہ ہائی ہو گیا۔ وہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے نیچے والے فلور کی طرف چلا گیا۔ پھر دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا پل بھر کو تو اسے لگا کہ اس کی دنیا ویران اور بے معنی ہو گئ ہے۔ اس پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ یہ کیا کہہ دیا تھا بابا جان نے؟ وہ شادی کر لی وہ بھی مہرین سے؟ مہرین جس نے زندگی کے ہر موڑ پر اسے تکلیف دی تھی۔ جس سے وہ حد درجہ نفرت کرتا تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا؟ مگر کیا وہ سب کچھ بھول جاۓ جو بابا جان نے اس سے کہا تھا؟ کیا انہوں نے اسی کی خاطر اپنی بیٹی کو نیچےنہیں رکھا؟ کیا انہوں نے عاشر کو بیٹے کا مقام نہیں دیا؟ اور آج اگر وہ ہاتھ جوڑ کر اس سے ایک چیز مانگ رہے تھے تو کیا وہ منع کر دے؟ اس نے سوچا اور پھر زبان اپنے لبوں پر پھیری۔
★★★★★
”بابا جان یہ سوپ لیجئے نا۔” مہرین نے سوپ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
”بس مہرین اب دل نہیں کر رہا۔” بابا جان نے اسے روکتے ہوئے کہا۔ ماما جان کو زبردستی گھر بھجوا دیا تھا اور عاشر صبح سے کسی کام کے لیے نکلا ہوا تھا۔ مہرین بابا جان کے پاسس بیٹھی تھی اور بہت پیار سے بابا جان کو ہر چیز کھلا رہی تھی۔
”تم نے تو آج بیٹیوں والے حق ادا کے ہیں۔” بابا جان نے ہنس کر کہا۔
”میں ہوں ہی آپ کی بیٹی۔” اس نے جواب میں کہا۔
”مہرین میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں بیٹا۔” انہوں سے بہت پیار سے کہا۔
”جی بولیں۔” مہرین نے جواب دیا۔
”ارے میرے پاس آ کر بیٹھو۔” انہوں نے اشارہ کیا۔
”ہاں بولیں۔”
”مجھے نہیں پتا کہ میری اب کتنی زندگی ہے میں بس اپنی زندگی میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔” بابا جان نے اس کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
”آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں میں ہمیشہ آپ کو صحت مند اور اپنے سامنے دیکھنا چاہتی ہوں۔” وہ تڑپ کر بولی۔
”میری ایک گزارش ہے وعدہ کرو تم مانو گی اور انکار نہیں کرو گی۔” ان کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔
“ميں آپ کى ہر بات مانو گى۔” اس نے سر ہلا کر کہا۔
“چاہے وه تمہيں ناگواره ہى کيوں نہ لگے؟” انہوں نے پوچھا۔
“کیا بات ہے بابا جان؟ آپ بولیں تو۔”
“میں چاہتا ہوں تم شادی کر لو اب بس جلدازجلد۔۔۔”
بابا جان نے کہا تو وہ چونک گئ۔
“وہ تو ٹھیک ہے مگر ابھی تو وقت ہے اور آپ کی طبیعت۔۔۔” وہ ابھی بول ہی نہ سکی تھی کہ بابا جان بیچ میں بول پڑے۔
“نہیں لڑکا میں نے ڈھونڈ لیا ہے۔ بس تمہارى رضا چاہیے۔” انہوں نے مہرین کو بتایا۔ مہرین کو تو جیسے ان کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
“کون؟” وہ حیرانی کے عالم میں پوچھنے لگی۔
“عاشر! میں نے عاشر سے تمہارا رشتہ منسوب کردیا ہے۔” یہ الفاظ جو بابا جان نے ادا کئے تھے وہ کسی پتھر کی طرح اس کے سر پر لگے تھے۔ اسے تو سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا بولے۔ یہ کیا بات بول دی تھی بابا جان نے وہ اپنا ہوش کھو رہی تھی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
“یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بابا جان؟؟” وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
“میں وہی کہہ رہا ہوں جو میں چاہتا ہوں۔” بابا جان نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ مہرین کے پاس تو جیسے الفاظ ہی ختم ہوگئے تھے۔
“بابا جان میں اور عاشر؟ وہ اور میں؟ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ وہ سوتیلا بھائی ہے میرا۔” اس نے احتجاج کیا۔
“ہاں اس میں حرج ہی کیا ہے؟ وہ ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ وہ اس دنیا کا سب سے اچھا انسان ہے۔ اور وہ تمہيں خوش رکھے گا۔” بابا جان جو بول رہے تھے اس کو ان کا ایک ایک لفظ کسی زہر سے بوجھے تیر کی طرح اس کے دل کو چھلنی کر رہا تھا۔
“میں ایسا نہیں سوچ سکتی۔ آپ کسی بھی شخص کے ساتھ میری بھلے شادی کر دیں۔” اس نے نہایت غصے میں کہا۔
“آخر کیا کمی ہے عاشر میں؟” وہ بول اُٹھے۔
“بابا جان ابھی آپ کی ایسی حالت نہی ہے کے آپ ایسی باتیں کریں۔ ہم اس موضوع پر بعد میں بات کرتے ہیں۔” اس نے جلدی سے کہا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
اس کے دل و دماغ میں تو جیسے ایک طوفان برپا ہو گیا تھا اور دل میں وحشت تاری ہو گئی تھی۔ اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کے بابا جان آخر ایسی بات سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔ وہ اس پریشانی کے عالم میں ادھر سے ادھر گھوم رہی تھی جب اسے عاشر کھڑا نظر آیا۔ اس کے دماغ میں تو آگ شعلے برپا ہونے لگے۔ وہ بھاگتی ہوئی اپنی جگہ سے اس کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔ عاشر اس وقت چائے پی رہا تھا کیونکہ دو دن سے وہ ٹھیک سے سویا نہیں تھا اور اب بابا جان کی بات نے تو اسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔
“تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے عاشر احمد؟ یہ کیا بول رہے ہیں بابا جان!” اس نے آتے ہی اس پر لفظوں کی گولہ باری شروع کردی۔
“جو آپ نے سنا وہی میں نے سنا!” وہ اسے اگنور کرکے چائے پی رہا تھا آرام سے۔
“تمہيں پتا ہے نا کے یہ کبھى میری زندگی میں نہیں ہو سکتا؟” اس نے اپنے دل کے اندر بھرا زہر باہر نکالا۔
“ہاں جیسے کہ میری زندگی میں تو ہوسکتا ہے۔” وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔
“میں تم سے شدید نفرت کرتی ہوں یہ بات یاد رکھنا۔اور مجھے حیرت ہے کہ تم راضی ہوگئے ہو۔” وہ جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کر رہی تھی۔
” آپ پاگل تو نہیں ہوگئی ہیں؟ میں مر کر بھی کبھی راضی تو کیا اپنی گردن بھی نیچی نہ کروں۔ اور جہاں تک بات رہی نفرت کی تو وہ تو میں آپسے بھی کئی گنّاہ زیادہ نفرت کرنے کا قائل ہوں۔ مجھے آپکے وجود سے تو کیا آپکے ساتھ گزرا ہر پل ہر لمحہ زہر کے گھونٹ سے بھی زیادہ کڑوا لگتا ہے۔اور مزید یہ کہ میں آپکو اپنی نفرت کی قابل بھی نہیں سمجھتا۔” عاشر نے لب بھینج کر کہا۔ اسکی باتیں سن کر مہرین کے ہوش ہی اڑ گئے۔
“تم شاید۔۔۔۔۔۔” وہ مزید کچھ بولنا چاہ رہی تھی مگر وہ مزید کچھ سنے وہاں سے چلا گیا۔
******
ماما جان اور عاشر مل کر چائے پی رہے تھے اور مہرین اپنے کمرے میں سو رہی تھی۔ کچھ دیر دونوں بیٹھ کر چائے پیتے رہے مگر پھر ماما جان نے آخر کار بات نکال ہی لی۔
“تو پھر آپ نے کیا سوچا ہے عاشر؟” ماما جان نے پوچھا۔
وہ چائے کا گھونٹ پی رہا تھا کہ ایک دم چونک گیا۔
“کس بارے ميں؟” عاشر نے انجان ہو کر بولا۔
“اپنے بارے ميں۔”
“کیا سوچنا ہے ماما جان اب بس پھر کمپنی پر دھیان دینا ہے کافی نقصان ہوا ہے۔” اس نے بتایا۔نہیں میرا مطلب تھا اپنے بارے میں اور بابا جان والی بات پر!” ماما جان نے جوں ہی یہ کہا تو عاشر تو جیسے سانس لینا بھول گیا ہو۔
“ماما جان خدا کے لیئے آپ بابا جان کو سمجھائیں ایسا کيسے ہو سکتا ہے؟” وہ بولا۔
“میں نے سمجھايا ہے مگر وہ بار بار یہی خواہش کرتے ہیں۔ وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کے یہ ان کی آخرى خواہش ہے اب میں کیا بول سکتی ہوں۔ وہ بھی بہت مجبور ہیں۔ انہوں نے تمہيں آج بلایا ہے عاشر بات کرلینا۔” ماما جان نے اسے کہا تو وہ بہت مشکل سے سانس لے سکا تھا۔
“آپ نے بلایا بابا جان؟” عاشر نے اندر آتے ہوئے کہا۔
“آؤ بیٹا! اب تو بس تم دونوں کو دیکھ کر ہی تکلیف دور ہوتی ہے۔” وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔
“کب جا رہے ہو عاشر؟”
“اگلے ہفتے۔” اس نے جواب دیا۔
”تو کیا سوچا ہے تم نے؟ مہرین کو ساتھ لے کر جاؤ گے!” عاشر نے جو یہ سنا تو ایک بار پھر اس کے دل پر تو جیسے کسی نے چھری سے وار کر دیا ہو۔
”بابا جان میں کافی عرصے کے لیے جا رہا ہوں میں یہ کام بعد میں کر لوں گا۔”
”نہیں بیٹا تم اس سے نکاح کر کے ساتھ لے جاؤ شاید کچھ دن باہر رہے گی تو ٹھیک ہو جاۓ گی۔” وہ ضد پر ارٹے تھے۔
”مگر۔۔۔۔۔۔” وہ ہچکچاتے ہوئے بولا۔
”عاشر میں تم سے بس یہ کہہ رہا ہوں کہ تم اس سے نکاح کر لو اور ساتھ رکھ لو باقی جس سے چاہے شادی کر لو میں قسم کھاتا ہوں میں تمہیں منع نہیں کروں گا تم زندگی میں جو چاہے وہ کرنا میں بس یہی چاہتا ہوں کے اسے تمہاری چھاؤں مل جاۓ۔میں شاید خود غرض ہو رہا ہوں، مگر میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے جس سے میں یہ اطمینان کر سکوں کہ وہ کسی اور شخص کے ساتھ خوش رہ سکے گی۔” ان کی آنکھوں سے اسشک جاری تھے۔
”ٹھیک ہے میں راضی ہوں مگر میں نام کے علاوہ اسے اور کچھ نہیں دے سکوں گا۔” اس نے افسردگی سے کہا۔
”اس کے ساتھ تمہارا نام جڑنا ہی میرے لیے کافی ہے۔”
”عاشر۔۔۔۔۔۔۔ایک بات جو تمہیں عجیب لگے مگر سچ ہے کہ مہرین جتنی بھی بری کیوں نہ ہو، دل کی بری نہیں ہے۔ وہ لوگوں کے بہکاوے میں آ کر اکثر غلطیاں کر دیتی ہے مگر جن سے محبّت کرتی ہے ان کو ٹوٹ کر چاہتی ہے۔” انہوں نے اسے بتایا جو دل ہی دل میں اپنی قسمت کو کوس رہا تھا۔
★★★★★
وہ آج اپنے سٹوڈیو میں دیر سے پہنچا تھا مگر جاتے کے ساتھ ہی اس نے اپنے کینوس پر اسکیچنگ شروع کر دی تھی۔
وہ مرجھاۓ دل کے ساتھ سامنے رکھے مٹی کے برتن کا سکیچ بنا رہا تھا۔ شاید اس کا دل بھی اسی برتن کی طرح خالی تھا جو شاید بھر بھی جاۓ تو بھی اس کا خالی پن مٹ نہیں سکتا۔ اس نے کینوس پر ہلکی ہلکی لکیریں بنائیں اور پھر انہیں مٹانا شروع کر دیا پھر بنائیں اور پھر مٹانا شروع کیا وہ یہ سب کر ہی رہا تھا کہ اسے کسی باریک آواز نے پیچھے سے مخاطب کیا جس پر وہ چونک گیا۔
”کیا یہاں ایڈمیشن ختم ہو گئے ہیں؟” وہ پوچھنے لگی۔
”جی۔” اس نے اس لڑکی کو جواب دیا۔
”مگر مجھے پتا نہیں چلا آپ پلیز میری application منظور کر لیں مجھے یہ سمر کورس کرنا ہے۔” وہ لڑکی التجا کرتے ہوئے بولی۔ وہ ابھی تک خاموش تھا مگر اس کا جذبہ اور جنون دیکھ کر کسی گہری سوچ میں پڑ گیا۔
”پلیز” اس نے دوبارہ کہا۔
”ٹھیک ہے آپ پیر سے جوائن کر لیں” وہ بتانے لگا۔
”شکریہ۔۔۔۔۔آپ کا بہت بہت شکریہ” اس نے ممنوں ہوتے ہوئے کہا اور وہ اس کی خوشی کا اندازہ وہ لگا نہیں سکا۔
دل میں تو وہ سوچ رہا تھا کہ کتنی عجیب لڑکی ہے مگر آگے سے کچھ نہیں بول سکا وہ۔
★★★★★
دانیال حسن اور ان کی بیوی کی زبردست لڑائی ہوئی تھی۔ دانیال نے تو بہت سنائی تھی کہ انہوں نےمنگنی کیوں توڑی مگر ان کی بیوی بھی کچھ کم نہ تھیں۔
انہوں نے زبردستی شیزہ کی خالہ کو فون کر کے کہا کہ شیزہ کی جلد از جلد شادی اپنے بیٹے سے کر دیں جس پر انہوں نے فورا حامی بھر لی۔
”میں آپ کو ایک بات بتا دوں ممی کہ میں اگر عاشر کی نہ ہو سکی تو میں کسی اور کی بھی نہیں بنوں گی۔” وہ چینخ چینخ کر کہہ رہی تھی۔
”چپ کر جاؤ تم عاشر کی حیثیت ہی کیا ہے؟ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلا ہوا۔۔!! میرا بھانجا پر وقار اور ایک بہت بڑے باپ کا بیٹا ہے وہی تمہارے لیے ٹھیک رہے گا سمجھی تم! اور اگر تم ماں کو تکلیف پہنچانا چاہتی ہو تو کر لو عاشر سے شادی مگر یاد رکھنا پھر میرے پاس لوٹ کر نہ آنا۔” انہوں نےاسے دھمکایا تھا۔
”ممی؟ یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟” وہ ایک دم زور سے چینخی۔
”جو تم نے سنا۔” یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئیں۔شیزہ نے خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا۔ یہ کیسا امتحان تھا ایک طرف محبّت اور دوسری طرف آزمائش وہ کیاکرتی اور کیا نہ کرتی۔ اس نے اپنے کمرے کی ہر چیز توڑ ڈالی اور رونے لگی۔
مگر آنسوں کہاں درد کا مداوا کرتے ہیں۔ کیا محبّت کا درد کبھی آنسوں کے ذریعے کم ہوا ہے بھلا۔
فرح ملک نے تواپنی بہو کو بہت سمجھایا کہ ایسا نہ کریں مگر ان کی ضد کے آگے کسی کی نہ چل سکی۔
★★★★★
”اگلے ہفتے نکاح؟ میں یہ گلے کا طوق ہرگز نہیں پہنوں گی ماما جان خدا کے لیے روک دیں بابا جان کو!” مہرین نے ہاتھ جوڑ کر گزارش کی۔
”کیوں لے رہی ہو میرا امتحان؟ آخر چاہتی کیا ہو تم؟ پہلے ہی تمہاری ضد کے آگے ہم نے سر جھکا لیا تھا۔ مگر اب نہیں مہرین تمہیں یہ کرنا ہو گا اپنے بابا جان کے لیے۔ کیا تم انہیں جیتے جی مار دیناچاہتی ہو؟” وہ اسے جنجھوڑتے ہوئے بولیں۔
”کیا کوئی اور راستہ نہیں ہے؟” وہ خود کو سمبھالتے ہوئے بولی۔
”فلحال نہیں ہے یہ قربانی تمہاری نہیں بلکہ عاشر کی ہے جو تم سے شادی کر رہا ہے۔ وہ ہر لحاظ سے مکمل ہے مگر تم ہر لحاظ سے نامکمل ہو۔” وہ یہ کہتے کہتے رک گئیں اور مہرین بھی خاموش ہو گئی۔ اور اس کے پاس بولنے کو تھا ہی کیا؟ وہ اپنا اعتماد تو کھو ہی چکی تھی اب اسے وہی کرنا تھا جو اس سے کرنے کے لیے کہا جا رہا تھا۔
عاشر نے بابا جان کی بات مان لی تھی اسے مہرین کو اپنے ساتھ لے جانا تھا مگر اس کا دماغ یہ سوچ سوچ کر پھٹ رہا تھا کہ وہ اس منافق عورت کو کیسے برداشت کرے گا۔
”طلاق؟” وہ خود سے بولا۔
”نہیں وہ تو آسان ہے میں اسے تڑپتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں جیسے میں تھا۔” اس نے سرگوشی میں کہا۔
*******
گھر کو ایک بار پھر سجایا گیا مگر اس بار صرف گلاب کے پھولوں سے۔ عاشر کی رات میں فلائٹ تھی اس نے اپنا اور مہرین کاٹکٹ بک کروا لیا تھا۔
نکاح کے لیے جہانزیب حسن کے کچھ ہی قریبی دوستوں نےشرکت کی تھی جبکہ اسلام آباد میں کسی کو اس بات کی خبر نہیں تھی۔ ماما جان اور بانو کے بے حد اصرار پر مہرین نے سفید کلر کا جوڑا پہن لیا تھا جس کا دوپٹہ لال رنگ کا تھا اور اس پر ہلکا سا سفید موتیوں کا کام ہوا تھا۔ زیور میں اس نے ماما جان کا سب سے قیمتی سیٹ پہنا ہوا تھا۔بانو تو دو دن پہلے ہی اسلام آباد چلی گئیں تھی تاکہ گھر کی صفائی کروا لیں۔ مہرین نے دو دن سے نہ ہی کچھ کھایا تھا اور ہی کچھ پیا تھا۔ بس آنکھوں سے آنسوں رواں تھے۔
”آؤ نکاح کے لیے سب نیچے بیٹھے ہیں۔” ماما جان نے اسے بتایا۔
”یہ کیوں ہو رہا ہے؟” وہ روتے ہوئے بولی۔
”بس کرو یہ رونا دھونا عاشر تمہیں خوش رکھے گا’۔” وہ اسے سمجھانے لگیں۔
”ساری زندگی کا غرور توڑ ڈالا ہے آپ لوگوں نے۔ساری زندگی جسے میں اپنے پاؤں کی دھول سمجھتی رہی اب اس کا نام لے کر جیوں گی۔” اس نے درد بھرے لہجے میں کہا۔ ماما جان تو اس کی باتوں کا کوئی جواب نہ دے سکیں اور اسے لے کرنیچے اتر گئیں۔
وہ سر جھکاۓ بابا جان کے قریب بیٹھا تھا۔ عاشر کو پل پل گزارنا اس وقت موت سے بھی مشکل لگ رہا تھا۔ اس نے وہی کپڑے پہن رکھے تھے جو اس نے اپنی اور شیزہ کی منگنی پر پہنے تھے۔
عاشر نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تو اسے مہرین کی روتی ہوئی شکل نظر آئی۔ اس کی شکل دیکھ کر اس کے وجود میں آگ لگ گئی۔ وہ وہاں سے بھاگ کر کہیں جا کر مر جانا چاہتا تھا۔ اس وقت مہرین سفید قمیض شلوار اور لال ڈوپٹے میں کوئی حسین پری لگ رہی تھی۔ اگر کوئی اور شخص ہوتا تو پوری زندگی اس کو دیکھنے میں گزر دیتا مگر عاشر کو وہ زہر لگ رہی تھی۔
”چلو نکاح شروع کرواؤ!” بابا جان نے حکم دیا۔
نکاح شروع ہوا اور اس پورے وقت مہرین کی دعا تھی کہ کسی طرح عاشر منع کر دے مگر شاید اس کی دعائیں قبول نہ ہوئیں اور آخر کار نکاح ہو گیا تھا۔
”مبارک ہو! اللہ تمہیں خوش رکھے۔” انہوں نے عاشر کی پیشانی کا بوسہ لیا۔
سب ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے مگر دو دل اس وقت درد و تکلیف سے گزر رہے تھے۔ عاشر تو رو بھی نہیں سکتا تھا اسے پل پل شیزہ کی یاد ستا رہی تھی اور سامنے مہرین کو دیکھ کر وہ جل رہا تھا۔ مہرین کا سارا سامان گاڑی میں رکھوا دیا تھا۔
ان کی اسلام آباد کی فلائٹ تھی۔ عاشر نے بھی سارا سامان گاڑی میں رکھوا دیا تھا۔ سب لوگ چلے گئے تھے اور اب مہرین کو بھی جانا تھا اس لیے وہ کھڑی ہوئی کہ چینج کر کے گاڑی میں بیٹھ جاۓ۔
”کہاں جا رہی ہو؟” ماما جان نے پوچھا۔
”اوپر چینج کرنے۔” اسنے بے دلی سے کہا۔
”ارے آج شادی ہوئی ہے چینج اسلام آباد جا کر کرنا۔” ماما جان نے پیار سے کہا۔
”میں پورے راستے چھمک چھلو بن کر جاؤں؟” اس نے پوچھا۔ اس نے یہ بولا ہی تھا کے عاشر سامنے آگیا۔
”بابا جان گاڑی سٹارٹ ہو گی ہے۔” عاشر نے آ کر کہا۔
”جاؤ بیٹا تمہیں دیر ہو رہی ہے۔” ماما جان نے اس کے ہاتھوں کو نرمی سے دباتے ہوئے کہا۔
”خدا حافظ”- مہرین کا دل ڈوب رہا تھا۔
”تم میری آنکھوں کا نور ہو مہرین مگر اب تمہیں دور کر کے مجھے کوئی خوف نہیں ہے۔” انہوں نے اسے گلے سے لگا لیا۔
”ادھر آؤ عاشر اور مہرین۔” بابا جان جو وہیل چیئر پر بیٹھے تھے انہوں نے اشارہ کیا۔
دونوں آگے بڑھ کر ان کے سامنے آ گئے۔ انہوں نے دونوں کو اپنے گلے سے لگایا۔ مہرین تو کتنی دیر ہی ان کے پاس بیٹھی رہی۔
”عاشر مجھ سے ایک وعدہ کرو!” انہوں نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے پھر مہرین کا ہاتھ اس کے ہاتھوں میں دے دیے۔
”اس کے ہاتھ ہمیشہ تھامے رکھنا اور کچھ نہیں۔”
عاشر نے مہرین کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔مہرین کا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سماں جاۓ۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے مگر دونوں کمال کی اداکاری کرتے ہوئے باہر نکل گئے۔ ماما جان تو کھڑکی سے کھڑی ان دونوں کو جاتا دیکھ رہیں تھیں اور آنسو ٹپ ٹپ بہہ رہے تھے۔ باہر نکلتے ہی مہرین نے اپنے ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکالے اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔ گاڑی روانہ ہوئی مگر دونوں میں ایک لفظ کا بھی تبادلہ نہ ہوا۔
”میرا دل کر رہا ہے کہ سامنے سے ٹرک آ کر مجھے کچل دے کم از کم یہ اس زندگی سے تو بہتر ہو گا۔” عاشر نے لب بھینچ کر کہا۔
”ساتھ میں مجھے بھی کچل ڈالے! مگر میں تمہارے ساتھ مارنا بھی نہیں چاہتی۔” مہرین نے کہا۔
”ہاں تو جیسے بھی مر جائیں میری زندگی سے چلی جائیں۔ اس وقت آپ کا وجود برداشت کرنا میرے لیے کسی پل صراط سے کم نہیں۔” وہ بولا۔
”ہاں ایک کام کرو مجھے اسی سڑک پر اتار دو اور گاڑی گزار کر چلے جاؤ۔ میں بھی خوشی خوشی مرنا پسند کروں گی۔ حیرت ہے مجھے تم پر کیسے کر لی تم نے مجھ سے شادی؟ شرم نہیں آئی تمہیں؟” اس کا دل کر رہا تھا عاشر کا گلہ دبا دے۔
”ہاں مجھے شرم نہیں آئی مگر آپ یہ بتائیں آپ کو کیوں نہیں آئی؟ بڑی بہادر بنتی ہیں آپ۔” وہ زہر خندہ لہجے میں بولا۔
”میں بابا جان کی محبّت کی وجہ سے مجبور تھی۔” وہ چیخ کر بولی۔
”میرے پاس بلکل ٹائم نہیں ہے کہ میں آپ جیسی مکار عورت سے بات کروں۔” وہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے بولا۔
وہ جانتا تھا کہ اس کے بعد تو اصل زندگی کی تکلیفیں شروع ہوں گی۔ اسے آگے پتا نہیں کیا کیا جھیلنا تھا۔
”یہ ہم ریل وے سٹیشن کیوں جا رہے ہیں؟” اس نے حیرت سے پوچھا۔
”کیوں کہ وہاں ٹرین سے ہم اسلام آباد جائیں گے۔” وہ بولا۔
”یہ کیا بکواس کر رہے ہو تم؟ دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا؟” مہرین نے غصّے میں کہا۔
”میرا غالبا ٹھیک ہے مگر مجھے آپ کا نہیں پتا۔” اس نے کندھے اچکائے۔
”ہم نے ہوائی جہاز سے جانا تھا۔” وہ بولی۔
”ہاں مگر میں نے سوچا ٹرین سے جائیں گے اس میں زیادہ مزہ آئے گا۔” وہ طنزیہ مسکرایا۔
”میں ٹرین میں نہیں بیٹھوں گی۔” اس نے عاشر کو دھمکی دینے کے انداز میں کہا۔
“واہ! یہ تواچھی بات ہے پھر آپ اپنا سامان اٹھائیں اور اپنے گھر جائیں۔” گاڑی سٹیشن پررکی۔
”تم کیا کھیل کھیل رہے ہو؟” مہرین نے زور سے گاڑی کا دروازہ بند کیا۔
”ٹرین آگئی ہے میں جا رہا ہوں ویسے اگر آپ اپنے گھر جانا چاہتیں ہیں تو پلیز دیر مت کریں۔”
وہ یہ کہہ کر آگے نکل گیا اور مہرین بس پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی۔
★★★★★
“کلاس ”dismiss” اس نے تالیاں بجاتے ہوئے کہا اور اب جگہ سے اٹھنے لگے جب عروسہ اندر آئی تو سب اسے گھورنے لگے۔
”ایم آیی لیٹ؟” اس نے اس کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا تو پوری کلاس زور زور سے ہنسنے لگی۔ وہ تو اسکی اس بات پر ہسنے کی بجاۓ گھڑی کو گھورنے لگا۔
“No you’re too early I guess”
اس نے مذاق سے کہا تو پورا روم قہقوں سے گونج اٹھا۔
”میں سمجھی نہیں۔” اس نے ناسمجھی کے انداز میں کہا۔
”گیارہ بجے کا مطلب آپ رات کے آٹھ سمجھتی ہیں؟” اس نے پوچھا۔
” تو ٹائم پانچ بجے کا تھا؟” اس نے سر پر ہاتھ مار کر کہا۔
”غالباً ہاں۔” اس نے جواب دیا۔
“تو اب میں کیا کروں؟” وہ معصومیت سے پوچھنے لگی۔
“اب کل آجائے گا۔” وہ شانے اچکا کر بولا۔
“مگر آج کا جو نقصان ہوا وہ؟” وہ غورتے ہوئے پوچھنے لگی۔
“وہ آپ کا مسلہ ہے۔” وہ اسے یہاں برداشت نہیں کرنا چاہتا تھا۔
“میں کل اسی ٹائم پر آؤں کیا؟” ایک بار پھر وہ اسکا دماغ پکا رہی تھی۔
“جی۔”
“اوکے بائے!” بڑی مشکل سے وہ وہاں سے نکلی تھی۔
“زریاب؟ کہاں ہے یار تو؟” کسی نے زور سے اسے آواز دی تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...