عاشر کو اس طرح ٹائی اور بوٹس میں تیار دیکھ کر مہرین کے دل میں آگ ہی لگ گئی کہاں وہ تین سال پہلے والا عاشر دبلا پتلا اور سفید رنگ کی شرٹ میں پھرنے والا بزدل انسان۔
اور اب تین سال بعد اسے کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے کوئی فقیر سے بادشاہ بن گیا ہو۔
عاشر کے لہجے میں اب شگفتگی کی جگہ بدتمیزی تھی جو مہرین نے محسوس کی تھی۔ اب وہ کافی بدل گیا تھا ہر لہٰذ سے چاہے وہ ڈریسنگ ہو یا بات کرنے کا طریقہ۔ مگر اسے عاشر کو یوں کامیاب دیکھ کر جلن ہورہی تھی۔
اسے اچھی طرح یاد تھا اس نے عاشر کو چیلنج کیا تھا اگر وہ اپنے باپ کی اولاد ہے تو خود اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر ایک کامیاب انسان بن کر دکھائے اور اب عاشر اس کے سامنے تھا، کامیاب اور خوشحال۔
زندگی نے مہرین کو کس موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا؟؟ عاشر احمد کے سامنے وہ خود کو گرا ہوا سمجھ رہی تھی ۔ کہاں گیا وہ رعب و دبدبہ سب خاک میں مل گیا۔ مگر وہ کبھی بھی خود کو اس کے سامنے جھکانا نہیں چاہتی تھی۔
وہ کتنی دیر سے پارکنگ میں مہرین کا انتظار کر رہا تھا۔
“آگئی چڑیل اچھا بھلا سکون تھا اب یہ آ گئ ہے دماغ کھانے۔” اس کے دماغ میں ٹیسیں اٹھنے لگیں یہ سوچ کر کہ اب مہرین وہی کرے گی جو وہ کرتی آئی ہے۔ وہ بہت آرام سے ایک ہاتھ میں اپنا بیگ اور دوسرے میں لگیج گھسیٹ کر پارکنگ ایریا کی طرف آرہی تھی۔
“محترمہ مہرین صاحبہ اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو جلدی بیٹھ جائیں۔” عاشر بہت تلخ لہجے میں بولا۔
“محترم عاشر صاحب اگر آپ اندھے نہیں ہیں تو آپ کو نظر آ رہا ہو گا کہ میرے ہاتھ میں کافی سامان ہے۔” اس نے غصے سے اپنا بیگ زمین پر رکھتے ہوئے کہا۔ عاشر نے اس کی بات پر دھیان دیے بغیر سارا سامان گاڑی میں رکھا اور گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔مہرین نے دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گئ۔
پھر پورے راستے عاشر خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا جبکہ مہرین کے دماغ میں وہ ماضی کی غلطیاں گھوم رہی تھیں۔ اسے یاد تھا بابا جان نے اسے کتنا روکا تھا کہ ارحم سے شادی نا کرو مت جاؤ باہر مگر اس نے کسی کی نہیں سنی اور ارحم اس نے تو مہرین کی روح کو کچل ڈالا تھا۔ اس کا دیا گیا ہر زخم کسی تیر کی طرح اسے چھلنی کر چکا تھا۔ پورا راستہ ماضی کی نظر ہو گیا اور اس کو پتا بھی نہیں چلا جب عاشر کی آواز آئی:
“اتر جائیں گھر آ گیا!”
********
گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے مہرین کے پاؤں لرزنے لگے وہ گھر جو اس کا جہاں تھا اس کی خوشیوں کا سامان تھا اب ویران پڑا تھا۔
بہت ہمت کر کے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ گھر کے اندر داخل ہوئی۔ لاؤنج میں بابا جان اور ماما جان دونوں ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ ماما جان تو کھڑکی سے مہرین کو آتا دیکھ چکی تھی اور بابا جان اخبار پڑھنے میں مصروف تھے اور دل ہی دل میں مہرین کا انتظار کر رہے تھے۔
“میری بچی!” ماما جان دوڑتی ہوئی مہرین کے پاس آئیں اور اسے گلے سے لگا کر رونے لگیں ۔ عاشر نے مہرین کا سامان اندر رکھا اور خود کونے میں جا کر کھڑا ہو گیا۔
“ماما!” وہ ماما جان کے گلے لگ کر رو رہی تھی آنسو تو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ ماں کی خوشبو اس جہاں کی ہر خوشبو سے مختلف اور سکون پہنچانے والی ہے اسے یہ احساس اب ہو رہا تھا۔ ماں باپ کا گھر تو سائے کا طرح ہوتا ہے اور ماں تو اولاد کو دنیا کی ہر تکلیف سے دور رکھتی ہے۔ اسے اب اپنے والدین کی قدر ہو رہی تھی۔
نہ وہ چپ ہونے کا نام لے رہی تھی نا ماما جان خود کو رونے سے روک پا رہی تھیں۔
کتنی دیر دونوں ماں بیٹی اک دوسرے کے گلے لگ کر غم کم کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
“اب بس بھی کرو مہرین میری جان۔” بابا جان سے بھی رہا نہ گیا انہوں نے مہرین کو پیار کیا۔
” میں ٹوٹ گئ ہوں بابا جان! بہت زخم ہیں اس دل میں۔” وہ نا چاہتے ہوئے بھی اپنے دل کا حال اپنے والدین کے سامنے کھول بیٹھی۔
“مہرین میری جان والدین تو ہوتے ہی اولاد کا غم سمیٹنے کے لیے ہیں بس کر دو بھول جاؤ سب اب میں تمہاری آنکھوں میں ایک بھی آنسو نہ دیکھوں۔” بابا جان نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا پھر ماما جان اسے اپنے کمرے میں لے گئ اور عاشر بانو کے ساتھ مل کر کھانا لگوانے لگا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی ایک خوشبو اس کے اندر اترتی چلی گئ۔
” تم آرام کرو پھر ہم سب کھانا کھاتے ہیں۔” ماما جان نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
“روکیں ماما۔” وہ ایک دم انہیں روکتے ہوئے بولی۔
“آپ لوگوں نے مجھے معاف تو کر دیا نا؟” اس نے ماما جان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“کیسی معافی مہرین؟ تم ہماری بیٹی ہو اور جو غلطی تم نے کی وہ ہم کب کا بھول چکے ہیں۔ تم بس غمزدہ نہ ہو آرام کرو۔” ماما یہ کہہ کر چلی گئیں اور مہرین بوجھل دل لے کر بیڈ پر لیٹ گئ۔
*******
رات کا کھانا ماما جان نے بنایا تھا اور میٹھا بانو نے بنایا تھا۔
مہرین کی پلیٹ تو خالی تھی جبکہ عاشر اور بابا جان بہت شوق سے کھانا کھا رہے تھے۔
“ارے! یہ خالی پلیٹ لیے کیوں بیٹھی ہو؟ اور کچھ کیوں نہیں لے رہیں؟” ماما جان جو کب سے دیکھ رہی تھیں آخر کار بول پڑیں۔
” لے تو لیا ہے۔” مہرین خالی چمچ پلیٹ میں گھماتے ہوئے بولی۔
” عاشر تم ہی ڈال دو اس کی پلیٹ میں کچھ۔ ” بابا جان نے عاشر سے کہا جو مزے سے کھانا کھا رہا تھا۔
“یہ لیں۔” وہ ٹرے مہرین کے آگے رکھتے ہوئے بولا۔
“تم سے کہا ہے اس کی پلیٹ میں ڈال دو۔” بابا جان نے عاشر سے کہا تو اس نے دو بڑے چمچے اس کی پلیٹ میں ڈال دیے۔
مہرین نے چپ چاپ کھانا کھایا اور اٹھنے لگی-
” ارے بیٹھ کر باتیں ہی کر لو کچھ-” ماما جان نے اسے روکتے ہوئے کہا۔
“اچھا-” اس نے مختصر سا جواب دیا۔
“تو عاشر کب جا رہے ہو پھر؟ ” بابا جان عاشر سے پوچھا۔
“ابھی کوئی کام نہیں ہے پھر عدیل نے شادی کی چھٹیوں کے بعد کام سنبھال لیا ہے اس لیے شاید ایک مہینے بعد جاؤں مگر اب جاؤں گا تو لمبا عرصہ روکوں گا۔” وہ بابا جان کو بتانے لگا۔
مہرین سے رہا نہ گیا تو اس نے آخر کار پوچھ ہی لیا
“کہاں جا رہا ہےعاشر؟” لہجہ ابھی بھی خشک ہی تھا۔
“عاشر اب حسن انٹرپرائز کا CEO ہے تو اس سلسلے میں اسلام آباد رہنے چلا جاتا ہے اور اب تو اس کا گھر بھی وہی ہی ہے کیوں بھئ؟ ” وہ خوشی خوشی مہرین کو بتانے لگے۔
اور مہرین کے دل میں جیسے آگ لگ گئ ہو ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے اس کے دل کو چھری سے زخمی کر دیا ہو۔
” کیا مطلب؟ ” وہ حیرانی سے پوچھنے لگی۔
“بھئ عاشر کی اور میری کمپنی مرج ہو گئ ہے جسے اب عاشر ہی سنبھالتا ہے۔” انہوں نے مہرین کو بتایا جس سے بلکل بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ بابا جان پورا بزنس اس کے حوالے کر چکے ہیں اور وہ کچھ اور سنے بغیر وہاں سے چلی گئ۔
“تو عدیل کی شادی ہو گئ ہے تمہارا کب ارادہ ہے؟” ماما جان ہنستے ہوئے بولیں۔
“جب آپ اپنی پسند کی بہو ڈھونڈ لیں گی ماما۔” وہ شرما کر بولا تو ماما جان ہنسنے لگیں۔
رات کو جب جب عاشر پانی پی کر اپنے کمرے میں جا رہا تھا تو مہرین اس کے راستے میں آ گئ۔
“کوئی کام؟” عاشر نے سرسری انداز میں پوچھا۔
“یہ کیا کھیل کھیل رہے ہو تم؟” بہت ہی سخت لہجے میں وہ اس سے پوچھنے لگی۔
“صاف الفاظ میں بات کیا کریں!” وہ بھی غصے میں پوچھنے لگا۔
“کیوں کیا اب تمہیں باتیں سمجھ نہیں آتیں؟” مہرین نے چڑ کر بولا۔
“آپ کی باتیں مجھے سمجھ نہیں آتیں۔” عاشر کی ہمت جواب دے رہی تھی۔
“اب اتنے بچے بھی نہیں ہو تم! میرے باپ کی دولت پر تم قبضہ کر ہی لیا آخر۔” وہ آگے بڑھ کر تالیاں بجانے لگی۔
“آپ نے جو چیلنج دیا اسے ہی پورا کیا ہے میں نے، اب آپ کے دل میں آگ کیوں بھڑک رہی ہے؟ ” وہ بھی دوبدو جواب دے رہا تھا۔
” دو پیسے کیا آگئے تمہارے پاس خود کو کیا سمجھنے لگے ہو تم؟” وہ ابھی تک عاشر سے نفرت کرتی تھی۔
“ہاں میں جو بھی سمجھتا ہوں آپ سے مطلب؟
آب راستہ دیں مجھے۔” وہ اس کے کونے والی سائیڈ سے نکلتے ہوئے اوپر چلا گیا۔
“اس بے نام انسان کو کیا بنا دیا ہے بابا جان نے!” وہ لب بھینچ کر وہاں سے چلی گئی۔
******
مہرین کو تو یوں راتوں کو نیند ہی نہیں آتی تھی۔اسے ارحم کی دغا بازی نے اندر سے توڑ دیا تھا اور اس سے زیادہ غم یہ تھا کے عاشر بابا جان کا سہارا بن گیا تھا۔
وہ آج کمرے میں آکر آنکھ بند کر کے لیٹ گئی تھی۔
موبائل پر وہ “Instagram ” کھول کر سب کی تصویریں دیکھ رہی تھی۔ جس میں یونیورسٹی کے سارے لوگوں کی تصویریں آرہی تھیں۔ ہر کوئی اپنے پارٹنر کے ساتھ خوش تھا یہاں تک کے شرمین بھی اور اس کی تصویر دیکھ کر وہ حیران تھی۔ اس نے یونیورسٹی کے ہی کسی سینئیر سے شادی کی تھی اور اب وہ اس کے ساتھ کافی خوش تھی۔ اس نے فون کو بیڈ پر پھینکا اور پھر باتھ روم کی طرف بڑھی۔ پانی کا ایک چھپٹا اس نے منہ پر مارا اور بستر پر لیٹ گئی۔
مگر اسے نیند کہاں آنی تھی اس لیے قریب ہی پڑی دراز سے اسنے ایک نیند کی گولی نکالی اور اسے کھا کر لیٹ گئی۔
وہ آہستہ آہستہ ڈپریشن کی مریض ہوتی جا رہی تھی۔
اسے اب عجیب خواب آتے تھے جسے دیکھ وہ اکثر بیدار ہوجاتی تھی شاید سکون اس کی زندگی سے جا چکا تھا-
*********
صبح ناشتے پر سب موجود تھے مگر مہرین نہیں تھی۔
“مہرین کہاں ہے؟ اٹھاوُ اسے زرمینہ!” بابا جان بولے۔
“وہ گہری نیند سو رہی ہے اسے میں ناشتہ کروا دوں گی۔” ماما جان نے جواب دیا اور پھر عاشر کو ناشتہ پیش کیا۔
“اچھا عاشر بات یہ ہے کہ میرے کزن اور آپ کے ماموں دانیال کی بیٹی شیزہ آرہی ہے کراچی کچھ کام سے اور وہ یہاں رکے گی تو اس کا خیال رکھناہے آپ نے-” انہوں نے عاشر کو بتایا جو شیزہ کا نام سن کر ایک دم چونک گیا۔
“ٹھیک ہے۔”عاشر نے کہا۔
” زرمینہ آپ بھی۔” بابا جان نے ماما جان سے کہا۔
” صحیح ہے مگر کب آرہی ہے وہ؟ ” ماما جان نے پوچھا۔
” کل رات میں آئے گی۔ دو ہفتے کے لئے آرہی ہے، تم تیاری کر لو۔” وہ بولنے لگے، عاشر کے دل میں تو شیزہ کا نام سنتے ہی کچھ ہونے لگا۔
” کر لوں گی۔” پھر وہ عاشر کو دیکھ کر مسکرا دیں۔
کچھ دیر بعد عاشر کسی کام سے باہر چلا گیا اور ماما جان اور بابا جان بیٹھے رہے۔
” جہانزیب میں ایک بات کرنا چاہ رہی تھی۔۔ “ماما جان نے بڑی مشکل سے بابا جان سے کہا۔
” ہاں بولو زرمینہ۔” بابا جان نے ان کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
“عاشر اب پچیس سال کا ہوگیا ہے اور اب تو اس کی اپنی کمپنی بھی ہے اور گھر بھی، آپ کو نہیں لگتا کہ ہمیں اس کی منگنی یا شادی کی بات کرنا چاہیے؟ “وہ بابا جان سے عاشر کے متعلق بات کرنا چاہتی تھیں۔
“یہ بات میں نے سوچی بھی تھی مگر کبھی زبان پر نہیں آئی ویسے اگر عاشر شادی کر لے تو گھر کی رونق اور بڑھ جائے گی، کیا کوئی لڑکی ہے تمہاری نظر میں؟” وہ ماما جان سے پوچھنے لگے۔
ماما جان نے چاروں سمت دیکھا پھر کچھ سوچنے کے بعد بولیں:
“ابھی تو نہیں مگر اب دیکھنا شروع کر دوں گی۔”
“مگر عاشر کی مرضی کے بغیر نہیں کرئیے گا کچھ بھی” انہوں نے ماما جان سے کہا کیونکہ ماضی میں بہت سے غلطیاں جو بابا جان کے والد نے کی تھیں وہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔
” ظاہر ہے اس کی پسند کے بغیر میں کچھ بھی نہیں کروں گی۔” وہ بھی بابا جان کی بات سمجھ گئیں تھی۔
“مہرین کے بارے میں کیا سوچا ہے زرمینہ؟ اس کی حالت دن بہ دن بگڑتی جا رہی ہے۔ ” بابا جان مہرین کی پریشانی کا سوچ کر بولے۔
” وہ کچھ بہتری کی طرف آئے تو کچھ سوچے گے نا، ہمیں امید ہے وہ سنبھل جائے گی۔” ماما جان نے بہت آہستہ سے کہا۔
“امید ہے کے وہ آگے کا سوچے گی اور نئی زندگی کی شروعات کرےگی۔” بابا جان نے ایک گہرا سانس لیا اور کچھ دیر کے لیۓ آنکھیں بند کر لیں۔
***********
عاشر شیزہ کو پک کرنے چلا گیا تھا وہ بہت تیار ہو کر نکلا تھا اور دل میں تو جیسے شیزہ کے خیالات تھے وہ ائیر پورٹ پر پورے آدھا گھنٹہ شیزہ کا انتظار کر رہا تھا۔
” السلام علیکم!” کسی نے پیچھے سے اسے مخاطب کیا تھا۔
سفید قمیض شلوار میں ملبوس شیزہ اتنی حسین لگ رہی تھی کہ عاشر یک ٹک اسے دیکھے جا رہا تھا۔ سر سے کالے رنگ کا ڈوپٹہ بھی اوڑھا ہوا تھا اور منہ پر سوائے ہلکی سی لپ سٹک کے کچھ نہیں تھا مگر تب بھی وہ عاشر کو اپنے عشق میں پاگل کر رہی تھی۔
“وعلیکم السلام چلیں؟” عاشر نے اس وقت مختصر سا جواب دیا۔
” جی عاشر بھائی۔” وہ سامان لے کر آگے بڑھی تو عاشر نے اس کے ہاتھ سے سامان لے لیا۔
پھر وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی چلاتے وقت اس نے بہت ہی رومانٹک سا گانا لگا دیا Ellie Goulding کا ”Love me like you do” اور آواز تیز کر دی۔ شیزہ تو شرم کے مارے کھڑکی سے باہر ہی دیکھنے لگی اور عاشر خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا۔ گھر پھنچتے ہی عاشر نے اس کا سامان رکھوایا مہرین ٹی وی کے آگے بیٹھ کر D۔C کی مووی The Dark Knight دیکھ رہی تھی شیزہ بہت ہی آہستہ قدموں کے ساتھ لاؤنج کی طرف بڑھی۔
”اسلام و علیکم جہانزیب انکل!” اس نے بابا جان کو دیکھتے ہی سلام کیا۔
”وعلیکم اسلام آجاؤ بیٹا۔” انہوں نے اسے اندر بلایا۔
”کیسی ہو؟ گھر میں سب ٹھیک ہیں؟” بابا جان نے آتے ہی سوال شروع کر دیے۔
”سب ٹھیک ہیں مگر دادی جان آپ کو بہت یاد کرتی ہیں۔” وہ ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے بولی۔
”ہم بھی یاد کرتے ہیں لو تم کب سے کھڑی ہو آؤ بیٹھو زرمینہ بس کھانا تیار کر چکی ہے۔” بابا جان نے جواب دیا۔
”زرمینہ آنٹی کہاں ہیں کچن میں؟” وہ پوچھنے لگی اور نظریں اس کی ٹی وی کے سامنے بیٹھی مہرین پر تھی جو اس سے مخاطب نہیں ہوئی۔
”ہاں بس آ رہی ہیں تم آرام سے بیٹھ جاؤ بلکہ تمہارا اوپر کمرہ صاف کروا دیا ہے وہاں آرام کر لو۔ مہرین آپ لے جائیں شیزہ کو۔” انہوں نے مہرین کو مخاطب کیا جو سب کو نظر انذار کر کے مووی دیکھنے میں مصروف تھی۔
”مہرین؟” بابا جان نے اسے دوبارہ مخاطب کیا۔
”جی۔ ” اس نے بہت روکھے لہجے میں کہا۔
”شیزہ سے آپ نے ملاقات نہیں کی؟” وہ غصے سے اسے گھور رہے تھے۔
”اسلام و علیکم مہرین باجی۔” شیزہ نے مہرین کو مخاطب کیا۔
”وعلیکم اسلام!” یہ کہہ کر وہ اوپر جانے لگی۔
شیزہ نے مہرین کو زندگی میں دوسری بار ہی دیکھا تھا ایک شادی پر اور اب یہاں کراچی آ کر۔ اسے مہرین کا کھنچا کھنچا رویہ محسوس ہو رہا تھا۔
”شیزہ کو اس کا کمرہ دکھا دو۔” بابا جان نے دبے لہجے میں کہا۔
”آؤ!” وہ شیزہ سے مخاطب ہوئی اور اوپر جانے لگی پھر کمرہ دکھا کر وہاں سے چلی گئی۔
شیزہ کو مہرین کا رویہ سمجھ نہیں آیا تھا وہ ایسی کیوں تھی مگر اسے مہرین کی طلاق کے بارے میں پتا چلا تھا پھر بہت دیر تک وہ کسی خیال میں کھوئی رہی کے آخر کر ایسا کیا ہوا ہوگا جو شادی یوں ختم ہوگئی؟
★★★★★
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...