باباجان نے جب گواہی مانگی تو مہرین کے تو چہرے کا رنگ ہی اڑ گیا۔ اسے لگا کہ کوئی زوردار دھماکہ کسی نے اس کے سر پر کیا ہے۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے باباجان کو دیکھنے لگی۔ اور عاشر بڑے تحمل اور اطمینان سے کھڑا مہرین کو دیکھ رہا تھا۔
“جاؤ زرمینہ لے کر آؤ ابھی قرآن۔ کیونکہ بات اب ہماری تربیت اور کردار کی پاکیزگی کی ہے۔” وہ بہت زور سے زرمینہ سے بولے تو وہ ہاتھ ملنے لگیں۔ انہیں بہت ڈر لگ رہا تھا۔ کیونکہ دونوں میں سے کوئی ایک تو جھوٹ بول رہا تھا اور جو جھوٹ بول رہا تھا اسکی تو خیر نہیں تھی۔ وہ بہت مشکل سے ایک گہرا سانس لے کر کمرے کی طرف بڑھیں۔ انکے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے اور جسم میں بھی لرزش تھی۔
“یہ لیں۔” وہ کانپتے ہوئے بولیں اور قرآن باباجان کے ہاتھ میں دیا۔
“عاشر تم ابھی اسی وقت اس قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاؤ کہ تم نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ تمہارا اس لڑکی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی تم نے اسے اپنے کمرے میں بلایا۔” وہ عاشر کی طرف دیکھتے ہوئے بولے جو بڑے اطمینان سے انکے سامنے کھڑا تھا۔
عاشر بہت سکون کے ساتھ آگے بڑھا اور آگے بڑھ کر اس نے اپنا ہاتھ قرآن پر رکھ دیا۔
“میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا اس لڑکی سے کوئی تعلق نہیں، میرا الله گواہ ہے کہ میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔” وہ بولا
یہ سن کر تو ماماجان کی روح قبض ہو گئی کیونکہ اب باری مہرین کی تھی ھو بہت پریشان تھی۔
“مہرین کیا آپ گواہی دیں گی؟ “باباجان نے اسکی طرف دیکھا۔
وہ سر جھکا کر نیچے دیکھنے لگی کیونکہ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ سچ کا سامنا کرتی۔
“مہرین! بتائیں کہ کیا یہ سچ ہے؟ ” باباجان اسکی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے بولے۔ وہ ابھی تک خاموش کھڑی تھی۔ باباجان نے قرآن ماماجان کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ سب مہرین کی طرف دیکھنے لگے کہ اب وہ کیا جواب دیتی ہے۔
“مہرین مجھے اسی وقت جواب چاہیئے۔” باباجان اسکی طرف پھر سے متوجہ ہوئے اور اس بار زیاده غصے سے اس سے مخاطب ہوئے۔
“بولو مہرین!” ماماجان گڑ گڑا کر بولیں۔
“مجھے نہیں پتا اور میں گواہی نہیں دے سکتی۔” وہ روتے ہوئے بولی۔
“تڑاخخخ۔۔۔۔ ” ایک زوردار تھپڑ باباجان نے مہرین کے منہ پر لگایا کہ جس سے پورا کمرہ گونج اٹھا۔ ماماجان نے منہ پر ہاتھ رکھ کر حیرانی سے جہانزیب حسن کی طرف دیکھا۔ عاشر بھی حیرانی سے باباجان کی طرف دیکھنے لگا کیونکہ باباجان نے کبھی زندگی میں مہرین کو ہاتھ تو کیا اسکو کبھی ڈانٹا بھی نہیں اور آج باباجان نے سب کے سامنے اسکو ذلیل کر دیا۔ وہ بہت زور سے روئی تھی اور اسکے سارے بال بھی بکھر گئے تھے۔
“آپکو ذرا شرم نہیں آئی عاشر اور اس گھر کے لوگوں کی تربیت پر الزام لگاتے ہوئے۔ ذرا شرم ذرا بھی حیا نہیں آئی آپکو؟ مجھے آج شرمندگی ہے کہ تم میرا خون ہو۔! تم میری بیٹی ہو؟ کوشش کرنا کہ تم میرے سامنے نہ آؤ۔” وہ یہ کہہ کر ساتھ میں فوراً سے باہر نکل گئے اور ساتھ میں ماماجان نا چاہتے ہوئے بھی وہاں سے چلی گئیں۔ وہ لڑکی گل بھی روتے ہوئے وہاں سے پیچھے چلی گئی۔ اور اب پورے کمرے میں عاشر اور مہرین تھے۔ عاشر کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے۔ وہ وہاں بیٹھ کر رو رہی تھی اور عاشر کو بہت ہی عجیب محسوس ہورہا تھا۔ وہ آگے بڑھتے ہوئے اسکی طرف آیا اور افسوس کے ساتھ اسکو دیکھتے ہوئے بولا۔
“کیوں کیا آپ نے یہ سب کچھ؟ آخر میرا قصور کیا ہے!؟ ” وہ آہستہ سے پوچھنے لگا۔ مہرین نے اسکی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ عاشر نے اسکی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اسکی طرف دیکھا اور پھر اپنی جیب سے رومال نکال کر اسکے گال پر رکھ دیا۔ جہاں باباجان نے اسے تھپڑ لگایا تھا۔ مہرین نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا اور بہت زور سے پیچھے ہٹایا۔
“ہاتھ مت لگاؤ مجھے۔ نفرت ہے مجھے تمہارے وجود سے! میں تمہاری شکل سے تو کیا تمہارے وجود سے بھی نفرت کرتی ہوں۔”وہ چلا کر بولی تو وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگا۔
“ہاں نفرت کرنا تو میں نے آپ ہی سے سیکھی ہے اور فکر مت کریں میں بھی آپ سے اتنی ہی شدت سے نفرت کرتا ہوں۔” وہ اٹھا اور وہاں سے فوراً چلا گیا۔ مہرین کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اسکو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مزید اس گھر میں رہی تو وہ گھٹ کر مر جائے گی۔ باباجان نے اسے عاشر کی وجہ سے تھپڑ مارا یہ بات اس سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
********************
“کیا تمہارا منصوبہ فیل ہو گیا؟ I Don’t Believe This۔۔۔ ”
شرمین سر پکڑ کر بولی تو مہرین بھی اسکے ساتھ پریشان ہو کر بیٹھ گئی۔
“مجھے کیا پتا تھا کہ باباجان اس منحوس پر اتنا اعتبار کرتے ہیں؟” وہ اب رونے والی تھی کہ شرمین نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔
“تم کچھ دنوں کیلئے میرے گھر آجاؤ جب تک تمہارے بابا جان تم سے معافی نہیں مانگ لیتے” وہ مہرین سے بولی۔
“نہیں یار باباجان مجھ سے کیا معافی مانگیں گے۔ مجھے کچھ دنوں کیلئے عاشر اور کسی اور کا ذکر نہیں کرنا۔ کہیں چلتے ہیں گھومنے۔” وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
“گولف کلب چلتے ہیں۔” شرمین نے اسے مشورہ دیا۔
“یس! میری فیورٹ جگہ!” وہ بھی فورا ً بولی اور دونوں گولف کلب کیلیے نکل گئیں ۔
وہ دونوں وہاں ریلیکس کر رہیں تھیں۔ مہرین تو گوف کھیل رہی تھی۔ اور شرمین ایکسرسائز میں مصروف تھی۔ دونوں اس وقت سکتے میں چلیں گئی جب انہوں نے سامنے سے آتے ارحم کو دیکھا۔ مہرین تو اپنا گولف کھیلتی رہی مگر شرمین اسے دیکھتے ہی اسکی طرف چلی گئی۔
“ارحم ! تم یہاں؟” شرمین حیرانی سے پوچھنے لگی۔
“ہاں! میں یہاں اکثر آتا ہوں۔” وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ مگر اسکی نگاہیں مہرین پر ہی مرکوز رہیں۔
پھر کچھ دیر دونوں نے باتیں کیں جبکہ مہرین گیم کھیلنے میں مصروف رہی سو کچھ دیر بعد ارحم خود ہی اسکے پاس چلتا ہوا آ گیا۔
“ایک گیم ہو جائے؟ “وہ اسکے پاس کھڑا ہو گیا اور پوچھنے لگا۔
“تم ہار جاؤ گے ارحم۔” شرمین ہنستے ہوئے بولی تو مہرین اسے دیکھ کر مسکرا دی۔
“شیور!” اس نے جواب دیا اور ان دونوں کے درمیان میچ ہوا اور نتیجتاً مہرین کی جیت ہوئی۔
“آپ تو بہت اچھا کھیلتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ ایک دو Lessons تو دے ہی سکتی ہیں۔” وہ پھر اسے مسکراتے ہوئے بولا۔
مہرین بھی اب اسکی مسکراهٹ کے اثر میں آکر ہامی بھر گئی۔
******************
ماماجان اور باباجان کب سے مہرین کو کال کر رہے تھے مگر جواب نہیں مل رہا تھا۔
“عاشر ذرا زریاب کو تو فون کرو۔” ماماجان اس وقت بہت پریشان تھیں۔ انکے دل میں عجیب قسم کے وسوسے آرہے تھے۔
“میں نے کیا تھا زریاب نے بتایا تھا کہ وہ تو آج گھر سے نکلا ہی نہیں ہے اور نہ ہی اسکی مہرین سے کوئی بات ہوئی ہے۔ اور شرمین بھی فون نہیں اٹھا رہی۔” عاشر نے ماماجان اور باباجان کو پریشانی کے عالم میں بتایا ۔
“آپکو مہرین پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا جہانزیب۔ وہ ایک جوان لڑکی ہے اور آپکو پتا ہے کہ وہ کتنی ضدی ہے۔” زرمینہ نے جہانزیب کو بولا تو وہ جواب میں کچھ نہ بول سکے۔ بارہ سے زیادہ ہو رہے تھے اور اب پورا گھر پریشانی کے عالم میں اسکے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ صبح بغیر بتائے نکل گئی تھی اور فون اس نے بند کر رکھا تھا۔ اور اب رات کے بارہ بج رہے تھے اور اس کا کچھ پتا نہیں تھا۔
*******************
وہ پورا دن گولف کلب میں گزارنے کے بعد ارحم اور شرمین کے ساتھ اب ڈنر کرنے چلی گئی تھی۔ اس نے گھر بیٹھے ماں باپ کو بتانا تک گوارا نہیں کیا۔
ایک بجے اس نے گھر میں قدم رکھا تھا تو سب اسے دیکھنے لگے۔ ماماجان بھاگ کر اسکے پاس آئیں اور اسکا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگیں۔
“کہاں تھیں تم؟! بتاؤ ! اندازه ہے تمہیں کہ ہم سب کس پریشانی سے گزر رہے تھے؟ تمہیں ہمارا ذرا بھی خیال نہیں ہے؟ “وہ بس بولے ہی جا رہیں تھیں۔
“میں مری نہیں تھی باہر دوستوں کے ساتھ تھی اور کیا فرق پڑتا ہے کہ میں نہ آئی عاشر تو ہے نا آپکے پاس آپکا باکردار بیٹا!” وہ طنزیہ بولی اور اپنی ماں کا ہاتھ جھٹک کر وہاں سے چلی گئی۔ جہانزیب کو مہرین پر اس وقت غصہ آرہا تھا مگر انہوں نے غصہ پی لیا اور خون کا گھونٹ پی کر وہاں سے چلے گئے۔ عاشر کو بہت دکھ ہوا تھا کہ اس نے کس طرح اپنے ماں باپ سے بدتمیزی کی ہے۔
*******************
آج صبح بھی وہ اپنا بیگ لیئے یونی کیلیے نکل رہی تھی کہ باباجان نے اسے آواز دی۔
“مہرین!” انہوں نے اسے آواز دیتے ہوئے روکا تو وہ رک گئی۔
“جی؟ “وہ مختصر سا جواب دیتے ہوئے بولی۔
“آپ اب اکیلی نہیں جائینگی عاشر بھی آپکے ساتھ ہو گا۔” وہ صبح ہو صبح یہ بات اسکو بتانے لگے۔وہ کچھ کہے بغیر وہاں ہے جانے لگی تو وہ پھر سے اسے روکتے ہوئے بولے۔
“عاشر بھی آرہا ہے۔” یہ سن کر تو اسکے جیسے دماغ کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ وہ غصے میں دانت پیستے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اور عاشر کا انتظار کرنے لگی وہ دو منٹ بعد ہی آکر فورا ً آگے آ کر بیٹھ گیا۔ وہ اس وقت اسکے ساتھ اسکی گاڑی میں اسکی یونیورسٹی جا رہا تھا۔ یہ بات اسکے ذہن سے نکل ہی نہیں رہی تھی۔ دل تو اسکا کر رہا تھا کہ اسے قتل کر دے اور کبھی اسکی یہ صورت اسکو دیکھنے کو نہ ملے۔ اور باباجان نے بھی اس سے کوئی بات نہیں کی اس وجہ سے بھی وہ پریشان تھی۔
یونیورسٹی کا ابھی آدھا راستہ ہی گزرا تھا کہ نا جانے مہرین کے دماغ میں کیا آیا کہ اس نے ڈرائیور کو کہا کہ گاڑی روک دے۔
“روک دو گاڑی ابھی۔۔” وہ اتنی زور سے بولی کہ ڈرائیور نے بڑی طاقت لگا کر گاڑی کو بریک لگائی۔ گاڑی رک گئی تھی اور اب عاشر پیچھے مڑ کر مہرین کو دیکھ رہا تھا جسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ گاڑی کیوں روک دی ہے؟
“عاشر اترو گاڑی سے ابھی فوراً ” وہ غصے سے چیخی تو عاشر بہت ہی پریشان نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
“جی! کیا کروں میں اتر کر؟ ” وہ خشک لہجے میں اس سے پوچھنے لگا۔
“اترنے کا مطلب سمجھتے ہو؟ اترو گاڑی سے کیونکہ میں پوری یونیورسٹی کے سامنے اپنا تماشہ نہیں بنانا چاہتی۔ اب دفعہ ہو جاؤ اس گاڑی سے۔” وہ ایک دفعہ پھر چیخی۔ تو وہ خاموشی سے بغیر کچھ کہے گاڑی سے اتر گیا۔ اسکے اترتے ہی مہرین نے ڈرائیور کو فوراً گاڑی چلانے کا بولا جس پر وہ اسے کافی حیرت سے دیکھنے لگا مگر مہرین کے حکم پر اس نے گاڑی چلا دی اور وہ وہاں عاشر کو بیچ سڑک میں چھوڑ کر آگے نکل گئی۔ عاشر باہر کھڑا بس اداس نظروں سے سڑک کو دیکھنے لگا۔
********************
مہرین کی ارحم سے کافی گہری دوستی ہو گئی تھی۔ کبھی کبھی تو وہ دونوں لیکچر چھوڑ کر گارڑن میں بیٹھ کر موویز اور ٹی وی شوز کی باتیں کرتے رہتے تھے۔
“کہاں جا رہی ہو؟ “زریاب اسے روکتے ہوئے بولا تو مہرین نے آنکھیں گھماتے ہوئے اسے گھورا۔
“میں ارحم کیساتھ گارڑن میں جا رہی ہوں۔” وہ کندھے اچکا کر بولی۔
“تمہیں پتا ہے نا کہ تمہاری پچھلے سمسٹر میں سپلی آتے آتے بچی ہے اور تم دوبارہ اپنا اتنا قیمتی وقت ضائع کر رہی ہو اور وہ بھی ارحم جیسے لڑکے کے ساتھ! ” زریاب نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ مہرین کا موڈ زریاب سے بات کرنے کا نہیں تھا وہ یہاں سے جانا چاہتی تھی۔
“میں اس وقت تمہارے لیکچر کے موڈ میں نہیں۔” مہرین چڑ کر بولی۔
“تو اب تم ارحم کی خاطر اپنے سب سے پرانے اور اچھے دوست کو چھوڑ دو گی؟” اس نے بہت افسردگی کے ساتھ بولا تو وہ بھی رک گئی۔
“کیا مطلب ہے اس بات کا؟ ” مہرین نے اس سے دریافت کیا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔
“تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ تم اب ارحم کے ساتھ اپنا وقت بتاتی ہو۔ اور تمہیں شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہے مگر میں نے یہ بات محسوس کی ہے۔” وہ اسے بتانے لگا۔ وہ مہرین کو ارحم کے ساتھ نہیں دیکھ سکتا تھا۔
“میں تمہاری بیسٹ فرینڈ ہوں زریاب ہمیشہ تھی اور رہوں گی کیونکہ تم اور شرمین میری زندگی میں سب سے پہلے آۓ ہو۔” وہ اسکے شانوں پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولی تب جا کر زریاب نے سکون کا سانس لیا۔
“تو یہ کیا تم میرا دل بہلانے کیلیے کہہ رہی ہو؟ “وہ بولا۔
“ارے نہیں بھئی! اچھا چلو تو اگر تمہیں مجھ پر شک ہے تو میں، تم اور شرمین cafeteria چلتے ہیں اور ساتھ میں لنچ کرتے ہیں اور ارحم سے میں ایکسکیوز کر لوں گی۔”
یہ کہہ کر وہ، زریاب اور شرمین کیفے چلی گئے۔
زریاب، شرمین اور مہرین سب ہی کیفے میں بیٹھے تھے۔ مہرین زور زور سے ہنس رہی تھی۔ زریاب کو اسکو ہنستا دیکھ کر خوشی ہوتی تھی۔
“کیپٹین امریکا میری فوریٹ مووی ہے۔” اس نے کہا۔ موویز کی تو وہ دیوانی تھی۔
وہ سب لوگ بات کر رہے تھے جب سامنے سے آتے عاشر کو دیکھ کر اسکا رنگ اڑ گیا۔
“وہ تمہارا چھوٹا بھائی ہے؟ وہ بلیک شرٹ میں؟” شرمین نے دیکھتے ہوئےکہا۔
“وہ میرا سوتیلا بھائی ہے۔ منحوس یہاں بھی آگیا۔” اس نے حقارت سے بولا۔ مہرین نے نفرت کی نگاہ سے اسے دیکھا۔
“یہاں آؤ!” اس نے چیخ کر اسے بولیا۔ وہ سہم گیا تھا۔ وہ جانتا تھا کے وہ اب اسکو مزید ذلیل کرے گی۔
“میں؟” وہ دھیمے لہجے میں بولا۔
“اف! ہاں تم اور کوئی گدھا یہاں ہے نہیں۔” وہ مذاق اڑانے والے انداز میں بولی۔
شرمین زور سے ہنسی جب کے زریاب خاموش رہا۔
وہ سر جھکا کر آہستہ آہستہ انکی ٹیبل کی طرف گیا۔
“ڈیر عاشر آج تم ہم سب کو سرو کروگے۔” اس نے دوبارہ عاشر کی روح کو زخمی کیا۔ کیفے میں سب اسے دیکھ رہے تھے اور وہ اپنے دل میں ہی مہرین کو کوس رہا تھا۔
“میں؟ کیا چاہیے آپ کو؟” وہ حد سے زیادہ ذلت محسوس کر رہا تھا مگر مہرین کو تو سکون مل رہا تھا۔
“میں تمہارے ساتھ آجاتا ہوں۔” زریاب بھی اٹھ کر عاشر کے ساتھ کاؤنٹر پر چلا گیا۔
“تم جاؤ میں سب کے لیۓ لنچ لے لوں گا۔” وہ بہت ہی خوشگوار انداز میں بولا تو عشر مزید کوئی جواب دیتے ہوئے وہاں سے فوراً چلا گیا۔
“یہ زریاب کسی سوشل ورکر سے کم نہیں لگتا۔ ویسے عاشر تو خوب تمہارے باپ کی دولت پر عیش کر رہا ہے۔” شرمین تو ہمیشہ نفرت کی آگ بھڑکانے میں ماہر تھی۔ مہرین کو اس کی بات لگی تو کڑوی تھی مگر جواب میں وہ کچھ نہ کہہ سکی۔
********************
وہ یونیورسٹی میں تو کبھی عاشر کی شکل نہیں دیکھتی تھی اور اگر کبھی وہ اسے سامنے سے آتا نظر آ بھی جاتا تو وہ اپنا راستہ بدل لیتی۔ عاشر بھی اسے اگنور کرتا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ، اسے پوری یونیورسٹی میں سب کے سامنے ذلیل کرے جیسے اس نے ایک بار پہلے کیا تھا۔
یوں عاشر کا ایک سال گزر گیا تھا اور مہرین کا دوسرا سال بھی ختم ہو گیا تھا۔
عاشر نے اپنے دونوں سمسٹرز میں 4 جی پی اے لی تھی جس کی وجہ سے اسے اسکالرشپ ملی تھی اور مہرین کا رزلٹ حسب معمول برا ہی تھا مگر اس ایک سال کے عرصے میں اسکی دوستی ارحم سے کافی بڑھ گئی تھی۔ وہ رات دیر تک ارحم کیساتھ میسجز پر بات کرتی رہتی اور ہر ہفتے وہ لوگ ڈنر پر جاتے تھے۔ شاید انکا رشتہ دوستی سے کچھ زیاده بڑھ گیا تھا۔ مہرین کچھ دنوں میں گریجویٹ ہونے والی تھی۔ اسی دوران اسے محسوس ہونے لگا کہ وہ ارحم کو پسند کرتی ہے۔
ماماجان نے سوچا تھا کہ مہرین کے گریجویشن کے بعد وہ اسکی منگنی کسی مناسب اور اپنی طرح کسی اپر کلاس فیملی کہ کسی اچھے لڑکے سے کریں گی۔
آج شام چاۓ کے دوران جہانزیب حسن نے زرمینہ سے مہرین کی آنے والی زندگی کے فیصلوں کے بارے میں بات کی۔
“کیا لگتا ہے آپکو میں اپنے دوست کو کیا جواب دوں؟ فیملی بیک گراؤنڈ تو ہمارے جیسا ہے۔ بہت پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی فیملی ہے۔” وہ زرمینہ سے بات کرتے ہوئے بولے۔
“ہاں بالکل ٹھیک ہے آپ مہرین سے بات کریں۔ اور پھر ہم بات آگے بڑھاتے ہیں۔” وہ جواباً بولیں۔
مہرین آج ارحم کے ساتھ Arena آئی ہوئی تھی اور وہاں سے گیمز کھیل کر دونوں ڈنر پر چلے گئے۔ اس پورے عرصے میں دونوں میں کافی دوستی اور محبت پیدا ہوگئی تھی۔ ارحم مہرین کو بہت پہلے سے پسند کرتا تھا۔ اسے مہرین صاف گو اور بہادر لگتی تھی اس لیۓ اسے مہرین کے ساتھ وقت بیتانا بہت اچھا لگتا تھا۔
ڈنر سرو ہونے میں دیر تھی اس لیۓ دونوں آپس میں باتیں کرنے لگے۔
“یہ پھول تمہارے لئے۔” وہ اسے بہت پیار سے پھول پیش کرتے ہوئے بولا۔
“میں کوئی ٹیپیکل لڑکی نہیں ہو جو تمہارے پھول سے متاثر ہو کر لال پیلی ہوجاؤں۔ پلیز گرو اپ۔” اس نے اسے پھول دینے پر سنا دی اور وہ صرف مسکرایا۔
“اف! تو کیا اب پھول نہیں مجھے اپنا دل تمہارے سامنے رکھنا پڑے گا؟” وہ شوق ہو کر قریب ہو کر بولا تو وہ ہنس دی۔
“ہاں اگر ایسا ممکن ہو تو مجھے برا نہیں لگے گا۔” مہرین نے مذاق میں ہی جواب دیا۔ کچھ دیر بعد کھانا آگیا تھا اور وہ کھانے لگے۔ اس دوران موبائل بجا اس پر چار میسیجز تھے جس میں سب میسیجز زریاب کے تھے اس نے میسیجز نہیں پڑھے اور موبائل بند کردیا۔
عاشر جانتا تھا کہ مہرین آج کل ارحم کے ساتھ وقت بتاتی ہے۔ اس نے یونیورسٹی میں ارحم کو ایک بار ہی دیکھا تھا مگر وہ اسے بہت ہی مشکوک اور عجیب لگا تھا مگر اس بات کا ذکر اس نے کبھی ماما اور بابا جان سے نہیں کیا۔
وہ رات بارہ بجے گھر میں داخل ہوئی تو عاشر جو اس وقت بلیک کافی پی رہا تھا اس کی طرف مڑ کر دیکھنے لگا۔ گھر میں سب سو رہے تھے۔ وہ کافی ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس کی طرف بڑھا۔
“کہاں تھی آپ مہرین؟ آج میں نے پھر جھوٹ بولا ہے کہ آپ شرمین کے ساتھ پروجیکٹ پر کام کر رہی ہیں۔ آخر کب تک آپ یہ کرتی رہیں گی؟ کیا آپکو اپنے والدین کا ذرا بھی خیال نہیں ہے؟” ایک لمبی سانس لیتے ہوئے وہ اسے بتانے لگا۔
وہ اس وقت بہت تھکی ہوئی گھر میں آئی تھی اور عاشر کی بکواس سے اس کے سر میں درد ہوگیا۔
“تم ہوتے کون ہو مجھ سے سوال کرنے والے! اور وہ میرے ماں باپ ہیں میں جیسا سلوک کروں میری مرضی تم کیا کر لوگے میرا؟” اس نے بہت الجھ کر جواب دیا۔
“آخر آپ ہمیشہ اس طرح نفرت اور کدورت سے ہی بات کیوں کرتی ہیں؟ آخر ایسا کون سا گناہ کیا ہے میں نے؟” عاشر جاننا چاہتا تھا اور آج دونوں کی پھر سے بحث ہونے والی تھی۔
مہرین نے بہت غور کے اسے دیکھا وہ بھی آج جواب دینے کے لیۓ تیار تھا۔
“تم آج جو کچھ بھی ہو وہ میرے باپ کا دیا ہوا ہے۔ تم جیسے بے نام انسان کی تو دنیا میں کوئی پہچان تو کیا وجود بھی نہیں ہوتا اگر میرا باپ تمھیں چھت نہیں دیتے تو۔ اپنی اوقات میں رہنا سیکھو۔” وہ زور سے چلائی۔
“ہاں اور میں نے ان کے ہر احسان کو مانا ہے مہرین حسن! کیا میں نے کبھی انکار کیا؟ میں آج بھی آپ اور بابا جان ماما جان کی عزت کرتا ہوں مگر اپنے خود کو گرا دیا ہے۔” وہ آج اس کے سامنے بول پڑا۔ نہیں ہورہا تھا اس سے برداشت۔
“ہاں میں نے گرا دیا خود کو اور تم؟ تم خود ایک گرے ہوئے انسان ہو۔” اسنے پھر اسے تانہ مرا تھا۔
“میں کیسے خود کو ثابت کروں؟ کیا کروں میں؟” وہ شدید الجھن میں بولا۔
“اگر تم ایک مرد ہو اور اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم نے بابا جان کا حق ادا کیا ہے تو اپنے پیروں پر خود ایک بڑے انسان بن کر دکھاؤ۔ کچھ بھی مگر اپنے بلبوتے پر۔ کرو پروف کہ تم میں اپنے باپ کا خون ہے! اگر تم نے ایسا کر لیا تو یہ ثابت ہوجاۓ گا کہ تم نے بابا جان کا حق ادا کردیا ہے۔ یہ میرا چیلنج ہے عاشر احمد اب دیکھتے ہیں کہ تم کہاں تک جاؤ گے۔” وہ اسکی غیرت کو للکار گئی اور اب ایسی کوئی چیز نہیں تو جو اسے اگے جانے سے روک سکتی تھی۔
*******
زریاب شرمین سے بہت سنجیدہ موضوع پر بات کر رہا تھا اور وہ کافی غور سے اس کی تمام باتیں سن رہی تھی۔
“کیا تم واقعی مہرین سے اتنا پیار کرتے ہو؟” شرمین کے انداز میں کافی حیرانی تھی۔
“ہاں میں مہرین سے اس وقت سے محبت کرتا ہوں جب وہ اسکول میں میرے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔ اپنے دل کی ہر بات مجھ سے کرتی تھی۔ میں اس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوں۔ زندگی میں محبت ایک ہی بار ہوتی ہے۔ اور جس سے ہوتی ہے اس سے ایک تعلق سا بن جاتا ہے۔ اس تعلق سے پھر ہم جینے لگ جاتے ہیں۔ جڑنے لگ جاتے ہیں ہماری ہر امید ہر خواہش اسی تعلق کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔ میں بھی مہرین ہی سے محبت کرتا ہوں۔ کیا تمہیں لگتا ہے وہ مان جائے گی؟ ” زریاب شرمین سے پوچھنے لگا جو سمندر کی گہری سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔
“ہاں ٹھیک ہے زریاب تم مہرین سے محبت کرتے ہو یا جو بھی ہے مگر مجھے نہیں لگتا کہ اس نے کبھی تمہیں اس نظر سے دیکھا ہے۔” شرمین نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ یہ بات تو زریاب بھی جانتا تھا کہ مہرین نے کبھی بھی اس سے محبت نہیں کی ہاں مگر دوستی میں وہ زریاب پر جان چھڑکتی تھی۔
“میں نے اپنے والدین سے بات کی ہے وہ اسکے گھر رشتہ مانگنے کیلئے تیار ہیں مگر مجھے پہلے مہرین سے بات کرنی ہو گی۔” وہ خود کو سمجھاتے ہوئے بولا تو شرمین سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
زریاب نے آج ٹھان لی تھی کہ وہ آج مہرین سے بات کر کے ہی رہے گی۔ اسے اپنے دل کی بات مہرین تک پہنچانی تھی۔ وہ سامنے سے آرہی تھی۔ تیز قدموں سے چلتے ہوئے مگر زریاب کو دیکھ کر وہ رک گئی۔
“مہرین مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے۔” وہ یہ الفاظ بہت مشکل سے ادا کر پا رہا تھا۔ مہرین کو لگا کہ شاید وہ کسی وجہ سے پریشان ہے اس لیۓ وہ حیرانی سے اسکی طرف متوجہ ہوئی۔
“کیا ہوا زریاب؟”وہ اسکی طرف پریشانی سے دیکھنے لگی۔
“مجھے بہت اہم بات کرنی ہے کیا تم میری بات آرام اور مکمل تحمل سے سنو گی؟ اور اگر تمہیں یہ بات ناگوار ہی کیوں نہ لگے تم دوستی نہیں توڑو گی” وہ بہت سنجیدگی سے یہ بات کر رہا تھا۔
“ارے! کیا تم مجھے صرف ڈراؤ گے ہی یا کوئی بات بھی کرو گے؟ “وہ اسکی بات پر زور دیتے ہوئے بولی۔
“مہرین ہم ایک دوسرے کے ساتھ بچپن سے ہیں۔ میں تمہیں بچپن سے جانتا ہوں۔ تمہاری ہر بات، تمہاری پسند، ناپسند ہر چیز سے واقف ہوں۔ میں تمہیں اس وقت سے پسند کرتا ہوں جب سے تم میری زندگی میں آئی۔ اور اب بھی کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ مہرین تم میرے دل کے بہت قریب ہو۔ اور میں تم سے بے حد محبت کرتا ہوں اس لیے میں تمہیں کسی اور کا ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میری بن جاؤ ہمیشہ کیلئے۔” وہ بہت تیزی سے یہ بات بول گیا اور مہرین یہ سن کر سکتے میں چلی گئی تھی۔ اسکے وہم و گمان میں بھی نا تھا کہ زریاب شاہ اسکا بچپن کا دوست اس سے ایسی بات کہہ دے گا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اب اگر وہ مزید وہاں رکی تو وہ پاگل ہو جائے گی۔
“تم وہی ایک ٹپیکل پاکستانی مرد نکلے۔ تم نے ایسا سوچا بھی کیسے؟ مجھے حیرت ہے تمہاری اس بات پر! ” مہرین نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
“میں نے ایسا کیا کہہ دیا ہے جو تم یوں ریکٹ کر رہی ہو؟ میں تمھیں بچپن سے چاہتا ہوں، کسی کو چاہنا گناہ ہے کیا؟” وہ روہانسی ہوا۔
“پلیز زریاب بس کردو! اس دوستی میں اب ایک تقدس ہی باقی ہے اب مزید اور کچھ مت کہنا!” غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔
“ٹھیک ہے تم نے میری محبت اور دوستی کو ٹھکرا دیا ہے مگر میں زندگی میں ہمیشہ تمہارا ساتھ دوں گا۔” وہ بس یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور مہرین خالی نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی۔
******
“آؤ بیٹا سب کے ساتھ بیٹھو۔” گھر میں داخل ہوتے ہی مہرین کو گھر میں کافی لوگ نظر آے۔ وہ بابا جان کے آفس کے دوست لگ رہے تھے۔ ان سب لوگوں کو دیکھ کر مہرین کا دماغ مزید پھر گیا۔ وہ یقینن اس کے رشتے کے لیۓ آے تھے اور اس کا اس دل بلکل نہیں تھا کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ بیٹھے۔
“نہیں بابا جان میں تھکی ہوئی ہوں آپ لوگ باتیں کریں۔” وہ یہکہہ کر وہاں سے کمرے میں چلی گئی اور بابا جان ان لوگوں کے سامنے پشرم سے پانی پانی ہوگئے۔
مہرین سے یہ سب برداشت نہیں ہورہا تھا۔ ایک طرف اسکی دوستی ختم ہورہی تھی زریاب اور دوسری طرف بابا جان اس کی شادی کروانا چاہ رہے تھے۔ دوسری طرف ارحم کی محبت اسے مزید پریشانی میں مبتلا کر رہی تھی۔
وہ اپنی پوری اس زندگی میں کسی مرد سے اتنا قریب نہیں ہوئی جتنا وہ ارحم سے ہوگئی تھی۔ اس کے ہر درد ہر تکلیف کا مداوا صرف ارحم تھا اور وہ اسے حاصل کرنا چاہتی تھی۔
وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ وہ اب کیا کرے۔
دل اسکا ڈوب سا رہا تھا اور دل پر جیسے بوجھ ہو کوئی اس طرح کی کفیت تھی اسکی۔
*******
صبح جس بات کا اسے ڈر تھا وہی ہوا بابا جان نے اس سے اس کی زندگی کے فیصلے کے بارے میں بات کی۔
“مہرین ہم آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا آپ اس رشتے سے خوش ہیں؟ وہ لوگ آپ کو پسند کر کے گئے ہیں۔”
“بابا جان میں آپ سے پھر کہہ رہی ہوں کے میں ابھی ان سب باتوں کے لئے تیار نہیں ہوں!” وہ بہت غصے میں بولی۔
“آپ راضی کیوں نہیں ہیں؟ کیا وجہ ہے آخر؟” وہ بھی آج اس سے دو ٹوک بات کرنا چاہتے تھے۔
“وجہ کچھ بھی ہوسکتی ہے۔” وہ بہت لا پرواہی سے جواب دیتے ہوئے بولی۔
“اس بات کا کیا مطلب ہے؟ آپ بتانا پسند کریں گی؟” وہ جھنجھلا کر بولے۔ ماما جان کو پتا تھا کہ مہرین نہیں ماننے گی وہ اس بحث کے لیۓ پہلے سے تیار تھیں۔
“بابا جان میں کسی انجان شخص سے شادی نہیں کر سکتی کبھی بھی۔ دوسری بات یہ کے میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں اور ویسے بھی آپ کو کیا فرق پڑتا ہے کہ میری زندگی میں کیا ہورہا ہے؟ میں نے زندگی اکیلے گزار دی ہے آگے بھی گزار لوں گی۔ آپ کے پاس فیصلے کرنے کے لیۓ ابھی اور لوگ ہیں جیسے عاشر آپ کا بیٹا آپ کا مان۔ آپ اس کے فیصلوں پر زور دے گا۔ وہ آپ کا ہے میں تو سگی اولاد ہو کر بھی کبھی آپ کا مان نہیں بن سکی۔” وہ آج اپنے دل میں برسوں سے جمع میل نکال رہی تھی۔
ماما جان سے تو مہرین کی بدتمیزی برداشت نہیں ہوئی۔ وہ فورا غصے میں آئین اور اس کا ہاتھ زور سے کھینچ کر بولیں
“یہ کیا بولے جارہی ہو مہرین کچھ ہوش ہے تمھیں؟ فورا بند کرو یہ بکواس!”
“کیوں سچ کڑوا لگ رہا ہے نا آپ لوگوں کو؟ کوئی بات نہیں میری کرواہٹ مٹ جائے گی۔ ابھی آئے گا آپ کا بیٹا عاشر آپکی جان وہ آپ کی کڑواہٹ کی مٹھاس ہے آپ کی خزاں کی بہار ہے۔” وہ طنز کرنے سے باز نہیں آرہی تھی۔ اس کے اندر کا غبار آج باہر آرہا تھا۔
بابا جان آج اس کی باتیں خاموشی سے سن رہے تھے شاید انہیں احساس ہورہا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں مہرین کے ساتھ زیادتی کر گئے۔ کہیں نا کہیں ان کی تربیت میں بھی کمی تھی۔
“عاشر کو بھلے ہم نے پیار سے رکھا ہے مگر محبت تو آپ سے بھی اتنی ہی کی ہے۔” وہ اس کو بتانے لگے تو وہ بس مسکرا دی۔
“آپ نے اسے پیار اس لیۓ دیا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ آپ نے اپنے باپ کی بات نہیں مان کر ماما سے شادی کی اور پھر زہرا سے شادی کر کے بھی اسے سکون نہ دے پائے۔ یہی خلش تھی نا آپ کے دل میں؟” وہ چیخ کر بولو تو ماما جان کا دل کرا کہ وہ ایک تھپڑ اس کہ منہ پر رکھ دیں۔
“مہرین چپ کر جاؤ کچھ تو لہٰذ کرو!” وہ چاہتی تھی کہ یہ بات یہیں پر ختم ہو۔
“ہاں میرے دل میں خلش تھی مگر عاشر کو میں نے ہمیشہ بیٹا ہی سمجھا اور عاشر سے زیادہ تمھیں چاہا مگر آج آپکی باتیں مجھے تکلیف دے رہی ہیں۔” وہ بہت ہی دبے لہجے میں بولے۔
عاشر دروازے کے باہر کھڑے ہو کر یہ سب سن رہا تھا اور آج اسے احساس ہوگیا تھا کہ سوتیلا بیٹا سوتیلا ہی ہوتا ہے کبھی سگا نہیں بن سکتا۔
“ٹھیک ہے اگر آپ کو لگتا ہے آپ کے ساتھ اس گھر میں زیادتی ہوئی ہے تو ہم آپ کو اجازت دے رہے ہیں کے جس سے چاہیں آپ شادی کریں ہم نہیں روکیں گے۔” یہ بات کر کے وہ وہاں سے چلے گئے۔ مہرین بھی وہاں سے چلی گئی مگر گیٹ پر اس کی نظر عاشر پر پڑی جو اسے دیکھ کر آگ بگولہ ہوگیا۔ نفرت کی ایک لہر اس کے جسم میں دوڑی اور وہ وہاں سے چلا گیا۔ مہرین بھی اس کی منحوس شکل دیکھ کر یونیورسٹی کے لیۓ نکل گئی۔
*******
“ارحم میرے پیرنٹس میری شادی کرنا چاہتے ہیں اور میں ابھی اس سب کے لیۓ تیار نہیں ہوں۔” وہ دونوں کیفے میں بیٹھ کر ایک ضروری بات ڈسکسس کر رہے تھے۔
“کیا؟ تمہاری شادی؟ کیا مطلب ہے مہرین؟” وہ اس کی بات پر چونک گیا اور ایک دم چیخ اٹھا۔
“ہاں وہ میری شادی کرانا چاہہے تے ہیں۔ میرےماں باپ سے زیادہ وہ عاشر کے ماں باپ ہیں۔ میری اس گھر میں دو ٹکے کی اہمیت نہیں ہے ارحم اور انہیں میری پسند اور ناپسند کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔” وہ دبے انداز میں اپنا دکھ نامہ اسے سنا رہی تھی۔
“اور تم کیا چاہتی ہو؟ کیا فیصلہ ہے تمہارا؟” وہ بھی اس سے اس کے خیالات کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔
“میرا کیا فیصلہ ہوگا ارحم؟ میں تو صرف تمھیں چاہتی ہوں اور ایک تم ہی تو ہو جو مجھے سمجھتے ہو میرے درد کو سمجھتے ہو۔” وہ جذبات میں آکر اپنے دل کی بات اس سے کر گئی۔
مہرین چاہے کتنی ہی سازشی اور بدتمیز کیوں نہ ہو مگر وہ دل کی صاف اور معصوم تھی۔ اسے جو چیز سامنے نظر آتی تھی وہ اسے حقیقت سمجھ جاتی تھی یہی چیز اس نے ارحم کے معملہ میں کی۔
“مہرین؟ کیا تم واقعی مجھے چاہتی ہو؟ مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم کبھی مجھے اپنے قابل سمجھو گی۔” وہ اس کا ہاتھ لیۓ اپبے ہاتھ میں تھام کر بولا۔
“اب اتنے جذباتی مت ہو۔” وہ اپنا ہاتھ ہٹا کر بولی تو ارحم مسکرا دیا۔
“مگر ہم اور ساتھ کیسے رہینگے؟ میں دو ماہ بعد واپس امریکا چلا جاؤں گا۔ تو کیا تم اکیلے میرے بغیر یہاں رہو گی؟” وہ بہت افسردگی سے اسے آگے کے حالات کے بارے میں بتا رہا تھا۔
“تو تم مجھے اپنے ساتھ لے جاؤ؟” وہ بول پڑی تو ارحم مزید پریشانی سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
“کیا کچھ غلط کہا میں نے؟” وہ دوبارہ ارحم سے مخاطب ہو کر بولی۔
“نہیں غلط نہیں ہے کچھ مگر میرے پرنٹس یہاں نہیں باہر ہیں اور اب اگر میں تمہارا رشتہ لے کر آ بھی جاؤں تو کیا تمہارے والدین مان جائیں گے؟” وہ اس سے پوچھتے ہوئے بولا۔
“ان کی تم فکر مت کرو اگر تم مجھے اپنانےچاہتے ہو تو میں ہر چیز ہر مشکل سے لڑنے کے لیۓ تیار ہوں۔” وہ اس کی ہمّت باندھتے ہوئے بولی۔
“میں بھی ہمیشہ تمہارا ساتھ دینے کے لیۓ تیار ہوں مہرین اینڈ آئ لوو یو!” وہ شوق ہو کر اس سے کہنے لگا تو وہ شرم سے لال ہوگئی۔
*******
عاشر بہت جلدی میں نیچے اتر رہا تھا اسے گھر جلدی جانا تھا اور وہ بہت تیزی سے بھاگتا ہوا آگے جارہا تھا۔ مہرین کو اوپر والے فلور سے اپنے ڈاکومینٹس لینے تھے اس لیۓ وہ بھی کافی تیزی میں جارہی تھی کہ وہ زور سے عاشر سے ٹکرا گئی اور سارے کتابیں اسکے ہاتھ سے نیچے گر گئیں۔ عاشر کے ڈیپارٹمنٹ کے سارے لوگ ان دونوں کو غورنے لگے جب کے مہرین بہت ہی شدید غصّے میں اپنے ہاتھ جھاڑتی ہوئی فورا اٹھ گئی۔
“تم اندھے ہو کیا؟ نظر نہیں آتا تمھیں؟ جاہل انسان!” بہت زور سے وہ بولی تو مزید اور لوگ ان دونوں کو دیکھنے لگے۔
“آپ دیکھ کہ نہیں چل سکتی؟ اور آہستہ بولیں یہ میرا ڈیپارٹمنٹ ہے یہاں عزت ہے میری کوئی۔” وہ شدید غصہے میں آکر بولا۔
“فضول بکواس مت کرو اٹھا کے دو میری کتابیں!” اس نے اسے حکم دیتے ہوئے کہا جس پر اس نے چپ چاپ اس کی کتابیں اٹھا دیں اور بغیر تماشہ بناۓ وہاں سے جانے لگا۔
وہ بڑبڑاتی ہوئی وہاں سے جانے لگی تو کسی نے آہستہ سے کہا
“سنا ہے یہ عاشر اس لڑکی کا سوتیلا بھائی ہے اور یہ بھی کہ یہ اس بیچارے کو بہت سناتی ہے اور عاشر اسے چڑیل کہتا ہے۔” وہ سرگوشی میں ہی بول رہیں تھی مگر آواز مہرین کے کانوں تک پوھنچ گئی تھی۔
وہ بغیر کچھ مزید سننے وہاں سے چلی گئی اور دل میں اس کے کچھ عجیب سی کفیت سی پیدا ہونے لگی۔
*******
مہرین کے کہنے پر ارحم خود ان لوگوں کے گھر پر بابا جان سے ملنے آگیا۔ دیکھنے میں وہ کافی پر کشش اور حسین تھا اس میں تو کوئی شک نہیں۔
مگر اسکی فیملی میں صرف پاکستان میں اسکی ایک کزن رہتی تھی جو ان لوگوں کے گھر ارحم کے ساتھ موجود تھی۔ اس کی کزن شادی شدہ تھی اور مزاج میں کافی سلجھی ہوئی تھی۔
مہرین اپنے کمرے میں تیار ہورہی تھی اور آج اسے کافی خوشی محسوس ہورہی تھی کہ اتنے سالوں بعد اسکی زندگی میں بھی کوئی خوشی آئی ہے۔
گرین کلر کی لمبی سکرٹ اور شارٹ شرٹ میں وہ آج بہت نازک اور پیاری لگ رہی تھی۔ بال اسکے ہمیشہ کی طرح کندھے کو چھو رہے تھے اور گلے میں اس نے بابا جان کی دی ہوئی نیکلس پہن رکھی تھی۔
نیچے جانے سے پہلے اس نے زریاب کو کال ملائی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ زریاب اس سے ناراض ہے۔
“ہیلو!” کچھ دیر بعد اس نے فون اٹھایا تھا۔
“زریاب؟” وہ دھیمے لہجے میں بولی۔
“ہاں بولو۔” جواب بہت مختصر تھا۔
“تم کیا اب اتنے ناراض ہو کے بات بھی نہیں کرو گے؟” وہ چاہتی تھی کہ زریاب سے دوستی ختم نہ ہو وہ اسکا بچپن کا ساتھی تھا۔
“میں ناراض نہیں ہوں مہرین۔” وہ بہت مشکل سے اس سے بات کر پا رہا تھا۔
“تو پھر؟” مہرین اس کی ناراضگی برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔
“میں تمہیں کسی اور کا ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔” یہ بول کر اس نے فون رکھ دیا۔
اس نے ایک گہرا سانس بھرا اور نیچے اتر گئی۔ ارحم اور اسکی کزن بابا جان سے بات کر رہے تھے۔
“ٹھیک ہے مگر ابھی ہم فیصلہ نہیں کر سکتے ایک دم۔ ہم سوچیں گے ابھی اور پھر بات آگے کریں گے۔” مہرین بھی آہستہ سے اندر آگئی ارحم اسے دیکھ کر دنگ رہ گیا وہ اس قدر حسین لگ رہی تھی کے نگاہیں اس پر سے ہٹ نہیں رہی تھیں۔ باتیں اور مزید تحقیقات کے بعد جب وہ لوگ چلے گئے تو بابا جان نے مہرین سے کہا کے وہ ایک بار سوچ لے۔
“ہمیں اطمینان نہیں ہے مہرین آپ ایک بار اور سوچ لیں۔” وہ یہ کہہ کر وہاں سے جانے لگے تو وہ بابا جان کے سامنے آکر بولی۔
” میں ارحم کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کروں گی۔ وہ میری پسند ہے اور مجھے اس پر پورا بھروسہ ہے۔” بابا جان اور ماما جان بس کسی اور سوچ میں گم ہوگئے۔
عاشر نے ilets کا امتحان دے دیا تھا اور اب وہ باہر جانے کی تیاری کر رہا تھا MBA کر کے وہ وہاں لندن جاکر اپنی محنت سے کسی کمپنی میں جاب کرنے کا سوچ رہا تھا۔ اس نے ٹھان لی تھی کہ وہ مہرین کی بات کا جواب اپنی کامیابی سے دے گا۔