زہرا کے گھر سے چلے جانے کے بعد عاشر کو جہانزیب اور زرمینہ نے اپنا لیا تھا۔ دانیال بھی اکثرکراچی عاشر کو دیکھنے آیا کرتا تھا۔ حرا ملک نے جہانزیب اور زرمینہ سے زہرا کی کی گئی زیادتیوں کی معافی مانگ لی تھی۔ مگر جاوید حسن کو اب بھی یہی لگتا تھا کہ جہانزیب کی زیادتی کی وجہ سے ہی زہرا گھر سے چلی گئ۔
زندگی یونہی گزرتی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وقت آگے نکل گیا۔ ان سب واقعات کو آٹھ سال بیت چکے تھے۔ مہرین اب دس سال کی تھی اور عاشر آٹھ سال کا ہو چکا تھا۔ جاوید حسن بہت کمزور اور بوڑھے ہو چکے تھے۔ فرح حسن کا دو سال پہلے انتقال هو چکا تھا جسکی وجہ سے وه مزید چڑ چڑے ہو گۓ تھے۔
مہرین جانتی تھی کہ عاشر اسکا سوتیلا بھائی ہے اور زہرا کا نام بھی اکثر اس نے جہانزیب اور جاوید کے منہ سے سن رکھا تھا۔ اس کے دل میں باپ کہ لئے نفرت سی بیٹھ گئی تھی۔ اسے گمان تھا کہ اسکی ماں کے ساتھ حق تلفی ہوئی ہے اور اب اس کہ حصّے کی محبت بھی عاشر کی جھولی میں ڈال دی گئی ہے۔
**********************
وه اپنا فیورٹ کارٹون دیکھ رہی تھی جب جہانزیب ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوۓ – وه ٹی وی چھوڑ کر ایک دم انکی طرف لپکی۔
“بابا جان!۔۔۔۔” اس نے بھاگتے ہوئے انکا ہاتھ تھام لیا۔
“کیسی ہے میری بیٹی؟” انہوں نے ماتھا چومتے ہوئے پوچھا۔
“دیکھو میں آپکے لئے کیا لایا ہوں۔۔۔۔ ” انهوں نے اسے ڈبے میں پیک کھلونا پکڑاتے ہوئے کہا۔
“میرا فیوریٹ گیم!!۔۔۔۔۔تھینکس باباجان۔” اسکی آنکھیں خوشی سے چمک گئیں۔
“ہمارا عاشر کہاں ہے؟”انہوں نے عاشر کو ڈهونڈتے ہوئے کہا۔
عاشر کا نام سنتے ہی اسکا رنگ زرد پڑ گیا۔ اسکا ذہن فورا زہرا کی طرف گیا۔ بچپن کی یادیں اسکے ذہن میں گھومنے لگیں۔
“مجھے نہیں لینا!” یہ کہہ کر وه دوباره صوفے پر بیٹھ گئی۔
زرمینہ عاشر کیلئے کھانا بنا رہی تھیں اور عاشر بانو کے کمرے میں لیٹا ہوا تھا۔
جہانزیب کی آواز سن کر وه فورا باہر آگیا۔
“باباجان!۔۔۔۔”وه بھاگتا ہوا انکے پاس آیا۔
“ارے میرا بیٹا۔۔۔۔” انہوں نے اسے گود میں اٹھا لیا اور اسے پیار کیا۔ مہرین جانتی تھی کہ باباجان کو عاشر کو دیکھ کر خوشی ہوتی تھی۔ اسکے دل میں باپ اور عاشر دونوں کی نفرت بیٹھ گئی تھی۔
وه انکی بیٹی تهی عاشر نہیں۔ یہ بات اسے کانٹے کی طرح دل میں چبھتی تھی۔
“چلو جلدی سے سوچو آپکے بابا آپکے لیے کیا لاۓ ہیں؟” انہوں نے اسے پکڑتے ہوۓ کہا۔
وه بچپن سے ہی سیدھا اور معصوم سا بچہ تھا۔ نہ زیاده بولتا نہ ہی کوئی شرارت کرتا تھا۔
“آپ بتا دیں۔” وه لاڈ سے انکے بال پکڑتے ہوئے بولا۔
“لو! اب اگر آپ بتائیں گے نہیں تو آپکو دیں گے کیسے؟ چلیں آپکے لیے آسان کر دیتے ہیں یہ چیز آپکی فیورٹ ہے۔” انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“چاکلیٹ ؟!!!” اس نے خوشی اور حیرانی کے ملے جلے تاثرات سے پوچھا۔
“بلکل صحیح کہا آپ نے۔۔۔۔۔ آپکی فیورٹ چاکلیٹ ۔” انہوں نے اسکے ہاتھ میں KIT KAT کا پورا پیکٹ پکڑاتے ہوئے کہا۔
“میں یہ پورا اکیلا کھاؤں گا؟” اس نے معصومیت سے سوال کیا۔
“جی یہ آپ پورا کھائیں گے” انہوں نے اسے کہا۔
مہرین سامنے بیٹھی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ اسکی برداشت سے یہ سب باہر ہورہا تھا۔ اسکے دل میں تو جیسے آگ لگ گئی تھی۔ باباجان کی ہر چیز پر اسکا حق تھا عاشر کا نہیں۔ وه فوراً وہاں سے اٹھ کر انکے پاس چلی آئی۔
“یہ چاکلیٹ مجھے بھی پسند ہیں آپ صرف عاشر کیلئے لاۓ ہیں؟” وه افسردگی سے بولی۔
“ارے عاشر سے لے لیجیۓ گا آپ۔ اچھا بچوں! آپ ٹی وی دیکھیں میں جا رہا ہوں اور کوئی لڑے گا نہیں۔ مہرین عاشر کو اسکا فیورٹ چینل لگا کر دینا۔ ” انہوں نے جاتے جاتے مہرین کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔ اس نے آنکھوں کو گھوماتے ہوئے عاشر کو دیکھا۔
“دو مجھے!” اس نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ عاشر نے اسے چاکلیٹ نہیں دی تو وه اسکا ہاتھ اپنے ناخنوں سے نوچتے ہوئے وہاں سے چلی گئی اور وه زور زور سے رونے لگا۔
************************
عاشر کیلئے نفرت مہرین کے دل میں کسی زہر کی طرح گھل رہی تھی۔ اسکول میں بھی دونوں ساتھ ہی تھے مگر وہاں بھی وه اس سے لا تعلقی سی ہی رکھتی تھی۔
زریاب اور مہرین اسکول سے دوست بنے تھے۔ اسطرح وه اور زریاب زیادہ تر اسکول میں ساتھ ساتھ ہی رہتے تھے۔ زریاب اسکا بہت خیال رکھتا تھا۔
اس لئے مہرین زریاب کے ساتھ ہی وقت گزارتی تھی۔
رات کو کھانے کے بعد سب گھر والے اکٹھے بیٹھ گئے۔ عاشر کو صبح سے ہلکا سا بخار تھاجسکی وجہ سے سب پریشان تھے خاص طور پر جاوید حسن۔ جہانزیب بھی بار بار اسکے سر پر ٹھنڈی پٹیاں رکھ رہے تھے۔
مہرین انکو اپنے اسکول میں ہونے والے فنکشن کا بتانا چاہتی تھی مگر گھر میں سب عاشر کیلئے پریشان تھے۔ یوں اگنور ہونا، اسے سخت ناگوار گزر رہا تھا۔
“باباجان آپ کو میرے فنکشن میں آنا ہو گا۔” وه ایک بار پهر جہانزیب کے پاس آکر بولی۔ وه صرف یہ چاہتی تھی کہ اسکے بابا جان صرف ایک بار اسکی بات سن لیں مگر وه مہرین کے بجاۓ اب بھی عاشر کو اہمیت دے رہے تھے۔
“بیٹا میں نے کہا ہے نا کہ عاشر کی وجہ سے مجھے ہسپتال جانا ہو گا آپ بانو کے ساتھ چلی جائیں۔ بس صرف اس بار، اگلی دفعہ میں ضرور آؤں گا۔” وه اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولے ۔ وه چپ چاپ وہاں سے چلی گئی ۔ اس فنکشن میں زرمینہ اسکے ساتھ گئی تھیں مگر وه جہانزیب کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتی تھی۔
عاشر کو مکمل ٹھیک ہونے میں ایک ہفتہ لگا تھا تب ہی جاکر سب گھر والوں نے سکون کا سانس لیا۔ مگر مہرین کے دل میں اب بھی آگ بھڑک رہی تھی۔ اس دن جب گھر میں سب مصروف تھے تو مہرین نے سوچا کہ آج وه عاشر کو تکلیف ضرور پہنچاۓ گی۔ وه تھی دس سال کی مگر دماغ کسی بڑے شخص کی طرح کام کرتا تھا۔
عاشر سیڑھیوں پر بیٹھا بلی سے کھیل رھا تھا۔ وه اپنی دنیا میں مگن تھا۔ اسے زرا سا بھی اندازه نہیں تھا کہ اسکے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
مہرین پیچھے سے آئی اور بغیر مزید کچھ سوچے عاشر کو زور سے نیچے دھکا دے دیا۔ وه بل کھاتا ہوا سیڑھیوں سے رگڑتا ہوا نیچے گر پڑا اور سر سے خون بہنے لگا۔ یہ دیکھ کر مہرین فورا وہاں سے بھاگ گئی۔ وه بے ہوش خون میں لت پت پڑا تھا جب زرمینہ وہاں سے گزریں۔
جہانزیب اس وقت گھر پر نہیں تھے۔ زرمینہ بھاگی بھاگی اسکے پاس آئیں۔
“عاشر! عاشر! کوئی ہے؟؟ یا الله۔۔۔۔!!” انکے ہاتھ پیر کانپنے لگے۔ ہلبلاہٹ میں انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وه کیا کریں۔ خون مسلسل نکل رہا تھا۔ وہ مزید وقت ضائع کئے بنا عاشر کو فوری طور پر ہسپتال لے گئیں۔
*************************
جہانزیب اس وقت آفس میں تھے جب زرمینہ نے حالیہ پیش آنے والے واقع کے بارے میں مطلع کیا۔ وه بغیر کچھ مزید سنے آفس سے نکل کر فوراً ہسپتال پہنچے تو دیکھا کہ اسکے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔
“کیسے ہوا یہ سب؟۔۔۔۔۔” وه پریشانی کے عالم میں بولے۔ عاشر کو زیاده گہری چوٹ نہیں لگی تھی پهر بھی وه بہت پریشان تھے۔
” عاشرٹھیک ہے جہانزیب۔” زرمینہ نے انکو بتانا چاہا مگر وه اسکے بیڈ پر ہی بیٹھ گئے۔ عاشر کی آنکھیں بند تھیں وه انکو مہرین سے بھی زیاده عزیز تھا۔ انہوں نے اسکا ننھا سا ہاتھ تھاما اور اسے چوم لیا۔ انکا دل اس کے پاس سے اٹھنے کا نہیں کر رہا تھا۔
دو دن بعد وه گھر آگیا تھا۔ جاوید حسن تو اسکو پیار کر کر کے نہیں تھک رہے تھے۔
کسی کو نہیں پتہ تھا یہ کام مہرین کا ہے۔ وه یہ دیکھ کر مزید غصے میں آگئ۔ حسد کی آگ اسکے دل میں بھڑک رہی تھی۔ مہرین کے اندر زہر کا بیج جیسے جیسے بڑھتا گیا، وه عاشر سےاسی حد تک نفرت کرنے لگی اور اسکی زندگی کا مقصد عاشر کی زندگی برباد کرنا بن گیا۔ وه اسکا وجود کسی صورت برداشت نہیں کرنا چاہتی تھی۔ عاشر نے اس سے اسکا باپ، ماں اور اسکا گھر ہر شے اس سے چھین لی تھی۔ اسکول میں بھی وه ہر طرح سے اسے ذلیل کرتی اور تکلیف دیتی تھی۔ کبھی اسکی کاپین چھپا دینا تو کبھی اسکے دوستوں کو اسکے خلاف کر دینا۔
ایک بار تو مہرین نے حد ہی کر دی۔ عاشر ابھی تک اس حقیقت سے ناواقف تھا کہ وہ سوتیلا ہے اور نہ ہی گھر میں کوئی فلحال یہ بات بتانا چاہتا تھا۔
“تم ہوتے کون ہو میرے کمرے میں آکر میری چیزوں کو ہاتھ لگانے والے؟” مہرین نے عاشر کے ہاتھ سے اپنا گیم چھین لیا۔
“وه۔۔۔۔” وه ہکلاتے ہوئے بولنا چاه رہا تھا۔
“نکلو۔۔۔۔ نکلو میرے کمرے سے جاہل۔۔۔جاہل خاندان سے آۓ ہو پتا نہیں یہاں کیسے نازل ہو گئے۔۔۔” وه اسکو دھکا دیتے ہوئے بولی۔ عاشر چھوٹا ضرور تھا مگر نا سمجھ نہیں تھا جو مہرین کی بات نا سمجھ سکے۔
“میں باباجان کو بتاتا ہوں کہ آپ نے میرے ہاتھ سے گیم لیا۔” وه روتے ہوئے بولا۔
“تمہارے باباجان۔۔۔!!! وه صرف میرے باباجان ہیں!! تمہاری امی تمہیں یہاں چھوڑ کر چلی گئیں ہیں۔ اور تمہارے ابو وه بھی تمہیں چھوڑ کر چلے گئے۔ تم اس گھر میں صرف میرے باباجان کی وجہ سے ہو۔ کیوں کہ انہوں نے تم پر ترس کھا کر تمہیں یہاں رکھ لیا ہے۔تم انکے سوتیلے بیٹے ہو۔سمجھے۔۔۔؟؟!! سوتیلا مطلب تم ان کے اپنے بیٹے نہیں ہو۔۔۔” اس نے یہ بات آخر کار کہہ ڈالی۔ عاشر یک دم رک سا گیا۔ روتے روتے اسکے حلق میں پھندا سا لگ گیا تھا۔
“آپ جھوٹ بول رہی ہیں۔۔۔” عاشر نے آنسووں میں لرزتے بولا۔
“جھوٹ۔۔۔؟؟ جاؤ خود پوچھ لو باباجان سے۔” وه ہنستے ہوئے بولی۔
باباجان نے عاشر کو مجبوراً سچ بتا تو دیا مگر مہرین کی یہ بات انہیں اچھی نہیں لگی تھی۔عاشر کو بہت سمجھایا گیا مگر وه افسرده ہو گیا تھا۔جہانزیب نے مہرین کی اس حرکت پر اسے بہت ڈانٹا مگر وه خوش تھی کہ کم از کم عاشر اب اس کڑوی حقیقت سے نا آشنا نہیں رہا۔
“اسے کیوں بتایا؟؟۔۔میں وجہ جاننا چاھتا ہوں۔” وه مہرین کو ڈانٹتے ہوئے بولے۔
“میرے منہ سے نکل گیا تھا۔”وه بہانا بناتے ہوئے بولی۔اسے جہانزیب کی باتوں کا رتی بھر اثر نہیں ہو رہا تھا۔وه دل ہی دل میں خوش تھی۔
“ایسے کیسے منہ سے نکل گیا مہرین۔۔۔؟؟!! وجہ پوچھی ہے میں نے۔ آپ دن بہ دن بدتمیز ہوتی جا رہی ہیں۔”وه بہت غصّے میں تھے۔ انکا دل چاه رہا تھا کان پکڑ کر ایک لگائیں اس کے منہ پر جیسے جیسے وه دن بہ دن گھر کے ہر فرد سے بد تمیزی کر رہی تھی۔
“نکل گیا۔۔ اب کیا کروں۔۔۔۔ ویسے بھی ہے تو سوتیلا ہی۔ اور ویسے بھی میں آپ کی ہر بات کی جواب ده نہیں ہوں۔” وه بہت بدتمیزی سے بولی۔
“مہرین آپ یہ کس لہجے میں اپنے باباجان سے بات کر رہی ہیں؟؟ زرمینہ نے اسکا ہاتھ جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔
“اسی طرح جس طرح عاشر کی ماما زہرا آپ سے بات کرتی تھیں۔” اس نے دوبدو جواب دیتے ہوئے کہا اور ہاتھ چھڑا کر وہاں سے چلی گئی۔جہانزیب کے دل میں جیسے پتھر لگا تھا۔ انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ مہرین کے دل میں ابھی تک یہ باتیں موجود ہیں۔ انکا دل تار تار ہو رہا تھا۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وه کیسے مهہرین کے دل سے کبھی یه کدورت نکال پائیں گے۔
************************
12 سال بعد۔۔۔۔
زندگی کسی کیلئے نہیں رکتی۔ وقت کبھی تھمتا نہیں غم کبھی بھرتا نہیں اس کے باوجود ہم دل پر وقتی مرہم لگا کر زندگی گزارنے کیلئے راستے نکال ہی لیتے ہیں۔
ان باره سالوں میں وقت اور حالات میں کافی کچھ تبدیلی آگئی تھی۔ جاوید حسن کا انتقال ہوۓ 3 سال گزر گئے تھے۔ جاوید حسن کے انتقال کے بعد جہانزیب کی زندگی اجڑ سی گئی تھی۔ ہاں۔۔۔انھوں نے بہت سی غلطیاں کی تھیں مگر وه جہانزیب کے باپ تھے اور وه ان سے پیار بھی بہت کرتے تھے۔
اکیس برس کی مہرین بڑی ہو کر اور زیاده خوبصورت ہو گئی تھی۔ یہ حسن اسکو اپنے بابا جہانزیب سے ملا تھا۔ لمبی ہائٹ، ڈارک براؤن بال، گورا رنگ، اور کھڑا نقشہ۔ وه حسن میں کسی سے کم نہیں تھی مگر مزاج اسکا کہیں سے جہانزیب یا زرمینہ جیسا نہ تھا۔ بچپن سے ضد اور انا اس میں بھری ہوئی تھی۔ اپنے باباجان ( جہانزیب حسن) سے بے حد محبت کرتی تھی مگر عاشر اور زہرا کی وجہ سے ان سے بہت کم بات کرتی تھی اور قریبی رشتوں سے دوری اختیار کر لی تھی۔ بدتمیزی اور بد لحاظی اس میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔عاشر اسکا سوتیلا بھائی ہونے کی سزا کاٹ رہا تھا۔جسے وه دن رات بے عزت اور ذلیل کرتی تھی۔ انیس سالہ عاشر بھی پر وقار نوجوان ابھر کر سامنے آیا تھا۔ وہی معصومیت اور وہی سادگی تھی۔ کم گو تو بچپن سے تھا ہی اور اب اسکی شخصیت کو سنجیدگی نے آ گھیرا تھا۔ چہرا زہرا سے مشاہبت رکھتا تھا۔ بڑی آنکھیں اور گورا رنگ، مگر مزاج مہرین کے بالکل برعکس۔ وه سب گھر والوں کی عزت کرتا تھا یہاں تک کہ مہرین کے برے روئیے کے باوجود اس نے کبھی آگے سے بدکلامی نہیں کی تھی مگر یہ سچ تھا کہ نفرت تو اسے بھی تھی۔
***********************
سب ناشتے پر بیٹھے تھے۔مہرین عادت کے مطابق فون پر لگی ہوئی تھی۔
“مہرین!! ناشتہ کر لو۔ بعد میں میسج کر لینا۔” ماماجان تپ کر بولیں۔
“زریاب کو کر رہی ہوں کہ آج آتے ہوئے پروجیکٹ بنا کر لے آۓ۔” وه چاۓ پیتے ہوئے بولی۔ عاشر بھی ساتھ بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔ مہرین کو ماماجان کی بات کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وه مسلسل ٹیکسٹ کرتی رہی۔
“مہرین آپ یہ کام بعد میں بھی کر سکتی ہیں۔ ناشتہ کریں۔”وه اسے سمجھاتے ہوئے بولے۔ اس نے زور سے فون رکھا اور پھر سے چاۓ پینے لگی۔
“آپ کی GPA کتنی آئی ہے اس سمسٹر میں؟” باباجان ایک بار پھر اس سے مخاطب ہوئے۔ وه جو اب چاۓ پی رہی تھی رک گئی۔ اسے اب غصہ آرہا تھا کہ صبح ہی صبح وه صرف اس سے یہ سوال کیوں کر رہے ہیں۔ وہاں عاشر بھی تو بیٹھا تھا اس سے کیوں نہیں کیا یہی سوال۔۔۔۔
“2۔5 آئی ہے۔” اس نے آہستہ سے جواب دیا۔باباجان نے سن کر گہرا سانس لیا۔ مہرین کے جواب نے انہیں افسرده کر دیا تھا۔
“یہ پڑھائی کر رہی ہیں آپ!!؟ آپ نے جو کہا ہم نے وه کیا۔ ہماری محبت کا یہ صلہ دے رہی ہیں آپ۔۔۔آخر معاملہ کیا ہے۔۔۔؟؟”وه اب غصے میں تھے۔
“میں نے تیاری کی تھی مگر پیپر مشکل تھے۔اب اس میں میرا کیا قصور۔۔۔؟” وه تپ کر بولی اور ٹیبل سے اٹھ گئی۔ عاشر خاموشی سے ناشتہ کر رہا تھا۔
“یہ جواب مل رہا ہے مجھے۔۔۔؟؟” وه اسکے جواب سے ناخوش تھے۔
“آپ مجھ سے ہی پوچھیں گے؟ اس گھر میں اور بھی لوگ ہیں جن کو آپکی پوچھ گچھ کی ضرورت ہے۔” اسکا اشاره عاشر کی طرف تھا۔
“عاشر!! عاشر کا میں اچهی طرح سے جانتا ہوں۔ اس نے دل لگا کر پڑھائی کی ہے۔ اسکی پرسینٹیج آپ سے زیاده آتی ہیں۔ مگر آپ کہتی ہیں تو ہم پوچھ لیتے ہیں۔ عاشر بتائیں کیسی تیاری چل رہی ہے۔؟؟” انہوں نے عاشر سے پوچھا۔
“جی باباجان۔۔۔! میں بی۔بی۔اے کی تیاری کر رہا ہوں۔ اور ابھی جو امتحان ہوئے تھے اس میں میرے سب سے اچھے سکور ہیں۔”وه فخریہ انہیں بتانے لگا۔
“سنا آپ نے۔۔۔؟؟سنا کہ نہیں۔۔۔؟؟” وه مہرین سے پوچھتے ہوئے بولے۔ وه غصے میں اس وقت کچھ نہ بولی۔ انکا یہ جملہ مہرین کو سخت برا لگا تھا۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وه چھری اٹھاکر اسے مار ڈالے۔ بغیر کچھ مزید کہے وہ تیز تیز قدموں کے ساتھ وہاں سے چلی گئی۔
***********************
یونی میں مہرین کا دوسرا سال تھا۔ وه آرٹس کی سٹوڈنٹ تھی۔جبکہ اسکے والد اسے سائنس دلانا چاہتے تھے۔ یونی میں اسکی دوستی ہر شخص سے تھی۔ مگر اسکا ایک گروپ تھا۔ اس گروپ میں شرمین، زریاب اور مہرین خود تھی۔ زریاب اور مہرین کی تو بچپن سے ہی گہری دوستی تھی اس لیئے وه ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے بھی تھے۔
مگر شرمین کالج کی دوست تھی۔ شرمین بھی مہرین کی طرح اپر کلاس سے تھی۔ اور مزاج میں وه مہرین سے زیاده تیز اور ہوشیار تھی۔
مہرین جس یونیورسٹی میں تھی وہ آرٹس اور اکنامکس کے لئے ٹاپ کلاس یونیورسٹیز میں شمار کی جاتی تھی جہاں تقریباً سب ہی اچھے خاندان اور فیملی بیک گراونڈ سے تعلق رکھتے تھے۔
کلاس لینے کے بعد تینوں دوست دوسری بلڈنگ کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ یہ انکا روز کا شیڈیول تھا اور یہ انکی بیٹھنے کی مخصوص جگہ تھی۔
“توکیوں موڈ خراب ہے محترمہ کا؟” زریاب اپنے شوخ انداز میں پوچھنے لگا۔ مہرین صبح سے ہی تپی ہوئی تھی۔ اسکی ایک وجہ تو بابا جان سے بحث تھی جبکہ دوسری وجہ عاشر کی تعریفیں سننا تھیں۔
“بس مت پوچھو زریاب۔ میرا موڈ مزید خراب ہوجاۓگا۔”
“توبتا کہ اپنا موڈ صحیح کرلو نا۔۔۔!” شرمین وجہ جاننا چاہتی تھی۔
“بس یار میری زندگی عذاب ہوگئی ہے اس دو ٹکے کے لڑکے کی وجہ سے۔ پتہ نہیں کسکا گناہ ہمارے گلے باندھ کر اسکی ماں چلی گئی۔” وہ بہت حقارت سے عاشر کا ذکر کر رہی تھی۔
“وہی عاشر۔۔تمہارا سوتیلا بھائی؟ اب کیا کر دیا اس نے؟؟” شرمین حیرت سے بولی۔ پاس بیٹھے زریاب کو مہرین کا لہجہ برا لگا تھا۔ زریاب بچپن سے ہی مہرین کی زبان سے ایک ہی جملہ سنتا آرہا تھا اور وہ یہ کہ وہ عاشر سے نفرت کرتی ہے۔ کبھی کبھی عاشر کا سوچ کر اسے دکھ ہوتا تھا کہ وہ کیسے یہ سب برداشت کرتا ہوگا۔
“کرنا کیا ہے اس منحوس نے۔ اب بابا جان اس پر پیسے خرچ کرتے ہے تو وہ اس کہ بدلے اچھے نمبرز لے آتا ہے۔ اور اس وجہ سے مجھے اس دو ٹکے کے انسان کی تعریفیں سننی پڑتی ہیں۔” وہ شدید برہم تھی۔
شرمین مہرین کی دوست ہونے کی وجہ سے ہر بات پر اسکا ساتھ دیتی تھی جبکہ زریاب اسکی ان باتوں کو اگنور کرتا تھا۔
“چلو یار چھوڑو ان باتوں کو۔ آو مووی دیکھنے چلتے ہیں۔ اس بار “DC” کی مووی دیکھیں گے۔ ” وہ بات کو پلٹتے ہوۓ بولا۔
“ابھی جو نئی آئی ہے’suicide squad؟؟” وہ پوچھنے لگی۔
“ہاں چلتے ہیں۔۔اور آج ٹریٹ میری طرف سے۔ اب تو موڈ اچھا کرلو۔۔۔” زریاب پیار بھرے انداز میں بولا۔
“مجھےٹریٹ لینے میں کوئی اعتراض نہیں۔ کیوں شرمین؟؟” شرمین بھی ہنس دی اور تینوں دوست مووی دیکھنے نکل گئے۔
*************************
مہرین گھر میں داخل ہوئی تو عاشر کو دیکھ کر اسکا چہرہ اتر گیا۔ وہ اسکی شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتی تھی۔ وہ سوفے پر بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ اسے ریسلنگ دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اسے یوں سکون سے بیٹھا دیکھ کر مہرین کو شدید غصّہ آرہا تھا۔
“ماماجان۔۔! ماما جان!!!” وہ عاشر کو دیکھے بغیر چیخنے لگی۔ وہ اسے دیکھ کر تھوڑا پیچھے ہوکر بیٹھ گیا۔
“اسلام علیکم!” عاشر نے سلام میں پہل کی تھی۔ مہرین بغیر کچھ کہے اس کے ہاتھوں سے ریموٹ لیکر دور جا بیٹھی۔ اس نے ایک بار پھر پکار دی۔ ماما جان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تھا شاید گھر پر کوئی نہیں تھا۔
عاشر نے سوچا کہ وہ بتا دے کہ وہ کسی کام سے باہر گئی ہوئی ہیں مگر پھر اس نے سوچا کہ مہرین یقیناً چلائےگی۔
“ماماجان باہرگئی ہیں۔” آخرکار اس نے بول ہی دیا۔ مہرین جو اس وقت ٹی وی پر چینلز بدل رہی تھی یک دم رک کر عاشر کو پھاڑ کھانے والی نظروں سے دیکھنے لگی۔
“تم سے کسی نے پوچھا؟ ضروری ہے ہر بات میں دخل اندازی کرو؟ اور مما جان کو مما جان مت کہا کرو۔۔خاص طور پر میرے سامنے۔ وہ تمہاری ماما نہی میری ماما ہیں!!”
آو دیکھا نہ تاؤ اور آتے ہی شروع ہوگئی۔ عاشر جانتا تھا کہ وہ کوئی نہ کوئی بات لیکر بیٹھ جائینگی۔ اسے بس موقع چاہئیے ہوتا ہے عاشر کو ذلیل کرنے کیلئے۔ عاشر کو اب ان زخموں کو جھیلنے کی عادت سی ہوگئی تھی۔
“وہ میری بھی ماں ہیں مہرین۔ جتنا آپ انکو چاہتی ہیں اتنا میں بھی انہیں چاہتا ہوں۔” وہ بہت مشکل سے بولا تھا۔ نہ جانے کیوں آج اسکا دل چاہ رہا تھا کہ وہ چپ کی دیواریں توڑ ڈالے۔
“تمہاری ماں؟؟ پلیز اپنی اوقات میں رہو عاشر احمد!! تمہاری ماں ایک آوارہ عورت تھی جس نے میرے بابا جان کو پھسایا اور پتہ نہیں کیوں اپنے اس گناہ کو یہاں چھوڑ گئیں۔” وہ ہر حد تک اس کے زخموں پر نمک چھڑک رہی تھی۔ وہ جانتا تھا بچپن ہی سے کہ وہ فراز احمد کا بیٹا ہے جو اس کی پیدائش سے پہلے ہی مر گئے تھے۔ اور اس کی ماں جو اسے اپنے دوسرے شوہر کے حوالے کر کے گھر سے بھاگ گائیں۔ وہ زندگی کی ان تلخ حقیقتوں سے واقف تھا۔
“خدا کے لیۓ مہرین بس کر دیں۔ بار بار کیوں یاد دلاتی ہیں۔” وہ دل شکستہ ہو کر بولا۔ جیسے کسی نے اس کے دل کہ ہزار ٹکڑے کر دیئے ہوں۔
“ہاں میں تو بس کر دوں گی مگر سچائی تو نہیں بدل سکتی نا؟” وہ پھر اس کے دل کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے بولی۔ وہ اپنے اندر کا زہر اس میں اتار چکی تھی۔ اس کی تذلیل کر کے مہرین کو سکون ملتا تھا۔ وہ مزید کیا کہتا، بغیر کچھ کہے وہ وہاں سے چلا گیا۔
*******
یونیورسٹی میں نیا سیمسٹر شروع ہوگیا تھا۔ مہرین کا یہ دوسرا سال تھا یعنی کہ چوتھا سیمسٹر۔ آج سب ہی ایک دوسرے سے باتوں میں لگے ہوئے تھے۔ شرمین اور لوگوں سے گفتگو میں مشغول تھی جبکہ زریاب اور مہرین ہالی ووڈ سونگس پر تبصرہ کر رہے تھے۔
“میں نے تمہاری پلے لسٹ چیک کی تھی۔ تمہاری چوائس اچھی ہے۔” وہ موبائل پر نظر دوڑاتے ہوئے بولی۔
“ہماری پسند بہت ملتی ہے؟ کیا خیال ہے؟” وہ مسکرا کر بولا۔
“اب اتنا بھی فری مت ہو۔ میری تم سے زیادہ اچھی ہے۔” وہ ہمیشہ اپنی تعریف کرتی تھی۔
“اچھا جناب آپ بیسٹ ہیں! بس خوش؟” وہ ہنس کر بولا۔
“مکھن بازی کی وجہ؟ میں کوئی پروجیکٹ نہیں بنانے والی ۔” وہ بھی مذاقیہ بولی ۔ زریاب کو اس کی ہنسی بہت پسند تھی۔ اس کا دل کرتا تھا وہ اس کو یوں دیکھتا ہی جائے ۔ اس کے بال جو اس کے منہ پر رہتے تھے اس کا دل کرتا تھا وہ اسے اپنے ہاتھوں سے پیچھے کرے مگر وہ یوں اسے اپنے خیالات بتانا نہیں چاہتا تھا ۔ وہ سب باتیں کرہی رہے تھے کہ ایک دم سے پورے کمرے میں خاموشی سی چھا گئی۔
کوئی دروازے سے اندر کلاس روم میں آیا تھا۔ سب لوگ اس اندر آنے والے شخص کو دیکھنے لگے۔ چھ فٹ لمبا ، چوڑا ، گورا ، چہرے پر مسکراہٹ اور بلیو آنکھیں سب تو جیسے اس لڑکے کو دیکھ کر ایک دم چپ ہوگئے۔ بالوں میں اس نے جیل لگایا ہوا تھا اور اس کے کولون کی خوشبو پوری کلاس میں پھیل گئی۔
مہرین تو بس ٹک ٹک اسے دیکھے جارہی تھی۔ وہ تو اسے کیپٹن امریکہ کی مووی کا “Thor” لگا تھا۔ وہ چلتے چلتے مہرین کی سیٹ پر آکر رک گیا۔ مہرین کی تو جیسے سانسیں رک گئی تھیں ۔
دل اس کا زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ وہ مسکرا کر مہرین کو دیکھنے لگا ۔ “?May I sit here” اس نے اپنے امریکی ایکسنٹ میں پوچھا تو وہ منہ سے کچھ بول نہ پائی۔
*********************
عاشر آج پھر عدیل اور شاہ میر کے ساتھ فٹ بال گراونڈ میں اپنے آنے والے فائنل فٹ بال میچ کی پریکٹس کر رہا تھا۔ عاشر نے کالج میں کامرس لی تھی اور فرسٹ ائیر میں اے۔ون گریڈ لیا تھا۔ اب سیکنڈ ائیر کے ایگزامز کے بعد کالج کی طرف سے ہونے والے میچ میں اس نے حصہ لیا تھا۔ اسے فٹ بال کا بہت شوق تھا۔اس لیۓ بچپن سے وہ اسکول سے آکر اور اسکول میں بھی ہر روز کھیلا کرتا تھا۔ بابا جان نے بھی اسے کھیلنے سے کبھی نہیں روکا یوں اسے کافی پریکٹس ہوگئی تھی۔
“اچھا شاٹ تھا! گوڈ جاب بوائز۔” شاہ میر تالیاں بجاتے ہوئے بولا۔ عدیل اور عاشر جو ٹیم کے مین پلیئرز تھے وہ بریک لینے کے لیۓ چلے گئے۔ عاشر ٹیم کا کپتان تھا۔ کھیل کھیل کر دونوں پسینہ پسینہ ہوگئے تھے۔ قریب ہی بینچ پر دونوں بیٹھ گئے۔
“اور سنا یار کیسی چل رہی ہے زندگی؟” عدیل نے اس سے دوستانہ لہجے میں پوچھا۔
“کیسی ہو سکتی ہے زندگی جب تک وہ چڑیل زندگی میں ہے۔ بس سمجھ لو کہ گزر رہی ہے زندگی۔” وہ پانی کی بوتل منہ سے لگاتے ہوۓ بولا۔
“مجھے تو وہ چڑیل سے بھی زیادہ خوفناک لگتی ہے۔ آخر وہ چاہتی کیا ہے؟ بھئی تم بھی رکھ کر سنا دیا کرو۔” عدیل نے اسکو سمجھایا۔ وہ اس بات پر ہلکا سا مسکرایا۔
“اس کے ماں باپ کا کھا رہا ہوں۔ سننا تو پڑے گا۔” عاشر بہت آہستہ سے بولا۔
“مگر انہوں نے تمہیں اپنی مرضی سے رکھا ہے۔” عدیل نے جواب دیا۔
عاشر نے نفی میں گردن ہلائی۔ وہ چاہے مہرین سے کتنی نفرت کرتا تھا مگر بابا جان سے وہ بے انتہا محبت کرتا تھا۔
“ہاں انہوں نے مجھے اس وقت رکھا، پیار کیا جب میری اپنی ماں مجھے چھوڑ کر چلیں گئیں۔ ایک بار بھی کبھی بابا جان نے میری آنکھوں میں آنسوں آنے نہیں دیئے۔ اسی لیۓ اس چڑیل کو بھی برداشت کر رہا ہوں۔” وہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولا۔
“اچھا بھئی! خیر جو بھی ہے تم بھی مہرین کو سنا دیا کرو۔ چپ مت رہا کرو۔” عدیل ایک بار پھر شروع ہوگیا۔
“چھوڑ ان باتوں کو چلو چل کر پریکٹس کرتے ہیں میچ ہونے میں اب ایک ہفتہ باقی ہے۔” وہ دوڑتے ہوۓ گراؤنڈ کی طرف بھاگا۔
*************
“یار وہ فورین سٹوڈنٹ کتنا ہینڈسم ہے نا؟ میں تو سوچ رہی ہوں کہ اسے اپنے گروپ میں شامل کرلوں۔” شرمین اس نئے لڑکے کی تعریف کرتے ہوئے بولی۔ وہ سب کلاس ختم ہونے کے بعد ڈیپارٹمنٹ کی گراس پر بیٹھے تھے۔ زریاب کو اس نئے لڑکے سے سخت چڑ آرہی تھی۔ سال کے بیچ میں آیا تھا وہ بھی امریکا سے پاکستان صرف سیمسٹر دینے۔
“تم ارحم زبیر کی بات کر رہی ہو؟” مہرین جسے اس لڑکے کے ذکر پر روک گئی تھی۔
“جی ہاں ارحم کی بات کر رہی ہوں۔ بہت کول بندہ ہے۔” شرمین تو جیسے اسکی تعریفیں کرتے تھک نہیں رہی تھی۔
“ہاں دیکھنے میں تو اچھا ہے۔” وہ بھی اس کی تعریف کرنے لگی تو زریاب سے برداشت نہیں ہوا۔
“ایک لڑکا امریکا سے آکر تم لوگوں سے فضول سے ایکسںنٹ میں بات کیا کر لیتا ہے تم لوگ تو جیسے اسکے دیوانے ہوگئے ہو۔” وہ چڑ کر بولا۔
“ہاں تو اچھا ہے تو سب ہی اسے اچھا بولیں گے نا۔ اتنا جل کیوں رہے ہو؟” شرمین شوق ہو کر بولی تو زریاب مزید غصّے میں آگیا۔
“اچھا بس گائز! چلو دوسری کلاس سٹارٹ ہونے والی ہے۔” وہ سب کلاس لینے کے لیۓ اٹھ گئے۔ سب کلاس کی طرف بڑھ رہے تھے کہ سامنے سے آتے ارحم کو دیکھ کر مہرین کے قدم روک گئے۔ اس جیسا خوبصورت اور خوش مزاج لڑکا اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے آتے ہوئے دو دن نہیں نہیں ہوئے تھے کہ پورا ڈیپارٹمنٹ اسکے گن گا رہا تھا۔ اس نے مہرین کی نگاہیں اپنی طرف محسوس کر لی تھیں۔ وہ اب اس کی طرف مسکرا کر دیکھنے لگا تو وہ بھی شرم کے مرے اندر چلی گئی۔
**************
وہ شرمین کے گھر سے ڈنر کر کے گھر دیر سے آئی تو اس نے دیکھا کہ بابا جان اور مما جان دونوں بہت خوش نظر آرہے ہیں۔
“ارے! لو آگئی مہرین۔” مما جان نے مہرین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ مہرین جو ابھی گھر میں داخل ہوئی تھی گھر میں چہل پہل دیکھ کر عجیب سی ہوگئی۔ ٹیبل سجی ہوئی تھی اور اس ٹیبل پر ایک بڑا سا کیک رکھا ہوا تھا۔ عاشر کو بابا جان بار بار پیار کر رہے تھے۔ وہ بھی بہت خوش نظر آرہا تھا۔ اوپر والی شیلو پر ایک ٹرافی بھی رکھی ہوئی تھی۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ یقینن عاشر نے کوئی کارنامہ انجام دیا ہوگا۔
“آؤ بیٹا جلدی آؤ۔ عاشر نے ایک بار پھر ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا۔” وہ اسے بتانے لگے۔ دل میں تو مہرین کے آگ لگی ہوئی تھی مگر منہ پر اسے مسکراہٹ سجانی پڑی۔
” کیوں ایسا کیا کر دیا ہے عاشر نے؟” اس نے طنزیہ لہجہے میں پوچھا۔
“بتاؤ عاشر بھئ مہرین کو۔” بابا جان نے عاشر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔ وہ تو شرما کر گردن جھکا کر کچھ نہیں بولا۔ مہرین کو اس کی یہ حرکت اداکاری لگتی تھی۔
“میں بتا دیتی ہوں۔ ہمارے بیٹے نے انٹر کالج فوٹ بال میچ میں پہلی پوزیشن لی ہے۔” زرمینہ نے اسے خوشی سے بتایا۔
“اچھا واہ! کونگراٹس برادر۔” یہ کہہ کر وہ وہاں سے جانے لگی تو عاشر نے اسے روک لیا۔
“مہرین آئیں کیک کاٹتے ہیں۔ ہم سب کب سے آپ کا ہی ویٹ کر رہے تھے۔” وہ اسے بہت دل سے دعوت دیتے ہوئے بولا۔ مہرین نے تو اسے ایک نظر غصّے سے دیکھا۔
“تو آپ لوگ کاٹ لیتے نا کیک۔ میرے انتظار کی وجہ؟” وہ اندر سے جل کر بولی۔ اس کی یہ بات سن کر جہانزیب اور عاشر دونوں چپ سے ہوگئے۔
“مہرین چلو اب جلدی سے آکر کیک کاٹو کیونکہ عاشر نے تمہاری پسند کا کافی کیک منگوایا ہے۔” وہ بات کو پھیرتے ھوئے بولیں۔
“سوری مما جان میں کافی کیک نہیں کھاتی۔اور میرا کل پیپر ہے مجھے جانا ہے۔” وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔ باقی لوگ خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
“عاشر تمہیں پتا تو ہے اس لڑکی کا۔ چلو ہم لوگ ہی کاٹ لیتے ہیں۔” وہ اس کو ٹھنڈا کرتے ہوۓ بولیں۔ مگر عشر کے دل میں یہ بات تیر کی طرح لگی تھی۔
***********
آج اسکی برتھڈے پارٹی تھی۔ پورا ہال سجا ہوا تھا۔ ہر جگہ لائٹیں لگی تھیں۔ اس کی برتھڈے کا ڈریس کوڈ “بلیک” تھا۔ سب ہی لوگ آرہے تھے۔ ان لوگوں میں سب مہرین کے کلاس فیلوز تھے۔ مہرین کافی زیادہ حثیت کی تھی کیوںکہ جہانزیب حسن کا بزنس کافی کامیاب تھا۔
وہ ہاف سلیولیس شرٹ کے ساتھ کیپری پہنی ہوئی تھی۔ رنگ اسکا ہمیشہ کی طرح گورا اور نکھرا ہوا تھا۔ بال اسکے کانوں تک شارٹ تھے۔ گرے کلر کی لینس لگا کر وہ بےحد پر کشش لگ رہی تھی۔ ماڈرن ہونے کے ساتھ ساتھ اسے ہر طرح سے اپ ڈیٹ رہنا پسند تھا۔
پارٹی میں میوزک کے ساتھ سب دوست ڈانس بھی کر رہے تھے۔ یہ ان لوگوں کے لیۓ بڑی بات نہیں تھی۔ بابا جان نے کبھی اسے ان چیزوں پر نہیں روکا تھا۔ ان کا ماحول کافی ماڈرن تھا۔
“ہائے زریاب! یو لوک ہینڈسم!” مہرین نے زریاب کو دعوت دیتے ہوئے کہا۔
“تم بھی اچھی لگ رہی ہو۔” وہ شرماتے ہوئے بولا۔ پارٹی سب ہی انجوائے کر رہے تھے مگر مہرین کو آگ لگی تھی کہ وہ اس محفل میں کیوں ہے۔ وہ عاشر کو نفرت سے دیکھ رہی تھی اور وہ مجبور ہو کر وہاں سر جھکائے کھڑا تھا۔ وہ صرف بابا جان کی ضد پر یہاں مجود تھا۔ ڈریس شرٹ اور ٹائی میں وہ کافی سمارٹ لگ رہا تھا۔ مگر وہ یہاں بہت عجیب اور بے بس محسوس کر رہا تھا۔
“جو بھی ہے عاشر ہینڈسم ہے۔” جویریہ نے اسکی تعریف کرتے ہوئے کہا۔ وہ جل اٹھی تھی۔
“I think you’re blind”
اس نے ہنس کر کہا۔ وہ اسے مسلسل غصّے سے دیکھ رہی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ وہ آج پھر اسے اس محفل میں ذلیل کرے گی۔
•••
اس سے اسکا وجود برداشت نہیں ہورہا تھا۔ اسنے اپنی سازش چلی۔ پارٹی میں سب ہی مست تھے جب مہرین جلدی سے آگے آتے ہوئے عاشر سے ٹکرا گئ۔ سارا جوس جو عاشر کے ہاتھ میں تھا وہ مہرین کی شرٹ اور جوتے پر گر گیا۔
“یہ کیا کیا تم نے! یو مورون! گاڈ! اب جاؤصاف کرو میرے جوتے۔” وہ سب کے سامنے چیخی۔ پارٹی میں یکدم خاموشی چاہ گئی اور سب عاشر کو دیکھنے لگے۔ وہ اس وقت بہت حیران تھا کہ یہ سب مہرین نے جان بوجھ کر اسکو ذلیل کرنے کے لئے کیا ہے۔
پوری محفل میں سب اب عاشر کو گھور رہے تھے۔ وه اپنا آپ نہایت کھوکلا اور بےنام سمجھ رہا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وه کیا کرے۔
“کیا تم بہرے ہو گئے ہو۔۔۔ یہ جو تم نے گرایا ہے اسے صاف کرو۔۔۔!” وه ایک بار پھر چیخی تھی۔پارٹی میں بجنے والا میوزک اب بند ہو گیا تھا اور خاموشی کی ایک لہر چھا گئی۔ عاشر کا دل کر رہا تھا کہ وه مزید جوس کیا ایک زہر سے بھری بوتل اس کے سر پر انڈیل دے۔ کتنی سفاکی سے وه جھوٹ بول رہی تھی۔
“مہرین چھوڑو میں کر دیتا ہوں۔” زریاب آگے بڑھا تو مہرین کو مزید غصہ آیا۔ عاشر سے تو یہ سب برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ وه فورا وہاں سے غصے میں پیر پٹخ کے چلا گیا۔ مہرین نے زریاب کو ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور خود بھی وہاں سے چلی گئی۔
شرمین جو ساتھ کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی، اسکے چهرے پر مسکراهٹ پھیل گئی۔ وه مہرین کے پیچھے پیچھے بھاگی۔ مہرین نے جلدی جلدی اپنے کپڑے صاف کئے۔ پهر اس نے پانی کا چھٹا اپنے منہ پر مارا۔ اتنے میں شرمین بھی آ گئی۔
“دیکھا تم نے!۔۔۔کس قدر گھٹیا اور بے حس انسان ہے۔۔۔مطلب میری پارٹی میں مجھے Attitude دکھا رہا ہے۔۔۔” وه برہم ہو کر بولی۔ غصہ تو جیسے اس سے کنٹرول نہیں ہو رہا تھا۔ اسکا دل چاه رہا تھا کہ وه اسے دوبارہ ذلیل کرے۔
“چھوڑو مہرین۔۔۔!اسکی کیا اتنی اوقات ہے کہ تم اسکے منہ لگو۔ خیر اسکو یہ حرکت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ جب تم نے کہا تھا تو کر دیتا صاف۔۔۔۔اب یہ تو تمہاری انسلٹ ہے۔” شرمین نے اسے چڑاتے ہوئے کہا۔
“میری انسلٹ۔۔۔! تم دیکھنا میں اسکا دماغ درست کر دوں گی۔ دیکھنا تم اب اسکا کیا حشر ہو گا۔” مہرین نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔ دل میں تو اس نے عاشر کو کوئی دس ہزار گالیاں دیں مگر فلحال اسکو سوچنا نہیں چاہتی تھی۔
پارٹی میں ہلا گلا پھر سے شروع ہو گیا تھا۔ زریاب نے مہرین کو ڈانس کی آفر کی اور وه اس نے قبول کر لی۔
“کیا ہو جاتا ہے تمہیں۔۔۔ ایک جوس ہی تو گرا تھا نا۔۔۔” زریاب اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا۔
“تو کیا اب تم بھی اس دو ٹکے کے آدمی کی سائڈ لو گے۔۔۔ مطلب میری کوئی حیثیت ہے۔۔۔” وه نہایت چڑ کر اپنا ہاتھ چھڑا کر بولی۔
زریاب مسکرایا اور اسکے ساتھ چلنے لگا۔
“اچھا بھئ! اپنی برتھ ڈے پر یوں غصہ نا ہو۔چلو آؤ اب کیک کاٹتے ہیں۔” وه بہت پیار سے بولا تو وه بھی مان گئی۔
******************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...