’’پاگل ہے یہ تو۔‘‘ وہ بھی اس کے پیچھے دوڑا۔ واصق امی کو ڈھونڈنے کچن میں گیا وہ وہاں نہیں تھیں۔ تیزی سے راستے میں گزرتی ونیزے کو بھی نظر انداز کئے وہ امی کے کمرے کی طرف لپکا۔ تو شہروز نے درمیان میں راستہ روکا۔
’’پلیز شہروز ! اس وقت کچھ بھی سننے کے موڈ میں نہیں ہوں ۔ بہتر ہے تم خاموش ہو جائو اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے ٹوک دیا۔ اسے یونہی چھوڑ کر امی کے کمرے میں داخل ہو گیا۔
وہ اپنے کمرے کی بکھری چیزیں سمیٹ رہی تھیں۔ اسے اپنے کمرے میں دیکھ کر مسکرائیں پھر اس کے عقب میں شہروز کو دیکھاتو فوراً اندازہ ہو گیا کہ وہ اپنی بات طے ہو جانے سے با خبر ہو گیاہے۔
’’امی ! یہ میں کیا سن رہا ہوں۔‘‘ وہ خاصے جارحانہ روپ میں ان کے سامنے آیا تھا۔ وہ مسکرا دیں ۔ اندازہ تھا کہ کسی ایسے ہی روّیے کا مظاہرہ ہو گا۔
’’سچ سن رہے ہو۔‘‘ انہوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اس نے بھنا کر ہاتھ جھٹک دیا۔
’’واٹ از نان سینس۔ آپ کو ساری دنیا میں کوئی اور لڑکی نہیں ملی تھی۔ کیا کال پڑ گیا تھا دنیا میں لڑکیوں کا جو یہ لڑکی میرے سر تھوپ دی ہے۔‘‘ واصق کا انداز خاصا توہین آمیز تھا۔ امی تو خاصی حیران ہوئیں۔ شہروز فوراً اندر آیا۔
’’آہستہ بولو اور مت بھولو کہ اس گھر میں وہ لڑکی بھی رہ رہی ہے۔ ‘‘ شہروز نے احساس دلایا تھا وہ مزید بھڑک اٹھا۔
’’آئی ڈونٹ کئیر ہر ۔ امی آپ نے میرے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ لوگ تو لڑکیوں سے بھی پوچھ لیتے ہیں اور آپ نے مجھ پوچھنا کیا بتانا بھی گوارا نہیں کیا۔ تف ہے مجھ پر ، لعنت ہے ایسی زندگی پر۔‘‘ وہ غصے میں چراغ پا ہو رہا تھا۔
’’میں نے تم سے پوچھا تھا۔ تم نے خود ہی کہا تھا کہ مجھے کوئی لڑکی پسند نہیں جو کچھ بھی ہوگا میری ہی مرضی سے ہو گا ۔ بس تم کچھ عرصہ شادی نہیں کرنا چاہتے تھے۔‘‘
‘‘ہاں تو اس ساری بات میں یہ لڑکی کہاں سے نکل آئی۔ ٹھیک ہے میں فوراً شادی پر بھی آمادہ ہوں مگر اس لڑکی سے نہیں۔‘‘ کچھ دھیما پڑتے اس نے کہا تو وہ حیران ہوئیں۔
’’کیا اس لڑکی، وہ لڑکی لگا رکھا ہے۔ ونیزے نام ہے اس کا۔ کیا کمی ہے اس میں؟‘‘ ونیزے کے متعلق واصق کا اتنا شدید ری ایکشن دیکھ کر وہ حیران تھیں۔ اب بھی پوچھتے ہوئے ان کی آوا ز دکھ سے پھٹی ہوئی تھی۔
امی اس میں کچھ کمی نہیں وہ بہت ڈیفرنٹ لڑکی ہے ۔ میں خود کو اس کے قابل نہیں سمجھتا۔‘‘ امی کی دکھ سے پھٹی آنکھیں دیکھ کر وہ کچھ دھیما پڑ گیا جبکہ ذہن میں ونیزے کی کہی گئی تمام باتیں گھوم رہی تھیں ۔ وہ کیسے بھول جاتا جو اس نے کہا تھا ۔
’’یہ ٹھیک ہے میں اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے آپ کے در پر پڑی ہوئی ہوں مگر کوئی گری پڑی نہیں ہوں۔ نہ ہی ان لڑکیوں جیسی ہوں، جن سے آپ کا واسطہ ہوتا ہو گا۔‘‘ ابھی تو وہ اپنے دل کو سمجھا رہا تھا کہ گھر والوں نے یہ نیا انکشاف کر دیا تھا۔
’’امی وہ ہمارے گھر صرف اس مقصد کے لئے تو نہیں ٹھہری تھی کہ ہم اس اپنے ہی گھر رکھ لیں۔ امی اس رشتے کو اس کی مجبوری مت بنائیں۔ ہم ویسے بھی تو اس کو تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔ کیا یہ سب کرنا بہت ضروری ہے۔ آپ خود سوچین کتنی ناشائستہ بات ہے۔‘‘
’’تم اپنی یہ فلاسفی اپنے پاس رکھو۔ یہاں رہنا اس کی کوئی مجبوری نہیں۔ اس کا بھائی سے تم سے بہتر تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ بات ساری حقیقی رشتے کی ہے۔ جو تم نہیں سمجھ رہے اور مجھے شائستہ و ناشائستہ کے قاعدے مت پڑھائو۔ میں نے اسے بیٹی کہا ہے اور ماں اپنی بیٹی کو کن ہاتھوں میں محفوظ دیکھ سکتی ہے تم نہیں سمجھ سکتے۔ اگر تمہیں یہ قبول ہے کہ تم میری بیٹی سے شادی کرو گے تو مجھ سے کوئی تعلق رکھنا ورنہ کوئی ضرورت نہیں مجھے ماں کہنے کی۔ جو جی چاہے کرو، اور جہاں جانا چاہتے ہو چلے جائو۔ میں سمجھوں گی میرا کوئی بیٹا ہی نہیں ہے۔‘‘ آہ، ایک جذباتی بلیک میلنگ۔
’’امی …..‘‘اتنی بڑی بات کتنی آسانی سے انہوں نے کہہ دی تھی۔ اپنے سب سے لاڈلے اور چہیتے بیٹے کو۔ وہ بے یقینی سے دیکھتا رہا۔
’’امی پلیز آپ سمجھنے کی کوشش کریں ۔‘‘ وہ بے چارگی سے بے بس ہو گیا۔
’’بس میں نے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا۔‘‘ امی کو ابھی تک واصق کا ونیزے کے متعلق توہین آمیز لہجہ نہیں بھول رہا تھا ۔ انہیں بھی ضد سی ہو گئی اسے کچھ بھی کہنے سے ٹوک دیا۔
’’ٹھیک ہے جو جی چاہتا ہے کریں بعد میں مجھے کچھ مت کہئے گا اور ہاں اس لڑکی سے بھی پوچھ لیں یہ نہ ہو کہ وہ بھی مجبوری میں پھنسی ہو۔‘‘ ہارے ہوئے جواری کی طرح شکست خوردہ لہجہ تھا۔
وہ خاموشی سے دروازے سے ہٹی اور اپنے کمرے میں چلی آئی۔
بڑی امی، واصق اور شہروز کے درمیان ہونے والی تمام گفتگو اس نے حرف بہ حرف سن لی تھی۔ پہلے اسے یقین تھا کہ یہ رشہ طے کرنے کا شوشہ ضرور واصق کا چھوڑا ہوا ہے۔ اب حقیقت جان کر اور زیادہ دلبرداشتہ ہوگئی۔ واصق اسے اس بری طرح ناپسند کرتا تھا اسے توقع نہیں تھی۔
’’کیا کروں …..؟‘‘ دونوں ہاتھوں میں سر دیئے وہ اپنی کنپٹیاں سہلاتے وہ بری طرح الجھ گئی۔
’’اتنی بے عزتی اور بے توقیری ، اللہ کبھی بھی کسی کو کسی کے در کا محتا ج نہ کرے۔‘‘ وہ دکھ سے سوچتی رہی۔
بڑی امی کی محبت ، بھیا بھابی کی مجبوری اور واصق جہانگیر کی ناپسندیدگی نے اسے خاصا الجھا دیا تھا۔ بے یقینی و بد اعتمادی کے دوراہے پر لا کھڑا کیا تھا ۔ وہ کس کس بات پر یقین کرتی ۔ وہ جو اس کے کانوں نے ابھی سنی تھیں یا وہ جو ایک سال پہلے روشانے نے کہی تھی کہ یہ شخص اس کا فیانسی ہے ۔ چلو وہ روشانے کی بات کو بھی جھٹلا دیتی اگر اس نے اپنی آنکھوں سے خود نہ دیکھا ہوتا۔ وہ روز واصق کا روشانے کو پک اینڈ ڈراپ کرنا کیا تھا۔ اسے اپنا دماغ پھٹتا ہوا محسوس ہوا۔
’’یا اللہ کیا کروں؟‘‘ اس نے بہت الجھتے ہوئے خود کو بستر پر گرا لیا۔
X X X
رشتہ طے ہونے کے اگلے دن سب نے مل کر مشورہ سے شادی کی تاریخ فکس کر دی تھی۔ رمضان سے دو دن پہلے شادی تھی ۔ درمیان میں صرف بیس دن ہی بچے تھے۔ وہ اس افراتفری اور عجلت میں طے ہونے والی ڈیٹ پر بھونچکا ہی تو رہ گئی۔ وہ جو بھیا بھابی سے ملنے اور بات کرنے کی سوچے بیٹھی تھی اس نئی افتاد پر ہراسا ں ہو گئی۔ شادی سے انکار کی حسرت تو دل میں رہ گئی بلکہ آنے والے دنوں کی فکر ستانے لگی۔
جویریہ اپنی نندوں اور ساس کے ساتھ کوئٹہ آ گئی تھی اور رشتہ دار ابھی اکٹھے ہونا شروع ہو گئے تھے۔ خوب زور و شور سے تیاریاں ہونے لگیں۔ گھر کی سب خواتین، گھر اور بازاروں کے چکروں میں بے حال ہوئی جا رہی تھیں۔ دوسری طرف بھیا اور بھابی کا بھی یہی حال تھا۔ جب بھی آتے کھڑے کھڑے ہی حال چال دریافت کر کے چلے جاتے اور وہ ان سے تنہا سہولت سے بات کرنے کا سوچتی ہی رہ جاتی تھی۔
واصق سے اس کا سامنا بہت کم ہوتا تھا۔ جب بھی سامنا ہوتا وہ یوں نظر انداز کئے گزر جاتا تھا جیسے سرے سے اس کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ وہ اس رویے سے اور الجھ جاتی تھی۔
سب خواتین بازار گئی ہوئی تھیں۔ گھر میں کچھ مہمان لڑکیاں دادی اماں اور وہ خود تھی۔ جب سے تاریخ طے ہوئی تھی دادی اماں اسے باقاعدہ کمرے میں بند کئے ہوئے تھیں ۔ اب بھی اکتا کر باہر نکل آئی۔ دادی اماں تخت پر براجمان تھیں وہ ان کے پاس جانے کی بجائے بڑی امی کے کمرے میں گئی۔ آہستگی سے دروازہ بھیڑ کر ٹیلی فون سیٹ اٹھا کر وہ بیڈ پر ٹک گئی۔
رابطہ ہوتے ہی دوسری طرف بھابی تھیں۔
’’السلام علیکم بھابی کیسی ہیں آپ؟‘‘
’’ونیزے تم …..میں ٹھیک ہوں ۔ کہو کیسے فون کیا۔‘‘ بھابی کے انداز سے لگ رہا تھا کہ جیسے بہت عجلت میں ہوں۔
’’وہ بھابی میں کتنے دنوں سے آپ سے بہت ضروری بات کرنا چاہ رہی تھی۔‘‘
’’ہاں کہو۔‘‘
’’وہ …..وہ بھابی! میں واصق سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ کچھ جھجکتے ہوئے اس نے کہہ دیا۔
’’دماغ تو درست ہے تمہارا ، ہوش میں تو ہو ، کیسی باتیں کر رہی ہو تم۔‘‘
’’بھابی پلیز بھیا کو سمجھائیں ناں۔ مجھے نہیں شادی کرنی اس سے۔‘‘ وہ ایک دم رو پڑی تھی۔
’’ونیزے ! بہت نان سینس ہو تم ۔ خبردار آئندہ تم نے یوں الٹا سیدھا بولا تو بہت برا کروں گی۔ ہم تمہاری خاطر دن رات پریشان ہو رہے ہیں اور تمہاری رٹ ہے کہ تمہیں شادی نہیں کرنی۔ کیا محبوب رحمانی کے ساتھ زندگی گزار لو گی؟‘‘ انہوں نے تو اچھی خاصی سنا ڈالیں۔
’’پلیز بھابی، میں زبردستی اور مجبوری کا سودا نہیں بننا چاہتی۔‘‘
’’کس نے کہہ دیا تمہیں ایسا۔ مجبوری کیوں بھئی۔ اتنی محبت سے تو وہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ ہمیں تو عزت کے لالے پڑ ے ہوئے تھے، یہاں تو عزت کے ساتھ ساتھ جان بھی محفوظ ہے اور کیا چاہئے تمہیں۔‘‘
’’بس مجھے واصق پسند نہیں ہیں۔‘‘ اس نے اپنے آنسو صاف کرتے عذر بتایا جو سچ بھی تھا۔
’’ہیں…..‘‘ بھابی دوسری طرف حیران ہوئیں۔ ’’تمہارا واقعی دماغ چل گیا ہے ۔ ایسے ہمسفر کی تو لڑکیاں خواب دیکھتی ہیں۔ بس اب اپنی زبان بند رکھنا ۔ خبردار کسی سے بھی کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ ابھی وہ ناپسند ہے شادی ہو گی تو خود بخود ہی پسند کرنے لگو گی۔ جتنے بھی دن باقی ہیں خود کو تیار کرو۔ خود بھی خوش رہو اوروں کو بھی رہنے دو۔ میں فون بند کر رہی ہوں۔ کل آئوں گی پھر بات کروں گی۔ ‘‘ بھابی نے فون بند کر دیا تھا۔ وہ ریسیور کو گھورتی رہ گئی۔‘‘ ابھی وہ فون رکھ کر پلٹی ہی تھی جب کمرے کا دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا۔ واصق کو اپنے سامنے دیکھ کر حیران ہوئی۔
’’آپ اس رشتے پر راضی نہیں تھیں تو پھر چھپایا کیوں؟‘‘ آتے ہی اس نے پتھر پھوڑے۔ وہ واصق کے سرخ چہرے کو دیکھے گئی۔
’’میں نے کچھ نہیں چھپایا۔ مجھ سے کسی نے پوچھا ہی نہیں تھا۔ ‘‘ اس نے بھی صاف بات کہہ دی۔
’’اب کیا چاہتی ہیں آپ ؟‘‘ وہ سپاٹ چہرہ لئے پوچھ رہا تھا۔
’’وقت اور حالات کے تقاضے کبھی بھی میری سوچوں اور خواہشوں کے محتاج نہیں رہے۔ اگر بھیا اور بھابی کی زبان کا پاس نہ ہوتا تو انکار کرنے میں ایک دن بھی نہ لگاتی۔‘‘ اس نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ واصق نے ہونٹ بھینچ لئے۔
’’ٹھیک ہے میں امی سے انکار کر دوں گا۔ زبردستی اور مجبوری کے سودے کا میں بھی قائل نہیں ہوں اور آپ کو بھی امی سے بات کر لینی چاہئے۔‘‘
’’کیا بات کروں؟‘‘ اس نے تلخی سے پوچھا۔ تو واصق نے اسے عجیب نظروں سے دیکھا۔
’’یہی کہ آپ رشتے پر خوش نہیں اور میں آپ کو پسند نہیں۔‘‘ چبا چبا کر اس نے کہا۔
’’بات ساری پسند کی نہیں اعتماد اور یقین کی بھی ہے۔‘‘ ناگواری سے کہتے وہ دروازے کی طرف بڑھی جہاں وہ دیوار بنا کھڑا تھا۔ ’’میں نے جو کہنا تھا وہ میں بھابی سے کہہ چکی ہوں اور جو انہوں نے جواب دینا تھا وہ دے دیا۔ اب نہ مزید کچھ کہنے سننے کی خواہش ہے اور نہ ہی ضرورت۔‘‘ صاف اکھڑے لہجے میں کہتے وہ اس کے قریب سے نکل گئی تھی۔
واصق یونہی کھڑا رہا۔ مطمئن تو وہ پہلے بھی نہیں تھا۔ اب یہ جان کر کہ وہ تو سرے سے راضی ہی نہیں ۔ دل پر آرے چلنے لگے تھے۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنے خود دار دل کو سمجھایا تھا اب جس اس کی بھابی سے فون پر ہونے والی تمام باتیں سن کر پھر اڑیل ٹٹو کی طرح باغی ہونے لگا تھا۔ اس نے تو یونہی گھر آتے ہی فون کرنے کے لئے ریسیور کان سے لگایا تھا تو امی کے کمرے میں رکھے فون پر ہونے والی اس کی اور بھابی کی تمام باتیں اس کے کانوں میں پڑ گئی تھیں۔ یہ سب باتیں اسے پھر اک نئی اذیت سے دوچار کرنے لگی تھیں۔ امی تو کبھی بھی انکار کو نہیں مانیں گی اور درمیانی جو صورت تھی وہ بھی سمجھوتے کی راہ کھوٹی کرنے والی تھی۔
X X X
وقت رکنے سے کبھی رکتا ہے۔ اس کی توسرشت میں رکنا ہی نہیں ہے۔ بات طے ہونے اور شادی ہونے تک کا دورانیہ بہت ہی تیز رفتاری سے گزرا تھا۔ واصق نے اپنی پوری کوشش کر لی تھی کہ کسی نہ کسی طرح امی کو یہ بات ہی ختم کر دینے پر راضی کر لے۔ اس کی تمام کوششیں بے کار گئیں۔ امی کی دھمکی جوں کی توں برقرار تھی۔ آخر کار تھک ہار کر اس نے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا ۔ دوسری طرف کم و بیش ونیزے کی بھی یہی حالت تھی۔ واصق ساری شادی کے دوران بہت ہی چپ چاپ اور سنجیدہ رہا تھا۔ ہر رسم میں یوں شریک رہا گویا سر پر پڑا ہوا بوجھ اتار رہا ہو۔ ادھر ونیزے نے بھی بالکل خاموشی و ناپسندیدگی و ناگواری کو اندر دبائے اس نئے بندھن کو قبول کر لیا تھا اور پھر وہ ہوٹل سے رخصت ہو کر واصق کے ہمراہ قدم اٹھاتی دوبارہ اس گھر میں ایک نئی اور پر استحقاق حیثیت سے داخل ہو گئی۔
حجلہ عروسی میں بیٹھے اس نے سر سری ایک نظر اس کمرے پر ڈالی وہ اس کمرے میں پہلے بھی جا چلی تھی تب مگر اندازہ نہ تھا کہ کبھی دلہن بنی اس نئی حیثیت سے بھی اس کمرے میں بیٹھی ہو گی۔ بھابی اور بھیا نے اسے بہت سمجھایا تھا۔ محبوب رحمانی کے ڈرائونے دیئے تھے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی آئندہ زندگی کے متعلق بہت ساری باتیں سوچ ڈالیں۔ اب بھی آنے والے وقت اور حالات کا خیال کر کے اس نے خود کو ریلیکس کرنا چاہا مگر اندر جو بھی کھلبلی مچی ہوئی تھی وہ کسی بھی طور پر کم نہیں ہوئی تھی۔ اس نے خود واصق سے جو کچھ بھی کہا تھا جواباً اس نے جن الفاظ میں اس کی عزت افزائی کی تھی وہ اب بھی نہیں بھولی تھی۔ اس کے الفاظ جب بھی یاد آتے وہ تنفر سے الٹا سیدھا سوچنے لگتی ۔ بڑی مشکل سے اس نے خود کو حالات کے حوالے کر کے اس رات کے لئے تیار کیا تھا ۔ اب بغیر کسی اشتیاق و بے تابی سے واصق کی منتظر تھی۔ ونیزے نے خاموشی سے بیڈ کے کرائون سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ اس حالت میں بیٹھے ہوئے ابھی اسے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا جب دروازے پر کھٹکا ہوا۔ وہ فوراً سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
واصق جس آہستگی سے کمرے میں داخل ہوا تھا اسی آہستگی سے اس نے اپنے پیچھے دروازہ بھی لاک کیا۔ آہستہ روی سے چلتے وہ بستر کے قریب آ کھڑا ہوا ۔ چند لمحے سوچنے کے بعد وہ ونیزے سے کچھ فاصلے پر بیڈ کے کنارے پر ٹک گیا ۔ جب بولا تو آواز بہت ہموار تھی۔
’’مجھے افسوس ہے ونیزے کہ آپ کو انتہائی نا پسندیدگی و ناگواری کے باوجود مجھ سے شادی کے لئے آمادہ ہونا پڑا۔ میں آپ کی مجبوری سمجھتا ہوں اور یہ بھی اندازہ لگا سکتا ہوں کہ آپ بخوشی اس بندھن پر آمادہ نہیں ہوئیں۔ اس مجبوری کے پیچھے وجوہات ہیں میں ان سے بھی بخوبی آگاہ ہوں۔ آپ میرے بارے میں اچھے جذبات نہیں رکھتیں۔ مجھے پسند کیا، آپ تو اعتماد اور یقین تک نہیں کرتیں ، جبکہ یہ نیا رشتہ سب سے پہلے اعتماد اور یقین اور محبت کی ڈیمانڈ کرتا ہے۔ ایم سو سوری یہ تینوں چیزیں ہم دونوں کے درمیان نہیں پائی جاتیں۔ آپ کی ناپسندیدگی جان لینے کے بعد میں نے امی سے دوبارہ انکار کیا تھا مگر انہوں نے میرے انکار کی جو سزا مجھے سنائی تھی وہ میرے لئے ناقابل قبول تھی۔ نتیجتاً آپ یہاں ہیں۔ بہرحال کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا میری سرشت نہیں اور یقینا آپ بھی پسند نہیں کریں گی کہ میں آپ کی خواہش کے برعکس اپنا کوئی حق استعمال کروں جبکہ میں پہلے بھی واضح کر چکا تھا کہ خالی خولی جسم کبھی بھی میری ڈیمانڈ نہیں رہا ۔ آپ تھک گئی ہوں گی پلیز کپڑے چینج کر کے آرام سے سو جائیں اور میری طرف سے فکر مند مت ہوں۔ میں اپنے قول و فعل کا بہت پکا ہوں۔‘‘
وہ جو کچھ اور سوچے بیٹھی ہوئی تھی اتنی غیر متوقع گفتگو سن کر حیرانگی سے اسے دیکھے جا رہی تھی ۔ واصق نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔ واصق کے خاموش ہو جانے پر بھی وہ بغیر پلکیں جھپکائے اسے دیکھے جا رہی تھی۔ اس کے وجود میں کوئی حرکت نہ ہوئی تو واصق نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
کئی لمحے نظر پلٹنا بھول گئی۔ دیوانہ دل ایکدم بے قابو ہوا۔ ساری تقریب میں وہ اپنی نظر بچاتا رہا تھا ۔ اپنے دل کو سمجھاتا رہا کہ کہیں بھول کر بھی نگاہ اس دشمن جان کی طرف نہ اٹھ جائے مگر اب اٹھی تو ساری احتیاطیں بے کار گئیں۔ دل و ذہن کو سب سب سمجھانا بجھانا رائیگاں ٹھہرا۔ واصق کو اس کے نیون سائن کی طرح جگمگاتے چہرے پر بے خودی کی کیفیت میں نظریں جمائے اسے یوں محسوس ہوا جیسے آج قدرت نے اسے کائنات کے سارے حسن سے نواز دیا ہے۔ حسین تو وہ بے تحاشا پہلے بھی تھی مگر اب چودھویں کے چاند کی طرح جگمگاتے حسن کی چھب ہی نرالی تھی۔ بیوٹیشن کی کمال مہارت سے کی گئی تیاری نے اسے شعلہ جوالہ بنا دیا تھا اور اب وہ ناحق نا شکری کر رہا تھا۔
’’کیا آج رات روئے زمین پر اس سے زیادہ حسین وجود کہیں اور ہو گا؟‘ ‘ اس کے دل نے اسے ورغلایا ۔ اس نے نظر پھیر لی بستر سے اٹھنا چاہا تو کچھ یاد آ گیا ۔ پھر دوبارہ بیٹھ گیا۔ اس نے جیب سے مخملی ڈبیہ نکالی۔ شادی کے دوران وہ اس قدر اپ سیٹ رہا تھا کہ دلہن کے لئے کوئی گفٹ کے متعلق لاعلمی کا اظہار کر دیا تھا۔ وہ خاصا برہم ہوا اور پھر اسے لے کر پہلے اسے گفٹ خرید کر دیا تھا بعد میں امی سے شکایت کر کے خوب سنوائی تھیں۔
’’سب کی خواہش تھی کہ آپ کو یہ گفٹ دے دوں۔ لائیں پہنا دوں۔ ‘‘ مخملی ڈبیہ سے کنگن نکال کر اس نے یونہی رسم نبھانے کو اس کا ہاتھ تھاما ۔ آہستگی سے کنگن پہنا کر اس کے ہاتھ کو دیکھا۔ گجروں کی بھینی بھینی خوشبو اور نرمی سے سجا اس کا ہاتھ پہلے ہی زیور سے بھرا ہوا تھا بلکہ وہ پوری کی پوری اچھی خاصی زیور سے لدی ہوئی تھی۔ ان دو کنگنوں سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا۔ وہ خاموشی سے اس کا ہاتھ چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے پہلے کوٹ اور پھر ٹائی بھی اتاری۔
الماری سے اپنا سلیپنگ سوٹ نکال کر باتھ روم میں گھس گیا۔ وہ جو بت بنی سب دیکھ رہی تھی۔ باتھ روم کا دروازہ بند ہوتے ہی اپنے ہاتھ کی جانب دیکھنے لگی۔ واصق کی تمام باتیں اس کے دل میں ترازو ہو گئی تھیں۔ اس نے نا چاہتے ہوئے ہی سہی خود کو سمجھاتے بہت کچھ سوچ رکھا تھا اور اب اپنی اس طرح کی عزت افزائی پر دل چاہا دل کھول کر روئے۔ دل مطمئن ہونے کے بجائے اور کلبلانے لگا تھا۔ وہ گھٹنوں پر سر رکھے بیٹھی رہی ۔ یہاں تک کہ واصق لباس بدل کر واپس آ گیا تھا۔ ونیزے کو جیسے کسی بھی بات کا ہوش نہیں رہا تھا۔ واصق نے کچھ حیرت سے اسے دیکھا وہ بغیر حرکت کئے بیٹھی ہوئی تھی۔ اچانک دل میں کسی خیال نے سر ابھارا تو فوراً بستر کی طرف آ گیا۔ اس کے قریب رک کر اس کو آواز دی۔
’’ونیزے ۔‘‘ واصق کی پکار پر اس نے اپنا سر اٹھایا۔ خاموشی سے گردن اٹھا کر اسے دیکھا اور اسی خاموشی سے اٹھ کر اس کے قریب سے گزرتی ڈریسنگ کے سامنے کھڑی ہو کر ایک ایک زیور اتارنے لگی جو بھابی صبیحہ نے بڑے ارمانوں سے پہنایا تھا۔
واصق نے رخ موڑ کر ونیزے پر ایک سر سری مطمئن نگاہ ڈالی پھر وقت دیکھا رات کا ایک بج رہا تھا ۔ الماری سے دوسرا کمبل نکال کر وہ بیڈ آ گیا بستر پر بیٹھتے ہی اس نے کمبل کھولا، لیٹتے ہی اچھی طرح اوڑھا۔
’’سونے سے پہلے پلیز لائٹ آف کر دیجئے گا۔‘‘
کمبل میں سر دینے سے پہلے اس نے خاص ہدایت کی ۔ وہ روٹین کے مطابق ہی بیدار ہوا تھا۔ آنکھیں کھلتے ہی اس کی نظر سیدھی جائے نماز پر بیٹھی ہاتھ اٹھائے دعا مانگتی ونیزے پر پڑی۔ وہ بلا ارادہ ہی اسے کتنی دیر تک دیکھتا رہا۔ دعا مانگ کر وہ قرآن مجید لے کر صوفے پر بیٹھ کر تلاوت کرنے لگی تھی بہت آہستہ آواز میں۔ اسے قرآن مجید پڑھتے دیکھ کر واصق جہانگیر کے اندر ایک عجیب سا احساس جاگا تھا۔ کلاک دیکھا ابھی نماز کا وقت تھا۔ وہ فوراً اٹھ بیٹھا۔ بغیر ادھر اُدھر دیکھے وہ فوراً باتھ روم میں گھس گیا۔ جلدی سے وضو کر کے باہر کی راہ لی۔ اس کا ارادہ نماز ادا کرنے کا تھا۔
ابھی ونیزے تلاوت قرآن سے فارغ ہو کر بیٹھی ہی تھی کہ کمرے میںوجیہ ، جویریہ اور ان کی پھوپی زاد بہنیں اندر آ گئیں۔
’’بہت جلد اٹھ گئے تھے دونوں۔‘‘ جویریہ نے اس کے پاس بیٹھتے اردگرد طائرانہ نظر ڈالتے پوچھا۔
’’جلد آنکھ کھل گئی تھی۔‘‘
’’مشکل سے ہی کھلتی ہے ۔ میں تو ساری رات جاگنے کی وجہ سے صبح گیارہ بجے اٹھی تھی۔ وہ بھی بعد میں جھولتی رہی۔‘ ‘ جویریہ کے ہنس کر بتانے پر وہ مسکرا دی۔
’’یہ دلہا میاں کہاں ہیں؟‘ ‘ اس کا اشارہ واصق کی طرف تھا۔
’’پتا نہیں ۔ میں نماز ادا کر رہی تھی۔ جب وہ باہر نکل گئے۔‘
’’پتا نہیں ۔ میں نماز ادا کر رہی تھی۔ جب وہ باہر نکل گئے۔‘‘
’’اچھا…..ہم تمہیں تیار کرنے آئے تھے۔ تھوڑی دیر میں تمہارے گھر سے ناشتہ آ جائے گا۔‘‘ وہ اس کے قریب سے اٹھ کر الماری کھول کر اس کے لئے کپڑوں کا انتخاب کرنے لگیں۔ تھوڑی دیر میں جویریہ ، وجیہ اور دوسری کزنوں نے مل کر اسے تیار کر دیا تھا ۔ ہلکا پھلکا میک اپ کرنے کے بعد ایک ہلکا سا گولڈ کا سیٹ بھی پہنا دیا تھا۔
بازوئوں میں وجیہ کانچ کی چوڑیاں ڈالنے لگی تو اس نے منع کر دیا۔
’’میں یہ کنگن پہن لیتی ہوں۔‘‘ پہلی دفعہ اس نے خود سے کوئی رائے دی تھی۔
’’لگتا ہے یہ واصق بھیا کی طرف سے گفٹ ملا ہے۔‘‘ اس کے کنگنوں پر ہاتھ پھیرتے جویریہ کی کزن نے کہا تو اس جھینپتے ہوئے سر ہلا دیا۔
تھوڑی دیر تک وہ سب کے ساتھ باہر بیٹھی رہی پھر ناشتہ کے لئے جویریہ اسے دوبارہ کمرے میں لے آئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد واصق بھی آ گیا تو اس نے ٹرالی اپنی طرف کھسکا کر چائے بنائی۔ کپ اس کی طرف لے جاتے ہوئے وہ ذرا رکی تھی کہ شاید وہ لے یا نہیں۔
’’پلیز یہ چائے لے لیں۔‘‘ واصق باہر سے اخبار لے کر آیا تھا۔ اب وہ ناشتے کے بجائے اخبار کو چاٹ رہا تھا جب اس کی آواز پر اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ چائے لئے منتظر تھی۔ اس نے جلدی سے کپ تھام لیا۔
’’شکریہ۔‘‘
وہ دوبارہ صوفے پر جا بیٹھی۔
’’میں صرف چائے ہی پیوں گا کھانے کی طلب نہیں۔ پلیز آپ تکلف مت کریں۔‘‘ اسے سلائس پر جیم لگاتے دیکھ کر اس نے کہا تو ونیزے کے ہاتھ رک گئے۔ اسے دیکھا مگر وہ دوبارہ اخبار میں گم ہو چکا تھا۔ بے دلی سے اس نے تنہا ہی ناشتہ زہر مار کیا تھا۔
شام کو ولیمہ ہوٹل میں ہی منعقد ہوا تھا۔ چونکہ اگلی صبح پہلا روزہ تھا اسی لئے سب نے ہی شام میں ہی ولیمے کی تقریب نبٹا دینے پر اصرار کیا تھا۔ بھیا بھابی کی بھی یہی رائے تھی۔
ولیمے کی تقریب میں بھی وہ کسی ماورائی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ لوگوں کی نظروں کے ساتھ ساتھ آئینے نے بھی کہا تھا کہ وہ آج پہلے دن سے زیادہ حسین لگ رہی ہے مگر دل کے اندر کوئی لہر نہیں اٹھی تھی۔ اندر کا سمندر جو کا توں سا کن تھا۔ تنگ آ کر اس نے خود کو حالات کی گرفت میں چھوڑ دیا۔
سارے دن کی تھکن سے برا حال تھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ وہ کچھ بھی اتارے بغیر یونہی سو جائے جبکہ دوپہر میں بڑی امی اور جویریہ نے اسے نیند کی گولی دے کر سلا دیا تھا۔ پھر وہ ولیمے سے کچھ دیر پہلے بیدار ہوئی تھی مگر اب نرم و گرم بستر دیکھ کر اس خواب آ گیں ماحول میں اس کا دل اسے ایک گہری نیند لینے کو بار بار اکسا رہا تھا۔ پھر وہ خود کو زیادہ دیر تک نہ بہلا سکی۔ کپڑے ، زیور اتارے بغیر ہی وہ بستر پر گر گئی تھی۔ واصق کمرے میں سے باہر تھا جب تک وہ اندر آتا وہ تھوڑا سا آرام کر لیتی یہی سوچ کر اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔
صبح پہلا روزہ تھا وہ بچپن سے سارے روزے رکھتی آئی تھی اس دفعہ بھی سب روزے رکھنے کا پکاارادہ تھا اور ابھی تو اسے نماز تراویح بھی ادا کرنا تھیں۔ نیند آنے تک وہ یہی سوچتی رہی پھر جب نیند نے غلبہ پا لیا تو وہ اپنی آنکھیں بند ہونے سے نہ روک پائی۔
واصق کمرے میں آیا تو وہ بغیر زیور اتارے ، لباس تبدیل کئے محو خواب تھی۔ پتا نہیں وہ کتنا تھکی ہوئی تھی جو اسی حلئے میں بے خبر ہو گئی تھی۔ واصق کے اندر آ پوں آپ اس وجود کی بھر پور تھکن کا احساس جاگا تھا۔ دل چاہا لمحوں میں آگے بڑھ کر اس بے خبر وجود کی ساری تھکن خود میں سمیٹ لے۔ اتنا تو وہ کر سکتا تھا مگر وہ دل کو روک گیا۔
صبح جلدی اٹھنا تھا خیال آتے ہی اس نے لباس بدل کر بستر پر اپنی جگہ سنبھالی ۔ لائٹ یونہی جلتی رہنے دی تھی۔ ورنہ اسے ہمیشہ لائٹ آف کر کے سونے کی عادت تھی۔چونکہ وہ خود بھی خاصا تھکا ہوا تھا نرم و گرم بستر پر دراز ہوتے ہی لمحوں میں غافل ہو گیا تھا۔ سوتے سوتے ونیزے کو سخت گھبراہٹ ہوئی تھی اس نے اچانک آنکھیں کھول دیں۔ بے اختیار بستر پر اٹھ بیٹھی۔ ہونٹوں پر زبان پھیرتے اس نے اپنے اردگرد ایک نگاہ کی۔ جہاں اپنے حلئے کا احساس ہوا وہاں یہ بھی یقین ہو گیا کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہی تھی۔
’’کیا خواب دیکھا ہے میں نے؟‘‘ اپنے ذہن پر زور دیتے وہ بستر سے اتر گئی۔ ایک ایک زیور اتارتے وہ خواب کے متعلق ہی سوچ رہی تھی۔
اسے یاد آیا کہ اس نے دیکھا تھا وہ اور واصق ایک ایسی جگہ پر کھڑے ہیں جو پہلے تو بالکل سنسان اور ویران تھی پھر تھوڑی دیر بعد وہاں اِکاّ دُکاّ لوگ نظر آنے لگتے ہیں ۔ چند لمحوں بعد وہ اس سنسان جگہ پر چہل قدمی کر رہی ہوتی ہے کہ اچانک کہیں سے کوئی پرندہ تیزی سے اڑتا اس کی طرف آنے لگتا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اس پر حملہ کرتا وہ جلدی سے واصق کی طرف بڑھنے لگتا ہے کہ وہ واصق پر حملہ کرتا، ونیزے کی چیخیں نکل جاتی ہیں ساتھ ہی اس کی آنکھ بھی کھل جاتی ہے۔
’’اوہ میرے خدا اتنا بھیانک خواب۔‘‘ خواب کی تمام جزئیات یاد کرتے ہی اس کی پیشانی پھر تر ہو گئی۔ دل کی دھڑکن معمول سے زیادہ تیز تھی۔ خوف دہشت سے سارا جسم کانپ رہا تھا۔ وہ تیزی سے گلے سے اتارا زیور ڈریسنگ پر پٹختے واصق کے قریب جا رکی۔ وہ کمبل اچھی طرح لپیٹے سو رہا تھا ۔ ونیزے کا شدت سے جی چاہا کہ وہ اسے جھنجوڑکر اٹھا دے اور پھر پوچھے کہ وہ ٹھیک تو ہے۔ وہ ایک دو منٹ کھڑی رہی پھر اپنی سوچ پر عمل کرنے کے بجائے دوبارہ ڈریسنگ کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ سارا زیور سنبھال کر اپنا نائٹ ڈریس نکال کر پہلے ولیمے والا لباس اتارا پھر وضو کر کے جائے نماز بچھالی۔
X X X
رمضان المبارک کا با برکت رحمتوں والا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ وہ روز صبح سحری کے وقت اٹھ جاتی تھی۔ بڑی امی، چھوٹی چچی اور وجیہ سحری تیار کرتیں تو وہ چپ چاپ دیکھتی رہتی ۔ ایک دو دفعہ ہاتھ بٹانا چاہا تو دادی جان نے اچھی خاصی ڈانٹ پلا کر بٹھا دیا کہ ان کے گھر میں نئی دلہن دو ماہ تک کسی چیز اور کام کو ہاتھ نہیں لگاتی، ان کی محبتوں کی وہ پہلے ہی گرویدہ تھی اب بھی نہال ہو گئی۔
افطاری کے وقت وہ اور واصق اور دیگر اہل خانہ کہیں نہ کہیں انوائٹڈ ہوتے تھے۔ نئی نئی شادی ہوئی تھی روز کوئی نہ کوئی دعوت دینے چلا آتا تھا۔
آج چوتھا روزہ تھا وہ سب ہی بڑی امی کی بہن کے ہاں انوائٹڈ تھے۔ امی کی خاص تاکید تھی کہ دونوں افطاری سے دو تین گھنٹے پہلے ہی چلے جائیں۔ باقی سب بعد میں آ جائیں گے۔ چونکہ امی کا حکم تھا سو دونوں تین بجے ہی تیار ہو گئے۔جویریہ کی ہر روز فرمائش اور پھر دھمکیوں پر اس نے بلیک ساڑھی پہنی تھی۔ موسم کی مناسبت سے کندھوں پر گرم شال لپیٹ لی تھی۔ جویریہ نے ہی اسے تیار کیا تھا۔ سج سنور کر وہ اور بھی خوبصورت لگنے لگی تھی۔ واصق بھی بالکل تیار تھا وہ جویریہ کے ہمراہ نکلی تو بڑی امی اسے اس روپ میں دیکھ کر نہال ہو گئیں۔
’’ماشا اللہ اللہ نظر بد سے بچائے ۔‘‘ انہوں نے والہانہ پیار کرتے اس کا ماتھا چوما تو دادی اماں نے بھی اسے گلے لگا لیا۔
’’جیتی رہو، خدا سدا سہاگن رکھے۔‘ امی کی طرح پیار کرتے انہوں نے بھی دعا دی ۔ وہ جھینپ سی گئی ایکدم بلش ہوئی تھی۔ واصق جو اس کی کیفیت سے بے خبر یہ سب مظاہرے دیکھ رہا تھا ۔ دیر ہو جانے کے احساس سے چڑ گیا۔
’’اب چلیں بھی …..اور کتنا وقت لگانا ہے۔‘‘ اپنی ناگواری چھپاتے اس نے کہا تو امی نے اسے گھورا۔
’’تمہیںبڑی جلدی ہے دو منٹ انتظار کر لو۔‘‘ انہوں نے اسے جھڑکا تھا۔ امی کا صاف جواب سن کر وہ پائوں پٹختے باہر نکل گیا ۔ ونیزے اپنی جگہ سہم سی گئی نجانے وہ اب اسے کیا کہے۔
’’لو …..اسے کیا ہوا۔ ‘‘ دادی اماں کے لئے یہ سب نیا تھا وہ حیران ہوئیں ، امی جو کہ واصق کے روپوں ، انکار اور اب خاموش پالیسی اور چڑ چڑے پن سے اچھی طرح باخبر تھیں ، انہوں نے فوراً بات بدلی۔
’’کچھ نہیں…..بس یونہی چڑ چڑا ہو رہا ہے۔ چلو جائو ونیزے ! وہ باہر گاڑی میں انتظار کر رہا ہو گا۔‘‘ اماں کو کہتے انہوں نے اسے بھی اشارہ کیا۔ وہ بے دلی سے اٹھ آئی ۔ اسے واصق کے یہ روّیے اندر ہی اندر بہت تکلیف دیتے تھے۔ اب بھی وہ کچھ غمگین سی ہو گئی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ باہر نکلتی وجیہ نے اسے پیچھے سے آواز دی۔
’’ونیزے بھابی! آپ کی بھابی کا فون ہے آ کر سن لیں۔‘‘
بھابی کاسنتے ہی وہ فوراً ٹیلی فون کی طرف لپکی جلدی سے ریسیور کان سے لگایا۔
’’ہیلو بھابی! السلام علیکم۔‘‘
’’وعلیکم السلام۔ اچھی ہو نا ۔‘‘ انہوں نے پوچھا ۔
’’جی۔‘‘
’’واصق کہاں ہے؟ ذرا اس سے بات تو کرائو ۔‘‘
’’وہ تو باہر ہیں ۔ ایک منٹ رکیں میں بلواتی ہوں۔‘‘ انہیں کہہ کر اس نے اپنے پاس کھڑی وجیہ کو اشارے سے واصق کو بلانے کا کہا۔
’’بھابی بھیّاکہاں ہیں؟ وہ ٹھیک ہیں؟‘‘ اس نے دوبارہ کان سے ریسیور لگایا۔
’’ہاں…..نہیں …..‘‘ بھابی کی سوچتی ابھرتی آواز تھی وہ چونک گئی۔
’’بھابی ! کیا بات ہے؟ خیریت تو ہے نا؟‘‘ ان کے انداز سے اسے غیر معمولی صورت حال کا اندازہ ہوا تو بے قراری سے پوچھا۔
’’خیریت نہیں ہے ونیزے ! میں بہت پریشان ہوں ۔ پلیز واصق سے بات کرائو۔‘‘ بھابی ایک دم رونے لگی تھیں۔ وہ حیران رہ گئی۔ واصق بھی آ گیا تھا اس نے الجھتے ہوئے فون اس کی طرف بڑھا دیا خود بے چینی سے اسے دیکھنے لگی۔
’’السلام علیکم بھابی۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔
’’وعلیکم السلام۔ پلیز واصق جلدی آ جائو امجد کا محبوب رحمانی سے بری طرح کلیش ہو گیا ہے ۔ وہ خاصے زخمی ہو گئے ہیں۔ میں ہاسپٹل سے بات کر رہی ہوں ۔ ونیزے کو لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس تم خود ہی آ جائو۔‘‘ ایک اچٹتی نظر پریشان ونیزے کے بے چین چہرے پر ڈالی اور پوچھا۔
’’کون سے ہاسپیٹل میں ہیں؟‘‘ ونیزے ہاسپیٹل کا لفظ سن کر اور پریشان ہو گئی۔
’’جی اچھا میں فوراً پہنچتا ہوں۔ آپ فکر مت کریں۔‘‘ بھابی نے جیسے ہی ہاسپیٹل کا نام بتایا اس نے فون بند کر دیا۔ ونیزے کی طرف دیکھے بغیر وہ جانے لگا تو اس نے فوراً روکا۔
’’سنیے کیا ہوا ہے؟ بھابی کیا کہہ رہی تھیں اور ہاسپیٹل میں کون ہیں؟‘‘ وہ روہانسی اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی ۔ واصق نے ایک گہری سانس لی۔
’’کوئی نہیں ، بس ضروری کام سے جا رہاہوں ۔ آپ گھر والوں کے ساتھ ڈنر پر چلی جائیے گا۔‘‘
’’جھوٹ مت بولیں۔ بتائیے کیا ہوا بھیّا کو؟‘‘ اس کے یوں بہلانے پر وہ ایک دم رو پڑی۔
’’کچھ نہیں ہوا۔ بس ہلکا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ میں اس وقت وہیں جا رہا ہوں ۔ ‘‘ واصق نے اسے اصل صورت حال بتانے سے پھر بھی احتراز کیا تھا ۔ وہ کتنے کمزور دل کی مالک تھی وہ اچھی طرح جانتا تھا ۔ اس کے باوجود وہ ایکسیڈنٹ کا لفظ سن کر اس کے حواس باختہ ہو گئے۔ ہونٹوں پر ہاتھ رکھے اس نے دیوار کا سہارا لیا۔
’’نہیں…..‘‘ ہونٹوں سے بمشکل نکلا۔
’’پلیز ونیزے ! وہ ٹھیک ہیں پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔‘ ‘ اسے تسلی دینے کو اس نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ پھُوٹ پھُوٹ کر رو دی۔
’’میں بھی جائوں گی آپ کے ساتھ۔ ‘‘ بچوں کا سا ضدی انداز تھا۔ واصق نے وقت دیکھا اور پھر اس پر نظر ڈالی ۔ اس حلئے میں وہ اسے کہاں لے کر جاتا۔
’’نہیں، آپ کسی اور کے ساتھ بعد میں آ جائیے گا۔ میں فون کر دوں گا۔‘‘ اسے عجلت میں کہتے وہ اندر کچن میں امی کو بتانے چلا گیا۔
واصق رات گئے لوٹا تو ونیزے نے رو رو کر بری حالت کر لی تھی۔
اسے دیکھتے ہی وہ دادی اماں کی گود سے نکل کر بے اختیار اس کی طرف بڑھی۔
’’کیا ہوا بھیا کو ؟ کیسے ہیں وہ ؟ اور آپ نے فون کیوں نہیں کیا تھا۔‘‘ واصق کا بازو پکڑ کر جھنجوڑتے وہ بے اختیار رو رہی تھی۔ نہ ہی اسے اپنا ہوش تھا نہ ہی اردگرد موجود لوگوں کا ۔
’’ٹھیک ہیں وہ ۔ صبح لے جائوں گاآپ کو بھی۔‘‘ اس کا بازو تھام کر اسے دوبارہ دادی اماں کے تخت پر لا بٹھایا۔ پھر خود بھی ساتھ ہی بیٹھ گیا۔
ابو، چھوٹے چچا، شہروز ، مہران ، امی ، دادی جان ، وجیہ وغیرہ سب ہی اصل صورت حال جاننے کے منتظر تھے۔ اس نے چیدہ چیدہ ساری بات کہہ سنائی ساتھ یہ تسلی بھی دی کی امجد بھائی ٹھیک ہیں۔ تشویش والی کوئی بات نہیں۔ ونیزے تو محبوب رحمانی کا نام سن کر ہی کانپ گئی تھی اور شدت سے رونے لگی۔
’’یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔‘‘ یہی سوچ اسے مزید ڈس رہی تھی۔
صبح وہ واصق کے ساتھ ہی بھیا کو دیکھنے ہاسپٹل گئی تھی۔ وہ ہوش میں تھے۔ زخم بھی نارمل تھے۔ اسے دیکھ کر وہ مسکرائے بھی۔
’’کیسی طبیعت ہے اب آپ کی؟‘‘ کوشش کے باوجود آنسوو ئوں کو چھلکنے سے روک نہیں پائی تھی۔
’’ٹھیک ہوں بیٹا۔‘‘ اس کے سر پر اپنا پر شفقت ہاتھ رکھتے انہوں نے تسلی دی۔
’’یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے نا۔‘‘ ان کے ہاتھ کو ہونٹوں سے لگاتے وہ پھُوٹ پھُوٹ کر رو دی۔
’’ارے نہیں میری جان، ایسا کیوں سوچتی ہو ۔ بس بزنس کی بات پر جھگڑا ہوگیا تھا۔ سنبھالو خود کو ، واصق پلیز تم ہی اسے سمجھائو…..‘‘ اسے چپ کراتے کراتے انہوں نے واصق کو بھی دیکھا تو وہ آگے بڑھ آیا۔ بھیا کے بستر پر بیٹھی ونیزے کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’ونیزے بھیا کو کیوں پریشان کر رہی ہو۔ پلیز سنبھالو خود کو ۔‘ کندھے پر دبائو ڈالتے نہایت تحکم بھرے لہجے میں کہا گیا تھا ۔ ونیزے نے فوراً اپنے آنسو صاف کئے۔
وہ کافی دیر تک ان کے پاس ٹھہری تھی۔ اس دوران واصق بھی وہیں رہا تھا ۔ پورے تین گھنٹے بعد اس نے اس کو چلنے کو کہا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔
’’مجھے نہیں جانا ، میں بھیا کے پاس رہوں گی۔‘‘ بھیا ابھی آدھ گھنٹہ پہلے ہی سوئے تھے۔ واصق کو اس کے یوں منہ اٹھا کر انکار کر دینے سے غصہ بہت آیا۔ بھابی کی موجودگی کا خیال کرتے پی گیا۔
’’یہاں بھابی ہیں ، گھر سے امی اور دادی جان بھی آ جائیں گی۔ آپ میرے ساتھ واپس چلیں۔‘‘ بھابی کو دیکھتے ہی اس نے تیزی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور باہر لے آیا۔ باہر آتے ہی ونیزے نے سختی سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔
’’میں یہیں رہوں گی۔ مجھے نہیں کہیں جانا۔‘‘
دماغ تو ٹھیک ہے آپ کا۔ جانتی ہیں کتنا خطرہ ہے آپ کو۔‘‘
’’تو کیا ہوا، مجھے ہی خطرہ ہے نا، آپ کو تو نہیں۔‘‘ بد تمیزی سے جواب دینا اور بحث کرنا اس کی عادت نہیں تھی مگر واصق کے روّیے نے اسے بولنے پر مجبور کر دیا تھا۔ انتہائی بے خوفی سے واصق کی آنکھوں میں دیکھتی کہہ رہی تھی۔
’’دماغ چل گیا ہے آپ کا۔ وہ شخص جو آپ کے بھائی کو زخمی کر وا سکتا ہے آپ کو بھی کوئی تکلیف پہنچا سکتا ہے ۔ اب تو اسے یہ سب علم ہے کہاں رہتی ہیں ، کہاں جاتی ہیں ، کب جاتی ہیں اور کس کے ساتھ جاتی ہیں۔‘‘
’’تو ہونے دیں ۔ آپ کو اس سے کیا ۔ اگر مروں گی تو میں ہی نا۔ آپ کا یہ درد سر نہیں ہے۔ ‘‘ انتہائی بد تمیزی سے اس نے کہا تھا۔ واصق تاسف بھری نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔
’’آپ میری بیوی ہیں آپ کی حفاظت کرنا میری ذمہ داری ہے۔‘‘
’’ہونہہ…..کس نے کہا ہے میں آپ کی بیوی ہوں یا مجھے آپ کی حفاظت کی ضرورت ہے۔‘‘ آج واقعی ونیزے کا دماغ چل گیا تھا جو اس قدر بد تمیزی کرتی جا رہی تھی۔
’’شٹ اپ ونیزے ! میں مزید کچھ نہیں سنوں گا۔ آرام سے گھر چلیں۔‘‘
’’ہونہہ…..مجھے کہیں نہیں جانا۔ یہ ڈر ڈر کر اب مجھ سے نہیں جیا جاتا۔ تنگ آ گئی ہوں اس قیدیوں کی سی زندگی سے۔‘‘ اسی کے لہجے میں کہہ کر وہ واپس بھیا کے کمرے میں جانے لگی تو اتنی دیر سے اس کی لن ترانیاں برداشت کرتا واصق حقیقت میں آئوٹ ہو گیا۔ فوراً اس کا بازو دبوچا اور تیز تیز قدم اٹھاتا پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف لے آیا۔ اگلی سیٹ کا دروازہ کھول کر اسے اندر دھکیلا دروازہ لاک کر کے دوسری طرف خود بھی آ کر بیٹھ گیا۔ واصق نے یہ سب اتنی جلدی کیا تھا کہ وہ کوئی بھی مزاحمت نہیں کر سکی تھی۔ بے بسی سے باہر دیکھنے لگی۔ گھر آ کر کمرے میں داخل ہونے کے بعد واصق نے اس کا بازو چھوڑ دیا۔
’’میں آج تو آپ کی بد تمیزی برداشت کر گیا ہوں ، آئندہ نہیں کروں گا۔ آپ کو اپنی جان کی پروا نہیں مگر اور بہت لوگوں کو ہے۔ میں اس لب و لہجے کا عادی نہیں ہوں ۔ عزت کرتا بھی ہوں اور کرواتا بھی ہوں ۔ مائنڈ اٹ …..‘‘
دوٹوک انداز میں اسے باور کراتے وہ باہر نکل گیا تھا۔ بستر پر گرتے ہی اس کا جی چاہا کہ اپنے نصیبوں کو پھُوٹ پھُوٹ کر روئے۔
وہ صرف ایک دفعہ ہی بھیا کو دیکھنے گئی تھی۔ اس کے بعد اسے خطرہ ہے کہہ کر واصق نے اسے کہیں بھی لے جانے سے انکار کر دیا تھا۔ اور بد قسمتی یہ تھی کہ دوسرے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ کسی اور کے ساتھ تو جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس روز کے بعد واصق کے تیور ہی بدل گئے تھے۔ جب بھی بات کرتا تھا خاصا جارحانہ موڈ ہوتا تھا۔ شائستہ اطوار ناشائستگی میں بدل گئے۔ کچھ اس نئی ٹینشن کی وجہ سے روز بروز ونیزے کے اندر بھی برداشت کم ہوتی جا رہی تھی۔ ہر وقت خود بھی کڑھتی رہتی تھی اور کوئی نہ کوئی ایسی بات یا حرکت کر جاتی تھی کہ اچھا خاصا کول مائنڈ واصق بھی جھنجلا اٹھتا۔
بھیا ہاسپٹل سے گھر شفٹ ہو گئے تھے۔ اس کا بہت دل چاہ رہا تھا کہ وہ انہیں گھر جا کر دیکھ آئے۔ عرصہ ہو گیا تھا اسے اپنے گھر گئے ہوئے۔ مگر مجبوری یہ تھی کہ کوئی اسے وہاں لے کر نہیں جا رہا تھا۔
’’جویریہ کو واپس اپنے سسرال پشاور جانا تھا۔ واصق بڑی امی اور چچی جان اسے ائیر پورٹ تک چھوڑنے گئے تھے۔ باقی سب اپنے اپنے کاموں پر نکل گئے تھے۔ گھر میں سوائے اس کے وجیہ اور دادی اماں تھی۔ تھوڑی دیر بعد دادی اماں بھی سو گئیں تو اس کا ذہن بہت تیزی سے کام کرنے لگا۔
’’وجیہ مجھے بھیا کے ہاں جانا ہے میرے ساتھ چلو گی۔‘‘
’’کیا …..؟‘‘ وہ حیران ہوئی یوں دیکھا جیسے واقعی ونیزے کا دماغ چل گیا ہو۔ ’’اس وقت تو گھر پر کوئی نہیں ہے۔ واصق بھیا تھوڑی دیر میں آ جائیں تو پھر چلی جائیے گا۔‘‘
’’تمہارے بھیا تو قیامت تک وہاں نہیں لے کر جائیں گے اور اب میں مزید اپنے گھر سے دور نہیں رہ سکتی۔ یہ سارا رسک میں نے اسی لئے لیا تھا ورنہ میرا دماغ خراب نہیں تھا کہ میں اس جیسے سر پھرے شخص سے شادی کرتی۔‘‘
وہ بہت برداشت کر رہی تھی۔ اب مزید چپ نہیں رہ سکتی تھی۔ سارا غصہ وجیہ کے سامنے نکلا وہ تو حیران ہو کر صرف اسے دیکھتی رہ گئی۔
بغیر کچھ سوچے سمجھے ونیزے نے کمرے میں آ کر پہلے اپنا بیگ لیا پھر تیزی سے ڈرائنگ روم میں آ کر وجیہ کو بتایا۔
’’میں اپنے گھر جا رہی ہوں۔ دادی اماں وغیرہ کو بتا دینا۔‘‘ وہ ہر طرح کے ڈر خوف سے بے نیاز تھی۔ وجیہ تو پریشان ہو گئی۔
’’اکیلے؟‘‘
’’تو کیا تم ساتھ چلو گی؟‘‘ اس نے الٹا اسی سے سوال کر دیا تو اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...