’’میں واصق جہانگیر ہوں۔ جہانگیر کا بیٹا۔ آپ پلیز اندر خبر کر دیں۔‘‘ وہ اس شاندار آفس میں کھڑا نک سک سے تیار ، خوبصورت انداز و اطوار کی مالک سیکرٹری سے مخاطب تھا۔ واصق کے انداز میں کوئی ایسی خاص بات ضرور تھی کہ اس نے فوراً سر اٹھا کر سرتاپا واصق کا جائزہ لیا۔
اس نے بہت سے مرد دیکھے تھے۔ وہ کچھ جدا سا تھا۔ لاتعلق سا، اجنبی مگر اٹریکٹو۔
’’یس……‘‘سر ہلاتے ہوئے اس نے اندر انٹر کام پر اطلاع دی۔
’’آپ پلیز اندر چلے جائیں۔‘‘ دوسری طرف سے اجازت ملتے ہی وہ اٹھ کر دروازے کی طرف اشارہ کر گئی۔
’’شکریہ ۔‘‘ اسی لاتعلق انداز میں کہتا وہ دروازے کی طرف بڑھا ۔ وہ جیسے ہی اندر داخل ہوا سیکرٹری کرسی پر بیٹھتے ہی بڑبڑائی۔
’’بندہ تو شاندار ہے مگر ہے خاصا مغرور۔‘‘
’’السلام علیکم!‘‘ اس قدر شاندار آفس میں داخل ہو کر سامنے کرسی پر براجمان امجد جواد حسن کو اس نے سلام کیا تو وہ ایک دم اٹھ کر اپنی کرسی چھوڑ کر اس کی طرف بڑھا۔
’’وعلیکم السلام۔ اچھا تو آ پ ہیں واصق۔ جہانگیر انکل کے صاحبزادے ۔‘‘ بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملاتے امجد نے کہا۔ پھر اسے لے کر دوسری طرف رکھے صوفوں پر آ بیٹھا۔
’’آپ تو شاید پشاور گئے ہوئے تھے۔ کسی اہم مشن پر ۔‘‘ امجد بھائی نے پوچھا تو واصق اندر ہی اندر خاصا جھنجلایا۔
’’آپ کو کس نے بتایا؟‘‘ تھوڑا سا تکلف میں بیٹھتے اس نے بغور انہیں دیکھا۔
’’آپ کے والد محترم نے۔‘‘ ابو کے متعلق جان کر اسے مزید غصہ آیا۔ ’’ایک تو میرے گھر والے کسی بات کو راز نہیں رکھ سکتے۔‘‘
وہ دل ہی دل میں بڑ بڑایا مگر بظاہر مسکرا دیا۔
’’بس جیسے ہی کام ختم ہوا میں واپس آ گیا۔‘‘
’’پھر کیسا رہا آپ کا مشن ۔‘‘ انہوں نے مزید دریافت کیا۔
’’بہت اچھا۔ میری توقع سے بہت بڑ ھ کر ۔ ‘‘ اسے اب سب بتانا مجبوری تھا۔ ورنہ اتنی پرسنل گفتگو وہ کسی سے بھی نہیں کرتا تھا۔ ایک تو یہ کہ یہ شخص ونیزے کا بھائی تھا۔ دوسرے وہ خود چل کر اس کے پاس آیا تھا۔
’’کیا لیں گے آپ ؟ چائے یا کولڈ ڈرنک۔‘‘ سائیڈ ٹیبل پر رکھے انٹر کام کا ریسیور اٹھاتے انہوں نے پوچھا تو اس نے چائے کا کہہ دیا۔
’’میں تین روز پہلے ہی اپنے گھر لوٹا تھا وہاںآپ کی بہن کو دیکھا۔ ساری صورتحال جان کر ازحد دکھ ہوا۔ آج کسی کام سے ادھر گزر ہوا تو سوچا لگے ہاتھ آپ سے بھی مل لوں۔‘‘ اس نے اپنی آمد کے متعلق بتایا وہ مسکرا دئیے۔
’’ونیزے کیسی ہے خوش تو ہے وہ وہاں؟‘‘
’’ٹھیک ہیں۔ جہاں تک خوش رہنے کی بات ہے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ البتہ اتنا کہہ سکتا ہوں وہ کافی اداس ہیں، شاید آپ کی منتظر بھی۔ ‘‘ اس نے جلد ہی اصل بات کہہ دی۔ ابھی وہ جواب میں کچھ کہنا چاہتے تھے جب ملازم اندر داخل ہوا۔ انہوں نے ہونٹ بھینچ لئے ۔ ملازم برتن رکھ کر چلا گیا تو انہوں نے چائے کا کپ تھام کر واصق کو پکڑایا۔
’’شکریہ۔‘‘
’’یاد تو مجھے بھی اس کی بہت آتی ہے ۔ فی الحال ابھی ہم نہیں آ سکتے ۔ وہ اگر وہاں خوش نہیں تو ناخوش بھی نہیں ہے۔ اتنا تو مجھے آپ لوگوں پر یقین ہے۔ یہاں کے حالات سنورنے کے بجائے روز بروز بگڑتے ہی جا رہے ہیں۔ محبوب رحمانی روز کوئی نیا شوشہ لئے چلا آتا ہے۔ پھر یہ بھی ڈر ہے کہ وہ کہیں ہمارا پیچھا کرواتے ہوئے آپ لوگوں تک نہ پہنچ جائے ۔ ونیزے کے ساتھ ساتھ مجھے آپ لوگوں کی بھی فکر ہے۔ ہماری خاطر آپ لوگوں کو کافی زحمت اٹھانا پڑ رہی ہے۔‘‘
’’ارے نہیں……زحمت کیسی ۔ رشتے دار ہونے کے ناتے یہ تو ہمارا فرض ہے ۔ اچھا کیا آپ نے ہم پر بھروسہ کیا بے فکر رہیں۔ ونیزے وہاں محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ میں ہر طرح سے تعاون کرنے کی کوشش کروں گا۔ اسے آنچ تک نہیں آئے گی۔ بلیو می۔‘‘ اس نے پُر عزم لہجے میں یقین دلایا۔ امجد نے بغور واصق کا جائزہ لیا۔ ایکدم انہیں اپنا مسئلہ کافی حد تک حل ہوتا محسوس ہوا۔ واصق جہانگیر کی پرسنالٹی نظر انداز کر دینے والی نہ تھی۔ بلو تھری پیس سوٹ میں ملبوس وہ بہت زیادہ با رعب ، سنجیدہ ، پر وقار اور ذہین لگ رہا تھا۔ انہیں ونیزے کے لئے کسی ایسے ہی مضبوط ، پُر عزم نڈ ر شریک سفر کی ضرورت تھی۔ جو حالات سے لڑنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ حالات سے آگاہی رکھتا ہو۔ نہ صرف ونیزے کے لئے ایک مضبوط قلعہ ثابت ہو بلکہ انہیں بھی محبوب رحمانی کی چالاکیوں کے چنگل سے نکالنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ ان کے ذہن نے لمحوں میں ایک فیصلہ کیا تھا۔ اتنے عرصے کی پریشانی یکدم مفقود ہو گئی تھی۔
’’آپ ونیزے کو تسلی دیجئے گا ہم انشا اللہ دو ایک روز میں آپ کے ہاں چکر ضرور لگائیں گے۔‘ ‘
’’ضرور۔‘‘ اس نے بھی خوش دلی سے ہامی بھری۔
وہ مزید کچھ دیر رکا تھا۔ زیادہ تر محبوب رحمانی کے متعلق دریافت کرتا رہا پھر وہ محبوب رحمانی کے متعلق ضروری کاغذات لے کر ان سے اجازت لیتا باہر نکل آیا۔
گھر لوٹا تو سیدھا اپنے کمرے میں گھس گیا۔ ابھی لیٹا ہی تھا کہ امی بھی پیچھے چلی آئیں۔
’’کہاں تھے تم؟‘‘ اسے اٹھ کر بیٹھتے دیکھ کر انہوں نے پوچھا۔
’’بس یونہی ادھر اُدھر گھومتا رہا تھا۔ ‘‘ کوٹ اتار کر ٹائی کی گرہ کھول کر اس نے شرٹ کے بٹن بھی کھولنا شروع کر دیئے تھے۔
’’کھانا لائوں تمہارے لئے۔ ‘‘ کف لپیٹتے اسے دیکھا تو انہوں نے پوچھا۔
’’ضرور مگر ابھی نہیں۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد۔‘‘ مسکراتے ہوئے کہا تو امی قریب ہی بیٹھ گئیں۔ محبت سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگیں جبکہ وہ جھک کر اپنے پیروں کو جوتوں اور جرابوں سے آزاد کروانے لگا تھا۔
’’تمہاری چھٹیاں کب ختم ہو رہی ہیں؟‘‘ اگلا سوال ہوا۔
’’پتا نہیں ۔‘‘ جوتے بیڈ کے نیچے کھسکاتے وہ سیدھا ہوا۔
‘‘کیوں؟‘‘
’’میرے افسران کا حکم ہے کہ عید تک میں ٹوٹلی فارغ ہوں۔ آرام سے خوب موج مستی کروں۔ شاید عید کے فوراً بعد وہ مجھے کسی اور مشن پر بھیجنا چاہتے ہیں۔لیکن کہاں یہ نہیں بتایا ۔ بس یہ دو ماہ کا دورانیہ مجھے آرام کے لئے ہی دیا ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے تم دو ماہ تک گھر پر ہی رہو گے۔‘ ‘اس کا انداز پُر سوچ تھا۔ اس نے سر ہلا دیا۔ ’’شکر ہے میری بھی دلی مراد بر آئی۔ ورنہ جب سے تم نے یہ جاب شروع کی ہے مہینوں بعد تمہاری صورت دیکھنے کو ملتی ہے۔‘‘ پھر مسکراتے ہوئے ان کا انداز معنی خیز ہوا۔ ’’اب میں اپنی خواہش بھی پوری کروں گی۔ تمہاری اپنی کوئی پسند ہے تو بتا دو۔ ورنہ خود ہی کوئی اچھی سی لڑکی دیکھ کر تمہاری شادی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ امی نے کہا وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگا۔ وہ واقعی سنجیدہ تھیں۔ وہ ہنس دیا۔
’’نہیں امی…..ابھی نہیں۔ ابھی تو مجھے بہت کام کرنا ہے۔‘ ‘ صاف بہانہ تھا۔
’’ساری عمر تمہیں یہی کام ہی کرنے ہیں۔بس اب میں کچھ نہیں سنوں گی۔ ہمارے لئے یہ دو ماہ ہی بہت ہیں۔ پہلے ہی تمہارے فارغ ہونے کی منتظر تھی۔ اب کوئی بہانہ نہیں ملے گا۔بس اتنی رعائیت ہے کہ اگر کوئی لڑکی دیکھ رکھی ہے تو ہمیں بتا دو ورنہ ہم خود دیکھ کر دیں گے۔‘‘
’’پسند …..‘‘ وہ پُر سوچ انداز میں بولا۔ چھنا کے سے ذہن کی سطح پر کانچ سے وجود والا آنسوئوں سے تر چہرہ آسمایا ۔ خود بخود اس کے ہونٹوں پر ایک دلربہ سی خوبصورت مسکراہٹ ابھری تھی۔ الو ہی جذبوں سے مزّین۔
امی جو اسے بغور دیکھ رہی تھیں۔ اس کے چہرے پر دم بدم گہری ہوتی مسکراہٹ کو پڑھنے کی کوشش کرنے لگیں۔
’’کون ہے وہ؟‘‘ نجانے انہوں نے اس کے تصور تک رسائی حاصل کر لی تھی یا نہیں، پوچھا ، ضرور تھا ۔ وہ ایکدم سٹپٹا گیا۔ نفی میں سر ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔ مقصد امی سے بچنا تھا۔
’’ابھی تک تو کوئی نہیں۔‘‘ کوٹ اٹھا کر الماری میں رکھتے واصق نے کہا۔ ’’اور پلیز امی ! ابھی اس ٹاپک کو رہنے دیں ۔ ابھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اگر مجھے کوئی پسند آ گئی تو پہلی فرصت میں آپ کو ہی بتائوں گا۔ ‘‘ اس کا مقصد فی الحال امی کو ٹالنا تھا۔ وہ سب سمجھ رہی تھیں۔ اس کے گریز میں چھپا مفہوم ان کی سمجھ میں آ رہا تھا مگر تصور واضح نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’ٹھیک ہے۔ مگر یہ بھی سن لو میں زیاد ہ دیر تک انتظار نہیں کروں گی۔ کوئی پسند ہے تو بتا دو دوسری صورت میں لڑکی دیکھ چکی ہوں۔ پھر مت کہنا کسی نے مجھ سے پوچھا نہیں۔‘‘ انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہتے فیصلہ سنایا تو وہ چونک کر امی کو دیکھنے لگا۔
’’کون ہے وہ لڑکی ؟‘‘ بے اختیار پوچھا، چہرے پر چھائی پریشانی واضح تھی۔ امی ایکدم مسکرائیں۔
’’تم نے مجھے بتایا ہے جو میں بتا دوں ۔ اچھی طرح پہلے سوچ لو۔ بعد میں بتا دینا۔‘‘
خوشگوار لہجے میں کہتی اس کے بالوںکو چھیڑتے وہ باہر نکل گئی تھیں۔
وہ ٹی وی آف کر کے زینہ طے کرتے اوپر ٹیرس پر آ گیا ۔ آج بہت دنوں بعد اس کا دل یہاں ٹہلنے کو چاہ رہا تھا۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ سب اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لئے جا چکے تھے۔ اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ پہلے ٹی وی لگا کر بیٹھا جب دل نہ مانا تو یہاں آ گیا تھا۔ شعبان کا مہینہ چل رہا تھا۔ آج شاید شعبان کی ساتویں یا آٹھویں تاریخ تھی۔ آسمان پر چاند آدھا تھا اس کے باوجود اردگرد کافی روشنی بکھری ہوئی تھی۔ ٹھنڈی میٹھی معطر پھوار برس رہی تھی۔ آج کل جو آگ اس کے اندر لگی ہوئی تھی وہ بھی کبھی ٹھنڈی میٹھی پھوار بن کر اس کے پورے وجود کو بھی معطر کر دیتی تھی اور کبھی پورے وجود میں بھڑک کر اس کو بھی بھڑکانے لگتی تھی۔
وہ جو خود کو ہمیشہ سے ہی ناقابل تسخیر سمجھتا آیا تھا۔ اس قدر اچانک غیر متوقع طور پر اس بے حواس پاگل پاگل سی لڑکی ہاتھوں تسخیر ہو چکا تھا۔ سب سے زیادہ حیرت بھی اس بات پر ہو رہی تھی کہ وہ جو چھوٹی چھوٹی خلاف فطرت بات پر چڑ جاتا تھا ہنگامہ کھڑا کر دیتا تھا اب ان چند دنوں میں اس قدر بدل گیا تھا کہ اپنے اندر ہونے والی یہ واردات بھی اچھی لگ رہی تھی۔ مگر وہ لڑکی ونیزے ، وہ ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ واصق کو دیکھتے ہی اس کے چہرے پر ناپسندیدگی کی واضح لہر چھا جاتی تھی کہ اسے خواہ مخواہ وہم ہونے لگتا تھا کہ جیسے وہ واقعی کوئی غلط کریکٹر کا حامل شخص ہے۔واصق کو اس کی نظروں کی کاٹ سے اب الجھن ہونے لگی تھی۔ دوسری طرف امی نے اسے الجھا دیا تھا۔ جو بار بار اسے اس کی پسند کے متعلق پوچھتے ، اسے زچ کئے دے رہی تھیں۔ کتنی دفعہ لبوں پر ونیزے کا نام آ کر رہ گیا تھا۔اسے اب خود پر بھی غصہ آنے لگا تھا۔ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے آنکھیں بند کئے وہ یونہی کھڑا رہااسے سوچتا رہا کہ اچانک ماحول میں کچھ ارتعاش سا پیدا ہوا تھا۔ اس نے یونہی آنکھیں کھول کر دیکھا تو بے یقین ہوا گرین سوٹ میں ملبوس وہ بلا شبہ ونیزے ہی تھی۔آہستہ آہستہ زینہ طے کر کے اوپر آ رہی تھی۔ اس کا سر اچھا خاصا جھکا ہوا تھا۔ وہ صرف اپنے پیروں پر نظریں جمائے چل رہی تھی یا پھر زمین پر کچھ تلاش کر رہی تھی۔ وہ بغیر ادھر اُدھر دیکھے ، کسی طرف دھیان دیئے، ناک کی سیدھ پر چلتی بالکونی کے دوسرے سرے پر رکھی کرسیوں میں سے ایک پر جا بیٹھی۔ چونکہ وہ اچھے خاصے اندھیرے میں کھڑا تھا۔ اس لئے ونیزے نے سر اٹھا کر ادھر اُدھر دیکھنے کے باوجود اسے نہیں کھوجا تھا۔ ایک سر سری نظر ڈال کر وہ دوبارہ اپنی جھولی میں رکھے ہاتھوں کو ایک دوسرے میں پھنسائے باہر دیکھتی رہی۔
واصق کا دل چاہا اس سے جا کر پوچھے کہ وہ رات کے اس پہر یہاں کیوں آئی ہے۔ کیا اسے بھی اس کی طرح کسی کی یاد تنگ کر رہی ہے مگر وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہل سکا۔ یک ٹک بغیر پلکیں جھکائے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتا رہا۔ بغیر اس بات کا خیال کئے یہ ایک بہت ہی غیر اخلاقی حرکت ہے۔
ابھی وہ اسے دیکھ ہی رہا تھا جب اچانک ہی ونیزے نے ہاتھوں میں چہرہ چھپا لیا۔ دونوں گھٹنوں پر سر رکھ کر وہ شاید پھُوٹ پھُوٹ کررو رہی تھی۔ واصق کے دل کو کچھ ہوا۔ وہ بے اختیار اپنی جگہ سے ہلا تھا۔ یہ سوچے بغیر اس کی طرف بڑھا کہ اس نے اسے اس وقت اپنے سامنے دیکھ لیا تو کیا ری ایکشن ہو گا۔
’’ونیزے…..‘‘ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کے سر پر جا پہنچا تھا۔ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے پکارا۔ بے اختیار اس کی بلند ہوتی سسکیاں بند ہو گئیں۔ ایکدم سر اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے واصق کو دیکھنے لگی۔
’’کیا ہوا ونیزے…..کیوں پریشان ہیں؟‘‘ بہت اپنائیت سے پوچھ رہا تھا۔ شاید ہی زندگی میں کبھی اس کے لہجے میں اتنی اپنائیت اور محبت بسی ہو ، جتنی آج ۔ وہ یہ محبت و خلوص چاہت صرف اور صرف ونیزے کے لئے محسوس کر رہا تھا۔
’’آ …..آ…..پ‘‘ ایکدم وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
اسے اپنا گھر یاد آ رہا تھا ۔ بھیا بھابی اور بچوں کی یاد ستا رہی تھی۔ دل بہت دکھا ہوا تھا مگر وہ وجیہ کے سامنے آنسوبہا کر اسے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے اس کے سونے کے بعد خاموشی سے ادھر آ گئی تھی دل کھول کر رونے کے لئے ۔ اپنی قسمت کو ، اپنے مقدروں کو مگر آج پھر یہ شخص اس کے آنسوئوں کے درمیان رکاوٹ بن کے آ کھڑا ہوا تھا۔
’’جی ٹھیک ہوں میں۔‘‘ ہمیشہ کی طرح اب بھی اس کے لہجے میں کڑواہٹ گھل گئی تھی۔ اب بھی خاصی ناگواری سے ایک چبھتی نظر ڈال اس نے نیچے واپس جانے کے لئے قدم اٹھایا تو وہ پھر سامنے آ گیا۔
’’تو پھر رو کیوں رہی تھیں؟‘‘ واصق جہانگیر کو ونیزے کی کاٹ دار نگاہ اپنے اندر تلک اترتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ اس کے باوجود وہ اسے روک بیٹھا تھا۔
’’دماغ خراب تھا میرا۔ میں نے آپ کو پہلے بھی وارن کیا تھا کہ آپ اپنی حد میں رہیں۔ میں نے کہا بھی تھا کہ میں بہت چینج لڑکی ہوں۔ آئندہ میرا راستہ روکنے کی کوشش مت کیجئے گا۔‘‘ اپنے چہرے کو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے غصہ بھری آواز میں کہا۔ ’’یہ ٹھیک ہے میں اپنی مجبوری کی وجہ سے آپ کے در پر پڑی ہوئی ہوں مگر کوئی گری پڑی نہیں ہوں نہ ہی ان لڑکیوں جیسی ہوں جن سے آپ کا واسطہ ہوتا ہو گا۔ پھر بھی آپ یہاں آ گئے۔ کم از کم اپنے والدین کا ہی تو خیال کر لیتے۔‘‘
وہ اس کے یوں راستہ روکنے پر پھٹ ہی تو پڑی تھی۔ بہت ہی بری طرح گھورتے اس نے واصق کو سب سنا دیا تھا۔ واصق کے تو مانو چودہ طبق روشن ہو گئے تھے۔ کتنا غلط سوچ اور سمجھ رہی تھی وہ اسے۔ کتنی غلط رائے رکھتی تھی وہ اس کے بارے میں ، اس کے الفاظ سن کر واصق کو انتہائی افسوس ہوا ۔ ونیزے پر نہیں اپنی پسند پر۔
دل کی اس انوکھی جسارت پر جسے ساری دنیا میں اس لڑکی کے سوا کوئی اور ملی ہی نہیں تھی۔ انتہائی دکھ و ملامت بھری نظر اس پر ڈالتے وہ جب بولا تو اس کو اپنی آواز انتہائی سپاٹ لگی۔
’’بہت غلط ہے ۔ مردم شناسی کی صلاحیت تو موجود ہی نہیں آپ میں۔ کیا سمجھ رہی تھیں آپ مجھے ، اور کیا ہیں آپ خود، صرف ایک جسم …..‘‘ واصق کی نظروں میں واضح تمسخر اتر آیا تھا۔ سر تاپا ونیزے کا جائزہ لیا۔ وہ تو ان الفاظ سے سٹپٹا ہی گئی۔ ’’حیرت ہے جسم کبھی بھی میری طلب نہیں رہا ورنہ میرے ڈیپارٹمنٹ میں حسن کی کمی تو نہیں۔ پتہ نہیںکیوں آپ نے اتنی غلط بات میرے حوالے سے کہہ دی۔ آپ خود بتائیں، کب میں نے گندی نظر سے آپ کو دیکھا ہے۔ میں بہت اونچا سمجھتا تھا آپ کو۔ بہت خاص ، بہت منفرد ، مگر افسوس ، آپ کی سوچ بھی ان سب لڑکیوں جیسی ہے۔ سطحی ، بہت ہی عام سی نکلی ہیں آپ تو۔ عام سوچ رکھنے والی عام سی ذہنیت کی حامل، عام سی لڑکی۔ بے فکر رہیے ونیزے جواد حسن ، مجھے اپنے والدین کا بہت خیال ہے۔ اینڈ یو کین گو فرام ہئیر۔ ‘‘ انتہائی درشتی سے کہتے اس نے سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا تھا ۔ وہ جیسے کسی سحر سے آزاد ہوئی۔ کتنا کچھ سنا دیا تھا واصق نے اسے ، تمام لفظ اس کے اندر اترے تھے۔ اک کرب کی لہر اٹھی ، ناگواری تو پہلے بھی تھی اب آنکھوں میں بے یقینی بھی تھی ۔ دو قدم بڑھائے تو اپنے عقب میں آئی واصق کی آواز پر رک گئی مگر مڑی نہیں تھی۔
’’آئندہ جب بھی کوئی قدم اٹھائیں تو اپنے گردوپیش کا بھی جائزہ لے لیا کریں۔ یہاں آ کر بیٹھنے سے پہلے آپ کو اچھی طرح دیکھ اور سمجھ لینا چاہئے تھا کہ یہاں کوئی پہلے سے موجود تو نہیں۔ یہ ہمارا گھر ہے۔‘‘ کتنا توہین آمیز لہجہ تھا، ونیزے کا جی چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ بے اختیار پلٹ کر اسے دیکھا وہ رخ موڑے کھڑا تھا۔ اسے صرف اس کی لمبی چوڑی پشت ہی دکھائی دی۔ وہ جھلملاتی آنکھوں سمیت تیزی سے تقریباً بھاگتے ہوئے نیچے سیڑھیاں اترتی چلی گئی۔
’’کاش میں اس وقت یہاں نہ آتا یا وہ نہ آتی یا پھر اتنی باتیں ہی نہ ہوتیں ، یوں اپنی سوچ ، اپنی پسند سے دل اچاٹ تو نہ ہوتا۔‘‘ اسی کرسی پر گرتے جس پر چند منٹ پیشتر وہ بیٹھی تھی۔ اس نے اپنے بالوں کو اپنی مٹھیوں میں جکڑتے انتہائی دل گرفتگی سے سوچا۔
اگلا سارا دن وہ اپنے کمرے میں بند رہی ۔ واصق کی باتیں یاد آتیں تو مزید اذیت سے دوچار ہو جاتی۔ یہ نہیں تھا کہ اس کا دل واصق کی جانب سے صاف ہو گیا تھا بلکہ وہ اور زیادہ دل گرفتہ ہو گئی تھی۔ پہلے تو وہ اسے صرف فلرٹ ، نظر باز اور دھوکے باز انسان لگتا تھا اب وہ اسے ڈرامے باز بھی لگنے لگا تھا۔
’’کتنی اچھی ایکٹنگ اور ڈائیلاگ بازی کی تھی ۔ صرف اور صرف مجھے متوجہ کرنے کو۔‘‘ وہ اب بھی تنفر سے یہی سوچ رہی تھی۔ خاص طور پر اس کی رات والی باتیں ، جسم، عام سی سوچ والی عام ذہنیت کی حامل عام سی لڑکی کہنا اسے پوری رات اذیت کی بھٹی میں جھلساتا رہا تھا۔ اس نے کب کسی سے اتنا کچھ سنا تھا۔ کوئی موقع ہی نہیں ملا بطور خاص کسی سے بات کرنے اور اس کے بارے میں رائے قائم کرنے کا۔ وہ شروع سے ہی خاصی ڈرپوک اور گم صم واقع ہوئی تھی اسی لئے اس کی دنیا گھر، اسکول و کالج بھیا بھابی، بچوں اور کبھی کبھار کی جانے والی آئوٹنگ تک ہی محدود تھی۔ اس کا حلقہ احباب بہت محدود تھا۔ دوست تو گنتی کی تھیں۔چند ایک ، لڑکوں سے دوستی کرنے کا نہ تو اسے شوق تھا نہ ہی اشتیاق بلکہ وہ اس صنف سے ہی دور بھاگتی تھی۔ جب سے محبوب رحمانی نے آ کر زندگی اجیرن کر دی تھی۔ اس صنف سے اعتبار ہی اٹھ گیا تھا اور اب واصق جہانگیر نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی تھی۔ اگر وہ اس کے متعلق اچھی طرح نہ جانتی ہوتی تو شاید اس کی سوچ پازیٹو ہوتی مگر اب مثبت انداز میں سوچنے کی تو گنجائش ہی نہ تھی۔ یہی بات اسے بے چین کئے ہوئے تھی
’’مگر شاید وہ یہ نہیں جانتا میں عام سی ذہنیت رکھنے والی عام سی لڑکی ضرور ہوں مگر ہر ایک پر مر مٹنے والی نہیں ہوں۔ مانا کہ اس کی پرسنالٹی بہت اٹریکٹو ہے۔ مقابل کو مسحور کردینے والی ہے مگر میں واقعی مختلف ہوں۔ مجھے اپنے متعلق کوئی خوش فہمی نہیں۔ وقت اور حالات نے بہت کچھ سکھا دیا ہے۔ باپ کے غلط فیصلوں کی بدولت دوسروں کے در پر زندگی ضرور گزار رہی ہوں مگر بے غیرت نہیں ہوں۔ واصق جہانگیر احمد میں نے تو تمہیں پہلی نظر میں ہی پہچان لیا تھا۔ بعد کی باتیں تو بے معنی ہیں۔ میں راہ میں پڑا ہوا روڑا نہیں ہوں، جسے تم اٹھا لو، کچھ دیر اپنے پاس رکھو اور پھر کہیں پھینک دو۔ باحمیت و باوقار جیتا جاگتا وجود ہوں۔ محبوب رحمانی جو بھیڑیے کی طرح میرے پیچھے لگا ہوا ہے ایک ایسا ہی انسان تم بھی بن گئے ہو۔ کاش بھیا بھابی آ جائیں اور میں یہاں سے چلی جائوں۔‘‘ آنکھوں پر بازو لپیٹے وہ مسلسل یہی سوچ رہی تھی۔
بڑی امی کمرے میں داخل ہوئیں تو اچھا خاصا اندھیرا تھا۔ انہوں نے لائٹ آن کی۔
’’کیا بات ہے ونیزے بیٹی ! طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری؟‘‘ بڑی امی نے بستر پر بیٹھ کر اس کی آنکھوں سے بازو ہٹا کر پوچھا۔ انہیں ایکدم اپنے سامنے دیکھ کر اس نے اپنی بھیگی پلکیں جھپکیں۔ بمشکل مسکرانے کی کوشش کی۔
’’جی۔‘‘ اس نے کہا۔ بڑی امی اس سے کتنی محبت کرتی ہیں۔ اگر انہیں اپنے بیٹے کی اصلیت کا علم ہو جائے تو شاید نظر ملا کر بات بھی نہ کر سکیں اس نے آزردگی سے سوچا۔
’’تو پھر باہر کیوں نہیں نکلیں۔ دادی اماں بھی کئی بار پوچھ چکی ہیں۔‘‘ انہوں نے اس کے بستر پر بکھرے دراز سلکی آبشار ایسے بالوں کو سمیٹتے، ایک اور محبت بھری کاروائی کی تو وہ بے دلی سے اٹھ بیٹھی۔
’’بس دل ہی نہیں چاہا۔‘‘ وہ اب بھی اس کے کھلے دراز بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھیں ۔ اس کا جواب سن کر بغور دیکھا۔
’’کسی سے لڑائی ہو گئی ہے، وجیہ نے کچھ کہا ہے؟‘‘
امی کی نظر اندر تک اترتی ہوئی تھی۔ اس نے بے اختیار ان کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
’’ارے نہیں آنٹی بس ویسے ہی گھر یاد آ رہا ہے۔ کتنے دن ہو گئے ہیںبھابی بھیّا سے ملے ہوئے۔‘‘
’’ہاں یہ تو ہے۔‘‘ انہوں نے پر زور تائید کی۔ ’’چلو اٹھو باہر چل کر بیٹھو، سب لان میں اکٹھے بیٹھے ہوئے ہیں، موسم بہت خوبصورت ہو گیا ہے بس تمہاری ہی کمی ہے۔‘‘ بازو سے پکڑ کر اسے اٹھاتے انہوں نے کہا تو وہ خاموشی سے دوپٹہ سنبھالتی سنبھالتی سینڈل اڑس کر ان کے ساتھ لان میں آ گئی۔
باہر کا موسم واقعی میں بہت خوبصورت تھا۔ آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے۔ سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ تقریباً سبھی تھے ماسوائے بڑے ابو اور چچا کے۔ اس کی نظر بلا ارادہ دادی اماں کے پہلو میں بیٹھے واصق جہانگیر پر جا پڑی۔ اس نے بھی ایک پل کو دیکھا تھا پھر نظر پھیر گیا۔ وہ کسی بات پر مسکرا رہا تھا اسے دیکھتے ہی مسکراہٹ معدوم ہو گئی۔ پہلی دفعہ ونیزے کو اندازہ ہوا کہ ظاہر کی طرح اس شخص کی مسکراہٹ بھی بہت خوبصورت تھی۔
’’آ گئی میری بیٹی۔‘‘ وہ جیسے ہی قریب پہنچی ، دادی اماں نے محبت سے کہتے بازو بھی وا کر دیئے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی طرف بڑھ گئی۔ اس پر ان لوگوں کی محبتوں کا ایک بہت بڑا فرض تھا وہ نہ ہی تو خود غرض تھی اور نہ ہی احسان فراموش ، البتہ مصلحت آمیز ضرور تھی۔ بس ان کی محبتوں کے جواب میں کبھی خاموش رہتی تھی اور کبھی مسکرا دیتی تھی۔ وہ صرف ایک شخص کی وجہ سے ان سب کو غلط نہیں کہہ سکتی تھی۔
’’لگتا ہے، ونیزے جی آج آپ کو اپنا کمرہ بہت ہی بھا گیا تھا۔ صبح سے اب آپ کی شکل دیکھنے کو ملی ہے۔‘‘ شہروز نے کہا تو وہ دھیرے سے مسکرا دی۔
’’آپ کے لئے ایک خوشخبری ہے۔‘‘ مہران نے کہا تو وہ چونک کر اسے دیکھنے گلی۔ ’’آج رات آپ کے بھیا بھابی آئیں گے۔ خوش ہو جائیں۔‘‘
’’رئیلی…..‘‘اتنی اچھی خوشخبری سن کر وہ کھل اٹھی تھی۔ بے اختیاردادی اماںسے تصدیق چاہی تو انہوں نے اثبات میںسر ہلا دیا۔ وہ خوشی کے احساس سے نہال ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی واصق بول اٹھا۔
’’دادی اماں مجھے ایک ضروری کام ہے، جلدی آ جائوں گا۔‘‘ ان کے برابر سے اٹھتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا۔
’’اس وقت۔‘‘ واصق نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ ’’شام ہونے والی ہے، باہر گئے لوگ گھر لوٹتے ہیں اور تم باہر جا رہے ہو۔ آئو گے کب؟‘‘ دادی اماں نے مزید پوچھا۔
’’جلدی ہی آ جائوں گا۔‘‘
’’کوئی ضرورت نہیں، باہر جانے کی ۔ بلیاں بندھی ہوئی ہیں تمہارے پائوں میں تو۔ آج سارا دن باہر تو گزارا ہے۔ آدھا گھنٹہ نہیں ہوا تمہیں گھر آئے ہوئے اور جناب ہیں کہ پھر چل دئیے ہیں۔‘‘ امی نے اٹھتے دیکھا تو اچھی خاصی جھاڑ پلا دی۔ وہ سر کھجاتے ان کے کندھوں پر جھک گیا۔
’’اچھی امی، ایک کام ہے بس جلد ہی آ جائوں گا۔ جانے دیں ناں۔‘‘
’’کیا کام ہیں ذرا مجھے بھی تو بتائو۔‘‘ انہوں نے پوچھا تو وہ ایک نظر ونیزے پر ڈال کر چپ ہو گیا۔ کیسے بتاتا کہ وہ گھر سے فرار چاہتا ہے۔
’’امی ! میرا خیال ہے بھائی نے باہر کوئی بیوی رکھی ہوئی ہے۔‘‘ یہ مہران تھا۔ اس نے اسے گھورا مگر اثر کسے تھا بلکہ اس کی بات پر سب ہی ہنس پڑتے تھے۔
’’ارے یہ مانے تو سہی ۔ ایسی بیوی لائوں گی، کبھی گھر سے باہر قدم بھی نہیں نکال پائے گا۔‘‘ امی نے فرط محبت و انبساط سے اس کا ماتھا چوم لیا۔ وہ یوں اچانک ذکر پر تھوڑا سا کنفیوز ہو گیا تھا جبکہ سامنے ہی تو وہ بیٹھی ہوئی تھی۔ سب ہی جانتے تھے وہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے اس ذکر سے کتنا بھاگتا ہے اسی لئے سب اکثر اسے دبوچے رکھتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح تو وہ آمادہ ہوہی جائے گا۔
’’امی میرا خیال ہے واصق کبھی نہیں مانے گا اسی لیے کسی اور کے متعلق بھی سوچ لیں۔‘‘
شہروز نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا تو وہ یونہی مسکرا دیا۔
’’اوروں کی بھی باری آ جائے گی پہلے جس کی باری ہے اسے تو نبٹنے دو۔‘‘ دادی اماں نے اسے چپ کرادیا تھا وہ منہ بسورنے لگا۔
’’ہائے ظالم سماج…..‘‘ شہروز نے دھیمی آواز میں ایک ٹھنڈی آہ بھری ۔ واصق کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
’’اتنی ٹھنڈی آہیں مت بھرو۔ تمہاری ’’ان کو‘‘ ٹھنڈ لگ جانے کا احتمال ہے۔‘‘ واصق نے اس کے کان کے قریب جھک کر کہا تو وہ اسے گھورنے لگا۔
’’ڈوب مرو تمہاری باری کے انتظار میں دادی اماں سب کو باندھے رکھیں گی۔‘‘
’’اچھی بات ہے بیٹا ! ذرا اور انتظار کر لو ۔ شاید دس سال بعد میرا دماغ چل جائے اور شادی کر ہی لوں۔‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا تو مہران اور شہروز دونوں گھورنے لگے۔
’’بڑے زاہد بنتے ہو مگر سن لو بڑی امی اور دادی اماں نے لڑکی پسند کر لی ہے اب تمہاری ایک بھی نہیں سنیں گی۔ چند ایک دنوں میںتمہیں کوئی خوبصورت کھونٹا نصیب ہونے والا ہے۔ ‘ ‘ شہروز نے کن انکھیوں سے دادی اماں کے پہلو میں بیٹھی ونیزے کو دیکھتے ہوئے کہا تو وہ سنی ان سنی کرتا ہاتھ ہلاتا اپنی بائیک کی طرف بڑھ گیا۔
رات کے کھانے کے بعد بھیا اور بھابی آ گئے، شکل سے دونوں نے خوش تھے ۔ بھابی بھی کافی مطمئن دکھائی دے رہی تھیں ۔ وہ جو کتنے دنوں سے ان کی آمد کی منتظر تھی ایک دم ان سے لپٹ گئی۔ وہ کافی دیر تک ان کے پاس سب کی موجودگی میں بیٹھی رہی ۔ بھیا کے چھوٹے رمیض نے رونا شروع کیا تو وہ بڑی امی کے کہنے پر اسے اٹھا کر باہر لے گئی۔ وجیہ رمیض کے لیے فیڈر تیار کر نے باہر نکلی تو بھابی نے بھی بات شروع کی۔
’’ہم نے ونیزے کے لیے ایک رشتہ پسند کر لیا ہے۔ بہت اچھا لڑکا ہے۔ یقینا آپ کو بھی پسند آئے گا۔‘‘ امجد کی طرف مسکراتی نگاہوں سے دیکھتے انہوں نے بڑی اماں اور دادی اماں کو بتایا ۔ باقی سب بھی متوجہ ہو گئے۔بڑے ابو ، چچا جان ، شہروز ، مہران وغیرہ جبکہ بڑی امی کچھ گھبرا کر دادی اماں کو دیکھنے لگیں۔ آج ان کا بھی ارادہ واصق کے لئے ونیزے کو مانگنے کا تھا مگر اتنی غیر متوقع بات سن کر وہ پریشان ہو گئیں۔ دادی اماں نے آنکھوں ہی آنکھوں میںانہیں تسلی دی۔
’’صبیحہ ! امجد نے جو لڑکا بھی پسند کیا ہے وہ یقینا اچھا ہو گا مگر ہمارے پاس بھی اس کے لئے ایک رشتہ ہے، سوچ سمجھ لو، پھر جواب دینا۔‘‘
’’آپ کہئے خالہ جان! کونسا پروپوزل ہے؟‘‘ امجد بھیا پوری طرح متوجہ تھے۔ فوراً پوچھا۔
’’ہماری تو شروع سے ہی خواہش تھی مگر زبان پر لانے سے ڈرتے تھے۔ دوسری بات یہ تھی کہ واصق یہاں نہیں تھا۔ تم نے تو اسے دیکھا بھی نہیں تھا۔ اسی لئے چپ رہے۔ اب تو تم اس سے مل چکے ہو۔ جانتے بھی ہو۔ صبیحہ سامنے بیٹھی ہے ، تم اس سے اس کی شرافت اور نیک سیرتی کے بارے میں پوچھ سکتے ہو۔ ہمارے بارے میں بھی سب جانتی ہے۔ ہم تمہاری طرح بہت پیسے والے نہیں مگر شرافت ہے، عزت ہے، ہم محبت و خلوص کو ہی سب سے بڑی دولت سمجھتے ہیں۔ اسی خلوص کی بنیاد پر ہم واصق کے لئے ونیزے کو مانگ رہے ہیں۔ اگر تم لوگوں کو نہ بھی قبول ہوا تو پھر بھی ہماری چاہت و محبت میں کمی واقع نہیں ہو گی۔ آگے تم دونوں کی مرضی۔ ‘‘ دادی اماں نے بہت سلیقے اور سبھائو سے اپنا مدعا بیان کیا تھا۔ بھیا اور بھابی دونوں حیرت سے ایک دوسرے کے منہ تکنے لگے ۔ پھر دونوں ہی ہنس دیئے۔
’’جی خالہ جان! ہمیں واقعی کوئی اعتراض نہیں کیونکہ آج ہم ونیزے کے لئے واصق کی ہی بات کرنے آئے تھے۔ ‘‘ بھیا نے بھی بتایا تو وہاں موجود سب افراد حیرانگی کے ساتھ خوش بھی ہو گئے۔
’’ توپھر بیٹا! یہ رشتہ پکا سمجھیںناں۔ ‘‘ دادی اماں نے بے پناہ خوشی سے پوچھا ۔ امجد بھیا نے سر ہلا دیا۔
’’ارے جہانگیر کسی کو بھیجو کہ مٹھائی منگوائو۔ میں ابھی دونوں کا منہ میٹھا کروانا چاہتی ہوں۔ ‘‘ دادی اماں نے فوراً کہا۔
’’میں لاتا ہوں۔‘‘ مہران فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
واصق شام سے پہلے کا گیا ہوا تھا اور ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا۔
ونیزے رمیض کو چپ کرا کر واپس لوٹی تو محفل کا رنگ ہی اور تھا۔ سب ایک دوسرے کے گلے مل رہے تھے۔ مبارک سلامت کے مظاہرے ہو رہے تھے۔ وہ نا سمجھی کے عالم میں حیران کھڑی رہی۔ دادی اماں کی نظر پڑی تو اس کا ہاتھ تھام کر پاس بٹھا لیا۔
’’خدا جوڑی سلامت رکھے۔‘‘ اس کی پیشانی چومتے انہوں نے دعا دی۔ وہ ہونق بنی کبھی انہیں اور کبھی باقی لوگوں کو دیکھے گئی۔
’’جائو بہو، انگوٹھی لے آئو۔ ابھی رسم کریں گے۔ ‘‘ آناً فاناً انہوں نے بڑی امی کو حکم دیا۔ وہ فوراً اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔ واپسی میں ان کے ہاتھ میں ایک بیش قیمت ہیرے کی انگوٹھی تھی ۔ جسے لا کر انہوں نے دادی اماں کو تھما دیا وہ اس افراتفری کو نہیں سمجھ رہی تھی۔
’’ہم نے تو ہفتہ ہو گیا تھا بنوا لی تھی۔ شکر ہے آج پہنانے کا موقع تو ملا۔‘‘ وہ بھابی کو بتا رہی تھیں۔ دادی اماں نے بسم اللہ پڑ ھ کر اسے انگوٹھی پہنا دی تو تب بھی خالی خالی نظروں سے دیکھے گئی۔ نہ چہرے پر شرم کی لالی تھی نہ ہی آنکھوں میں حیا کا رنگ اترا بلکہ وہ تو سراپا حیرت بنی ہوئی تھی۔
’’اور یہ واصق صاحب کہاں ہیں ، نظر ہی نہیں آ رہے؟‘‘ بہن کی طرف سے مطمئن ہو کر امجد بھیا نے شہروز سے پوچھا ۔ آخر کو سالے تھے پوچھ سکتے تھے۔ واصق کے نام پر اس کے سوئے حواس بھی ایکدم جاگ اٹھے۔ اندر کرب کی لہر جاگی۔
’’تو کیا یہ سب واصق کے لئے…..نہیں ۔‘ ‘ نجانے شہروز نے بھیا کو کیا جواب دیا تھا وہ تو اپنے اندر اٹھنے والے بپھرے طوفان سے نبرد آزما تھی۔ جی چاہا ابھی ’’نہیں نہیں‘‘ کہہ کر سب سے لڑ پڑے۔ مگر اس کے ہونٹوں کے قفل جوں کے توں برقرار رہے۔ بہت چاہنے کے باوجود وہاں سے اٹھ نہ سکی۔ مہران مٹھائی لایا تو بھابی نے اٹھ کر سب کا منہ میٹھا کرایا۔
’’میں سچ کہہ رہی ہوں وہ واصق بھیا ہی ہیں جن سے آپ کی منگنی ہوئی ہے۔‘‘ وہ یہ سوچے بیٹھی تھی کہ شاید اس کا خیال غلط ہو۔ اسی لئے سب کے چلے جانے کے بعد وجیہ کے ساتھ اس کے کمرے میں آئی تو اسے روک کر پوچھ لیا۔ جواباً اس نے اس کے خیال کی تصدیق کر دی تھی۔ وہ بے یقینی سے دیکھتی رہی۔
’’یہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ یہ سب غلط ہوا ہے۔‘‘ وجیہ کو بے یقینی سے دیکھتے اس کا دل رو رہا تھا۔ آنکھیں ضبط کے مراحل طے کر رہی تھیں۔ وجیہ انکشاف کے پہاڑ توڑ کر چلی گئی تو وہ بستر پر گرتے تنہا اس انکشاف کے بوجھ تلے دبی روتی رہی۔
’’بھیا کیوں کیا آپ نے ایسا ۔ ماں باپ کا سایہ سر سے کیا اٹھا کہ اتنی بھاری ہو گئی تھی بہن آپ پر ۔ کم از کم پوچھ تو لیا ہوتا۔ ‘‘ پھُوٹ پھُوٹ کر روتے وہ بھیا کی بے اعتنائی پر شکوہ کناں تھی۔
’’اچھا نہیں کیا آپ نے میری کم سخنی ، خاموش طبعی اور مصلحت آمیزی کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ کبھی معاف نہیں کروں گی آپ کو۔‘‘ وہ ان کے تصور سے لڑ رہی تھی۔
’’باپ نے جو کیا ابھی تو اس کا زخم بھی مندمل نہیں ہوا تھا اور آپ نے بھی وار کر دیا ۔‘‘ کمبل میں منہ دئیے وہ اور شدت سے روئی۔ ماں کی کمی کا احساس اور شدت سے جاگا۔
’’میں اس شخص کی شکل بھی دیکھنے کی روادار نہیں ، کجا کہ ساری زندگی اسے برداشت کروں ۔ اگر اس کی اصلیت کا علم نہ ہوتا تو شاید بخوشی آپ کی رضا کی خاطر یہ زہر نگل لیتی مگر اب یہ ممکن نہیں۔ آپ کو اپنا فیصلہ بدلنا ہو گا ۔ وہ اب بھی بھیا سے مخاطب تھی۔ پھر اسی طرح نیز بہاتے رات دھیرے دھیرے سرکنے لگی۔ وجیہ کمرے میں آ کر سو بھی چکی مگر ساری رات اس کی آنکھوں میں جھڑی لگی رہی تھی۔ ایک پل کو بھی نیند نہ آئی۔
X X X
’’واصق یار! اب اٹھ بھی جائو اور کتنا سوئو گے۔ اگلے دن کے گیارہ بج رہے ہیں۔‘‘ ابھی اس کی نیند پوری بھی نہیں ہوئی تھی جب شہروز نے اس کے کمرے میں آ کر اس کے اوپر سے کمبل کھینچ لیا۔ جواباً وہ اس حرکت پر تلملاتا غصے سے اس کی طرف پلٹا تھا مگر وہ اس کی پہنچ سے دور تھا۔ دونوں ہاتھوں میں کمبل پکڑے بازو اوپر اٹھائے دانت نکال رہا تھا۔
’’کیا مصیبت ہے یار! ابھی نیند بھی پوری نہیں ہوئی اور لے کے تم نے اٹھا دیا۔‘‘ سخت جھنجلاتے آنکھیں ملتے اسے دیکھا تو وہ اس کے پاس آ بیٹھا۔
’’کہاں تھے تم سارے رات؟ دو بجے تک تو ہم تمہارا انتظار کرتے رہے اور پھر تھک ہار کر سو گئے۔ بڑی امی بتا رہی تھیں کہ تم صبح تین بجے گھر لوٹے ہو۔ یہ رات ساری باہر گزار کر آخری پہر گھر لوٹنا شریفوں کا تو کام نہیں۔‘‘ شروع میں تو وہ سنجیدہ تھا آخر میں پھر آئوٹ ہو گیا۔ واصق نے اسے صرف گھورا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں سے کمبل چھین کر دوبارہ سر تک لپیٹا اور لیٹ گیا۔
’’اتنے بیزار کیوں ہو۔ کہیں بڑی امی نے تمہیں کچھ بتا تو نہیں دیا۔ ویسے یار رات کو میں نے انہیں کافی پکا کیا تھا کہ میرے علاوہ تمہیں کوئی کچھ نہ بتائے ۔‘‘ وہ دوبارہ اس کے منہ سے کمبل ہٹاتے کہہ رہا تھا۔ اس دفعہ واصق نے فوراً کمبل نہیں چھینا تھا۔ بس سوالیہ دیکھا تھا۔ واصق کے چہرے پر الجھن دیکھ کر شہروز سمجھ گیا کہ ابھی تک اسے کچھ علم نہیں ہوا۔
’’راز کی بات ہے یار! رات دادی اماں نے تمہاری بات پکی کر دی ہے۔‘‘
’’کیا…..؟‘‘ واصق کو بے پناہ حیرت ہوئی۔ فوراً سیدھا ہوا۔ ’’ کیا بکواس کر تے ہو ۔‘‘ اب کے وہ جھنجلایا۔
’’بکواس نہیں ، سو فیصد سچی خبر ہے۔ مابدولت اس موقع پر بنفس نفیس پیش پیش تھے۔ ‘‘ شہروز نے کہا تو وہ اسے دیکھے گیا۔
’’مگر میں نے تو امی کو منع کیا تھا کہ ابھی میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ وہ سمجھ رہا تھا کہ شہروز اسے چڑا رہا جب یقین ہو گیا کہ خبر واقعی سچی ہے تو وہ فوراً آئوٹ ہو ا۔
’’بڑی امی نے سن لیا تھا مگر یار! یہ بھی تو سن لو بات طے کس سے ہوئی ہے۔ لاکھوں میں ایک ہے وہ لڑکی۔ اگر تمہاری جگہ میں ہوتا تو خوشی سے بھنگڑے ڈالتا۔‘‘
’’وہ جو بھی ہے مجھے اس سے کوئی غرض نہیں اگر تم لوگوں کو اتنا ہی شادی کا شوق ہے تو تم ہی کر ا لو اس سے ۔ مجھے تو بخشو ہی ۔ ‘‘ غصے سے کہتے اس نے کمبل دور پھینکا تھا۔ بھنبھناتا ہوا باتھ روم میں گھس گیا۔
شہروز سہولت سے اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ آدھ گھنٹے بعد و ہ باتھ روم سے برآمد ہوا تو تب بھی غصے میں تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے نظر انداز کر کے باہر نکلتا اس نے فوراً آگے بڑ ھ کر اس کا بازو تھاما۔
’’اتنے غصے میں کیوں ہو یار! سب کی شادیاں ہوتی ہیں ۔ تمہارے ساتھ دنیا سے کچھ انوکھا نرالا معاملہ تو نہیں ہونے جا رہا جو یوں سیخ پا ہو رہے ہو۔‘‘
’’یار میرا بازو چھوڑو ، بس کہہ دیا نہ مجھے کہیں بھی شادی نہیں کرنی ، کسی سے بھی نہیں۔‘‘
’’چاہے وہ لڑکی ونیزے جواد حسن ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
شہروز نے سنجیدگی سے پوچھا ، وہ تو یوں بد کا گویا کرنٹ لگ گیا ہو۔ بے پناہ ، حیرت ہی حیرت تھی۔
’’کیا کہہ رہے ہو تم ؟‘‘ دکھ کے ساتھ ساتھ حیرت سے آواز پھٹی ہوئی تھی۔
’’سچ ہے یہ ۔ وہ لڑکی یہی ہے، یار اتنی زبردست لڑکی ہے جس کا بھی مقدر بنے گی کائنات رشک کر اٹھے گی۔ ایک تم ہو کہ ناشکری کر رہے ہو۔‘‘
واصق بس ساکت آنکھوں سمیت اسے دیکھتا رہا۔ ’’ وینزے جواد حسن۔‘‘ اس کے ہونٹوں نے بے آواز حرکت کی۔ ’’ میںبہت مختلف لڑکی ہوں۔ آئندہ میرا راستہ روکنے کی کوشش مت کرنا۔ میں کوئی گری پڑی نہیں ہوں۔‘ ونیزے جواد حسن اس کے کان کے قریب کہہ رہی تھی۔ وہ صرف شہروز کو دیکھتا رہا۔
’’کیا ہو گیا ہے تمہیں ۔ ایمان سے بتائو اگر درمیان میں زرمینے نہ ہوتی تو میں جی جان سے راضی ہو جاتا۔‘‘ وہ صرف اسے چھیڑ رہا تھا۔
’’تو پھر تم دادی اماں سے بات کر لو ۔ میں اس لڑکی سے شادی نہیں کروں گا۔ وہ بہت مختلف لڑکی ہے مجھے بہت خاص لڑکی چاہئے عام نہیں۔‘‘ بہت ہی سپاٹ لہجے میں انکار کرتے وہ باہر نکل گیا۔ شہروز کے تو کچھ پہلے نہیں پڑا تھا۔
’’پاگل ہے یہ تو۔‘‘ وہ بھی اس کے پیچھے دوڑا۔ واصق امی کو ڈھونڈنے کچن میں گیا وہ وہاں نہیں تھیں۔ تیزی سے راستے میں گزرتی ونیزے کو بھی نظر انداز کئے وہ امی کے کمرے کی طرف لپکا۔ تو شہروز نے درمیان میں راستہ روکا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...