باہر لان میں سب ارینجمینٹ ہوئے تھے۔پورا گھر جگمگا رہا تھا۔سب خوش تھے۔عین ٹائم پہ یہ منگنی کی تقریب نکاح کی تقریب کا رخ اختیار کر گئی تھی۔جس پہ احدیہ سمیت ایلاف ہکا بکا رہ گئی۔یہ سب جلد بازی ولید کی طرف سے ہوئے تھی۔ٹھیک ایک دن پہلے وہ اپنی التجا لے کے ازمیر کے دربار پہنچا تھا ۔تو بڑوں کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا۔ایلاف کو بھی تھوڑا ٹائم پہلے ازمیر نے بتایا تھا۔ایلاف کا تو منہ ہی کھلا رہ گیا تھا۔کچھ وہ ازمیر کو پہلی دفعہ کُرتا پہننے دیکھ کے حیران تھی۔خوب جچ رہا تھا وہ ۔
“یار منہ تو بند کرو۔”ازمیر اسکی حالت دیکھ کے بولا۔
“اتنے جلدی یہ سب ۔یہ تو پلان نہیں تھا ۔”ایلاف ہونق سی پوچھ رہی تھی۔
“سب کچھ پلان تو نہیں کیا جاتا ۔کچھ چیزیں ایسے ہی اتفاقات سے ہماری زندگی میں آتی ہیں۔”ازمیر بات کوالگ دنگ میں لے گیا تھا۔
“احدیہ کو تو علم بھی نئیں۔”ایلاف کو اب اسکی فکر پڑھ گئی تھی۔
“اچھا سنو۔تم ذرامحتاط رہنا۔یہ ناں ہو کوئی اپنے دل کی ہاتھوں مجبور ولید کے ساتھ ساتھ اپنا کام بھی نکلوا لے۔”ازمیر شرارت پہ آمادہ تھا۔
“آپ تو۔”ایلاف بولی۔
“جی میں بہت ہینڈ سم ہو ۔اور آپ کے لائے ہوئے کپڑوں میں اور بھی اچھا لگ رہا ہو اسلیے آپ کئی باری مجھے دیکھ چکی ہیں۔”ازمیر اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی بولا تھا۔اور اس پہ چوٹ کی تھی۔جب وہ اسے کمرے سے نکلنے پہ دیکھ کم گھور ذیادہ رہی تھی۔
“نئیں ۔وہ تو میں ۔ہاں یہ دیکھ رہی تھی کہ آپ نے وہ کپڑے پہن لیے ہیں ۔اور آپ ناراض نہیں اب ۔”ایلاف نے اپنی صفائی دی ۔وہ بھی کھل کے مسکرا دیا ۔
“اچھا ۔ویسے آپ بھی اچھی لگ رہی ہیں ۔”ازمیر نے اسکو دیکھ کے کہا۔
“میں ماما کو دیکھ لوں ۔”مزید باتوں سے بچنے کے لیے وہ مہمانوں کو دیکھنے نکل گئی تھی۔
جب احدیہ کو پتہ چلا تو وہ شاکڈ تھی کچھ ٹائم کے لیے پر وہ ولید کے ساتھ پہ خوشی بھی بہت تھی۔نکاح جو یک اٹوٹ بندھن تھا۔
کچھ دیر میں وہ احدیہ سکندر شاہ سے ولید کے نام منسوب کر دی گئی تھی۔اسے خوش دیکھ سب ہی خوش اور مطمئن تھے۔
ایلاف کسی کام سے اندر آئی تو اسے اپنے پیچھے ایک مردانہ آواز سنائی دی ۔جو اس سے ہی مخاطب تھی۔
“ہیلو۔”تھوڑے فاصلہ پہ علیزے کا بھائی علی کھڑا تھا جو بلاشبہ اس سے ہی مخاطب تھا ۔
“جی۔”ایلاف اور اسکے علاوہ اس وقت کوئی بھی نہ تھا کیونکہ باہر تقریب عروج پہ تھی۔وہ اس دیکھ کے گھبرا ہی گئی تھی۔اسنے گھبرا کے پوچھا ۔
“کیسی ہیں آپ ایلاف ۔”وہ بےتکلفی سے اس سے مخاطب تھا جیسے ان میں بہت بے تکلفی ہو۔
“جی ٹھیک ہو میں۔”وہ خشک سے لہجہ میں کہتی آگے بڑھ گئی ۔مگر ۔۔۔
“ارے رکیں تو۔”اسنے اسے کلائی سے پکڑ کے روکا ۔ایلاف کے تو ہوش اڑ گئے۔
“چھوڑیں یہ کیا بدتمیزی ہے ۔”ایلاف رو دینے کو تھی اگر اسی کوئی دیکھ لیتا۔اسکی تو جان جا رہی تھی۔
“اسے بدتمیزی نہیں کہتے۔خیر میں تو آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔”وہ کب سے ایلاف کو دیکھ رہا تھا کچھ وہ آج لگ بھی اچھی رہی تھی ۔اور اس کے خیال میں اسکا کون سا کوئی سہارا تھا جو اسکو ڈیفینڈ کرے گا۔
“دیکھیں۔”ایلاف کی آواز دم توڑ گئی تھی جب اسنے ازمیر کی چھینگھڑتی ہوئی آواز سنی ۔
“کیا ہو رہا ہے یہاں”ازمیر نے غصے سے پوچھا۔ایلاف کی کلائی ابھی بھی علی کے ہاتھ میں تھی جو علی سے دو قدم کے فاصلے پہ تھی۔ازمیر نے غصے سے سرخ آنکھوں سے ایلاف کو دیکھا ۔ایلاف کے سر پہ جیسے آسمان آن گرا تھا۔وہ نظریں نہ اٹھا پائی تھی بے شک وہ غلط نہ تھی مگر جیسے علی نے اسکی کلائی پکڑی تھی کوئی بھی غلط سمجھ سکتا تھا۔اسنے تکلیف سے زور سے آنکھیں میچ لیں۔
“کچھ نہیں میں تو ان سے کہہ رہا تھا آج یہ بہت اچھی لگ رہی ہیں۔”علی نے بےہودگی کی انتہائی کر دی تھی۔اور ایلاف کے تو آنسوں ہی نہ رک رہے تھے۔ازمیر کیا سوچتا ہو گا کہ وہ ایسی لڑکی ہے۔یہ سوچ بہت جان لیوا تھی۔
“جسٹ شٹ اپ علی۔دفعہ ہو جاؤں۔”وہ گرجا تھا ۔علی اسکے غصے سے واقف تھا چپ چاپ باہر نکل آیا۔
“اور آپ ۔”ازمیر نے اب ایلاف کی طرف دیکھا ۔
“میرا یقعین کریں میں تو۔”وہ تھر تھر کانپ رہی تھی ۔اس میں اسکا کیا قصور تھا۔
“بس ۔گھر مہمانوں سے بھرا ہےہماری عزت کے لیے یہ ہی بہتر ہے کہ آپ اپنا حلیہ ٹھیک کر کے باہر تشریف لے آئیں ۔اگر آپکو خیال ہے ۔”وہ ہاتھ اٹھاکےکاٹ دار لہجے میں بولا ۔وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔وہ باہر نکل گیا ساتھ ایلاف کا چین سکون بھی لے گیا ۔
کوشش کے باوجود وہ باہر نہ جا سکی ۔کیسے وہ اس کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت دیکھ سکتی تھی۔پروین جب اسے بلانے آئی تو اسنے طبیعت خراب ہے کا بہانہ کر کے معذرت کر دی۔ثمینہ بیگم نے جب سنا تو وہ اسکی کمرے کی طرف جانے کو بےقراری سے مڑیں۔
“ماما آپ کدھر جا رہی ہیں۔مہمان بس نکل رہے ہیں اب ۔”ازمیر ماں کے قریب آکے بولا۔
“بیٹا وہ ایلاف کو اچانک پتہ نہیں کیا ہو گیا پروین کہہ رہی اسکی طبیعت خراب ہے۔”وہ فکر مندی سے بولیں۔ازمیر نے لب بھینچے۔
“آپ پریشان نہ ہوں ۔بس اسکے سر میں درد ہے میں نے پروین کو بولا ہے کہ اسے چائے اور ٹیبلٹ دے آئے ۔آپ مہمانوں کو دیکھیں۔”ازمیر نے ماں کو تسلی دی۔
“ہم ۔میں فارغ ہو کے جاتی ہو پھر اسکے پاس۔”وہ بولیں ۔
ولید احدیہ کو ڈنر پہ لے جانا چاہ رہا تھا۔یہ کام اپنے بھائی اور بھابھی کے ذریعے کروایا۔وہ دونوں کپل ڈنر کے لیے چلے گئے ۔باقی مہمان بھی جا چکے تھے۔ازمیر کا تو دھیان ہی کسی اور بات میں تھا۔ثمینہ بیگم نے کمرے میں جھانکا تو وہ کمبل اوڑھے ہوئے تھی۔اسکے آرام کا خیال کرتے وہ آگئیں۔
مگر کون جانے اسکو آج سکون نہیں تھا میسر۔۔
۔ساری رات وہ سوچوں میں رہی کبھی رو پڑتی جب تکلیف برداشت سے باہر ہوتی ۔آج اسکے سارے پرانے درد ہرے ہو گئے تھے۔آج بے بسی اور بے سہارا ہونے کا درد اور بڑھ گیا تھا ۔
وہ اسے غلط سمجھ رہا تھا ۔اسنے تکلیف سے زور سے آنکھیں میچ لیں۔اپنے کردار کی گواہی وہ کیسے دے گی۔
کوئی بھی یقین نہیں کرے گا ۔اگر انہوں نے مجھے یہاں سی نکال دیا میں کہاں جاؤں گی۔بے رحم سوچوں سے لڑتے لڑتے جانے کب اس پہ نیند مہربان ہوئی۔
صبح جب اسکی آنکھ کھولی تو ثمینہ بیگم اسکے بیڈ پہ بیٹھی تھی سامنے کرسی پہ سکندر صاحب اور احدیہ اسکے ماتھے پہ پٹیاں کر رہی تھی۔
“کیسا ہی میرا بچہ اب ۔”ثمینہ بیگم نے اسکی کھولی آنکھیں دیکھ کے پوچھا ۔
“مجھے کیا ہوا ہے اور آپ سب لوگ ایسے کیوں بیٹھے ہیں۔”وہ سر میں شدید تکلیف کے باعث پوچھا۔درد سے جسم کا بھی برا حال تھا۔
“رات کو جب احدیہ کمرے میں آئی تھی تو تم بے ہوش پڑی تھی۔وہ تو پریشان ہی ہو گئی تھی۔رات سے پٹیاں کی اور دوا دی تو اب بہتر ہوئی ہو تم۔ثمینہ بیگم بولیں۔
“کہا تھا بیٹا نہ کرو اتنا کام تھک جاؤں گی۔سکندر صاحب بولے۔وہ ہنس بھی نہ سکی۔سب تھے وہاں مگر جس کی بے اعتباری نے اسکے اندر تھوڑ پھوڑ کی تھی وہ کہی نہیں تھا۔وہ آنکھیں موند گئ۔
دو دن سے وہ کمرے میں بند تھی تینوں پوچھ پوچھ کے تھک گئی تھے اسکی دوبارہ اس خاموشی کی وجہ ۔اب تو اسکی طبیعت بھی ٹھیک تھی۔
آج وہ باہر نکل آئی تھی مزید سوالات سے بچنے کے لئے۔سامنا ازمیر سے ہوا تو اسکے قدم ڈگمگا گئے۔
اس دیکھ کے ازمیر بھی روکا۔۔
“کیسی ہو اب۔”اسنے اسے پیلےزردہ چہرے کو دیکھ کے پوچھا۔
“ٹھیک ہوں۔”وہ ہونٹوں کو کاٹتے ہوئے بولی ۔
“وہ اس دن ۔”ایلاف نے غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی ۔
“تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔”وہ بولا اور ادھر آنسوؤں کا ریلا ایلاف کی آنکھوں میں آیا تھا۔ازمیر نے سرد آہ بھری ۔اسکا بازو پکڑا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔کمرے میں آکے اسے بیڈ پہ بیٹھایا اور خود کرسی کھینچ کے اسکے سامنے بیٹھ گیا۔
“تمہیں کیا لگتا ہے کہ اس دن کے واقعہ میں تمہیں شریک سمجھتا ہو۔یا پھر میں نے تمہارے کردار پہ شک کیا۔”وہ اسکی متوجہ تھا۔
ایلاف نے سر ہلایا ۔اور آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا ۔ازمیر کو اپنا آپ ان میں ڈوبتا محسوس ہوا۔
“تم ایسا سوچ بھی کیسی سکتی ہو۔میں اچھی طرح واقف ہو تمہارے کردار سے۔تم ایک بلند کردار لڑکی ہو ۔مجھے اس بات پہ یقعین ہے کوئی جو بھی کہیے یا کریے۔”ازمیر نے ایک ایک لفظ دل سے ادا کیا اور اسکے یہ الفاظ سامنے بیٹھے وجود میں روح پھونک رہے تھے۔
“یہ بیمار ہونا سب اس بات کے چکر سے ۔”ازمیر بولا۔
“اس رات آپ نے میری بات نہیں سنی تو مجھے لگا آپ نے مجھے غلط سمجھا۔”ایلاف منمنائی۔اب وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔
“اسکا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ تمیں میں غلط سمجھا ۔گھر میں اس وقت سب مہمان تھے میں نہیں تھا چاہتا کوئی تمہیں اسے دیکھے۔ کچھ مجھے اس علی پہ غصہ تھا جو میں نہ تھا نکال سکتا۔”وہ اسے سمجھا رہا تھا۔
“اور تمہیں پتہ تو ہے میرے غصے کا۔”اس ریلکس دیکھ پوچھا۔
“جی مجھ سے بہتر کس کو پتہ ۔اور جو آپ اتنے دن غائب رہے جب میں بیمار تھی۔”یاد آنے پہ باز پرس کی ۔
“توبہ لڑکی۔ہر چیز پہ تمہاری نظر ہوتی ہے۔میں آفس میں بے حد مصروف تھا۔میری غیر موجودگی سے اگر تم بیمار ہوئی ہو تو میں نیکسٹ ٹائم ایسا نئیں کروں گا۔”اینڈ پہ وہ شوخ ہوا۔
یہ دن کسی قیامت سے کم نہ تھا ۔سکندر صاحب کی
فیملی پہ۔انکو ہارٹ اٹیک ہوا تھا ۔ازمیر تو شک میں تھا ۔ثمینہ بیگم اور احدیہ کا رو رو کے برا حال تھا ۔
ایلاف تو گم صم بیٹھی تھی۔عجیب سا ڈر میں تھا ۔
“بابا آپکو کچھ نہیں ہوگا ۔”ازمیر انکا ہاتھ تھام کے نم آنکھوں سے بولا تھا۔
“میر بیٹے میرا بوجھ ہلکا کردو ۔میرے بچے ۔میں سکون سے تو مر سکوں۔”سکندر صاحب بولے ۔
“بابا آپ ایسی باتیں مت کریں۔”ازمیر پریشانی سے بولا۔
“بیٹا مرا بوجھ کم کر دوں ۔بیٹا ایلاف کو اپنا نام دے دوں ۔اسے اپنا لوں۔”سکندر صاحب ایک ہی تکرار کر رہے تھے۔
ازمیر تو گھوم کے رہ گیا تھا۔
“ایلاف بیٹا اپنے انکل کی بات مان جا بچے ۔اپنے انکل کو سرخرو کر دوں۔”ایلاف کو اندر آتے دیکھ وہ بولے ۔
“انکل آپکو کچھ نہیں ہو گا ۔اپ ٹھیک ہو جائینگے ۔”وہ سسک رہی تھی ۔
“ایلاف میرے بیٹے سے شادی کر لو۔میں سکون سے مر سکوں گا تمہیں محفوظ ہاتھوں میں سونپ کے۔”سکندر صاحب کو صرف ایک کی فکر تھی۔
ایلاف کو لگا جیسےاسکے سر پہ چھت آن گری ہو۔
کچھ دیر بعد وہ ایلاف عماد سے مسز ازمیر شاہ بنا دی گئی تھی۔اسے کوئی ہوش نہ تھی ۔
سکندر صاحب آپریشن کے لئے جاچکےتھے۔
“نہیں اللّٰہ پلیز انکو مجھ سے مت چھینے پہلے میرے
ماما بابا اور اب ۔نہیں آپ تو اپنے بندے کو ماں سے بھی ستر گناہ پیار کرتے ہیں ۔سن لیں میری دعا انکل کو ٹھیک کر دیں۔”وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح بلک رہی تھی۔
آئی ۔ای۔یو کا دروازہ کھولا اور ڈاکٹر باہر آیا تھا ۔ازمیر اور ولید انکی جانب بڑھے تھے ۔
“اب وہ خطرے سے باہر ہیں ۔”ڈاکٹر کے الفاظ نے سب میں جیسے روح پھونک دی تھی۔
“چند گھنٹوں تک ابھی انکو ابزرویشنز میں رکھا
جائےگا۔پھر آپ انکو مل سکتے ہیں۔”ڈاکٹر نے بتایا۔