رات میں جب سب ٹی وی لاوئج میں بیٹھے تھے تو ایلاف کو اسکے ایڈمیشن کا بتایا۔تو وہ اپنا سا منہ لے کے رہ گئی۔اسنے پھر احتجاج کرنا چاہا۔تو مگر وہاں کسی نے اسکی نہ مانی۔
اس دوران صرف ایک شخص خاموش تھا جسکو اس معاملے سے کوئی کنسرن نہ تھا اور اپنے موبائل میں گم تھا ۔ایلاف کے دماغ میں ایک تجویز آئی ۔
رات کو جب سب اپنے کمروں میں چلے گئے تو وہ باہر نکل آئی۔اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کرے۔پھر اپنا آپ مضبوط کر کے اسنے ازمیر شاہ کےدروازے پہ دستک دی ۔
“یس”اندر سے آواز آئی ۔دل میں آیا واپس پلٹ جائے مگر بات کرنے سے شاید کوئی حل نکل آئے یہ سوچ کے وہ اندر داخل ہوئی۔وہ اپنے لیپ ٹاپ پہ مصروف تھا۔
“مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔”وہ اپنی انگلیوں کو مسلتی ہوئی بولی۔آواز پہ سر اٹھا کے دیکھا۔لیپ ٹاپ سائیڈ پہ رکھ کے اسکے مقابل ریلکس سے انداز سے ٹراوزر کی پاکٹس میں ہاتھ ڈال کے کھڑا ہو گیا۔
“جی بولیں ۔میں ہمہ تن گوش ہوں۔”وہ جو پہلے ہی کنفیوژ تھی اب اور بھی برا حال تھا اسکا۔
“وہ ۔۔اک ایکچولی میں۔میرا مطلب ہے میں”ایلاف کی ہمت جواب دے رہی تھی۔
“جی بلکل آپ ہی اپنی نوعیت کا واحد پیس ہیں مجھے پتہ ہے آپ اب آگے بولیں۔۔”ازمیر نے اسکی حالت کو دیکھ کے بولا۔ ایلاف اس قابل پرسن کے سامنے اپنے شرمندہ ہونے پہ یہاں آنے پہ پچھتائی۔
“بات یہ ہے کہ میں یونیورسٹی نہیں جانا چاہتی آپ انکل سے بات کریں ۔انکو کنوینس کریں پلیز۔”اب وہ اور شرمندہ نہیں ہونا چاہتی تھی تو سانس لئے بغیر بات ختم کی ۔ازمیر کو رہ رہ کے اسکی حرکتوں پہ ہنسی آرہی تھی۔کیا واقعی وہ اس سے ڈرتی ہے جو بات کہنی ہوتی ہے اسکو چکنا چور کر دیتی ہے۔
“اور میں ہی کیوں اپ کو لگا کہ بابا کو کنوینس کر سکتا ہوں۔”ازمیر نے بھی ساری انوسٹگیشن آج ہی کرنی تھی ۔ایلاف کو اب غصہ آرہا تو خاموش ہی رہی۔
“چند دنوں میں کلاسز سٹارٹ ہو جانی ہیں تو الٹی سیدھی ترکیبوں پہ دماغ لگانے کی بجائے آپ اپنی تیاری میں ٹائم لگائیں۔دماغ کو اگلے لائحہ عمل پہ لگائیں۔”ازمیربولا۔اپنی بات اسکے اسطرح ہوا میں اڑانے پہ ایلاف کو خوب طیش آیا۔
” مجھے یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا آپ تو چاہتے ہی ہیں کہ میں نہ ہی رہوں گھر میں ۔تاکہ آپکو میری شکل نہ دیکھنی پڑے ۔”وہ جھنجلا کے بولی۔
“اف یہ نادر خیالات آپکے ۔آپکو ہر کسی کی سوچ تک رسائی ہوتی ہے۔”ازمیر خود پہ نئے لگنے والے الزام پہ ششدرکھڑا تھا۔اسنے سر اٹھا کے اپنے سامنے کھڑے شاہانہ شخص کو دیکھا جو گرے ٹروازر اور وائٹ ٹی شرٹ زیب تن کئے ہوئے تھا۔
“ہاں تو ۔مجھے جو لگامیں بتا دیا۔”وہ بات کہہ کے باہر جانے لگی۔
“آپکو لگتا میں ہر وقت آپکو ہی سوچتا رہتا ۔اسلئے آپکے خلاف سازشیں کرتا ہوں۔کیا اپ اتنی انٹرسٹنگ ہیں کا آپکو ہی سوچا جائے۔”ازمیر اسکے معصومانہ الزام پہ بے حد محفوظ ہوا۔آنکھوں میں مسکراہٹ لئے پوچھا ۔
“نہیں ۔میرا وہ مطلب نہیں ۔”وہ باہر جانے کو بے تاب تھی “نجانے کیوں میں نے بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ لیا۔”وہ منہ میں بڑ بڑائی۔باہر نکل آئی ۔
“ارے مطلب تو بتاتی جائیں۔”پیچھے سے آواز آئی ۔
“آف اللّٰہ اس انسان کے سامنے میری زبان کیوں بند ہو جاتی ہے۔کچھ نہ کچھ الٹا کر دیتی ہو میں ۔”اسنے کوفت سے سوچا۔
ایک عجیب سی انسیت ہوتی جا رہی تھی اس سے ۔اسکا ڈر ہی تو ختم کرنا چاہ رہا تھا اور اسنے ہی باباکو اسکے ایڈمیشن کا بولا تھا ۔تاکہ باہر نکلے دماغ کو کرب ناک سوچیں سے پاک کر کے مصروف ہو جائے ۔لوگوں سے خوفزدہ نہ رہے ۔اور وہ اسکے پاس ہی چلی آئی تھی کے یہ سب ختم کروا دئے۔اوپر سے اسکے الزامات ۔۔کتنی معصوم ،صاف دل اور اچھی ہے وہ آج کے دور میں بھی۔نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اسکے بارے میں سوچے جا رہا تھا۔
“پاگل”وہ ہنسا اور سر جھٹک کے پھر کام میں مصروف ہو گیا۔
ایلاف کو یونی جاتے دو ہفتے ہو گئے تھے اب وہ بھی مطمئن تھی اسکو زیادہ مشکل نہ ہوئی تھی کیونکہ احدیہ جو تھی اسکے ساتھ۔کچھ پھر اچھی فرینڈز مل گئی تھیں۔اکثر یونی کے بعد وہ ولید کے ساتھ اوٹنگ کا
پلان کر لیتی تھیں۔ولید سے اب وہ اچھی خاصی فرینک ہو گئی تھی۔ولید اور احدیہ کے رشتے کی بات دونوں فیملیوں کے بڑوں نے فکس کر دی تھی مگر باقاعدہ رسم نہیں ہوئی تھی ابھی ۔
“ایلاف تمہارے آنے سے میرے بھی سنی گئی ہے ورنہ یہ محترمہ تو اپنی صورت مجھے دیکھنا پسند نہ کرتی تھی ۔”ولید ایلاف کو اکثر کہتا تھا ۔
آج ولید کو انوائیٹ کیا تھا لنچ پہ ایلاف نے تو گھر میں ہلچل مچائی ہوئی تھی ۔احدیہ نے سب کو آگے لگایا ہوا تھا ۔صرف ایک فرد نظر نہ آیا۔ اسے شاید وہ اسے دیکھنا چاہ رہا تھا۔جب سے ایلاف اسکے روم سے ہو کے آئی تھی اسکی کے بارے میں سوچے جا رہا تھا ۔اسے دیکھ کے دل کرتا کے اسے تنگ کرے ۔اسکی باتوں پہ ہنسی جو آتی تھی۔کوشش کر کے بھی وہ ایسے خیالات سے پیچھا نہیں چھوڑا پا رہا تھا۔انہی سوچوں میں گم کھڑا تھا جب پاس سےگزرتی احدیہ نے اسکی آنکھوں کے آگے ہاتھ ہلا کر اسے متوجہ کیا۔
“یہ تیاری کس چیز کی ہو رہی کہی ولید صاحب تو تشریف نہیں لا رہے؟”ازمیر نے کچن سے آتے شور اور ڈرائنگ روم کی صفائی کرواتی ماں کو دیکھ کے پوچھا۔
“سارا دن پہلے آفس میں اسکی شکل دیکھوں اب گھر میں بھی ۔کیا سزا ہے؟”آزمیر شرارت سے بولا۔
“بھائی۔ماما کو بتاؤں آپ انکے بھانجے کو کیا کہہ رہےہیں ۔”احدیہ بھائی کی شرارت سمجھ کی ہنس کے بولی۔اور پھر ماما کی آواز پہ وہ ڈرائنگ روم چلی گئی۔
اس وقت ایلاف کچن سے نکلی تھی۔
“پہلے گھر میں اپنا بی ہیو نارمل کرنےوالی بات پھر یونی جانے والی بات مانی میری ۔خاصی تابع دار ثابت ہو رہی ہیں اپ ۔آئی لائک اِٹ۔”ازمیر پاس سے گزرتی ایلاف کو دیکھ کے شرارت سے بولا۔
“ولید کو بلانے کی کوئی خاصی وجہ۔”جواب نہ پا کے ازمیر نے اگلا سوال کیا۔
“ہر کام کی کوئی خاص وجہ ہونی ضروری نہیں ۔کچھ کام دل کے کہنے پہ بھی تو کئے جاتے ہیں ۔ اور پھر ولید بھائی تو اس گھر کے داماد بھی ہیں ۔اتنی وجہ کافی نہیں۔”اسکاجواب آیا تھا ۔پچھلی دفعہ کا غصہ نکالا ایلاف نے بھی۔ازمیر بھی محفوظ ہوا یہ ہی تو چاہتا تھا وہ ۔
“واہ ۔آپ تو بول بھی لیتی ہیں ۔مجھے لگا صرف۔وہ۔مم۔میں۔کرنا آتا ہے۔”ازمیر مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا۔
“آپ مجھے غصہ مت دلائیے مجھے ابھی بہت کام ہے۔”اسنے پھر کچن کا رخ کرنا چاہا۔
“ارے ارے غصہ مجھ پہ کیوں ۔کھانا ولید بھائی کے لیے بنا رہی ہوں۔جس دن میرے لئے کچھ بناؤں گی اس دن غصہ دکھانا خدا کی قسم خوب نخرے اٹھاؤں گا۔”آخر میں شرارت سےبولا۔ایلاف کو اس ڈیشنگ بندے سے ایسی بات کی امید نہ تھی تو مزید باتوں سے بچنے کے لئے کھسک ہی گئی وہاں سے۔
ایک گھنٹے بعد ولید آ گیا تھا۔کچھ دیر بعد ازمیر بھی لاؤنج میں داخل ہوا۔
“اچھے میزبان ہو تم ۔مہمان کو بلا کے خود غائب ہو۔”ولید نے اسے دیکھ کے کہا۔
“ایکسیوزمی ۔میرے ابھی اتنے برے دن نہیں آئے کہ تمیں بلاؤں۔”ازمیر نے جواب دیا۔
“دیکھیں آج یہ میرے مہمان ہیں ۔آپ انہیں کچھ نہیں کہہ سکتے۔”ٹیبل پہ کھانا لگاتی ایلاف نے موڑ کر کہا۔
“اوہ رئیلی۔تو اپ ہمیں کب بلا رہی ہیں بطور مہمان ۔”ازمیر ایلاف کی طرف گھوما تھا ۔اور آنکھوں میں شرارت لئے پوچھ رہا تھا ۔
“کبھی بھی نہیں۔”فوراً سے جواب آیا تھا۔
“ایسا ناں ہو کہ ایک دن تمیں دل کے ہاتھوں مجبور ہو کے بلانا پڑے۔”ازمیر ایلاف کی آنکھوں میں دیکھ کے بولا۔
“ایسا دن کبھی بھی نہیں آئے گا۔”کہہ کے آگے بڑھ گئی ۔
“ولید بھائی آجاہیں کھانا لگ گیا ہے ۔”وہ ازمیر کو اگنور کرتی آگے بڑھ گئی ۔ازمیر نے تو آج تک اگنورنس نہ جھیلی تھی ۔یہ لمحہ اسے بہت بھاری محسوس ہوا تھا۔سب کےساتھ تو ہنستی پھرتی رہتی تھی ۔ازمیر بہت کنڑول کرتا تھا کہ وہ اپنی ایسی سوچوں پہ بند باندھے لیکن وہ مجبور تھا ۔
وہ اٹھا گاڑی کی چابی اٹھائی اور باہر نکل گیا۔
“بیٹا کھانا تو کھا جاؤ۔یہ لڑکا بھی ۔۔۔” وہ ان سنی کرتا باہر نکل گیا۔اسے اس وقت بس اپنی سوچوں سے وحشت ہو رہی تھی۔
اس وقت وہ پارک کے تاریک گوشے میں بیٹھا تھا اپنی ہی سوچوں میں گم تھا ۔وحشت تھی جو کم ہونے کا نام نہ لے رہی تھی۔
“وہ آخر مجھے کیوں اگنور کرتی ہے ۔کیوں۔”وہ سر میں ہاتھ پھیرتے بڑبڑایا۔آج سے پہلے کبھی اسکے اندر اتنی ٹوٹ پھوٹ نہ ہوئی تھی جتنی اب اسے سہنی پڑ رہی تھی ۔
نا جانے ایسے بیٹھے اسے کتنا وقت گزار گیا تھا ۔سیل کو نکال کے ٹائم دیکھا تو بابا کی ۱۰مسڈ کالز تھی ۔
“شٹ “وہ بابا کی پریشانی کو سمجھ کے خود پہ ہی غصہ ہوا۔اور گاڑی کی طرف بھاگا ۔بابا کو کال کے کہ بتایا کہ بس گھر ہی آرہا ہوں۔
“ازمیر کچھ تو خیال کرو ۔آخر کون سا ایساضروری کام آگیا تھا جو تم سب چھوڑ چھوڑ کے بھاگے۔چار گھنٹے ہو گئے ہیں یوں بنا بتائے گئے ہوئے۔”وہ سر جھکائے سن رہا تھا۔
“یہ کوئی طریقہ ہے نہ تم آفس تھے نہ کسی دوست کے پاس سب سے پتہ کر چکا ہوں ۔اوپر سے نہ تم کال اٹھا رہے تھے حالات کا بھی پتہ ہے تمہیں ۔ماں تمہاری تب سے پریشانی گھوم رہی۔”جان اٹکی تھی انکی اپنی بچوں میں ۔
“سوری ۔نیکسٹ ٹائم خیال رہے گا۔سیل بھی سائلنٹ پہ تھا۔”وہ ماں کے ہاتھوں کو پکڑ کے بولا ۔
“پریشان کردیتے ہو تم مجھے۔”وہ ازمیر کو ساتھ لگاتے ہوئے بولیں۔سکندر صاحب سونے چلے گئے تھے ۔اور احدیہ بھی انکی چائے بنانے کچن میں آگئی۔ماما بھی اٹھ گئیں نماز کے لیے ۔
“کھانا لاؤں آپکے لئے۔”ایلاف جو کب سے کھڑی دیکھ رہی تھی خیال آنے پہ پوچھا ۔
“زہر دے دیں ۔”ازمیر نے گھور کے کہا اسکی وجہ سے تو یہ سب ہوا تھا ۔دماغ ہی کام کرنا بند ہو گیا تھا۔
“آپ نے دوپہر میں بھی کچھ نہیں کھایا تھا ۔”یاد آنے پہ ایک دفعہ پھر بولی۔
“شکریہ آپکا ۔میری فکرکرنے کی آپکو قطعاً ضرورت نہیں ۔آئی سمجھ۔”اسے وارن کرتے اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
ایلاف کی آنکھوں میں انسوں آگئے ۔
بھلا اس سب میں میرا کیا قصور ہے ۔گھر جو انکا جو مرضی سلوک کر سکتے ۔”وہ دل گرفتہ ہوئی ۔وہ کمرے میں چلی گئی۔رونا آرہا تھا اسے وہ اگر اس سے بہت فرینک نہ تھا تو ایسا روڈ بی ہیںوبھی نہ کرتا تھا۔
اب کون جانے ۔قصور تو کسی کا بھی نہ تھا ۔
“کل کیا ڈرامے بازی کی تھی تم نے ۔وجہ جان سکتا ہو۔”ولید نے اندر داخل ہوتے پوچھا ۔جو فائل میں سر دئیے اسے چیک کر رہا تھا ۔
“پلیز کل کے بارے میں تم مجھ سے نہ ہی بات کروں تو اچھا ہے۔”وہ جل کے بولا۔
“یار بتا کے تو جانا چاہیے تھا ناحق پریشان کیا سب کو ۔فکر ہو رہی تھی سبکو۔اتنی محنت سے ایلاف نے سب ارینج کیا تھا بعد میں اس سمیت سب ہی پریشان ہو گئے۔”ولید نے اسے شرم دلانے کی کوشش کی۔
“ہاں تو کس نے کہا تھا ہوں پریشان ۔ایلاف کی فکر کی مجھے ضرورت نہیں ہے ۔”وہ اشتعال سے بولا۔
“بات کیا ہے بتا مجھے کیوں اتنا عجیب بے ہیوکر رہے ہو۔”وہ بہت تحمل مزاج تھا پر آج تو۔۔ ولید نے پوچھا۔
“کچھ بھی نہیں۔”اسنے رکھائی سے جواب دیا۔ولید نے اسے کھینچ کے کرسی اٹھایا اور گھسیٹتااپنے کیبن میں لے گیا۔بچپن کی دوستی دونوں ایک دوسرے کی رگ رگ سے واقف تھے۔
“بات کیا ہے بک بھی چکو۔ویسے تمہاری جان نہیں چھوٹنی پتہ ہے تمہیں۔”ولید نے وارن کیا۔
“یار وہ مجھے اگنور کرتی ہے تو مجھ سے برداشت نہیں ہو پاتا ۔وہ سمجھتی ہے میں اسے گھر سے نکالنا چاہتا ہوں۔میں ہر وقت اسے ہی سوچنے پہ مجبور ہو لاکھ کوشش کی کہ میں ایسا نہ سوچوں ۔میرا دماغ خراب ہو گیا ہے ۔میں تھک چکا ہوں۔”ازمیر پھٹ چکاتھا۔اور ولید کا منہ کھولا رہ گیا۔
“ایسے کیا دیکھ رہے ہو جب بتانہیں تھا رہا تب پرابلم تھی اب بتا دیاپھر بھی گھور رہا ۔منہ تو بند کر ۔”ازمیر نے اسے گھورا۔
“یہ ساری گفتگو کس کے بارے میں ارشاد فرما رہے تھا
یقیناً ایلاف ۔”ولید نے شک کو یقعین کی مہر لگانے کے لئے ازمیر سے پوچھا ۔جو صرف سر ہلا کے دوسری طرف منہ کر گیا۔
“مطلب تمہیں بھی نکیل ڈالنے والی آ ہی گئی۔”ولید بات کے آخر میں جو ہنساازمیر کی گھوریوں سے بھی منع نہ ہوا۔اس سے پہلے کہ ازمیر کوئی بھاری چیز اٹھا کے مارتا اریجنٹ میٹنگ کی کال آگئی۔
“پہلی پہلی بار محبت کی ہے کچھ نہ سمجھ میں آئے میں کیا کروں ۔”ولید نے شرارت سے ازمیر کو دیکھ کے گنگنایا اور باہر بھاگا گیا ۔
اور ازمیر کھل کے ہنس پڑا ۔دل کا بوجھ کم ہوا تھا۔
“تمہارا انتخاب بہت ہی بہترین ہے اب میٹنگ میں آ جاؤں ۔خواب بعد میں دیکھ لینا ۔ورنہ خالو جان کے ہاتھوں خیر مناؤں۔”دھمکی بھی دی گئی تھی میسیج میں ۔وہ پڑھ کے مسکرایا ۔وہ میٹنگ روم کی طرف آ گیا۔