اس کے سامنے کئی راستے تھے جن میں سے اس نے ایک راستے کا انتخاب کرکے ناول منزل تک پہنچنا تھا ۔ اسے اصغر حمید سے سخت محبت تھی اور اسی راستے پہ چل کر وہ اپنی منزل پاسکتی تھی ۔لیکن اس نے اپنا راستہ مرینہ کی خاطر بدلنا تھا۔ پھر عرینہ کے غائب ہو جانے کے بعد اس نے اپنا راستہ نہیں اپنی منزل بدلنا تھی ۔ رشتے ٹوٹ رہے تھے ۔ خاندان بکھر رہا تھا ۔ عزت قربانی مانگ رہی تھی ۔ اس نے برآمدے میں لٹکی سیا رنگ کی گرم چادر اوڑھ لی او ر گھر سے نکل گئی ۔
ابھی ابھی اسے مرینہ کے منہ سے جن باتوں کا پتا چلا تھا ، اس نے اس کے دماغ میں بجلیاں گرا دی تھیں ۔ عرینہ جیسی بے دھڑک لڑکی کس قدر خاموشی سے ان سب کی زندگیوں میں زہر گھول کر چلی گئی تھی ۔
وہ اس سرد اندھیری رات میں بنا کچھ سوچے سمجھے ، بنا اپنے دل پہ ہاتھ رکھے، رشتوں اور خاندان کی عزت کی خاطر قربانی دینے جارہی تھی ۔
رات گئے بالکل اکیلے، تنگ و تاریک گلیوں سے گزرتے ہوئے اسے بالکل بھی ڈر نہیں لگ رہا تھا ۔ بلکہ اب تو اسے کسی بھی چیز کا ڈر نہیں تھا ۔ نہ کچھ کھودینے کا اورنہ کھو جانے ۔
وہ خاموشی سے لاؤنج میں داخل ہوگئی ۔ڈائیننگ روم میں سے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ یقینا سب کھانا کھارہے تھی ۔ وہ بے حد خاموشی کے ساتھ اپنے کمرے میں گئی اور لائٹ آن کیے بغیر وہ سمٹ کر بیڈ پر لیٹ گئی ۔
گر م گرم آنسو بڑے آرام سے اس کی آنکھوں سے گر کر تکیے میں جذب ہوتے رہے۔ کوئی آرہاتھا ۔ اس نے اپنی نم آنکھیں زور سے بھینچ لیں۔
منزہ خاموشی سے آ کر اس کے پاس بیڈ پر لیٹ گئی ۔
حمائل دم سادھے پڑی رہی ۔ وہ منزہ کے سامنے ٹوٹنا نہیں چاہتی تھی ۔ بڑی خاموشی اوربے بسی وہ نجانے کب تک آنسو بہاتی رہی تھی ۔ ہماری زندگیوں میں ہمارے پاس آنسو ہی تو سب سے سستی چیز ہوتے ہیں جنہیں ہم جب چاہیں جہاں چاہیں، ڈھیر سارا بہا سکتے ہیں ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اس نے دروازہ زور سے بجایا ۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد فیروز بھائی نے دروازہ کھولا۔ وہ بنا اجازت خاموشی سے اندر چلی گئی ۔
” دینا ! تم اس وقت؟ یہاں ؟” برآمدے میں روشن بلب کی روشنی میں انہوں نے اس کا چہرہ دیکھا ۔ “کیوں آئی ہو تم ؟” ان کا لہجہ اجنبیوں والا تھا ۔
” فیروز ! کون ہے دروازے پر ؟”کمرے کے دروازے میں پھوپھا کھڑے پوچھ رہے تھی ۔
” ابا وہ ۔۔” فیروز بھائی ہچکچائے ۔
” میں ہوں دینا ۔” وہ برآمدے میں گئی ۔
” ہم نے تمہارے گھر والوں سے ہر رشتہ توڑ دیا ہے ۔”
” میں رشتہ جوڑنے آئی ہوں ۔” وہ متانت سے بولی ۔
” لڑکی رات گئے اکیلی گھر سے نکلی ہو اور ہم اس سے رشتہ جوڑیں؟ ناممکن ہے ۔” ان کے لہجے میں حقارت تھی ۔
” یہ لڑکی رات گئے خاندان توڑنے نہیں جوڑنے نکلی ہے ۔”
” رات کو اتنی دیر گھر سے اکیلے نکل آئی ۔ یہ ہے تمہاری تربیت؟”
” معاف کیجیے گا ۔ یہ میری تربیت کا حصہ نہیں ، میں مجبوری کے تحت آئی ہوں ۔”
” تم کہنا کیا چاہتی ہو ؟”
” میں علی سے شادی کرنا چاہتی ہوں ۔” اس کا لہجہ پر اعتماد تھا ۔
” تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ ہم دوبارہ تمہارے ہی گھر سے اپنے بیٹے کا رشتہ جوڑیں گے؟” وہ خشک لہجے میں بولے۔
” یہ تم کیا کہہ رہی ہو دینا ؟” بڑی پھوپھی کمرے سے نکلیں ۔
” لو بھئی ! ایک منگنی کر کے بھاگ گئی اور دوسری شادی کرنے آئی ہے ۔” اپنے کمرے کے سامنے فردوس بھابھی نے طنز کیا ۔
” خاموش رہو فردوس ! میں بات کررہی ہوں ۔” بڑی پھوپھی نے سختی سے کہا اور دینا کی طرف دیکھنے لگیں۔
” جو ررشتے ٹوٹ گئے ان کو دوبارہ جوڑنا اگر ناممکن ہے تو ان ٹوٹے ہوئے رشتوں کے پیچھے ہم برسوں پرانے رشتوں کو کیوں توڑ دیں ؟پھو پھاجی جو عزت چلی گئی ہے وہ آپ کو واپس نہیں مل سکتی چاہے آپ ہم سے قطع تعلق کیوں نہ کرلیں ۔” وہ پھوپھا جی کے قریب جا کر متانت سے بولی ۔
” ہمارے دامن داغ دار ہو گئے ہیں لیکن اس کے لیے ہم ایک دوسرے کو تو الزام نہیں دے سکتے۔ خاندان توڑنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ میں بس ایک التجا کرنے آئی ہوں، رشتوں کو یوں بے قیمت کرکے نہ توڑیں ۔” اس کے لہجے میں التجاء تھی ۔
” مجھے آپ سے کچھ نہیں چاہیے ۔ عزت ، محبت ۔ کچھ بھی نہیں ۔ ”
” بس پھوپھی”! مجھے اپنے بیٹے کی زندگی میں شامل کرلیں ۔
” ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ ناممکن ہے ۔” پھوپھا نے فیصلہ سنا دیا۔ ” میرا بیٹا کبھی تم سے شادی نہیں کرے گا ۔”
” میں دینا سے شادی کرنے کو تیار ہوں ۔” علی سیڑھیاں اترتا ہو انیچے آگیا ۔ دینا نے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا ۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی ۔
” بیٹا ! یہ بچوں کا کھیل نہیں ہے ۔” پھوپھی گھبرائی ہوئی تھیں۔
” میں جانتا ہوں اماں! آپ فکر نہ کریں ۔ ” وہ دینا کی طرف بڑھ گیا ۔
” تم ایسا نہیں کرو گے علی” ! پھوپھا نے علی کو تنبیہ کیا ۔
” ابا ! آپ کا بیٹا مر چکا ہے اور اس زند ہ لاش کے ساتھ کو ئی لڑکی زندگی گزارنے کو تیار نہیں ہوگی۔یہ جو لڑکی آپ کے سامنے کھڑی ہے یہ آپ کے بیٹے کو واپس زندگی کی طرف لے آئے گی ۔” علی نے معنی خیز انداز میں کہا اور دینا کی طرف متوجہ ہوا۔
” تمہارا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں ۔ میں تمہیں گھر تک چھوڑ آتا ہوں ۔” اس نے دینا کا ہاتھ تھام لیا اور گھر سے نکل گیا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اگلا پورا دن وہ یونیورسٹی میں خود کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہی تھی کہ صبار جا چکاہے ۔ کیفے ٹیریا میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھاتے پیتے وقت وہ زیادہ تر خاموش رہی ۔ اسے ہر چیز یک دم بے رنگ و بے مزہ سی لگنے لگی تھی ۔ تابندہ ،افصہ کامل یا مطیع کسی کو بھی دیکھ کر اس کو اپنائیت کا احساس نہیں ہوا تھا۔ صبار قاسم نے جا کر اس کی ساری مسکراہٹیں ، اس کی ساری خوشیاں مارڈالی تھیں ۔ اپنے دوستوں کے جمگھٹے میں وہ اس چہرے کو تلاش رہی تھی جو وہاں تھا ہی نہیں ۔ اور پھر حمائل نے اپنے دوستوں سے ملنا چھوڑ دیا تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
علی نے دینا کا ہاتھ بہت مضبوطی سے تھام رکھا تھا ۔ اس کو گھرلے جاتے ہوئے وہ پورے راستے خاموش رہا ۔ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا ۔دینا سے بھی سارے لفظ کہیں کھو گئے تھے ۔
” آئندہ کوئی مجبوری تمہیں رات کو گھر سے نکلنے پر مجبور نہیں کرے گی ۔” اسے گھر پہنچا کر وہ بولا ۔ ”
میں کل اماں ابا کو منا کر رشتے کیلئے بھیج دوں گا ۔
” شکریہ ۔” وہ گھر کا دروازہ کھول کر اندر جانے لگی ۔
” میں باہر ڈیرے پر ہوں ۔ بے فکر ہو کے سو جانا ۔” وہ ڈیرے کی سمت چلاگیا ۔ دینا بھاری بھاری قدم اٹھاتی گھر میں داخل ہوئی تھی۔
” بے یقینی کی کیفیت میں وہ کمرے میں داخل ہوئی ۔ جو ہو گیا تھا وہ خواب کی مانند تھا ۔” بہت بڑی قیمت ادا کر کے میں نے اس گھر کیلئے محافظ خریدا ہے اور تم آگئے تو مجھ سے سوال کرو گے ۔” وہ پلنگ پر لیٹ گئی ۔
اچانک اسے احسا س ہو گیا کہ اس کی ٹانگیں دکھ رہی ہیں ۔اسے یاد آیا دسمبر کا مہینہ ہے اور سردی بہت پڑرہی ہے ۔اس نے کمبل اوڑھ لیا ۔
” رات گئے ۔ اکیلی لڑکی گھر سے نکلی ہو اور ہم اس سے رشتہ جوڑیں ۔ نا ممکن ہے ۔
” لو بھئی ایک منگنی کر کے بھا گ گئی ۔دوسری شادی کرنے آئی ہے ۔
” اسے یک دم اپنا آپ ایک بے مول سکے کی مانند معلوم ہوا۔ اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی ۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ اسے اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا کیونکہ ابھی تک اسے اس حقیقت کا یقین ہی نہیں تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وہ باقاعدگی سے صبار کے ساتھ رابطے میں رہی ۔ کبھی اس سے فون پر بات ہو جاتی ، کبھی سکائپ تو کبھی فیس پک پر ۔ اور اس کے بارے میں حمائل نے کئی بار سوچا تھا ۔ ” کسی سے محبت کرنا عجیب بات نہیں لیکن تم میری عادت بنتے جارہے ہو ۔” اس کیلئے صبار قاسم اور اس کی محبت بے پناہ اہمیت کی حامل تھی ۔ یہی حمائل کی وہ واحد جاگیر تھی جس میں منزہ علی کا کوئی حصہ نہیں تھااور محبت کا اصل مزہ تو تب ملتا ہے جب وہ پوری کی پوری، مکمل طور پر آپ کو مل جائے ۔ اور آپ کسی بڑے جاگیردار کی طرح اس پر برے مزے سے قبضہ جمالیں ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
نہ جانے کیسے علی نے پھوپھا ، پھوپھی کو منا لیا تھا کہ وہ اگلے دن دینا کیلئے علی کا باقاعدہ رشتہ لے کر آگئے ۔
اماں نے بڑی ماں کی اجازت اور دینا کی مرضی جاننے کے بعد ” ہاں” کر دی ۔
پھوپھا ، پھوپھی کے جانے کے بعد جو وہ بڑی ماں کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور وہ جس قدر دل کھول کر روئی تو ساتھ میں سب کو رلا گئی ۔
” اپنے اصغر کی دلہن بنانا چاہا تھا اس کو ۔ ایسا کب سوچا تھا ؟” ان کے دل کو ایک گہرا زخم لگاتھا ۔ کچھ حادثات و واقعات انسان کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی روح کو بھی اذیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اس کی پیکنگ مکمل ہو گئی تو ہ لان میں جا کر امی کے پاس بیٹھ کے چائے پینے لگی ۔ اگلے دن اس نے یونیورسٹی کی طرف سے سٹڈی ٹور پر کشمیر جانا تھا ۔
” کل کس ٹائم نکلو گی ؟” امی نے چائے پیتے ہوئے دریافت کیا ۔
” گھر سے سات بجے نکلوں گی ۔ یونیورسٹی سے نکلتے نکلتے نو تو بج ہی جائیں گے ۔”
” اپنے کھانے پینے کا دھیان رکھنا وہاں پر ۔ کچھ الٹا سیدھا مت کھا لینا۔”
امی جی ! یہ کیا آپ ٹپیکل ماؤں جیسی باتیں کررہی ہیں ؟”
” اپنے بچوں کیلے ہر ماں ٹپیکل بن جاتی ہے ۔ انہوں نے حمائل کا ہاتھ چوم لیا ۔
” Anyways. I love you. ” اس نے ان کا بوسہ لیا ۔
” I Love you too ” انہوں نے حمائل کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔
” کیا ہو گیا ہے ؟” یہ کیوں ایسا behave کررہی ہے ؟ میں وجہ کیوں نہیں جان پارہا ؟” لاؤنج کی کھڑی سے باہر دیکھتے ہوئے انہوں نے افسردگی سے سوچا اور صوفے پر جا کر بیٹھ گئے ۔
ان کی عزیز ترین بیٹی ان کا قیمتی اثاثہ تھی، لیکن وہ ان سے ایسے بد گمان ہو گئی تھی کہ ان سے بات کرنا بھی اسے گوارا نہیں تھا ۔ وہ اگر سختی سے بات کرتے تو وہ بگڑ جاتی تھی ۔ غصہ ہو جاتی تھی ۔ بد تمیز ی پر اتر آتی تھی۔اور اگر وہ نرمی سے بات کرتے تو وہ ٹال جاتی تھی، ان کو نظر انداز کر دیا کرتی تھی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وہ اپنے کمرے میں بچھے قالین پر ٹانگیں پھیلائے بیٹھا تھا ۔اس کی گرم چادر کا ایک سرا اس کے کندھوں اور دوسرا سرا قالین پر پڑا تھا ۔ اس نے ایک ہاتھ میں لائیٹر اور دوسرے ہاتھ میں عرینہ کی تصویر پکڑی ہوئی تھی ۔
” عورت گھر کی عزت ہو تی ہے اور جب یہ عزت گھر میں موجود ہو تی ہے تو ہم اس سے محبت بھی کرتے ہیں او راس پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کو بھی تیارہوتے ہیں ۔ ” اس نے لائیٹر جلایا ۔
” لیکن جب یہ عزت گھر کی چوکھٹ پارکرلیتی ہے تو پھر نہ یہ ہماری عزت رہتی ہے نہ ہماری محبت، اور نہ ہی ہماری زندگیوں میں اس کی کوئی اہمیت رہ جاتی ہے ۔” وہ عرینہ کی تصویر جلانے لگا ۔
” عورت تم جیسی نہیں ہوتی عرینہ حمید ! عورت تو وہ ہے جو یہ جاننے کے باوجود کہ مجھے تم سے محبت ہے ۔ مجھ سے شادی کرنے لگی ہے ۔ ” اس نے جلتی ہوئی تصویر کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھا ۔” تم جیسی بد کردار عورتیں محبت کے لائق ہی نہیں ہو تیں ۔” وہ اٹھ کر بے چینی سے ٹہلنے لگا ۔
وہ تجھ کو بھولے ہیں تو تجھ پہ بھی لازم ہے میر
خاک ڈال ، آگ لگا ، نام نہ لے ، یاد نہ کر
اس نے میر تقی میر کا شعر زیر لب کہا اور آرام کرسی پر بیٹھ کر جھولنے لگا ۔
میں نے آج تم سے زندگی اور محبت کا ہر رشتہ توڑ دیا ہے اور میں ۔۔۔ علی سراج آج قسم کھاتا ہوں کہ آئندہ زندگی میں اگر تم کبھی میرے سامنے آئیں تو میں تم سے منہ موڑ کر ایسے چلا جاؤں گا جیسے تمہیں جانتا تک نہیں ہوں ۔” سخت لہجے اور مضبوط ارادے کے ساتھ اس نے خود سے ایک بڑا وعدہ کیا تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
دودھ کا ایک گلا س پی کر اس نے ٹوسٹ پہ جام لگایا اور جلدی جلدی کھانے لگی ۔ اس مختصر سے ناشتے کے بعد وہ امی اور شہروز بھائی سے مل کر گھر سے نکل گئی ۔
وہ بہت زیادہ پرجوش تھی۔ دوہفتوں تک کشمیر کے مختلف علاقوں میں گھو م پھر کر انہوں نے مختلف قسم کے پودے جمع کرنے تھے۔ اسی پلانٹس کولیکشن ٹور کیلئے اس نے بہت انتظار کیا تھا اور آج وہ بہت زیادہ خوش تھی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
بڑی اماں کی حالت دن بدن خراب ہوئی جارہی تھی یا تو وہ بالکل چپ رہتیں اور اگر کچھ بولتیں تو ساتھ ساتھ روتی جاتیں ۔
دینا ان کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھی ۔ ان کا دھیان بٹانے کی کوشش کرتی لیکن وہ دینا کو دیکھ دیکھ ملو ل ہوتیں اور مزید رونے لگتیں ۔
پہلے تو کسی کا سہار ا لے کر باہر آجاتیں لیکن اب تو انہوں نے کمرے سے نکلنا چھوڑ دیا تھا ۔
“میرے کام کو مجھ پر آسان کر دے ” سورة طٰحہٰ کی آیت نمبر 26 کا ورد کرتی وہ بڑی ماں کے کمرے میں گئی ۔ اب اسے وہاں جاتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ اس عورت کے آنسو دینا کو بہت کمزور بنا دیتے تھے ۔وہ ان آنسوؤں میں بہنا نہیں چاہتی تھی اسی لیے ان کے کمرے میں جاتے وقت و ہ خود کو بہت ساری قرآنی آیات کے حصارمیں لے لیتی تھی ۔
“کیسی طبیعت ہے اب آپ کی ؟” وہ ان کے پاس جا کر بیٹھ گئی ۔ بڑی ماں خاموشی سے چھت کو گھورتی رہیں، ان کی آنکھوں کے کونے بھیگنے لگے ۔ دینا نے ان کی آنکھوں میں چمکتے موتی دیکھ لیے تھے ۔ اس کا دل کٹ گیا ۔
” اور میرے کا م کو مجھ پر آسان کر دے ۔” اس نے زیر لب کہا ۔اس کا دل گھبرا رہاتھا ۔
” آپ کتنی سخت مزاج ہو اکرتی تھیں ۔ ایسا لگتا ہے آپ جیسے برف تھیں اور اب آپ پگھل کر پانی ہورہی ہیں لیکن مجھے ڈر ہے یہ پانی مجھے خود میں کہیں بہا کر نہ لے جائے ۔” اس کا دم گھٹنے لگا ۔ فون کی گھنٹی بج رہی تھی وہ بھا گ کر باہر چلی گئی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” حمائل چلی گئی ؟” رات کا کھانا کھاتے ہوئے انہوں نے سوال کیا ۔
” جی چلی گئی ۔” خالہ نے مختصر جواب دیا ۔
” مل کے نہیں گئی ۔ ” ان کے لہجے میں افسردگی تھی ۔
” جلدی میں تھی ۔” جو اب پھر سے مختصر تھا ۔ وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگے ۔ ” جلدی میں نہیں تھی کوئی اور وجہ ہے ۔” انہوں نے تاسف سے سوچا ۔
” مجھ سے بھی تو نہیں ملی وہ ۔” خاموشی سے کھانا کھاتی منزہ نے سوچا ۔
رات کو سوتے وقت بے اختیار اسے حمائل کی یاد آگئی ۔
” تم نہیں ہوتی تو اچھا ہوتا ہے میں سکون سے رہ پاتی ہوں لیکن اس وقت تمہاری کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے ۔” منزہ نے کروٹ بدل کر اداسی سے سوچا۔
دل دکھاتا ہے وہ مل کر بھی مگر آج کی رات
اسی بے درد کو لے آوؑ کہ کچھ رات کٹے
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اس نے ریسیور کان سے لگا لیا ۔
” ہیلو۔اصغر بول رہا ہوں۔”
” اور میرے کا م کو مجھ پر آسان کر دے ۔” اس نے تہ دل سے دعا مانگی اور خاموش رہی ۔ اس کے دل کی دھڑکن جیسے تھم گئی تھی ۔
” ہیلو! فون پہ کون ہے ؟” اس کو ریسیور میں سے اصغر کی آواز سنائی دی ۔
” جب میں تمہارے راستے پہ چل رہی تھی ، جب تم میری منزل تھے تب میں تمہاری آواز سننے کو مہینو ں تک ترستی رہی اور آج جب میں نے راستہ بدل لیا ہے ۔ میری منزل کوئی اور ہے تو تمہاری آواز سن رہی ہوں۔”
” ہیلو؟” ریسیور میں سے اصغر کی آواز پھر سے ابھری ۔
” پتھر بن چکی ہوں لیکن تمہاری آواز مجھے ریت بنادیتی ہے ۔میں تمھار ا سامنا کیسے کروں گی اصغر حمید ؟ سب کے آنسو دیکھ سکتی ہوں لیکن تمہارے آنسو دیکھوں گی تو مر جاؤں گی ۔ ” اس نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا اور نڈھال سی نیچے بیٹھ گئی۔
” میں دل والی نہیں ہوں۔ اصغر ! تم میری منزل نہیں ہو ۔” اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اور رونے لگی ۔ تمہاری طاقت کسی اور نے چھین لی ہے اصغر ! ” اس نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھو ں میں ڈھانپ لیا۔ دینا اگر اصغر حمید کی طاقت تھی تو اصغر دینا سعید کی سب سے بڑی کمزوری تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
منزہ کے کالج میں فن فئیر تھا ۔ خالہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے وہ کالج جانے کے بہ جائے گھر پر رکی ۔ خالہ کو دوادینے کے بعدو ہ سٹور روم کی طرف چلی گئی ۔اس کی پینٹنگ کا سار ا سامان سٹورروم میں پڑا تھا ۔جہاں وہ فارغ وقت میں بیٹھ کر پینٹنگز بنایا کرتی تھی ۔
اس نے بہت عرصے سے اکیلے بیٹھ کر کوئی پینٹنگ نہیں بنائی تھی اور اس خاموش سے ماحول میں اس کا دل کسی اچھے سے منظر کو کینوس پر اتارنے کومچل رہا تھا ۔
وہ سٹور روم کے اندر چلی گئی ۔
یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کی ایک کھڑکی لان کی طرف کھلتی تھی ۔ منزہ نے اس چھوٹی سی جگہ کو اپنے لیے اس طرح ترتیب دیا تھا کہ یہ کسی نو عمر مصور کا کمرہ لگتا تھا ۔
ایک کونے میں رکھا ہوا سٹینڈ بورڈ ، اس کے پاس پڑا لکڑی کا اسٹول ، کھڑکی کے پاس پڑی لکڑی کی ایک میز جس پر تارپین کا ایک ڈبہ ، ایک پینٹنگ ٹرے ، کئی برش اور مختلف رنگوں کے کئی ڈبے پڑے تھے ۔
منزہ نے کھڑکی کھول دی اور اسٹینڈ بور ڈ کو کھڑکی کے قریب گھسیٹ لیا ۔ بورڈ پر سلک کا کینوس چپکا کے اس نے برش اٹھا لیا اور اپنے ذہن میں ابھرتے کسی دل فریب منظرکو کینوس پر اتارنے لگی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
جس کی اپنی ذات ٹوٹ پھوٹ کا شکا رتھی ۔ وہ اپنے رشتوں کو جوڑنے میں لگی تھی ۔ خاندان کو بکھرنے سے بچانے کے لیے اس نے جو اتنی بڑی قربانی دی تھی اس کا خود اسے بھی یقین نہیں تھا ۔بڑی ماں کے آنسوؤں کو روکنے کے لیے اس نے خود کو قربانی کیلئے پیش کر دیا تھا ۔ لیکن یہاں بڑی ماں کئی گھنٹوں تک خاموش رہتیں اب کئی کئی دنوں تک چُپ رہنے لگی تھیں۔
دینا ان کو دوا دینے جاتی کوئی بات کرتی تو جواب میں خاموشی اور آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں ملتا تھا۔ بڑی بے بسی سے پلنگ پر پڑی رہتی ۔ دینازبردستی کھاناکھلاتی تو وہ چند نوالوں سے زیادہ کچھ نہیں کھا پاتیں۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
دھوپ خاصی تیز ہو چکی تھی ۔ کاغذ پہ لکھے گئے پتے کے مطابق وہ سیا ہ رنگ کے ایک بڑے سے گیٹ کے سامنے ٹیکسی سے اتر گیا ۔ گیٹ کے باہر کھڑا لمبی مونچھوں والا چوکیدار گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جب وہ احترام سے آگے بڑھا اور اس سے اصغر حمید کے بارے میں دریافت کیا ۔
” صاحب جی گھر پر نہیں ہیں ۔ آفس گئے ہوئے ہیں ۔”
” گھر پہ کوئی توہو گا ؟ ان کی بیوی ؟ یا بچے ؟”
” ہاں ۔ منزہ بی بی اور بیگم صاحب گھر پر ہیں ۔”
” کیا میں ابھی ان سے مل سکتا ہوں؟ میرا ان سے ملنا بہت ضروری ہے ۔ میں اصغر حمید کا بھانجا ہوں ۔ ”
سنان نے ملتجی نگاہوں سے چوکیدار کو دیکھا ۔
” آپ صاحب جی کے بھانجے ہیں ؟ آپ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔”
” ہاں میں پہلے کبھی نہیں آیا ۔ میں پرسوں سعودی عرب سے پاکستان آیا ہوں ۔”
” جی اچھا آپ بیگم صاحب سے مل سکتے ہیں ۔”
” وہ بوجھل سے قدموں سے گیٹ کے اندر چلا گیا۔
وہ قدرے بے زاری سے ، بے دلی سے لان میں داخل ہوا ۔ اسے اپنے اجنبی ماموں سے ملنے میں کوئی خاص دل چسپی نہیں تھی لیکن وہ اپنی ماں کی خاطر آیا تھا ۔
” میں اماں جا ن کا خط ماموں کو دے دوں اور پھر واپس چلا جاؤں گا ۔”اس نے لا ن کے چاروں اطراف پر بنی خوش وضع کیاریوں میں لگے مختلف رنگوں کے پھولوں کو دیکھ کر سوچا ۔
اچانک اس کی نظر سٹور روم کی کُھلی کھڑکی پر پڑی ۔وہاں کوئی لڑکی اسٹینڈ بورڈ کے پاس کھڑی کوئی پینٹنگ بنا رہی تھی ۔ سنان بے اختیار اس گندمی رنگت اور کچھ سوچ سے بھری آنکھوں والی لڑکی کی جانب بڑھ گیا ۔
” یہ میرے ماموں کی بیٹی ہے ۔” وہ مسکرایا ۔ اس نے دیکھا ۔ وہ لڑکی ارد گر دکے ماحول سے بے گانہ ، بڑے انہماک سے برش چلا رہی تھی ۔ اس کے سیا ہ بالوں کی چند لٹیں سامنے آکر اس کے چہرے پر کھلنے لگیں ۔ لڑکی نے جھنجھلا کر اپنے رنگوں سے رنگے ہاتھ سے اپنے بالوں کو کان کے پیچھے کرلیا اور ایسے میں ہلکا سا رنگ اس کے گال پر لگ گیا لیکن وہ لڑکی اس کی پرواہ کیے بغیر پینٹنگ بنانے میں غرق تھی ۔
” beautiful ” بے اختیار سنان کے منہ سے نکلا ۔ وہ دھیرے سے چلتا ہوا کھڑکی تک آگیا ۔
” excuse me! ” اس نے نگاہیں اس لڑکی کے چہرے پر مرکوز رکھتے ہوئے کہا ۔ اس لڑکی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ۔
” کون؟” وہ اپنے سامنے ایک انجان نوجوان کو دیکھ کر گھبرا گئی ۔
” سنان” اس نے خوش دلی سے اپنا نام بتا دیا ۔
” کس سے ملناہے آپ کو ؟”
” آپ میری کزن ہیں ؟۔۔۔میرا مطلب میں آپ کا کزن ہوں ۔”
” آپ کے فادر سے ملنے آیا ہوں ۔”
” میرا کزن ؟ میرا فادر؟” وہ کچھ نہیں سمجھی تھی ۔
” کیا آپ باہر آئیں گی کہ میں آپ کو پوری بات بتا دوں ۔” وہ جھنجھلایا ۔
” oh, sorry ” آف کورس میں باہر آرہی ہوں ۔” اس نے ہاتھ سے برش رکھ دیا ۔ تارپین کے ڈبے میں ہاتھ ڈال کر اس نے میلے سے تولیے سے ہاتھ صاف کیا اور سٹور روم سے نکل گئی ۔
” میں اصغر حمید کا بھانجا ہوں ۔ان سے ملنے سعودیہ سے آیا ہوں ۔”
و ہ اس لڑکی کے پیچھے پیچھے ڈرائیننگ روم کے اند رجاتے ہوئے بولا۔
” اصغر حمید کا بھانجا؟” لڑکی نے حیرت سے سنان کو دیکھا ۔
” پر ان کی تو کوئی بہن نہیں ہے ۔”
” ہو کر بھی نہیں ہے ۔” وہ معنی خیز انداز میں بولا ۔ ” آپ اپنا نام بتائیں گی ؟”
” منزہ علی ۔”
” آپ کی مدر کہاں ہے؟”
” ایکچولی یہ میری خالہ کا گھر ہے ۔آپ جن کو ماموں کہتے ہیں وہ میرے خالو ہیں ۔اینی ویز میں خالہ کو بلاتی ہوں ۔”
وہ ڈرائینگ روم سے نکل گئی ۔
” خالو کا بھانجا؟” خالہ کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے اس نے حیرت سے سوچا ۔
” ان کی تو کوئی بہن نہیں ہے ۔شاید ان کی کسی کزن کا بیٹا ہو ۔” اس نے سوچا اور خالہ کے کمرے کادروازہ کھولنے لگی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
کسی کی چیخوں سے اس کی آنکھیں کھل گئیں ۔ کوئی رورہاتھا ۔اس کا دل بیٹھ گیا مرینہ رو رہی تھی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ گئی اور بھاگ کر کمرے سے نکل گئی ۔
برآمدے میں کوئی نہیں تھا ۔ آوازیں بڑی ماں کے کمرے سے آرہی تھیں ۔ وہ اس طرف بڑھ گئی۔
اماں اور مرینہ بڑی ماں کے پلنگ کے پاس بیٹھی رو رہی تھیں لیکن بڑی ماں بڑے آرام سے سوررہی تھیں۔ دینا کے وجود بھر میں ایک سرد لہر سی دوڑ گئی ۔ وہ دروازے میں ہی بیٹھتی چلی گئی ۔ اس کا ذہن خالی اور دماغ ماؤف ہو گیا تھا ۔ اس کی ٹانگیں بے جان تھیں ۔ اس نے خالی نظروں سے اپنی ماں اور بہن کو دیکھا وہ دونوں رو رہی تھیں ۔ دینا نے اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں ملیں پروہ خشک تھیں دینا کو لگا جیسے موت نے پلنگ پر سوئی اس عورت کو نہیں بلکہ اسے مار دیا ہو ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” سنان یوسف ؟ عرینہ او ر یوسف کا بیٹا ؟ اصغر حمید کا بھانجا ؟” یہ حقیقت کس قدر نا قابل یقین تھی۔ پورے تئیس سال بعد عرینہ حمید کا ذکر ان کی زندگیوں میں آیا تھا ۔ اس نے ایک خط کے ساتھ اپنے بیٹے کو اپنے بھائی کے پاس بھیجا تھا ۔
” آخرکار تمہیں اپنے کیے کا پچھتاوا ہو گیا ۔ تم لوٹ آئی ہو، لیکن میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔ تب بھی نہیں جب تم میرے قدموں میں گر کر رولو ۔ میں تمہیں معافی کے لائق ہی نہیں سمجھتا ۔” وہ سخت اذیت میں مبتلا تھے ۔
” ہمارے لیے ان حالات کا سامنا کرنا مشکل ہے، لیکن ہم نے بہرحال بہادری سے ان حالات کا سامنا کرنا ہے ۔” وہ ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے بولیں ۔ انہوں نے سر اٹھا کر اپنی بیوی کو دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا ۔
” سنان ،شہروز کے ساتھ لان میں بیٹھا ہے ۔ آپ کہیں تو بلالوں ؟”
” ہاں ۔ میں سٹڈی میں ہوں ۔ وہاں بھیج دو اسے ۔” وہ کمرے سے نکل گئے ۔مرینہ کے بلانے پر آج وہ آفس سے جلدی گھر آگئے تھے لیکن عرینہ کے ذکر نے انہیں واپس ماضی کی تلخیوں میں دھکیل دیا تھا ۔ایک بار پھروہ تئیس سال پیچھے چلے گئے ۔ اس زمانے میں جب ان کے ارمانوں کا خون ہوا تھا ۔ جب ان کی عزت کچل دی گئی تھی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وہ عورت نہیں مرسکتی ۔ دینا کا نظریہ تھا ۔ وہ مضبوط ارادوں والی سخت مزاج سی عورت جو زندگی کو اپنے اصولوں کے مطابق گزارتی تھی ۔وہ موت کے سامنے جھک نہیں سکتی تھی جو زندگی کے ہر سردو گرم میں دیوار کی طرح مضبوط رہی تھی ۔ جس نے ہر آندھی کو پنے سینے پہ سہ لیا تھا ۔ اس کے سامنے موت کے ایک جھٹکے کی وقعت تھی ؟
” میں جانتی ہوں بڑی ماں کو اپنی موت نے نہیں بڑے ابا کی موت اور عرینہ نے مل کر مار ڈالا۔” برآمدے میں پڑے تخت پر اماں کے پاس بیٹھی دینا نے سوچا۔
فون بج رہا تھا لیکن اس میں اٹھنے کی سکت نہیں تھی ۔
” ہیلو۔” مرینہ نے ریسیور کان سے لگا لیا ۔
“ہم سب ٹھیک ہیں ۔آپ کیسے ہیں ؟ ” اماں اور دینا نے مرینہ کو دیکھا ۔
” نہیں وہ گھر پر نہیں ہیں ۔بڑی پھوپھی کے گھر گئی ہوئی ہیں ۔” دینا سوالیہ نظروں سے مرینہ کو دیکھنے لگی ۔”
” نہیں ۔ بتایا تو نہیں ہے کہ کب آئیں گی ۔”
” چلیں ٹھیک ہے ۔ اللہ حافظ۔” مرینہ نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا ۔
” کون تھا ؟” دینا نے دریافت کیا ۔
” اصغر ۔” مرینہ آکر اس کے پیروں میں بیٹھ گئی ۔دینا کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔
” بڑی ماں کا پوچھ رہے تھے ۔ میں نے جھوٹ بول دیا ۔”
” اچھا کیا تم نے ۔ امتحان جاری ہے اس کا ۔” اماں نے قرآن پاک بند کرتے ہوئے کہا ۔
” کل بھی اس کا فون آیا تھا میں نہ بتا سکی ۔” انہوں نے قرآن پاک آنکھوں سے لگا کر طاق میں رکھ دیا۔
” وہ آئے گا تو اپنی ماں اور بہن کے بارے میں دریافت کرے گا ۔ پھر ہم اس کو کیا جواب دیں گے ۔”وہ تخت پر سے اٹھ گئی ۔ وہ اصغر کا نام بھی نہیں سننا چاہتی تھی ۔ اس کا ذکر سن کر وہ بلاوجہ بے چین ہو جاتی تھی ۔ “وہ واپس آئے گا تو مجھ سے اپنی طاقت مانگے گا ۔لیکن میں اسے کیا کہوں گی کہ اس طاقت کے بدلے میں نے اس گھر کے لیے ایک محافظ لیا ہے اور وہ میری بات کبھی نہیں سمجھے گا ۔”وہ اپنے کمرے میں آگئی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
سنان دھیرے دھیرے سیڑھیاں چڑھتا ہوا سٹڈی کے اندر چلا گیا ۔
” آؤ بیٹھو یہاں پہ۔” انہوں نے اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔سنان ان سے کچھ فاصلے پر صوفے پر بیٹھ گیا ۔
” تم سے میں کیا کہوں ؟ تمہاری ماںہماری زندگیوں کو آگ لگا کے اپنی زندگی کی شمع جلانے گئی تھی ۔ تمہیں میں کیا بتاؤں؟” وہ حیران و پریشان سر جھکائے بیٹھے رہے۔
” عرینہ ۔۔۔ کیسی ہے وہ ؟ کہاں ہے ؟” انہوں نے اپنا لہجہ نارمل رکھتے ہوئے سنان سے پوچھا۔
اماں جان کی ڈیتھ کو ایک مہینہ ہو گیا ۔” سنان سر جھکا کر دھیرے سے بولا ۔
” کیا؟” ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا ۔” کیسے ؟ کیسے ہو گیا یہ؟” ان کے منہ سے نکلا۔
” بلڈ کینسر ” سنان نے بہ مشکل کہا۔ اسے اچانک و ہ خاموش سی عورت یاد آگئی جو اس کا مان تھی۔
” آئی ایم سوری” وہ بڑبڑائے ۔
” سوچا تھا تم آ کر میرے پیر پکڑ کر معافی مانگو گی اپنے کیے پر پچھتاؤ گی ۔ لیکن تم ۔۔۔ ” ان کی آنکھوں میں نمی اُتری ۔ انہیں وہ مست سی لڑکی بڑی شدت سے یا د آئی جو ان کی اکلوتی بہن تھی۔
” تمہیں کبھی اپنے کیے کا پچھتاوا نہیں ہوا ؟”کبھی تمہارا دل واپس آنے کو نہیں مچلا ؟” انہوں نے اپنی ہتھیلیوں سے اپنی آنکھوں کی نمی خشک کی۔
” بیٹا ! انہوں نے بولنے کی کوشش کی لیکن بول نہیں پائے۔”
سنان نے ان کے نزدیک کھسک کر ان کے بازو پر ہاتھ رکھ دیا ۔
” ماموں ! ” are you okay ”
اس کے چہرے پر فکر مندی کے آثار تھے۔ انہوں نے سر اٹھا کر سنان کو دیکھا اور اثبات میں سر ہلایا
” i am alright ” لیکن اگلے ہی لمحے انہوں نے سنان کے کندھے پر سر رکھا اور بالکل بچوں کی طرح بلک بلک کررونے لگے ۔
سنان حیران و پریشان اپنے روتے ہوئے ماموں کو دیکھتا رہا ۔
” اللہ انہیں صبرو ہمت دے ” سٹڈی کے آدھ کھلے دروازے میں کھڑی ان کی بیوی نے آنسو پونچھتے ہوئے تہ دل سے دعا کی اور سیڑھیاں اترنے لگیں۔
” اصغر آگئے۔” مرینہ نے آکر بتایا لیکن وہ اپنی جگہ سے ہلی نہیں اس میں ہمت ہی نہیں تھی اس کا سامنا کرنے کی، مجھ پر یقین کر کے گیا تھا وہ، پر میں نے اس کے یقین کا جنازہ نکال دیا ۔ اب وہ آگیا ہے تو کیا جواب دوں گی ؟ وہ سمٹ کر بیٹھ گئی ۔
” آپ ملیں گی نہیں اس سے ؟” مرینہ اس کے پاس کھڑی پوچھ رہی تھی ۔ دینا نے کا خالی الذہنی کے عالم میں اسے دیکھا۔
” ہاں ۔ کیوں نہیں ۔ میں جارہی ہوں ان سے ملنے۔” الفاظ بے ترتیبی کے ساتھ اس کے منہ سے نکلے ۔ اس کاوجود کانپ رہا تھا ۔ مرینہ سے اپنی یہ کیفیت چھپانے کیلئے وہ بہ دستور سمٹی ہوئی بیٹھی رہی ۔
کافی دیر تک وہ اپنی بکھری ذات کو سمیٹتی رہی ۔ خود میں اصغرکا سامنا کرنے کی ہمت ڈھونڈتی رہی لیکن وہ نہ اٹھ سکی ۔
” یہ لیٹر دیا تھا اماں جان نے آپ کو دینے کے لیے ۔” سنان نے جیب سے سفید رنگ کا ایک لفافہ نکال کر انہیں تھمایا۔
لفافے سے تہ شدہ خط نکال کر انہوں نے کھولا اور خاموشی سے پڑھنے لگے ۔
” السلام و علیکم !
آپ سے ہر ناطہ توڑکرگئی تھی، اس لیے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتاؤں گی جو لوگ گنا ہ کرتے ہیں اس کی سز ا کے لیے بھی تیاررہتے ہیں ۔ میں آپ سب کی گناہ گار ہوں لیکن اس گناہ کی سزا مجھے یہاں نہیں ملی۔ بعض اعمال کا حساب اللہ آخرت پر چھوڑ دیتا ہے ۔ میرا حساب بھی وہاں ہو گا ۔آپ سے معافی کی طلب گار ہوں ۔ آپ معاف کریں گے تو اللہ بھی معاف کر دے گا۔
عرینہ”
” بس ان چند الفاظ کے بدلے معاف کردوں میں تمہیں ؟”
انہوں نے خط بنا تہ کیے میز پر رکھ دیا ۔” تمہیں تو آ کر میرے قدموں میں گرنا تھا ۔ تمہارا گنا ہ ان کھوکھلے الفاظ کی معافی سے کبھی معاف نہیں ہو گا ۔ تم قا بلِ معافی نہیں ہو ۔” انہوں نے تلخی سے سوچا ۔
سنان نے گہری نظروں سے ماموں کو دیکھا وہ ان کے چہرے کے تاثرات پڑھ سکتا تھا ۔ وہ جانتا تھا اماں جان نے اس خط میں کیا لکھا تھا لیکن وہ ماموں کو سچائی بتا دینا چاہتا تھا ۔ انہیں وہ کہانی سنانا چاہتا تھا جو اس نے بے شمار بار اپنی ماں کے منہ سے سنی تھی ۔ اس کہانی کو اس نے اتنا غور سے سنا تھا کہ اس کے مناظر اس کی نظروں کے سامنے کسی ٹیلی فلم کی طرح چلتے ۔ بنا دیکھے سنان نے اس فلم کے ہر منظر کو زبانی یاد کیا تھا ۔ وہ مزید اپنی ماں کے کردار پر لگے داغوں کو برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔
” نہیں معاف کرسکتا میں تمہیں ۔” بے اختیار ان کے منہ سے وہ تلخ جملہ نکلا جو تئیس برس سے ان کے اندر آگ بھڑکائے ہوئے تھا ۔
” ایسا نہیں ہے ماموں !” سنان نے ان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر یقین سے کہا ۔ انہوں نے قدرے حیرانی سے سنان کو دیکھا اور پھر تلخی سے کہا ۔
” تم کچھ نہیں جانتے ۔” انہوں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔
” نہیں ۔ آپ کچھ نہیں جانتے۔” اس نے پر اعتماد لہجے میں کہا اور وہ کہانی سنانے لگا جو اس نے اماں جان کے منہ سے ہزار بار سنی تھی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وہ پھر سے ساری ہمت ، سارا حوصلہ سمیٹ کر اصغر علی سے ملنے کمرے سے نکلی۔ وہ اماں کے کمرے میں تھا دینا اس طرف چلی گئی ۔
” اور میرے کام کو مجھ پر آسان کر د ے ۔” سورہ طہٰ آیت نمبر 26 کا ورد کرتی ہوئی وہ اماں کے کمرے کے دروازے میں کھڑی ہو گئی ۔
” آپ نے مجھے کیوں نہیں بلایا ۔ آپ مجھے بلاتیں میں آجاتا سب کچھ چھوڑ کر۔” یہ آواز اصغر کی تھی ۔شاید وہ رورہا تھا ۔ دینا نے اندر جھانک کر دیکھا ۔ اصغر اماں کی گود میں سر رکھے رو رہا تھا ۔
” پتا ہے جب میں جاررہا تھا تو اماں کیا بولی تھیں ؟” اس نے سر اٹھا کر روتے ہوئے اماں کو دیکھا ۔
” انہوں نے کہا تھا کہ باپ کی شکل دیکھنے تو نہ آسکے میری موت پر بھی نہیں آؤ گے کیا ؟وہ سچ کہتی تھیں ۔ جانتی تھیں اپنے بیٹے کو۔۔ میں بہت بد بخت ہوں ۔” وہ بچوں کی طرح رونے لگا ۔ دینا دروازے سے ہی واپس آگئی ۔ اصغر کے آنسو ہمیشہ اسے کمزور کردیتے تھی ۔
” ضبط و برداشت کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے ۔” اس نے تکیے میں منہ چھپا لیا اور خاموشی سے آنسو بہانے لگی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اس کے ماہانہ ٹیسٹ ہورہے تھے اور اس نے لیز ا کے ساتھ مل کر پڑھائی کرنی تھی ۔وہ لیزا کو فون ملانے لگی ۔
” ہیلو۔ لیزا! میں عرینہ بول رہی ہوں ”
” ہاں عرینہ ! بول۔”
” یار ! ٹیسٹ کے لیے پڑھائی نہیں کرنی ؟”
” کرنی تو ہے ۔”
” تو یہاں آتی ہے کہ میں تیرے گھر آجاؤں؟”
” تو یہاں آجا لیکن سن! ”
” ہاں ۔ بول!”
” ساول کی ممی بیمار ہیں ۔ آنٹی ، ممی اور کرسٹینا وہاں جا رہی ہیں ۔”
” تو جائیں ناں۔ تجھے کیا مسئلہ ہے؟”
” ممی چاہتی ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ چلو”
” تو مت جا ۔ کہہ دے ان سے کہ تو نے پڑھائی کرنی ہے۔ ”
” چل میں دیکھتی ہوں تو مجھے آدھے گھنٹے بعد کا ل کر پھر میں تجھے بتاؤں گی۔”
فون بند ہونے کے بعد وہ مرینہ کو دوا دینے گئی تھی ۔
” دینو بھی بیٹھ گئی ہے وہاں جا کر ۔” اس نے کڑھ کر سوچا تھا ۔آج کل کام کی زیادتی کی وجہ سے اس کو سر اٹھانے کی بھی فرصت نہیں ملتی تھی اور کالج میں ماہانہ ٹیسٹوں نے الگ اسے تنگ کررکھا تھا ۔
” آج تو اتوار کا دن ہے ۔” وہ نئے کپڑے پہن کر غسل خانے سے نکلی تو مرینہ نے کہا ۔
” پتا ہے مجھے ۔” اس نے بیزاری سے کہا ۔
” تو آپ کہاں جارہی ہیں ؟”
” ڈوب مرنے ۔” وہ بال کنگھی کرنے لگی ۔
” آپ ڈوب مرنے کیلئے اتنا تیار ہورہی ہیں ؟” مرینہ نے معصومیت سے کہا ۔
” ایک تو تُو ہر وقت بکتی رہتی ہے ۔ چپ کرجا تھوڑی دیر کے لیے ۔ پیر کی بجائے زبان پر پلستر لگ جاتاتو میرا بھلا ہو جاتا ۔” عرینہ نے اسے ڈانٹا ۔
” توبہ ہے بجیا!” مرینہ نے منہ پھلا کر کہا ۔
” اے بلو رانی ! میں لیز ا کو فون کرنے جارہی ہوں ۔ فی الحال تجھے نہیں منا سکتی اور بھی بہت سارے کام کرنے ہیں ۔فرصت ملی تو تیرے لاڈ اٹھاؤ ں گی ۔” وہ کمرے سے نکل گئی ۔
” اونہہ۔” مرینہ نے میز پر سے کوئی کتاب اٹھائی اور پڑھنے لگی۔
اب بندہ ہفتوں تک پلنگ پہ لیٹ کے کیا کرے؟ اب تو ان کو بھی فرصت نہیں ۔” مرینہ نے اکتا کر سوچا تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
شام کے وقت وہ کمرے سے نکلی تو اماں نے اسے اصغر کے لیے چائے لے جانے کا کہا ۔
” اماں مرینہ سے کہہ دیں ۔ وہ لے جائے گی ناں ۔” وہ اصغر کا سامنا کرنے سے ڈرتی تھی ۔
” وہ باورچی خانے میں میرا ہاتھ بٹا رہی ہے ۔ تم لے جاؤ۔”
اماں نے بے نیازی سے کہا اور بڑبڑانے لگیں ۔” بہت رویا ہے آج ۔ میرا تو کلیجہ کٹ گیا ۔”
دینا بے دلی سے چائے لے جانے لگی ۔
” کہہ دو اسے ۔ تازہ دم ہو کر نیچے آجائے ۔پلاؤ بنا رہی ہوں اس کے لیے ۔” سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس نے اماں کی آواز سنی۔
دبے قدموں سے وہ اصغر کے کمرے کے اندر گئی ۔ وہ قالین پر سمٹا ہوا بیٹھا کسی سوچ میں غرق تھا ۔
” چائے !” دینا نے کھنکا ر کر کہا ۔
اصغر نے چونک کر اوپر دیکھا ۔ وہ چائے کی پیالی کے ساتھ اس کے سامنے کھڑی تھی ۔ وہ خالی نظروں سے اسے دیکھتا رہا ۔ دینا سر جھکائے کھڑی تھی ۔ وہ اصغر کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی ۔
وہ نڈھال سی حالت میں اٹھا ۔ ” تم اب مجھ سے ملنے آئی ہو ؟” اس نے شکایت کی ۔
” ملنے نہیں آئی ۔ چائے لائی ہوں ۔” سر جھکائے وہ بے نیازی سے بولی ۔
” کیا ؟ کیا کہا تم نے ؟” و ہ اس کے پاس آگیا ۔” تم مجھ سے ملنے نہیں آئی ہو ؟”
اس کے سوال میں بے یقینی تھی ۔دینا خاموش رہی۔
” مجھے تمہاری ضرورت ہے۔” وہ ملتجی نگاہوں سے دینا کو دیکھنے لگا ۔
” چائے ٹھنڈی ہورہی ہے ۔ ” دینا نے پیالی اسے پکڑا دی ۔
” تم جانتی ہو ناں تم میری طاقت ہو ۔” اصغر نے چائے کی پیالی میز پر رکھ دی ۔
” ہوں نہیں تھی ۔” دینا نے سختی سے کہا ۔ اصغر نے حیرت سے دینا کو دیکھا ۔
” اماں پلاؤ بنا رہی ہیں آپ کے لیے ۔ چائے پی کر نیچے آجائیں ۔” وہ جانے لگی ۔
” رکو! بات سنو میری۔” اصغر نے سختی سے اس کا بازو جکڑ لیا۔
” کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟ تمہارا مسئلہ کیا ہے ؟ تم میری ہر بات کا الٹا جواب کیوں دے رہی ہو ۔؟”
تو اماں نے اس کو میرے فیصلے کے بارے میں نہیں بتایا ؟
دینانے حیرت سے سوچا اور بے دھیانی میں اس کی نگاہیں اصغر کے چہرے کی جانب اٹھ گئیں۔ وہ خدوخال اس نے دیکھ لیے جن کو اس نے چھونا چاہا تھا ۔ اس کے دل کی دھڑکن تھم سی گئی ۔ اس نے اصغر کی آنکھوں میں دیکھا وہا ں بے بسی تھی۔ دینا کا دل گھبرانے لگا۔ اس نے پوری روح کی گہرائیوں سے اس شخص کو چاہا تھا لیکن حقیقت اس کے اُلٹ تھی۔ اس نے بہر حال علی سے شادی کرنی تھی ۔
” دینا جواب دو مجھے ۔” اصغر نے زور سے جھنجوڑا ۔
” کچھ۔کچھ نہیں ہوامجھے۔” وہ خود کو اصغر کی گرفت سے چھڑانا چاہتی تھی لیکن اس کی گرفت مضبوط تھی ۔ دینا ایک کمزور سی پنچھی کی مانند اصغر کے بازوؤں کے پنجرے میں قید تھی ۔ ” پھر تم مجھ سے ملنے کیوں نہیں آئی ؟ میری ہر بات کا الٹا جواب کیوں دے رہی ہو تم ؟ ” وہ اپنے چہرے کو دینا کے چہرے سے بالکل قریب کرکے سرگوشی میں بولا۔
” چھوڑ دیں مجھے ۔” اسے ڈر لگ رہا تھا ۔ اصغر بہت نزدیک سے ، بہت غور سے اس گھبرائی ہوئی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو اس کے قرب سے ڈر رہی تھی ۔
” یہ میری بات کا جواب نہیں ہے ۔”
” میرے پاس آپ کے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں ہے ۔” اس نے اصغر کو پیچھے کی طرف دھکیل دیا اور بھاگتی ہوئی سیڑھیاں اترنے لگی ۔ اصغر حیران و پریشان اسے جاتا دیکھتا رہا ۔ اسی لمحے اس نے یہ سچ مان لیا کہ وہ کبھی اس لڑکی کو نہیں سمجھ پائے گا ۔
وہ نڈھال سا پلنگ پہ لیٹ گیا ۔ تھوڑی دیر تک گہری گہری سانسیں بھرنے کے بعد وہ اٹھا تو چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی ۔ وہ کپڑے بدلنے غسل خانے کے اند ر گیا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
عرینہ کی بے زاری عروج پر تھی ۔ وہ دوبار لیزا کو فون ملا چکی تھی ۔اس طرف گھنٹی بجنے کے باوجود کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا ۔
” ایک اور بار کوشش کرتی ہوں ۔” اس نے پھر سے فون ملایا اس بار دوسری گھنٹی پہ کسی نے فون اٹھالیا ۔
” یار لیزا ! میں کب سے فون ملارہی ہوں اور تُو تو لگتا ہے مرگئی تھی ۔” اس نے ایک ہی سانس میں سارا غصہ نکال دیا ۔
” لیزا واش روم میں ہے ۔” یہ کوئی مردانہ آوازتھی ۔
” اوہ۔ سوری۔” وہ بے حد شرمندہ تھی ۔
” کوئی بات نہیں۔”
” میں بس یہی پوچھ رہی تھی کہ وہ ساول کے گھر جارہی ہے یا نہیں ؟ تا کہ میں آجاؤں پڑھائی کرنے ۔”
” نہیں ۔ وہ نہیں جارہی ۔”
” جی اچھا ۔ شکریہ ۔” اس نے ریسیور کریڈل پر پٹخ دیااور دیر تک خود کو لعنت ملامت کرتی رہی ۔
چھوٹی ماں سے اجازت لے کر وہ لیزا کے گھر کے لیے نکل گئی ۔ لیزا کے گھر پہنچنے پر شمعون نے اس کے لیے دروازہ کھولا تھا ۔
” یعنی میری فون پر اس کے ساتھ بات ہوئی ؟” اس نے خجل ہوتے ہوئے سوچا۔
” شکر ہے کوئی گالی نہیں بکی میں نے ورنہ تو رہی سہی عزت بھی خاک میں مل جاتی۔”
شمعوں نے اسے لیزا کے کمرے میں بٹھا دیا اور خود باہر چلا گیا ۔
تھوڑی دیر بعد وہ عرینہ کے لیے جوس لے کر آیا ۔
” لیزا ابھی تک نہیں نکلی؟” اس نے گھبراتے ہوئے شمعون سے پوچھا۔
” دراصل وہ نہا رہی ہے۔ تھوڑی دیر میں باہر آجائے گی ۔ آپ تب تک یہ جوس پی لیں ۔ ” شمعون نے اسے جوس کا گلاس پکڑا دیا اور کمرے سے نکل گیا ۔
” لیزا ! جلدی باہر آجا ۔” وہ جوس پیتے ہوئے بڑبڑائی ۔کافی دیر تک لیزا کا انتظار کرنے کے باوجود وہ نہیں نکلی ۔عرینہ اٹھ کر باہر جانے لگی لیکن اس کا سر چکرا گیا ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ہر چیز دھندلانے لگی ۔ اور وہ دھڑام سے نیچے گر گئی ۔ اس کے بعد اس کو نہیں معلوم کیا ہوا ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...