چھت کا پنکھا دھیرے دھیرے چل رہا تھا ۔ باہر بہت گرمی پڑ رہی تھی۔ بچوں کو زبردستی سُلا کر وہ خودسخت بان والی چارپائی پر آکر لیٹی تھی ۔ ان دنوں وہ ذرا سا بھی کام کرکے بہت جلد تھک جاتی تھی۔ ایک طرف تین بچوں کی ذمہ داری دوسر ی طرف اس کی اپنی بگڑتی صحت۔۔۔ وہ کام کرتے کرتے ہلکان ہو جاتی تھی۔ لیکن فرار کا کوئی راستہ بھی تو نہیں تھا اور سچ تو یہ تھا کہ اسے فرار سے کوئی مطلب ہی نہیں تھا کیونکہ اس زندگی کا انتخاب اس نے خود کیا تھا۔
جس چیرٹی ٹرسٹ کے بارے میں عصمت نے اس کو بتا یا تھا وہ کل صبح ہی فارم بھروانے گئی تھی لیکن وہاں پر بیوہ عورتوں کی بھیڑ ۔۔۔ تو کیا یہ سب بھی میری طرح مجبور ہیں ؟ بیوہ عورتوں کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار پر اس نے نظر دوڑاتے سوچا تھا ۔ صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام بھی ہو گئی لیکن اس کی باری نہیں آئی ۔ تھکن سے چور اسے شام کو گھر لوٹنا ہی پڑا اور پھر سارے راستے اسے بچوں کا خیا ل آرہا تھا۔ صبح گھر سے نکلتے وقت اس نے ملیحہ کو سمجھایا تو تھا کہ سکول سے لوٹنے کے بعد دیگچی میں پڑی دال گرم کرکے وہ خود بھی کھا لے اور خلیل اور شکیل کو بھی کھلائے مگر پھر بھی وہ فکر مند تھی ۔ “سکول سے تھکے ہوئے آئے ہوں گے اور کھا نا بھی ٹھیک طرح سے کھایا ہوگا کہ نہیں ؟ اور ۔۔۔ دال تو ان تینوں کو بری لگتی ہے ۔۔۔ پر میں کیا کرتی؟ اور تو کچھ تھا بھی نہیں گھر میں ۔۔۔ راشن ختم ہوگیا سارا”۔۔۔ اس کے بعد اس نے رکشے سے اترتے ہوئے تاسف سے سوچا تھا اور تنگ گلیوں سے ہوتی ہوئی وہ اس ڈربے نما مکان کے اندر گئی تھی۔ خلیل اور شکیل کھیل رہے تھے اور ملیحہ چارپائی پر بیٹھی سکو ل کا کام کررہی تھی ۔ اس کو دیکھتے ہی تینوں دوڑ کر اس کے پاس آئے تھے اور اس نے مٹھی میں پکڑی تین ٹافیاں ایک ایک کر کے تینوں کو دے دی تھیں۔ یہ بچے میرے سگے نہیں ہیں لیکن پھر بھی ان پہ دل دکھتا ہے میرا ۔۔۔کہ ان کا میرے علاوہ اور ہے ہی کون؟ پر میرا بھی تو ان کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے اس دنیا میں ۔۔۔ ” اس نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے دیکھا کہ ٹافیاں دیکھ کر ان تینوں کے چہرے کس قدر کھل اٹھے تھے۔ ملیحہ اس کے لیے ٹھنڈے پانی کا گلاس بھر کر لائی تھی۔” یہ لیں پی لیں امی! ملیحہ نے اس کو پانی کا گلاس تھماتے ہوئے کہا۔ “ہمارے درمیان یہ رشتہ انسانیت کا ہے یا۔۔۔ ضرورت کا ؟” اس نے حیرانی سے سوچا اور چارپائی پر لیٹ گئی ۔” امی !آپ کے سر میں درد ہے ؟ دباؤں ؟” ملیحہ اس کے سرہانے کھڑی پوچھ رہی تھی ۔ ” نہیں بیٹا! تم اپنا کام کرو۔ میں ٹھیک ہوں۔” ملیحہ کو دھیمے سے جواب دے کر اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ “میرے وجود کا کونسا حصہ اس وقت درد نہیں کر رہا ؟” اس نے حیرت سے سوچا تھا ۔” اور اب رات کا کھانا بھی بنانا پڑے گا ۔۔۔ ” وہ بڑ بڑائی ۔ بچوں کو کھانا دینے کے بعد وہ خود کھانا کھانے بیٹھ گئی تھی مگر دن بھر کی تھکن کی وہ سے اس کے وجود میں جو درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں ان کی وجہ سے وہ کھانا نہیں کھا پا رہی تھی ۔ دو نوالے کھا کر وہ چارپائی پر آ کر لیٹی تھی اور رات بھر اس نے تھکن کے سبب کروٹ بھی نہیں بدلی تھی ۔ اگلے دن اس نے صبح سویرے فارم بھروانے کا ارادہ ترک کردیا تھا ۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے آگے قطار میں بے شمار عورتیں تھی اور اس کی اپنی باری آتے آتے دوپہرتو ہو ہی جاتی پھر وہ صبح وہاں جاکر کیوں خود کو فضو ل میں تھکائے اور گرمی بھی تو غصب کی تھی۔
بچے دوپہر کا کھاناکھاتے ہی سو گئے اور وہ چارپائی پر لیٹی تھی کہ عصمت کافون آگیا اور اس نے ایک ہی سانس میں کل کے دن کا حال اس کو سنایا ۔”چل آج میں تمہارے ساتھ چلوں گی ۔ تمہاری طبیعت بھی روز بروز بگڑتی جارہی ہے ۔ ہزار بار کہا ہے اپنا خیا ل رکھا کرو مگر تم سنتی ہی کہاں ہو؟” عصمت کے فضیحتے پھر سے شروع ہوگئے تھے اور وہ خاموشی سے سنتی رہی ۔ عصمت کافون بند ہو گیا تو اس نے اپنا موبائل سرہانے کے نیچے رکھا تھا ۔
عصمت نے اس چیرٹی ٹرسٹ کے بارے میں بتایا تھا کہ بیوہ عورتوں کو ہر مہینے معقول رقم مل جاتی ہے جس سے گھر کا خرچہ چلانے میں آسانی ہو جاتی ہے۔بس آج وہ فارم بھروا لے گی اور۔پھر اس کو رقم مل جائے گی اور وہ گھر کے لئے راشن لے آئے گی ۔ بچے دال، ساگ کھاتے کھاتے تنگ آچکے تھے اور اس کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ ان کچھ اچھابنا لیتی ۔ صحت کی خرابی کی وجہ سے اس نے سکول سے چند مہینوں کی چھٹی لے لی تھی۔ گھر میں عجیب تنگی اور افلاس کا عالم تھا اور اب اس ٹرسٹ نے اس کی امید کی کرن کو نئے سرے سے روشن کر دیا تھا ۔” شکر ہے دنیا میں امیر لوگ ہیں ورنہ تو۔۔ غریب تو بھوکے مر جاتے۔” سخت رسیوں کی اسی چارپائی پر لیٹے لیٹے اس نے سوچا اور بے اختیا ر اس کی آنکھوں کے کونے بھیگ گئے وہ گھبرا کر اٹھی اور اپنی سیاہ چادر اوڑھ کر باہر جانے لگی پر باہر اتنی غضب کی دھوپ اور گرمی تھی کہ ایک انسان کو جلانے کیلئے کافی تھی ۔ اس نے اپنی سیاہ چادر ہٹا کر دیوار پرلگی کیل پر ٹانگ دی اور خود ظہر کی نماز کیلئے وضو کرنے چلی گئی ۔
” ٹھنڈے پانی کالمس انسا ن کے اندر کتنا حسین اور پرلطف سے احساس جگا دیتا ہے جب انسان کے اند ر کی دنیا ہر احساس سے عاری ہو ۔۔یہ پانی۔۔ ٹھنڈا پانی اللہ کی کتنی اچھی نعمت ہے ۔ اس سے آپ پاک ہوجاتے ہیں۔ آپ کا ہر گناہ دھل جاتا ہے جو آپ ماضی میں کر چکے ہوتے ہیں۔ گھٹیا سے گھٹیا ترین گنا ہ اور گری سے گری حرکت۔” وضو کرتے ہوئے اس نے سوچا اور آنکھیں بھر آئیں اپنے دونوں ہاتھوں سے گھٹنوں کو دباتے ہوئے اٹھی تھی ان دنوں اس کے لیے اپنے بھاری بھر کم وجود کو ساتھ لیے پھرنا واقعی مشکل ہوگیا تھا ۔ چند قدم چل کر اس کی سانسیں پھول جاتی، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا اور اسی وجہ سے عصمت اس کیلئے بے حد فکر مندرہتی تھی۔
” میرے اللہ! آپ کا لاکھ لاکھ شکر ہے میرے مولا! اللہ کا شکر ادا کرنے کے بعد اس نے اپنے دبلے ہاتھ اپنے نڈھال ، زرد رو اور قدرے تھکے ہوئے چہرے پر پھیر دیے ۔ یہ وہ عورت تھی جو سب کچھ پاس ہوتے ہوئے بھی اللہ سے شکوے کرتی تھی ۔ اپنی قسمت سے شکایت ہوتی تھی اس کو ۔۔ اپنے رشتوں، اپنے بندھنوں کے مضبوط دھاگے کتنے کچے لگتے تھے اس کو ۔۔۔اور آج ۔۔ وہ تین یتیم بچوں کی ایسی کفالت کررہی تھی جن کے ساتھ اس کا رشتہ صرف ” سوتیلا” تھا۔ آج خالی ہاتھ اور تہی دامن ہو کے بھی وہ راضی بہ رضا اور مشکور تھی ۔ وہ دھیرے سے جائے نماز پر سے اٹھی اور اس کو تہ کرکے لکڑ ی کی چھوٹی سی اور قدرے میلی میز پر رکھ دیا اور برآمدے میں آکر بیٹھ گئی ۔
دھوپ اسی طرح تیز تھی پر جانا تو اس نے تھا ہی۔ دھوپ کم ہونے کے انتظار میں وہ شام تک تو نہیں بیٹھ سکتی تھی ۔ ایک بار پھر اس نے اپنی سیاہ چادر اٹھا کر اوڑھ لی اور گرمی کی پرواہ کیے بغیر گھر سے نکل گئی۔ گھر کا بیرونی دروازہ باہر سے بند کرکے وہ محلے کی تنگ گلیوں سے ہوتی ہوئی اپنے بھاری وجود کو گھسیٹتے ہوئے چلنے لگی ۔
عصمت کا گھر آدھے راستے میں ہی آجاتاتھا۔ اس کے گھر پہنچے پہنچتے وہ بے انتہا تھک چکی تھی۔ عصمت نے دیکھاو ہ بری طرح ہانپ رہی تھی اور موٹاپے کی طرف مائل وجود اس کے تیزی سے سانس لینے کی وجہ سے پورا ہل رہاتھا۔ ” یقینا یہ پیدل چل کر آئی ہے ۔” عصمت نے ہمدرد نظروں سے دیکھتے ہوئے سوچا۔
عصمت! ایک گلاس پانی تو پلا دو بہن! لکڑی کی ایک پرانی کرسی پر بیٹھتے ہوئے وہ ہانپتے ہوئے بولی تو عصمت لپک کر ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس بھر کر لائی ۔ عصمت نے دیکھا وہ ایک ہی گھونٹ میں سارا پانی پی گئی اور عجلت میں کچھ پانی اس کی سیاہ چادر پر بھی گرا تھا۔
اس نے مشکور نظروں سے عصمت کو دیکھتے ہوئے خالی گلاس اس کی طرف بڑھایا اور عصمت نے دیکھا کہ اس غضب کی گرمی میں پیدل چل کر آنے والی اس عورت کے چہرے پر شکایت و ناشکری کا شائبہ تک نہ تھا بلکہ اس کے چہرے پر ایک قسم کی دائمی طمانیت تھی اور آنکھوں میں خفیف سے افسردگی ۔۔ جیسے اسے کسی چیز کے کھو جانے کا ملال ہو ۔۔ اور اب عصمت کو اس پہ بے پناہ ترس آرہا تھا۔ ناجانے کیوں یہ عورت اسے اپنی اپنی سی لگتی تھی۔ اس کے ساتھ سکول میں اور بھی کولیگز تھیں جن کے ساتھ اس کے بہت اچھے تعلقات تھے لیکن سامنے بیٹھی اس عورت میں ناجانے ایسا کیا تھا کہ وہ اس کی طرف کھنچی ہی چلی جاتی تھی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بڑی خاموشی اور صبر سے عصمت کی ہر ضروری اور غیر ضروری بات کو سن لیا کرتی تھی اور باقی لوگوں کی طرح اس کو ” زیادہ بولنے ” کا طعنہ نہیں دیا کرتی تھی ۔
” چلو ۔ چلیں ۔” عصمت نے اپنی چادر اوڑھتے ہوئے کہا اور وہ تھکے سے اندا ز میں کرسی کے بازوؤں کو اپنے ہاتھوں سے دباتی ہوئی اٹھی تھی۔
عصمت کے گھر سے ٹرسٹ سنٹر تک کا راستہ انہوں نے رکشے میں طے کیا تھا کیونکہ وہ اس سخت گرمی میں عصمت کو پیدل چلنے کا عذاب نہیں دینا چاہتی تھی۔
عصمت کے اصرار کے باوجودرکشے کا کرایہ اس نے خود ادا کیا تھا ، حالانکہ اس نے سوچا تھا کہ واپسی میں ان پیسوں سے بچوں کیلئے کچھ کھانے کو لے لے گی۔ ” کیا معلوم کہ وظیفہ ملے یا نہ ملے؟” رکشے سے اترتے ہوئے اس نے سوچا تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
شام ڈھل چکی تھی اور رات اپنی سیا ہی ہر طرف پھیلا چکی تھی ۔ مرینہ رات کا کھانا کھاتے ہی اپنے پلنگ پرآکر سو گئی تھی۔ کن اکھیوں سے اس کے سوئے ہوئے چہرے کا جائزہ لے کر وہ خاموشی سے اپنے کمرے سے با ہر آ گئی۔ با ہر مکمل خاموشی تھی۔ یقینا اماں بھی سو چکی تھیں لیکن اس وقت اس کے علاوہ کوئی اور بھی تھا جو جاگ رہا تھا۔ دینا بھاری بھاری قدم اٹھاتی سیڑھیاں چڑھنے لگی وہ جانتی تھی اسے کیوں بلایا گیا ہے ؟اسے معلوم تھا کہ وہ اس کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کرے گا ۔ شاید وہ نرمی سے اس کو سمجھائے یا پھر سختی سے ۔۔۔ وہ کچھ نہیں جانتی تھی ، پر اس کو صرف اتنا پتہ تھا کہ اصغر چاہے کچھ بھی کرے وہ اپنے فیصلے پرڈٹی رہے گی وہ اپنا فیصلہ نہیں بدلے گی۔
دوسری چھت پہ پہنچ کر اس نے دیکھا ایک سایہ بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔ وہ خاموش قدموں سے آگے بڑھ گئی ۔ وہ اب جنگلہ پکڑے کھڑا تھا ۔ وہ اس سے چند قدم کے فاصلے پررک گئی ۔ وہ اس کی موجودگی کا احساس کیے بغیر مضبوطی سے جنگلہ پکڑے کھڑا تھا۔ دینا نے گلا صاف کیا تاکہ وہ اس کی موجودگی کو محسوس کرلے لیکن دوسری جانب سے انتہائی سر د مہری برتی گئی تھی ۔ وہ اسی انداز سے جنگلہ پکڑے بدستور دوسری جانب دیکھتا رہا ۔ دینا کے وجود میں ایک سرد لہر دوڑ گئی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
کل وہ جس جگہ سے انتہائی بھیڑ کی وجہ سے خالی ہاتھ لوٹی تھی آج وہ جگہ بالکل خالی تھی۔ اس قدیم طرز کی عمارت کے لمبے سے برآمدے میں کل عورتوں کی ایک نا ختم ہونے والی قطارکھڑی تھی۔ برآمدے میں جگہ نہ ہونے کے سبب کچھ عورتیں اس تپتی دھوپ میں سامنے کے اس بڑے میدان میں کھڑی تھیں پر اس وقت وہاں پر کوئی نہیں تھا۔ اس عمارت میں کل جس کمرے میں عورتوں کے فارمز بھروائے جارہے تھے اس وقت اس کو خاکی رنگ کا ایک بڑا سا تالا لگا ہوا تھا ۔
” یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے ۔ ہم نے یقینا دیر کر دی ۔ دیکھو یہ تو سہ پہر ہونے والی ہے۔” عصمت نے اس خاموش عمارت پر نگاہیں دوڑاتے ہوئے کہا اور وہ مایوسی کی انتہائی حد تک پہنچ چکی تھی۔ “کل کا سار ا دن دھوپ میں جلتی رہی آج کا دن بھی یونہی گزرجاتا تو کیا جاتا میرا؟ تھوڑے سے پیسے تو مل جاتے ۔بچوں کے لیے کچھ اچھا لے لیتی۔ مجھے بھی ضرورت سے زیادہ سستی ہورہی ہے ۔ “اس نے خود کو دل ہی دل میں ڈانٹا تھا ۔”
” چلو ۔کسی سے پوچھ لیتے ہیں ۔” عصمت واپس جانے کو مڑی اور وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتی گئی۔
” بھائی ! یہاں پر عورتیں فارمز بھروانے آرہی تھیں ۔ ہم آئے ہیں ، تھوڑی سی دیر ہوگئی ۔” ہاتھ میں فائل پکڑے درمیانی عمر والا ایک آدمی اس عمارت کے کسی کونے سے نمودار ہوا تو عصمت نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا ۔
” جی ۔ جی جی۔۔ وہ تو بارہ بجتے ہی سب عورتیں فارمز بھروا کے جا چکی ہیں۔” اس آدمی نے معلومات فراہم کیں ۔ حمائل کے دل پر ہتھوڑے برسنے لگے ۔ اچانک اس کو اپنی امید کی کرن بجتی ہوئی محسوس ہوئی ۔
” کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ ہمیں ابھی کیا کرنا چاہیے؟” عصمت نے ہمت کرکے اس آدمی سے پھر سے سوال کیا ۔
” جی ۔ آپ اس ساتھ والی بلڈنگ سے پتا کر لیں ۔ ویسے سر ابھی آفس کے کاموں میں بزی ہوں گے ۔ خیر آپ کوشش کرلیں ۔” وہ آدمی کہتے ہی جانے کو مڑا۔ حمائل کی نظریں بے اختیار ساتھ والی اس بلند اور جدید طرز کی عمارت کی طرف اٹھ گئیں ۔
“چلو۔” عصمت کی آواز پہ وہ چونکی اور اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے و ہ اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
آپ نے بلایا تھا مجھے ۔۔۔میں آگئی ہوں۔” وہ نرم لہجے میں بولی پر وہ سایہ بدستور جنگلہ پکڑے دوسری جانب دیکھتا رہا۔ دینا کا دل اب زور زور سے دھڑکنے لگا تھا ۔ اسے پہلی بار اپنے سامنے کھڑے اس انسان سے ڈر لگنے لگا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اس نے دل سے یہ دعا کی تھی کہ کاش و ہ اس شخص سے کہیں دور چلی جائے اور پھر وہ کبھی بھی اس سے نہ ملے ۔ اس کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ اصغر حمید کی قربت اس کے لیے مسرت نہیں تکلیف ،خوف اور بے چینی کا باعث تھی ۔
” تو اب یہ کب تک منہ موڑے کھڑا رہے گا ؟” اس نے بے زاری سے سوچا۔ آپ نے مجھے کیوں۔۔؟” اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہ ایک جھٹکے سے اس کی طرف مڑا اور اس کی بات کاٹ کے دھاڑا تھا ۔ ” تم جانتی ہو اچھی طرح۔۔۔کہ میں نے کیوں بلایا ہے تمہیں ۔۔؟” اصغر کے اس قدر تیز لہجے سے خوفزدہ ہو کر وہ چند قدم پیچھے ہٹ گئی۔ اب اس کا دل اتنی تیز ی سے دھڑک رہا تھا کہ سے گمان ہورہا تھا کہ اس کا دل اس کے سینے سے باہر نکل آئے گا۔ وہ اب خوف سے کانپ رہی تھی ۔ اسے امید نہیں تھی وہ ایسے لہجے میں اس سے بات کرے گا۔ بچپن سے لے کر جوانی تک کے عرصے میں اصغر نے کبھی ایسے لہجے میں اس سے بات نہیں کی تھی۔ اسے اب شک ہو رہاتھا کہ سامنے کھڑا یہ شخص اصغر حمید ہے یا کوئی اور۔۔۔؟
وہ اور عصمت اس بلند بلڈنگ کے اندر پہنچ گئیں تو لابی میں درمیانی عمر کی ایک فیشن ایبل خاتون جس کے بال اس کے کاندھوں پر لا پرواہی سے بکھرے ہوئے تھے، صوفے پہ بیٹھی ایک میگزین پڑھنے میں غرق تھی اور سامنے کاؤنٹرپہ ایک پرکشش سی لڑکی ریسیور کان سے لگائے باتیں کررہی تھی۔
حمائل سہمی سہمی عصمت کے پیچھے کاؤنٹر پر چلی گئی ۔ عصمت نے ہمت کرکے کاؤنٹر پر بیٹھی لڑکی کواپنے مسئلے کے بارے میں بتایا ۔
” جنہیں اس وظیفے کے لیے اپلائی کرنا تھا وہ بارہ بجے سے پہلے پہلے فارم بھروا کر جا چکی ہیں ۔ سر ابھی اپنے آفس میں بزی ہیں۔” کاؤنٹر پر بیٹھی لڑکی نے عصمت کو جواب دیا اور اپنے سامنے ایک فائل کھسکا کر اس پر جھک گئی ۔
” آپ پلیز ان سے بات کرلیں ۔ کچھ کرلیں ۔ یہ میری دوست ہے۔ حمائل۔۔۔اور یہ اس وظیفے کی اصل حقدار ہے۔” عصمت نے آگے بڑھ کر دلیری سے اس لڑکی کو پھر سے کہا اور اس لڑکی کی نظر سیدھی حمائل کی طرف اٹھی تھی، پر حمائل اس کی نظروں سے بچنا چاہتی تھی۔ اسے کوئی شوق نہیں تھا کہ کوئی اس پر ترس کھائے ، اس کو خیرات دے اور درحقیقت اس کو بذات خود اس وظیفے کی طلب نہیں تھی پر اس کے ذمے وہ تین معصوم بچے تھے اور وہ ان کو بھوکا مارنا نہیں چاہتی تھی۔ خود وہ بھوکا مرنے کو بھی تیا ر تھی اور وہ خود کو اس کا حق دارسمجھتی تھی ۔
” اس کے شوہر کو مرے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ۔یہ ماں بھی ۔۔۔” اس لڑکی کو خاموشی سے حمائل کی جانب متوجہ دیکھ کر عصمت پھر سے بول اٹھی لیکن حمائل نے ہکلاتے ہوئے اس کی بات کاٹی تھی۔” چھوڑو عصمت! چلو چلیں ۔۔۔” وہ اس کا بازو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھی ۔
وہ چاہتی تھی کہ جلد از جلد وہاں سے بھاگ جائے ۔ وہ کسی کی ہمدردیاں نہیں لینا چاہتی تھی لیکن عصمت نے غصیلی نگاہوں سے اسے گھورا اور وہ مجبوراً خاموش کھڑی رہی ۔ عصمت نے اپنی ادھوری بات مکمل کر لی۔
” یہ ماں بننے والی ہے” ۔کاؤنٹر پر بیٹھی وہ لڑکی اب حمائل کو ہمدردانہ نظروں سے دیکھ رہی تھی ، جو اپنی شرمندگی اور ندامت سے لڑ رہی تھی ۔ آنکھیں جھکائے دم سادھے وہ شرم سے پانی پانی ہورہی تھی ۔
” اوکے ۔ میں سر سے بات کرتی ہوں “۔ حمائل پہ ایک گہری اور ہمدردانہ نگاہ ڈال کر وہ لڑکی بولی اور ریسیور اٹھا کر بات کرنے لگی۔” وہ بزی ہیں”۔ ریسیور کریڈل پر رکھ کر اس نے ان کو بتایا ۔ “اب تھوڑی دیر انتظار کرلیں۔ وہ فارغ ہوتے ہی آپ کو بلاتے ہیں۔ ” لڑکی کی بات سن کر عصمت اور حمائل لابی میں پڑے صوفے پر بیٹھ گئیں ۔ کچھ دیر پہلے یہیں پر بیٹھی خاتون اب جا چکی تھی۔
وہ جھکے سر اور کانپتے وجود کے ساتھ اس کے سامنے کھڑی تھی ۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بولے ؟ کیا کہے؟ اصغر کو کیا جواب دے؟ پر وہ تو فیصلہ کر چکی تھی اور اب بس اسے کچھ بھی نہیں بولناتھا ۔ اصغر اس پر ہنسے یا اس کے سامنے روئے ۔ اس کی منتیں کرے پر اس نے فیصلہ نہیں بدلنا تھا ، یہ اس نے اپنے دل میں طے کیا تھا ۔
” کیا تم مجھے وجہ بتا سکتی ہو کہ تم نے یہ فیصلہ کیوں لیا ہے؟ اصغر نے چبا کر کہا تھا اس کے لہجے میں بے پناہ خشکی تھی۔ وہ شخص جو فطری طور پر انتہائی نرم خو اور شریف قسم کا انسان تھا اور دنیا اس کے بارے میں اکثر سوچتی تھی ” ان کو کبھی غصہ بھی آتا ہوگا ؟ اوروہ بھی کس پہ؟ اور اس بات کا اسے اندازہ تک نہیں تھا کہ وہ اس پہ غصہ کرے گا ۔ دینا نے اپنا جھکا سر اٹھا لیا ، وہ اس شخص کا چہرہ دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ اصغر نہیں ہو سکتا تھا۔ اور اگر تھا بھی۔۔ تو زندگی میں پہلی بار غصہ کرتے ہوئے وہ کیسا لگ رہا ہوگا ؟ دینا کو اس وقت یہ دیکھنے کی چاہ تھی۔ پر تاریکی میں وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ پا رہی تھی۔ ” اچھا ہے جو مجھے ان کا چہرہ نہیں نظر آرہا۔۔ شکر ہے اللہ کا ! ورنہ ۔۔ ورنہ تو میں فیصلہ بدلنے پر مجبور ہو جاتی۔۔ میں ۔۔ نا کبھی نہیں کہہ سکتی اس شخص کو ۔۔” اس نے آنکھیں بھنچتے ہوئے سوچا۔
” جواب چاہیے مجھے تمہارا۔” انتہائی سخت لہجے میں پوچھا گیا تھا ۔
میں آپ کو کوئی جواب نہیں دے سکتی ” اندھیرا نہ ہوتا تو وہ اصغر کو ایسا جواب کیسے دے پاتی ؟” اور زندگی میں کبھی کبھی تاریکی بھی آپ کو آپ کا راستہ بتاتی ہے ۔ ہمیشہ روشنی منزل تک نہیں لے جاتی۔۔۔۔۔اور بات اپنے اپنے نظریے کی بھی تو ہوتی ہے ۔۔ اس نے سکون سے سوچا۔
” عرینہ کے اس طرح چلے جانے سے میرے اور تمہارے رشتے کا کیا تعلق ہے ؟” اب وہ سیدھا اصل موضوع کی طرف آیا تھا ۔
” تعلق ہے میرا بھی اور آپ کا بھی ۔۔” دینا اس موضوع کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن جب سے وہ انگلینڈ سے آیا تھا گھر کا ماحول اسی مسئلے کی وجہ سے کشیدہ تھا ۔۔۔ وہ اپنے گھر کے مسائل کو ختم کردینا چاہتی تھی اور اسی لیے اس نے خود کو قربانی کے لیے پیش کردیا تھا پر یہاں تو سب کچھ الٹ رہا تھا ۔ اس کے فیصلے نے بھی سب کو اور خاص طور پر اصغر کو پریشان کیا ہوا تھا ۔ وہ حیران بھی تھی اور پریشان بھی ۔۔۔ پر اس نے اپنا فیصلہ نہیں بدلنا تھا ، چاہے کوئی راضی تھا یا نہیں ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...