مسدس
عشق وہ گل ہے کہ دامن میں ہیں جس کے سو خار
عشق وہ نخل ہے جس میں نہ لگا پھل اک بار
عشق وہ میوہ ہے جس میں نہیں لذت زنہار
عشق وہ باغ ہے جس میں نہ کبھی آئی بہار
عشق وہ شاخ ہے جس میں نہیں پتا دیکھا
عشق وہ غنچہ ہے جس کو نہ شگفتا دیکھا
جس کی تعبیر اجل ہے وہ پریشان ہے یہ خواب
یہ وہ فتنہ ہے جو فتنے کو جگا دیوے شتاب
ملک الموت ہے اکثر پئے جان احباب
سیکڑوں گھر کیے ویراں یہ وہ ہے خانہ خراب
پاؤں شادی میں یہ رکھے تو بپا غم ہو جائے
عیش و عشرت کا بچھونا صف ماتم ہو جائے
کبھی ہے صید گرفتار کبھی ہے صیاد
کبھی مقتول جفا ہے کبھی قہر جلاد
کبھی مجنوں ہے کبھی لیلی پاکیزہ نہاد
کبھی ہے غیرت شیریں کبھی رشک فرہاد
کبھی انداز پری ہے کبھی دیوانہ ہے
شمع رخسار کبھی ہے کبھی پروانہ ہے
کبھی کوچے میں حسینوں کے گزارا نہ کرے
دل کو مارے قدم اس راہ میں مارا نہ کرے
خوش نگاہوں سے محبت کا اشارہ نہ کرے
جان دے شربت دیدار گوارا نہ کرے
آنکھ گر ابرو و مژگانِ ستمگر پر جائے
تیغ سے کاٹے گلا مار کے چھریاں مر جائے
اس عشق خانہ خراب کے ہاتھوں لاکھوں آنکھیں پُر آب ہیں، ہزاروں دل بے تاب ہیں۔ خدا جانے یہ کیا جادو ہے کون تسخیر ہے کہ ہر ایک اُس کی برائی سے واقف مگر ایک عالم اُس کے دام مکرمیں اسیر ہے۔ اپنوں کو بیگانہ بنانا اس کا ادنی کام ہے۔ یہ شربت دیکھنے میں میٹھا مگر حقیقت میں زہر کا جام ہے۔ اسی کے بدولت ایک دوسرے کا رقیب ہے۔ اسی کے ہاتھوں کوئی وصل کے مزے لوٹے کسی کو ہجر نصیب ہے۔ او دشمن دوست کش! یہ تیرا کون طریقہ ہے کیا شیوہ ہے کہ شیریں کی محبت میں فرہاد تباہ و برباد ہو اور خسرو اُس کے وصل سے شاد بامراد ہو۔ ایک غریب الوطن مبتلائے رنج و محن کی جان لینے پر خسرو آمادہ ہو مفت میں برباد وہ دلدادہ ہو۔ اے قلم! تجھ کو یہ عبرت افزا واقعہ لکھنے میں کیوں دلچسپی ہے۔ اے قرطاس! کیا اسی لیے تیرے صفحہ کی سپیدی ہے۔ نہیں قلم اور قرطاس اپنے اوپر جبر کر کے اس عشق کے آخری نتیجہ کو لکھ کر دکھاتے ہیں، واقعی دوسروں کو اس راہ پُر پیچ سے ہٹانے کے لیے یہ سب آفتیں اپنی جان پر اُٹھاتے ہیں۔ گو یہ وہ سماں ہے، ایسا فوٹو ہے جس کی ہیبت ناک صورت دیکھنے سے جان جاتی ہے، قضا سامنے آتی ہے۔ شیریں فرہاد کی قسمتوں کا مقدمہ آج اُس بے درد ظالم خسرو کے سامنے فیصلہ کےلیے آیا ہے جس نے سراسر خود غرضی، نفس پرستی، ایذا رسانی کا جامہ پہنا ہے۔ او سچی محبت! آج تو بھی اپنا اثر دکھا۔ اے فرہاد کی پر اثر آہ! ہاں ذرا اپنی آخری قوت دکھا۔ ان دو بے گناہوں کے خون اوپر ہی اوپر نہ جاویں بلکہ ظالموں پر بھی کوئی تازہ آفت لاویں۔ اگر شیریں فرہاد اپنی بد قسمتی سے ایک جگہ بیٹھ کر عیش نہ کرنے پائیں تو خسرو کے دلی جوش، طبعی ولولے بھی مٹ جاویں۔ غرض خسرو کا دربار آراستہ ہے، وزیر امیر سب اپنے اپنے مقام پر مؤدب بیٹھے ہیں۔ عجب جلسہ ہے، ناچ رنگ کی محفل ہو رہی ہے۔ خوشی مچی ہے۔
غزل رضاؔ لکھنوی فرنگی محلی
اشارہ جب سے دیکھا خنجر ابروئے قاتل کا
خواص اپنے دل مجروح میں ہے مُرغ بسمل کا
ہوا ہوں دل سے سودائی میں اس زہرہ شمائل کا
گمان ہے حلقۂ گیسو پہ جس کے چاہ بابل کا
نشان قبر بھی میرا مٹایا اے فلک تو نے
ابھی کچھ دل میں باقی ہے کہ نکلا حوصلہ دل کا
لپٹ جانے سے مجنوں کو غرض تھی یہ خبر کس کو
کدھر ناقہ ہے منہ ہے کس طرف لیلی کے محمل کا
گل لالہ کی کلیاں تھوکتی ہیں خون گلشن میں
لب رنگین کی الفت میں ہوا ہے یہ مرض سل کا
تماشا دوسرا ہوتا کہ تم بھی لوٹ ہو جاتے
تڑپنا اک نظر دیکھا تو ہوتا اپنے بسمل کا
نہیں آتی وہ مقتل میں پڑے لاکھوں سسکتے ہیں
قضا کو بھی نہایت خوف ہے شمشیر قاتل کا
جگا مجھ کو نہ اے شور قیامت! تازہ وارد ہوں
ابھی سویا ہوں تربت میں تھکا ماندہ ہوں منزل کا
خدا جانے چرا کر کون شاطر لے گیا اُس کو
پتا پہلو میں بھی ملتا نہیں حسرت زدہ دل کا
کیا اک وار میں دو ٹکڑے اپنے سخت جانوں کو
رضاؔ لوں تیغ کا بوسہ کہ چوموں ہاتھ قاتل کا
یکایک جاسوس آیا اور شاہی آداب بجا لا کر یوں زبان پر لایا کہ شاہ کی عمر دراز، دولت و اقبال زیادہ ہو۔ یہ تازہ خبر دینے خانہ زاد آیا ہے کہ فرہاد نے بے ستون کو کاٹ ڈالا ہے۔ اب دو چار دن میں وہ بالکل اُس کو کاہ کر دے گا۔ پہاڑ کے اندر اچھی طرح راہ کر دے گا۔ خسرو یہ خبر سنتے ہی دم بخود ہو گیا۔ سخت حیرت میں پڑا کہ میں اُس سے اقرار کر چکا ہوں، پورے طور سے قول و قرار کر چکا ہوں کہ یہ کام انجام پانے پر شیریں کو تیرے حوالہ کروں گا۔ دامن مراد کو گوہر مقصود سے بھروں گا۔ اور یہ اقرار اس خیال سے کر لیا تھا کہ وہ بے ستون کاٹنے سے عاجز آئے گا، خود ہی جان دے کر مر جائے گا۔ قصہ تمام ہوگا بخیر انجام ہوگا۔ اب قول سے پھر جانا شاہی دبدبہ کے خلاف ہے۔ اس میں بدنامی صاف ہے۔
وزرا اور حاضرین دربار سے گویا ہوا کہ تم سب غور و فکر کر کے کوئی صورت نکالو۔ اس پتھر کو میرے سینہ سے ٹالو۔ ہر ایک دم بخود سر بگریباں تھا جو دربار میں حاضر تھا حیران تھا۔ جاماسپ قوال جو مکاری میں بھی مشہور تھا اُس کا شہرہ دور دور تھا، نیا فریب سوچا اور باادب گویا ہوا کہ حضور خانہ زاد کے ذہن میں ایک صورت آئی ہے کہ وہ ملکہ کا دیوانہ ہے شیدائی ہے، اس کو جھوٹی خبر ملکہ کے انتقال کی سُنانا چاہیے اور زائد دیوانہ بنانا چاہیے۔ اگر وہ عاشق کامل ہے، واقعی ملکہ پر مائل ہے تو اس خبر کو سن کر خود ہی ہلاک ہو گا قصہ پاک ہو گا۔ یہ بات خسرو نے پسند کی اور اس کام کو اسی کے متعلق کر کے اسے رخصت دی اور اس کی بھی تاکید کر دی کہ راز کسی پر کھلنے نہ پائے میری شرکت ظاہر نہ ہو جائے۔ اگر یہ کام پورا ہوا اور فرہاد جان سے گیا تو تجھے انعام کثیر عطا ہوگا، مرتبہ دونا ہو گا۔ جاماسپ بد طینت اجازتِ رخصت پا کر اپنے مکان پر آیا اور نئی عیاری کی۔ عورتوں کا لباس پہنا، زنانہ بھیس بنایا، صد سالہ ضعیفہ کی صورت بن کر یک بینی و دوگوش تاریک رات میں وہاں سے چلا۔ ایسا روپ بھرا تھا کہ بہروپیے بھی نہ پہچانتے۔ جو دیکھتا غریب بُڑھیا جانتا۔ غرض اس حالت سے وہ شیطان سیرت خبیث طینت کوہ بے ستون پر پہنچا۔