شیریں کا واپس ہونا گھوڑے کا ٹھوکر کھا کر بیکار ہونا شیریں کی پیادہ پائی دیکھ کر فرہاد کا اُسے اپنے کاندھے پر بٹھا کر لے جانا، گرّا قزاق کا ملنا اور فرہاد کے ہاتھ سے قتل ہونا۔ شیریں کا محل میں داخل ہونا فرہاد کا بے ستون پر آ کر رونا
فلک کج مدار کی گردش نے تازہ آفت ڈھائی، نئی مصیبت دکھائی کہ شیریں جب فرہاد سے رخصت ہو کر چلی راہ میں نئی آفت میں پھنسی۔ گھوڑا ٹھوکر کھا کر زخمی ہوا۔ پیادہ پائی نے صورت دکھائی، قسمت کی تحریر سامنے آئی۔ وہ پُر خار میدان وہ پُر ہول بیابان اور شیریں جو کبھی دو قدم نہ چلی تھی منزل طے کرنے کی بلا میں پھنسی۔ فرہاد ٹکٹکی باندھے اُسی کی طرف تک رہا تھا، اپنے جنوں میں خدا جانے کیا کیا بک رہا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر اور دیوانہ ہوا، پروانہ کی طرح اُس شمع جمال کی طرف روانہ ہوا۔ ایک کاندھے پر شیریں کو سوار کیا دوسرے پر گھوڑے کو جگہ دی۔ دونوں کا آپ مرکب بنا نئے انداز سے وصال کی صورت بندھی۔ ہر طرف جنگل میں اُس کو لیے پھرتا۔ اپنے دل کو خوش کرتا تھا۔ جنگل میں خزانہ پایا، ہما کا سایہ بے محنت ہاتھ آیا۔ پکار پکار کر کہتا تھا کون ہے جو میری ہمسری کرنے کا دعویدار ہے۔ پائے محبوب یوں کس کے گلے کا ہار ہے۔ آج میں تمام مصیبتیں بھول گیا۔ خوشی سے کلی کی طرح پھول گیا۔ دور سے ایک قافلہ نمودار ہوا، جنگل پر از گرد و غبار ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد چالیس قزاق گھوڑوں پر سوار سامنے آئے، اس مصیبت زادہ پر تازہ آفت لائے۔ گرّا نامی اُن کا سردار تھا، حبشی نابکار تھا۔ صورت سے دیو کو خوف آتا، ہر دیکھنے والا ڈر جاتا۔ اشعار:
کھوپڑی اُس کے سر کی وہ اوندھی
جیسے ہووے بخیل کی ہانڈی
آنکھ وہ جس میں تھا نہ ایک خلل
چشم بد دور غیرتِ حنظل
ناک وہ مثل غوک پژمردہ
دانت تھے مثل سلک خر مہرہ
یوں وہ لبِ اُس کے غیرت زاغی
جیسے کیلے کی ہو پھلی داغی
کان اُس کا اگر نظر آوے
شپرک اُس کو دیکھ اُڑ جاوے
پوست اُس کا تھا گرگدن سے بھی سخت
یا کسی خر کا تھا سیہ کمبخت
سر سے پا تک وہ خرس وَش بد دین
ہو بہو تھا سیاہ دیو لعین
گرّا نے شیریں کو پہچانا۔ فرہاد کو ڈپٹ کر آواز دی۔ او بد نہاد فرہاد آگے قدم نہ بڑھانا۔ اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ لینا جانے نہ پائے۔ آج قسمت سے یہ دولت ہاتھ آئی ہے۔ تمام قزاقوں نے فرہاد کو گھیر لیا، قدم بڑھانے کا راستہ نہ دیا۔ پھر شیریں کی طرف خطاب کیا، سخت کلامی سے عتاب کیا۔ وہ سیہ دروں، بد باطن سد راہ ہوا۔ شیریں فرہاد دونوں کے لبوں پر نالہ و آہ ہوا۔ فرہاد کے کاندھے سے شیریں اتر آئی، بے حد پریشان ہوئی، بہت گھبرائی۔ گرّا فرہاد سے کہنے لگا: او بد راہ! تو اور یہ بانوئے شاہ کہاں، مزدور کہاں۔ محبوبۂ عالی جاہ! تیری بد کرداری کے سزا دوں گا، تمام دنیا میں رسوا ذلیل و خوار کروں گا۔ دست و پا بزنجیر کر کے تجھے دربار میں لے چلوں گا۔ خسرو پرویز سے خاطر خواہ انعام لوں گا۔ تو نے حاکم کی آبرو خاک میں ملائی۔ او کمبخت! کیوں تجھے موت نہ آئی۔ پھر شیریں سے گویا ہوا کہ سچ ہے عورت بد نہاد ہوتی ہے، عزت و آبرو کھوتی ہے۔ نہ تجھے اپنی عزت کا پاس ہوا نہ بادشاہ کا خوف و ہراس ہوا۔ یہ صحرا یہ میدان تجھ کو پسند آیا۔ عالیشان محلوں سے دل گھبرایا، اپنے گھرانے کو ذلیل و خوار کیا۔ خسرو پرویز کی عزت مٹائی، رسوائے امصار کیا۔ شیریں مصیبت میں پھنسی تھی۔ کچھ بن نہ آیا، نرمی سے گفتگو کی۔ اپنے کان کے موتی اُتارے اور اُس موذی کے سامنے رکھے۔ عاجزی سے کلام کرنے لگی کہ اگر مال و دولت کا ارمان ہے، عزت و جاہ کا خواہاں ہے تو یہ گوہر لے اور مجھے چھوڑ دے۔ گرّا اور غیظ میں آیا۔ تلوار کھینچ کر بولا: نہ مجھے مال کی ہوس ہے، نہ دولت کی پروا ہے۔ نہ عزت کی ضرورت ہے نہ شوکت کی خواہش اصلاً ہے۔ مجھے مفلس سمجھ کر مال دکھاتی ہے، طمع میں پھنساتی ہے۔ معلوم ہوا کہ تو بڑی نابکار بد اوقات ہے۔ فریبی مکار نہایت بد ذات ہے۔ اپنی حکومت پر مغرور ہے، دولت کے نشے میں چور ہے۔ یہ موتی تیری آب کھوئیں گے۔ جب اپنے کیے کی سزا پائے گی، تیرے دلدادہ روئیں گے۔ یہ باتیں سن کر دل ہی دل میں شیریں کہتی تھی۔ اشعار:
آہ قسمت کو روئیے اب کیا
کس سیہ دل کے بس میں لا ڈالا
تھا وہ اک دن کہ تھی میں شاہ زمن
مالکِ ملک والیِ ارمن
شاہ تسلیم مجھ کو کرتے تھے
رعب سے میرے لوگ ڈرتے تھے
جس کو میں بھیجتی تھی اک نامہ
عجز کرتا تھا وہ بصد خامہ
فخر دارین جانتا تھا وہ
حکم کو میرے مانتا تھا وہ
اور یہ کل کی بات ہے اے بخت!
کہ میرے ہاتھ میں تھا تاج اور تخت
ہوتی تھی جب کبھی میں خشم انگیز
زاری کرتا تھا خسرو پرویز
اور یہ آج نا سزا بد کام
مجھ کو دیتا ہے کس قدر دشنام
کیا کروں آہ سخت ہوں رنجور
ہے زمین سخت آسماں ہے دور
کہیں ہو جائے شق زمیں یا رب
کہ سما جاؤں جس میں بس میں اب
کاش اس وقت موت آ جاوے
اس بلا سے مجھے چھڑا جاوے
یا کہیں موت دے اسی کو خدا
یا یہ موقوف ہو کہیں جھگڑا
آخر یہ بات ذہن میں آئی۔ قسمت نے اچھی سمجھائی۔ اُس ماہ جبیں شیریں نے اپنے رخسار عالم تاب سے نقاب اُٹھا کر اُس حبشی کے دل و جگر پر بجلی گرائی۔ آتش محبت میں سوختہ کیا، خوب بن آئی۔ یا تو وہ سخت کلامی تھی یا یہ خط غلامی لکھنے پر آمادہ ہوا۔ ہزار جان سے دلدادہ ہوا۔ حسن کا جادو چل گیا۔ گرّا کا پائے ثبات پھل گیا۔ اپنی سخت کلامی پر انفعال ہوا۔ خوشامد کی، طالب وصال ہوا۔ اُدھر سے اصرار اِدھر سے انکار ہوا۔ وہ پروانہ کی طرح شمع جمال شیریں کے گرد پھرتا خوشامد کرتا قدموں پر گرتا۔ واقعی اچھی صورت وہ چلتا ہوا جادو ہے کہ فرشتے اُس کے دام مکر میں پھنس کر خنجر عشق کے گھائل ہیں۔ ہاروت ماروت کا قصہ کون نہیں جانتا، اب تک اسیر چاہ بابل ہیں۔ اسی نے شاہوں کو تباہ، سلطنتوں کو تاراج کیا۔ بڑے بڑے مالداروں کو مفلس بنایا۔ دانہ دانہ کومحتاج کیا۔ عشق کی چوسر بچھی۔ شیریں نے پانسہ مارا، بازی جیتی۔ اشعار:
عشق ہے گرچہ آب و رنگ جہاں
اس کے نیرنگ ہیں پر آفت جاں
کہیں ہنگامہ مصیبت ہے
کہیں محفل طراز عشرت ہے
دلنشیں ہے کہیں بطرز خدنگ
کہیں ناموس ہے کہیں بے ننگ
ہے کہیں سوز اور کہیں ہے ساز
کہیں ہوتا ہے صرف راز و نیاز
کہیں دیہیم فرق شاہی ہے
کہیں خاک سر تباہی ہے
کہیں یہ کوچۂ سلامت ہے
کہیں سنگ سر ملامت ہے
کہیں عارض کا خط و خال ہوا
کہیں آئینۂ جمال ہوا
کہیں یہ چاک ہے گریباں کا
کہیں بخیہ ہے جیب و داماں کا
کہیں گیسوئے یار بنتا ہے
کہیں ڈسنے کو مار بنتا ہے
کہیں دل دادۂ خود آرائی
کہیں شہرت پسند رسوائی
کہیں گل بن کے یہ حمائل ہے
کہیں زخم حمائل دل ہے
کہیں یہ کفر ہے کہیں اسلام
کہیں دونوں سے کچھ نہیں ہے کام
کہیں مشعل فروز پرتوِ نُور
ہے کہیں ظلمتِ شبِ دیجور
درد دل خوں کن جگر ہے کہیں
جوش سودائے مغز سر ہے کہیں
گرچہ یہ دیر کا ہے ناقوسی
ہے حرم میں اسی کی جاسوسی
غرض ایسا ہے یہ ستم ایجاد
جس نے گھر سیکڑوں کیے برباد
گرّا شیریں سےعشق آمیز باتیں کرتاعاشقی کا دم بھرتا تھا۔ شیریں ہراساں تھی، نہایت پریشاں تھی۔ اپنی جان بچانے کے لیے اُس نے یہ صورت نکالی تھی۔ اپنا جمال اسے دکھا کر اُس کریہ منظر پر اپنی نظر ڈالی تھی۔ خدا سے اس بلا کے دفع ہونے کے لیے دل ہی دل میں کہتی اور بظاہر اس سے ہنستی رہتی کہ اُس کے ساتھیوں پر اور قزاقوں نے چھاپہ مارا۔ جتنا مال اسباب تھا سب لے لیا۔ دو ایک کو قضا کے گھاٹ اُتارا۔ گرا یہ حال دیکھ کر گھبرایا۔ ساتھیوں کو اُن پر حملہ آور ہونے کے لیے آمادہ کیا، حکم سنایا۔ وہ سب سامان حرب سے آراستہ حواس باختہ اُن کے تعاقب میں راہی ہوئے۔ یہاں فرہاد کو موقع ہاتھ آیا، گرا کو تنہا پایا۔ شیریں کی محبت نے جوش کیا۔ رقیب کو محبوب کے سامنے دیکھ نہ سکا۔ اُسی تبہ کار کی تلوار اُٹھا کر وہ ہاتھ مارا کہ اُس مردود کو دو ٹکڑے کر کے جہنم پہنچایا۔ شیریں نے اُس کی اس جرات کی داد دی۔ جان بچنے کا شکریہ ادا کیا۔ دونوں کو خوشی ہوئی۔ فرہاد اپنے دلی جوش میں یوں شیریں کی تعریف کرنے لگا۔ خمسہ:
کس طرح دیوان قدرت میں نہ ہو تو انتخاب
مصرع قامت کا ہے ہر ایک پہلو انتخاب
ہے گرہ بند قبا میں بندِ گیسو انتخاب
دفتر عالم میں ہے یہ صفحۂ رو انتخاب
صفحۂ رو میں تری ہے بیت ابرو انتخاب
آپ کا اے جان عالم ہے جو شہرا حسن میں
حق بجانب ہے نہیں یوں کوئی یکتا حسن میں
گو نہیں اپنا تمھاری طرح حصہ حسن میں
عاشقوں میں ہم سا کوئی ہے یہ تم سا حسن میں
سارے عالم میں ہمیں تم تو ہیں ہر سو انتخاب
واہ کیا تنویر ہے حُسن رخ دلخواہ کی
رات دن پڑتی ہے تجھ پر آنکھ مہر و ماہ کی
سُرمۂ چشم فلک ہے گرد تیری راہ کی
تجھ سے بہتر کون ہے اے بت قسم اللہ کی
سارے اس مجموعۂ عالم میں عالم ہے تو انتخاب
تو سراپا حسن ہے محبوب ہر اک عضو ہے
خوشنما و دلکش و مرغوب ہر اک عضو ہے
واہ واصل علے کیا خوب ہر اک عضو ہے
سر سے پا تک تیرا خوش اسلوب ہر ایک عضو ہے
موشگافوں سے نہ ہو گا اک سر مو انتخاب
تجھ پے اے محبوب من یہ وضع بانکی زیب ہے
تیرے ہی قد پر قبائے جامہ زیبی زیب ہے
کیا ہی گوش صاف میں ہیرے کی بجلی زیب ہے
مہر و مہ کے اکّے تیرے بازووں کی زیب ہے
جیسے اکے منتخب ہیں ویسے بازو انتخاب
شیریں کو اُس خانماں برباد کی محبت نے پہلے ہی دیوانہ کر دیا تھا، اب اُس کی اس جرأت نے اور بھی عقل سے بیگانہ بنا دیا۔ فرہاد کا اپنی جان پر کھیل کر گرا کو قتل کرنا، شیریں کو اس کے دست ظلم سے چھڑانا ایسی خوشی نہ تھی جس کا اظہار دل سے نہ کیا جاتا۔ فرہاد کے جواب میں شیریں یوں گویا ہوئی۔ خمسہ:
ازل سے ہیں گرفتار بلا ہم
نہ ہوں گے دام وحشت سے رہا ہم
کہیں کیا تم سے اپنا ماجرا ہم
ہوئے زلفوں پہ جیسے مبتلا ہم
پریشان حال رہتے ہیں سدا ہم
ہم اس بندہ نوازی کے ہیں صدقے
الٰہی شکر بخت خفتہ جاگے
زہے فخر و سعادت لیجیے لیجیے
اگر دل مانگتے ہیں آپ ہم سے
تو ہیں موجود یوں بھی دلربا ہم
ہے یکساں رنج فرحت عاشقوں کو
نہیں پروا اگر تم آزماؤ
یہاں تک مستقل ہے طبع اب تو
جو پیکِ غم ادھر تم بھیجتے ہو
تو کہتے ہیں اُسے بھی مرحبا ہم
اسی طرح تھوڑی دیر تک رمز و کنایہ کی باتیں رہیں۔ آخر شیریں نے آبدیدہ ہو کر فرہاد سے کہا: یہ فلک کج رفتار عاشق و معشوق کو ایک جگہ دیکھ نہیں سکتا ہے، ہر وقت دونوں کو جدا کردینے کی تاک میں رہتا ہے۔ کیا کروں قسمت ہی میں جدائی ہے۔ خدا جانے کب تک ہم دونوں کے مقدر میں تنہائی ہے۔ مجھے بہت عرصہ ہو گیا ہے اب اجازت چاہتی ہوں۔ تیری جدائی کا داغ اپنے ساتھ لیے جاتی ہوں۔ فراق کا نام سنتے ہی فرہاد زندہ درگور ہوا، گویا جیتے جی مر گیا۔ بے قراری سے رونے لگا، اپنی جا ن کھونے لگا۔ شیریں بھی اُس کے ساتھ بے قرار ہوئی، نہایت اشک بار ہوئی۔ پھر یوں سمجھانے لگی اُس کے دل کو قابو میں لانے لگی کہ او فرہاد! موذی کے پنجہ سے تو نے مجھے چھڑایا۔ گرا کو جان سے مارا، سر اُڑایا، اُس کے ساتھی اگر یہاں آئیں گے آفت ڈھائیں گے۔ مناسب یہی ہے کہ مجھے تو باغ تک پہنچا آ۔ کچھ دنوں اور صبر کر۔ غم نہ کھا۔ وہ زمانہ بھی آئے گا کہ تو مجھے خسرو سے اپنی شرط کے عوض میں پائے گا۔ فرہاد ناشاد نے شیریں کو اپنے کاندھے پر بٹھایا اور نہایت تیزی سے باغ کے دروازے پر پہنچایا۔ جس وقت شیریں چور دروازے سے باغ میں آئی تو تمام محفل اُسی طرح سجی سجائی پائی۔ کسی طرف بلبلوں کا شور تھا کہیں رقص و سرود کا زور تھا۔ ایک پری جمال یہ غزل گاتی تھی، ساری محفل کا دل لبھاتی تھی:
غزل رضاؔ لکھنوی فرنگی محلی
داغ کھائے گا جو عشق رنگ روئے یار کا
آئے گا منہ کو کلیجہ لالہ کہسار کا
نور پھیلا ہے مکان میں شمع روئے یار کا
مہرتاباں بن گیا روزن ہر اک دیوار کا
باغ گل لالہ بنے اور چرخ پر پھولے شفق
چشم سے فوارہ گر چھوٹے لہو کی دھار کا
کیا تعجب ہے نہ ہو گر یہ شگفتہ عمر بھر
دل مرا اک پھول ہے شداد کے گلزار کا
مشق کرنے کو پرِ بلبل کے بنتے ہیں قلم
شوق ہے اس شوخ کو ایسا خطِ گلزار کا
گردش چشم صنم ہے گردش قسمت مجھے
پھیر ہے تقدیر کا پھرنا نگاہ یار کا
ہم نہ کہتے تھے مقابل ہو نہ جانبازوں سے تو
دیکھ وہ منہ پھر گیا قاتل تری تلوار کا
کفر و ایمان میں ہیں یہ جھگڑے بکھیڑے کس لیے
ایک ہی ہوتا ہے ڈورا سبحہ و زنار کا
کمسنی دیکھو حنا بھی ہاتھ میں ملتا نہیں
خون جب تک کر نہیں لیتا ہے وہ دو چار کا
دشمنِ جاں ہو گیا ہے یار اپنا اے رضاؔ
اب کریں کیا شکوہ ہم بے رخیِ اغیار کا
ادھر شیریں محفل میں رقص و سرود کا لطٖف اٹھا رہی ہے اور اُدھر فرہاد کو اُس باغ کے گرد گھومنے سے فرصت نہیں۔ جدائی اور ستا رہی ہے۔ کبھی روتا گاہ چلاتا ہے، کبھی یہ فراقیہ غزل گاتا ہے :
غزل رضاؔ لکھنوی فرنگی محلی
فرقت میں تری حال یہ اے رشک پری ہے
لب خشک ہیں دم سرد ہے آنکھوں میں تری ہے
اے رشک مسیحا! جو یہی بے خبری ہے
بیمار ترا دم میں جہاں سے سفری ہے
تاخیر ہے کیوں قتل میں اٹھ بیٹھو مری جان
میں سر کو جھکائے ہوں وہ تلوار دھری ہے
مانگیں گے دعا صبح کو اب وصل صنم کی
سنتے ہیں کہ مقبول دعائے سحری ہے
کہتے ہیں وہ سن کر مرے نالے پس دیوار
یہ کس کی ہے آواز جو یوں درد بھری ہے
دیوانہ گیسو ہوں لقب ہے مرا وحشی
مشہور جہاں میں مری شوریدہ سری ہے
لے لیجیے اک بوسہ پہ دیتے ہیں دل اپنا
کھوٹی نہیں یہ جنس پرکھ لیجیے کھری ہے
غیرت ہو مسیحا تو جلا دو اُسے چل کر
دروازے پہ میت کسی بے کس کی پڑی ہے
خوابیدہ رضاؔ باغ میں شاید ہے وہ گلرو
چلتی جو دبے پاؤں نسیم سحری ہے