فرہاد کا بے ستون کو کاٹنا اور شیریں کے دل میں اُس کی فریاد کا اثر کرنا اور فرہاد سے ملنے کوہ بے ستون پر جانا
فرہاد کو شیریں کے ملنے کی امید نے ایسا قوی بنا دیا تھا کہ اُس کی دھن میں راہ طے کرتا ہوا کوہ بے ستون پر پہنچا۔ ہر طرف سبزہ زار دیکھ کر پھر اُسے خیال وصل کی دھن سمائی اور خیال یار سے یوں باتیں کرنے گا۔ خمسہ:
رنج و غم سے ہوئے آنکھوں میں فراواں آنسو
پہلے بہتے نہ تھے یوں دیدۂ گریاں آنسو
اب تو ہر لحظہ مجھے کرتے ہیں نالاں آنسو
کیا دکھائیں گے مجھے نوح کا طوفاں آنسو
نہیں تھمتے نہیں تھمتے کسی عنوان آنسو
ابیات
خلق دنیا میں ہوا میں الم و غم کے لیے
رنج ہے میرے لیے عیش ہے عالم کے لیے
دردِ دل داغ جگر سوزشِ قلب و غمِ جاں
سو بلائیں ہیں فقط ایک مرے دم کے لیے
زیادہ بے قراری میں آپ ہی آپ یوں باتیں کرتا اور اپنی بد قسمتی پر روتا۔ اے عشق! تو نے مجھے دونوں جہاں سے کھویا، غم کا وہ پہاڑ میرے سر پر رکھ دیا جس کے برداشت کی میرے ضعیف بدن کو طاقت نہیں۔ کیا اچھا ہوتا اگر خدا مجھے پیدا ہی نہ کرتا۔ اے ناکامی! کب تک یہ صدمے اُٹھاؤں۔ دنیا میں ہزارہا بچے پیدا ہو کر مر جاتے ہیں، مگر مجھے موت نہ آئی۔ کیوں آتی اگر میں مر جاتا تو اس طرح آفت میں پھنس کر تمام عالم میں بدنام کون ہوتا۔ اے قسمت! کیا تو نے سنگ تراشی مجھے اسی لیے سکھائی تھی۔ اے برگشتگی! کیا تو چین سے مجھ کو انھیں مصیبتوں میں پھنسانے کے لیے لائی تھی۔ کبھی تیشہ اُٹھا کر کہتا کہ آج میں اسی سے اپنے ہاتھ کاٹے ڈالتا ہوں۔ پھر خود ہی کہتا نہیں نہیں اگر میں ہاتھ کاٹ ڈالوں گا تو لوگ کہیں گے فراق کے صدمے نہ سہہ سکا۔ اے شیریں! کیا تو نے اسی لیے مجھے یاد کیا تھا کہ یوں بدنامی بربادی کا طوق میرے گلے میں ڈالے۔ کیا اسی لیے اپنے قریب بٹھایا تھا کہ میٹھی باتوں سے میرا دل چھین کر میری زندگی تلخ کر دے۔ اے میری آنکھوں! تم نے کب کی عداوت کا مجھ سے بدلہ لیا۔ اے قوت سامعہ! میں نے تیرا کیا بگاڑا تھا کہ تو نے شیریں کا کلام سن کر میرا کام تمام کیا۔ اے دل! میں نے اپنی دانست میں تجھے کبھی تکلیف نہیں دی۔ کیا اسی لیے تجھ کو برسوں پہلو میں پالا تھا کہ تو دوسرے کے قابو میں جا کر تمام عمر کے لیے مجھے اس صدمے میں پھنسا کر کوہ دشت میں سرگرداں کرے۔ مسدس:
کچھ بیان کر نہیں سکتا ہوں میں ہجران کا عذاب
آتش غم سے جگر ہو گیا جل بھن کے کباب
مرغ بسمل سا تڑپتا ہے دل خانہ خراب
نظر آتی نہیں اب خواب میں بھی صورت خواب
شبِ غم میں مجھے جینے کی نہیں مطلق آس
نہ مرے ہوش ٹھکانے ہیں نہ قائم ہیں حواس
اے گردش افلاک! دیکھوں تیرے ہاتھوں ابھی میں کن کن مصیبتوں بلاؤں میں پھنستا ہوں۔ اے خانہ خراب عشق! تیرا بُرا ہو تیرے ہی سبب سے مجھے ان آفتوں کا سامنا ہوا۔ افسوس کب تک اس وحشت ناک پہاڑ پر کھڑا ہوا حسرت سے اِدھر اُدھر کسی کے خیال میں نظر دوڑاؤں۔ اے موت! تو کہاں ہے۔ میری اس بے کسی میں خبر لے۔ خمسہ:
اک شور بپا دہر میں ماہی سے ہے تا ماہ
فوج اشک کے ہے ساتھ علم آہ کے ہمراہ
جس طرح عدم جائے کوئی حاکم ذی جاہ
سینے میں تلاطم ہے کہ العظمۃ للہ
کیا اے جگر اٹھتا ہے جنازہ مرے دل کا
اے شیریں! کیا میری محبت کا یہی ثمرہ ہے کہ میں دن رات تیرے فراق میں دیوانوں کی طرح کوہ و دشت میں پھروں اور خسرو تیرے جمال کے نظارے کی دولت لوٹے۔ بغلگیر ہو، جام وصال پیے۔ میں رات دن تیری یاد کروں اور تو کبھی یہ بھی نہ پوچھے کہ وہ ناشاد فرہاد جیتا ہے یا مر گیا۔ کبھی شیریں کے محل کی طرف دیکھ کر کہتا:
طنابیں کھینچ دے یا رب زمین کوئے جاناں کی
کہ میں ہوں ناتواں اور دن ہے آخر دور منزل ہے
کاش میرا دل اُس آئینہ کی قسمت پا جاتا جس میں تو اپنا منہ دیکھا کرتی ہے۔ اے یاد یار! تو ہی مونس بن کر کچھ باتیں کر، دل بہلا۔ اے آہ! کیا تجھ میں کبھی اثر نہ ہو گا۔ اے فریاد! کیا تو ہمیشہ برباد رہے گی۔ اے میرے نالو! تم ہی کچھ اپنا اثر دکھاؤ۔ اُس بے وفا دغا باز شیریں کو مجھ تک کھینچ لاؤ۔ کبھی یہ غزل پڑھتا:
آرام جاگنے میں نہ راحت ہے خواب میں
دل اُن کو دے کے پڑ گئے ہم کس عذاب میں
دیکھا نہ ہو جو جوش تلاطم حباب میں
اشکوں کو دیکھ لو میری چشم پُرآب میں
سرنامہ پڑھ کے چاک کیا اُس نے خط مرا
پرزے اٹھا کے لایا ہے قاصد جواب میں
شیریں تمھیں تو کہتے ہیں فرہاد سب مجھے
ہیں پانچ حرف میرے تمھارے خطاب میں
چین آئے ہجر میں کسی کروٹ محال ہے
بے چین دل ہوا ہے جگر کے جواب میں
باد صبا نے در پہ جو دیکھا مجھے کہا
جاؤ ابھی تو وہ گل رعنا ہے خواب میں
رویا ہوں ایسا ہجر میں اُس بحر حسن کے
آنسو نہیں رہا کوئی چشم پُر آب میں
نخوت یہ ہے کہ خاک پہ رکھتی نہیں قدم
رکھا تھا اُس نے پاؤں جو ایک دن رکاب میں
دلبر جو میں نے اُس کو لکھا خط میں بھول کر
دل اُس نے پھیر بھیجا ہے خط کے جواب میں
موت آتی ہے نہ آتے ہیں وہ واہ رے نصیب!
فرقت کی رات میں ہوں پڑا کس عذاب میں
زلفوں کو اُس نے رخ پہ جو ڈالا تو کھل گیا
دو سمت سے لگا ہے گہن آفتاب میں
اس لعل لب کے عشق میں نوبت یہ ہے رضاؔ
موتی ہر ایک اشک ہے چشم پُر آب میں
اے ہمت! میری مدد کر۔ اے تمنائے وصال! امداد کے لیے مستعد ہو۔ خسرو نے بے ستون تراش کر راستہ بنا دینے پر شیریں کو میرے حوالہ کر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اپنی بد قسمتی سے تو اُمید نہیں لیکن آخر فراق میں کوئی مشغلہ ہونا بھی ضرور ہے اور سب سے اچھا وہ مشغلہ ہے جس سے وصل کی امید ہو۔ یہ کہہ کر تیشہ ہاتھ میں لیا اور “اے تمنائے وصال المدد” کہہ کر پہاڑ پر مارا اور اپنی کوہ کنی سے اُس کو پرزے پرزے کر ڈالا۔ شوق نے اُس میں دونی قوت پیدا کر دی۔ محبت نے پیٹھ سہلائی۔ تھوڑے عرصہ میں اُس سخت کوہ کو روئی کے گالے کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر کے منتشر کر دیا۔ شیریں کے تصور کا یہ زور تھا کہ تیشہ سے خامۂ مانی کا کام لیتا اور جو پتھر تراشتا، اس میں شیریں کی تصویر بناتا۔ اس قدر اُس نے پتھروں کی تصویریں بنائیں کہ اگر آذر بت تراش ہوتا تو اُس کے اس کمال کی داد دیتا۔ ایسی عمدہ تصویریں اس نے بنائیں کہ غریب غربا جب مفلسی سے تنگ ہوتے پہاڑ پر جاتے اور ایک بت اٹھا لاتے۔ بت پرست کثیر قیمت دے کر خرید لیتے۔ جس وقت سے فرہاد بادشاہ کے دربار میں گیا تھا اور آپس میں قول و قرار بے ستون تراشنے کے ہوئے تھے، اُس وقت سے اور زیادہ فرہاد کی محبت کا شہرہ ہوا۔ ہر گلی کوچہ میں تذکرہ ہوا۔ ہر وقت صدہا تماشائی فرہاد کی صناعی دیکھنے کو اور اُس کی عشق آمیز باتیں سننے کو بے ستون پر جمع رہتے۔ شدہ شدہ اس پورے واقعے کی خبر شیریں کو بھی ہوئی اور فرہاد کے آہ و نالہ نے اپنا اثر کیا۔ شیریں کے دل میں فرہاد کی محبت پیدا ہوئی اور روز افزوں ترقی کرتی گئی۔ حُب کے تعویذ کی طرح اُس کی فغاں نے اثر پیدا کیا۔ اُدھر اُس نے آہ کی، ادھر شیریں نے دل تھام لیا۔ وہاں وہ بے قرار ہوا، یہاں اضطراب نے اس کا پہلو دبایا۔ وہاں وہ عاشقانہ غزلیں پڑھتا، یہاں یہ اُس کی مستقل مزاجی پر آفریں کرتی۔ وہ اپنے چہرے پر خاک اڑاتا، یہاں خود بخود شیریں کا پھول سا رخسار زرد ہوتا جاتا۔ وہاں وہ حیرت میں ادھر اُدھر دیکھتا، یہاں یہ ہر ایک کا منہ تکتی، درد دل بڑھتا۔ وہ بے ہوش ہوتا، اس پر مدہوشی طاری ہوتی۔ بڑھتے بڑھتے یہ حال ہوا کہ مثل فرہاد کے اس کا بھی جی نڈھال ہوا۔ نہ بات کرتی، نہ کسی کام میں جی لگتا۔ بظاہر عیش کا تمام سامان مہیا تھا۔ خواصیں بے شمار خدمت کو بہتر تھیں لیکن اُس کا دل نہ کسی کام میں لگتا نہ انیسوں میں بہلتا۔ باغ کی سیر سے دل داغ دار ہوتا۔ سرد ہوائیں نشتر بن کر سینہ میں نئی خلش پیدا کرتیں۔ وہ پھول سا رخسار جس کی محبت میں ایک عالم بلبل کی طرح نالہ و آہ میں بسر کرتا تھا، فراق کی تند ہواؤں سے کمھلا کر زرد ہو گیا
فلک دیتا ہے جن کو عیش اُن کو غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتے ہیں نقارے وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں
گو وہ محبت کو بے حد ضبط کرتی لیکن اس کا ضبط ہونا محال تھا۔ کبھی بے ساختہ منہ سے آہ نکلتی، کبھی آپ ہی آپ رویا کرتی
دلا کیونکر چھپاؤں گریۂ طوفان خونی کو
جو پنہاں آستیں میں کیجیے دامن سے ہو پیدا
دل ہی دل میں کہتی: افسوس مجھے کیا ہو گیا ہے۔ کیا او فرہاد! تو نے کوہ کنی کر کے مجھ پر سحر کر دیا کہ میں آپ ہی آپ تیری طرف کھنچی جاتی ہوں۔ اے عقل! تو کہاں گئی، اے ہوش و حواس! تم کیا ہو گئے، کیا ہے کہ نہ مجھے اپنے جسم کا ہوش ہے نہ بدنامی کا ڈر ہے۔ لوگ سنیں گے تو کہیں گے شیریں نے اپنے خاندان کے ساتھ نوشیروان کی عزت بھی مٹا دی۔ خسرو کا پاس نہ کیا۔ ایک مزدور کی شیدائی ہوئی۔ کبھی فرہاد کے خیال سے یوں باتیں کرتی۔ مسدس:
ہائے پہلے ستم آرا مجھے معلوم نہ تھا
دل لگانے کا نتیجہ مجھے معلوم نہ تھا
اپنی قسمت کا نوشتہ مجھے معلوم نہ تھا
یوں تو برباد کرے گا مجھے معلوم نہ تھا
مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
موم سمجھی تھی ترے دل کو سو پتھر نکلا
انیسیں جلیسیں یہ حال دیکھ کر پریشان ہوئیں۔ آپس میں چرچا کرنے لگیں۔ کوئی کہتی سودا ہوا ہے، کوئی کہتی جنون کی ابتدا ہے، جو سمجھ دار تھیں وہ کہتیں کچھ نہیں عشق کا زور ہے، خدا خیر کرے۔ ہم سب کو بدنامی سے بچاوے۔ اگر بادشاہ سنے گا تو آفت ڈھائے گا۔ نسترن بو جو محرم اسرار تھی شیریں کی رازدار تھی اُس نے ایک بار موقع پا کے سر قدموں پر رکھا اور کہا: ہماری جان آپ پر قربان ہو۔ آپ ہم سے اپنے دل کا حال بتائیے، کس بات کا ملال ہے، کس کا خیال ہے۔ کیا ہے کہ مہر خاموشی زبان پر ہے۔ کیوں اداس رہتی ہو، ہر وقت بدحواس رہتی ہو۔ آپ کی یہ حالت دیکھ کر ہم سب کا کھانا پانی حرام ہے۔ نہ دن کو چین ہے نہ رات کو آرام ہے۔ خمسہ:
زرد کیوں چہرہ ہے کیا غم ہے مصیبت کیا ہوئی
آہ و نالہ لب پہ رہتا ہے یہ حالت کیا ہوئی
صاف کہہ دو بس کسی کی الفت کیا ہوئی
کل سے چہرے کی وہ اب اگلی بشاشت کیا ہوئی
منہ تو دیکھو آئنہ لے کر وہ صورت کیا ہوئی
نسترن بو کے بے حد اصرار پر شیریں یوں گویا ہوئی:
ملال دل غم دل رنج دل تم کو سنائیں کیا
جو گزرے جان مخروں پر ہیں صدمے وہ بتائیں کیا
فروغ داغہائے قلب مضطر ہم دکھائیں کیا
سُنا کر داستان غم کی تمھارا دل دُکھائیں کیا
عجب دردیست جانم را اگر گویم زبان سوزد
وگر دم در کشم ترسم کہ مغز استخوان سوزد
او نسترن بو! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اُس خانماں برباد فرہاد کی محبت میرے دل میں اپنا گھر کیوں کر رہی ہے۔ اُس کی یاد مجھے کسی کروٹ چین لینے نہیں دیتی۔ واقعی وہ سچا عاشق ہے۔ میری محبت میں اُس نے نہر جاری کرنے میں کوشش کا کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا۔ اپنا گھر بار چھوڑا۔ مال و دولت سے منہ موڑا۔ اب سُنا ہے کہ خسرو نے اُس کی جان لینے کی فکر میں اُس کو کوہ بے ستون میں راستہ بنانے کا حکم دیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ اگر یہ کام تجھ سے پورا ہو جائے گا تو شیریں کو تیرے حوالہ کر دوں گا۔ اور ظار ہے کہ انسانی قوت سے یہ کام باہر ہے۔ گو وہ میری محبت میں اس پر آمادہ ہو گیا ہے، لیکن یقیناً اس کوہ کنی میں ایک دن جان کھوئے گا۔ افسوس کہ وہ میری محبت میں جان جانے کی پروا نہ کرے اور میں ذرا بھی اُس کا خیال نہ کروں۔ شیریں انھی باتوں میں تھی کہ ایک خادمہ نے آ کر خبر دی حضور! آج تمام شہر میں یہ غل مچا ہوا ہے کہ فرہاد نے بے ستون کو کاٹ ڈالا۔ اب بہت جلد راستہ صاف ہو جائے گا اور خسرو سے شیریں کا طالب ہوگا۔ یہ خبر سُنتے ہی شیریں کا دل باغ باغ ہوا۔ کمھلایا ہوا پھول تازہ ہوا۔ اُسکی محبت نے اور جوش مارا، نظارہ کا شوق ہوا۔ طالب دیدار کی قسمت راہ پر آئی۔ برگشتگی نے منہ پھیرا، راحت نے صورت دکھائی۔ اُسی خوشی میں اس سہیلی کو جس نے یہ خبر سنائی تھی شیریں نے بے حد انعام دے کر مالا مال کیا۔ خوب خوش حال کیا۔ نسترن بو کو حکم دیا کہ خاص باغ میں جشن شاہانہ ترتیب دے کر ارباب نشاط کو حاضر کرے اور اس خوشی میں سب کے دل شاد ہوں۔ ہر طرف شادیانۂ طرب بجے۔