حسنہ صرف اٹھارہ ماہ کی معصوم بچی تھی جب کہ اچانک وہ یتیم ہو گئی۔ باپ جو کچھ چھوڑ کر مرا تھا، وہ اس کے اور بیوہ کے لیے کافی تھا۔ اور غالباً اس کی ماں کو دوسری شادی کی ضرورت لاحق نہ ہوتی۔ مگر ایک اور بچے کی ولادت نے جس کی پیدائش کے آثار باپ کے انتقال سے تین ماہ قبل ہی شروع ہو گئے تھے، واقعات میں گہرا تغیر رونما کر دیا۔ لڑکی کو خانگی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے لیے معمولی گھریلو تربیت کافی ہو سکتی تھی اور اس کے بعد وہ کسی دوسرے کی شریک حیات ہو کر اپنا بار غریب ماں کے شانوں سے ہٹا دیتی۔ لیکن جمالی لڑکا تھا، اسے اعلیٰ تعلیم کی ضرورت تھی تاکہ جوان ہو کر وہ خود کوئی ذریعۂ معاش نکالے۔ اس کی شادی ہو اور اس طرح وہ نہ صرف اپنا پیٹ پالے بلکہ دوسروں کا بوجھ بھی اٹھا سکے۔ اثاثہ اتنا زیادہ نہیں تھا کہ وہ تمام اخراجات اس سے پورے ہو جاتے اور یوں بھی عورت ہزار قابل اور تربیت یافتہ ہو مگر مرد کی سرپرستی کے بغیر ایک بچے کی تعلیم کماحقہ نہیں ہو سکتی۔
یہ تھی وہ مجبوری جس نے جمیلہ کے دل میں دوسری شادی کا خیال پیدا کر دیا۔ وہ اپنی ذات کے لیے کسی قسم کے آرام و آسائش کی متمنی نہیں تھی، اور اگر ایسا ہوتا تب بھی کوئی عیب کی بات نہیں تھی۔ اس نے دنیا میں دیکھا ہی کیا تھا۔ ازدواجی زندگی کے صرف دو سال گذارے تھے کہ بیوہ ہو گئی۔ وہ جوان تھی اور خوبصورت بھی۔ مگر اسے اپنے سے زیادہ بچوں کا خیال تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی ایسے شخص سے رشتۂ مناکحت قائم کیا جائے جو اس وقت تک یا تو مجرد رہا ہو یا پہلی بیوی سے اس کی کوئی اولاد نہ ہو تاکہ اس کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہونے پائے۔
آخر کچھ عرصہ کے بعد جمیلہ اپنے دور پرے کے ایک رشتہ دار رشید کی شریک حیات بن گئی جس کی شرافت اس کے طرز عمل سے ظاہر تھی۔ باوجود سوتیلا باپ ہونے کے وہ ان یتیم بچوں کو بالکل اس طرح پیار و محبت کے ساتھ رکھتا گویا وہ خود اس کے بچے ہیں۔ لیکن اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ وہ صرف انھی دو بچوں کا سرپرست رہنا اپنے لیے کافی سمجھتا اور ان کی خاطر خود اپنے سلسلۂ نسل کو منقطع کر دیتا۔ لہذا یہ جمیلہ کی غلطی تھی کہ اس نے یہ محسوس کرنے کے بعد کہ وہ ایک مزید بچے کی ماں بننے والی ہے، مغموم رہنا شروع کر دیا اور یہ احساس اس کے لیے اس قدر سوہانِ روح ثابت ہوا کہ اس کا نخلِ حیات ثمر بار ہونے سے قبل ہی خزاں رسیدہ ہو گیا۔ وہ بستر مرگ پر تھی، جانکنی کا عالم تھا کہ عین ان لمحات میں اس نے اپنے عزیز شوہر کو پاس بلا کر تاکید کی کہ تم میرے بچوں کو ہمیشہ اپنا ہی سمجھ کر اچھی طرح رکھنا۔ اگر ان کو کوئی ایذا پہنچی تو میری روح کو اطمینان نصیب نہیں ہوگا۔
اس طرح رشید کے ذمے ایک ایسے فرض کی ادائیگی ہو گئی جس کے لیے وہ کسی طرح پابند نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن اسے اپنے الفاظ کا پاس تھا۔ اس نے ان بچوں کی عمدہ پرورش کا وعدہ کر لیا تھا جب کہ اس کی مرنے والی بیوی پر زندگی کے آخری لمحات گذر رہے تھے۔اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ میں اپنی باقی ماندہ زندگی تنہا رہ کر گذار دوں گا۔ لیکن یار دوستوں نے اور عزیز و اقارب نے چین نہ لینے دیا۔ ان کا مشورہ یہی تھا کہ اسے دوسرا نکاح کر لینا چاہیے۔ سب یک زبان ہو کر کہتے تھے کہ چھوٹے بچوں کی پرورش بغیر عورت کے غیر ممکن ہے۔ اول اول تو رشید نے ان باتوں پر غور ہی نہیں کیا لیکن آخر کہاں تک۔ ہفتے کے ساتوں دن تک یہی ایک موضوع اس کے سامنے زیرِ بحث رہتا۔ وہ مخالفت کرتے کرتے تھک گیا تھا مگر دوسرے لوگ اصرار کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ یہاں تک کہ اس کے دل میں بھی ایک خوشگوار زندگی بسر کرنے کی آرزو پیدا ہونے لگی۔ مگر بچوں کا خیال دل سے دور نہ ہوا۔ اس نے سوچا کہ شادی کسی کنواری لڑکی سے کرنی چاہیے اور وہ بھی ایسی شریف اور نیک طینت لڑکی ہو کہ رشک و حسد کے ماتحت ان یتیم و یسیر بچوں کو کسی قسم کی ایذا نہ پہنچائے۔ اگر وہ چاہتا تو ان بچوں کو کسی اعلیٰ قسم کی درسگاہ میں داخل کر دیتا جہاں بچوں کی رہائش اور ہر طرح کی تربیت کا بھی انتظام ہوتا لیکن وہ یہ جانتا تھا کہ تمام دنیا طعنے دے گی کہ بے ماں باپ کے بچوں کو یتیم خانے میں جھونک دیا۔ اس لیے مجبور تھا کہ انھیں گھر پر ہی رکھے۔
بہت چھان بین کے بعد آخر اس نے کلثوم کے ساتھ رشتۂ ازدواج قائم کر لیا جو اس کے ایک دوست کی بہن تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہت خوش اخلاق۔ اس نے روز اوّل سے بچوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاص کا اظہار شروع کر دیا تھا اس طرح کہ گویا وہ اسی کے بچے ہیں۔
سویرے اٹھ کر وہ ان دونوں کا منہ دھلاتی۔ ناشتہ کا انتظام کرتی اور پھر ابتدائی تعلیم کے لیے سبق پڑھا کر اپنی موجودگی میں یاد کراتی رہتی۔ حسنہ کو سینے پرونے کا کام بھی سکھانا شروع کیا۔ شام کا وقت ان کے کھیل کے لیے مخصوص تھا مگر دونوں بچے اس قدر شریر اور کام چور تھے کہ پڑھنے کی طرف توجہ ہی نہ دیتے۔ ہر وقت کھیل کود میں ان کا دھیان رہتا۔ جب ذرا آنکھ بچتی پڑوس کے بچوں میں جا ملتے جن کو سواے آوارہ پھرنے کے کوئی دوسرا کام نہیں تھا۔ یہ بھی انھی کی طرح آزاد رہنا چاہتے تھے۔ پڑوس والے بھی یہی چاہتے تھے کہ یہ دونوں بچے ان کے بچوں کے ساتھ آ کر کھیلیں کیونکہ حسنہ اور جمالی کھانے پینے کی کچھ نہ کچھ چیز چھپا کر ان کے لیے لے جاتے تھے۔ اس لیے کلثوم اگر ڈانٹ ڈپٹ کرتی تو محلے کی تمام عورتیں اس کا دم ناک میں کر دیتیں کہ لاوارث بچوں کے ساتھ زیادتی کرتی ہو۔ ان دونوں کو بھی اس طرح شہ پڑتی۔ وہ ہنستے، قہقہے لگاتے اور سوتیلی ماں کو منہ چڑا چڑا کر باہر بھاگ جاتے۔
وہ سبق دینے بیٹھتی تو دونوں چلّا چلّا کر رونے لگتے۔ محلہ کی کوئی عورت آتی اور کلثوم کو ہزار صلواتیں سنا کر بچوں کو اپنے ساتھ لے جاتی۔ دن بھر خاک دھول میں کھیلنے کے باعث ان کے کپڑے کبھی صاف ستھرے نہ رہتے۔ وہ روز ان کا سر دھو کے تیل ڈال کے کنگھی کرتی مگر ہمیشہ ریت میں اٹے ہوئے نظر آتے۔
ابتدا میں کلثوم نے درگذر سے کام لیا پھر شوہر سے شکایتیں شروع کیں۔ وہ تنبیہ کر دیتا، دونوں بچے دبک کر بیٹھ جاتے۔ لیکن وہ دن بھر گھر میں نہیں رہتا تھا، اس کے جاتے ہی وہ اپنی شرارتیں شروع کر دیتے۔ گھر میں رہتے تو کچھ نہ کچھ نقصان پہنچاتے۔ پتھر مار کر صراحی پھوڑ دی، صاف برتنوں میں چولہے کی راکھ ڈال انھیں خوب خراب کر دیا، کیچڑ میں بھرے ہوئے پاؤں لے جا کر اُجلے فرش کا ستیا ناس کر دیا۔ حسنہ مشین لے کر بیٹھ جاتی کہ ہم گڑیا کے کپڑے سئیں گے اور ایک دو سوئیاں توڑ کر بس کرتی۔ غریب کلثوم پریشان ہو گئی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔ جانتی تھی کہ شوہر سے روز کی شکایت بھی اچھی نہیں۔ کیونکہ رشید پہلے تو بچوں کو دھمکا دیا کرتا تھا مگر بعد میں بعض محلے والوں نے اس کے کان بھرنے شروع کر دیے کہ سوتیلی ماں دن بھر بچوں پر ظلم کرتی ہے۔ وہ خود بھی دیکھتا کہ حسنہ اور جمالی اس کے سامنے نہ کسی قسم کی شرارت کرتے ہیں اور نہ باہر جاتے ہیں۔ اسے بھی یقین ہونے لگا کہ کلثوم کو ان بچوں سے عداوت ہو گئی ہے۔ وہ زبان سے کچھ نہ کہتا مگر بچوں کو بھی بے قصور جان کر کسی طرح کی سزا نہ دیتا۔ لیکن آخر کہاں تک۔ اسے سخت کوفت ہونے لگی۔ جب باہر نکلتا، محلے والے اس کا پیچھا نہ چھوڑتے، خوب ملامت کرتے کہ بچوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ سوتیلی ماں نے انھیں جینا دشوار کر دیا ہے۔ وہ کبھی سن کر خاموش ہو جاتا، کبھی وعدہ کرتا کہ آئیدہ انھیں تکلیف نہ پہنچے گی اور کبھی محض ٹالنے کے لیے بطور مذاق کہہ دیتا کہ میں بھی ان کا سوتیلا باپ ہوں۔
خانگی زندگی میں بے لطفی شروع ہو گئی۔ رشید کلثوم کی طرف سے بدظن کہ اس کی وجہ سے تمام پریشانیاں ہیں، اور اسے شوہر سے شکایت کہ وہ دوسروں کی بات میں آ کر اس کی طرف سے اعتماد کیوں کھو بیٹھا جبکہ ذمہ دار صرف وہ نالائق بچے ہیں۔
ابھی جاڑے کی ابتدا ہی تھی کہ رشید کو نزلہ و زکام کی شکایت ہوئی۔ پھر کھانسی شروع ہو گئی۔ بخار آنے لگا۔ یہاں تک کہ وہ بالکل صاحب فراش ہو گیا۔ دفتر سے چھٹی لے لی۔ علاج معالجہ ہوتا رہا، مگر افاقہ نہ ہوا۔ کلثوم نہایت خلوص و محبت کے ساتھ اس کی تیمار داری میں مشغول رہتی۔ اکثر آدھی آدھی رات تک اسی خیال میں جاگتی رہتی کہ عزیز شوہر کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ اب رشید کو احساس ہوا کہ وہ حقیقتاً ایک نیک بیوی ہے۔ افترا پرداز لوگوں نے خواہ مخواہ کی شکایت کر کےاسے بدظن کر دیا تھا۔ اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ بچے بہت شریر اور بد تہذیب ہیں۔ چونکہ اب وہ دن بھر گھر میں رہنے لگا تھا اس لیے ان کی فطرت کا مطالعہ آسان ہو گیا۔ پہلے وہ اس کے سامنے دبے لُچے بیٹھے رہتے تھے اور صرف غیر موجودگی میں ادھم مچاتے تھے۔ لیکن انھوں نے دیکھا کہ اب باپ دن بھر گھر میں رہنے لگا ہے تو اس کی موجودگی کی پروا نہ رہی۔ ہر وقت لڑنا جھگڑنا، شور و غل اور ہر قسم کی بے ہودگیاں۔ وہ دل ہی دل میں جلتا اور سوچتا کہ کس جرم کی پاداش میں یہ مصیبت گلے پڑی ہے۔ ان کا وجود اس کے لیے سوہانِ روح ہو گیا۔ مگر ایک مرنے والی کے الفاظ اسے یاد آ جاتے اور وہ سختی سے کام نہ لیتا۔
مرض بڑھتا گیا اور آخر اسے اپنے بچنے کی امید نہ رہی۔ مرنے سے کچھ دیر قبل اس نے کلثوم کو پاس بٹھا کر آخری وصیت کی:
“تم خوب جانتی ہو کہ یہ بچے نہ میرے ہیں نہ خود تمھارے، بلکہ حسن اور جمیلہ کے۔ حسن کے مرنے کے بعد جمیلہ نے میرے ساتھ شادی کی محض اس غرض سے کہ ان بچوں کی پرورش اچھی طرح ہو۔ میں نے ان کو اپنی اولاد کی طرح سمجھا اور جمیلہ کے مرنے کے بعد تمھارے ساتھ رشتہ قائم کیا محض اس لیے کہ ان بچوں کی پرورش اچھی طرح ہوتی رہے تاکہ جمیلہ کی روح کو کسی قسم کا صدمہ نہ پہنچے۔ اب میرا آخری وقت ہے میں تم کو ہدایت کرتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد تم دوسری شادی کر لینا تاکہ ان بچوں کی پرورش اچھی طرح ہوتی رہے۔ اب یہ تمھارے سپرد ہیں۔ شروع سے اب تک ہر ماں اور ہر باپ، خواہ حقیقی یا سوتیلے، دونوں کے لیے وبالِ جان بنے رہے۔ جب تم شادی کر لوگی تو کچھ دنوں کے بعد تمھاری باری آئے گی اور تمھاری زندگی کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا۔ اس وقت تم ان بچوں کو اپنے آئندہ ہونے والے شوہر کے سپرد کر دینا اور وصیت کرنا کہ وہ بھی کسی دوسری عورت سے شادی کر لے تاکہ ان بچوں کی پرورش ہوتی رہے۔ اور میرا خیال ہے کہ تمھارے وہ شوہر بھی مرتے وقت اپنی بیوی کو ہدایت کر دیں گے کہ وہ بیوہ نہ رہے۔ اور اس بیوہ کے مرنے کے بعد اس کا خاوند بھی کسی دوسری عورت سے شادی کر لے گا۔ میرا خیال ہے کہ ان منحوس بچوں کے لیے ماں باپ کا سلسلہ عرصۂ دراز تک جاری رہے گا۔ وہ باری باری مرتے رہیں گے اور مشیّت ہمیشہ ان کی پرورش کا سامان پیدا کر دیا کرے گی۔”
رشید دم توڑ رہا تھا۔ کلثوم رو رہی تھی اور دونوں بچے پڑوس کے گھر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ قہقہے لگا رہے تھے۔