(مکتوب جو ایک خودکشی کرنے والے کی نعش کے ساتھ ملا)
محترمہ!
آپ کا خیال ہے کہ میں اس موضوع پر اپنی راے کا اظہار کرنے میں چرب زبانی سے کام لے رہا ہوں یا بالکل جھوٹ بول رہا ہوں۔ آپ یقین نہیں کر سکتیں کہ دنیا میں ایک ایسا شخص بھی ہے جو تمام عرصۂ حیات میں کبھی مبتلاے محبت نہیں ہوا۔ تاہم میں ایک انسان ہونے کی حیثیت سے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے کبھی محبت نہیں کی۔ اس کی وجہ؟ درحقیقت میں خود بھی نہیں جانتا۔ میں نے کبھی اپنے دل کو اپنی عقل و دانش کے مقابلے میں تیز رفتاری کا موقع نہیں دیا اور نہ کبھی ایک عورت کی محبت میں اس جنون کی حد تک گرویدہ ہوا کہ اپنی خودی کو اس کے حلقۂ دام میں محصور کر لوں۔ آپ کی صنف کے کسی فرد کو اتنی قدرت حاصل نہیں ہوئی کہ اس نے مجھ کو رلایا ہو یا مبتلاے رنج و آلام کیا ہو۔ میں نہ ان راتوں سے آشنا رہا جن کی بیداریوں میں اختر شماری کی جاتی ہے اور نہ اس نمود سحر سے واقف ہوں جس کی خوشگوار فضا میں محرومِ لذتِ کام و دہن رہنا پڑتا ہے۔ امید و بیم میرے لیے الفاظ بے معنی ہیں۔ کیونکہ میں نے کبھی محبت نہیں کی۔
اکثر میں خود متعجب ہوتا ہوں کہ آخر میرے ساتھ ایسا اتفاق کیوں نہیں ہوا۔ اس کا تسلی بخش جواب صرف ایک ہو سکتا ہے۔ اور وہ یہ کہ میں عورت کی ذہنیت سمجھنے میں اتنا اچھا نقاد ہو گیا ہوں کہ کسی شخصیت سے اثر پذیر ہو کر مرعوب نہیں ہو سکتا۔ محترمہ! میری اس صاف گوئی پر اظہارِ برہمی نہ کریں۔ آپ جانتی ہیں کہ ہر متنفس کی ایک مادی شخصیت ہوتی ہے اور دوسری روحانی۔ اور لازمی طور پر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی سے صادق اور پُر خلوص محبت کرنے کے لیے محبوب کی ذات میں ان دونوں شخصیت کا باہمی اجتماع اور ہم آہنگ ہونا اشد ضروری ہے۔ لیکن فی زمانہ یہ حسن امتزاج شاذ و نادر ہی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ کیونکہ بسا اوقات آپ دیکھیں گی کہ ایک عورت ظاہری اعتبار سے پیکر حسن و جمال اور مجسمۂ شباب و رعنائی ہے لیکن بلحاظ فطرت و ذہنیت ایک قابلِ نفریں دختر اہرمن۔ اور کبھی یہ بھی مشاہدہ میں آئے گا کہ ایک عورت اخلاق برگزیدہ و اوصاف حمیدہ کی تقدس مآب دیوی کہلائے جانے کے لائق ہے لیکن جسمانی موزونیت کے لحاظ سے اس کی کوئی خوبی کسی کو اپنی طرف مائل کر لینے کے لیے مقناطیسی کشش نہیں رکھتی۔
محبت کرنے کے لیے مرد کو اندھا ہو جانا ضروری ہے۔ اسے چاہیے کہ صرف جذبہ الوہیّت کے ساتھ اندھا دھند محبت کے جال میں جا گرے اور محبوبہ کے نقائص و عیوب کی طرف سے آنکھوں پر پٹی باندھ لے۔ وہ اس کے ساتھ دورانِ گفتگو میں سنجیدہ موضوع کو زیرِ بحث نہ لائے۔ وہ اس کے نازک لبوں پر صرف مہرِ الفت ثبت کرے اور اسے اپنا بنا لے۔ محبوبہ کی ہرزہ کاریاں اور خیالاتِ باطلہ اس کی نظر میں ایسے معلوم ہوں گویا یہی شانِ حسن اور اقتضاے جمال ہیں۔ خیر! میں اس کور چشمی کا طالب نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ انسان سے لے کر کائنات کے ذروں تک ہر شے کو حقائق کی روشنی میں دیکھوں، نہ کہ اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کے مطابق۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ حسین و جمیل لڑکیاں ہی خلافِ توقع بے مہر و وفا ثابت ہوتی ہیں۔ برخلاف اس کے سادہ لوح ہستیاں کبھی مایوس نہیں کرتیں کیونکہ ان سے کسی چیز کی توقع ہی نہیں کی جاتی۔
تاہم عرصہ دراز ہوا۔ مجھے یقین واثق ہو گیا تھا کہ میں گرفتارِ محبت ہوں۔ صرف ایک ساعت کے لیے۔ محض ایک خوشگوار رات میں لیکن سب سے زیادہ فضا اور ماحول میری گرفتاری میں مُمِدّ و معاون تھے۔ مجھے یقین ہے کہ واقعات کی تفصیل سن کر آپ بھی اس ضمن میں میری ہی ہم خیال ہو جائیں گی۔ اچھا سنیے۔
ایک روز شام کے وقت ایک حسین دوشیزہ سے میری ملاقات ہوئی۔ عالی حوصلگی اور جدّت طرازی اس کی فطرت میں داخل تھی۔ لہذا اس نے تجویز پیش کی کہ ہم دونوں تمام شب دریا کی پرسکون سطح پر ایک سفینہ کے آغوش میں بسر کریں۔ اگر مجھ سے پوچھا جاتا تو میں گھر کی چاردیواری میں شب بیداری کو ترجیح دیتا۔ مجھے یہ زیادہ مرغوب ہے۔ تاہم محض دل بستگی کے طور پر میں نے سفینہ میں بیٹھنے کی دعوت قبول کر لی۔
جون کا مہینہ، تقویٰ شکن سہانی رات، خوشگوار چھٹکی ہوئی چاندنی، باد صرصر کے لطیف جھونکے۔ ہم تقریباً دس بجے روانہ ہوئے۔ میں کسی قدر کبیدہ خاطر تھا لیکن میری شریکِ سفر جوش مسرت میں جھوم رہی تھی۔ میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔ چپّو اٹھا لیے اور روانگی عمل میں آ گئی۔ دل فریب نظارہ تھا، دریا میں کہیں کہیں خشکی کے ٹیلے ابھرے ہوئے معلوم ہوتے تھے، ان پر درختوں کی ہریاول اور ان میں قمری و عنادل کے روح پرور چہچہے؛ پانی کی روانی آہستہ آہستہ ہم کو بہاتی رہی۔ ساحل کے قریب دلدل میں مینڈک ٹرّا رہے تھے۔ جھاڑیوں میں ہوا مدھم سروں کا راگ گاتی معلوم ہوتی تھی۔ ہم دونوں پر سہانی رات کی لطیف اور خوشگوار رعنائیوں کا اثر طاری ہوتا گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ صرف ایسے وقت میں زندہ رہنا حقیقی زندگی کے مترادف ہے اور وہ بھی ایک نوخیز، پُر شباب، حسین و جمیل دوشیزہ کے پہلو میں۔
نقرئی چاندنی کی مستی و سرشاری اور اپنی ہم جلیس کے انتہائی قرب کے احساس سے میری رگوں میں تلاطم جذبات اور جوشش ترنگ کی سیمابی کیفیت پیدا ہو گئی۔
“ہم کو اسی طرح بہتے رہنا چاہیے۔” اس نے کہا۔ “آؤ میرے پاس بیٹھ جاؤ اور چپّو ہاتھ سے رکھ دو۔”
میں نے ارشاد کی تعمیل کی۔ اس وقت میں اس کے ہر حکم کو دائرۂ عمل میں لانے کے لیے تیار تھا۔ اس نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا: “مجھے کچھ اشعار سناؤ۔”
میں نے حیل و حجت کرنی چاہی لیکن اس کے اصرار نے مجبور کر دیا۔ ظاہر ہے کہ وہ ہر اس شے کو حاصل کرنے پر تُلی ہوئی تھی جس کے ذریعے ہیجانِ جذبات ممکن ہو۔ سہانی رات، نقرئی چاندنی، پُرسکون سطح آب، فضاے شعر وسخن اور ایک جوان مرد اس کے پہلو میں۔ محض ستانے کی غرض سے میں نے غلط سروں میں گانا شروع کر دیا اور اشعار بھی فارسی کے منتخب کیے جن کا سمجھنا اس کے لیے کسی قدر دشوار تھا لیکن مجھے سخت تعجب ہوا جب میری بے ہودگی پر ملامت کرنے کی بجاے وہ فہیمانہ طور پر اپنے سر کو جنبش دیتی رہی۔ گویا خوب سمجھ کر داد دے رہی ہے اور ساتھ ہی دبی زبان سے کہا: “یہ الفاظ صداقت سے کس قدر لبریز ہیں۔”
میں ورطۂ استعجاب میں غرق تھا۔ حقیقتاً اتنی سمجھدار عورتیں کہاں ہیں۔ ہمارا چھوٹا سفینہ پانی پر چھائے ہوئے درختوں کے سایہ میں گذر رہا تھا۔ میں نے اپنی ہم جلیس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنی آغوش میں لے لیا اور آہستہ آہستہ اپنے لبوں کو اس کی پیشانی تک پہنچانے کی کوشش کی لیکن فوری غصہ کے ساتھ اس نے جواب دیا:
“بس مجھے تنہا چھوڑ دو، تم ہر ایک چیز میں بے لطفی پیدا کر رہے ہو۔”
میں نے کوشش کی کہ کسی طرح اس کو منا لوں لیکن اس نے علاحدہ ہو جانے کے لیے بہت جد و جہد کی اور پانی پر چھائے ہوئے درخت کی ایک شاخ کو اس قدر گھبراہٹ کے ساتھ پکڑا کہ مجھے گمان ہوا بس اب سفینہ الٹ جائے گا اور ہم دونوں پانی میں جا گریں گے۔ اس نے کہا:
“اگر تم پانی میں گر پڑے تو یہ سزا تمھارے لیے مناسب ہوگی۔ مرد کس قدر اجڈ ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ چاہتے ہیں کہ شکستِ خواب کر کے دوسری ہستی کو بیدار کر دیا جائے۔ اور ہاں تم تو ابھی مجھ کو کچھ اشعار سنا رہے تھے۔”
اس نے مجھے لاجواب کر دیا۔ میں خاموش تھا۔ پھر اس نے کہا: “ہمیں کچھ اور دور چلنا چاہیے۔”
میں نے خیال کرنا شروع کیا کہ واقعات غیر موزوں سے ہوتے جا رہے ہیں اور یہ فکر بھی دامن گیر ہوئی کہ تمام رات اسی طرح ضائع ہوگی۔ میری ہم جلیس نے مجھ سے کہا:
“میں تم سے ایک وعدہ لینا چاہتی ہوں۔”
“بہتر۔” میں نے جواب دیا۔ “بشرطیکہ میں اسے پورا کر سکوں۔”
“اچھا وعدہ کرو کہ تم بالکل خاموش اور نیک بنے رہو گے۔ اگر میں تم کو اجازت دوں۔”
“کیا؟”
“اگر میں تم کو اجازت دوں میرے قریب پہلو میں لیٹ جاؤ سفینہ کے زیریں حصہ میں۔ اور میری طرح آسمان پر چمکنے والے ستاروں کا مشاہدہ کرتے رہو۔”
میں نے محسوس کیا کہ صورت حال مضحکہ خیز ہوتی جا رہی ہے لیکن پھر بھی جواب دیا:
“بہتر جو آپ کی مرضی ہو۔”
“تمھیں معلوم ہونا چاہیے” اس نے وضاحت کی۔ “تم کو ہرگز اجازت نہیں ہوگی مجھے چھونے کی، مجھے پیار کرنے کی۔۔۔یا۔۔۔یا۔۔۔یا مجھے چھیڑنے کی، مجھے ستانے کی۔”
“میں وعدہ کرتا ہوں۔”
“اور اگر تم نے ذرا بھی حرکت کی تو میں سفینہ کو الٹ دوں گی۔”
کس قدر واہیات بات تھی۔ ہم قریب لیٹے رہے۔ سفینہ کی خفیف جنبشوں کا ترنم اور وہ نغمۂ حیات جو ساحل کی طرف سے مدھم سروں میں سنائی دے رہا تھا، ہمارے لیے لوری بن کر رہ گیا۔ اور عین اس لمحہ اپنی تمام زندگی میں پہلی مرتبہ کسی سے محبت کرنے کی آرزو میرے دل میں پیدا ہو گئی۔ میں نے چاہا کہ اپنے وجود مطلق کے اسرار و رموز کو کسی پر منکشف کر دوں اور بطور خراج اسے پیش کر دوں اپنے تخیل کا پرتو، اپنے جسم کی موزونیت، اپنے قلب کی پر خلوص تپش، اپنی حیات کی سر مستیاں اور ہر وہ چیز جو مجھ سے متعلق ہو۔
اچانک میری ہم جلیس نے خواب کی سی دنیا میں ایک ایسی آواز میں جو بہت دور سے آ رہی ہو، مدھم سروں میں کہا:
“ہم کہاں ہیں؟ کدھر جا رہے ہیں؟ معلوم ہوتا ہے ہم کرہ ارض کی کشش ثقل سے نکل چکے ہیں۔ سرحد ادراک سے بھی پرے ہیں۔ کتنا پُر لطف سماں ہے۔ آہ! کاش! تم مجھ سے تھوڑی ہی سی محبت کرتے۔”
میرے دل نے زور زور سے دھڑکنا شروع کر دیا اور میں کوئی جواب نہ دے سکا۔ معلوم ہوتا تھا کہ مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔ میں نے خیال کیا کہ ایسا ہو گیا ہے۔ پھر بھی میرے اندر کوئی رکیک جذبہ بیدار نہیں ہوا۔ میں نے صرف محسوس کیا کہ میں کامل سکون کی دنیا میں ہوں اسی مقام پر، اس حسینہ کے پہلو میں۔ اور بس یہ احساس ہی میرے لیے کافی تھا۔ اسی طرح ہم بہت دیر تک لیٹے رہے، بہت دیر تک، جنبش کیے بغیر۔ ہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ میں ہاتھ لے لیا دلنوازانہ طریقہ پر، خاموشی کے ساتھ۔ کوئی نا معلوم قوت ہم پر حاوی تھی غیر محسوس طریقہ پر۔ ہمارے درمیان ایک رشتہ قائم ہو گیا پُر اسرار، الوہیانہ، تعجب انگیز۔ آخر وہ کیا تھا۔ شاید اسی کا نام محبت ہو۔
سکوتِ شب کا طلسم صبح کاذب کی نمود سے ٹوٹ گیا۔ تقریباً تین بجے کا عمل ہوگا سفینہ کسی شے سے ٹکرایا۔ وہ ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا۔ میں بحرِ تحیر میں غرق ہو گیا۔ آسمان کی تمام سطح سرخ گلابی اور عبیر آلود ہونے لگی۔ بادل کے شگافوں میں سے نورِ سحر پھوٹنے لگا۔ دریا کا پانی خوننابہ بن گیا اور اس کے دونوں ساحل آتش گرفتہ معلوم ہونے لگے۔
میں اپنی ہم جلیس کی طرف جھک گیا تاکہ اس دلفریب منظرِ نور و ضیا سے لطف اندوزی حاصل کرنے میں اسے بھی شریک کر لوں لیکن مجھ سے یہ نہ ہو سکا۔ بلکہ میں خود اس کے پرتوِ جمال کی آئینہ سامانی میں محو ہو کر رہ گیا۔ کیونکہ وہ بھی شفق کی طرح گل تمثال تھی۔ اس کے رخسار، اس کے لب، اس کا تبسم، اس کا لباس۔ وہ پھولوں کی شہزادی معلوم ہوتی تھی، اور عین اس وقت میں اسے “صبح کی دیوی” سمجھنے لگا۔
وہ نزاکت کے ساتھ اٹھی اور اپنے لب مجھے پیش کر دیے۔ میں اس کی طرف بڑھا، پیش قدمی اور انبساط کے کیفِ ارتعاش میں ڈوبا ہوا، گویا میں ایک آستانۂ قدوسی کا بوسہ لینے والا تھا۔ ایک ایسے خواب کا بوسہ لینے والا جو پیکر نسائی میں تبدیل ہو گیا ہو۔ اس نے مجھ سے کہا:
“آہ! میرے محبوب! تمھارے ریشمی بالوں میں ایک کیڑا الجھ رہا ہے۔”
شاید اس کے تبسم کی یہی وجہ تھی۔ میں نے اپنے سر پر ایک ضرب سی محسوس کی اور ایسا معلوم ہوا گویا نمود سحر سے قبل ہی فضا کی تمام رعنائیاں دور ہو گئی ہیں اور طلسم خواب کے ٹوٹتے ہی میں اس دنیاے آب و گِل میں آ گیا ہوں اور بس۔
یہ محض ابلہی اور طفل تسلی ہے جو چاہو سمجھو لیکن یہی وہ معمولی سی بات ہے جو انسان کو دل برداشتہ کر دیتی ہے اور سب سے زیادہ دلربا ہستی سے متنّفر۔
بہرحال اس دن سے آج تک میں نے کسی سے محبت نہیں کی۔