وہ ہنوز اپنے بسترِ استراحت پر دراز تھی ایک نیم عریاں عالم میں۔ گردن شانے تک کھلی ہوئی تھی اور دونوں شانے نصف سینے تک برہنہ تھے۔ لبوں پر مسکراہٹ، آنکھوں میں برقِ تبسم۔ نرم مخملی تکیہ میں اس کے سر سے نشیب پیدا ہو گیا تھا۔ وہ کچھ سوچ رہی تھی۔ شاید کوئی خواب دیکھا ہوگا۔
وہ کوشش کر رہی تھی کہ اس کی تعبیر معلوم کرے۔ دائیں ہاتھ کی نازک انگلیاں مسہری کے آبنوسی کٹہرے پر مشق موسیقی کرنے میں مصروف تھیں۔ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کچھ گنگنا بھی رہی ہے؛ بہت مدھم سروں میں، صرف اپنے ہی نفس کو محظوظ کرنے کے لیے۔
گنگنانا کیا ہے؟
جذباتِ جنسی کے ایک نا قابلِ بیان ہیجان کی پر جوش اور کیفیتِ شباب سے لبریز شعاؤں میں گھر کر تاثراتِ قلب کو نہایت لطیف مگر مبہم پیرایہ میں ظاہر کرنے کی کوشش کا اصطلاحی نام۔ عہدِ شباب اور نسائیت، ناممکن ہے کہ ان دونوں کا اجتماع ایک ہی پیکر میں ہو جائے اور فضا نغموں سے معمور نہ ہو۔ اس کا دوسرا ہاتھ عطریت سے لبریز سیاہ بالوں میں چھپا ہوا تھا۔ ان بالوں میں جن کی حقیقت کو دنیا آج تک نہ سمجھ سکی۔ نہ صرف مَیں بلکہ کرّۂ ارض کا ہر متنفس صحیح طور پر یہ بتا دینے سے قاصر ہے کہ وہ کسی سوختہ جگر شاعر کے قلبِ حزیں کا دودِ عنبریں تھا یا کسی بلبلِ دام در گرفتہ کا ایک یاس آمیز نغمۂ متشکل جو اس کے کاسۂ سر سے مَس ہو کر پہلے تو منجمد ہوا اور پھر تار تار ہو کر گداز سینے اور بلوریں شانوں پر اس طرح منتشر ہونے لگا گویا تخلیق کی ساعتوں سے قبل ہی اس کی قسمت میں اضطرابِ پیہم رقم کر دیا گیا تھا۔
حریری چادر اور وہ بھی شبنمی رنگ کی، نہ اتنی دبیز ہو سکتی ہے اور نہ اس قدر غیر شفاف کہ کسی کے سینہ پر پڑ جانے کے بعد میناے شباب کی خمار آگیں کیفیات کو اپنے اندر مستور کر لے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ وہ سر سے پاؤں تک تقویٰ شکنی کی حد تک برہنہ تھی۔ ہاں برہنہ! کیونکہ جالی دار مہین چولی اور مختصر زیر جامہ میں اتنی صلاحیت کہاں سے آ سکتی ہے کہ وہ اچھی طرح پردہ پوشی کر سکے، اور خاص طور پر ایسی صورت میں جب کہ اس لباس کا رنگ بھی اس نوعیت کا ہو کہ بلوری جسم کی نقرئیت کے ساتھ وصل ہو کر اسی میں مدغم ہو جائے۔ تاہ مسہری کے چاروں طرف پیازی ریشم کے زرکار پردے آویزاں تھے۔ اس لیے نا ممکن تھا کہ ان کو اٹھائے بغیر کسی کی مشتاق نگاہیں اس مرکز حسن و جمال سے کما حقہ اکتسابِ نور کر سکیں۔
اس نے جمائی لیتے ہوئے ان لبوں کو وا کیا جن کا خطِ اتصال اس وقت تک ناممکن التعین تھا۔ بازوؤں کو بھی زحمتِ جنبش دی اور کچھ ایسی ادا کے ساتھ ان کو اٹھایا کہ ان کے درمیان پیدا ہونے والی قوس ہلالِ عید سے خراجِ تحسین طلب کرنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں ابھی تک خمار باقی تھا، کیونکہ اپنی دوسری سالگرہ کا جشن منانے کے سلسلے میں وہ کافی رات گذر جانے کے بعد مصروف خواب ہوئی تھی۔ دوسری سالگرہ اس لیے کہ محل کی چاردیواری میں آئے اس کو دو ہی سال گذرے تھے۔ یوں اس کی عمر اٹھارہ سال کی تھی مگر ابتدائی سولہ برس ایک ایسی فضا میں گذرے تھے جہاں فکر معاش سے تنگ آ کر قلبِ انسانی میں خود کشی کی آرزو پیدا ہو جاتی ہے۔ جشنِ سالگرہ کا تو ذکر ہی کیا ہے۔
قدرت کے بھی نرالے کھیل ہیں۔ وہ زلفیں جو دو سال قبل کبھی شرمندۂ روغنیات بھی نہ ہوئی تھیں، مختلف الالوان پھولوں کی نگہت بار آغوش میں آسودگی حاصل کرنے لگیں۔ وہ سر جس کی آرائش کے لیے ایک سفید دھجی بھی نصیب نہ ہوئی تھی، زریں و منور تاج سے مزّین ہونے لگا۔ اس کا وہ جسم جو ہمیشہ پھونس اور خس و خوشاک کے سخت بستر پر لیٹنے کا عادی تھا اس طرح کہ ہر کروٹ کے ساتھ دس بیس تنکے بدن میں چبھ جاتے اور اسے خبر تک نہ ہوتی، مخمل و کمخواب کے نرم و نازک گدیلوں پر لطفِ خواب حاصل کرنے لگا؛ اس طرح کہ اگر اعضا کی غیر ارادی جنبشوں سے بستر پر ایک سلوٹ بھی پڑ جاتی تو اسے چین نہ آتا تاوقتیکہ اسے درست و ہموار نہ کر دیتی۔ اس کا معدہ جو مکروہ اپلوں کی مضمحل آنچ پر سِکی ہوئی دبیز روٹیوں کو آسانی سے قبول کر لیتا تھا، اس قدر نزاکت پسند ہو گیا کہ اگر دودھ کو بھی چبا کر نہ پیا جاتا تو سوے ہضمی کی شکایت پیدا ہو جاتی۔ وہ پہلے ایک مفلوک الحال ہستی کی صرف لخت جگر تھی اور اب ایک صاحب ریاست نواب کی منظور نظر سے بھی کچھ زیادہ۔ بوسیدہ اور متعفن جھونپڑے میں دیکھے ہوئے خواب کی تعبیر اسے قصر شاہی کی چار دیواری میں آ کر ملی۔ اس لیے اس کا دماغ تحت الثراے سے فلک الافلاک پر پہنچ گیا تھا۔
انگڑائی لیتے وقت اس نے اپنے جسم کو سمیٹتے ہوئے کچھ اس طرح سانس لیا کہ حریری چادر کے پلّو ایک طرف کھسک گئے اور گداز سینے کی وہ “عریانیاں” بھی بالکل بے نقاب ہو گئیں جن کو کبھی مستور نہ رکھنے کی نیت سے سرسری طور پر “محرم نشین” کر دیا تھا۔ نور کے سانچوں میں ڈھلی ہوئی ان مرمریں چڑیوں نے اپنے شبنمی نشیمنوں سے سر نکال لیے جن کا محض ایک جلوۂ بے محابا، صرف ایک گریز پا جھلک زاہدِ خلوت نشین پر خدا جانے کون سی کیفیت طاری کر دیتی ہے جس کے زیرِ اثر تھوڑی دیر کے لیے محراب و منبر سے لے کر تسبیح کے دانوں تک زہد و اتقا کی ہر شے رقص کرتی ہوئی اس کی نگاہ کے سامنے سے گذر جاتی ہے اور ہوش آنے پر اولین فرصت میں وہ یہ سوچنے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا حیات انسانی کا منتہاے مقصود صرف عبادت ہی ہے یا کچھ اور بھی؟ اگر اس وقت وہ اپنا عکس کسی آئینے میں دیکھ لیتی تو ناممکن تھا کہ جوشِ سرمستی سے خود اس کی رگوں میں دوڑنے والا خون شراب نہ بن جاتا۔
کیا وہ حسین تھی؟
یہ ایک احمقانہ سوال ہے۔ اگر وہ حسین نہ ہوتی تو محلوں کی رنگین فضا میں سانس لینے والا نواب سرسوتی ندی کے کنارے ماہی گیروں کی بستی میں جا کر کبھی گوارا نہ کرتا کہ ایک دختر کفش دوز کو حاصل کرنے کے لیے اس کراہیت آمیز ماحول میں رہ کر زندگی کے چار دن بسر کرے۔ اس کے اپنے محل میں علاوہ مہ جبین بیگمات کے سینکڑوں پری تمثال کنیزیں اس کی نفسانی خواہشات کو تسکین دینے کے لیے موجود تھیں۔ اور اس سوال کا جواب کہ “وہ کون سی ادا تھی جس نے نواب کے دل کو موہ لیا؟” صرف نواب ہی دے سکتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اگر جوانی کے ساتھ معصومیت بھی ہو یعنی نشۂ شباب میں چور ہو جانے کے بعد بھی خود عورت کے دل میں غرور شباب پیدا نہ ہو تو اس کی ہر ادا ہلاکت آفریں حد تک دلربا بن جاتی ہے۔ وہ تصنع اور بناوٹ سے قطعی معرا گاؤں کے سادہ ماحول میں پل کر جوان ہوئی تھی، اس لیے نہیں جانتی تھی کہ نسوانی اعضا کی ساخت میں کچھ ایسے ہتھیار پوشیدہ ہوتے ہیں جن کو ساتھ لے کر شہر پناہ کو عبور کیے بغیر قلعہ فتح کر لینا ممکن ہے۔ چنانچہ جب پہلی بار نواب نے اس کی نور منجمد سے تراشی ہوئی کلائی کو زور سے بھینچتے ہوئے ظاہری تحکمانہ لیجے میں کہا: “مچھلی پکڑنے کا یہ سامان ساحل تک لے چلو”، تو وہ مطلق نہ سمجھ سکی کہ اس جذبۂ فشار کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔
مردانہ جذبات کی تابش نسوانی اثمار خام کو بہت جلد پکا کر رسیلا کر دیتی ہے۔ محل کی فضا میں آنے سے قبل اس دیہاتی دوشیزہ کے سینہ کے ابھار کو اتنی سرفرازی بھی نصیب نہ ہوئی تھی کہ گرفت میں لینے سے مٹھی بھر جاتی، یا دو چار ہی مرتبہ تبادلۂ صہبا کر لینے کے بعد یہ کیفیت ہو گئی کہ اگر ان میناے شباب کا ایک جلوۂ مسکّر اقصائے عالم پر چھا کے فضا میں ممتزج ہو جاتا تو بلا مبالغہ اسرافیل بھی ایک بار جھوم کر اپنا صور سنبھال لیتا، اس خیال سے کہ شاید قیامت کے لمحے نزدیک آ پہنچے ہیں۔
اس نے سیاہ لانبی زلفوں کو جو منتشر ہو جانے کے لیے ہی سنواری گئی تھیں، اپنی مرمریں انگلیوں کے شانے سے درست کیا اور کسی قدر کسمساتے ہوئے کروٹ لی۔ اس کی نظر کے سامنے خوب صورت تاروں کا پنجرہ دریچہ کی محراب میں لٹک رہا تھا جس کے اندر امریکہ کی سب سے زیادہ خوشنما اور نایاب چڑیا کو حبس دوام کی سزا دی گئی تھی۔ اس نے مسہری پر لیٹے لیٹے ایک فلسفی کی طرح غور کرنا شروع کر دیا۔ اس نے چڑیا کی زندگی کا موازنہ خود اپنی ہستی سے کیا۔ کچھ زیادہ فرق نہیں تھا۔ دونوں کے لیے بہترین سامان خور و نوش، بہترین آسائش اور خدمت کے لیے بہترین ملازم موجود تھے۔ رہنے کی چار دیواری بھی دونوں کے لیے نہایت خوش نما اور قابلِ دید تھی۔ مگر آزادی، اُف! آزادی کا فقدان تھا۔ محل میں آنے سے قبل دیہات کی سادی فضا میں صبح سے شام تک اس کا شغل حیات ایک غیر معین و بے ترتیب لائحۂ عمل کے ماتحت ہوتا تھا۔ کسی دن وہ مچھلیاں پکڑنے ندی کے کنارے چلی جاتی اور دن بھر جال لیے کنارے پر بیٹھی رہتی۔ یا کشتی پر سوار ہو کر ساحل سے کچھ دور جا نکلتی۔ گھاٹ کے قریب گھٹنے ٹکا کر سطح آب پر چھا جاتی۔ میلے کچیلے ہاتھوں کی اوک سے پانی پینا اس کا معمول تھا۔ وہ خود بانسری بجانے سے ناواقف تھی لیکن جب گاؤں کے دوسرے لڑکے مچھلیاں پکڑتے وقت سرود نَے چھیڑتے تو وہ مست و بے خود ہو کر پانی میں انگلیاں تر کر کے ساحل کے قریب اگنے والی گھاس پر چھینٹے دینے لگتی۔ گھر کا ایندھن ختم ہونے لگتا تو وہ بانس کی ٹوکری یا ٹین کا تسلہ لے کر مویشیوں کے پیچھے پیچھے جاتی اور صبح سے شام تک اتنا گوبر سمیٹ لیتی کہ اس کے اپلے کئی ہفتے تک کافی ہو جاتے۔ اگر کسی روز اس کے باپ کی طبیعت خراب ہوتی تو وہ اس کا ہاتھ بٹانے کے لیے کچے سوت کو بٹ دیتی۔ اس نے پرانی جوتیوں میں معمولی سلائی کر دینی بھی سیکھ لی تھی۔ کشتی میں سیر کرنے والے لوگوں کے بوٹوں پر پالش کرنا خاص طور پر اسی کے ذمہ تھا۔ اس کا باپ ذات کا ماہی گیر، لیکن پیشہ کے لحاظ سے موچی تھا۔
گاؤں میں اس کی بہت سی سہیلیاں تھیں جن کے ساتھ برسات کا تمام موسم وہ جھولا جھول کر گذارتی تھی۔ وہ ان کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر پیا کو یاد کرتی، لیکن نہیں جانتی تھی کہ پیا کس کو کہتے ہیں۔ وہ پریم کی بنسی بڑے شوق سے سنتی مگر اس جذبہ سے ناواقف تھی، کیونکہ پریم کے لفظ سے اس کے کان آشنا تھے مگر لب نا آشنا۔ موسم گرما میں تمازت آفتاب سے اس کے بوسیدہ کپڑے پسینہ میں شرابور ہو جاتے مگر محل میں استعمال ہونے والے روغن و عطریات کے مقابلہ میں پسینہ کی وہ مہک اسے زیادہ مرغوب تھی۔ وہ کج فہم اور ناقص العقل ہونے کے باوجود اس رمز کو سمجھتی تھی کہ عطر پھولوں سے کشید کیا جاتا ہے اور پسینہ خود انسان کے جسم کا فشردہ ہوتا ہے۔
محل میں اس کو کسی قسم کی تکلیف نہیں تھی لیکن اسے یہ گوارا نہیں تھا کہ پانی کے دو گھونٹ بھی پیے تو کنیز کے ہاتھوں سے اور وہ بھی چاندی کے کٹورے میں۔ اس کی روح تڑپتی تھی اُپلوں کی آنچ پر سکی ہوئی جو اور جوار کی گدری روٹیوں کے ساتھ تیل میں بھنا ہوا سرسوں کا ساگ کھانے کے لیے؛ اور محل میں اسے مرغ و مزعفر، متنجن و بریانی اور قورمہ و پلاؤ ملتا تھا۔ آم اسے مرغوب تھے مگر اس طرح چوسنا چاہتی تھی کہ رس ان کے اندر سے ٹپک ٹپک کر تمام کرتے کو بھنکا دے اور وہ خود ندی کے کنارے بیٹھ کر اپنے ہی ہاتھوں اسے دھو کر صاف کرے۔ محل میں چینی کی خوشنما قابوں کے اندر نہایت پُر تکلف طریقے پر لنگڑے، مالدے اور سفیدے کی قاشیں اس کے سامنے آتیں، وہ خور و نوش سے فارغ ہو جاتی تو کنیزیں سلفچی، آفتابہ اور تولیے لیے آ موجود ہوتیں۔ وہ چاہتی تھی کہ جنگلی گلاب توڑتے وقت اس کی انگلی میں کانٹا چبھ جائے محض اس لیے کہ کوئی سہیلی قریب آ کر اتنا پوچھ لے کہ “تکلیف زیادہ تو نہیں ہوئی” اور وہ ہنس کر “نہیں” کہہ دے۔ بر خلاف اس کے محل کی چاردیواری میں سونے سے قبل اس کو اپنی سیج صدہا قسم کے پھولوں سے مزین ملتی اور اسے یہ سن کر افسوس ہوتا کہ ایک بوڑھے مالی نے ان کو چنا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ گرمی کی سہانی راتوں میں نیند کا لطف اسی وقت آ سکتا ہے جب مچھر خوب کاٹیں اور انسان بیدار ہو ہو کر سو جائے۔ کیونکہ اس انقطاعِ تسلسل میں غیر ارادی طور پر علاحدہ ہو جانے والی بانہوں کو ایک بار پھر کسی کی گردن میں حمائل ہو جانے کا موقع مل جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی دو مختلف الجنس ہستیوں کا درمیانی بعد بھی قرب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں مسہری کے ریشمی زرّیں پردے ایک بُھنگے کو بھی قریب نہ پھٹکنے دیتے۔ اور اسی لیے وہ بیدار نہ ہوتی تا وقتیکہ افق مشرق کی دیوی اپنی نرم و نازک اور زرکار انگلیوں سے بند پپوٹوں کو گُدگدا کر غنچۂ نرگس کو شگفتہ نہ کر دیتی۔ یہ ضرور ہے کہ محل میں آنے کے بعد سے اس کی طبیعت کسی قدر نفاست پسند، آرام طلب اور عیش پرست ہو گئی تھی اور نزاکت اس درجہ تجاوز کر گئی تھی کہ حنا ملے جانے کی تکلیف سے ہاتھ لال ہو جاتے تھے۔ مگر اقتضائے فطرت اُس کو اِس ماحول سے مانوس نہ ہونے دیتا تھا۔
بڑی بحث و تمحیص کے بعد اس نے نواب سے اجازت حاصل کر لی تھی کہ ہمیشہ سالگرہ کے دوسرے دن وہ دیہاتی روایات کو قائم رکھنے کے لیے اپنی سابقہ طرزِ معاشرت کا اعادہ کیا کرے گی۔ چنانچہ آج سالگرہ کا دوسرا دن تھا اور اسی لیے صبح کا سورج زیادہ درخشانی کے ساتھ طلوع ہوا تھا یہ معلوم کرنے کے لیے کہ محل کے شاہانہ ماحول میں گاؤں کی بے تکلف زندگی کے سادہ مناظر کس طرح پیش کیے جاتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ غیر معمولی طور پر بہت زیادہ مسرور تھی، اس قدر مسرور کہ جوشِ مسرت میں اسے اپنے تن بدن کا ہوش نہ رہا اور اسی نیم عریاں حالت میں ریشمی پردوں کو حقارت سے جھٹکتے ہوئے مسہری سے نیچے اتر آئی۔ قد آدم شیشے میں اسے اپنا عکس نظر آیا۔ اس کے بعض وہ اعضا بھی دوسروں کے واسطے جنت نگاہ بن جانے کے لیے برہنہ تھے جن کو وہ خود اپنی آنکھ سے دیکھنا گوارا نہ کرتی تھی۔ اور اس خیال کے ساتھ کہ وہ نواب کے حکم کے مطابق اس کے جذبات میں ہر وقت ایک ہیجان قائم رکھنے کی خاطر نیم عریاں حالت میں رہتی ہے، اس پر شرم و حیا کا پسینہ آ گیا اور وہ محجوب و منفعل ہو کر جلدی سے ملحقہ کمرے میں روپوش ہو گئی۔
اس نے سیٹی بجاتے ہوئے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا اور غیر ارادی طور پر کچھ سوچتا ہوا دریچہ کے قریب پہنچ گیا۔ اس کی متجسس نظریں صحنِ چمن میں کسی کو دیکھ لینے کے لیے بے تاب تھیں۔ اس وقت وہ خود خاص مشرقی طرز کی پوشاک میں ملبوس تھا لیکن کمرے کا باقی ماحول مغرب کی حیا سوز تہذیب کے زیرِ اثر عمیق ترین عریانیات کا مخرب الاخلاق مجموعہ تھا۔ بالکل برہنہ عورتوں کے فوٹو اور تصاویر سے دیواروں کو زینت دی گئی تھی۔ یونانی صنمیات کی روایاتِ قدیم کو مادی شکل میں پیش کرنے والے مرمریں و بلوریں مجسمے طاقوں اور میزوں پر سجے ہوئے تھے، جن میں عشق و محبت کے دیوتا حسن و جمال کی دیویوں کے ساتھ مصروفِ اختلاط تھے۔ خلوت کی بعض رنگینیوں کو جو صرف خلوت ہی میں رنگین و لطیف معلوم ہوتی ہیں جلوت میں کچھ اس قدر عریاں طریقہ پر پیش کیا گیا تھا کہ ان کا عملی پہلو اختیار کیا جائے یا نہ کیا جائے لیکن نفسِ انسانی پر اس کیفیت کا طاری ہو جانا یقینی تھا۔ گویا وہ تراشے ہوئے لیموں تھے جن کو زبان سے چکھے بغیر کام و دہن ان کی ترشی سے لذت یاب ہونے لگتے ہیں۔ فرش پر بچھے ہوئے قالین بھی عریانی کے بے مثل نمونے تھے۔ مثلاً ایک قالین پر دکھایا گیا تھا کہ زہرہ بام فلک پر آسودۂ خواب ہے اس طرح کہ عالم رویا میں کسی سے ہم آغوش ہو جانے کی کشمکش میں وہ تمام اعضاے حسن برہنہ ہو گئے تھے جن کو صرف ایک نظر دیکھ لینے سے عابد تہجد گزار کو بھی دوبارہ غسل و وضو کی حاجت لاحق ہو سکتی ہے۔ ایک کونے میں کیوپڈ کو دکھایا گیا تھا جو کمان کا چلّہ چڑھائے یہ سوچ رہا تھا کہ تیر کس ڈھب سے چلایا جائے کہ زہرہ کا دل نشانہ بن سکے۔ اسی کے پسِ منظر میں صبح کی دیوی آرورا ایک عالم بے خودی میں جلوہ فگن تھی۔ مسہری کے ریشمی پردوں پر بھی زرکار نقاشی پیش کی گئی تھی۔ اس کا وہ حصہ جو بستر پر دروازے ہو جانے کے بعد نظر کے سامنے رہتا ہے، خاص طور پر قابل دید تھا۔
کہا جا سکتا ہے کہ اس کا وہ تقویٰ شکن منظر کوک شاستر کے تمام مصوَّر صفحات پر سبقت لے گیا تھا۔ مختصر یہ کہ اس فضاے شباب میں چمکنے والا ہر ستارہ اس قدر ہیجان انگیز اور مستی میں ڈوبا ہوا تھا کہ ایک عصمت مآب دوشیزہ بھی ان جلووں میں گھر جانے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے اپنی نسائیت کو خیرباد کہہ کر لڑکی سے عورت بن جانے کے لیے مجبور ہو جاتی۔
نواب ابھی اپنے خیالات ہی میں محو تھا کہ دروازے پر لٹکنے والے پردے میں جھنکار پیدا ہوئی کیونکہ اسے بلور کی مختلف مچھلیوں اور موتیوں کو منسلک کر کے تیار کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی نسوانی قدموں کی ہلکی چاپ نے مدھم سروں کا نغمہ منتشر کر دیا۔ ایک کنیز اندر داخل ہوئی لیکن کچھ اس ادا کے ساتھ کہ یہ معلوم ہوا گویا طاق میں رکھی ہوئی کسی چینی کی مورت میں جان پڑ جانے کے باعث حرکت پذیری کی قوت پیدا ہو گئی ہے۔ وہ بھی سر سے کمر تک سواے دو مقامات کے بالکل برہنہ تھی، اور اگر اس وقت بجاے دن کے رات ہوتی تو شاید انھیں بھی عریاں کر دیا جاتا۔ روزِ روشن میں ان کو محض اس لیے مستور رکھا جاتا ہے مبادا درختوں کی ڈالیوں پر چہچہانے والے طوطوں میں سے کسی کی نگاہ پڑ جائے اور وہ ان کو کتر لینے کے لیے آمادہ ہو جائے کیونکہ ایک نوحیز لڑکی کی ملکیت میں کچھ ایسی چیزیں بھی دیکھنے میں آئی ہیں جن پر سیب اور رنگترہ کا دھوکا ہو جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ تھالی میں رکھ کر جامِ شراب کیوں لائی تھی جب کہ خود اس کی آنکھیں مینا بدوش تھیں۔
نواب نے کوئی لفظ کہے بغیر اس آتشِ سیال سے اپنی تشنگی بجھائی۔ تاہم لبوں کی تر دامنی کو خشک کرنے کے لیے کنیز کے سُرخ اطلسی رخسار سے صاف کر لیا۔ وہ لجاتے ہوئے آداب بجا لائی اور جلدی سے اس طرح چلی گئی گویا آئی ہی نہیں تھی۔
نواب کو پل پل کی خبر مل رہی تھی۔ کنیزیں آتی تھیں اور کہہ جاتی تھیں کہ اب محل کی چار دیواری میں دیہاتی طرزِ زندگی کا کون سا نمونہ پیش کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بستر سے اٹھنے کے بعد بیگم سب سے پہلے اس تالاب پر گئی جس میں شوقین مزاج نواب نے پانی کے مختلف جانور پال رکھے تھے۔ رنگ برنگ کی خوبصورت مچھلیاں، راج ہنس، مرغابیاں، قازیں، بطخیں اور خدا جانے کیا کیا۔ اس نے عنبریں بالوں کی عطریت، رخساروں پر ملے ہوئے غازہ کی خوشبو، پھولوں کے گجروں میں بسی ہوئی مرمریں گردن کی مہک، لبِ لعلیں پر جمی ہوئی مسّی کی دھڑی، نرگسی آنکھوں میں تڑپنے والی سرمہ دنبالہ دار کی ہلکی سی لہر، صندل بھری مانگ کی گلنار رنگینی، مصنوعی خال کی شرمگیں ملاحت اور غرض یہ کہ ہر وہ چیز جس سے تزئین جمال ہوئی تھی ملتانی مٹی اور اسی قسم کی دوسری چیزوں کے ذریعہ ارادتاً دور کر دیا۔ گدلے مکروہ پانی میں جس کی غلاظت فضا کو بھی متعفن کیے دیتی تھی، اس نے غسل کیا۔ وہ خود ایک بنت البحر بن کر جل پریوں کے ساتھ کھیلنے لگی، اس نے مچھلیوں کو پکڑا اور چھوڑ دیا۔ کبھی راج ہنس کو سر پر بٹھا لیتی اور کبھی مرغابی کو شانہ پر جگہ دیتی۔ اس کے مست قہقہوں سے تمام فضا معمور تھی۔ اس نے پانی کے چھینٹے دے دے کر قازوں کو ستایا اور خوب دل لگی کرتی رہی۔ پھر تالاب سے ملحق جھاڑیوں کے کنج عزلت میں چھپ کر اس نے کھدر اور گاڑھے کا لباس پہنا۔ خودرو پودوں سے ہر قسم کے پھول توڑے اور ہار بنا کر گلے میں ڈال لیا۔ اب اس کی کلائیوں میں بجاے طلائی پٹریوں اور منقش کنگنوں کے صرف کانچ کی چوڑیاں تھیں۔ اس نے دیسی چمڑے کا گنواری جوتا پہنا اور پانی کا گھڑا سر پر رکھ کر چل پڑی۔ اپنے شاہی کمرے کی طرف نہیں ایک دربان کے جھونپڑے کی جانب جس کو عارضی طور پر خالی کرا لیا تھا۔ وہاں جا کر وہ چکی میں جوار پیسنے بیٹھ گئی۔ اور اس انہماک میں خدا جانے کیا گاتی رہی۔
اُپلوں کی آنچ پر تین چار گدری روٹیاں پکائیں۔ جب کہ اس دوران میں پالک کا ساگ سرسوں کے تیل میں الگ بھنتا رہا۔ اس نے کھانا کھا کر مٹی کے آبخورے سے پانی پیا اور تنکوں کے سخت بستر پر تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گئی۔ اپنے ماں باپ، بھائی بہن، اپنی سکھیوں، اپنی بھینسوں اور گاؤں میں پلے ہوئے کتوں کو یاد کر کے اس نے رونا شروع کر دیا اور اس کے آنسو آنچل میں جذب ہوتے چلے گئے۔
نواب کو جب ان باتوں کی خبر ملتی تو وہ دل ہی دل میں افسردہ ہوتا، وہ پشیمان ہو رہا تھا کہ ایک دیہاتی لڑکی کو محل میں لا کر کیوں رکھا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ خود اپنی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ ٹاٹ کا پیوند ٹاٹ ہی میں اچھا رہتا ہے۔ گندے پانی میں پرورش پانے والی مچھلی صاف ستھرے آب زم زم میں زندہ نہیں رہ سکتی۔ کتے کو گھی ہضم نہیں ہوتا۔ سرسوتی ندی کے کنارے اس حسین دوشیزہ کو دیکھ کر اس نے خیال کیا تھا کہ یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ گُدڑی میں لعل کو چھپا کر رکھ دیا۔ در آں حالیکہ وہ طلائی زنجیر میں منسلک ہو کر گلے کا ہار بن جانے کے قابل ہے۔ اس کو اپنے محل میں لا کر وہ خوش ہوا تھا کہ قدرت کی ایک زبردست غلطی پر تصحیح کر دی ہے۔ یہ قدرت کی کج فہمی تھی کہ وہ خوب و زِشت میں امتیاز نہ کر سکی۔ اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ کونسی چیز کس جگہ کے لائق ہے۔ لیکن تلخ تجربہ حاصل کرنے کے بعد اسے محسوس ہوا کہ خود اس سے ایک حماقت سرزد ہو گئی ہے۔ اب وہ سمجھا کہ انگارے جو یاقوت کی طرح چمکتے ہیں، دراصل یاقوت نہیں ہوتے۔ اور یہ کہ خوبصورت خوشنما سانپوں میں زہریلا مادہ ہوتا ہے۔ اس نے خیال کیا تھا کہ محل کی رنگین فضا میں اس دیہاتی لڑکی کو چار چاند لگ جائیں گے۔ یہ درست نکلا۔ لیکن اس کی چند عادتوں میں تبدیلی واقع ہوئی، فطرت یکسر نہ بدل سکی اور آخر کار ثابت ہو گیا کہ شیر کا بچہ انسان کی گود میں پل جانے کے بعد انسان سے کتنا ہی مانوس کیوں نہ ہو جائے اپنی بہیمانہ خصلت کو نہیں چھوڑ سکتا۔
وہ تصورات کی دنیا میں واقعات گذشتہ کا مطالعہ کرنے لگا۔ وہ ایک روز اپنے مصاحبوں کے ساتھ مچھلی کا شکار کھیلنے گیا تھا۔ سرسوتی ندی کے کنارے اسے کشتی میں ایک نوحیز لڑکی نظر آئی، پھٹے پرانے بوسیدہ کپڑوں میں وہ ایسی معلوم ہوتی تھی گویا سیاہ بدلیوں میں سے چاند جھانک رہا ہے۔ اس نے چار روز کے لیے لڑکی کو اپنی خدمت پر مامور کر لیا لیکن وہ پھولوں کو صرف آنکھ سے دیکھ لینے کا قائل نہیں تھا، گل چینی کی آرزو بھی دل میں پیدا ہو گئی۔ چنانچہ چلتے وقت اسے اپنے ساتھ لے گیا۔ غالباً بڈھا باپ اس ظلم و ستم کے خلاف صداے احتجاج بلند کرتا مگر پانچ سو روپے کی کثیر رقم نے اس کی زبان بند کر دی۔ دولت ناممکن باتوں کو بھی ممکن کر دکھاتی ہے۔
دختر کفش روز جب شاہی محل میں آئی تو کئی روز تک ہر شے کو تعجب کی نگاہوں سے تکتی رہی۔ عرصہ تک اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کپڑوں کے اندر سورج کی کرنوں جیسی چمک کس طرح پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اس قدر ہلکے اور مہین کیوں ہوتے ہیں کہ پورے تھان کو مٹھی میں لے لینا ممکن ہے۔ وہ صرف پکی اینٹ سے پاؤں مانجھنے کی عادی تھی۔ کنیزوں نے اسفنج کے ٹکڑے اور ربڑ کے جھانوے دیے تو حیران رہ گئی کہ یہ کس لیے ہیں۔ اور اگر بروقت اسے منع نہ کر دیا جاتا تو شاید وہ گلگونہ یا غازہ کی ایک انگلی بھر کر منہ میں رکھ لیتی، یہ سمجھ کر کہ یہ بھی کوئی کھانے کی شے ہے۔ اس نے صرف بانسری کے نغمے سنے تھے۔ ہارمونیم، ستار اور رباب سے اس کے کان نا آشنا تھے۔ ناچ کا مفہوم اس کے ذہن میں صرف اس قدر تھا کہ کچھ عورتیں ایک حلقہ میں کھڑی ہو کر اور گھونگھٹ نکال کر اپنے جسم کو ایک مخصوص طریقہ پر جنبش دیں، کبھی ان کا سر آگے کی طرف جھکے اور کبھی پشت کی جانب۔ بعض دفعہ پاؤں زمین پر زور سے مارا جائے اور بعض دفعہ ہلکا۔ محل کی بزمِ نشاط میں اس نے دیکھا کہ صرف ایک نوجوان عورت مجمع کے سامنے اس طرح رقص کرتی ہے کہ اکثر اس کا سینہ کمر تک اور ٹانگیں بالائی سرے تک برہنہ ہوتی ہیں۔ وہ بے حیائی کے اس منظر کو دیکھ کر ابتدا میں خود شرما جاتی تھی۔ وہ بمشکل سمجھ سکی کہ آخر ناچ میں اس چیز پر کیوں زور دیا جاتا ہے کہ چھاتیاں اور کولہے بھی اپنی اپنی جگہ رقص کریں، آنکھیں مٹکیں، اور رخسار تھرکیں۔ مختلف قسم کے نِرت دیکھ کر اس نے خیال کیا کہ غالباً رقاصہ ہوا کے سمندر میں تیرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے دیہاتی گیتوں میں کوئی لفظ ایسا نہیں تھا جو جذبات میں ہیجان پیدا کر کے انسان کو گناہ کی ترغیب دے۔ بر خلاف اس کے یہاں شعر کا ہر مصرع بذاتِ خود ایک دفترِ معصیت تھا۔
نواب اپنے خیالات میں محو تھا اور ابھی کسی نتیجہ پر نہ پہنچا تھا کہ آئندہ اس دیہاتی لڑکی کے ساتھ کس قسم کا طرزِ عمل اختیار کیا جائے، کہ اسے اطلاع ملی کہ ہر ہائنیس گوبر کا ڈھیر سامنے رکھے اُپلے تھاپ رہی ہیں۔ آتشِ غضب اس کے سینے میں بھڑک اٹھی اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب اس کم نصیب چماری کو محل کی چار دیواری سے نکال دیا جائے۔
وہ لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور دربان کے جھونپڑے کی طرف چل دیا۔
قریب پہنچ کر اس نے دیکھا کہ محل میں رہنے والی بیگم نے گاڑھے کا لباس زیب تن کر رکھا ہے، آستینیں کہنیوں تک چڑھی ہوئی ہیں اور دونوں کلائیاں نجاست سے آلودہ ہیں۔ اسے آتا دیکھ کر وہ کھڑی ہو گئی اور کسی قدر جھک کر بولی “آئیے! بابو جی!”
اس نے سنا تھا کہ امیر آدمیوں سے “بابو جی” کہہ کر بات کرتے ہیں۔ اور اسی لیے گاؤں کا ہر شخص تحصیل دار کو “بڑے بابو” اور نائب تحصیل دار کو “چھوٹے بابو” کہہ کر مخاطب کیا کرتا تھا۔ اگرچہ وہ کنیزوں کی زبان سے نواب کی شان میں بڑے بڑے القاب سن چکی تھی اور خود بھی ان ذی وقار لفظوں سے اس کو یاد کر چکی تھی۔ مگر دیہاتی معاشرت کا خیال کر کے اس نے یہی مناسب سمجھا کہ نواب کو بھی بابو جی ہی کہا جائے۔
اپنے ہی جملے پر جو خود اس کے خیال کے مطابق بالکل انوکھا تھا، وہ مسکرائی اور یہاں تک مسکرائی کہ کھل کھلا کر ہنسنے لگی۔ ایک عورت اور خاص طور پر فضاے شباب میں سانس لینے والی عورت کا تبسم جب بڑھتے بڑھتے دلفریب مگر مدھم قہقہے کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو بلا مبالغہ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے گویا ساغر و مینا کے باہم ٹکرانے سے جلترنگ کی ایک خاص نوع کا نغمہ پیدا ہو رہا ہے جس کے ترنم میں قلقلِ مینا کا بھی تھوڑا سا حصہ شامل ہے۔
“بابو جی” اس نے مسکراتے ہوئے دوبارہ کہا۔ “میں نے تمھارے جوتوں کو صاف کر کے چمکا دیا ہے۔ اپنے نوکر کو بھیج کر منگا لو۔” نواب نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ جھونپڑے کی دیوار کے ساتھ پانچ سات جوڑے جوتیوں کے رکھے تھے۔ اس کی تیوری پر بل پڑ گئے۔ یہ اس کی شانِ امارت کی زبردست توہین تھی کہ ایک عورت جو اس کی زینتِ آغوش بن چکی ہے ایسے ذلیل کام کرے۔ مگر کیا کہہ سکتا تھا، حماقت اپنی ہی تھی۔
اس نے انتہائی ضبط سے کام لے کر چند طلائی سکے اپنی جیب سے نکالے اور محل میں بیگم بن کر رہنے والی دختر کفش روز کے سامنے زمین پر ڈال دیے۔ پھر کہا:
“یہ جوتیاں صاف کرنے کی اجرت ہے۔ اسے اٹھا لو اور ہمیشہ کے لیے اس ریاست کی حدود سے باہر نکل جاؤ۔ تم امیرانہ زندگی بسر کرنے کی اہل نہیں ہو۔ تم کو اجازت ہے اپنے گاؤں میں ماں باپ کے پاس واپس جا سکتی ہو۔ شاہی خزانہ سے ہر ماہ تمھاری مالی امداد ہوتی رہے گی۔”
آسمان سے ٹوٹے ہوئے ایک تارے کی طرح جس کو یکایک نور و ضیا سے محروم کر دیا گیا ہو، وہ حیران و ششدر ایک عجیب اضطراری کیفیت کے ماتحت کھڑی کی کھڑی رہ گئی اور یہ سوچنے لگی کہ جو کچھ سنا وہ فریبِ سماعت تو نہیں ہے۔ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ جاہ و ثروت کی دنیا میں ایسا ہو سکتا ہے کہ صنفِ نازک کے جسم سے دو سال تک لطف اندوز ہونے کے بعد ہار کے باسی پھولوں کی طرح اسے بھی ٹھکرا دیا جائے۔ یہ مانا کہ وہ اپنی نزاکت و رعنائی کے لحاظ سے پھول کی مانند ہے، اس کا حسن ماہِ تاباں کی طرح سریع الزوال ہے لیکن اس کے جذباتِ قلب؟
اس کا چہرہ شدتِ غیظ و غضب سے سرخ ہو گیا، انتہائی غصے کے باعث اس کا تمام بدن کپکپانے لگا۔ تیوری کے بل بتا رہے تھے کہ وہ دنیا کو فنا کر دینے کی قوت اپنے اندر بیدار کر رہی ہے۔ وہ نواب کی طرف بڑھی کچھ ایسے انداز سے گویا اسے اٹھا کر زمین پر پٹک دے گی اور اگر اس طرح بھی آتشِ انتقام سرد نہ ہوئی تو اسے ٹھکرا دے گی، کچل دے گی، پامال کر دے گی۔ لیکن اچانک پیدا ہو جانے والے کسی خیال سے وہ جھجک کر رہ گئی۔ اور جس طرح تند و تیز آندھی کے خاتمہ پر اکثر مینہ برسنے لگتا ہے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ آہ! بے کس عورت کی مجبوریاں صرف قطرہ ہاے اشک کے سوگوار دامن میں پناہ لیتی ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...