“آپ نے کبھی مجھے بتایا نہیں کہ آپ ہوٹلز کا بزنس کرتے ہیں ” وہ اب ولید کے سر ہوئی خفگی دکھا رہی تھی ۔۔۔
“نہ سلام نہ دعا ۔۔۔۔ آتے ساتھ شکوے ” وہ اس کی بات کو ہلکا لیتے ہوئے بولا ۔
“وعلیکم السلام ۔۔۔۔۔ جو پوچھ رہی ہوں وہ بتائیں ” وہ سلام کی بجائے سلام کا جواب دیتے ہوئے اصل بات کی طرف آئی ۔
“تم نے کبھی پوچھا ہی نہیں ” ولید مسکرائے بنا نہ رہ سکا ۔
“،ہاں یہ بھی ہے ” زجاجہ نے منہ بنایا ۔۔۔۔
“بیٹھو ۔۔۔۔ بتاتا ہوں ” وہ وہیں لان میں خوبصورتی کے لئے لگائی گئی چٹان پر بیٹھ گئی ۔
“زجی میں 2 کلاس میں تھا جب پاپا کی ڈیتھ ہوئی ۔۔۔۔ ہوٹلز پاپا کا شوق تھا ۔۔۔ ” اس نے اپنے بچپن سے بتانا شروع کیا ۔۔۔۔ “میرے بڑے تایا اور بڑے ماموں UK ہوتے ہیں ۔۔۔ پاپا نے ان دونوں کے ساتھ مل کر بزنس سٹارٹ کیا تھا ۔۔۔۔ پاپا کی ڈیتھ کے بعد ماما نے اپنے شیئرز بھی اں دونوں کو دینے چاہے ۔۔۔۔ ظاہر ہے وہ اکیلی نہیں سنبھال سکتی تھیں اور نہ انہیں اس بزنس کا کچھ تجربہ تھا ۔۔۔۔ لیکن تایا اور ماموں نے ایسا کرنے سی انکار کر دیا اور فیصلہ کیا کہ میرے ایجوکیشن کمپلیٹ کرنے تک وہ خود سنبھالیں گے ۔” وہ بات کرتے کرتے رکا ۔۔۔۔ “میں جب ایجوکیشن کے لئے UK گیا تو انہوں نے مجھے وہ ہوٹلز دکھائے اور بتایا کہ اب سب کے ہوٹلز الگ الگ ہیں اور پارٹنر شپ ختم ہو چکی ہے ” وہ زجاجہ کی طرف مڑا اور اپنی بات جاری رکھی “یو نو زجاجہ جو لوگ کہتے ہیں نا رشتوں میں محبت نہیں رہی ۔۔۔۔ غلط کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ جب مجھے ہوٹلز کا سسٹم ہینڈ اوور کیا گیا تو “حسن چین آف ہوٹلز” میں بھی اتنے ہی ہوٹلز تھے جتنے باقی دو چینز میں ۔۔۔۔ میں اگر کسی چین کا اونر ہوں تو صرف تایا اور ماموں کی وجہ سے ۔۔۔۔ آئی کین نیور پے دیم بیک ” اس کے لہجے میں بے پناہ عقیدت اور محبت تھی ۔۔
وہ بت بنی اس کی باتیں سن رہی تھی ۔۔۔۔ جیسے کوئی بیمار آیات شفا سن رہا ہو اور اسے ڈر ہو کہ اگر آنکھ بھی جھپکی تو اثر زائل ہو جائے گا ۔۔۔۔
دور کہیں خلاؤں میں کچھ کھوجتے ہوئے ولید حسن ارد گرد سے بیگانہ بولے جا رہا تھا ۔۔۔۔ زجاجہ نے کبھی ولید حسن کو اتنا بولتے نہیں سنا تھا ۔۔۔۔
“بچپن میں مجھے بتایا گیا تھا کہ آسمان پر جو سب سے روشن ستارہ ہے نا ۔۔۔ وہ پاپا ہیں میرے ۔۔۔۔ اور میں اس چیز کو اس حد تک مان چکا ہوں کہ اب بھی جب کبھی تاروں کو دیکھتا ہوں تو نظر سیدھی جا کر اسی روشن ستارے پہ ٹھہرتی ہے ” ولید حسن کے لبوں پر مسکراہٹ لیکن آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی ۔۔۔۔ وہ چپ ہو گیا تھا ۔۔۔۔ زجاجہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا جواب دے یا اسے کیا تسلی دے ۔۔۔ بہت سے لمحے گہری خاموشی کی نذر ہو گئے ۔۔۔۔ اس خاموشی کی چادر کو ولید کی موبائل بپ نے توڑا ۔۔۔۔ اس نے آنکھوں کی نمی کو انگلیوں کی پوروں میں جذب کرتے ہوئے فون اٹھا لیا ۔۔۔۔ سکرین پر نقاش کا نام جگمگا رہا تھا ۔۔۔وہ موبائل لے کر اٹھ گیا
“تم اب میری بائیو گرافی لکھو ۔۔۔ میں ذرا نقاش سے بات کر لوں ” وہ ماحول کے اثر کو کم کرنے کے لئے ہنستے ہوئے بولا “اور ہاں یہ بھی لکھنا کہ پہاڑوں پر پریاں اترتی ہیں یا نہیں ،یہ تو مجھے نہیں پتا ۔۔۔۔ ہاں مگر “جھلی ” ضرور دیکھی ہے میں نے ”
زجاجہ اس کی بات پر صرف مسکرا ہی سکی ۔۔۔۔ وہ بہت اداس ہو گئی تھی ۔۔۔۔ اس کا بابا کے بغیر ایک پل نہیں گزرتا تھا ۔۔۔۔ اس نے ایک لمحے کے لئے بابا کے بغیر زندگی کا تصور کیا تو اسے جھرجھری آ گئی ۔
“اللہ پاک میرے بابا کو سلامت رکھے ” اس نے دل سے اپنے بابا کے لئے دعا کی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج جمعہ تھا ۔۔۔۔۔ انہیں اسلام آباد آئے چار دن گزر چکے تھے ۔۔۔۔ زجاجہ نے اس دن کے بعد ولید سے اس ٹاپک پر کوئی بات نہ کی ۔۔۔۔ وہ اسے اداس نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔اسلام آباد میں گزرا ایک ایک دن ان سب کے لئے یادگار تھا ۔۔۔۔
“سر سے کہتے ہیں نماز جمعہ فیصل مسجد میں ادا کرتے ہیں سب ” زجاجہ کو فیصل مسجد سے روحانی لگاؤ تھا ۔۔۔۔ وہ ان چار دنوں میں تین بار مسجد جا چکی تھی اور آج پھر جانا چاہتی تھی ۔۔۔۔ سب نے اس سے اتفاق کیا ۔۔۔۔۔
ولید اور میل ٹیچرز نے ویسے بھی ادھر ہی جانا تھا ۔۔۔۔ وہ سب نماز سے ایک گھنٹہ پہلے مسجد پہنچ گئے ۔۔۔۔۔ زجاجہ ننگے پاؤں فرش پر چلنے لگی تو ولید کو وہ اس وقت ایک معصوم سی بچی محسوس ہوئی ۔۔۔۔ سب ادھر ادھر بکھر گئے ۔۔۔۔ مسجد میں بے انتہا رش ہونے کے باوجود بہت سکون تھا ۔۔۔۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کے پاس آ گیا ۔۔
“کتنا سکون ہے نا یہاں ” وہ مسجد کے شان سے سر اٹھائے کھڑے میناروں کو دیکھتے ہوئے بولا “مجھے ہمیشہ سے مسجد اور دربار میں بہت سکون ملتا ہے ۔۔۔۔ میں گھنٹوں داتا دربار میں بیٹھا رہتا ہوں۔۔۔۔ مجھے شارجہ کی مساجد بہت پسند ہیں زجی ۔۔۔۔ میں تمہیں وہ دکھاؤں گا ”
“میرا عجیب سا روحانی لگاؤ ہے اس جگہ کے ساتھ ۔یہاں سر جھکا کے خاموشی سے بیٹھے رہنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے ولی ۔۔۔۔۔ ہم ترکی بھی جائیں گے۔۔۔ وہاں کی مساجد شاہکار ہیں ” وہ پرجوش ہو رہی تھی ۔۔۔
“تم ملائیشیا دیکھو تو سب بھول جاؤ ۔۔۔۔۔ بہت خوبصورت ہے ملائیشیا ۔۔۔۔۔۔ وہاں کے لوگ ۔۔۔وہاں کی عمارتیں ۔۔۔۔ رہن سہن ۔۔۔۔سب بہت شاندار ہے ” وہ اسے تفصیل بتاتے ہوئے بولا ” میں نے حال ہی میں ملائیشیا میں ہوٹل establish کیا ہے ۔۔۔۔ وہاٹ این آسم پلیس ملائیشیا از ” وہ چشم تصور سے اب بھی انہی جگہوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
” ہم ہر وہ جگہ ہر وہ چیز ضرور دیکھیں گے جو آپ کو پسند ہے ولی” اس نے ولید کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔
“اچھا ۔۔۔۔ یہ بات ہے تو پھر جاؤ ۔۔۔۔ آئینہ دیکھو زجاجہ سکندر ۔۔۔۔۔ “وہ بہت گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ زجاجہ کے چہرے کی رنگت بدل گئی ۔۔۔۔
“میں باقی سب کو دیکھتی ہوں ” اس نے وہاں سے جانے میں ہی عافیت سمجھی ۔۔۔۔ولید کا قہقہہ بہت دیر تک اس کے کانوں میں گونجتا رہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج وہ سب سیدپور ویلج آئے تھے ۔۔۔۔۔ اسلام آباد میں واقعہ یہ خوبصورت سا گاؤں (جو اب ماڈل ویلج بن چکا ہے ) سب کو بہت پسند آیا ۔۔۔۔۔۔ گائیڈ نے اس گاؤں کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا
“جتنے رقبے پر اب یہ واقع ہے ہندو دور میں بھی اتنے رقبے پر یہ پورا گاؤں تھا ۔۔۔۔۔ یہاں ہندو ، سکھ اور مسلمان آباد تھے ۔۔۔۔ لیکن مسلمانوں کی تعداد کم تھی ۔۔۔۔ ”
وہ سب ایک ایک جگہ کو بہت محویت سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ ولید پہلے بھی بہت دفعہ یہاں آ چکا تھا ۔۔۔۔ وہ یہ سب باتیں پہلے سے جانتا تھا اس لئے وہ کچھ زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا تھا ۔۔۔۔
“یہ اس گاؤں کا مندر ہے ۔۔۔۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مندر آج بھی اسی طرح ہے جیسا آج سے کئی سو سال پہلے اس دور میں تھا ٰ جب یہ گاؤں آباد تھا ” گائیڈ ایک چھوٹے سے مندر کے سامنے رکتے ہوئے بولا ۔۔۔۔سب مندر کے اندر چلے گئے ۔۔۔۔وہ واقعی خوبصورت تھا ۔۔۔۔مندر کے ماتھے پر رنگین نقش و نگار بنے تھے ۔۔۔۔ مندر کے ساتھ ایک درخت تھا ۔۔۔جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس کی جڑیں کئی سالوں سے سوکھ چکی ہیں لیکن یہ پھر بھی پورا سال ہرا رہتا ہے ۔۔۔ اور واقعی ہی ایسا تھا ۔۔۔۔ لوگ اس کھوکھلے درخت کے اندر کھڑے ہو کر فوٹو بنوا رہے تھے ۔۔۔۔ زجاجہ کو مسٹری بچپن سے بہت پسند تھی ۔۔۔۔ وہ اس مندر کے سامنے کھڑی آنکھ جھپکائے بغیر اس کو دیکھ رہی تھی….
“پتا نہیں کون لوگ تھے اس کو بنانے والے ۔۔۔۔۔ کون لوگ تھے یہاں عبادت کرنے والے ۔۔۔۔ ان کا تو اب کوئی نشان بھی باقی نہیں ہو گا شاید ۔۔۔۔۔۔ لیکن ان درودیوار کو تو وہ ہاتھ یاد ہوں گے نا جن کی انگلیوں نے اس کو تراشا تھا ” وہ
بہت ماضی میں چلی گئی تھی ۔۔۔۔
“چلو زجاجہ ” عطیہ نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو وہ چونک گئی اور گاؤں کے قبرستان کی طرف بڑھ گئی ۔۔ ۔۔ وہاں کچھ پرانی قبریں تھیں جن کے مکینوں کا کسی کو پتا نہیں تھا ۔۔۔۔۔ ایک سکھوں کا گردوارہ تھا ۔۔۔۔۔وہ بھی اسی طرح قائم تھا ۔۔۔۔ کچھ ٹائیلز پر لوگوں کے نام لکھ تھے ۔۔۔۔
“یہ کن لوگوں کے نام ہیں بابا جی ” زجاجہ نے وہاں کھڑے ایک بزرگ سے پوچھا ۔۔۔۔
“یہ نام اں لوگوں کے ہیں جنہوں نے مسافروں کے لئے سرائے بنوانے کے لئے پیسہ خیرات کیا تھا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔ یہ سامنے جو عمارت ہے نا یہ سرائے ہے ” انہوں نے ایک عمارت کی طرف اشارہ کیا ” اب یہ فوٹو گیلری بن گئی ہے ”
زجاجہ اس سرائے کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔۔۔ وہ ایک بہت بڑا ہال نما کمرہ تھا ۔۔۔۔ جس کے دروازے اور کھڑکیاں وہی پرانے تھے ۔۔۔۔ دروازے منقش تھا ۔۔۔۔ فرش اور دیواریں سیمنٹ کے تھے ۔۔۔۔۔ ساری دیواروں پر بہت سی تصاویر لگی تھیں ۔۔۔۔۔ یہ تصاویر اسلام آباد بننے کے وقت کی تھیں ۔۔۔۔۔ ہر تصویر کے نیچے تفصیل درج تھی ۔۔۔۔۔ باقی لوگ بھی ادھر ہی آ گئے ۔
“اٹس مسمرائزنگ یار ” مس فوزیہ متاثر ہوتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔
“اگر یہ ہندو کمیونٹی کا گاؤں تھا تو اس کا نام سید پور کیوں ہے ” مس آسیہ نے وہاں موجود ایک ملازم سے معلوم کیا ۔۔۔۔۔ مگر اس نے کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا ۔۔۔ وہاں سے نکل کر وہ لوگ اوپر کی طرف آ گئے ۔۔۔۔۔ سیڑھیاں بھی اسی دور کی لگ رہی تھیں ۔۔۔۔۔ اینٹوں سے بنی سیڑھیوں کا شاید کبھی مرمت کیا گیا ہو مگر ان کو جدید نہیں کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ سیڑھیوں کے ساتھ دیواروں میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر طاق بنے تھے جن کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ اس دور میں چراغ رکھنے کے کام آتے تھے ۔۔۔۔۔۔ اوپر بہت سارے ہوٹلز تھے ۔۔۔۔۔ جن میں گاؤں کی مناسبت سے چارپائی ہوٹل بھی بنائے گئے تھے ۔۔۔۔ ان سب نے وہاں چائے پی ۔۔۔۔۔۔
“اففف ۔۔۔۔۔ میرا بس چلے تو میں ادھر ہی رہ جاؤں ” در نجف نے پہلی بار کسی جگہ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا ” مجھ پر تو سحر طاری ہو گیا ہے ”
پہاڑوں کے دامن میں بسا یہ قدیم گاؤں سب کے ذہنوں پر ہی انمٹ نقوش ثبت کر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ واپس جاتے ہوۓ زجاجہ نے مڑ کر ایک نظر پیچھے گاؤں کی طرف دیکھا اور سر جھکا کر گاڑی کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔۔
واپسی کے سفر میں بھی سب گاؤں کے بارے میں ہی باتیں کرتے رہے ۔۔۔ آج کا دن کبھی نہ بھولنے والا تھا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتوار کو اں کی لاہور واپسی تھی ۔۔۔۔۔۔ ہفتے کی شام ولید حسن اینڈ کمپنی سینٹارس مال پہنچ گئی ۔۔۔۔۔۔ زجاجہ کو یہ مال بہت پسند تھا ۔۔۔۔۔ یہاں کی رونق اور گہماگہمی اسے زندگی کا احساس دلاتی تھی ۔۔۔۔۔۔ اس نے بلیک ٹائٹس کے ساتھ براؤن کلر کی شرٹ پہن رکھی تھی۔۔۔۔۔ سر کے گرد براؤن سکارف لپیٹے ۔۔۔۔۔ پاؤں میں وائٹ سنیکرز پہنے وہ بہت فریش لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔ اس نے ماما بابا کے لئے شاپنگ کی ۔۔۔۔۔ اپنے لئے شرٹس خریدیں اور سب فرینڈز کے لئے بھی گفٹس لینے کے بعد ولید حسن کے لئے پلین بلیک ڈریس شرٹ لی ۔۔۔۔۔۔۔
ولید اسے دور سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اصلی زجاجہ کون سی ہے ۔۔۔۔۔ سید پور والی بہت سنجیدہ سی زجاجہ یا شاپنگ مال والی شوخ سی ہر لمحے کو جینے والی زجاجہ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واپسی کا سفر بہت خاموش تھا ۔۔۔۔۔۔ پوری گاڑی میں سناٹا چھایا تھا ۔۔۔۔۔ پتا نہیں یہ اسلام آباد سے جانے کی اداسی تھی یا تھکن ۔۔۔۔۔۔ وہ بلکل چپ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی کہ موبائل کی میسج ٹون نے اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی ۔۔۔۔۔۔
“میری عمر مت گھٹاؤ زجاجہ ” ولید کا میسج تھا ۔۔۔۔۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی
زندگی ایک بار پھر معمول پر آ چکی تھی ۔۔۔۔ یونی میں سیمسٹر شروع ہو گیا تھا اور سکول بھی دسمبر بریک کے بعد کھل چکا تھا ۔۔۔۔ زجاجہ کی بھی وہی پرانی روٹین سٹارٹ ہو گئی تھی ۔۔۔
“میرے ساتھ چلنا ” ولید کے میسج نے اسے بیک وقت حیران اور پریشان دونوں کر دیا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ کبھی بغیر مجبوری کے اس کے ساتھ نہیں گئی تھی اور یہ بات تو گمان بھی کرنا مشکل تھا کہ وہ اسے خود کہے گا ۔۔۔۔
چھٹی کے وقت اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے مسز یزدانی کی نظر ولید پر پڑی تو وہ کچھ سوچتے ہوئے اس کی طرف بڑھ گئیں ۔۔
“آپ گئے نہیں ولید بیٹا ” انہوں نے پوچھا ۔۔۔۔ وہ عموما چھٹی سے پہلے چلا جاتا تھا ۔۔۔۔
“جی مما ۔۔۔نکل رہا ہوں بس ۔۔ مس زجاجہ کو پک کرنا ہے ”
“اچھا ۔۔۔۔ شام میں جلدی آنا ۔۔آپا آ رہی ہیں ” وہ کہتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔۔ولید نے سر ہلانے پر اکتفا کیا ۔۔کیونکہ نقاش اسے اپنے اور پھپھو کے آنے کی اطلاع دے چکا تھا ۔۔۔ زجاجہ کے بیٹھتے ہی ولید نے گاڑی آگے بڑھا دی ۔۔۔
“جی زجاجہ ولید حسن ۔۔کیسی ہیں آپ ” یہ شوخ ہوا ۔۔۔ زجاجہ کا منہ حیرانگی سے کھلا رہ گیا ۔۔۔
“کیا ہوا ” ولید نے اپنا ہاتھ اس کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے کہا
“آپ نے مجھے اس نام سے ” اس نے دانستہ بات ادھوری چھوڑ دی ۔۔
“ہاں تو ۔۔۔ کوئی اعتراض یا شک ” ولید براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔
“آپ سچ کہہ رہے ہیں نا ولی ” وہ بے یقینی سے ولید کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔
“جی میری جھلو ۔۔۔ بلکل سچ کہہ رہا ہوں ” ولید نے اس کی ناک دبائی ۔۔۔۔ تو وہ مسکرا دی ۔۔۔ زجاجہ کے دل میں ڈھیروں سکون اتر آیا ۔۔۔۔
“اچھا ساتھ آنے کو کیوں بولا تھا ” یاد آنے پر وہ فورا بولی
“ہاں بتانا ہے تمہیں کچھ ” ولید نے ایک نظر اس پر ڈالی ۔۔۔ “تم جانتی ہو نا میرا UK میں بزنس ہے ۔۔۔ وہ بھی دیکھنا پڑتا ہے مجھے ۔۔۔۔”
“جی ۔۔۔پتا ہے مجھے ۔۔۔اصل بات کریں نا ولید ” وہ لجاجت سے بولی “مجھے ٹینشن ہو رہی ہے” ۔
“میں کچھ دنوں کے لئے UK جا رہا ہوں ” ولید نے اس کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا ۔۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ زجاجہ اداس ہو جائے گی ۔۔۔۔ ولید کو دیکھے بغیر اس کی صبح نہیں ہوتی تھی ۔۔۔۔ لیکن جانا بھی ضروری تھا ۔۔۔۔اور بتانا بھی ضروری ۔۔۔
“کتنے دنوں کے لیے ” کچھ دیر بعد اس کی آواز آئی ۔۔۔۔ ولید کو لگا وہ بہت دور سے بول رہی ہے ۔۔۔
“مے بی 15 ڈیز ۔۔۔۔ یا زیادہ بھی لگ سکتے ہیں ”
اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔۔ولید نے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ گرین کرتے کے ساتھ وائٹ ٹراؤزر پہنے ۔۔۔سر پر گرین دوپٹہ لئے ۔۔۔وہ ولید کو چھوٹی سی بچی لگی ۔۔۔۔
“کچھ بولو نا زجی ” ولید نے اسے متوجہ کیا ۔۔۔
“میں کیسے رہوں گی ولی ” زجاجہ کی خوبصورت آنکھیں آنسووں سے بھری ہوئی تھیں ۔۔۔۔ ولید کو لگا وہ کبھی نہیں جا پائے گا ۔۔۔۔
“اوہو زجاجہ ۔۔۔ تھوڑے دن کی تو بات ہے یار ۔۔۔ دیکھنا کیسے گزر جائیں گے۔۔تم کہو گی ابھی کل ہی تو آپ گئے تھے اور آ بھی گئے ” ولید نے ماحول کی اداسی کو کم کرنا چاہا ۔۔۔۔
“میں سچ کہہ رہی ہوں ۔۔۔۔میں نہیں رہ پاؤں گی ” وہ ابھی بھی رو رہی تھی ۔۔
“پلیز زجی ۔۔۔۔ ایسے نہیں کرو ۔۔۔یو کین انڈرسٹینڈ میرا جانا ضروری ہے ۔۔۔۔ اور پھر واپس آ کے مما سے بات کروں گا ” ولید نے مسکراتے ہوئے کہا
“کیا بات ” وہ کچھ نہ سمجھی ۔
“یہی کہ آپ کے سکول کی ایک ٹیچر کو گھر لے چلتے ہیں ”
زجاجہ کے چہرے کا رنگ بدلا ۔۔۔ وہ انگلیاں مروڑنے لگی ۔۔۔
“اوہ کم آن ۔۔۔ تم شرماتی ہو تو مجھے لگتا ہے میں کسی اور سے بات کر رہا ہوں ” وہ شرارت سے بولا ۔۔۔ زجاجہ نے جواب میں اسے گھورا تو اس کا قہقہہ گاڑی میں گونج گیا ۔۔۔۔
“یونی زیادہ دور نہیں ہو گئی آج ” زجاجہ نے باہر دیکھتے ہوئے کہا
“جی میم ۔۔۔ کیونکہ ہم یونی سے آگے نکل آئے ہیں ”
“اففف ۔۔۔۔ پتا ہی نہیں چلا ۔۔۔ واپس چلیں پلیز ۔۔۔۔ ڈاکٹر شاہد کی کلاس ہے ” وہ پریشان ہو گئی ۔
“چل رہے ہیں چندا ۔۔۔ ریلیکس ” وہ نرمی سے بولا
“آپ کی فلائٹ کب ہے ” زجاجہ نے اسی بات کی طرف آتے ہوئے پوچھا
“شکر ہے یاد آ گئی محترمہ کو ۔۔۔۔ کل شام کی ہے ” ولید سامنے سڑک پر دیکھتے ہوئے بولا
“اتنی جلدی ” وہ پھر روہانسی ہوئی ۔۔۔
“میرا جانا ایسا ہی ہوتا ہے زجاجہ ۔۔۔۔ اچانک اور بغیر شیڈول کے ” ولید نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا ” تم نے بہت خیال رکھنا ہے اپنا ۔۔۔ میں جلد سے جلد واپس آؤں گا ۔۔۔ انشا اللہ ”
“مجھے ڈر لگتا ہے ولی ” وہ سامنے دیکھتے ہوۓ بولی
“کس سے ” ولید حیران ہوا
“گوریوں سے ” زجاجہ نے بےساختہ جواب دیا ۔۔۔ ولید نے فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے گاڑی سائیڈ پر روک دی ۔۔۔
“او مائی گاڈ۔۔۔۔ تم اتنی سٹوپڈ ہو ۔۔۔ مجھے آئیڈیا نہیں تھا ”
“اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے ” وہ شرمندہ ہوئی ۔۔
“تم نے بات ہی ایسی کی ہے ” ولی کی بھوری آنکھیں بےتحاشہ ہنسنے کی وجہ سے چمک رہی تھیں ۔۔۔۔۔ زجاجہ دیکھتی رہ گئی ۔۔۔۔
“نظر لگاؤ گی کیا ” ولید نے اس کی آنکھوں میں جھانکا تو وہ مسکرا دی ۔۔۔۔
“گاڑی چلائیں ” زجاجہ نے اس کی توجہ ہٹانے کیلئے کہا ۔۔۔ ولید نے گاڑی سٹارٹ کر دی ۔۔۔یونی پہنچ کر اسے اردو ڈیپارٹمنٹ کے سامنے اتارتے ہوئے ولید نے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔۔ زجاجہ چونک گئی ۔۔۔۔ولید اس طرح کبھی اس کو نہیں چھوتا تھا ۔۔۔
“ڈرنا مت زجاجہ ۔۔۔۔ ولید حسن کے قدم اس وقت نہیں بہکے جب وہ اکیلا تھا ۔۔۔ اب تو تم ساتھ ہو ۔۔۔ اب تو ایسا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔۔۔ ” ولید کی گمبھیر آواز گاڑی میں گونج رہی تھی ۔۔۔ “تب مما کی تربیت کا سوال تھا اور اب تمہاری محبت کا ۔۔۔۔ میں دونوں کے سامنے سرخرو ہونا چاہتا ہوں”
زجاجہ کی آنکھ پھر بھر آئی تھی ۔۔۔۔ وہ تیزی سے اتر کر ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیاں چڑھ گئی ۔۔۔۔ ولید کچھ دیر کھڑا اس کے لمس کو محسوس کرتا رہا ۔۔۔۔ پہلی بار اس نے زجاجہ کو چھویا تھا ۔۔۔۔ وہ کبھی شرارت میں ولید کے بال بکھیر دیتی تو کبھی ہاتھ ایک دم سی پکڑ کے چھوڑ دیتی ۔۔۔۔ ولید اسے گھورتا تو کھلکھلا کے ہنستی ہی چلی جاتی ۔۔۔ “مت ٹچ ہوا کرو جھلی ۔۔۔۔ گناہ ہوتا ہے ” ولید سمجھاتا تو وہ ایک ادائے بےنیازی سی کہتی
“میری محبت گناہ ثواب کی مصلحت سے بہت آگے کی ہے ” ۔۔۔۔ ولید چپ کر جاتا ۔۔۔۔
وہ تھوڑی دیر کھڑا رہا ۔۔۔پھر گہرا سانس لے کر گاڑی پارکنگ کی طرف بڑھا دی ۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...