بہت سے انسانوں جیسا ایک انسان اسکی زندگی کے آئینے میں بھی ابھرکر اپنا نقش ثبت کر چکا تھا ۔ لیکن وہ پھر بھی منتوں، درباروں اور ٹھوکروں سے انکاری تھی۔ صرف چاہنا اور بے پناہ چاہنا۔ اپنے جگنو کی رنگین سی تتلی۔ محبت کے رنگوں سے سجی اڑتی پھرتی۔ وہ اکثر کہتی۔ “یہ بھی کوئی بات ہے بھلا کہ اگر وہ بندہ جسکو آپ چاہتے ہیں وہ گھر سے باہر ہو تو مغرب کے وقت بال باندھ لو۔ حد ہے یار۔وہم کی بھی”۔۔
۔۔ اور دور تقدیر اسکی باتوں پر مسکرا دیتی۔
وہ عام دنوں کی طرح چھٹی کر کے ماریہ کے ساتھ گھر کے لیے نکلی۔ تو بے دھیانی میں ایک پتھر سے ٹھوکر کھا کے گرتے گرتے بچی۔ اسکے منہ سے بے اختیار نکلا۔ “یا اللہ! ولید کی خیر کرنا۔”
دو قدم چل کر وہ چونک کر رکی۔ اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
“کیا ہوا زجی ” ماریہ اس کے اس طرح رونے پر پریشان ہو گئی تھی “چوٹ آئ کیا ”
“ہاں شاید ” زجاجہ نے آنکھیں بند کر لیں۔۔۔آنسو متواتر گر رہے تھے ۔
“ایسا کرو آج یونی مت جاؤ ۔۔۔تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے ” ماریہ نے اسے مشورہ دیا ۔
عین اسی وقت ولید حسن کی گاڑی وہاں سے گزری ۔۔۔اس نے زجاجہ کو روتے دیکھا ۔۔۔ایک لمحے کے لئے رکنے کا سوچا اور پھر گاڑی آگے بڑھا لی ۔
زجاجہ گھر آ گئی ۔۔۔۔ ماما کو طبیعت کی خرابی کا بتا کر وہ اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گئی ۔
“یہ میں تو نہیں ہوں ۔۔۔کیا ہوتا جا رہا ہے مجھے ۔۔۔۔ محبت اور میں ۔۔۔۔ کوئی جوڑ ہی نہیں تھا ۔۔۔۔پھر یہ سب کیسے ہوا ۔۔۔ اگر ولید حسن نے مجھے ٹھکرا دیا تو ؟؟؟؟ اگر وہ کسی اور کو چاہتا ہوا تو ؟؟؟؟ “اس کے سامنے بہت سے سوالیہ نشان تھے جس کا جواب ابھی اس کے پاس نہیں تھا ۔۔۔ وہ ولید حسن کو جانتی ہی کتنا تھی ۔۔۔۔صرف یہ کہ وہ سکول کا چیف ایگزیکٹو تھا ۔۔۔۔ اور آج اس کی سوچ اس کا نظریہ سب بدل گئے تھے ۔۔۔۔ وہ بھی وہمی ہو گئی تھی ۔۔۔ اس کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو نکل پڑے ۔۔۔۔
“یا اللہ میری مدد فرما ” اس نے دل سے دعا مانگی ۔۔۔۔ پتا نہیں کب اس کی آنکھ لگ گئی ۔۔۔ کھلی تب جب بابا اس کے پاس کھڑےاسے آواز دے رہے تھے ۔۔۔
“جی بابا ” وہ فورا اٹھی ۔
“کیا ہوا میری بیٹی کو۔۔۔تمہاری ماما بتا رہی تھیں طبیعت ٹھیک نہیں تمہاری ” بابا نے پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا ۔
“کچھ بھی نہیں بابا ۔۔۔ ماما کا تو پتا ہے نا آپ کو چھوٹی سی بات پر پریشان ہو جاتی ہوں ” وہ مسکراتے ہوئے بولی
“آر یو شیور ” سکندر علی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
“یس بابا ۔۔۔۔ 100% شیور ” وہ اطمینان سے بولی ۔
“گڈ ۔۔۔۔جلدی آؤ پھر ۔۔۔چائے پیتے ہیں ” بابا نے اس کا سر تھپکا اور چلے گئے ۔
“ابھی آئ ۔۔۔۔”وہ نرمی سے بولی ۔۔۔ “تو بات یہاں تک آ پہنچی ہے ولید حسن ” اس نے گہری سانس لی۔۔۔ہاتھوں سے بال ٹھیک کئے اور جوتے پہن کر اٹھ گئی ۔۔
____________________
رات کو کھانا کھا کر کچن سمیٹ کر وہ اپنے کمرے میں آئ تو بیا کا خیال آیا ۔۔۔۔ “بہت ناراض ہو گی وہ ۔۔۔ ثنا بھی منہ بنا کے بیٹھی ہو گی ۔۔۔۔ نماز پڑھ کے میسج کرتی ہوں سب کو ” وہ سوچتے ہوئے وضو کے لئے اٹھ گئی ۔
نماز سے فارغ ہو کر اس نے موبائل اٹھایا تو بیا ،ثنا اور حیدر کے علاوہ ایک انجانے نمبر سے بھی میسج آیا ہوا تھا ۔
“یہ کون ہو سکتا ہے ” اس نے سوچتے ہوئے میسج اوپن کیا
“سلام مس زجاجہ ۔۔۔۔ آج آپ کو سکول میں روتے ہوئے دیکھا ۔۔۔۔ سب ٹھیک ہے نا ؟؟؟ آپ کے گھر میں سب خیریت ہے نا ؟؟ سوری آپ کو میسج کیا بغیر اجازت ۔۔۔۔ لیکن پوچھنا اخلاقی فرض تھا ۔۔۔ ولید حسن ”
وہ کتنی دیر موبائل ہاتھ میں لئے بےیقینی کی کیفیت میں بیٹھی رہی ۔۔۔۔ اسے گمان بھی نہیں تھا کہ ولید نے دیکھا ہو گا یا وہ میسج کرے گا ۔۔۔۔ انجانی سی خوشی نے اسے گھیر لیا ۔۔۔۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے میسج ٹائپ کیا
“تھینکس سر ۔۔۔ سب ٹھیک ہے ۔۔۔ بس ویسے ہی آنسو آ گئے تھے ” اور ولید کے نمبر پر سینڈ کر دیا ۔
تھوڑی دیر بعد ہی اس کے موبائل کی سکرین روشن ہوئی ۔۔۔ ولید کا ہی میسج تھا
“دیٹس گڈ کہ سب ٹھیک ہے ۔۔۔۔ اگر کوئی بھی پرابلم ہو تو یو کین ٹیل می ۔۔۔۔میرے ٹیچرز میرے لئے فیملی کی طرح ہیں ۔۔۔۔مجھ سے جو ہو سکا آئ ول ڈو ”
انگریزی میں لکھا گیا جواب اسے یہ تو باور کرا گیا تھا کہ اگر اس کی جگہ کوئی بھی ٹیچر ہوتی تو ولید حسن کا یہی رویہ ہوتا ۔
“آپ کی اعلی ظرفی ہے سر ۔۔۔۔ویسے میرے پرابلم کا آپکے پاس یا کسی کے پاس کوئی حل نہیں ہے “۔۔۔۔ اس نے غیرارادی طور پر ہی یہ میسج بھیج دیا ۔ جس کا جواب بھی فورا آ گیا ۔
“کوئی تالا بغیر چابی کے نہیں بنا آج تک ۔۔۔ ہاں manufacturer مختلف ہو سکتا ہے ۔۔۔میرے پاس نہ سہی کسی اور کے پاس ضرور آپ کے مسئلے کا حل ہو گا ۔۔۔ ”
“ایسی بات نہیں ہے سر ۔۔۔۔۔ بس کوئی بات ہی نہیں ہے ” اس نے جواب دیا ۔۔۔۔ ولید حسن سے اس طرح بات کرنا ۔۔۔۔۔وہ خود کو خواب میں محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔ جانے کیوں وہ چاہتی تھی کہ بات بڑھتی رہے اور وہ اسی طرح اس کے میسجز کے جواب دیتا رہے ۔
“اوکے ۔۔۔۔ ٹیک کیئر ۔۔۔۔ اللہ حافظ ”
ولید حسن سے اسے اتنی مہربانی کی ہی امید تھی ۔۔۔اس نے بھی اللہ حافظ بول کر موبائل سائیڈ پر رکھ دیا اور کہیں بہت دور نکل گئی ۔۔۔۔
+———————–+
اگلے دن سکول میں پورا دن اس نے ولید کو نہیں دیکھا ۔۔۔۔ “اچھا ہی ہے سامنا نہیں ہوا ” اس نے سوچا اور یونی کے لئے نکل آئ ۔۔۔۔ یونی پہنچ کر اسے بیا اپنی منتظر ملی ۔۔۔۔ وہ خود بھی بیا کو رات والی میسج کہانی سنانے کے لئے بیتاب تھی ۔۔۔۔
“زجی جلدی آؤ ۔۔۔۔تمہیں کچھ دکھانا ہے ” بیا اس کو ہاتھ سے پکڑ کر تقریبا گھسیٹتے ہوئے ایک طرف لے گئی ۔
“کیا ہوا ہے ۔۔۔۔ قیامت آنے والی ہے کیا ” اس نے بیا کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا ۔
“آ چکی ہے قیامت زجاجہ سکندر ” وہ پر جوش ہو کے بولی ۔
“بتاؤ بھی بیا ۔۔۔۔بس کرو پہیلیاں ” اس نے غصے سے کہا
“یاد ہے اس دن حیدر انگلش ڈیپارٹمنٹ میں کسی نئے لیکچرر کے آنے کی بات کر رہا تھا ” اس نے زجاجہ کو یاد کرواتے ہوئے کہا ۔
“ہاں ۔۔۔۔ تو ؟؟؟”زجاجہ نے جواب کے ساتھ ہی سوال بجی کر دیا ۔
“یو نو وہ نیا لیکچرر کون ہے ؟؟؟ وہ ولید حسن سر ہیں ” بیا نے گویا بم پھوڑا
“وہاٹ ؟؟؟ ولید حسن یہاں ۔۔۔۔ نہ کر یار ” زجاجہ کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا ۔
“یس ۔۔۔۔ آؤ خود دیکھ لو ” وہ اسے لے کر انگلش ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گئی جہاں ایک کلاس میں ولید حسن کسی ماہر پروفیسر کی طرح لیکچر دینے میں مصروف تھا ۔
“کیا بات ہے سرکار کی ” زجاجہ شرارت سے بولی ۔
“میں تو مرید ہو گئی تیرے باس کی ” بیا نے شرارت سے آنکھ دبائی ۔
اسی وقت ولید حسن کلاس سے باہر نکلا ۔۔۔۔ زجاجہ پر نظر پڑی ۔۔۔۔ ایک لمحے کے لئے آنکھوں میں شناسائ ابھری اور اگلے ہی پل معدوم ہو گئی ۔۔۔۔ زجاجہ کنفیوذ ہو گئی ۔۔۔۔ جتنی دیر میں اس نے دوبارہ دیکھا تب تک ولید جا چکا تھا ۔
“بندہ زبردست ہے ویسے ” بیا نے اوکے کا سگنل دیا تو زجاجہ کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔
—————-
اگلے دن سکول میں اس کا سامنا صبح صبح ہی ولید سے ہو گیا ۔اس نے رک کر سلام کیا تو ولید نے اپنے آفس میں آنے کا حکم نامہ جاری کر دیا ۔۔۔۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتی آفس میں داخل ہوئی ۔
“بیٹھیں پلیز ” ولید نے گاڑی کی چابی میز پر رکھتے ہوئی کہا ۔” مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ اس یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں ۔۔۔۔ ”
“جی سر ” وہ اتنا ہی بول پائی ۔سب کو چپ کروا دینے والی زجاجہ سکندر اس یونانی دیوتا کے سامنے آ کر خود چپ ہو جایا کرتی تھی ۔
“آپ کے ساتھ آپ کی دوست تھیں شاید ۔۔۔۔۔مجھے مناسب نہیں لگا آپ سے بات کرنا ۔۔۔۔ ہر جگہ ہم کسی اور امیج کے ساتھ رہ رہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔ ”
“اف آپ کی سوچ اور انداز ۔۔۔۔۔۔ میرا پاگل ہونا تو بنتا ھے ” وہ محض سوچ کر رہ گئی ۔ “وہ مجھے میم نے بلایا تھا سر ۔۔۔۔ اف یو ڈونٹ مائنڈ تو میں جاؤں ؟؟” یاد آنے پر وہ تیزی سے اٹھی ۔
ولید حسن فون پر مصروف تھا ۔۔۔ ہاتھ کے اشارے سے اسے بیٹھنے کو کہا ۔۔۔۔۔ اور وہ کال بند کر کے ایک اور نمبر ملا دیا ۔
“جی مما ۔۔۔۔ آپ نے مس زجاجہ کو بلوایا تھا ۔۔۔۔ شی از ان مائی آفس پلیز ۔۔۔۔ وی آر ان آ شارٹ میٹنگ ۔۔۔۔ بھیجتا ہوں میں ان کو آپ کی طرف ” اس نے کال بند کر کے زجاجہ کی طرف دیکھا جو حیرت کی تصویر بنی بیٹھی تھی ۔
“آر یو اوکے مس ” ولید نے اسے حیرت زدہ دیکھ کر پوچھا ۔
“مسز درانی آپ کی مدر ہیں ؟؟؟” زجاجہ نے سوال کیا ۔
“جی ۔۔۔۔ وہ مدر ہیں میری ” ولید نے مختصر جواب دیا اور ایک فائل کھول کر اسے کچھ سمجھانے لگا ۔تو زجاجہ کو بھی خود کو حیرت کے سمندر سے نکال کر فائل کی طرف متوجہ ہونا پڑا ۔
“یار وہ مسز درانی کے بیٹے ہیں ” اس نے آتے ساتھ بیا کو اطلاع دی ۔
“کون ” اس نے لاپرواہی سے پوچھا
“ولید سر اور کون” زجاجہ نے چڑ کر کہا کیونکہ بیا اس کی بات دھیان سے نہیں سن رہی تھی۔
“اچھا “۔۔۔۔۔ بیا کو بھی حیرت ہوئی “یعنی تم پاور میں ہو ” اس نے مذاق اڑایا
“ہا ہا ہا ۔۔۔۔ شاید “زجاجہ نے اس کے مذاق کا سیریس جواب دیا ۔
“سن تو ان کو بتائے گی کیا کہ تو ان کو لائیک کرتی ھے “بیا کا سوال غیر متوقع تھا ۔۔۔ اس بارے میں تو زجاجہ نے خود بھی نہیں سوچا تھا ابھی ۔
“پتا نہیں ۔۔۔۔۔ شاید بتا بھی دوں “وہ چہکی ۔
“گڈ ۔۔۔۔ یو بریوو” بیا نے طنز کیا تو ایک بار پھر زجاجہ کھل کر ہنس دی ۔
———–؛
ولید حسن بہت دنوں سے زجاجہ کی غائب دماغی محسوس کر رہا تھا ۔۔۔پہلے تو اس نے توجہ نہ دی کہ نئی ھے ۔۔۔۔ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گی لیکن اب وہ یونی میں بھی اس کا سامنا ہونے پر کچھ غیر معمولی محسوس کرتا ۔ اس نے کچھ سوچا اور اٹھ کر مسز درانی کے کمرے میں آ گیا ۔
“مما سو تو نہیں رہی تھیں ” وہ ان کے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولا ۔
“نہیں مما کی جان ۔۔۔ کوئی بات کرنی ھے کیا “انہوں نے بہت پیار سے اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھا جو ہر لحاظ سے ایک بہترین بیٹا تھا ۔
“جی ۔۔۔میں نے زجاجہ سکندر کے بارے میں بات کرنا تھی ۔۔۔وہ کیسی ٹیچر ہیں۔ “اس نے پوچھا
“اچھی بلکہ بہت اچھی ہے ۔۔۔بہت جلد اس نے پک کیا ہے ہمارا سسٹم ۔۔۔۔ لگتا نہیں کہ اس کی پہلی جاب ہے ۔۔۔۔ کیوں ۔۔۔تمہیں کوئی شکایت ہے اس سے “انہوں نے تفصیلی جواب دیتے ہوئے سوال بھی کر دیا ۔
“ہمم ۔۔۔نہیں شکایت تو نہیں بس کبھی کبھی غائب دماغ سی لگتی ہیں اس لئے پوچھا “اس نے اپنے سوال کی وجہ بتائی “یو نو وہ اسی یونی میں پڑھتی ہیں جہاں مجھے جمشید ماموں نے لیکچر دینے کو کہا ”
“اچھا ۔۔۔۔ چلو اللہ پاک کامیاب کرے اس کو ۔۔۔اب تم بھی جاؤ ۔۔۔سو جاؤ۔۔۔۔ جمشید بھائی نے تمہیں اور مصروف کر دیا ” انہوں نے پیار سے اس کے بال سہلاتے ہوئے کہا تو وہ ان کے ہاتھ چوم کر اٹھ گیا ۔
کمرے میں آ کر اس نے کچھ سوچا اور موبائل اٹھا کر زجاجہ کو میسج کر دیا ۔۔۔۔ وہ خد بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے ۔ دوسری طرف سے جلد ہی جواب آ گیا
“جی سر ۔۔۔۔ پوچھیں ”
“آپ کے گھر میں کوئی مسئلہ ہے کیا ۔۔۔۔۔آپ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہیں کچھ دنوں سے ” ولید نے اگلا میسج بھیجا ۔
” میرا پرسنل ایشو ہے ایک ۔۔۔۔سوری اگر مجھ سے ڈیوٹی میں کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو ” زجاجہ کچھ اور سمجھ رہی تھی ۔
“نو نو ۔۔۔۔ اٹس ناٹ لائک دیٹ ۔۔۔۔ آپ پلیز بتائیں ۔۔۔ہو سکتا ہے میں کچھ مدد کر سکوں آپ کی “ولید نے اپنی خدمات پیش کیں ۔
“اس کے معاملے میں کوئی میری مدد نہیں کر سکتا سر “پتا نہیں کیسے وہ یہ بات لکھ گئی ۔
“کون ہے وہ ؟؟؟ آئ ول ہیلپ یو مس زجاجہ ۔۔۔ اف یو وانٹ تو شیئر دین گو آ ہیڈ پلیز ” وہ ولید حسن تھا جو اپنے سٹاف کو ایک حد تک رکھنے کا قائل تھا لیکن آج اسے واقعی زجاجہ سے ہمدردی محسوس ہو رہی تھی ۔
“وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ ہیں سر ” زجاجہ کا میسج بم بن کر اس کے اعصاب پر پھٹا تھا ۔
———————
قسط 4۔
وہ زجاجہ سے اس جواب کی توقع نہیں کر رہا تھا ۔۔۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ زجاجہ اس کا نام لے گی ۔۔۔ وہ مخلوط تعلیمی نظام سے پڑھ کر نکلا تھا ۔۔۔۔ جہاں لڑکے لڑکیوں کی دوستی عام بات تھی لیکن ولید p حسن ان چیزوں سے دور رہا تھا ۔۔۔ اپنی پرکشش شخصیت کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں نے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا مگر جلد ہی اس کے رویے سے بیزار ہو کر پیچھے ہٹ گئی تھیں۔۔۔۔ اس کے لئے حیرانگی کی بات یہ نہیں تھی کہ کسی لڑکی نے اس کے لئے ایسا محسوس کیا تھا بلکہ وہ حیران اس لئے تھا کہ اظہار کرنے والی زجاجہ سکندر تھی ۔۔۔ وہ کچھ دیر موبائل کو ہاتھ میں لئے بیٹھا رہا پھر کچھ سوچ کر میسج ٹائپ کرنے لگا ۔۔۔۔
“میں جانتا ہوں میرا جواب تمہیں ہرٹ کرے گا لیکن میرے پاس اس کے علاوہ کوئی جواب ہے بھی نہیں زجاجہ سکندر “اس نے سوچا اور میسج بھیج دیا ۔
دوسری طرف زجاجہ اپنے اظہار کے بعد حیران تھی کہ یہ اس نے کیا کر دیا اور کیسے کر دیا ۔۔۔۔ وہ کسی صورت بھی ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اب ایک کمزور لمحہ اس کی زندگی میں آ کے گزر چکا تھا ۔۔۔۔
“کیا سوچیں گے وہ کہ کس طرح کی لڑکی ہوں میں ۔۔۔۔ جس کا کوئی وقار نہیں ۔۔۔ کوئی پندار نہیں ۔۔۔۔ کیا کروں اب ۔۔۔ کہتی ہوں میں مذاق کر رہی تھی ۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔ ہاں یہ ٹھیک رہے گا ” اس نے میسج کرنے کے لئے موبائل اٹھایا ہی تھا کہ ولید کا میسج آ گیا ۔۔
“مس زجاجہ اگر آپ میرے لئے ایسی فیلنگز رکھتی ہیں تو میں قدر کرتا ہوں آپ کے جذبات کی ۔۔۔۔ کیونکہ اس کے علاوہ میں کچھ کر بھی نہیں سکتا ۔۔۔۔ آئ ریسپیکٹ یو ۔۔۔۔ تھینکس آپ نے مجھے اس قابل سمجھا۔۔۔ بائے”
“تو زجاجہ سکندر تمہیں ٹھکرا دیا گیا ۔۔۔۔ تمہارے جذبوں کی سچائی سمیت۔۔۔۔ ” اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے “ابھی تو دل پوری طرح دھڑکا بھی نہیں تھا آپ کے نام پہ ۔۔۔ اور آپ نے۔۔۔۔۔ اچھا ہی ہوا آغاز سفر میں ہی یہ راز بھی کھل گیا ۔۔۔۔ پتا نہیں کیا ہوتا آگے چل کر “اس نے خود کو تسلی دی ۔۔۔۔ لیکن آنکھیں اس کی تسلی کو قبول نہیں کر رہی تھیں ۔۔۔۔ روتے روتے پتا نہیں کس پہر اس کی آنکھ لگ گئی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح معمول کے مطابق اس کی آنکھ فجر کی اذان کے ساتھ ہی کھل گئی ۔۔۔۔ سر کچھ بھاری سا محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ اس نے اٹھ کر وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔
“یا اللہ میری مدد فرما ۔۔۔اسے میرے دل سے نکال دے یا اسے میرے لئے آسان کر دے ۔۔۔۔ میرے مالک میں بہت کمزور ثابت ہوئی ولید حسن کے معاملے میں ۔۔۔۔ مجھ پر رحم کر ” اس نے کائنات کے خالق کے سامنے اپنی عرضی رکھی اور پرسکون ہو گئی ۔۔۔۔
سکول پہنچ کر اس کا دھیان بٹ گیا ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے اس کا موڈ بھی تھوڑا بہتر ہو گیا تھا ۔۔۔۔ وہ ہاف ٹائم بریک میں سٹاف روم میں بیٹھی بیا سے بات کر رہی تھی کہ ماریہ نے زور دار انٹری دی۔۔
“بریکنگ نیوز ہے لیڈیز ۔۔۔۔ سٹاف ٹرپ جا رہا ہے ۔۔۔۔ یہ مجھے بھی نہیں پتا کب اور کہاں ”
“تو نیوز بریک کرنے کی کیا ضرورت تھی پھر ” مس افشاں نے کہا
“لو جی ۔۔۔۔ایک تو خبر دی اوپر سے غصہ ۔۔۔ نیکی کا تو دور ہی گزر گیا ” اس نے مصنوعی ناراضگی کا اظہار کیا ۔
“صحیح بتاؤ نا ماریہ ۔۔۔۔ سچ میں ٹرپ جا رہا ہے کیا ؟؟” زجاجہ نے پوچھا
“یس سویٹ ہارٹ ۔۔۔ اندر کے بندے نے بتایا ہے کہ ولید سر ٹرپ پلان کر رہے ہیں بہت جلد ”
“ہمم ۔۔۔۔ چلو دیکھتے ہیں کتنا جلد ” مس آسیہ نے جواب دیا ۔۔۔۔ “میم تو جائیں گی نہیں اور سر بولیں گے مس میں کیا کروں گا جا کے ۔۔۔۔ تو پیچھے رہ گئے ہم لوگ ۔۔۔ تو کیا مزہ آنا ”
“سب جائیں گے ۔۔۔ ایک بار ڈیٹ کنفرم ہونے دیں ” زجاجہ کے لبوں پہ انوکھی سی مسکراہٹ آ گئی ۔۔۔۔ پتا نہیں وہ کیا سوچ رہی تھی ۔۔۔
“بیا وہ کہتے ہیں کہ وہ میرے جذبات کی قدر کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے میرے لئے ” وہ بیا کو پوری بات بتاتے ہوئے بولی
“یہ بھی ان کی اچھائ ہے زجی ۔۔۔۔ ورنہ لوگ تو فائدہ اٹھاتے ہیں کسی کی فیلنگز کا ۔۔۔۔ اور کچھ عرصہ بعد چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ تمہیں اب سب کچھ برا لگ رہا ہے ۔۔۔ سوچو اگر وہ جھوٹ کہتے اور کچھ ٹائم بعد تمہیں حقیقت پتا چلتی تب تم کیا کرتی ” بیا نے اسے تصویر کا دوسرا رخ دکھایا ۔۔
“ہمم ۔۔۔ یو آر رائٹ ۔۔۔ لیکن میں اس بندے سے دستبردار بھی نہیں ہو سکتی بیا ۔۔۔ بہت جلد وہ بہت دور تک بس گیا ہے مجھ میں ” وہ بےبسی سے بولی تو بیا محض دیکھ کر رہ گئی ۔۔۔۔۔
_؛؛—————؛– ؛-
“جمشید بھائی آپ نے میرے بیٹے کو مزید مصروف کر دیا ہے ” مسز درانی نے بھائی سے شکوہ کیا ۔۔۔ “رات تک بزی رہتا ہے ۔۔۔ نہ کھانے کا ہوش نہ نیند کا خیال ”
“اوہو آصفہ عمر ہے اس کی کام کرنے کی ۔۔۔۔اور پھر ایک کلاس ہی لیتا ہے وہ ادھر ۔۔۔ زیادہ بوجھ نہیں ہے اس پر ۔۔۔۔ تم پریشان مت ہو ۔۔۔۔ ” جمشید صاحب نے بہن کو تسلی دیتے ہوئے کہا “ویسے ہیں کدھر برخوددار ۔۔۔۔آج تو چھٹی ہے ۔۔۔۔آج بھی نظر نہیں آ رہا ”
“نقاش کے ساتھ گیا ہے ۔۔۔ وہ آیا تھا صبح ۔۔۔کہہ رہا تھا کسی سے ملنے جانا ہے ” وہ بتا ہی رہی تھیں کہ ولید اور نقاش داخل ہوئے ۔
“السلام علیکم گھر والو ” یہ نقاش تھا ۔۔۔۔ بلا کا شوخ مزاج ۔۔۔۔ نقاش آصفہ کی نند کا بیٹا تھا اور ولید کا بیسٹ فرینڈ تھا ۔۔۔۔ ولید کا فارغ وقت زیادہ تر اسی کے ساتھ گزرتا تھا ۔۔۔۔
“اہاں ۔۔۔پروفیسر انکل آئے ہیں ۔۔۔۔ مطلب میں بھاگوں ادھر سے ” اس نے جمشید صاحب کو دیکھتے ہی چٹکلہ چھوڑا
“ارے استاد ۔۔۔۔ ہم آپ کے شاگرد ہیں ۔۔۔آپ کیوں بھاگنے لگے بھلا ” انہوں نے بھی جوابی حملہ کیا تو نقاش زور دار قہقہہ لگاتا ہوا ان کے پاس ہی بیٹھ گیا ۔
“مما چائے کی بہت طلب ہو رہی ہے ۔۔۔پلیز اچھی سی چائے پلوا دیں ” ولید نے شرٹ کے بازو فولڈ کرتے ہوئے کہا ۔
“ارے صاحب کوئی چائے بنانے والی لے آؤ اب ۔۔۔ جو تمہاری ماں کو بھی چائے بنا کے پلائے اور تمہیں بھی ” جمشید ماموں نے دوسری طرف اشارہ کیا ۔۔
“ولید حسن اور لڑکی ۔؟؟؟؟ نو وے انکل ” نقاش نے اپنے الفاظ کو لمبا کھینچتے ہوئے کہا تو ولید نے اسے گھورا ۔۔
“کیوں بھئی ۔۔۔ ہینڈسم ہو ۔۔۔پڑھے لکھے ہو ۔۔۔ویل سیٹلڈ ہو ۔۔۔۔ کبھی کوئی لڑکی نہیں آئ تمہاری زندگی میں کیا ” جمشید صاحب نے بھانجے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ سر کھجانے لگا
“اس نے آنے ہی نہیں دی ” نقاش نے وجہ بیان کی ۔
“بکو مت ۔۔۔۔ ” ولید نے اسے چپ کروایا “ایسے ہی مارتا ہے یہ ۔۔۔ کبھی کوئی ایسا اتفاق نہیں ہوا ماموں ”
“چلو ۔۔ہم خود ڈھونڈ لیتے ہیں کوئی ۔۔۔کیوں بھئی آصفہ ۔۔۔ کیا خیال ہے پھر ۔۔شادی کروائیں تمہارے بیٹے کی “انہوں نے بہن سے پوچھا
“میں تو خود یہی چاہتی ہوں بھائی ۔۔۔یہ مانے تب نا ۔۔۔نہ خود کوئی لڑکی بتاتا ہے نہ مجھے کوئی دیکھنے دیتا ہے ” انہیں نے شکوہ بھری نظروں سے بیٹے کو دیکھا ۔۔ “ہر بار کوئی نیا بہانہ بنا لیتا ہے ”
“اب کرے تو سہی کوئی بہانہ ۔۔۔بس تم لڑکی دیکھو کوئی ” جمشید صاحب نے گویا فیصلہ سنایا ۔۔۔
ولید نے حیران ہو کر ماموں کی طرف دیکھا جبکہ نقاش اس کو انگوٹھا دکھا کر منہ چڑانے لگا ۔۔۔۔ ولید نے مسکرا کر چائے کا کپ اٹھا لیا ۔
———–_؛؛؛؛
“سلطان سر میم کدھر ہیں ” زجاجہ نے میم کے آفس سے نکلتے ہوئے میم کے پی – اے سلطان سر سے پوچھا
“میم تو آج چھٹی پر ہیں بیٹا ۔۔۔۔ ” انہوں نے نرمی سے جواب دیا “کوئی کام ہے آپ کو ”
“آج میرا پیپر ہے ۔۔۔۔ میں نے جلدی جانا ہے ۔۔۔چھٹی چاہئے تھی ۔۔۔۔ لیکن اب کیا ہو گا میم تو ہیں ہی نہیں” وہ پریشاں ہوتے ہوۓ بولی
“آپ ولید صاحب سے بات کر لیں۔۔۔ وہ بیٹھے ہوئے ہیں ” سلطان سر نے اسے حل بتایا ۔
وہ “جی بہتر ” کہہ کر آگے بڑھ گئی ۔۔۔۔۔ وہ ولید کے سامنے نہیں جانا چاہتی تھی لیکن چھٹی لینا بھی ضروری تھا سو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس کے آفس کے باہر کھڑی تھی ۔۔
“مے آئ کم ان سر ” اس نے اجازت مانگی ۔
“یس پلیز” ولید نے بغیر دیکھے کہا ۔
وہ اندر آ گئی ۔۔۔ “سر مجھے آج ہاف ٹائم کی لیو چاہئے ۔۔ میرا پیپر ھے ۔۔۔ ” اس نے اپنے آنے کا مقصد بتایا ۔
ولید نے چونک کر سر اٹھایا ۔۔۔۔ زجاجہ نے نظریں جھکا لیں ۔۔
“جی مس ضرور ۔۔۔۔ آپ application چھوڑ جائیں ” ولید نے اسے طریقہ بتایا ۔۔
وہ تھینکس کہتے ہوئے جانے کے لیے مڑی تو ولید نے آواز دی ۔۔
“مس زجاجہ ” زجاجہ کا دل زور سے دھڑکا ۔۔۔ وہ رک گئی۔
“جی سر ” ۔۔۔۔۔۔ اس نے ولید کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔
“میرے سائن کڑکروا لیجئے گا application پہ” اس نے زجاجہ کی طرف دیکھے بغیر کہا تو زجاجہ کا سانس بحال ہوا ۔۔۔۔ وہ “یس سر ” کہتی باہر نکل آئ ۔
“انہوں نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی بیا ۔۔۔ نہ مجھے محسوس ہونے دیا ” وہ بیا کو آج کی روداد سناتے ہوئے بولی ۔” وہ سچ میں بہت اچھے ہیں یار ”
بیا نے اس کی طرف دیکھا تو اسے زجاجہ کی آنکھوں میں انوکھی سی چمک دکھائی دی ۔۔۔۔
“میں مانتی ہوں زجی یہ سب اختیار میں نہیں ہوتا لیکن پھر بھی اتنی آگے مت جانا کہ واپسی ممکن نہ رہے وہ بھی اس صورت میں جب تم اس راستے پر اکیلی ہو ” بیا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
“واپسی تو اب بھی ممکن نہیں رہی بیا ۔۔۔۔ میں دیوانی ہوتی جا رہی ہوں اس شخص کی ۔۔۔۔ اس کی ہر بات کی ” زجاجہ کسی اور دنیا میں پہنچ چکی تھی ۔
“حالانکہ تم جانتی ہو کہ وہ بندہ تمہیں کچھ نہیں دے سکتا ۔۔۔۔ محبت کے دو لفظ بھی نہیں”
“مجھے ان سے کچھ چاہئے بھی نہیں بیا ۔۔۔۔۔ میری کوئی طلب نہیں ۔۔۔۔ میں تو بس وہ کر رہی ہوں جو کرنا چاہتی ہوں ” اس نے بیا کی بات کا جواب دیا ۔
اس سے پہلے کہ بیا کچھ کہتی اسے حیدر اور ثنا آتے دکھائی دیے تو اسے خاموش ہونا پڑا ۔۔۔۔
——-؛———-؛؛—؛
ولید حسن اس کی ایک نظر کو محسوس کرتا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن خاموش تھا ۔۔۔۔۔ اس دن کے بعد اسے زجاجہ کا کوئی میسج نہ آیا ۔۔۔۔۔۔ وہ بہت خاموشی سے اس کو چاہے جا رہی تھی ۔۔۔ اور یہ بات ولید بھی جانتا تھا ۔۔۔۔ اپنی طرف اٹھنے والی زجاجہ کی ہر نظر میں ولید کو ریسپیکٹ اور محبت محسوس ہوتی تھی ۔۔۔۔۔ لیکن وہ اپنے مزاج سے مجبور تھا ۔۔۔۔ویسے بھی وہ زجاجہ کے لئے ایسے کوئی جذبات نہیں رکھتا تھا جن کی بنیاد پر وہ اس کا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ کا یقین دلاتا ۔۔
آج صبح سے ہی موسم ابر آلود تھا ۔۔۔۔۔ ایسا لگتا تھا آج آسمان کھل کے برسے گا ۔۔۔۔وہ سکول سے یونی پہنچی تو بوندا باندی شروع ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔ سر سہیل کی کلاس لے کے نکلی ہی تھی کہ حیدر کا میسج آیا “ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی طرف آؤ “۔۔۔۔۔ اس نے بیا اور ثنا کو بتایا اور تینوں انگلش ڈیپارٹمنٹ کی طرف چل پڑیں ۔۔۔۔۔۔ وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ دونوں ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹس مل کر موسم celebrate کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ دونوں ڈیپارٹمنٹ آمنے سامنے تھے ۔۔۔۔۔ دوسری طرف اگلی نشستوں پر پروفیسر جمشید کے ساتھ ولید حسن بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔ نیوی بلو شرٹ اور آف وائٹ پینٹ پہنے پروفیسر طارق کی کسی بات پر ہلکے سے مسکراتے ہوئے وہ اس خوبصورت موسم کا حصہ ہی لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ زجاجہ نے نظر بھر کر ولید کو دیکھا اور “ماشاءاللہ ” کہا جو پاس بیٹھی بیا نے بھی سنا مگر کچھ نہ بولی ۔۔۔۔۔
انگلش ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے فرسٹ سمسٹر کا حسان گانا سنانے کے لئے میدان میں اترا تو سب نے خوب ہوٹنگ کی ۔۔۔۔ حسان نے آنکھیں بند کر کے پورے جذب کے ساتھ گانا شروع کیا
“رات یوں دل میں تیری بھولی ہوئی یاد آئ
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحرا میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے ”
اس نے سانس لینے کا وقفہ کیا تو ایک بار پھر شور مچ گیا ۔۔۔۔
” آپ بیٹھے ہیں بالن پہ میری
موت کا زور چلتا نہیں ھے ”
زجاجہ نے دیکھا ولید حسن پورا اس گانے میں کھویا ہوا ھے ۔۔۔۔۔ ارد گرد سے بے نیاز وہ کسی اور دنیا میں تھا ۔ زجاجہ کو اسے دیکھنا اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
“کیا سنبھالو گے تم میرے دل کو
جب یہ آنچل سنبھلتا نہیں ہے ”
حسان کی آواز نے سننے والوں پر سحر طاری کر دیا تھا ۔۔۔۔ زجاجہ کو لگ رہا تھا کہ ایک ایک لفظ اس کے جذبات کی ترجمانی کر رہا ھے
“میرے نالوں کی سن کر زبانیں
ہو گئیں موم کتنی چٹانیں ”
زجاجہ نے ولید حسن کی طرف دیکھا
“میں نے پگھلا دیا پتھروں کو
اک تیرا دل پگھلتا نہیں ھے ”
زجاجہ کی آنکھیں بھر آئیں ۔۔۔۔۔ عین اسی وقت ولید کی نظر زجاجہ پر پڑی تو وہ اسی کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔ زجاجہ نے آنکھیں جھکا لیں لیکن وہ اس کی آنکھوں کی نمی دیکھ چکا تھا ۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...