جس وقت علی فرزانہ کے دفتر میں گیا، اس وقت دوپہر ہونے والی تھی۔ فرزانہ صبح سے ہی اس کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ جیسے ہی اسے علی کی آمد کے بار ے میں پتہ چلا وہ سراپا مسرت ہو گئی۔ وہ اسے خود لے کر اپنے آفس آئی۔
’’بہت اچھا آفس ہے تمہارا۔‘‘ علی نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے تبصرہ کیا۔
’’یہ آفس مزید اچھا ہو سکتا ہے؟‘‘ فرزانہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’فرزانہ۔۔۔ آفس سجانے سے کچھ نہیں ہوتا، اصل شے تو کام ہوتا ہے نا، اور میں اعتراف کرتا ہوں رکہ تم میرے کام آئی ہو۔‘‘ علی نے کہا اور خاموش ہو گیا۔ تبھی اگلے ہی لمحے وہ یوں بولا جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو۔ ’’میں نے کل تمہیں کہا تھا نا کہ تم میری محسن ہو تو وہ میں نے ٹھیک کہا تھا۔‘‘
’’دیکھو علی۔۔۔ یہ جو خدمت خلق کی مصروفیت میں نے اپنائی ہے تو یہ یونہی نہیں ہو گیا، کوئی قوت ہے جو مجھ سے یہ سب کروا رہی ہے۔ ممکن ہے یہ تم ہو یا تمہارا عشق۔‘‘
’’عشق۔۔۔‘‘ علی دھیرے سے مسکرایا۔ ’’کیا تم ابھی تک وہیں کھڑی ہو۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ اس سے بہت آگے نکل چکی ہوں۔ اتنا آگے کہ تیرے نقش قدم میں نے تلاش کر لئے ہیں علی۔ اب میں اسی راہ پر ہوں، جس پر تم چل رہے ہو۔ کل تک مجھے احساس تھا کہ تم کھو جاؤ گے، شاید میں پھر دوبارہ کبھی پا نہیں سکوں گی لیکن آج میری سوچ بدل چکی ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ سانس لینے کو رکی، علی خاموش رہا تو وہ کہتی چلی گئی۔ ’’اب مجھے تمہارے کھو جانے کا ڈر نہیں رہا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان کا وجود ہو تو ہی اس سے عشق کیا جاتا ہے۔ عشق تو احساس کا نام ہے۔ میں اعتراف کرتی ہوں کہ میں کبھی انا، ضد اور غرور کے منفی جذبوں کے تحت سوچتی تھی لیکن آج نہیں۔ علی۔۔۔ تم اگر میرے عشق کو قبول نہ بھی کرو تو مجھے کوئی دکھ نہیں ہو گا۔ اور تم چاہو بھی تو مجھے میرے عشق سے باز نہیں رکھ سکتے ہو۔‘‘ فرزانہ یہ سب کہتے ہوئے بہت جذباتی ہو گئی تھی۔ تب علی نے تحمل سے کہا۔
’’تم ایک ہی سانس میں بہت کچھ کہہ گئی ہو فرزانہ۔۔۔ لیکن ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔ تمہارے میرے درمیان اسٹیٹس۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ چونک گیا۔ یوں جیسے کسی نے اسے جھڑک دیا ہو۔ وہ ایک لمحے میں اس کی طرف یوں دیکھنے لگا جیسے اس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ گئے ہوں۔ اس پر فرزانہ مسکرا دی۔
’’میں ہزار دلیلیں دے سکتی ہوں، تیرے اور میرے درمیان اسٹیٹس کی بات پر لیکن نہیں، تمہیں جواب مل چکا ہے۔ میرے خیال میں اب مجھے کچھ نہیں کہنا۔‘‘ اس نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا توعلی کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
’’میں نے یوں سوچا ہی نہیں تھا۔ میری غلطی تھی۔ اللہ مجھے معاف فرمائے۔ تم ٹھیک ہو۔ میں اپنے محسن کی کسی بات سے انکار نہیں کر سکتا۔‘‘
’’فقط محسن ہونا ہی۔۔۔؟‘‘ فرزانہ نے پوچھا۔
’’نہیں۔۔۔ میں مانتا ہوں کہ تم کیا کہنا چاہ رہی ہو۔ یہ بھی سن لو کہ میں کس لئے خاموش ہو گیا ہوں۔‘‘ علی نے کہا تو فرزانہ سراپا تجسس بن گئی۔ تب علی نے کہا۔ ’’معبود کی پرستش اور عبادت میں فرق ہوتا ہے،۔ فقط اللہ کو اپنی عبادت ہی مقصود نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے محبوب نبی ﷺ کے طریقے کو بھی فروغ ملے۔ میں غلط تھا کہ میں نے تمہارے بارے میں ہمیشہ سنت ﷺ کے معیار کو نہیں سوچا۔ بلکہ دنیا ہی کے معیار کو مدنظر رکھا۔ اب تیرے اور میرے تعلق میں دنیا تو حائل نہیں ہے۔ معیار کچھ اور ہے۔ تمہاری تمام تر کوششیں قبول ہو گئی ہیں تومیں کون ہوتا ہوں انہیں قبول نہ کرنے والا۔ فرزانہ جیسا تم چاہو، ویسا ہی ہو گا۔‘‘ علی نے واضح لفظوں میں اسے اپنا عندیہ دے دیا جس پر اس نے گہری سنجیدگی سے کہا۔
’’احترام اور چاہت میں بہت فرق ہوتاہے، وہی فرق جو پرستش اور عبادت میں ہوتا ہے۔ میں چاہوں گی کہ تم اپنے پورے من سے قبول کرو۔ اس کے لئے چاہیں صدیاں لگ جائیں۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرا عشق یونہی پربہار رہے گا۔‘‘ لفظ فرزانہ کے منہ ہی میں تھے کو دو عورتوں کی رہنمائی میں مہرو وہاں آ گئی۔ وہ علی کو وہاں دیکھ کر خوشگوار حیرت میں ڈوب گئی۔ پھر بولی۔
’’علی سائیں تم۔۔۔ میں نے تو پہچانا ہی نہیں تھا۔‘‘
’’آپ بیٹھو مہرو۔‘‘ علی نے کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیا۔ وہ ساتھ ہی کرسی پر بیٹھ گیا اور پھر بڑی گہری سنجیدگی سے بولی۔
’’علی سائیں۔۔۔ تمہیں پتہ ہے، رات ختم ہو رہی ہے، اندھیرا دور ہو رہا ہے۔ ظلم کی جو آندھی اٹھی ہوئی تھی اس کا زور ٹوٹ گیا ہے۔‘‘
’’مہرو، کیسی باتیں کر رہی ہو۔‘‘ فرزانہ نے پوچھا۔
’’میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ اب ٹھنڈی ہوا چلے گی۔ لوگ سکون سے سوئیں گے۔ پیٹ بھرے گا تو وہ پیٹ سے نہیں، دماغ سے، دل سے سوچیں گے۔ میرے سانول کا خون رنگ لے آیا ہے، اس کے خون سے بہار آئے گی۔ اندھیرا دور ہو گیا ہے علی سائیں۔۔۔‘‘ مہرو نے یوں کہا جیسے وہ اپنی بات منوانا چاہ ہو۔ علی کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ بہت گہری بات کر رہی ہو۔ تبھی علی مراقبے میں چلا گیا۔ چند لمحے یونہی گزر گئے تو وہ چونکتے ہوئے بولا۔
’’حامد کہاں ہے اس وقت، یہاں کا کوئی بندہ روہی میں ہے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ کچھ لوگ گئے تو ہیں۔ میں نے سامان بھیجا تھا۔‘‘ فرزانہ نے کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
’’فون کرو۔۔۔ ان سے میری بات کراؤ۔‘‘ علی نے دھیرے سے کہا۔
’’میں جو کہہ رہی ہوں علی سائیں، مجھ پر یقین نہیں ہے۔‘‘ مہرو نے اسی سنجیدگی سے کہا۔
’’ہے، میں سمجھ رہا ہوں کہ تم کیا کہہ رہی ہو لیکن پوری صورتحال بھی تو معلوم ہونی چاہیے۔‘‘ علی نے بہت ہی نرم لہجے میں کہا۔ فرزانہ فون کر رہی تھی۔ رابطہ ہو جانے پر اس نے پوچھا۔
’’حامد۔۔۔ کہاں پر ہو تم۔۔۔؟‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے دوسری طرف سے سنا اور بولی۔ ’’یہی بات دوبارہ کہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے فون سپیکر کھول دیا۔ حامد کہہ رہا تھا۔
’’میڈم۔۔۔ یہاں ایک بہت بڑا واقعہ ہو گیا ہے۔ ہم تو خیر نکل آئے ہیں۔‘‘
’’واقعہ کیا ہوا ہے۔‘‘ فرزانہ نے پوچھا۔
’’یہاں کے روحانی پیشوا ہیں نا سیدن شاہ، اس کے بیٹے کو کسی نے قتل کر دیا ہے۔وہ ائیرپورٹ سے حویلی جا رہا تھا کہ راستے میں ہلاک کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ چار اور لوگ بھی مارے گئے ہیں۔ سیدن شاہ کا ایک قریبی ملازم پیراں دتہ کو کچی بستی میں لا کر مارا گیا ہے۔ لوگ کسی رب نواز کا نام لے رہے ہیں۔ جس نے انہیں قتل کیا ہے۔‘‘ حامد نے ایک ہی سانس میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
’’قاتل پکڑا گیا ہے یا۔۔۔‘‘
’’بھاگ گیا ہے۔ اس کے ساتھ دو اور لوگ بھی تھے۔ یہ سارے اس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘
’’لوگوں کا تاثر کیا ہے؟‘‘ علی نے پوچھا۔
’’مجھے اتنا وقت نہیں مل سکا کہ میں لوگوں کے تاثر لوں، میں اپنے ساتھیوں سمیت وہاں سے نکل آیا ہوں۔ کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے تم آ جاؤ۔‘‘ فرزانہ نے کہا اور فون بند کر دیا۔ چند لمحے ان کے درمیان خاموشی رہی، پھر مہرو بولی۔
’’علی سائیں۔۔۔ سانول کا خون بول رہاہے نا۔ میرے سانول کا۔‘‘
اس کے یوں کہنے پر علی نے بہت غور سے مہرو کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر سکون کے دیے روشن تھے اور وہ مطمئن دکھائی دے رہی تھی۔ اسے قطعاً یہ دکھ نہیں تھا کہ اس کا بھائی یوں قتل و غارت کر رہاہے۔ علی نے آنکھیں بند کر کے خود کو پرسکون کرنا چاہا جبکہ فرزانہ کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔
’’علی۔۔۔مہرو نے جو کچھ بتایا ہے یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔یہ اس سے بھی پہلے بہت ساری باتیں کہہ چکی ہے۔‘‘ فرزانہ نے کہاتو علی نے ایک دم سے موضوع بدل دیا۔
’’مہرو۔۔۔ تم یہاں ٹھیک تو ہونا۔‘‘
’’ہاں، میں ٹھیک ہوں۔ اس مائی نے بہت خدمت کی ہے میری۔ میرا اللہ اسے اجر دے گا، میں سانول سے کہوں گی۔ وہ اس کے لئے بہت سارے تحفے لے کر آئے گا۔ یہ مائی بہت اچھی ہے۔‘‘ اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ اتنے میں ملازمین چاہئے اور لوازمات لے کر آ گئے۔ جب تک وہ میز بھرتے رہے، ان میں خاموشی رہی۔ جب وہ چلے گئے تو فرزانہ نے صوفے پر آ جانے کا اشارہ کیا۔
اس وقت وہ چائے پی رہے تھے۔ علی فطری طور پر خاموش ہو چکا تھا۔ وہ یہ اندازہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ احمد بخش اور درویش بابا پرکوئی مصیبت نہ آ جائے۔ وہ قدرے پریشان ہو گیا تھا۔ ایسے میں فرزانہ کا سیل فون بج اٹھا۔ اس نے سکرین دیکھی اور بولی۔
’’بابا سائیں کا فون ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے فون سنا۔ چند لمحے دوسری جانب سے سنتی رہی پھر بولی۔ ’’جی، بابا سائیں۔۔۔ میں ابھی آتی ہوں۔‘‘ اس نے فون بند کیا اور علی سے بولی۔
’’مجھے بابا سائیں نے فوراً بلایا ہے۔ وہاں کچھ لوگ بیٹھے ہیں۔‘‘
’’بس میں بھی چلتا ہوں۔ مہرو کی خیریت دریافت کر لی ہے۔‘‘ علی نے کہا اور اٹھ گیا۔ پھر مہرو کو واپس بھجوا کر دونوں آفس سے باہر آ گئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
سیدن شاہ حویلی کے ہال میں اپنے بیٹے کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے مریدین والے کمرے میں عورتیں اور مرد بھرے ہوئے تھے۔ حویلی کے اندر ایک طرح سے گہما گہمی تھی۔ ملازمین بھاگ دوڑ رہے تھے۔ ایسا ہمشہ ہوتا تھا کہ وہ اسی ہال کمرے میں اپنے خاندان کے افراد کا استقبال کرتا تھا۔ علاقے سے آئے ہوئے مریدن میں بے تحاشا لنگر تقسیم کیا جاتا تھا۔ وہ یہاں بھی کھاتے اور اپنے ساتھ بھی لے کر جاتے تھے۔ کچھ خاص مریدن اور احباب کو تحفے بھی دئیے جاتے تھے۔ یہ سب اس لئے کیا جاتا تھا کہ وہ ان کا صدقہ دیتا تھا۔ سیدن شاہ کاخیال تھا کہ یہ خیریت آمد پر ان کا صدقہ دینا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ علاقے میں یہ بتانا بھی مقصود ہوتا تھا کہ اس کا خاندان بھی عرس میں شامل ہے۔ کیونکہ اس کے بعد اس کی اکلوتی اولاد میں قاسم شاہ ہی تھا جس نے گدی نشین ہونا تھا۔ سب کچھ تیار تھا، باہر لنگر پک چکا تھا۔ جس کی اطلاع اسے ہو گئی تھی۔ تحفے تحاثف بھی لا کر رکھ دئیے گئے تھے لیکن ابھی تک قاسم شاہ نہیں پہنچا تھا۔ سیدن شاہ کو بے چینی ہونے لگی تھی۔ تب اس نے اپنے ایک ملازم کو بلا کر کہا۔
’’یہ ابھی تک پہنچے کیوں نہیں ہیں۔ اب تک نو انہیں آ جانا چاہیے تھا۔‘‘
’’پیر سائیں۔۔۔ ممکن ہے ان کا جہاز لیٹ ہو گیا ہو۔‘‘
’’پیر سائیں۔ میں نے معلوم کیا ہے، جہاز آ گیا ہے، وہ کہیں راستے میں ہیں۔ فوراً کسی کو بھیجو تاکہ وہ اسے لے آئیں۔‘‘
’’جیسے حکم پپر سائیں کا۔‘‘ وہ ملازم یہ کہتے ہوئے تقریباً بھاگنے والے انداز میں باہر کی جانب لپکا۔ اور ابھی چند لمحے بھی نہیں گزرے ہوں گے کہ حویلی پر یکدم خاموشی طاری ہو گئی۔ اتنی بھیانک خاموشی سیدن شاہ نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ وہ بے چین ہو گیا۔ تبھی وہی ملازم اندر آیا اور خاموشی سے اس کے سامنے آ کے کھڑا ہو گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو اور چہرے پر وحشت تھی۔
’’کیا ہوا۔۔۔ اس طرح کیوں آ کے کھڑے ہو گئے ہو۔‘‘ سیدن شاہ نے انتہائی غصے میں پوچھا۔
’’جی۔۔۔ جی۔۔۔ وہ۔۔۔‘‘ اس نے ہکلاتے ہوئے باہر کی سمت اشارہ کیا۔ سیدن شاہ کی چھٹی حس کسی انہونی کا اشارہ کر چکی تھی۔ وہ دھیرے سے اٹھا اور باہر کی جانب بڑھا۔ وہ باہر آیا تو سامنے کا منظر دیکھ کر ساکت رہ گیا۔ قاسم شاہ کی نعش کو لوگ چارپائی پر ڈال چکے تھے۔ خون میں لتھڑا ہوا قاسم شاہ کا وجود اس کے لئے کسی انہونی سے کم نہیں تھا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ لوگ اس کی چارپائی اٹھا کر سیدن شاہ کے پاس لے آئے اور سیدن شاہ حیرت زدہ نگاہوں سے اس حقیقت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہو رہا تھا۔
’’قاسم شاہ۔۔۔ بیٹا اٹھو۔۔۔ میں تو تمہارا انتظار کر رہا تھا، یہ دیکھو اتنے مریدین تمہارے استقبال کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ اٹھ۔۔۔‘‘ سیدن شاہ نے انتہائی دلدوز لہجے میں کہا تو اس طرح پھٹی پھٹی نگاہوں سے اس کی نعش کو دیکھے جا رہا تھا جیسے یہ سب خواب ہو۔ کتنی ہی دیر یونہی گزر گئی۔ تب مجمع چیرتا ہوا ایک شخص آیا اور سیدن شاہ سے کہا۔
’’پیر سائیں۔۔۔ چھوٹے سائیں کو رب نواز اور خان محمد کے لوگوں نے قتل کیا ہے۔‘‘
اس پر سیدن شاہ نے اسے یوں دیکھا جیسے وہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ بول رہا ہو۔ پھر انتہائی غضبناک لہجے میں پوچھا۔
’’پیراں دتہ کہاں ہے؟‘‘
’’سائیں۔۔۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے گئے تھے اور کچی بستی میں لے کر بے دردی سے قتل کر دیا ہے۔‘‘
اس شخص نے کہا تو سیدن شاہ نے اپنے بیٹے قاسم شاہ کے چہرے کی طرف دیکھا جس میں زندگی کے آثار نہیں تھے۔ خون میں لتھڑا ہوا بدن یہ حقیقت بیان کر رہاتھا کہ قاسم شاہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی ہے۔ سیدن شاہ کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی آنکھ میں ایک آنسو بھی نہیں ٹپکا۔ وہ خالی آنکھوں سے ایک ٹک قاسم شاہ کی طرف ہی دیکھتا چلا جا رہا تھا۔ کتنا وقت یونہی گزر گیا۔ پھر وہاں موجود لوگوں نے چارپائی اٹھائی اور اسے حویلی کے ہال میں لے گئے۔ اس کے ذاتی ملازموں نے سیدن شاہ کو پکڑا اور نعش کے قریب بٹھا دیا۔ حویلی میں کہرام مچا ہوا تھا۔ لوگ رو رہے تھے، چیخ رہے تھے۔ ان کے خیال میں ان کے پیر سائیں پر ظلم ہو گیا تھا لیکن سیدن شاہ سوچ رہا تھا کہ اسے کن گناہوں کی سزا ملی ہے۔ تبھی اس نے ہاتھ بلند کیا اور صرف ایک لفظ کہا۔
’’خاموش۔۔۔‘‘ اس کے یوں کہنے پرلوگ خاموش ہو گئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
سردار امین خان کی بے چینی اپنے عروج پر تھی۔ وہ ڈرائینگ روم میں ٹہل رہا تھا جبکہ احمد بخش ایک طرف ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ شاید ان میں کوئی بہت لمبی گفتگو ہو چکی تھی اس لئے خاموشی تھی۔ امین خان کی بے چینی اس کے ٹہلنے کے انداز سے معلوم ہو رہی تھی۔ وہ بار بار داخلی دروازے کی جانب دیکھ رہا تھا۔ پھر جیسے ہی فرزانہ ڈرائینگ روم میں داخل ہوئی تو وہ تیزی سے بولا۔
’’آؤ۔۔۔ آؤ بیٹی آؤ۔۔۔ ادھر بیٹھو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ صوفے پر بیٹھ گیا۔ جب وہ بھی اسی صوفے پر بیٹھ گئی تو وہ بولی۔
’’بابا سائیں، خیریت تو ہے نا، آپ اتنے گھبرائے ہوئے کیوں لگ رہے ہیں؟‘‘
’’بات ہی ایسی ہے بیٹا۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے فدا حسین کا فون آیا تھا۔‘‘ امین خان نے کہا۔
’’یہ فدا حسین کون ہے۔‘‘ فرزانہ نے پوچھا۔
’’وہ خان محمد کے خاص آدمیوں میں سے ایک ہے۔ میں انہی کی وجہ سے پریشان ہوں اور بہت پریشان ہوں۔‘‘ امین خان نے تفصیل بتائی اور بولا۔ ’’خان محمد قتل ہو گیا تھا اور اس کے لوگ یہی سمجھ رہے ہیں کہ میرا اس میں ہاتھ ہے، خیر۔۔۔ یہ سب سیاسی داؤ پیچ تھے جو آزمائے گئے تھے۔ جس کی وجہ سے انہوں نے میرے قتل کی دھمکیاں بھی مجھے دینے لگے۔‘‘
’’اب مسئلہ کیا ہے، کیا کہا ہے اس نے فون پر؟‘‘ فرزانہ نے سمجھتے ہوئے پوچھا۔
’’اس نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وہ سیدن شاہ کے بیٹے کو قتل کر چکے ہیں۔ انہوں نے سیدن شاہ کو بھی مارنے کا عزم کر رکھا ہے۔ وہ جو اتنے بڑے اور طاقتورکو مار سکتے ہیں۔ میں تو ان کے لئے آسان شکار ثابت ہوں گا۔ شہر کی بھیڑ میں وہ کسی وقت بھی کچھ کر سکتے ہیں۔‘‘ امین خان پریشانی میں کہتا چلا گیا۔
’’بابا سائیں۔۔۔ انسان جوبوتا ہے وہ تو اسے کاٹنا پڑتاہے۔ یہاں نہیں تو آخرت میں، جہاں تک سیدن شاہ کا معاملہ ہے۔ اس نے جس طرح کے ظلم کیے ہیں، جس طرح عوام کو دبا کر رکھا ہے، میں نہیں سمجھتی کہ آپ اس حد تک ظالم ہو سکتے ہیں۔‘‘
’’یہ نصیحتیں چھوڑو۔۔۔‘‘ امین خان نے درشتی سے کہا۔ ’’وہ بات سنو جس کے لئے میں نے تمہیں بلایا ہے۔‘‘
’’جی کہیں۔۔۔‘‘ فرزانہ ایک دم سے خاموش ہو گئی۔
’’ان حالات میں جبکہ دشمن کا وار کسی بھی وقت چل سکتا ہے۔ میں نے یہ سوچا ہے کہ کچھ دنوں کے لئے اسد کے پاس چلا جاؤں۔ ماحول بدلے گا تو ان سوچوں سے بھی جان چھوٹے گی لیکن پھر خیال آتا ہے کہ تم یہاں پر اکیلی رہ جاؤ گی۔ وہ اگر سیدن شاہ کے بیٹے کو قاسم شاہ کو مار سکتے ہیں توتمہیں بھی۔۔۔ اس لئے تم فوراً تیاری کرو، ہم آج رات ہی یہاں سے نکل رہے ہیں۔‘‘
’’بابا سائیں۔۔۔ میں کیسے جا سکتی ہوں اور میں نے ان لوگوں کاکیا بگاڑا ہے۔ جو وہ۔۔۔‘‘
’’مجھے بحث نہیں چاہیے، بس تم فوراً تیاری کرو۔ یہ اللہ بخش ہے نا یہاں پر، یہ سارے معاملات دیکھتا رہے گا، بیٹی۔۔۔ اگر زندگی ہے توسب کچھ ہے۔‘‘ امین خان نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں بابا سائیں۔۔۔ میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔‘‘ فرزانہ نے حتمی انداز میں کہا۔
’’ضد نہیں کرو۔۔۔ یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔‘‘ اس نے قدرے غصے میں کہا، پھر فوراً ہی نرم پڑتے ہوئے بولا۔ ’’میں نے پہلے یہی سوچا تھا کہ ان لوگوں کی دشمنی مجھ سے ہے تو وہ۔۔۔ خیر۔۔۔ یہ چھوڑ و وہ بچوں کو معاف نہیں کر رہے، اس لئے بیٹا، میری مانو اور تیاری کرو۔ مجھے اپنا پاسپورٹ دو۔ ہم نے آج رات یہاں سے ہر صورت میں نکلنا ہے۔‘‘
’’تو پھر بابا سائیں۔۔۔ آپ اپنے فیصلے پر قائم رہیں۔ مجھے یہاں رہنے دیں۔ آپ یقین رکھیں مجھے کچھ نہیں ہو گا۔ میں کم از کم ان کی گولی سے نہیں مروں گی، ویسے میری موت آ گئی تو وہ اللہ کے ہاتھ ہے۔ آپ جائیں۔‘‘
’’تم اتنی ضدی کیوں ہو؟‘‘ امین خان نے طیش میں آتے ہوئے کہا۔
’’بابا سائیں۔۔۔ میں نے کسی پر ظلم نہیں کیا اور نہ ہی کرنا چاہتی ہوں۔ مجھے کچھ نہیں ہوگا، آپ نے میری بات ہی نہیں سنی، اگر سن لیتے تو آپ کو باہر جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔‘‘ اس نے تحمل سے کہا۔
’’کہو۔۔۔ تم کہہ لو۔۔۔‘‘ وہ بے چارگی سے بولا۔
’’آپ آج بھی سیاسی زندگی میں ہونے والی کوتاہیوں کی توبہ کر لیں اور آئندہ ایسا کچھ نہ کرنے کا عہد کر لیں تو میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ آپ کو کچھ نہیں ہو گا۔‘‘
’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ تمہارا کوئی ان سے رابطہ ہوا ہے۔‘‘ امین خان نے تیزی سے پوچھا۔
’’ایساکچھ نہیں ہے بابا سائیں۔۔۔ آپ مجھ پربھروسہ کر کے دیکھیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ کہیں نہیں جائیں۔‘‘
’’تمہارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں سیاسی میدان خالی کر دوں اور ان لوگوں سے معافی مانگ کر زندگی کی بھیک مانگوں۔‘‘ امین خان نے حیرت سے کہا۔
’’میں آپ کو سیاسی میدان چھوڑنے کا نہیں کہہ رہی، خدمت کی سیاست بھی تو ہو سکتی ہے نا، باقی رہی معافی تلافی کی بات، آپ کو کچھ نہیں کرنا، سب میں کروں گی۔ انہیں آپ کے سامنے بٹھا دوں گی۔ جیسا بھی ہوگا، یہ سارا قصہ ختم ہو گا۔ آپ اپنی بیٹی پر بھروسہ کر کے دیکھیں۔‘‘
’’میں کچھ نہیں جانتا، تم کیا جانوں یہاں کے معاملات، بس تم مجھے اپنا پاسپورٹ دو۔ میں اللہ بخش کو بھیجوں۔ تاکہ شام تک ساری تیاری مکمل ہو جائے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میں پاسپورٹ دے دیتی ہوں۔‘‘ فرزانہ ،خان نے اٹھتے ہوئے کہا تو امین خان نے اطمینان کی گہری سانس لی۔ فرزانہ خان نے اپنے کمرے کی طرف رخ کیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ جب اس کے اور علی کے درمیان کوئی رکاوٹ حائل نہیں تھی اسے ہی منظر سے غائب ہو جانا پڑے گا۔ وہ اپنے کمرے میں گئی اور الماری سے اپنا پاسپورٹ اٹھایا۔ تب آنسو اس کے پلکوں تک آ گئے۔ شاید علی اس کی قسمت میں نہیں تھا۔ لیکن اگلے ہی لمحے اس کے ذہن میں خیال آیا۔
’’فرزانہ اس قدرمایوس کیوں۔۔۔؟ابھی کچھ دیر پہلے تم بڑی باتیں کر رہی تھی۔ اگر علی تمہارے مقدر میں ہوا تو وہ تمہیں ضرور ملے گا۔ نہیں ہے تو تم جو مرضی کر لو۔‘‘
اس نے اپنے پاسپورٹ کی طرف دیکھا اورپھر اپنی پلکیں صاف کیں۔ وہ فیصلہ کر چکی تھی کہ جو اس کے بابا سائیں چاہیں گے وہی ہو گا۔ وہ ڈرائینگ روم میں آ گئی اور پاسپورٹ امین کو دیتے ہوئے بولی۔
’’بابا سائیں۔۔۔ یہ لیں اور مجھے تھوڑی دیر کے لئے اجازت دے دیں، میں ایک ذمہ داری۔۔۔‘‘
’’نہیں بیٹی۔۔۔ تم نہیں جا سکتی ہو۔ جو کام بھی ہے، مجھے بتاؤ، وہ ہو جائے گا۔ بس تم شام تک تیار رہنا۔‘‘
امین خان نے کہا اور پاسپورٹ لے کر اللہ بخش کو دے دیا۔ تب فرزانہ نے ایک گہری سانس لی اور واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اس کے ذہن میں فقط ایک ہی بات تھی۔ وہ اگر چلی گئی تو مہرو کا کیا بنے گا۔ کوئی دوسرا شاید ہی اس کی حفاظت کر سکے۔
’’اسے علی نے ہی تمہیں سونپا تھا، تم اسے اپنی مجبوری بتاؤ اور مہرو اسے واپس کر دو۔‘‘ یہ خیال آتے ہی اس نے چند لمحے اس پرسوچا اور پھر علی کے نمبر ڈائل کرنے لگی۔ فون فائزہ نے اٹھایا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ لائن پر تھا۔ فرزانہ نے ساری تفصیل اسے بتائی اور اس سے مشورہ مانگا۔
’’تمہارا بہت شکریہ فرزانہ۔۔۔ تم نے مہرو کی اتنے دنوں تک حفاظت کی۔ اب میں یہاں ہوں وہ میرے گھر میں رہے گی۔‘‘ علی نے کہا تو فرزانہ کے اندر اچانک کچھ ٹوٹ گیا۔ اسے لگا تھا کہ مہرو کی بات کرتے ہوئے وہ اس کے جانے پرکوئی بات کہے گا۔ اسے روکنے کی کوشش کرے گا، کوئی حوصلہ دے گا، امید کی کوئی کرن دکھائے گا۔ لیکن ایسا اس نے کچھ نہیں کیا۔ تو وہ دھیرے سے بولی۔
’’ٹھیک ہے، جانے سے پہلے میں ایک بار مہرو سے ملنے کی کوشش ضرور کروں گی۔ ابھی میں اس کے پاس تو نہیں جا سکتی لیکن اسے اپنے پاس بلالوں گی، شام تک وہ میرے پاس رہے گی، میں تمہیں فون کروں گی، تم آ کر اسے لے جانا اور میں بھی۔۔۔ تمہیں دیکھ لو ں گی۔‘‘ آخری لفظ اس نے انتہائی جذباتی انداز میں تیزی سے کہے تھے۔
’’فرزانہ ۔۔۔ تم اللہ پر بھروسہ کیوں نہیں رکھتی ہو، حالات وہ نہیں ہیں جو دکھائی دے رہے ہیں۔ تم اطمینان رکھو، تم وہی کرو جو بابا سائیں کہتے ہیں باقی اللہ تمہاری حفاظت کرنے والا ہے۔‘‘ اس بار علی نے اسے حوصلہ دیا تو اس کی تسلی ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی شرمندگی کا احساس اس کے من میں در آیا۔ وہ کس قدرمایوس ہو گئی تھی۔
’’اچھا ٹھیک ہے، میرے ، فون کا انتظار کرنا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ اس نے وقت دیکھا، ظہر ہونے والی تھی۔ فرض کے ساتھ ساتھ اسے نفل بھی پڑھنا تھے۔ وہ ان لمحوں کاکفارہ ادا کرنا چاہ رہی تھی جو مایوسی کی حالت میں گزرے تھے۔
وہ فرض نماز اور نوافل ادا کر چکی تھی۔ ایسے لمحوں میں وہ خود کوبہت پرسکون محسوس کررہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ مہرو کو بلانے کے لئے کیسے کہے تاکہ وہ اسے یہا ں چھوڑ جائے کہ اس کی ملازمہ کمرے میں آئی اور بڑے ادب سے بولی۔
’’بی بی سئین۔۔۔ خان سائیں آپ کو یاد کر رہے ہیں کھانے پر۔‘‘
’’چلو، میں آتی ہوں۔‘‘ اس نے کہا اور پھر نیچے جانے کے لئے تیار ہو گئی۔
لنچ پر وہ دونوں باپ بیٹی ہی تھے اور ان کے درمیان خاموشی تھی۔ شاید کچھ دیر پہلے طویل بحث کے بعد ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا، یا پھر امین خان ہی اس قدر سوچوں میں گھرا ہوا تھا۔ لنچ سے فراغت کے بعد ابھی وہ میز پرہی بیٹھے ہوئے تھے کہ اللہ بخش کا فون آ گیا۔ امین خان چند لمحے سنتا رہا پھر فون بند کر کے پٹخ دیا۔
’’کیا ہوا بابا سائیں۔۔۔‘‘
’’میرا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ہے۔ تم جا سکتی ہو، میں نہیں۔‘‘
’’اور میں اپنے بابا سائیں کو یوں اکیلے چھوڑ کر کہاں جا سکتی ہوں۔‘‘ فرزانہ نے کہا تو امین خان نے انتہائی غصے میں اس کی طرف دیکھا اور میز پرسے یہ کہتے ہوئے اٹھ گیا۔
’’اب مجھے ہی کچھ کرنا ہو گا۔ دیکھتاہوں، کوئی کیاکرتا ہے۔‘‘
’’نہ بابا سائیں نہ۔۔۔ صبر کریں اور انتظار کریں۔ اللہ بہت بہتری کرے گا۔ بس آپ میری بات پر غور کریں۔ پورے دل سے میری بات مان کر دیکھیں۔‘‘ فرزانہ نے جذباتی اندازمیں انتہائی بے چارگی سے کہا تو امین خان نے غور سے اس کی طرف دیکھا اور پھر کچھ کہے بغیر اپنے کمرے کی طرف چل دیا تو وہ دھیرے سے مسکرا دی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
رات گہری ہو چکی تھی۔ لیکن چاندنی میں جنڈ کا درخت واضح دکھائی دے رہا تھا۔ جس کے عقب میں کچا مدرسہ پوری طرح روشن تھا۔ کھلے صحرا میں اکیلی عمارت بڑے روشن دکھائی دے رہی تھی۔ ایسے میں ایک جیپ مدرسے کے قریب آ کر رکی جس کی ہیڈ لائٹس بند تھیں۔ جیپ بند ہوتے ہی اس کا دروازہ کھلا اور اس میں سے رب نواز باہر آ گیا۔ پھر اس کے ساتھ وہی دو نوجوان باہر آ ئے جو دوپہر کے وقت اس کے ساتھ تھے۔ وہ تینوں بہت محتاط انداز میں مدرسے کے اندر چلے گئے۔ انہیں صرف ایک کمرے میں روشنی دکھائی دی تو وہ اس جانب بڑھ گئے۔ دروازے کے قریب جا کر رب نواز نے دھیرے سے آواز دی۔
’’علی۔۔۔‘‘
’’آ جاؤ۔۔۔ اندر آ جاؤ۔‘‘ اندر سے درویش بابا کی آواز آئی تو ان میں سے ایک باہرک کھڑا رہا اور دو اندر چلے گئے۔ دوریش بابا جائے نماز پر بیٹھے ہوئے تھے۔
’’ہمیں علی سے ملنا ہے۔‘‘ رب نواز نے کہا۔
’’وہ تو یہاں سے چلے گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے اطمینان سے کہا۔
’’چلے گئے، کب۔۔۔؟‘‘ رب نواز نے حیرت اور بے چارگی سے کہا۔
’’کافی دن ہو گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے اسی اطمینان سے جواب دیا۔
’’بابا جی۔۔۔ آ پ کو تو پتہ ہوگا، میں نے اپنی بہن۔۔۔‘‘ رب نواز نے کہنا چاہا تو درویش بابا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’رب نواز۔۔۔ مت گھبراؤ۔۔۔ وہ جہاں بھی ہے، بالکل محفوظ ہے۔ علی نے اسی دن اسے ایک محفوظ جگہ پر بھیجوا دیا تھا۔‘‘
’’کہاں ہے وہ محفوظ جگہ۔۔۔ دیکھیں بابا جی۔۔۔ میری زندگی کا کوئی اعتبار نہیں، میں بس آخری بار اپنی بہن سے مل لینا چاہتا ہوں۔ اللہ کے لئے۔۔۔‘‘
’’رب نواز۔۔۔ میں تمہاری حالت سمجھتا ہوں، سنو۔۔۔ علی نے اس دن اسے فرزانہ کے پاس بھجوا دیا تھا، جس نے یہ مدرسہ بنوایاہے، وہ شہر میں رہتی ہے۔‘‘
اس کا کوئی اتہ پتہ۔۔۔‘‘
’’تمہیں حیرت تو ہو گی، لیکن بتا دیتا ہوں۔ مگر اس سے پہلے ایک بات کہنا چاہوں گا۔ اپنے محسنوں کانقصان نہیں کرتے۔ اگر کوئی توبہ کر لے تو اللہ بھی اسے معاف کر دیتا ہے۔‘‘ درویش بابا نے گہری سنجیدگی سے کہا۔
’’میں آپ کی بات نہیں سمجھا؟‘‘
’’صبرکرو گے نا تو بہت کچھ سمجھ میں آ جائے گا۔ یہ بات اس نو جوان کے لئے بھی ہے۔‘‘ درویش بابا نے اس دوسرے نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ پھر لمحہ بھر کے توقف کے بعد بولا۔ ’’فرزانہ بیٹی شہر کے رئیس امین خان کی بیٹی ہے۔‘‘
’’سردار امین خان۔۔۔‘‘ دوسرا نوجوان چونک اٹھا۔ ’’بابا جی۔۔۔ وہ تو ہمارا دشمن ہے، اس نے ہی تو ہمارے خان سائیں کے خون پر سیاست کی ہے۔‘‘
’’جو کچھ بھی ہے۔ اگر تم لوگ صبر سے کام لو گے اور بہت سوچ کر قدم اٹھاؤ گے تو وہی تمہارے لئے بہتر ہو گا۔ مہرو بیٹی سے ملو، اس کے بعد کوئی فیصلہ کرنا۔‘‘
’’بابا جی۔۔۔ آپ کیاکہہ رہے ہیں۔‘‘ اس نوجوان نے کہا تو درویش بابا بولے۔
’’بہت سارے فیصلے ہو چکے ہوتے ہیں۔ جاؤہ جا کر مہر و بیٹی سے ملو۔۔۔ تمہاری سوچ بدل جائے گی۔ اگر ایسا نہ ہو سکتا تو میں نے بتاناہی نہیں تھا کہ مہرو بیٹی ہے کہاں پر۔ بار بار سمجھا رہا ہوں کہ صبر سے کام لینا۔‘‘ درویش بابا نے کہا تو وہ دونوں ہی سوچ میں پڑ گئے۔’’ا ب جاؤ۔ اس صحرا سے نکل جاؤ۔‘‘
انہوں نے کہا تو وہ دونوں اٹھ گئے۔ بابا جی نے آنکھیں بند کیں اوراپنی ہی دنیا میں ڈوب گئے۔ وہ تینوں مدرسے کے باہر آ گئے۔ جیپ میں بیٹھ جانے کے بعد ایک نوجوان نے پوچھا۔
’’اب کدھرجاناہے؟‘‘
’’سنا نہیں تھا، صحرا سے نکل جانے کو کہا گیا ہے۔ مہرو سے ملنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ فدا حسین سے ملتے ہیں۔ صبح ہونے تک شہر پہنچ جائیں گے۔‘‘ اس نوجوان نے کہا تو دوسرے نے جیپ کو گیئر لگا دیا۔ لمحہ بہ لمحہ وہ مدرسے سے دور ہوتے چلے گئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
قاسم شاہ کو دفن کیے تین دن ہو گئے تھے۔ لوگوں کا ایک ہجوم آ کر چلا گیا تھا۔ اس صبح سورج ابھی طلوع ہونے کو تھا۔ سیدن شاہ حویلی کے ہاتھ کمرے میں تنہا بیٹھا ہوا تھا۔ اس وقت ملازمین سارے ہی ادھر ادھر پھر رہے تھے لیکن اتنی بھیانک خاموشی حویلی پر طاری تھی کہ خوف آتا تھا۔ اکلوتے بیٹے کے قتل پر سیدن شاہ بری طرح ٹوٹ گیا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے ایف آئی آر بھی درج نہیں کروائی تھی۔ اپنے بیٹے کی نعش دیکھنے سے لے کر اب تک اس کی آنکھ سے آنسو نہیں بہا تھا۔ اور نہ ہی اسے نیند آئی تھی۔ کہتے ہیں کہ درندے آنسو نہیں بہایاکرتے۔ جس وقت ان آنکھوں سے آنسو بہہ جائیں تب ان کے اندر کی درندگی ختم ہو جاتی ہے۔ آنسو نہ بہانا ہی دراصل درندگی کی وجہ ہوتی ہے۔ وہ پوری طرح سوچ چکا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اس کی کہانی توختم ہو چکی تھی۔ ایک بے مایا اور بے اہمیت شخص کے ہاتھوں اس کے وارث کے قتل نے سیدن شاہ کی پوری زندگی کی حکومت اور دبدبے پر لکیر پھر دی تھی۔ اس سے بڑی ہار اور کیا ہو سکتی تھی۔ اس کے پاس بچا ہی کچھ نہیں تھا۔ وہ سیدن شاہ جس کے خوف سے پورا علاقہ تھرا جاتا تھا۔ اکلوتے بیٹے کا ماتم بھی پوری طرح نہیں کر پایا تھا۔ اس کی حویلی میں بہت آئے آئے تھے وہ پاگل نہیں تھا کہ دیکھ نہ سکے، کس کی آنکھ میں ہمدردی ہے بہت کم لوگ ایسے تھے، زیادہ تر اس کی بربادی کا تماشا دیکھنے آئے تھے۔ اسے احساس ہو گیا تھا کہ وہ ساری زندگی کیا کرتا ہے۔
’’پیر سائیں۔۔۔ باہر پولیس آئی ہے۔ ایک پولیس والا اپنا نام رفاقت باجوہ بتاتا ہے۔ وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔‘‘ حویلی کے ایک ملازم نے بڑے دھیمے سے انداز میں بتایاتو اس نے چونک کر اس کی طر ف دیکھا۔ پھربولا۔
’’ٹھہرو۔۔۔ میں ابھی آتا ہوں، پھر اسے بلانا۔‘‘ سیدن شاہ نے کہا اور اپنے کمرہ خاص میں چلا گیا۔ پھر تھوڑی دیر میں وہ واپس آ کر صوفے پر بیٹھے گیا اور ملازم سے کہا۔
’’جاؤ۔۔۔ اسے بلا لاؤ۔‘‘
ملازم پلٹ گیا اورسیدن شاہ اس کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی سی دیر کے بعد رفاقت باجوہ اندر داخل ہوا۔
’’مجھے معلوم تھا رفاقت باجوہ تم آنے والے ہو۔‘‘ سیدن شاہ نے سنجیدگی سے کہا۔
’’تو پھر۔۔۔ آپ آ رہے ہیں میرے ساتھ۔‘‘ رفاقت باجوہ نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’نہیں۔۔۔ مجھے گرفتار کرنے کا تمہارا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ میں اب اور ذلت برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ریوالور نکالا۔ ایک لمحے کو تو یوں لگا جیسے وہ رفاقت باجوہ پر گولی چلا د ے گا۔ وہ ابھی یہ سمجھ ہی نہ پایاتھا کہ سیدن شاہ نے اپنی کنپٹی پر نال رکھی اور ٹریگردبا دیا۔ سیدن شاہ نے خود کشی کر لی تھی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
فرزانہ خان کی لگژری جیپ روہی کی جانب رواں دواں تھی۔ جیسے ڈرائیور بہت محتاط انداز میں چلا رہا تھا۔ علی آگے بیٹھا ہوا تھا جبکہ پچھلی نشست پر فرزانہ اور مہرہ بیٹھی ہوئی تھیں۔ مدرسہ قریب آنے والا تھا۔ انہیں دور سے کچی بستی دکھائی دے رہی تھی۔ پھر جیسے ہی انہوں نے کچی بستی پار کی جنڈ کے درخت تلے صف بچھائے درویش بابا بیٹھے ہوئے تھے جیسے ہی وہ جیپ سے اترے، انہیں دیکھ کر درویش بابا کھڑے ہو گئے۔ ملنے ملانے کے دوران احمد بخش بھی مدرسے کے اندر سے آ گیا۔ وہ بھی ملا تو سبھی میاں جی کی قبر پر چلے گئے۔ فاتحہ پڑھنے کے بعد وہ صف پر ہی بیٹھ گئے۔ تبھی مہرو نے علی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اندھیرا چھٹ جانے کے بعد روشنی کتنی اچھی لگتی ہے۔ میرا سانول تو بہت خوش ہو گا۔‘‘
’’ہاں مہرو۔۔۔ وہ بہت خوش ہو گا۔‘‘
’’تو اب مجھے یہاں رہ کر کیا کرنا ہے۔ مجھے اپنے سانول کے پاس جانا چاہیے۔‘‘ اس نے کہا تو علی نے فوراً کہا۔
’’نہیں۔۔۔ ابھی نہیں جانا تم نے۔ جب اللہ چاہے گا نا، اس وقت جانا، ابھی تو تجھے بہت سارے کام کرنے ہیں۔ تم کہتی نہیں ہو کہ سانول کا خون رنگ لائے گا۔ بہار آئے گی تو وہ کیسے آئے گی۔ تم یہاں رہو گی نا تو تبھی دیکھ سکو گی بہار۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ یہاں بچے پڑھیں گے، انہیں پورے علاقے سے میں ہی تو لاؤں گی۔ تم ٹھیک کہتے ہو علی میں ابھی سانول سے کہہ دوں گی، میں نے ابھی نہیں آنا۔ کچھ دن بعد آؤں گی۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ ایسا ہی کرنا ہے۔‘‘ علی نے کہا تو وہ دھیرے سے مسکرا کر خاموش ہو گئی۔ تب علی نے درویش بابا سے پوچھا۔ ’’آپ کیسے ہیں؟‘‘
’’میں ٹھیک ہوں فقیر سائیں۔۔۔‘‘
’’اور احمد بخش تم۔‘‘ علی نے پوچھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔ ’’درویش بابا بتا رہے تھے کہ رب نواز ایک رات یہاں آیا تھا، اب کہاں ہے؟‘‘
’’اس نے سیدن شاہ کی خودکشی سے پہلے ہی خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کی وجہ سے پولیس اسے گرفتار کرنے آئی تھی۔ وہ اب جیل میں ہے۔‘‘ علی نے کہا تو مہرو بولی۔
’’اس نے سب کو معاف کر دیا ہے، میں نے اسے کہا تھا، اب اللہ اسے معاف کر دے گا۔‘‘
پھر کافی دیر یونہی باتوں کے بعد علی نے درویش بابا کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا۔
’’آپ نے مجھ سے اور میں نے آپ سے ایک بات کہنا تھی۔ میں آج وہی سننے کے لئے آیا ہوں۔‘‘
’’مجھے بھی انتظار تھا فقیر سائیں۔۔۔ پہلے میں کہتا ہوں، پھر آپ کہیے گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے فرزانہ کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’یہ حقیقت ہے کہ بہت سارے فیصلے آسمان پر ہوتے ہیں۔ ان میں انسان چاہے بھی تو دخل نہیں دے سکتا۔ لیکن یہ عشق ہے نا، جہاں بندے کو خود اپنے آپ بدلنے پر مجبور کرتا ہے، وہاں وہ اسے بھی بدل دیتا ہے جس سے وہ عشق کر رہاہو۔ فرزانہ نے تمہیں بدل دیا۔ یہ مانتے ہو نا فقیر سائیں۔‘‘
’’بے شک۔۔۔‘‘ علی نے اتنا ہی کہا تھا کہ وہ حیرت زدہ ہو گئی۔ ’’میں نے پہلے ہی اس کے سامنے اعتراف کر لیا تھا کہ تم میری محسن ہو۔ مجھے وہ عشق ملا، جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔‘‘
’’اب آپ کہیں۔‘‘ درویش بابا نے مسکراتے ہوئے کہا تو علی نے ایک لمحے کو سوچا اور پھر کہا۔
’’اس دنیا میں ہم کیا کرتے ہیں، عمل، وہ اچھا ہے یا برا، اور یہی شے آخرت میں جانانے والا۔ ہمارے اعمال ہی آخرت میں ہمارے ساتھ ہوں گے۔ تو درویش بابا جس کے اعمال قبول ہو گئے وہی سرخرو ہوا۔ اور عشق وہ تحریک ہے جو کسی عمل کو پورے خلوص سے مقبول بناتی ہے۔ بات محض قبولیت کی ہے۔ کسی کا ذرا سا عمل اللہ کو پسند آ گیا تو کامیاب ٹھہرا۔ کسی کی صدیوں کی ریاضت کو ایک جانب رکھ دےے والی ہے۔ عمل۔۔۔ جس کا عمل جو بھی ہے، جیسا بھی ہے وہی شمار ہو گا۔ یہ حقیقت ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ۔ تو عشق کیا ہوا درویش بابا۔۔۔‘‘
’’بلاشبہ عمل۔۔۔‘‘ درویش بابا نے کہا تو علی نے کہا۔
’’عشق کو غور سے دیکھیں، عشق کے عین کا مطلب، عمل ہے، جو کیا جاتا ہے، عشق کے شین کا مفہوم ہے شدت، یہ نہ ہو تو بندہ منافقت کی سرحدوں تک جا پہنچتا ہے اور عشق کے قاف کا معنی ہے، قبولیت۔‘‘
’’یعنی عمل میں پورے خلوص سے شدت ہو تو قبولیت ہوتی ہے۔‘‘ درویش بابا نے کہا تو علی مسکرا دیا اور پھر بولا۔
’’درویش بابا، گواہ رہنا، جس طرح میں نے فرزانہ کی محبت کو پوری شدت کے ساتھ قبول کیا، اسی طرح ہمارا مقصد بھی قبول ہو جائے۔ یہی ہماری نیت ہے۔‘‘
’’اللہ۔۔۔ بہترین قبول کرنے والا ہے۔‘‘ اس نے کہا اور شدت سے نعرہ لگایا۔ ’’حق اللہ۔۔۔ حق حق حق۔‘‘
وہاں موجود سب کو یہی لگا کہ یہ نعرہ پورے صحرا میں گونج گیا ہے۔
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...